پوسٹ تلاش کریں

بنت الوقت کو مواقع دئیے گئے مگر کورٹ میرج والی مصنوعی قائد نے ڈیڈی کو بدنام کیا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

بنت الوقت کو مواقع دئیے گئے مگر کورٹ میرج والی مصنوعی قائد نے ڈیڈی کو بدنام کیا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

بنت الوقت کو مواقع دئیے گئے مگر کورٹ میرج والی مصنوعی قائد نے ڈیڈی کو بدنام کیا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

عمران خان وزیرستان ، بلوچستان میں فوج کا مخالف مگرووٹ ریفرنڈم میں پرویز مشرف کو دیا عدم اعتماد کی فضا ہے

نواز شریف کی انوکھی بیماری پلیٹ لیٹس کے اترنے اور چڑھنے کی طرح اسٹیبلشمنٹ سے جنگ مصنوعی کھیل سے زیادہ کچھ نہیں خواجہ سعد رفیق کا نعرہ ….

سندھ نے پاکستان بنایا مگر پختون متحدہ ہندوستان والے تھے اگر پختون کو سندھ پنجاب پاکستان سے دھکیلا تو طالبان و فوج کے مظالم بھولیں گے

سندھی قوم نے کسی پر چڑھائی نہیں کی پختون قوم ایک طرف چڑھائی پر فخر کریں اور دوسری طرف مظلومیت کا رونا روئیں ؟ تفصیل نیچے اداریہ پر دیکھئے

اپنی صحافت اور سیاست کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے کشمکش

صحافی مطیع اللہ جان کا اسلام آباد سے اغواء اور فتح جنگ کے قریب چھوڑنا موضوع بحث بنا۔ رسول بخش پلیجو نے کیا کچھ نہیں کہا مگر کرپٹ سیاستدان نہ تھے۔ بلوچ وپختون قوم پرست، سندھی ، پنجابی، مہاجر کی شکایت ملٹری ایجنسی سے ہے۔ قومی اسمبلی ، سینٹ اور صوبائی اسمبلی میں فوج کیخلاف آواز اٹھ رہی ہے۔ ANP رکن اسمبلی سردار بابک نے کہا کہ 6ستمبر کو 300 توپوں 14اگست کو 500توپوں اور 23مارچ کو 200توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ F16طیارے ہیں ۔ جدید میزائل ہیں ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر نہیں ۔ سینیٹر عثمان کاکڑ، سینیٹر مولانا عطاء الرحمن اور مولاناعبدالغفورحیدری نے افواج پاکستان کو سنائیںاور سینیٹر محمد علی سیف نے پاک فوج کا دفاع کیا۔ وزیراعظم عمران خان کی بھی فوج کیخلاف تقریریں موجود ہیں۔
پاکستان اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ فوج کی مخالفت میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، جمعیت علماء اسلام ، قوم پرست ، دانشور ، صحافی، کامریڈ، جوان طبقہ ، خواتین کی تنظیموںکااپنا اپنا انداز ہے۔ تحریک انصاف والے عمران خان سے برگشتہ نہیں تو فوج پر یہ الزام دھر تے ہیں کہ کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ اس چھوٹے سے اخبار کے ذریعے سے پورے حقائق نہیں پہنچاسکتے ہیں لیکن مہنگائی ، بیروزگاری، سیاسی و صحافتی اور ریاستی بدچلنی سے تنگ عوام اٹھی توخون کا منظرہوگا مگر یہ کسی کیلئے بھی اچھا نہیں۔ عمران خان سوشل میڈیا پراپنی ہر بات سے پھرکی کی طرح حدِ رفتار 120کلومیٹر فی گھنٹہ سے گھوم رہا ہے۔ ڈر ہے کہ اسکرو ڈھیلے ہوکر سلپ نہ کرجائیں اورپرانا فوجی ساخت ہیلی کاپٹر گر کر تباہ نہ ہو۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ہیلی کاپٹر کو ہوا میں اڑانے والا انجن جہانگیر ترین فیل ہوکر کنارہ کش ہوااور اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ۔
عمران خان فوج کو گالی دیتا رہا ۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو ایکس ٹینشن کیلئے جو پاپڑ بیلنے پڑے، کفارہ چکانے کیلئے عمران خان کی نااہلیت کو چھپائیں گے تو حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے، پاکستان ایک بدترین دلدل میں پھنس چکا ۔مالی، اخلاقی، شرعی، قانونی اور ہرطرح کا بحران برپا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی بیگم کو اتنی دولت کس نے دی؟۔ کرپٹ مافیا جج اور صحافی کو نہیں خرید سکتا؟۔ وکلاء نے بڑی تعداد میں عدالت کیخلاف نعرہ لگانے کے بجائے ”یہ جو دہشت گردی ہے ،اسکے پیچھے وردی ہے” کا نعرہ لگایا۔پاڑا چنار میں دھماکے کے بعد فوج پہنچی تو عوام نے پتھروں سے دوڑیں لگوادیں ۔عیدک شمالی وزیرستان میں فوج کی کانوائے کو نعروں سے ریس کرایا گیا۔ وقت ہاتھ سے نکلا تو پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ مسمار ہوجائیگا۔ ڈھانچہ مسمار ہومگر افراتفری مچے اورنہ ایکدوسرے کاہم خون بہائیں ۔
پتہ نہیں کہ جوفوج کی حمایت یا مخالفت کرتاہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟۔ رسول بخش پلیجو نے کہاتھا”پاکستان توڑنے یا پنجابیوں کو تباہ کرنے کی باتیں کرنے والوں کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ کوئی سنجیدہ سندھی پاکستان توڑنے اور پنجاب سے لڑنے کی بات نہیں کرتا۔ دو ٹکے کا آدمی کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ آرمی آئے اور ہمیں ایجنٹ ثابت کرے”۔ عمران خان وزیرستان و بلوچستان میں فوج کا مخالف مگرووٹ ریفرنڈم میں پرویز مشرف کو دیا۔ امریکہ نے گڈ، بیڈ طالبان کہااور ہماری ایجنسیاں عمل پیرا تھیں مگر عوام کوحقیقت معلوم نہ ہوسکی۔ عدمِ اعتماد کی فضاء میں کوئی کسی پر اعتماد کیلئے تیار نہیں۔ طارق اسماعیل ساگرنے بلیک واٹر کے حوالے سے انکشافات کئے ۔ اس روش سے پاکستان اور ہماری عوام کا مستقبل یقیناخطرے میں ہے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بڑی قوت مسلم لیگ کے قائد نواز شریف اور اسکی بیٹی مریم نواز کو قرار دیا جاتا ہے۔ نواز شریف کی بڑی انوکھی بیماری پلیٹ لیٹس کے اترنے اور چڑھنے کی طرح اسٹیبلشمنٹ سے جنگ مصنوعی کھیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے حق میں جج بولے تو خواجہ نے بھونڈے انداز میں نعرہ لگایا کہ
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے
خواجہ سعد رفیق سے کوئی پوچھے کہ نواز شریف کو کیا مرد نہیں سمجھتے؟ جو بیماری کا بہانہ کرکے بھاگے؟،مریم نواز مرد نہیں جو یہ شعر پڑھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف پر رحمن ملک نے اسوقت کیس بنایا جب پیپلز پارٹی کے دور میں آئی بی کا ڈائریکٹر تھا۔ لندن فلیٹ سول اداروں کے ذریعے پوری تفتیش کے بعد نواز شریف کے نکلے۔ پھر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرکے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کی گئی۔ فاروق لغاری نے کردار ادا کیا جو بعد میں ن لیگ سے ملا ۔اسکے بچے ن لیگ ، ق لیگ اور تحریک انصاف سے ہوتے ہوئے ہر سیاسی جمہوری حکومت کے کیمپوں میں کیمپیئن چلاتے ہیں۔
ن لیگ کی حکومت میںسیف الرحمن نے سرے محل سوئٹزرلینڈ کے اکاؤنٹ اور دوسرے کرپشن کے کیس پیپلز پارٹی کے خلاف چلائے۔ جنرل پرویز مشرف فضا میں تھے کہ اس کی حکومت قائم کرکے ن لیگ کا تختہ الٹ دیا گیا۔ نواز شریف دس سال کا معاہدہ کرکے سعودیہ گئے۔ پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو شہباز شریف زرداری کو چوکوں پر لٹکانے کی بات کرتا تھا۔ پھر مرکز میں ن لیگ کی حکومت آئی تو نواز شریف نے پانامہ لیکس سے پہلے پارلیمنٹ میں تحریری تقریر پڑھ کر سنائی کہ 2005ء میں سعودیہ کی اراضی اور دوبئی مل بیچ کر لندن کے یہ فلیٹ خریدے۔ حالانکہ میڈیا پر ن لیگ کے سینئر ترین رہنماؤں کے بیانات موجود تھے کہ بیس، پچیس، تیس سالوں سے یہ نواز شریف کی ملکیت ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو میاں نواز شریف نے بڑی دہائیاں دیں کہ بچاؤ لیکن جس راحیل شریف نے کرپٹ فوجیوں کیخلاف اقدامات اٹھائے تھے وہ نواز شریف کو کیوں بچاتے؟۔ جنگ اور جیو نے پیپلز پارٹی کے وزیر مذہبی امور مولانا حامد سعید کاظمی کیخلاف جھوٹی شہہ سرخیاں لگائیں کہ کرپشن کا اعتراف کرلیا لیکن نواز شریف کو بچانے کی مہم جوئی میں وکیلوں سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ بہادری کوسلام مگر مفادپرستی میں ہے کلام۔
صحافت کا نام مقدس ہے ۔ قرآن میں صحف ابراہیم و موسیٰ کا ذکر ہے۔یعنی ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے صحیفے۔ اس مقدس پیشے کا قانونی تقاضہ یہ ہے کہ کرائے کی وکالت سے صحافت کو بدنام نہ کیا جائے۔ حکومت صحافت کی قانونی اجازت اسی وقت دیتی ہے جب غیر جانبدارانہ صحافت یقینی بن جائے۔ عورت کا شوہر سے نکاح ہو تو بدچلنی اور بے راہروی کو آزادی کا نام نہیں دے سکتے۔ خرچہ پانی لیکر وکالت کرنا صحافت کی توہین ہے۔ مطیع اللہ جان کی تصویر سوشل میڈیا پر آئی تھی جس میں سلمان شہباز، حسین نواز اور حسن نواز کیساتھ بیٹھے ہیں اور کیمرے سے بچنے کیلئے نام نہاد سیاسی خانوادہ منہ چھپا رہاہے۔ ہوسکتا ہے کہ حصہ وصول کیلئے ان کو اغوا کیا گیا ہو۔ حقائق پہنچانے میں خیانت ہوتی ہے۔ عوام سیاسی خانوادوں سے تو پہلے ہی بدظن تھے مگر اب فوج کیخلاف آنکھیں بہت تیزی سے کھل رہی ہیں۔ فوج کی وکالت الطاف حسین کے پسماندگان کریں۔ سینیٹر سیف با صلاحیت ہونگے مگر سوات سے الیکشن نہیں جیتے۔ ایم کیو ایم کی حیثیت سرکٹی ہے جسکا دل تو ہوسکتا ہے مگر دماغ نہیں اسلئے سینیٹر سیف نے کہا کہ کشمیر فتح کرنے آپ آگے بڑھیں فوج آپکے پیچھے ہے۔ استحکام پاکستان اتحاد کی چیئر پرسن ساجدہ احمد کا بیان دیکھا جس میں وہ افغانی کا کہہ رہی ہیں کہ ”پشتین کے پاس شلوار کے علاوہ کچھ نہیں رہا تو اس نے کہا کہ شلوار اتارنے کے بجائے میں خود ہی بتادوں کہ گند والا بیر کھالیا ہے۔ یہ گند کھانے والے افغانی پاکستانی پختون بھائیوں کو گل خان کہتے ہیں…”۔ ساجدہ احمد کے چہرے اور آواز کی خوبصورتی اپنی جگہ مگر کیا یہ پی ٹی ایم کے مبارزین کو معقول جواب ہے؟۔ مہاجرین کے نام پر اختر عبد الرحمن نے کتنا مال کمایا ؟ ۔ بیٹے سیاسی جماعتیں بدل بدل کراپنے بدن پر شلواربھی نہیں چھوڑتے ۔بدبودارو زور دار ہوا خارج کرکے پھٹی شلوار نہیں سل سکتی ۔صوبائی،قومی اسمبلی اور سینٹ میں اٹھنے والی آوازیںخطرناک ہیں۔ افراتفری پھیلی توعوام کیساتھ بڑی تعداد میں طالبان کو بھی میدان میں اتارا جائیگا۔ جنگ ومحبت میں ہر چیز کو جائز سمجھنے والی قوم حشر برپا کرے گی تو مٹک مٹک کر بیان دینے والیوں کو خوابگاہوں میں بھی آرام نہیں آئیگا۔
پختونوں نے سندھ ، کراچی ، پاکستان کی ریاست سے بہت فائدے حاصل کئے، رسول بخش پلیجو کی طرح ہم خود کو بہت تہذیب یافتہ بھی نہیں کہہ سکتے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی ترجمہ کیا تو دو سال تک روپوش رہنا پڑا تھا اسلئے کہ ملا نے قتل کے فتوے جاری کئے تھے۔ یہ تو دینِ اکبری اور فتاویٰ عالمگیری مرتب کرنے والوں کا حال تھا مگر جب شاہ ولی اللہ کے صاحبزادوں نے قرآن کا اردو میں ترجمہ کیااور پھر تمام زبانوں میں تقریباً تراجم ہوچکے تھے تو پنجابی پختون مکس علاقہ چھجھ کا ایک پختون عالم مولانا غرغرشتو نے پشتو میں قرآن کا ترجمہ کیا۔ جس پر پختون علماء نے ان پر کفر اور قتل کے فتوے لگائے۔شاہ ولی اللہ سے بھی700سال پہلے سندھی میں قرآن کا ترجمہ ہوچکا تھا۔ رسول بخش پلیجونے ڈاکو کا الزام ریاست پر لگایا اسلئے کہ ریاست کیلئے ڈاکو ختم کرنا مسئلہ نہ تھا۔ سندھی قوم نے کسی پر چڑھائی نہیں کی۔ پختون ایک طرف چڑھائی پر فخر کریںاور دوسری طرف مظلومیت کا رونا روئیں؟۔ پختون کو کسی نے مجبور نہ کیا، جذبے اور مفاد کیلئے طالبان بن گئے۔محمود اچکزئی کہتا تھا کہ ریاست طالبان کو ختم کرسکتی ہے ، اقدام اٹھایا تو ظلم کا الزام لگایا؟۔انگریز سے ٹکر لینے والوں کو جرمنی سے امداد ملتی تھی۔ عبدالغفار خان اور عبدالصمد خان شہید نے مزدوری کرکے بچوں کو لندن میں تعلیم نہیں دلائی تھی۔ اگر متحدہ ہندوستان ہوتا توپھر پختون نسبتاً زیادہ بڑی ریاست سے حقوق لے سکتے تھے؟۔ علیحدگی پسندی کی تحریک سے سرحدی گاندھی اورخان شہید کی روحوں کو قرار ملے گا؟۔ سندھ نے پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا مگر پختون متحدہ ہندوستان والے تھے۔اگر پختو ن کو سندھ، پنجاب اور پاکستان سے دھکیلاگیا توطالبان اور فوج کے مظالم بھول جائیں گے۔ ڈاکٹر اسرار کی کلپ ہے کہ ”جماعت اسلامی کے میاں طفیل نے کہا کہ سندھی بزدل ہیں فوج میں بھرتی نہیں ہوتے ، جسکا جواب غلام مصطفی شاہ نے دیا کہ سندھی کوئی کرائے کے ٹٹو نہیں ”۔ اسلئے سندھیوں کو فوج میں کم ہونیکا گلہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک شریف الطبع انسان لگتے ہیں۔ دوسری مدت ملازمت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔ اوریا مقبول جان کی کسی بات پر اعتماد کرنا لوگوں کیلئے بڑا مشکل ہے۔ انہوں نے کسی بزرگ کا خواب بتایا کہ” جنرل باجوہ کو رسول اللہ ۖ نے خواب میں تحفہ دیا تو باجوہ نے بائیں ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی اور پھر حضرت عمر نے جنرل باجوہ کا دایاں ہاتھ تحفے کیلئے بڑھایا۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب باجوہ کے آرمی چیف بننے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا”۔
قوم کیساتھ جو کھیل کھیلا جارہا ہے یہ بایاں ہاتھ ہی شاید استعمال ہورہا ہے۔ اب جنرل باجوہ کو چاہیے کہ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد کیلئے دو ٹوک انداز میں اپنی کور کمانڈر کانفرنس بلا کر سب سے پہلے پارلیمنٹ کے سامنے شکریہ کیساتھ یہ بات رکھ دیں کہ آرمی،فضائیہ ، نیوی کے چیف کے ایکس ٹینشن کا قانون پارلیمنٹ واپس لے۔ اب ہمیں پارلیمنٹ کی اسطرح کی قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں اور حکومتوںکو عدمِ استحکام کا شکار کرنے کیساتھ ساتھ پارلیمنٹ اور فوج کے اندرونی پوزیشن کو بھی خطرات سے دوچار کرنے کا بدترین ذریعہ ہوگا۔
دوسرے نمبر پر پارلیمنٹ سے ایسی قانون سازی کروائیں کہ فوج اپنا کرپٹ طبقہ گرفت میں لانے کیلئے دنیا بھر سے پکڑ کر عدلیہ کے سامنے کھڑا کردے۔ جہاں سزا نہیںکہ ججوں کے ہاتھ قیدی کی طرح قانون سے بندھے ہیں۔ کرائے کا وکیل انصاف کی بجائے اندھیر نگری کی یاد دلادیتا ہے۔ پارلیمنٹ وہ قانون سازی کرے کہ جرائم اور کرپشن جو عوام کودکھتے ہیں جج کو بھی دکھائی دیں۔ نیب کا قانون بجا طورپر غلط استعمال ہوا مگر یہ اللہ کافضل ہے کہ تخت لاہور کے دُرِ یتیم خواجہ سراؤںکو دیکھ کر عدلیہ کے رحم مادر سے رحم کا درد تو آخر اٹھا۔ شاہ رُخ جتوئی کو دبئی سے لایا لیکن پنجاب کی بیوہ اپنے اکلوتے بیٹے کے قتل کا مقدمہ واپس لینے پر اسلئے مجبور ہوئی کہ اس کو اپنی جوان بچیوں کی عزتوں کا خطرہ تھا۔ وہ سپریم کورٹ کے سامنے اپنا احوال سنارہی تھی۔ اسکے بیٹے کو ن لیگ کے صدیق کانجو کے بیٹے نے نشے میں دھت اور بدمست ہوکر شہید کیا تھا۔ نیب بے موسم بارش کی طرح برسی اور نہ ٹڈی دل کی طرح فصلوں پر حملہ کیا بلکہ یہ کہانی ہے۔ فوج کے بریگیڈیئر اسد منیر نے نیب سے خودکشی کرلی۔ عدالت اپنا کام اپنے وجود کے وقت سے درست کرتی تو احتساب عدالت ، نیب اور ماورائے عدالت قتل کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ مکافات عمل کب تک جاری رہے گا؟۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی عدل و انصاف کا صرف نام ہی لیا۔
Kالیکٹرک اور واپڈا ظلم کی انتہا کرتے ہیں۔ چوری بھی ہوتی ہے سینہ زوری بھی لیکن سبسڈی کے نام پر بہت کچھ مل بانٹ کر کھایا جاتا ہے۔ اگر ریاست عوام کو اجازت دے تو Kالیکٹرک اور واپڈا کے تمام دفاتر اور تنصیبات نذر آتش کی جائیں گی۔ پھر وہ جو آنکھ مچولی ہوتی ہے وہ بھی نہیں رہے گی اور مشکل بڑھ جائے گی۔
ریاست اپنے فرائض منصبی پورا کرنے کیلئے اپنے ملازمین سے کام لیتی ہے اور نوکر پیشہ لوگوں کا اپنا کوئی ویژن نہیں ہوسکتا۔ قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے قیادت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن قیادت نوکر پیشہ لوگوں کے ذریعے سے پیدا نہیں کی جاسکتی۔ بنت الوقت کو تخلیق کرکے مواقع دئیے گئے مگر بغاوت کرکے کورٹ میرج کرنے والی لاڈلی بیٹیوں کی طرح مصنوعی قائد نے ڈیڈی کو بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پاکستان میں امامت کا کردار کورٹ میرج والی روبوٹ ادا نہیں کرسکتی ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ ” سمندر اور خشکی میں فساد برپا ہوا بسبب جو لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے کمایا”۔ اسٹیفن ہاکنگ نے آخری کتاب میں لکھا ”دنیاکو سب سے بڑا خطرہ روبوٹوں سے ہوگا جو انسان نے بنائے ہونگے”۔ رسول اللہۖ کی شکایت پر غور کریں کہ ” میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ گھراور معاشرے سے ہمارا نظام درست ہوگا تو عالمِ انسانیت کو نیا نظام ہم دے سکتے ہیں۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟