پوسٹ تلاش کریں

پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے

پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فان طلقھا فلاتحلّ لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ…”پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے،پھر اگر اس نے طلاق دی تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں اگر رجوع کرلیں جب

دونوں کو گمان ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے، یہ اللہ کی حدود ہیں جو ایسی قوم کو واضح کئے جاتے ہیں جو سمجھ رکھتے ہیںOاور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ

جائیں تو ان کو معروف طریقے سے روکویا معروف طریقے سے چھوڑ دو،اور ان کو اسلئے مت روکو تاکہ ضرر پہنچاؤ،جس نے ایسا کیا تو اپنے نفس پر ظلم کیااور اللہ کی آیات کو کھیل مت بناؤ….

قارئین ،علماء کرام اور مفتیانِ عظام! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
سورۂ بقرہ کی آیات(230) اور(231)کے الفاظ پر اللہ کی محکم آیات پر تھوڑا سا غور کر نا اورالقائے شیطانی کو بھی مدنظر رکھناتو معاملہ بہت واضح ہوجائے گا۔ پچھلی آیات میں القائے شیطانی سے انکار کی گنجائش نہیں اور جب اس تسلسل کو دیکھا جائیگا تو یہاں بھی شیطانی القاکا پتہ چلے گا۔اللہ تعالیٰ نے آیت (230) میں بہت واضح انداز میں فرمایا ہے کہ ” پھر اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے ، پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اگر یہ گمان رکھیں کہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں جو اس قوم کیلئے وہ واضح کرتا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں”۔
سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم اس آیت میں اس طلاق کو پہلی دومرتبہ طلاق کیساتھ شامل کرتے ہیں۔ علامہ جاراللہ زمحشری نے اپنی تفسیر کشاف میں لکھ دیا ہے کہ عقل اور شریعت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس تیسری طلاق سے پہلے کی دو مرتبہ طلاق الگ الگ واقع ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ تینوں طلاقیں الگ الگ مراحل سے تعلق رکھتی ہوں۔ امام ابوبکر جصاص رازی حنفی نے احکام القرآن میں طلاقِ سنت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ الگ الگ مراحل میں طلاق کے بغیر چارۂ کار نہیں ہے کیونکہ یہ دو درہم کی طرح نہیں ہیں بلکہ طلاق فعل ہے جس طرح دو کھانے ،دو حلوے اور دو روزے ایک ساتھ دو نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ الگ الگ مرتبہ ضروری ہیں اسی طرح طلاق کا فعل بھی الگ الگ مرتبہ ضروری ہے۔
مفسرین کی ضرورت اس وقت ہو گی کہ جب مسئلہ قرآن و سنت میں واضح نہ ہو۔ جب احادیث سے ثابت ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق آیت (229) کے پہلے حصہ سے ہے کہ ”طلاق دومرتبہ ہے پھرمعروف رجوع یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ (3) طہروحیض میں(3) مرتبہ طلاق رسول اللہۖ نے احادیث صحیحہ میں ہے اور فرمایا کہ احسان کیساتھ چھوڑ دینا قرآن میںتیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔
آیت (229) میں تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا ذکر نہیں ہے بلکہ طلاق کے بعد عورت کے حق کا ذکر ہے کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہے وہ اب اسی کا ہے، کوئی چیز بھی اس میں سے لینا جائز نہیںہے۔ ہاں البتہ اگر ان دونوں کو یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ ڈرہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے کہ تو شوہر کے دئیے ہوئے مال میں سے صرف وہی چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے ہونے کی وجہ سے اختلاط اور رابطہ ہوسکتا ہو اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا ڈر ہو۔
مولانا مودودی علیہ ما علیہ نے اس فدیہ کو معاوضہ قرار دیکر بہت ہی برا کیا۔ عورت کی طرف سے فدیہ کوخلع کا معاوضہ قرار دینا بہت بڑا شیطانی القاہے۔
اب آیت (229) کے بعد آیت (230) میں اس طلاق کی کیفیت کو بھی اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب عورت کو قرآن وسنت کے مطابق عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی گئی اور پھر شوہر کی طرف سے دیا ہوا مال واپس لینا حلال نہیں تھا مگر جس دی ہوئی چیز کی وجہ سے دوبارہ رابطے کا خوف تھا اور اس رابطے کی وجہ سے اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف تھا اسلئے وہ چیز بھی فدیہ کرنے میں حرج نہ ہونے کی وضاحت ہے۔یہ کیفیت بیان کرنے کے بعد آیت (230) میں طلاق کی جو وضاحت ہے وہ صرف اور صرف اسلئے ہے کہ شوہر کو اگر رجوع نہیں کرنا ہو تو وہ اس کو طلاق کے بعد بھی کسی اور سے اپنی مرضی کے مطابق اجازت نہیں دیتا ۔ رحمت للعالمینۖ کی ذات کے بارے میں قرآن نے واضح کیا کہ آپ کے بعد کبھی آپۖ کی ازواج سے نکاح نہ کریں،اس سے نبیۖ کو اذیت ہوتی ہے اور یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔ بہت کم لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کو بیوی چھوڑنے کے بعد کسی اور کیساتھ نکاح میں تکلیف نہ ہو لیکن انسان کو بہت تکلیف ہوتی ہے بلکہ جانوروں اور پرندوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ بشریٰ بی بی کے پہلے شوہر خاور مانیکا کو بھی تکلیف ہوئی ہوگی ،اللہ ہرکسی کواس اذیت سے بچائے۔صحافی عمران خان ہمیشہ تحریکِ انصاف کی تائید کرتا تھا لیکن خاور مانیکا کے بیٹے پر فائرنگ کا نوٹس لے لیا ہے۔ آرمی چیف باجوہ کا نام لینے پر معافی مانگی تھی۔ جمہوریت بہتر نظام ہے۔
مجھے بہت زیادہ خوشی ہے کہ اصول فقہ کی کتابیں ”اصول الشاشی” اور ”نورالانوار” شیخ التفسیر استاذ حدیث مولانا بدیع الزمان صاحب نوّراللہ مرقدہ سے پڑھی تھیں۔ اصول فقہ کے پہلے سبق میں آیت (230) البقرہ حتی تنکح زوجًا غیرہ سے حدیث صحیحہ کا ٹھکراؤ ہے کہ قرآن میں عورت کو آزادی دی گئی کہ جہاں چاہے نکاح کرلے اورحدیث ہے کہ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے ”۔ قرآن کے مقابلے میں حنفی حدیث صحیحہ کو رد کرتے ہیں۔ اسلئے کہ قرآن میں عورت نکاح میں خود مختار ہے اور حدیث میں اس پر ولی کی اجازت کی پابندی لگائی گئی ہے۔
آیت (230) میں طلاق کے بعد عورت کیلئے دوسرے نکاح میں رکاوٹ اپنا ولی نہیں بلکہ سابقہ شوہر بنتا ہے۔اس سے تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ عورت کسی اور کے نکاح میں چلی جائے تو پہلے کی دسترس سے وہ مکمل طور پر نکل جائے۔
ہمارے بچپن میں ہمارے عزیزوں کے مزارع خان بادشاہ کے بیٹے کریم نے اپنی بیوی کو اچانک تین طلاق دی اور پھر اس کو حلالہ کیلئے پڑوس کے گاؤں کوٹ حکیم کی مسجد کے ملا کے پاس لے گیا۔ عورت نے کہا کہ ملا سے طلاق نہیں لینا چاہتی ہے تو کریم نے اپنے رشتہ داروں کیساتھ مل کر ملا کو پیٹ ڈالا اور عورت بھی زبردستی سے لائے یا پھر اس کو زبردستی سے طلاق بھی دلا دی تھی۔
حال ہی میں بنوں کی سوشل میڈیا پر دو فریق کی طرف سے ایکدوسرے پر الزامات لگائے گئے ۔ دوبئی سے شوہر نے طلاق دی تھی اور پھر مولوی سے فتویٰ لیکر اس عورت کیساتھ زبردستی حلالہ کیا گیا، جس پر مولوی کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ وہ مولوی وہاں کی معروف شخصیت، مدرسے کا مہتمم اور ختم نبوت کاامیر تھا۔
یہ واقعات اسلئے لکھ رہا ہوں تاکہ قرآن کی آیت کے حکم کی روح سمجھنے میں بہت آسانی ہو۔ کیا زبردستی سے حلالہ کرنے سے وہ عورت پہلے شوہر کیلئے حلال ہوسکتی ہے؟۔ عورت آزادی مارچ ”میرا جسم میری مرضی” کی سرخیل پختون خاتون محترمہ عصمت شاہجہاں ہے۔ عوامی ورکر پارٹی کومذہب سے نفرت ہے لیکن مذہب کا کردار کتنا اہم ہے ؟ ۔ اس کو سمجھنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
کیا آیت (230) میں پہلی بار عورت کو مرد کے چنگل سے آزادی دلانے میں اتنا اہم کردار ادا کیا گیا ہے؟۔ نہیں ہرگزہرگز نہیں۔ آیت (226) میں عورت اور اسکے شوہر میں ناراضگی ہوجائے تو جب تک عورت راضی نہ ہو تو شوہر عدت میں بھی اس پر زبردستی نہیں کرسکتا ہے۔ آیت (230) میں بہت ہلکا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ شریعت کی روح یہ ہے کہ اگر عورت ناراضگی کے بعد راضی نہ ہوجائے تو اس پر زبردستی مسلط کرنا حرام ہے۔ جس طرح کسی اجنبی عورت کیساتھ زبردستی کا کوئی تصور نہیں ہے اسی طرح سے اپنی بیوی کیساتھ عدت میں بھی زبردستی سے ازدواجی تعلقات اور نکاح کی بحالی قطعی طور پر حرام ہے۔ آیت (228) میں بھی زبردستی سے تعلق کی بحالی حرام ہے اور اصلاح کی شرط کیساتھ صلح کرنے کی اس میں وضاحت ہے۔ آیت (229) میں بھی معروف طریقے سے ہی رجوع کی اجازت ہے۔ زبردستی سے اس میں بھی رجوع کرنا ایسا حرام ہے جس طرح کسی اجنبی عورت کو زبردستی سے مجبور کرنا حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ حج کی آیات (52،53اور54) میں القائے شیطانی کی وضاحت فرمائی ہے۔ آیت (230) سے تیسری طلاق مراد لینا اور اس کیلئے یہ کہنا کہ ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے اگر دو طلاق کے بعد فوری طور پر تیسری طلاق دیدی تو پھر عورت حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے۔ اگر ف تعقیب بلا مہلت فان طقہا میںنہ ہوتی تو پھرتین الگ الگ مرتبہ طلاق ہوتی۔ بریلوی مکتب کے معتبر عالم دین شیخ التفسیر والحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے یہ لکھ دیا ہے۔ حالانکہ نورالانوار میں حنفی مؤقف یہ لکھاہے کہ” ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے اس طلاق کا تعلق فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ پہلے دو مرتبہ طلاق کیساتھ نہیں ہوسکتاہے”۔
بریلوی دیوبندی دونوں حنفی ہیں اور دونوں مکتبۂ فکر مل بیٹھ کر مسئلہ حل کریں تو صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں اسلام کا ڈنکا بجے گا۔ القائے شیطانی سے وہ لوگ زیادہ متأثر ہیں جنکے دلوں میں حلالہ کی حلاوت کا مرض تھا۔ بہت سارے علمائِ حق نے اس طرف دھیان بھی نہ دیا اور یہ سمجھ لیا کہ بس اللہ کا حکم ہے تو ایمان پر ہماری عزتیں بھی قربان ہوں۔ بہت لوگوں نے اس نیک نیتی سے حلالہ کی لعنت کو جواز بخشا کہ اگردو خاندان اور بچوں کے ماں باپ اس کرب سے گزرنے کے باوجود بھی اکٹھے ہوں تو یہ بہت بڑی غنیمت ہے۔ نیکی نیتی سے اجتہادی خطاء پر نیکی بھی ملتی ہے لیکن حق واضح ہونے کے بعد شیطانیت ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت (231) میں پھر اللہ نے یہ واضح کیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے اللہ نے رجوع سے نہیں روکا ۔کیایہ ممکن ہے کہ قرآن میں اتنے سارے تضادات ہوں؟۔ اللہ نے فرمایا کہ اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔ اوراللہ کی اس نعمت کو یاد کرو ،جو اس نے تمہارے اوپر کی ہے اور جو اللہ نے کتاب میں سے احکام نازل کئے ہیں اور حکمت عطاء کی ہے۔ ہم نے نہ تو اس کی نعمت عورت کی عزت کا خیال رکھا اور نہ رجوع سے متعلق کتاب کی ان آیات پر غور کیا اور نہ اپنی ذہنی صلاحیت حکمت سے کام لیا۔ جس کی وجہ سے تنزلی اور بربادی کا شکار ہوگئے ہیں۔عوام نے قرآن کے حکم لعان کو پہلے قبول نہیں کیا تھا مگر اب شیطانی القا حلالہ کی لعنت کو ٹھکرانے میں بالکل دیر نہیں لگائیںگے۔
سورۂ بقرہ کی آیت (230) سے پہلے کی آیات (228اور229) اور بعدکی آیات (231اور232) دیکھ لی جائیں تو معاملہ بالکل واضح ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے اللہ نے رجوع کی گنجائش حلالے کے بغیر باقی رکھی ہے۔سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی اس کا خلاصہ موجود ہے۔ ابوداؤد کی روایت میں نبیۖ نے مرحلہ وار تین طلاق کے باوجود سورۂ طلاق کی آیات پڑھ کر رجوع کا حکم دیا۔
رفاعة القرظی نے جس عورت کو طلاق دی تھی تو صحیح بخاری کی تفصیلی روایت میں ہے کہ اس کو دوسرے شوہر نے بہت سخت مارا تھا، حضرت عائشہ نے اس کے جسم پر نیل پڑنے کے نشانات دیکھے، اس نے کہا تھا کہ اس کا شوہر نامرد ہے اور اسکے شوہر نے اسکے دعوے کو غلط قرار دیا تھا اور اپنے دو بچوں کو بھی ساتھ لایا تھا۔ بعض اوقات وقتی طور پر میاں بیوی میں جھگڑا ہوتا ہے اور عورت جھوٹے الزام لگاکر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے لیکن انکے مفاد میں علیحدگی نہیں ہوتی ہے اسلئے یہ فیصلہ کرنا مصلحت کا تقاضہ ہوتا ہے کہ ماردھاڑ کی شکایت بھی ختم ہوجائے میاں بیوی بھی ایک ساتھ خوشی خوشی زندگی گزاریں۔ میرے ساتھیوں میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ پہلے عورت کو طلاق دیکر فارغ کیا تھا اور پھر عورت نے پشیمان ہوکر رجوع کرنے کیاتھا۔ مفتی قرآن وحدیث کا غلط حوالہ دیکر فتویٰ دیتے ہیں۔
احادیث کی کتب فقہی مسالک کے بعد مرتب کی گئی ہیں۔ شیطانی القا کی ایک زبردست مثال صحیح بخاری میں علماء کا یہ اجتہاد ہے کہ حرام کے لفظ سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی اور طلاق میں حرام کا حکم کھانے پینے کی اشیاء کی طرح حرام ہونا نہیں ہے۔ اصول فقہ کی کتابوں میں بعض صورتوں تیسری طلاق کا پڑجانا اور پہلی دو طلاق کا واقع نہ ہونا بھی لکھا ہے۔ القائے شیطانی سورۂ نجم کے حوالے سے جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہونے میں نہیں مل سکتی ہے بلکہ جس طرح مذہبی طبقے نے واضح آیات کے مقابلے میں بقول مولانا انورشاہ کشمیری کے معنوی تحریف کا ارتکاب کیا ہے ، یہی معنوی تحریف القائے شیطانی ہے اور اہل علم کو سورۂ حج کی آیت (53) میں حلالہ کے مرض کا شکار ہونے والوں کا راستہ روکنے کیلئے آیت (54) الحج کے مطابق اپنا زبردست کردار ادا کرنا پڑے گا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں