پوسٹ تلاش کریں

سورۂ رحمن میں پہاڑوں جیسے جہاز کا ذکر موجودہ دور کیلئے ہے۔ ٹائی ٹینِک جہاز ڈوب گیا لیکن اللہ کی ذات باقی ہے

سورۂ رحمن میں پہاڑوں جیسے جہاز کا ذکر موجودہ دور کیلئے ہے۔ ٹائی ٹینِک جہاز ڈوب گیا لیکن اللہ کی ذات باقی ہے اخبار: نوشتہ دیوار

اسلامی انقلاب کا سورۂ رحمن میں نقشہ ہے ، اپنی بیگمات خیرات حسان ہونگی اور خیموں میں دنیا کی حیاء دار شہری خواتین سیروتفریح کی مہمان ہونگی،جو ماحول کو آلودہ نہیں کریں گی۔ آیات کا درست مفہوم سمجھ میں آجائے توماحول بنے گا : سید عتیق الرحمن گیلانی

علماء نے قرآن کی آیات کو اپنی خواہشات میں ڈھال دیا۔ خیموں میں حوروں کے غلط تصور نے ایسی فضاء پیدا کردی کہ عوام اپنے گھروں میں فیملی کیساتھ قرآن کا ترجمہ بھی سن نہیں سکتے ہیں

سورۂ رحمن میں پہاڑوں جیسے جہاز کا ذکر موجودہ دور کیلئے ہے۔ ٹائی ٹینِک جہاز ڈوب گیا لیکن اللہ کی ذات باقی ہے جس کی ہرروز ہردور میں اپنی شان ہے جو جدید دور میں ثابت ہے

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے تسخیر کائنات کا ذکر کیا ہے۔مذہبی اعتبار سے اہلسنت کے مسائل میں بھی آخری حد تک بگاڑ ہے اور اگر اہل تشیع کے بارہ امام جن میں سے بعض کے عباسی خلفاء سے اچھے تعلقات بھی تھے اگر جدید سائنس کی ترقی ائمہ اہلبیت کے ہاتھ سے ہوجاتی تو عالمِ اسلام کے مسلمانوں کا بہت بڑا مقام ہوتا۔ سورۂ محمد میں اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ واستغفر لذنبک وللمؤمنین والمؤمنات۔ اگر یہ آیت صرف صحابہ سے متعلق ہوتی توشیعہ ذاکرین آسمان سروں پر اٹھالیتے۔ سورۂ حجرات میں اختلاف کرنے والے راشدوں اور اعرابیوں کو خلط ملط کرنا غلط ہے اور اگر انجانے میں ایسا ہورہاہے تو اللہ نے اعرابیوں سے بھی درگزر کا فرمایا۔

اگر قرآن کی درست تفسیر ہو تو اہلسنت کا کچھ نہیں بگڑتا اسلئے کہ ائمہ اربعہ کے حوالہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ اجتہادی غلطی کا امکان ہے اور اہل تشیع کا بھی کچھ نہیں بگڑتا ہے اسلئے کہ قرآن کی درست تفسیر امام زمانہ کا حق ہے جو حالتِ غیبت میں ہیں اور شیعہ علماء کی حیثیت بھی مجتہدین کی ہے۔ البتہ قادیانیوں کا بیڑہ غرق ہوتا ہے اسلئے کہ ان کا نبی، مہدی، مسیح سب کچھ ٹائی ٹینِک جہاز کی طرح تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔

جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری نے اعترا ف کیا کہ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں جو ترمیم ہوئی تھی وہ اس کی چیئرمینی میں سینیٹ سے پاس نہ ہو۔ قومی اسمبلی سے بل پاس ہوچکا تھا، اگر سینیٹ سے بھی پاس ہوجاتا تو قانون بن جاتالیکن سینیٹ میں پاس نہیں ہوسکا ، جس کے بعد مشترکہ سیشن میں رکھا گیا اور اس میں واقعی شیخ رشید نے ہی شور مچایا تھا۔ جمعیت علماء اسلام تو ن لیگ کے دور میں حکومت کا حصہ تھی۔ اپوزیشن کے عمران خان کی جماعت نے بھی کوئی شور نہیں مچایا ،البتہ جماعت اسلامی نے مشترکہ سیشن میں مخالفت کی تھی جوشاید اسٹیبلشمنٹ سے شاکی اسلئے ہے کہ جو کام شیخ رشید سے لیا وہ ہم سے کیوں نہ لیا؟۔

تحریک لبیک کے علامہ خادم حسین رضوی نے کمال کردیا کہ حالات ایسے بنائے کہ حکومت کو نہ صرف بل سے ہاتھ اُٹھانا پڑا بلکہ متعلقہ وزیر کو بھی نکال دیا۔ البتہ جب مولانا سمیع الحق قتل کردئیے گئے اور علامہ خادم حسین رضوی گرفتار ہوئے تو بی بی آسیہ کی رہائی اور بیرون ملک بھیجنے پر علامہ خادم حسین رضوی کے جذبات ڈیلیٹ ہوگئے تھے۔ افغانستان میں طالبان اور القاعدہ والے حق کی جنگ لڑرہے ہیں یا پھر انکے خلاف جنگ لڑنے والے حق پر ہیں ؟۔ بہرحال اگر علامہ سعد رضوی کو وہاں بھیج دیا جائے تو اپنے ساتھیوں سمیت اسکے جذبات کا صحیح اندازہ لگ سکے گا۔ تحریک میں لوگوں کی طرف سے چندوں کا مزہ کچھ اور ہوتا ہے اور اصلی جہاد کچھ اور ہے۔

رسول اللہۖ کی زوجہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان لگانے والوں میں صحابہ شامل تھے۔ کیا ان کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا؟۔ سعد رضوی میں اتنی جرأت ہے کہ سورۂ نور پر بات کرسکے؟۔ ریاست مدینہ میں نبیۖ کی زوجہ اور کسی غریب کی عورت پر بہتان لگانے کی سزا ایک تھی اور وہ اسی (80)کوڑے۔ پاکستان میں لٹیروں کی ہتک عزت کا دعویٰ اربوں میں ہوتا ہے اور غریب کی ٹکے کی عزت نہیں ہوتی ہے۔

قرآن میں زنا کی سزا مرد اور عورت کیلئے سو (100) کوڑے ہے۔سورۂ نور کے بعد یاد نہیں کہ نبیۖ نے کسی کو سنگسار کیا ہو۔ بخاری میں صحابی کا قول۔ حضرت عمر سے منسوب ہے کہ” اگر مجھ پر یہ الزم نہ لگتا کہ قرآن میں اضافہ کیا ہے تو رجم کی سزا قرآن میں لکھ دیتا”۔ حضرت عائشہ سے منسوب ہے کہ” رسول اللہۖ کے وصال تک رجم اور بڑے کودودھ پلانے سے رضاعت کی آیات موجود تھیں، پھر بکری نے کھالیں”۔ جب مغیرہ ابن شعبہ پر چار گواہوں میں سے تین نے مکمل گواہی دی اور چوتھے نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن رجم سے بچانے کیلئے حضرت عمر نے بھرپور کردارادا کیا اور اس پر بخاری میں جمہور فقہاء کی تائید اور حضرت امام ابوحنیفہ کی مخالفت بھی بہت حیرت انگیز ہے۔ واقعہ بذات خود مضحکہ خیز ہے جس میںفقہی اختلافات ہیں۔

درسِ نظامی کے فقہی اصولوں سے مسائل کو سلجھایا جاسکتا ہے۔ انجینئرمحمد علی مرزا ایک اچھا انسان ہے لیکن کتابوں کی جہالت سے ناواقف ہے اسلئے وہ بھی لکھا پڑھا اعرابی بنا ہوا ہے۔ جید علماء کرام کی ٹیم کو میدان میں اترکر امت مسلمہ کی رہنمائی کرنی ہوگی۔ ہر مکتبۂ فکر کے بااعتماد لوگوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ درست اور غلط کی تعبیر سمجھ سکیں۔ اہلحدیث بیچاروں کے پاس بھی درست سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ ہماری استدعا ہے کہ اتحاد تنظیمات المدارس سے قابل لوگوں کی ٹیم تشکیل دی جائے اور قرآن وسنت کی تفسیر وتشریح اور تعلیم وتعبیر کا متفقہ حل نکال لیں اور مذہبی طبقات کی جنگ سب سے زیادہ اسلام کے خلاف جاری ہے اور لوگ ملحد بن گئے ہیں۔

اب آئیے اصل بات کی طرف۔ اگر ہماری تعبیر وتشریح ہمارے مخالفین کیلئے بھی قابلِ قبول نہ ہو تو ہم اپنے مؤقف سے بھی ہٹ جائیں گے لیکن وہ مضبوط دلیل دیں اور مخالفت برائے مخالفت کسی کیلئے بھی مفید نہیں اور نہ ہی اسلام کا کسی کو ٹھیکہ ملا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ” (الرحمنOعلّم القراٰن Oخلق الانسان Oعلّمہ البیانO الشمس والقمر بحسبان Oوالنجم والشجریسجدانOوالسمآء رفعھا ووضع المیزانOالا تطغوا فی المیزانOواقیموا الوزن بالقسط ولاتخسروا المیزانO)

”رحمن ، اس نے سکھایا قرآن، انسان کو پیدا کیااور اس کو بیان سکھایا، سورج اور چاند اپنے حساب سے ہیں اور بیل اور درخت دونوں سجدہ کرتے ہیں اور آسمان کو اس نے بلند کردیا اور میزان کاتوازن بنالیا۔ خبردار توازن میں تجاوز مت کرو۔ اوروزن کو انصاف کیساتھ قائم کرو اور میزان میں خسارہ مت کرو”۔ سورہ ٔالرحمن۔

ایک کائنات کا توازن ہے جس میں آسمان وزمین کی دو دوچیزوں سورج و چاند کا حساب سے چلنے اور زمین میں بیل و درخت کے سجدہ ریز ہونے کا ذکر کیا ہے اور اللہ نے اپنی شریعت کے احکام میں توازن رکھا ہے لیکن ہرسطح پر اس کو بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ انسانی معاشرے میں میاں بیوی کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ نے طلاق وخلع میں بہت توازن رکھا ہے لیکن مذہبی طبقات نے اس کو بگاڑ کر رکھ دیاہے۔ طلاق اور طلاق سے رجوع میں میاں بیوی کے درمیان بڑا توازن رکھا ہے لیکن مولوی نے یہ توازن کباڑ خانے سے بھی زیادہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ جب عام معاشرتی روزمرہ کے معاملات کا یہ حال ہے تو دوسری آیات کا کیا حشر کیا ہوگا؟۔

قرآن میں اللہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ” رحمن نے قرآن سکھایا ہے”۔ جب وقت کیساتھ قرآن کی آیات زیادہ سے زیادہ سمجھ میں آتی ہیں تو یہ رحمان ہی کا سکھانا ہے۔ ولہ الجوار المنشئٰت فی البحر کالاعلام ” سمندر میں پہاڑوں کی طرح جہاز کا تصور پہلے زمانے میں نہیں تھا”۔ یہ قرآن اللہ ہی انسان کو سکھا رہاہے۔ آیت کی تصدیق زمانہ کررہاہے کہ پہاڑوں جیسے جہاز اور قرآن کی وضاحت درست ہے اور انسان کا اس پر ایمان ہے اور اس میں کسی دوسرے استاذ کی ضرورت نہیں ہے۔ (کل من علیھا فان O ویبقٰی وجہ ربک ذوالجلال والاکرامO)” ہر ایک وہ ہے جس پر فنا طاری ہوگی اور تیرے ربّ کی وجہات باقی رہے گی جو جلال اور اکرام والا ہے”۔ جہاں ٹائی ٹینِک جیسے پہاڑکے برابر جہاز غرقاب ہوگئے ہیں وہاں کسی کا کوئی بڑا اور اکابرین بھی باقی نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام میںچوں چراں کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یسئلہ من فی السموٰت والارض کل یوم ھو فی شان ”سوال کرتا ہے جو آسمان اور زمین میں ہے ، ہر دن اس کی اپنی شان ہے”۔ فرشتوں نے حضرت آدم کی پیدائش اور خلیفة الارض پر سوال کیا تھا۔ حضرت ابراہیم کی مدد کا پوچھا تھا اور جب نبیۖ کو طائف کے میدان میں تکلیف پہنچائی تھی تو فرشتوں کوعذاب کی اجازت دیکر بھیجا تھا۔ لیلة القدر کی رات فرشتے اپنے رب کی اجازت سے زمین پر اترکے آتے ہیں۔ جب زمین پر اللہ کی نافرمانیوں کو دیکھتے ہیں تو فرشتے غضبناک ہوتے ہیں یہاں تک کہ قریب ہوتا ہے کہ آسمان پھٹ پڑے لیکن اللہ اجازت نہیں دیتا ہے جس کی وجہ وہ اللہ کی تسبیح وحمد بیان کرتے ہیں اور زمین والوں کیلئے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں۔ قرآن کی اس آیت کی شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ”آسان ترجمۂ قرآن میں اتنی غلط تفسیر لکھ دی ہے کہ ” فرشتے اتنی تعداد میں آسمان پر عبادت کرتے ہیں کہ قریب ہے کہ آسمان ان کے بھاری بھرکم وزن سے پھٹ جائے”۔

اللہ نے فرمایا” فاذا انشقت السمآء فکانت وردة کدھان ” جس دن (دورِ انقلاب میں)آسمان سے برکات نازل ہوں گی تو زمین گلاب کے پھول کا منظر پیش کرے گی جیسا کہ چمڑہ ہو”۔ فیؤمئذٍ لایسئل عن ذنبہ انس ولاجآن ” اس دن کسی انسان اور جن سے اسکے گناہ کا نہیں پوچھا جائے گا”۔ ”مجرموں کو انکے چہروں سے پہچانا جائے گا۔وہ پیشانی کے (پریشان )بال اور(لڑ کھڑاتے) قدموں سے پکڑے جائیں گے”۔ ”یہ وہ ( انقلاب کا ) جہنم جس کو مجرم جھٹلاتے تھے۔ وہ مجرم اور انکے گرم جوش دوست اسی حالت میں گھومتے رہیں گے”۔ ” اور جو اللہ کے ہاں کھڑے ہونے کا خوف رکھتا تھا ، اس کیلئے دو جنت ہونگے”۔” ہری بھری ڈالیوں سے بھرپور”۔ ” دونوں میں دو دو چشمیں ہوںگے بہنے والے”(گرم اور ٹھنڈے) ۔ ” ان میں ہر پھل سے دو دو قسم ہوں گے”۔ ” وہ ایسے فرشوں پر بیٹھیں گے جسکے تکیوں کے غلاف موٹے ریشم کے ہونگے اور باغوں کی ڈالیاں جھکی ہوئی ہوںگی”۔ ” اس میں ان کی حیاء والی وہ بیگمات ہوں گی جن کو انس اور جن نے کبھی چھوا نہیں ہوگا”۔ (طیبات ازواج سے کسی نے بدکاری نہیں کی ہوگی)”وہ یاقوت اور مرجان کی مانند ہونگی”۔ ” احسان کا بدلہ احسان ہی ہوتا ہے”۔ ومن دونھما جنتان ” اور اس کے علاوہ بھی دو جنت ہونگی”( اصحاب الیمین کیلئے، دنیا اور آخرت میں) ” یہ سرسبزشاداب ہونگے”” ان میں چشمیں فوارے اُبل رہے ہونگے”۔ ” ان میں پھل، کھجور اورانار ہونگے” ۔” ان میں ان کی نیک چنی ہوئی بیگمات ہوںگی”۔ ”دنیا سے آئی ہوئی سیر وتفریح کیلئے ” شہری خواتین خیموں میںٹھہرائی ہوئی ہوں گی ‘ ‘ ۔ ان کی طرف کسی کا برائی کیلئے دھیان بھی نہیں جائے گا اسلئے کہ پاکیزہ اسلامی حکومت کی مہمان ایسی فیملیاں ہوں گی جن کو اجنبی ” مردوں اور جنات نے چھوا بھی نہیں ہوگا”۔ ” یہ لوگ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے سبز قالینوں اور نادر نسلوں کے گھوڑوں پر”۔ ” بڑی برکت والا ہے تیرے رب کا نام جو جلال اور اکرام والا ہے”۔ (سورہ الرحمن)

سورہ ٔ واقعہ میں انسانوں کی تین اقسام کا ذکر ہے۔ مقربین ، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال مجرمین۔ گزشتہ شمارے میں سورہ ٔ الدہرکے حوالے سے پاکستان میں جس انقلاب کا ذکر کیا تھا ، اس کی جھلک سورۂ رحمن میں بھی ہے۔ انقلاب کب ہوگا؟ اسکا پتہ اللہ کو ہے لیکن جب طرزِ نبوت کی خلافت قائم ہوگی تو اسلامی نظام خوشیوںکا انقلاب ہوگا۔ آسمان وزمین والے حتی کے مجرم بھی خوش اسلئے ہوں گے کہ ان کو قرارِ واقعی سزا دنیا میں نہیں ملے گی۔ البتہ وہ اپنے جرائم کی وجہ سے شرمندۂ تعبیر ہونگے اور جرائم پیشہ افراد کو دنیا میں بھی مقربین اور اصحاب الیمین کے مخصوص ٹھکانے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ دنیا میں یہی ان کیلئے اس جہنم کا تصور ہوگا کہ انکے شر سے دوسرے لوگ محفوظ ہونگے۔ پاکستان اپنی معاشی حالت بھی درست کرے گا۔

جب دنیا میں انسان اچھا معاشرہ تشکیل دیگا تو جنات اور پریاں بھی اپنے ماحول میں مقربین، اصحاب الیمین اور مجرمین کے تین طبقات میں دکھائی دیں گے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟