پوسٹ تلاش کریں

مولانا فضل الرحمن کی سیاست اورپاکستان کی ریاست

مولانا فضل الرحمن کی سیاست اورپاکستان کی ریاست اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جب دبئی کے بعد سعودیہ اور پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات سامنے آئی تو مولانا فضل الرحمن نے باچا خان مرکز پشاور میں صحافیوں کو بڑا سخت مؤقف پیش کیا اور دبئی کے حکمرانوں کو کٹھ پتلی قرار دیا۔صحافی سلیم صافی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ ”مولانا فضل الرحمن نے سفارتی آداب کو بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھا ۔ حالانکہ مولانا کا امارات ،سعودیہ اور عرب ممالک کیساتھ بہت خوشگوار تعلق ہے”۔
صحافی عمران خان بہت گھٹیا انداز میں میاں افتخار حسین کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیکر مولانا فضل الرحمن پر برس پڑا تھا کہ ”دبئی اور سعودیہ سے چندہ آتاہے اسلئے مولانا فضل الرحمن میاں افتخار حسین کی باتوں پرخاموش تھے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سازش میں شریک ہیں”۔ صحافی عمران خان کا کردار دیکھ کر مجھے گھر کے پاس فالتو کتیا یاد آگئی، جس نے قریب میں بچے دئیے تھے تو مجھے اس پر رحم آتا اور گھر میں بول دیا تھا کہ اس کو کھانا ڈال دیا کریں۔ کئی دفعہ دیکھا کہ کتیا ہمیں دیکھ کر اِدھر اُدھر دوڑ کر بھونکنا شروع کردیتی ہے تو یہ جان لیا کہ بے چاری ہمیں خوش کررہی ہے کہ وہ ڈیوٹی دے رہی ہے۔ حالانکہ وہاں پر بھونکنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی۔ کوئی توہم پرست ہوتا تو یہ سمجھتا کہ جنات دیکھ کر شاید بھونکتی ہے لیکن ہمیں اس کی چالاکی یا بیوقوفی کا پتہ چل گیا۔
عارف حمید بھٹی نے جس طرح سکندر مرزا سے نوازشریف اور ایوب خان سے جنرل ضیاء الحق یاپرویزمشرف تک اپنی کم عقلی اور جہالت کا نقشہ پیش کرکے سیاستدان پر کیچڑ اچھالنے کی ناکام کوشش کی ہے وہ سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ پاک فوج واقعی میں بڑی بدقسمت ہے کہ کھلم کھلا حمایت کرنے والے صحافی صابر شاکر، چوہدری غلام حسین، عمران خان، عارف حمید بھٹی اور کئی الیکٹرانک و سوشل میڈیا والے صبح سے گیدڑوں کی طرح مکروہ آوازیں نکالنا شروع کرتے ہیںکہ شام ہوجاتی ہے بلکہ رات گئے تک شغل رہتا ہے وزیراعظم عمران خان اور اسکے ساتھیوں کا اس سے زیادہ برا حال ہے۔ شوکت بسرا حافظ حمداللہ کو فوج کے خلاف اُکسارہاتھا کہ جی ایچ کیو (GHQ)پر چڑھائی کرو گے یا نہیں؟۔ اور یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان بہادر کی ہزارہ کے پاس جانے پربھی ہوا خارج ہورہی ہے۔شوکت بسرا پیپلزپارٹی کا بھگوڑا ہے جو گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔ یوتھیے بہت بے شرمی سے گیدڑوں کی جھنکار میں اپوزیشن اور پاک فوج کے درمیان فساد کا بازار گرم کرنیکی خواہش رکھتے ہیں لیکن اس فساد میں نقصان پاکستان اور عوام ہی کا ہوگا۔
انسان کو اللہ نے کمزور قرار دیا ہے۔ طاقتور طبقہ تو بہت بڑی بات ہے ،ہم تو فالتو کتوں سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ انسان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ جائے نماز پر کھڑا ہو یا تخت وتاج کا مالک ہو ،بہرحال وہ ایک بے کار کھاد کی مشین بھی ہے۔ جب وہ تھوڑی عزت دیکھ لیتا ہے تو اپنی یہ اوقات بھول جاتا ہے کہ وہ دن میں کتنی بہترین چیز سے پوٹی اور پیشاب کی پیداوار بنالیتا ہے۔ اپنی ساری کمزوریوں کو بھلا کر خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھنے لگ جاتا ہے۔ حالانکہ وہ بھی ایک انسان ہی ہوتا ہے جو دوسروں کی خوبی اور اپنی کمزوری سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ کب انسان اپنی انسانیت پر رہتا ہے اور کب انسانیت سے گر کر جانور سے بھی بدتربنتاہے۔
کتے بہت وفادار بھی ہوتے ہیں۔کام بھی آتے ہیں اور سمجھدار بھی ہوتے ہیں۔ مولانا عبداللہ شاہ نے پٹھانوں کے پاس رسول اللہۖ کے صحابہ کا ذکر کیا ہے اور پھر پٹھانوں کے وفدکا نبیۖ سے براہِ راست ملنے کا ذکر کیا ہے ۔ پٹھانوں کو بنی اسرائیل کے بارہ میں سے دوقبائل قرار دیا ہے۔ پشتو بولنے والے افغانوں کو پشتون اور غیر پشتو بولنے والوں کو راجپوت پٹھان قرار دیا ہے کہ دونوں عربی لفظ سے بگڑ کربنے ہیں جو کشتی کے مضبوط حصے کو کہتے ہیں۔ نبیۖ نے فتحان کہا، جس سے پختانہ اور پٹھان بن گیا۔ مولانا عبداللہ شاہ نے محمود غزنویکا قصہ بتایا کہ چوروں کا گروہ بیٹھا ہوا تھا۔ محمود غزنوی ان سے مل گیا۔ چوروں میں سے ایک ایک نے اپنی اپنی خاصیت بیان کی۔ ایک نے کہا کہ میں جانور کی آواز کو جانتا ہوں، دوسرے نے کہا کہ جب کوئی شخص مجھ سے ایک بار ملے تو اس کا روپ کتنا بدل جائے پھر بھی پہچان لیتا ہوں۔ ایک نے کہا کہ مضبوط دیوار میں آرام سے سوراخ کرکے راستہ بناسکتا ہوں، ایک نے کہا کہ میں سونگھ کر قیمتی اشیاء کا پتہ لگا سکتا ہوں۔ محمود غزنوی سے کہا کہ تمہارے اندر کیا خوبی ہے؟، اس نے کہا کہ میں داڑھی ہلا دوں تو پھانسی کے پھندے سے رہائی دلاسکتا ہوں۔ چوروں نے فیصلہ کیا کہ سب اپنی اپنی جگہ پر بہت خوبیاں رکھتے ہیں اور پھانسی کے پھندے سے مجرم کو چھڑانیوالا چور تو ہم سب سے زیادہ مفید ہے ، لہٰذا ہم بادشاہ کا گھر لوٹ لیتے ہیں۔ رات کو چور شہر پہنچے تو کتے بھونکنے لگے۔ ایک کتے نے مخصوص آواز نکالی تو دوسرے کتے چپ ہوگئے۔ رات کو چور بہت بڑی چوری کرکے سومنات کے لوٹے ہوئے خزانوں پر ہاتھ صاف کر گئے اور مال تقسیم ہوا۔ سب اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔ صبح ہوئی تو بادشاہ کا تخت سج گیا اور چوروں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر لایا گیا ۔ محمود غزنوی بہت غصہ میں تھے کہ یہ لوگ بادشاہ کے گھر پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کیسے کرگئے۔ سب کو پھانسی دیدو۔ پھانسی سے پہلے سب کو اپنی آخری خواہش کے اظہار کا موقع دیاگیا۔ سب نے باری باری اپنی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ جو جانور کی آواز پہچانتا تھا ، اس نے کہا کہ ایک کتے کی آواز سے پتہ چلا کہ بادشاہ بھی ہمارے ساتھ شریک تھا، جس کو روپ بدلنے کے باوجود آدمی کو پہچانے کی مہارت تھی اس نے کہا کہ محمود غزنوی ہمارے ساتھ شریک تھے۔ جس میں ہمت اور جرأت کا مادہ تھا تو اس نے بادشاہ کے جذبات کو نظرا نداز کرتے ہوئے کہا کہ سب نے اپنے فن کا مظاہر ہ کیا ، لہٰذا اب آپ بھی داڑھی ہلائیں اور ہمیں پھانسی سے چھٹکارا دلائیں۔ چنانچہ بادشاہ محمود غزنوی نے داڑھی ہلا کر سب کو بخش دیا تھا۔
آج پاکستان کیلئے اندونِ خانہ اور بیرونی ممالک سے جن خطرات کا سامنا ہے ملک کی سلامتی داؤ پر لگی ہے۔ بے خبر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بھونک رہے ہیں، کوئی باخبر سب کو خاموش کرکے بادشاہ کے شریک جرم کی خبر دے رہا ہے۔ سارے چور اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان، جج اور مقتدر حلقے حکومت اور اپوزشن سبھی اپنا اپنا کردار بحسن و خوبی ادا کررہے ہیں۔ کسی نے بھی محنت مزدوری نہیں کی ۔ غزنوی نے سومنات کو لوٹا تھا اورچوروں نے خوشحال رعایا سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا اور آخر کا ر بادشاہ جب چوروں کیساتھ خود شریکِ کار بن گیا تو بادشاہ کے گھر پر بھی نقب لگا۔ چور ایک سے ایک اپنی مہارت رکھتا تھا اور پھانسی کے حکم تک بات پہنچ گئی اسلئے کہ سب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ لیکن آخر کار سب کو معاف کیا گیا کیونکہ بادشاہ سلامت نے اپنا وعدہ پورا کرلیا۔ امریکہ اور دوسری دنیا سے جتنی امداد ملی ہے پاکستان اسکے ذریعے سے یورپ بن سکتا تھا لیکن سینٹرل چور اسٹیبلیشمنٹ بے تاج بادشاہ کیساتھ دوسرے بھی بھرپور طریقے سے شریک تھے۔ اب ملک میں بادشاہ بھی لٹ جائے تو پھر آخر کار نتیجہ خیر کی شکل میں نکلے گا۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ ، جے یوآئی،جماعت اسلامی ، اپوزیشن کی دیگرجماعتیں سب مل کر جی ایچ کیو (GHQ)پر نقب لگارہی ہیں لیکن انشاء اللہ پاکستان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ بحران کھڑا ہوگا لیکن نتیجہ خیر ہی کی شکل میں نکلے گا۔ سوشل میڈیا کے صحافی سید عمران شفقت اپنی دانش اور حرکتوں سے نوازشریف کے بغل کے بال صاف کرنے والا نائی لگتا ہے۔ وہ کہہ رہاہے کہ میری حیثیت صحافی کی ہے اور سیاستدان بڑی چیز ہوتی ہے ، نوازشریف کا مقصد ن لیگ والے نے بتادیا کہ ”عمران خان کو ڈھائی سال پورے کرنے دینے ہیں، صرف فوج اور عمران خان کو گندا کرنا مقصود ہے”۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟