پوسٹ تلاش کریں

بگڑے الطاف حسین کے سدھرنے کا راستہ کیا ہے؟

بگڑے الطاف حسین کے سدھرنے کا راستہ کیا ہے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

الطاف حسین کی جو باغیانہ ویڈیو دکھائی جارہی ہے اس میں وہ کہتا ہے کہ اللہ اور اسکے نبیﷺ کے نام پر یہ ملک انگریز نے دھوکے سے بنوایاتھا۔ پھر وہ پاکستان توڑنے کیلئے اسرائیل، بھارت اور امریکہ وغیرہ سے مدد لینے کی باتیں کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن لوگوں نے برصغیر کی آزادی کیلئے قربانیاں دی تھیں وہ تو تقسیم ہند اور آزادی کے بعد غدار ٹھہرے مگر ان کے وفادار سردار، نواب ، وڈیرے ، بیروکریٹ اور فوج اس ملک کے محبِ وطن قرار دئیے گئے۔ برطانیہ آج بھی ہمارا منہ چڑا رہا ہے کہ 70سال کی آزادی کے بعد بھی ہمارے بنائے گئے ادارے اور ان کی اولادیں تم پر حکمرانی کررہی ہیں۔ یہ مشہور بات ہے کہ گورے چلے گئے اور ان کی جگہ نااہل کالوں نے اقتدار سنبھالا ہے۔
الطاف حسین سیاستدانوں کیخلاف اس قسم کے درس وتدریس دیتا رہتا ہے اور اس میں وزن بھی ہے۔ یہ باتیں دوسرے بھی کرتے ہیں،البتہ یہ بہت ہوچکی ہیں، انگریز گیا، اب یہ ہمارا اپنا ملک ہے، اپنا نظام ہے، اسلام کو نافذ کرنے میں بھی بالکل دیر نہ لگتی مگراسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی طبقہ ہے، اس نے اسلام نہیں خود ساختہ غیرفطری فرقہ کا نام اسلام رکھ دیاہے جو کوئی اور بلاہے، جس دن علماء نے اسلام قبول کیا اور عوام کو فرقہ واریت کی لعنت سے نکالا تو اسلام رائج ہونے میں دیر نہ لگے گی۔ جب علماء اور مذہبی طبقہ اسلام نہیں چاہتا تو ریاستی اداروں کا یہ کام ہی نہیں ہے۔ اسلام معاشرے کے ہر چول کو سیدھا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
الطاف بھائی جان اور بہت لوگوں کے دل ودماغ میںیہ بات بیٹھی کہ مہاجرین بانیانِ پاکستان کی اولاد ہیں۔ ہوں گے مگر حقائق دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم قرار دیاہے توساتھ میں یہ بھی یاد دلایا کہ ’’ انسان کو منی کے قطرے سے پیدا کیا ہے‘‘۔ انسان اس حقیقت کا ادراک کرلے تو وہ احسن تقویم پر اترائے گانہیں،اپنی اوقات مشکل میں نہیں سہولت میں بھی یاد رہے گی۔
اصل بات یہ ہے کہ مہاجرین ہجرت نہ کرتے تو پاکستان کا ادھورا رہ جانا غلط فہمی ہے۔ جن علاقوں کی اکثریت نے پاکستان کو ووٹ دیا، ان کی وجہ سے پاکستان بنا، پاکستان پہلے بنا اور ہجرت بعد میں ہوئی، اسلئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مہاجروں کے آبا واجداد نے ہجرت کرکے پاکستان بنایا ہے۔پاکستان مہاجرین کیلئے بہترین پناہ گاہ تھا، پاکستان کے مہاجرین پر احسانات ہیں، جنرل راحیل شریف اور نوازشریف بھی مہاجر کی اولاد ہیں، عزت ، دولت ، شہرت اور اقتدار پاکستان کا کمال ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بننے پر قربانیوں کا سامنا موجودہ مہاجرین کے آبا واجداد کو کرنا پڑا، خاندان تقسیم ہوگئے، راستے میں قافلے لٹ گئے، آبادیوں پر حملوں سے عوام کو نقصان پہنچا۔ تاہم اگر وہ اپنے پڑوسیوں کیساتھ بناکر رکھتے، اچھے انداز میں طرزِ زندگی گزارتے تو ان کیلئے اس طرح کی مشکلات کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا، بٹ کے رہے گا ہندوستان ، لے کے رہیں گے پاکستان کا نعرہ لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اب یہ غلطی دوبارہ دہرائی جائے کہ بٹ کے رہے گا پاکستان لے کے رہیں گے ۔۔۔ تو یہ غلطی کا ازالہ نہ ہوگابلکہ غلطی پر غلطی اسلئے ہوگی کہ کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا، اب سندھ کا دارالخلافہ ہے ، اسکو کاندھے پر اٹھاکے تو نہیں لائے تھے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں غریب مسلمان مہاجرین کو بڑے امیرقسم کے ہندؤں کی جائیدادوں کا مالک بنایا گیا، متحدہ ہندوستان میں بیوروکریسی اور دیگر شعبوں میں اتنی آسانی کیساتھ نوکریاں نہیں مل سکتی تھیں جتنی پاکستان میں ملی تھیں۔
میرا ایک دوست ہے جنکے والد صاحب ؒ سے بھی زبردست تعلق تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ ہندوستان میں شکار کرکے پرندوں کا کچا گوشت کھاتے تھے۔ آج بھارت کے مقابلہ میں مسلمان مہاجرین کی حالت ماشاء اللہ بہت بہتر ہے۔ ناسمجھ عوام کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کوئی بستر نہیں جو اٹھاکر لایا گیا ،کچھ کھویا نہیں پایاتھا، پاکستان پر نہیں پاکستان کا احسان ہے۔ بنگالی اردو کی وجہ سے دور ہوئے، مہاجرین نے بنگالیوں پر ریاست کیساتھ مل کر ظلم کیا۔ایم کیوایم کیساتھ ریاست نہ ملی ہوتی تو مسلمانوں کا سب سے بڑا شہر سب سے بڑی قتل گاہ نہ بنتا،ریاست نے اپنا خفیہ ہاتھ ہٹالیا تو سرِ عام کھلی بدمعاشی کرنے والوں کی عاجزی سب کو قابل رحم نظر آتی ہے۔محمودالرحمن کمیشن میں آرمی چیف یحییٰ خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کی علیحدگی کا ذمہ دار ٹھہرا یا گیا ہے۔
پاکستان آج اردو زباں سے جڑا ہوا ہے، اردو کو سرکاری اور دفتری زباں بنانے کیلئے سب سے پہلے متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے پختونخواہ میں اعلان کیا مگر پرویز مشرف کے سابقہ جگری یار چوہدری افتخار نے اس میں رکاوٹ ڈالی حالانکہ بیچارے کو خود بھی انگریزی لگتاہے کہ بالکل نہ آتی تھی۔ اگر یہ ملک اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے نام پر بنا ، الطاف بھائی جان کے آباو اجداد نے اسی وجہ سے یہاں ہجرت کی تھی تو کم ازکم موٹی موٹی باتوں کا خیال رکھنا پڑیگا۔ اللہ نے زمین میں خلیفہ پیدا کرنے کی بات فرمائی تو فرشتوں نے اعتراض کیا کہ کیا ان کو پیدا کروگے جو زمین میں فساد پھیلائیں اور خون بہائیں؟۔ اللہ نے فرمایا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اللہ نے غصہ نہیں کیا کہ تم کون ہوتے ہو؟۔ بابر غوری نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تو الطاف بھائی نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو، جب میں نے مردہ باد کا نعرہ لگایا ہے۔ یہ طرز عمل اسلام اور مسلمانیت کے منافی ہے اور جب غزوہ احد میں بعض لوگوں نے سمجھا کہ رسول اللہﷺ کو شہید کیا گیا تو وہ بھاگے ، اللہ نے فرمایا: ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ رسل أفان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم ’’ اور محمد کیا ہیں؟ ، مگر ایک رسول ، بیشک آپؐ سے پہلے بھی رسول گزرچکے ہیں، اگر آپ فوت ہو جائیں یا شہید کردئیے جائیں تو تم کیا الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟‘‘۔
ایم کیوایم کا یہ نعرہ کہ منزل نہیں رہنما چاہیے، ایک انتہائی لغو بات ہے، نبیﷺ سے ایک خاتونؓ کے بارے میں سورۂ مجادلہ کے اندر اختلاف کا ذکر ہے۔ حضرت عمرؓ نے بدر کے قیدیوں اور دوسرے معاملات پر اختلاف کیا تھا، حدیث قرطاس کا واقعہ بھی مشہور ہے۔ الطاف بھائی جان کو کھل کر اعلان کرنا چاہیے کہ بابر غوری، فیصل سبز واری اور جن خواتین نے میری وجہ سے طیش میں آکر پولیس اور میڈیا پر حملہ کیا ان سب سے اور اپنے تمام عقیدتمندوں سے معافی مانگتا ہوں۔ پاکستان کے تمام وہ افراد جن کو جسمانی، ذہنی اور روحانی تکلیف پہنچی ہو، وہ معاف کردیں، مجھے پکایقین ہے کہ الطاف بھائی مصطفی کمال سے بڑھ کر روئیں گے ۔الطاف بھائی کامعاملہ بڑا نہیں ،قرآن وسنت سامنے ہو تو توبہ کرنے میں دیر نہ لگے ، بغاوت کرنے والے بھی جی حضوری کی سزا کھا رہے ہیں۔ جبراورکبر نہیں پیار محبت سے ہی اصلاح ممکن ہے۔
نوازشریف نے جلاوطنی میں الزام لگایا کہ زرداری کیخلاف مقدمات پر ISI نے مجبور کیا تھا۔ جس کا ذکر سہیل وڑائچ کی کتاب میں ہے۔ نوازشریف جسکے بھی مجرم ہوں وہ آسانی سے معافی مانگنے والے نہیں لگتے ہیں۔ کراچی کی اکثریت فوجی سپاہیوں کی طرح ہیں، ان کو آرڈر پر ہی لبیک کہنا آتا ہے۔ غریب آبادیاں قربانی کے عید میں بھی گوشت سے محروم ہوتی ہیں اور کھالیں جمع کرنے والے اگر غریبوں کو گوشت پہنچانے پر بھی لگادئیے جاتے اور کھالیں انہی کو دیدی جاتیں تو شاید زمین والوں پر رحم کرنے سے آسمان والا ہم پر بھی رحم کرتا۔ جنرل نیازی کے پیچھے انڈیا میں لوگ اتنے نہ پڑے ، جتنے ڈاکٹر فاروق ستار کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑگئے ہیں ۔ بعض صحافی توصحافت نہیں گدھوں کے سلوتری ہونے کے قابل لگتے ہیں۔ عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟