پوسٹ تلاش کریں

محمود خان اچکزئی پی ڈی ایم (PDM)کے اصل روحِ رواں ہیں!

محمود خان اچکزئی پی ڈی ایم (PDM)کے اصل روحِ رواں ہیں! اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
خصوصی آرٹیکل

پی ڈی ایم مینار پاکستان لاہور کے جلسے میں ملی عوامی نیشنل پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی کے اصل روحِ رواں ہیں۔ اچکزئی سے ریاست اور عوام کو ہزار اختلاف ہوسکتے ہیں ۔زیادہ عرصہ کی بات نہیں ،2008ء میں محمود خان اچکزئی نے نوازشریف ، عمران خان ، جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد، ڈاکٹر طاہر القادری وغیرہ کو قائل کرلیا کہ مشرف اپنی فوجی وردی اتار نہیں دیتاتوہم انتخابات میں حصہ نہیں لیںگے۔ چنانچہ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور محمود خان اچکزئی کو چھوڑ کر نوازشریف نے باوردی پرویز مشرف کی صدارت میں انتخابات میں حصہ لیا، بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی نے مرکز میں اکثریت حاصل کرلی۔ پنجاب میں ق لیگ کیساتھ حکومت بن سکتی تھی لیکن زرداری اور نوازشریف نے پہلے آپ پہلے آپ کی صدا بلند کرتے ہوئے مرکز میں اور پنجاب میں اتحادی حکومتیں بنا ڈالیں۔ ن لیگی وزراء نے پرویزمشرف سے حلف لے لیا لیکن جاوید ہاشمی نے حلف نہیں لیا تو نوازشریف کا غدار ا ور باغی ٹھہرا۔
شہبازشریف اور چوہدری نثار تنہائی میں فوجی قیادت سے ملتے تھے جسکے نتیجے میں سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم سے نااہل کیا گیا اور زرداری کا بیان آتا تھا کہ میری لاش ایمبولینس میں جائے گی لیکن صدارت چھوڑنے والا نہیں۔ نوازشریف کالا کوٹ پہن کر باوردی کیساتھ کورٹ جاتا تھا تو تختِ لاہور نے ملتان کے باسی یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم کے محل سے نکال باہر کرنا ہی تھا۔ جب نوازشریف اور شہباز شریف نے صدر زرداریوں کی آخری حد پار کردی تو زرداری نے پرویزمشرف کایہ کہا کہ ” بلا دودھ پی جاتاہے”اور دوسری طرف نوازشریف کا کہا کہ ”مولوی نوازشریف کی کھوپڑی میں ایک لوہار کا دماغ ہے یہ سیاستدان نہیں بن سکتا”۔
روزانہ بریکنگ نیوز سمیت ہر گھنٹے کے ہیڈلائن میں صدر زرداری کو چور، منافق اور ڈکیٹ سے لیکر ایک سے ایک گالی کو سو (100)سنار اور زرداری کی گالی کو ایک لوہار کی قرار دیکر ن لیگ نے کہا کہ اس حد تک ہم نہیں گر سکتے۔ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو طالبان اور زرد صحافت کے علمبردار امریکہ کے ایجنٹ قرار دیکر قتل کرنے کے درپے رہتے تھے جو عمران خان اور نوازشریف کو اپنا نمائندہ نامزد کرتے تھے۔ اسلئے کہ پاک فوج، طالبان، عمران خان اور نوزشریف ایک پیج پر تھے۔ پیپلزپارٹی کو اقتدار اسلئے دیا گیا تھا کہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھیوں نے پاکستان نہ کھپے کا وہ نعرہ لگایا تھا کہ اگر صدر زرداری ”پاکستان کھپے” کا نعرہ نہ لگاتے تو سندھ دوسرا بنگلہ دیش بن جاتا۔ بلوچوں میں پہلے سے آزادی کی تحریک چل رہی تھی، اگر سندھ سے نعرہ اُٹھتا تو پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی اسلئے کہ ہندوستانی فوج بھی گھس آتی۔ سندھ اور پنجاب کی سرحدیں ہندوستان سے ملی ہوئی ہیں۔ سندھ میں پہلے سے بغاوت کا جذبہ تھا۔ آج پنجاب میں بھی بغاوت ہے۔ ن لیگ کے پاس نظریاتی کارکن نہیں بلکہ کرائے کے غنڈے ہیں۔ سوشل میڈیااور زمانہ کے شعور نے پنجاب میں بیداری پیدا کی ہے۔
محمود خان اچکزئی اگر مینارِ پاکستان کے جلسے میں یہ تقریر کرتا کہ ” پہلے پہلے میں اس عدالتی نظام سے بغاوت کا اعلان ہے۔ مجید اچکزئی نے دن دیہاڑے رمضان کے مہینے میں تونسہ شریف سے تعلق رکھنے والا غریب ٹریفک سارجنٹ کچل دیا مگر اس غریب کو انصاف نہیں مل سکا اور مجید اچکزئی چھوٹ گیا کہ ججوں کو ثبوت نہیں ملا، حالانکہ موقع پر موجود بھرے بازار اور میڈیا چینلوں پرقتل کی ویڈیو ریکارڈنگ دنیا نے دیکھی”۔
محمود خان اچکزئی کے اس اعلان سے پورا مجمع اور سب لوگ بہت متأثر ہوتے کہ واقعی بندہ ایمان دار ہے۔ پھر اچکزئی کہتا کہ” عدالتی فیصلہ ہے کہ جنرل اسد درانی نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے جھوٹا اسلامی اور جمہوری اتحاد بناکر نوازشریف اور جماعت اسلامی کو اقتدار سپرد کیا اور پیسے بھی دئیے۔ جب اسد درانی اعتراف کرتا ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی نے مداخلت کی ہے اور تاحال مداخلت سے باز نہیں آئی ہے تو نوازشریف کو بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ میں نے پیسہ لیا تھا اور کٹھ پتلی کی طرح استعمال ہوا تھا، اسی اقتدار سے اتنا پیسہ کمالیا کہ لندن میں فلیٹ خرید لئے۔ میں نے پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے جھوٹ بولا کہ 2005 ء میں سعودیہ کی وسیع اراضی اور دوبئی مل بیچ کر 2006ء میں لندن فلیٹ خریدے۔قطری خط لکھنے اور پھر اس سے مکر جانے کی کہانیاں گھڑنے پر قوم سے معافی مانگتا ہوں۔ پلیٹ لیٹس کی بیماری کی جھوٹی کہانی اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینے پر قوم سے معافی طلب کرتا ہوں۔ عدالتوں نے مجھے بہت کم سزا دی ، اقامہ سے بڑھ کر کرپشن کی دستانیں کھوسہ صاحب نے چھپائی ہیں وہ میرا محسن اور قوم کا مجرم ہے اسلئے کہ جس سزا کا میں مستحق تھا وہ مجھے نہیں دی گئی ہے”۔
محمود خان اچکزئی کی اس تقریر سے لوگ انقلابی بن جاتے اور بصورت دیگر کیا حکومت میں کرپشن اور عدالتی نظام سے چھوٹ کے مزے سیاستدان لیں اور بغاوت کیلئے جان ومال اور عزتوں کی قربانی دیں؟۔ جلسہ میں اگر یہ نعرہ لگتا کہ ”غلام ہیں غلام ہیں مریم نواز کے غلام ہیں، غلام ہیں غلام ہیں بلاول بھٹو کے غلام ہیں، غلام ہیں غلام ہیں مولانا فضل الرحمن کے غلام ہیں” تو بہت تگڑے نعروں سے جواب ملتے۔ اسلام کی نظر میں غلامی عبادت ہے اور اللہ کے سوا کسی کی بھی غلامی جائز نہیں ہے۔ ہمارے کلچر نے لوگوں کو اپنے بڑوں کا غلام بنادیا ہے۔ انقلاب کیلئے غلامی کا کلچر ختم کرنا پڑے گا۔
محمود خان اچکزئی نے گوجرانوالہ کے جلسے میں کہاکہ ‘ خدانخواستہ غریب لوگ اُٹھ کر امیروں کے محلات پر حملے کرکے سب کچھ تلپٹ نہ کردیں”۔ انقلاب فرانس میں وہی ہوا تھاکہ فوج امیروں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگئی تھی لیکن قبائل میں غریب اور پسماندہ لوگوں نے طالبان کی شکل میں امیروں سے انتقام لیااور پاک فوج نے بھی کسی کو بچانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ مساجد اور علماء تک کوبھی ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا۔ غریب پھر اٹھیںگے تو پٹھان طالبان کی طرح پاگل نہیں ہونگے کہ اسلحہ بردار فوجی قافلوں ، قلعوں، چھانیوں اور جی ایچ کیو (GHQ) کو بھی نشانہ بنائیں۔ پنجاب اور سندھ کے غریب اُٹھیں گے تو امیر جانیں اور غریب جانیں کی فضاء قائم ہوگی۔
محمود خان اچکزئی قابلِ صد احترام ہیں لیکن اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب عمران خان نے انکے بہکاوے میں آکر فوج کے خلاف ہر قسم کا الٹا سیدھا اول فول بکنا شروع کردیا کہ ” پندرہ ہزار کا مجمع دیکھ کر شلواریں گیلی ہوجاتی ہیں” تو اس کو پذیرائی نہیں مل سکی ، کیونکہ پاک فوج جنگجوؤں کی فضاؤں میں جان پر کھیلنے کی عادی ہے۔ اقبال کا شاعرانہ کلام ”ممولوں کو شاہیں سے لڑانے ” کی باتیں محض خام خیالی ہیں۔ انگریز اگر ہندوستان چھوڑ کر نہ جاتا توباچا خان کا عدمِ تشدد اور گاندھی کی بھوک ہڑتال اس کو نہیں نکال سکتے تھے۔ بنگلہ دیش میں بھارت کی وجہ سے پاک فوج نے ہتھیار ڈالے تھے۔ پاک عوام کبھی بھی بھارت کی فوج سے مل کر پاک فوج سے جان نہیں چھڑائے گی۔ جب عمران خان نے زرداری اور نوازشریف کو اپنا نشانہ بنانا شروع کیا تو پھر عمران خان کو بہت عوامی پذیرائی مل گئی۔ محمود خان اچکزئی نے مریم بی بی کے سامنے کچھ حقائق بیان کئے ہوتے تو عوام اور قومی لیڈر وںمیں جان پیدا ہوتی۔ہمارا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ خدانخواستہ ہم فوج کو شئے دے رہے ہیں کہ ڈٹ جاؤ۔عوام نہیں لڑسکتی ہے۔ عوام کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن عوام کو پاک فوج کے ٹاؤٹ اور باغی سیاستدان ورغلانا چھوڑ دیں کیونکہ لوگ اُٹھیں گے تو خیر کسی کی بھی نہیں ہوگی۔ طالبان نے کتنی مشکل پیدا کرلی تھی؟ ۔اگر قبائل اٹھتے تو پھر اقوام متحدہ کی فوج بھی مشکل میں پڑجاتی۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟