پوسٹ تلاش کریں

وزیراعظم کا سپورٹر پختون بے غیرت ہے، فضل الرحمن: اداریہ نوشتہ دیوار

وزیراعظم کا سپورٹر پختون بے غیرت ہے، فضل الرحمن: اداریہ نوشتہ دیوار اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
وزیراعظم عمران خان کی جتنی مخالفت نوشتۂ دیوار میں ہم نے کی ہے شاید کسی اور نے اتنی مخالفت نہیں کی ہوگی لیکن مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا کہ ”جو پختون عمران خان کو سپورٹ کرتا ہے وہ پختون نہیں بے غیرت ہے جو اس دلّے کی حمایت کرتا ہے خواہ وہ خٹک ہو، بنونچی ہو ،مروت ہو یا پھر بیٹنی ہو”۔
مولانا صاحب! آپ کو اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی ہے۔پی ڈی ایم (PDM)کے سربراہ بن گئے ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد اور نظام مصطفیۖ کی تحریک کے بعد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ ایک بڑا سیاسی اتحاد ہے۔ وہ بھی دھاندلی کیخلاف تھا اور یہ بھی دھاندلی کے خلاف ہے۔ اس میں بھی قومیت اور مذہب کا نعرہ شامل تھا اور اس میں بھی قومیت اور مذہبی جذبہ کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اگر مولانا فضل الرحمن صرف پختونوں سے کہیں گے کہ جو پی ٹی آئی میں ہے وہ بے غیرت ہے پھر اسکا منطقی نتیجہ نکلے گا کہ دوسری قومیں پنجابی، سندھی ، سرائیکی، ہزارے وال، بلوچ اور مہاجر سب کے سب غیرت نہیں رکھتے؟۔ اگر عمران خان نے پختونوں کیساتھ اسپیشل زیادتی کی ہوتی تو حق بنتا تھا کہ انہی کو تحریک انصاف کو سپورٹ کرنے پر بے غیرت قرار دیا جاتا۔ مولانا سے تو پی ٹی ایم (PTM )کے بچے اچھے ہیں جو پختون بھائیوں کی مظلومیت کا رونا اپنی جگہ پر ضرور روتے ہیںلیکن دوسری قوم والوں کو بے غیرت نہیں کہتے۔ چییونٹی کی موت کا وقت آتا ہے تو پر نکلتے ہیں۔ مولانا نے اُڑان بھرنی شروع کی ہے ۔ اللہ خیر کرے کہ اس کی موت کا وقت قریب نہ ہو۔
مولانا فضل الرحمن ن لیگ ، پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے اپنے اخلاق ، کردار ، جمہوری روایات اور انسانیت ہر لحاظ سے بہت اچھے ہیں۔ عمران خان نے روایات اور سیاسی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر مولانا فضل الرحمن کے خلاف بڑی گھٹیا زبان استعمال کی، جو عمران خان کے نیچ پن کی دلیل ہے۔ خطیب العصر سید عبدالمجید ندیم نے جب الیکشن کے دوران ایک دفعہ عمران خان کو بندر سے تشبیہ دی تو مولانا فضل الرحمن نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کرنے سے بہت سختی کیساتھ روک دیا۔ مولانا ندیم صاحب نے ایک مرتبہ 8اپریل کو ڈیرہ اسماعیل خان میں کہاتھا کہ ہر سال مفتی محمود کی برسی کے موقع پر ہماری ملاقات حق نواز پارک میں ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ حق نواز پارک میں خوابوں کا شہزادہ (ڈاکٹر طاہرالقادری) آیاہے۔ حکومت نے 8 اپریل کو جمعیت علماء اسلام کے سالانہ کنوینشن کو دھچکا پہنچانے کیلئے ڈاکٹرطاہرالقادری کو بلوایا ہوگا۔ اس وقت اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے نوازشریف اور جماعت اسلامی کی حکومت تھی اور ڈاکٹر طاہرالقادری میاں نوازشریف کے مذہبی رہنما تھے۔ مولانا سمیع الحق کو میڈم طاہر ہ کے اسکینڈل سے اخبارات میں بدنام کیا تھا ، حالانکہ چیئرمین پی ٹی وی (PTV) نعیم بخاری کی بیگم طاہرہ سید کیساتھ نوازشریف کا حقیقی اسکینڈل بن سکتا تھا لیکن اس کے خلاف زرخرید میڈیا نے کوئی اسکینڈل شائع نہیں کیا تھا۔ پی ٹی ایم (PTM)نے8اپریل کو پشاور میں جلسۂ رکھا تھا تو مولانا فضل الرحمن کو خدشات ہوسکتے تھے کہ ہمارے مقابلہ میں کوئی استعمال کررہاہے۔ جیسے پشاورپی ڈی ایم ( PDM)کے مقابلہ میں جماعت اسلامی نے سوات میں جلسہ رکھا تھا۔ مولانا شیرانی نے اسلئے پی ٹی ایم (PTM)کے خلاف بات کی تھی۔

اگر مولانا فضل الرحمن یہ کہتا کہ نوازشریف نے مولانا سمیع الحق شہید کو بدنام کیا تھا اسلئے خٹک اور پختون اور خاص طور پر علماء بے غیرت ہوںگے جو نوازشریف کا ساتھ دیں تو بات سمجھ میں آتی تھی ،اسی طرح نعیم بخاری کی بیگم چھین لینے پر اگر پنجاب کے لوگوں کو نوازشریف کا کہتے تو بھی بات بنتی تھی لیکن عمران خان کی حمایت کرنے پر پختونوں کو بے غیرت کہنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
جب عمران خان نے ڈیرہ اسماعیل خان سے الیکشن لڑا تو مجھے گلشاہ عالم برکی نے کہا کہ ہم آپکے مرید ہیں اور آپ ہمارے پیر ہیں۔ ہماری پارٹی تحریک انصاف کی حمایت کریں۔ میں نے کہا کہ یہودی کی؟۔ پھر مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی نے اپنے مرکز مولانا فتح خان کی جامع مسجد کوتحریک انصاف کا دفتر بنادیا۔ایوب خان بیٹنی صوبائی امیدوار تھے۔ جنرل ظہیرالاسلام عباسی ہمارے پاس آئے تو ایوب بیٹنی سے انہوں نے کہا کہ آپ یہودی کے ٹکٹ پر کھڑے تھے؟۔ میں نے وضاحت کی کہ” جے یوآئی کی مرکزی مسجد انکا دفتر تھا ” تو جنرل عباسی صاحب نارمل ہوگئے۔ تحریک انصاف کو دفتر دینے کی وجہ یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمن قومی سیٹ جیتنے کیلئے صوبائی امیدواروں سے اتحاد کرتا تھا۔ تحریک انصاف کیساتھ اتحاد کی توجیہ یہ تھی کہ بیٹنی قوم بڑی ناراض ہے ، انہوں نے اپنے امیدوار کو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کھڑا کیا اسلئے ہم نے تحریک انصاف کیساتھ اتحاد کیا جبکہ مولانا سمیع الحق کیساتھ اتحاد تھا لیکن ان کے مطالبے کے باجود جے یو آئی س کیساتھ ایک دفتر کیلئے تیار نہیں تھے۔ بیٹنی قوم کی ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ جے یو آئی کے موجودہ صوبائی رکن اسمبلی کا باپ حاجی رمضان قومی اسمبلی کیلئے کھڑا تھا اور جب مولانا فضل الرحمن اور رمضان دونوں ناکام ہوگئے تو حاجی رمضان نے کہا کہ میرا مقصد مولانا کو ہرانا تھا۔ پھر مولانا نے اپنا امیدوار حبیب اللہ کنڈی کے حق میں بٹھاکر حاجی رمضان کے بیٹے حاجی نثار کو ہروادیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن جانتے ہیں کہ سیاست میں غیرت کا معیار کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟ اسلئے دوسروں کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے غیرت اور بے غیرتی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے پہلے سود فعہ سوچ لینا چاہیے ورنہ حریف للکاریںگے اور اپنے ساتھی مولوی مروت کی غیرت کو ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے تماشا بنادیںگے۔
مولانا فضل الرحمن کو پتہ ہے کہ علماء ومفتیان نے قرآن وحدیث اور چاروں اماموں کے برعکس جاگیردارانہ نظام کو ناجائز جواز بخشا ہے جس کی وجہ سے غلامی کے نظام کو دنیا سے ختم کرنے کے بجائے دوبارہ اسلام کے نام پر جاری رکھا گیا ہے۔ پھر تصویر کو بھی غلط طریقے سے ناجائز قرار دیا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر قرآن وسنت کی عظیم تعلیمات کے برعکس حلالہ کی لعنت کو جواز بخشا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس موضوع پر ضرور غور کریں۔ مدارس کے فتوؤں اور مفتیوں کی بداعمالیوں سے غیرت کا جنازہ نکل رہاہے ۔حلالہ کی لعنت جاری رکھنے والوں کو اس بے غیرتی کا احساس کرنا چاہیے ورنہ جس دن غیور عوام اُٹھیںگے تو بے غیرتوں کو غیرت کا سبق سکھا دیںگے اور پھر سب بہت حیران وپریشان ہوںگے لیکن ضمیر کی رسیوں نے سب کو قید کرکے رکھا ہوگا۔ پارلیمنٹ سے بازارِ حسن تک کی کتابوں میں عیاشیوں کی داستانیں لکھی ہوئی ہیں لیکن حلالہ کی داستانیں عوام کے سامنے آگئیں تو پھر کیا ہوگا؟
بچوں کے سکول کی ٹیوشن فیس ہے اگر مساجد کے ائمہ کو قرآن پڑھانے کیلئے ہدیہ دیا جائے تو مسجد کے امام کی تنخواہ پچیس (25)سے چالیس(40) ، پچاس (50)ہزار تک بن سکتی ہے۔ علماء کرام ہمارے دین اور ایمان کے محافظ ہیں لیکن غلط مسائل کھڑے کرنے کے بجائے اگر قرآن وسنت پر توجہ رہتی تو مساجد بھی ہدایت سے مالامال ہوتیں اور عوام کا رحجان بھی دین کی طرف بڑھ جاتا۔ مسلمانوں کو فرقہ واریت نہیں دین سے محبت ہے مگرعلماء اپنے اپنے فرقوں کیلئے قابل قبول اور دوسروں سے نفرت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے کرپٹ ، سازشی، بداخلاق وبد کردار عناصر ہم پر حکومت کرتے ہیں۔ قرآن نے اسلام میں پورے پورے داخل ہونے کا حکم صرف لبادے کیلئے نہیں دیا۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟