پوسٹ تلاش کریں

آصفہ بھٹو اور مریم نواز کو چھوڑ دو،مظلومہ اُم رُباب دیکھ۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

آصفہ بھٹو اور مریم نواز کو چھوڑ دو،مظلومہ اُم رُباب دیکھ۔ سید عتیق الرحمن گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

دختر سندھ ، دختر پاکستان اور دختر انسانیت اُم رباب کے والد، دادا اور چاچا ایک ساتھ انتہائی بے دردی سے شہید کئے جاتے ہیں ۔ اُم رباب موبائل سے ویڈیو بناکر فیس بک پر چلادیتی ہے۔ اپنی آواز اقتدار کے بے حس ایوانوں تک پہنچانے کیلئے کبھی چیف جسٹس کی گاڑی کے سامنے بیٹھ کر اپنی فریاد پہنچاتی ہے اور کبھی ننگے پاؤں احتجاج کرکے انصاف کی بھیک مانگتی ہے لیکن وہ ابتک اصل مجرم کو پکڑنے تک چین سے نہیں بیٹھ رہی ہے۔ تین تین دفعہ وزیراعظم کا مزہ لینے والے اور نسل در نسل اقتدار میں رہنے والے مریم نواز اور آصفہ بھٹو اپوزیشن کے جلسوں میں عوام سے شکایت کرتے ہیں کہ انصاف کا نظام چاہیے۔ محمود اچکزئی کے کزن مجید اچکزئی نے کھلے عام سڑک پر ٹریفک پولیس کے غریب اہلکار کو کچل دیا، عدالت نے ثبوت نہ ملنے پر بری کردیا ، حالانکہ کیمرے کی آنکھ نے سارے میڈیا چینلوں پر دکھایا۔ ایک رینجرز اہلکار نے ڈکیٹ کو پکڑ کر غلطی سے گولی چلنے سے قتل کردیا تو اس کو عدالت نے نہیں چھوڑا۔ نظام اداروں کا نہیں بلکہ بااثر طبقات کا ہے۔سیاست پیسوں کے کھیل سے چلتی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کا بھائی PTCLسے DMGگروپ کا اسسٹنٹ کمشنر بن گیا۔ دھوکے ہی دھوکے کا سارا نظام ہے۔
عوام کا شعور پاک فوج نے نہیں سیاستدانوں اور صحافیوں نے بیدار کرنا تھا۔ پاک فوج کے جنرلوں سے لیکر سپاہیوں تک خود شعور نہیں رکھتے تو دوسروں کو کیا دیں گے؟۔ انگریز کی آمد سے پہلے ہمارے ہاں مغل بادشاہوں کی حکومت تھی جنہوں نے اپنی محبوبہ بیگمات کے نام پر تاج محل بنائے ہیں، اورنگزیب بادشاہ نے بھائیوں کوقتل کیا تھا اور فتاوی عالمگیریہ میں نامی گرامی علماء نے یہ اسلامی دستور بناکر دیا تھا کہ اگر بادشاہ قتل ، چوری ، زنا، ڈکیٹی ، زنا بالجبر کچھ بھی کرلے تو اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ بادشاہ دوسروں پر حد جاری کرتا ہے اس پر کوئی اور حد جاری نہیں کرسکتا ہے۔ پنجاب اور پختونخواہ میں راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی۔ شاہ اسماعیل شہید اور سیداحمد بریلوی نے خراسان کے مہدی کا دعویٰ کرکے پشاور اور ہزارہ سے خلافت کا نظام زندہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ انگریز کو یہ اپنے مفاد میں لگ رہاتھا کہ رنجیت سنگھ کی حکومت کو مجاہدین کمزور کردیںگے۔ افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان کے بھائی پشاور، دوسرے کوئٹہ ، تیسرے کشمیر پر حکمران تھے جو راجہ رنجیت سنگھ سے معاہدہ کرکے بیٹھے تھے۔ افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان انگریز سے لڑائیاں لڑرہے تھے مگر اسکے اپنے بھائی نے انکے بیوی بچوں کو انگریز کے ہاتھوں بیچ دیا تھا جس کی وجہ سے وہ ہتھیار ڈالنے اور صلح کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔
انگریز نے مسلمانوں اور سکھوں سے نسبتاً بہترعدالتی نظام، نہریں، ریلوے، پولیس اور سہولیات دی تھیں۔ پشاور سے ٹانک اور کوئٹہ سے ژوب تک ریلوے لائن بھی ہمارے سیاسی اکابرین کھاگئے اور نوازشریف کی لوہے کی بھٹی میں جھونک دی۔ پیپلزپارٹی نے چین کیساتھ معاہدے اورمغربی کوریڈور کا معاہدہ کیا تھا لیکن نوازشریف نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی قوم کی اجتماعی لاشوں سے گزار کریہ شاہراہ تخت لاہور کے سپرد کردی۔ اختر مینگل ، محمود خان اچکزئی ، مولانا فضل الرحمن اپنی قوم کیلئے نواز شریف کیلئے فوج سے لڑائی لڑ رہے ہیں تو ان کو طالبان اور سرماچاروں کیساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ فوج ایک ادارہ ہے ،اس کا سربراہ اگر جنرل وحید کاکڑ پختون اور جنرل پرویزمشرف مہاجر ہوسکتا تھا تو جنرل عبدالقادر بلوچ بھی ہوسکتا تھا۔ جس نواز شریف نے فوج کی گود سے اترنے کی چیخم دھاڑ مچا رکھی ہے وہ آج بھی اسلئے روتا ہے کہ مجھے چھاتیوں سے لگ دودھ چاہیے۔ اندورنِ خانہ اس کو فوج کی طرف سے ہی اشیرباد بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ فوج کا یہ کم گناہ نہیں ہے کہ غلیظ قسم کے نکمے ٹولے کو پال کر قوم پر مسلط کیا ہے اور اسی کی سزا بھی بھگت رہی ہے۔
PTMکے سربراہ منظور پشتین نے ایڈیٹر نوشتۂ دیوار ملک محمد اجمل سے گلہ کیا ہے کہ اب آپ ہمیں کوریج نہیں دیتے ہیں۔پاک فوج کے خلاف جتنا ہم نے لکھا ہے شاید کسی سیاسی ، مذہبی ، لسانی اور صحافی فرد نے اتنی جرأت خوابوں میں بھی نہیں کی ہوگی لیکن ہم انصاف کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ پختون میری قوم ہے ۔ جب طالبان مقبول تھے۔ ہدی بھرگڑی اور معراج محمد خان تک کوئی ایسے مرد وزن نظر نہیں آتے تھے جو طالبان کی حمایت نہ کرتے ہوں لیکن ہم نے اپنی قوم کی عزتوں کے مستقبل کو بچانے کیلئے شعور کی صدا بلند کی تھی۔ جس کی ہم نے سزا بھی پائی اور انعام بھی مل گیاکیونکہ مفت میں کربلا کا اعزاز بہت بڑی عزت ہے۔
ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان شہر اور مضافاتی گاؤں ہندکو سپیکنگ جٹوں کے تھے۔ جٹ بدترین پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے کبیر پبلک اکیڈمی میں استاذ رفیع اللہ جٹ MSC رینجرز میں سپاہی بھرتی ہوا۔ دوسرا بھائیMSC کیمسٹری تھا، دونوں بھائی بہت قابلیت رکھتے ہیں ۔ دوسرا بھائی واپڈا میں چپڑاسی کی حیثیت سے بھرتی ہے جو حافظِ قرآن بھی ہے۔ میرے بھائی ایکسین واپڈا نے افسر کی سفارش پر بھی صرف اسلئے بھرتی کیا کہ وہ حافظِ قرآن تھا ورنہ اس پر وہ کسی قبائلی پختون کو بھرتی کرنے کا حق سمجھتے تھے جنکے پاس ٹانک کا دومیسائل بھی ہوتاہے، اگر حکومت نے جٹوں کے ایریا سے قبائل پختونوں کو بے دخل کردیا تو قبائل منظور پشتین کو بڑی ننگی گالیاں دینا شروع ہوجائیںگے۔ بی بی سی کے نمائندے نے پہلی مرتبہ ٹانک کے مضافات میں ان ہندکو اسپیکنگ جٹوں کے مسائل میڈیا پر اُٹھائے ہیں جو پینے کے پانی جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں۔ تعصبات کی بجائے ہمدردی کو ہوا دی جائے گی تو سب مظلوم اور محروم طبقات کے مسائل حل ہونگے۔
جب اپوزیشن اور حکومت دونوںنے بظاہر فوج کی حمایت میں ایکشن پلان تشکیل دینے کا فیصلہ کیا لیکن بباطن دہشت گردی کے خاتمے پر فوج کے خلاف محاذ بنایا تو PTMکراچی اور اسلام آباد میں پولیس کے خلاف نقیب شہید کے نام پر نکل آئی۔ کراچی کے بعد اسلام آباد کا دھرنا بھی ختم کردیا اور منظور پشتین نے صرف اتنا گلہ ذہن میں رکھا تھا کہ میڈیا اور ہماری حمایت میں آنے والے لوگوں کو معاہدے سے آگاہ کردیا جاتا۔ قبائلی ملکان نے پولیس اور فوجی ایکشن سے خوفزدہ بھی کردیا تھا لیکن ہم نے شامِ غریبان میں ان کو حوصلہ دیا۔ جس اسٹیج سے سپاہ صحابہ کے مولانا احمد لدھیانوی کے بھیجے ہوئے نمائندے کو خطاب کرنے دیا گیا ،اس اسٹیج سے مجھے موقع دینے سے گریز کیا گیا تھا۔ میں نے شامِ غریباں کا سماں چھا جانے کے بعد نشاندہی کی تھی کہ اس نوجوان طبقے میں درد ہے لیکن تعصب نہیں ہے۔ جب تک منظور پشتین قوم کے درد کی بات کرتا تھا اور تعصب کی نفی کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ظلم کوئی بھی کرے ، ہم اس کے خلاف ہیں تو ہم نے ان کو زبردست کوریج دی۔ پختون تحفظ موومنٹ کی جگہ مظلوم تحفظ موومنٹ کا نام دینے کا مطالبہ کیا۔ پھر کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے اہل تشیع کو بھی اسٹیج پر آنے کی اجازت دی۔ ہزارہ کیساتھ شیعہ کی بنیاد پر جو زیادتی کا رویہ کوئٹہ میں روارکھا گیا تھا تو ہمارے کانیگرم میں پاکستان بننے سے پہلے جو لوگ غمِ حسین کا خود ماتم کرتے تھے انہوں نے بھی ہزارہ برادری کی نسل کشی کی تھی۔
پختون قوم میں بالعموم اورمحسود قوم میں بالخصوص اسلام اور غیرت کامادہ ہے لیکن اس کی آبیاری کی بہت سخت ضرورت ہے اور بس!۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟