پوسٹ تلاش کریں

اپنی قوم، اپنے ملک، خطے اورعالمِ انسانیت پر رحم کرنا!

اپنی قوم، اپنے ملک، خطے اورعالمِ انسانیت پر رحم کرنا! اخبار: نوشتہ دیوار

اداریہ: دوسر اکالم

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

میرے مرشدحاجی محمد عثمان نے زندگی تبلیغی جماعت میں گزاری۔ بڑی خوبی یہ تھی کہ مریدوں کا دسترخوان لگتا تو اسی دسترخوان پر کھاتے۔ تبلیغی جماعت کے اسٹیج سے وعظ کرتے تو اکابر میں ہوتے مگراجتماع میں عوام کیساتھ بیٹھتے۔رائیونڈ میں کھانا بھی اکابر کیساتھ نہیں عوام کیساتھ بیٹھ کر کھایا کرتے۔ اکابر کی طرح مرکز میں بیٹھ کر چلے سے گریز کرنے کے بجائے بستر اٹھاکر سالانہ چلے بھی لگاتے۔ فرماتے تھے کہ جب تک ہم خود بستر اُٹھاکر عوام کیساتھ گلی کوچوں میں قریہ قریہ نہیں گھومیںگے تو ہماری اصلاح نہیں ہوسکتی۔ ان کی یہ ادا تبلیغی جماعت کے امیر مولانا محمد یوسف نے بڑی پسند کی تھی، ان کی طرف سے خصوصی اجازت تھی کہ حاجی عثمان چھ نمبروں وعظ کے پابند نہیں تھے۔ مولانا یوسف کی وفات کے بعد مولانا انعام الحسن کو امیر بنایا گیا تو حاجی عثمان سے جان چھڑانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ منظم پروپیگنڈہ کیا گیا کہ حاجی صاحب کی وجہ سے جماعت میں توڑ پیدا ہورہاہے، جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہورہی ہے اور جماعت کے اسٹائل اور ماڈل میں امتیازی صورت پیدا ہورہی ہے۔
حاجی عثمان کے بیان پر اجتماع و مراکز میں پابندی لگی مگر منبر تک حاجی عثمان کی رسائی تھی۔ ایک مرتبہ ایک تبلیغی نے خواب سنایا کہ مفتی محمود نے کہا کہ ”اگر مجھے تبلیغ کی افادیت کا دنیا میں پتہ ہوتا تو سیاست اور دیگر خدمات کی بجائے زندگی تبلیغی جماعت میں گزارتا” ۔ حاجی عثمان نے منبر پر چڑھ کر ڈانٹ پلائی اور فرمایا کہ ” مفتی محمود نے ختم نبوت کیلئے قربانی دیکر جیل میں انگلی سڑائی تھی ۔ سارے تبلیغی جماعت والے مل کر بھی مفتی محمود کی اس خدمت کو نہیں پہنچ سکتے ہیں جو انہوں نے ختم نبوت کیلئے دی ہے۔ مفتی محمود نے رسول اللہۖ کی جوارِ رحمت کے فیضان میں جگہ پائی ہے،ہم تبلیغی جماعت کی یہ اوقات نہیں کہ جھوٹے خواب بیان کرتے پھریں” ۔
حاجی عثمان کی خانقاہ میں بیان صرف مریدوں کیلئے ہوتا تھا، ایک بیان کیلئے اس وقت کے مرکز مکی مسجد کراچی کے اجتماع میں اعلان کروادیا کہ تبلیغی جماعت والے بھی اس بیان میں شرکت کرسکتے ہیں۔ جس میں اس پر زور تھا کہ رسول ۖ نے جماعت میں شخصیات پیدا کئے اور شخصیت کے بغیر جماعت بھیڑ ہے۔ وہ آڈیو کیسٹ شیخ الحدیث مولانا زکریا کوبھیج دی۔ مولانا زکریا نے تبلیغی اکابر کو بٹھاکر کیسٹ سنائی اور ان کو سختی کیساتھ حاجی عثمان کیخلاف سازشوں سے روک دیا۔ مدینہ میںحاجی عثمان کے وعظ میں مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مولانا فقیر محمد رو روکر گھومنا شروع کردیتے۔ مولانا فقیرمحمد نے کہا کہ ”مجھے الہام ہوا کہ حاجی امداداللہ مہاجرمکی کی نسبت سے باطنی خلافت آپ کو پیش کردوں”۔ حاجی عثمان نے فرمایا کہ ”مجھے تو الہام نہیں ہوا ۔ مجھے یہ اجازت مل جائے تو”۔ مولانا فقیر محمد نے مدینہ منورہ مسجد نبویۖ میں 27رمضان لیلة القدر کو اپنے ورود کا بتایا تو حاجی محمد عثمان نے قبول کرلیا ۔ مولانا فقیرمحمد نے جس انداز میں خلافت نامہ لکھ دیا اور قبول کرنے پر شکریہ ادا کیا تو ایک ایک جملہ حقائق کی وضاحت کرتا ہے۔ عرصہ بعد مولانا فقیرمحمد نے اعلان کیا کہ ”میں نے خلافت واپس لی ہے ” لیکن اسکا حاجی عثمان کی ذات اور مریدوں پر کچھ اثر نہیں پڑا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے مفتی احمد الرحمن اور مفتی ولی حسن نے مولانا فقیرمحمد سے کہا کہ یہ خلافت درود سے دی تھی یا کسی کی مشاورت سے؟۔ کہنے لگے کہ خلافت ورود کی وجہ سے دی تھی لیکن سلب مشاورت کی وجہ سے کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرعی اعتبار سے یہ درست نہیں کہ ورود کی خلافت مشاورت سے سلب کی جائے۔ پھر جامعہ بنوری ٹاؤن کے لیٹر پیڈ پر مولانا فقیر محمد نے لکھ دیا کہ ”میں نے حاجی محمد عثمان کو خلافت ورود سے دی جو تا حال قائم او ر دائم ہے”۔ مفتی احمد الرحمن ، مفتی ولی حسناور مفتی جمیل خان کے بطور گواہ دستخط ہیں۔تبلیغی جماعت اور حاجی محمد عثمان کے مریدوں میں جھگڑے ہونے لگے تو حاجی عثمان نے اعلان کیا کہ جو مرید تبلیغی جماعت میں کام کرنا چاہیں تو خوشی سے اجازت ہے مگر جو مرید بن کر رہیں وہ جماعت میں نہ جائیںاسلئے کہ انتشار کی فضاء بن رہی ہے۔
تبلیغی جماعت نے طوفان برپا کرنے کی کوشش کی مگر مولانا خان محمد کندیاں امیر تحفظ ختم نبوت نے تبلیغی اکابر کو سمجھایا کہ قادیانی اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔مفتی محمد تقی عثمانی ،مفتی محمد رفیع عثمانی، مفتی رشید احمد لدھیانوی نے تبلیغی جماعت کیخلاف فتویٰ داغ دیا کہ اکابرین اس جماعت کو کشتی ٔ نوح قرار دیکر گمراہی پھیلارہے ہیں۔ فتویٰ لینے والے تبلیغی جماعت کراچی کے امیر بھائی یامین کے صاحبزادے مولانا زبیر تھے، عبداللہ کے نام سے فتویٰ لیا۔ شرپسنداس محاذ پر مکمل ناکام ہوگئے مگر مخصوص افراد سازش کا حصہ ہوتے تھے لیکن مولانا زکریا کے خلفاء اور تبلیغی جماعت کا مخلص طبقہ اس کا شکار نہیں تھا۔ بلکہ وہ اس مہم جوئی کی اندرونِ خانہ مزاحمت بھی کرتا تھا۔ حاجی عثمان کے مرید حاجی شفیع بلوچ نے بتایا کہ” ایک مرتبہ پیپلزپارٹی کے رہنما شفیع جاموٹ نے کہا کہ تمہاری خانقاہ میں قادیانی گھسے ہیںجو اندر بیٹھ کر سازش کررہے ہیں تو میں نے کہا کہ غرق ہوجاؤ ،قادیانی کیا سازش کرینگے مگر جب اندر سے سازش ہوئی اور فتویٰ لگا تو معلوم ہوا کہ وہ درست کہہ رہا تھا”۔ فوج کے اعلیٰ افسران خانقاہ سے نہ صرف بھاگے تھے بلکہ ایک بریگڈئیر نے دھمکی آمیزفون کیا تو حاجی شفیع بلوچ نے جواب دیا کہ ”جو رات قبر میں لکھی ہوئی ہے وہ باہر ویسے بھی نہیں ہوسکتی ہے”۔
حاجی عثمان کیخلاف فتوؤں میں اپنے خلفاء استعمال ہوگئے۔ علماء نے بہت گھٹیا کردار صرف پیسوں کیلئے ادا کیا۔ زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں لیکن چشم فلک نے یہ تماشا دیکھا ہے کہ ایمان والوں کی شمعیں کس طرح بجھ رہی تھیں۔جب موقع تھا کہ فتویٰ لگانے والے اکابر علماء ومفتیان سے بدلہ لے سکتے تھے کیونکہ حاجی عثمان کی حسد میں سیدعبدالقادر جیلانی، شاہ ولی اللہ،مولانا یوسف بنوری اورشیخ الحدیث مولانا زکریا پر بھی کفر والحاد اور قادیانیت کے فتوے لگا چکے تھے لیکن حاجی عثمان نے منع کردیا کہ بدلہ نہیں لینا ہے، حالانکہ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے، بکروں کو ذبح کردینا ، ٹانگیں ہلائیںگے تو ہم پکڑ لیںگے۔
حضرت آدم کے بیٹے ہابیل اور قابیل میں مذہبی، لسانی، قومی، ملکی تعصبات کی نہیں شیطانی اور نفسانی جنگ تھی۔ ہابیل کی قربانی اللہ نے قبول کی تو قابیل کو قتل کی پڑی۔ ہابیل نے کہا کہ میرا ہاتھ آپ کو قتل کرنے کی طرف نہیں بڑھے گااسلئے کہ مجھے اپنے اللہ اور اپنی آخرت کا خوف ہے۔ حضرت یوسف نے بھائیوں کو معاف کیا اور نبیۖ نے اپنی دشمن مشرک قوم کو مکہ میں معاف کیا۔میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کا مذہبی تعصبات کے خاتمہ میں بنیادی کردار تھا۔ طالبان و ریاستی اہلکاروں نے ہم پر باہمی مشاورت سے حملہ کیا تو مہمان اور خواتین سمیت 13افراد شہید ہوگئے تھے اور فرانس نے اس خبر کوبڑی اہمیت دیکر شائع کیا۔ مجھے پیرس جانے کا موقع ملا، اس وقت چاہت کے باوجود سیاسی پناہ اسلئے نہیں لی کہ امریکہ کیخلاف جنگ میں اپنوں کو نقصان نہیں پہنچے۔ آج ہندوستان اور اسرائیل سمیت ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ شیطان کا تباہ کن منصوبہ ہار جائے اور انسانیت اور اسلام کو فتح ملے۔
قرآن انسانیت کو بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن انگریز کی باقیات کا نظام پختون، سندھی، بلوچی، پنجابی اور مہاجر کلچر اور اعلیٰ ترین روایات کو بھی تباہ وبرباد کر رہاہے۔ جب پاکستان کا ریاستی نظام ٹھیک ہوگا تو پوری دنیا پر ہم امامت کرینگے۔

www.zarbehaq.com

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز