پوسٹ تلاش کریں

عورت کے مظالم پر سب لوگوں کا اجتماعی شعور کیوں چپ ہوتا ہے؟ ہدیٰ بھرگڑی

عورت کے مظالم پر سب لوگوں کا اجتماعی شعور کیوں چپ ہوتا ہے؟ ہدیٰ بھرگڑی اخبار: نوشتہ دیوار

عورت کے مظالم پر سب لوگوں کا Collective Consciousnessاجتماعی شعور کیوں چپ ہوتا ہے؟ ہدیٰ بھرگڑی

محترمہ ہدیٰ بھرگڑی 5جولائی2020ئ( ویڈیو: بیان)
پاکستان وہ واحد ریاست ہے جس میں اسی سال مارچ کے اندر عورت آزادی مارچ میںدن دیہاڑے عورتوں پر پتھر برسائے گئے۔ کیونکہ انہوںنے اپنا سیاسی حق استعمال کیا۔ اور آج ہمیں یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ جامشورو سندھ کے اندر ایک خاتون ہیں جن کے اوپر سنگباری کرکے اس کو قتل کردیا گیا۔ جس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہم ہر طرح کی سیاسی بحث میں تو ضرور آتے ہیں اور ہم تیار رہتے ہیں کہ ہر مسئلے کے اوپر بات کریں چاہے وہ غربت کا مسئلہ ہو، مذہبی انتہا پسندی کا مسئلہ ہو، رجعت پسندی کا مسئلہ ہو، حکومت کی ناسازگار جو پالیسیاں ہیں اور طریقہ کارہیں ان کا مسئلہ ہو، چاہے وہ فیڈرل بجٹ کی بات ہو یا اس کے علاوہ جو دیگر مسائل ہیںاور اس طرح کی چیزیں ہیں جن کے اوپر ہم دیکھتے ہیں کہ اجتماعی شعور ہمارے ملک میں تو اس کے اوپر کچھ نہ کچھ بات کرنا بھی ضروری سمجھی جاتی ہے اور اس بات کو سیاسی انداز میں دیکھنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب عورت کے اوپر مظالم اٹھتے ہیں اور جب عورت کا استحصال ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب دن دیہاڑے عورت کو سنگسار کردیا جاتا ہے چاہے وہ ایک مارچ کی صورت میں ہو جو اسلام آباد میں ہوا، یا آج کے دن میں جو جامشورو کے اندر خاتون پر مظالم ہوئے تو سوال ہم پر ہم سب کی نظر میں یہی اٹھتا ہے کہ عورت کے مظالم پر سب لوگوں کا (collective consciousness) اجتماعی شعور کیوں چپ ہوتا ہے؟ سب کے سب کیوں چپ کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ چاہے وہ اس ملک کے کسی بھی صوبے کا (national intellectual elite) قومی دانشور طبقہ ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے وہ sexسے تعلق رکھنے والے لوگ ہی کیوں نہ ہوں؟ چاہے وہ بہت ہی زیادہ سیکولرازم کو پروموٹ کرنے والے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، سمجھ میں یہ نہیں آتا ہے کہ یہ سب گروپ جو ہیں انکے تمام دانشور ان کی تمام کی تمام دانشوری اس وقت چپ کیوں ہوتی ہے جب عورت کا استحصال سر عام ہوتا ہے اور اس پر آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی۔ اس کے اوپر کسی مہم کا آغاز کرنے کا سوال کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟۔ ہم عورتیں اور ہماری تنظیمیں تو یہ کام کرتی آرہی ہیں لیکن ہمیں آج تک ایک ہی مسئلے کا سامنا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورتیں ہر قسم کے کلاس ایشو سے لیکر نیشنل ایشو تک ہر طبقے کے انسان کے ساتھ ضرورکھڑی ہوتی ہیں، Feminism Intersectionality پر یقین رکھتی ہیں اور Feministتنظیم اس پر مسئلے پر آگے آگے رہتی ہے۔ لیکن جب عورت کا استحصال ہوتا ہے تو یہ نیشنلسٹ پارٹیز کے رہنما کہاں چلے جاتے ہیں؟۔ سیکولر ازم کو پروموٹ کرنے والے لوگ کہاں چلے جاتے ہیں؟ نیشنلزم، صوبائی خود مختاری اور خود کو پروگریسو سمجھنے والے سب کا اجتماعی شعور عورت کے استحصال پر آخر چپ کیوں ہے؟۔ وہ لوگ اس مسئلے پر اپنی آواز کیوں بلند نہیںکررہے؟کیا Feminist تنظیموں کا یہ حق ہے کہ وہ ہر مسئلے پر ساتھ ساتھ کھڑی رہیں اور اپنی آواز بھی بلند کرتی رہیں چاہے وہ سیکولر ایشو کیوں نہ ہو، چاہے وہ نیشنل آپریشن کیوں نہ ہو، چاہے وہ کلاس آپریش کیوں نہ ہو، لیکن جب یہ جنس کے خلاف آپریشن ہو اور جب پدر شاہی کے خلاف کوئی بات ہو یا عورتیں پدر شاہی کے خلاف آواز بلند کررہی ہوں تو کیوں ہمارے معاشرے کے یہ عناصر چپ کی سادھ لیتے ہیں۔ یہی ابھی سندھ میں ہورہا ہے۔ اگر میں سندھ کی مثال دوں کیونکہ میں خود سندھ سے ہوں تو میں بھی یہ یقین کرنے پر بضد ہوں کہ سندھ کا کوئی بھی مسئلہ ہوتا ہے وہاں کے لوگوں کا اگر کسی قسم کا استحصال ہوتا ہے تو ہم نے دیکھا ہے کہ عورتوں کے حقوق کی تنظیمیں ہمیشہ قوم کے اجتماعی شعور کے ساتھ کھڑی رہی ہیں اور انہوں نے اپنی آواز کو بلند کیا ہے۔ لیکن اگر یہی بات مان لی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم ان دانشوروں کو بھی خاموش پاتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کا دوہرا معیار ہے۔ آپ کی جدوجہد اگر آپریشن کے خلاف ہے ، وہ اگر غلامی اور استحصال کے خلاف ہے تو آپ کی وہ جدوجہد اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک وہ پدر شاہی کی جدوجہد کے خلاف نہیں ہوتی۔ آپ کی وہ جدوجہد تب تک صحیح نہیں سمجھی جائے گی جب تک آپ اپنی آوازیں ، آپ اپنے ذرائع پدر شاہی کے خلاف نہیں اٹھاؤ گے ۔ یہ بہت کڑا وقت ہے اور ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اپنے اپنے بریکٹ میں رہ کر اپنی اپنی سیاست لڑنے سے آپ اس نظام کو آپ اس معاشرے کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ اس نظام کی تبدیلی تبھی ممکن ہے جب اس ملک میں ہونے والے ہر طبقے اور ہر جنس کے اوپر جو جو پالیسیز، امتیازی سلوک اور عورتوں سے نفرت کا سلوک کیا جاتا ہے جب تک آپ ان کا بھی مقابلہ نہیں کریں گے تب تک کوئی بھی آزاد نہیں ہوگا۔ نسوانی جدوجہد کرنے والا طبقہ اس بات کو کافی حد تک مان چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی تنظیمیں یہاں اس بات کو مانتی ہیں کہ class struggle بھی ہمارا ایشو ہے، نیشنل آپریشن کے خلاف بھی بات کرنا ہمارا مسئلہ ہے۔
لیکن کیا یہ تمام تنظیمیں ، کیا یہ پاکستان کی تمام Leftist Progressive سیکولر تنظیمیں کیا وہ عورت کے سوال کو سینٹرل کرنے کی کوشش کریں گی؟ کیا وہ عورت کے اوپر ہونے والے استحصال کو بھی اپنی سیاسی جدوجہد کا حصہ مانتے ہیں؟۔ اگر مانتے ہیں تو اس کیلئے ایکشن کہاں ہے؟۔ اگر مانتے ہیں تو اس کیلئے کوئی ایک آرگنائزڈ مہم کیوں ہمارے سامنے نہیں آئی؟۔ ایک طرف تو آپ حقوق نسواں کی جدوجہد کرنے والی خواتین سے یہ امید رکھیں کہ وہ ہر مسئلے کے اوپر آپ کے ساتھ کھڑی ہوں جو کہ کسی کے اوپر احسان نہیں کررہی لیکن جب آپ خواتین کی تنظیموں سے اس طرح کی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہر استحصال کا مقابلہ کریں تو خواتین کی تنظیموں کا بھی یہ نظریہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا سوال کیوںنمایاں نہیں ہوتا؟۔ ہمارے حقوق کی پامالی آخر کیوںنمایاں نہیں کی جاتی دوسری تمام جدوجہد کے ساتھ ساتھ؟۔
جب تک عورت کے اوپر ہونے والا استحصال ختم نہیں ہوتا ،جب تک اس کے اوپر سب کی آواز مرد ہوں یا عورتیں ہوں ایک دفعہ نہیں اٹھتی ایک دفعہ جب تک کوئی آرگنائز مہم کا آغاز نہیں کیا جائے گا تب تک اس ملک کے اندر کوئی قوم، کوئی طبقہ اور کوئی فرد آزاد نہیں ہوگا۔

پورے نظام کو بدلنے کیلئے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے۔ ہدیٰ بھرگڑی

ہدیٰ بھرگڑی 10جون : ویڈیو : میں اس موقع پر جبکہ ہم سب آج یہاں پر مزدوروں کی آواز کو لیکر اکھٹے ہوئے ہیں میں اپنی تنظیم کی طرف سے چند باتیں رکھنا چاہوں گی۔ ہم آج تک یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ اس حکومت کے جو سربراہ ہیں ان کو جب آنا تھا اور اس الیکشن کی کمپئن لڑنی تھی تب انہوں نے غریب کے جو مسائل تھے غریبوں کا جو دکھ تھا غریبوں کا جو درد تھا اس درد کو سرمایہ بنایا اور سرمایہ کے طور پر اسے استعمال کیا اور اس کے بدلے میں کئی کئی ووٹ بٹورے۔ اور اس کے بعد جب وہ طاقت میں آکر بیٹھ گئے ہیں جب طاقت کا پانسہ پلٹ چکا ہے اور ان کے حق میں ہوچکا ہے تو وہی انسان جو تبدیلی کا پیغام لیکر آیا تھا وہی اس ملک کے ہر فرد اور ہر مظلوم طبقے کے خلاف ا س کے خون کے ساتھ ہولی کھیلنے پر اس تبدیلی کو برقرار رکھ رہا ہے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ عمران خان کی حکومت کو تین سال ہونے والے ہیں اور اس پورے عرصے کے اندر ہم نے ایک بھی ایسی پالیسی نہیں دیکھی جو کہ کسی غریب اور مزدور کو فائدہ دے سکے۔ ہم نے دیکھا کہ انہوں نے ڈیلی ویجز جو کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی آبادیوں میں رہتے تھے ان کی آبادیاں انہوں نے اجاڑیں ۔ ہم نے دیکھا کہ انہوں نے مزدوروں کو برطرف کیا۔ ہم نے کرپشن بھی دیکھی ہم نے یہاں پر عورت کا استحصال بھی دیکھا۔ ہم نے یہاں پر مزدور کا استحصال بھی دیکھا۔ ہم نے یہاں پر قوموں کا استحصال بھی دیکھا۔ تو ہمیں کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ جو خواب ہمیں اس ریاست کا دکھایا گیا تھا وہ مدینے کی ریاست ہوسکتی ہے۔ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ حکومت غریب کیلئے کام کررہی ہے؟ اس حکومت کو غریب کا احساس ہے؟ کیونکہ احساس صرف او رصرف ایک ناکارہ پالیسی کا نام دینے سے نہیں پیدا ہوجاتا۔ احساس ٹائیگر فورس بنانے سے نہیں آجاتا۔ احساس اس طرح کی تقریریں کر کرکے ہمارا ٹائم ضائع کرنے سے نہیں آسکتا۔ احساس کیلئے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ احساس کیلئے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ایکشن پلان کی ہوتی ہے اور جتنے ایکشن پلان آج تک ہمارے سامنے آئے ہیں وہ مزدور کے خلاف، وہ عورت کے خلاف، وہ قوموں کے خلاف جو ملک کے ہر طبقے کے خلاف ہی پالیسی پر مبنی ہیں۔ WDFکی طرف سے میں اپنے تمام وہ لوگ جو کہ مزدور عورت ہوں یا مرد ہوں، تمام قومیں جو کہ مظلوم ہیں اس کے بھی عورت ہوں کہ مرد ہوں ہم ہر اس طبقے کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے ہیں ہم نے ہمیشہ ان کی آواز کو اپنی حقوق نسواں کی جدوجہد کی آواز مانا ہے۔ ہم نے عورت کی لڑائی اس وقت تک لڑنی ہے جب تک اس ملک کا ہر ہر مزدور طبقہ آزاد نہیں ہوجاتا۔ بیشک وہ طبقہ کوئی مظلوم مذہبی طبقہ کیوںنہ ہو۔ بیشک وہ طبقہ کسی particular religious سے جس کا تعلق ہو یا کسی کلاس سے تعلق ہو یا اس مظلوم طبقے کا تعلق ہماری مزدور برادری کے ساتھ ہو یا ان لوگوں کے ساتھ ہو جن کی بستیاں انہوں نے اجاڑ دیں جن کے روزگار انہوں نے برباد کردئیے۔ اور اس صورتحال میں وہ کیا کررہے ہیں کہ غریب جسکے پاس اس وقت اپنی روٹی کھانے کیلئے صرف جسم ہے اس جسم کو بھی بیماری کی وبا میں مبتلا کرکے اس وقت کا حکمران یہ چاہتا ہے کہ اب اس جسم کی جو وہ روٹی کھاتا ہے وہ بھی اسے نہ ملے۔ یہ کہتا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نے اسی لئے کھولا ہے تاکہ مزدور کا پہیہ چلتا رہے لیکن جو پہیہ چل رہا ہے وہ سرمائے کا پہیہ چل رہا ہے مزدور کا پہیہ نہیں چل رہا۔ یہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اس ملک کے انڈسٹریلسٹ ، ٹھیکیدار ، کنسٹرکشن بزنس کے اندر بیٹھنے والے اربن پلانرز بشمول CDA ان سب کے کاروبار چلتے رہیں۔ لیکن اگر کسی کی روزی روٹی بند ہو اگر کوئی بے گھر ہو تو وہ صرف اور صرف اس پورے معاشرے کا پسا ہوا طبقہ اور اس معاشرے کی عورت یا اس معاشرے کی مظلوم قومیں ہوں۔ میں WDFکی طرف سے اظہار یکجہتی کرتی ہوں اور اس چیز پرزور دیناچاہتی ہوں کہ اس پورے نظام کو بدلنے کیلئے اگر کسی ایک چیز کی ضرورت ہے تو وہ ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے۔ اور یہ منظم تحریک میں آپ اپنے اپنے کارنرز میں جاکر نہیں لڑیں گے اس منظم تحریک کیلئے آپ سب کو ایک دوسرے کے ساتھ اور ایک دوسرے کے مسئلوں کو سمجھ کر جڑنا ہوگا۔ اور جب تک آپ جڑیں گے نہیں تب تک اس پورے طبقاتی نظام اس پورے استحصالی نظام سے ہماری آزادی ممکن نہیں ہوگی۔ بہت بہت شکریہ۔

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز