پوسٹ تلاش کریں

وزیرستان سے پوری دنیا کیلئے معاشرتی بنیاد پراسلامی انقلاب کا آغاز ہوسکتا ہے: سید عتیق الرحمن گیلانی

وزیرستان سے پوری دنیا کیلئے معاشرتی بنیاد پراسلامی انقلاب کا آغاز ہوسکتا ہے: سید عتیق الرحمن گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

وزیرستان کی عوام میںاجتماعی شعور کے مطابق فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے۔ جس قوم میں اپنی فلاح و بہبود کی فکر اور اس پراجتماعی فیصلے اور عمل کرنے کی صلاحیت ہو وہ قوم صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کہلانے کی مستحق ہے۔ پاکستان کے چپے چپے پر منشیات کے اڈے ہیں مگر کسی ایک جگہ سے بھی منشیات کے خلاف اجتماعی فیصلے کی آواز سنائی نہیں دی ہے۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ملک ابھی تک صحیح معنوں میں آزاد نہیں ہوا ہے۔ عوام کے ہاتھ بندھے ہیں، پولیس ، عدالت اور تمام سرکاری ادارے اور ان اہلکار وں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اسلئے کوئی مثبت قدم اٹھانے کے بجائے ہر جگہ کھانچہ سسٹم چل رہا ہے۔
عوام کے ووٹ خرید لئے جاتے ہیں۔ سیاست قومی مفادات کی جگہ پارٹی مفادات کا نام ہے۔ پارٹی کا انجن پیسوں کے ایندھن سے چلتا ہے۔ جب کوئی قومی سیاسی پارٹی مرکز یا صوبے کی حکومت میں آتی ہے تواس کا سب سے پہلا کام اپنے انجن کو چلانے کیلئے ایندھن پیسوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے اور وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قومی دولت کو لوٹنا شروع کردیتی ہے۔ جب قومی سیاسی پارٹیاں اپنی ضرورت پیسہ میں ایکدوسرے سے سبقت لے جانے کا مقابلہ کرتی ہیں تو نتیجے میں قومی ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو بھی اس دوڑ میں برابر کے مقابلے کا احساس ہوتا ہے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ پھر طبقاتی بحث شروع ہے کہ انڈہ پہلے پیدا ہوا یا مرغی؟۔ عوام بیچارے اس بحث میں اُلجھ جاتے ہیں کہ کون اصل میں کرپٹ اور کون نتیجے میں کرپٹ ہے؟۔ کوئی فوج کے خلاف کھڑا نظر آتا ہے اور کوئی سیاستدانوں پر بھونکتاہے۔ پھر کوئی پولیس کو اصل ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور کوئی عدالتی نظام کو اور آخر کار گیند پھر عوام کی طرف لوٹ کر آتی ہے کہ قصور اور نااہلی کی ذمہ دار ہماری عوام ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سب معذور اور بے بس نظر آتے ہیں اور ہماری ریاست کے تمام اداروںسول ، ملٹری اور عدالتی بیورو کریسی عوام کو ایک آزاد قوم کا حق نہیں دیتی ہے۔ مگر دوسری طرف عوام بھی جس سیاسی قیادت پر اعتماد کرتی ہے وہ بھی پیسے بٹورنے کا فن اسلئے جانتی ہے کہ اس ایندھن سے انجن چلتا ہے۔
جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ قومی مفادات کو چھوڑ کر ایک پرزے کی طرح پیسہ بٹورتا ہے ۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی بیگم کے نام لندن میں پراپرٹی ہے اور وہ کرپٹ نہیں بلکہ اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ نوازشریف کے بچوں نے بھی اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں سے لندن میں بہت پیسہ کمالیا ہے۔ جج اور سیاسی قیادت فوج کو کرپٹ کہیںاور فوج اور اسکے حامی سیاست اور عدالت کو۔ صحیح اور غلط کون ہے؟۔
جب شمالی اور جنوبی وزیرستان میںطالبان کی آمد ہوئی تو میرانشاہ اور وانا وزیر علاقے اس کا مرکز تھے۔ محسود ایریا میں قومی سطح پر طالبان نہیں تھے۔ پورے پاکستان کی طرح امریکہ کیخلاف جذبہ محسودوں میں بھی تھا۔ جب امریکہ کا نزول ہوا تھا تو مقابلے میں سب سے پہلے شمالی وزیرستان کے راستے لشکر مولانا معراج الدین قریشی شہید کی قیادت میں افغانستان پہنچا تھا۔مولانا معراج الدین افغانستان میں طالبان کی مدد کیلئے پہنچے تھے لیکن ان کو واپس کردیا گیا تھا اور وہ اس جنگ کو شروع سے سازش قرار دینے لگے مگر کھل کر برملا اس کا اظہار نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ ایسا کرتے تو لوگ امریکی ایجنٹ کا الزام لگا سکتے تھے۔
جب مجھ پر 2006ء میںٹانک کے قریب فائرنگ ہوئی تو مولانا معراج الدین مجھ سے اظہارِ افسوس یا یکجہتی کرنے آئے،یہ ایک طرح کی رسم ہے اور مجھے بتایا کہ یہ جنگ ایک سازش ہے اور اسکے اصل مقاصد اور نتیجے کا کسی کو پتہ نہیں چلتا ہے۔ مولانا شیرانی نے بھی مولانا فضل الرحمن سے کہا کہ یہ پتہ کریں کہ امریکہ کا اصل ہدف کیا ہے؟
مولانا معراج الدین اور مولانا صالح شاہ پہلے آئے تھے تو بھی انہوں نے یہی کہا تھا کہ ” یہ ہمارے علاقہ کے خلاف ایک سازش ہے اور مقاصد کا نہیں پتہ ہے”۔ اس وقت ہمارے بھائیوں کے غیض وغضب سے بچانے کی خاطر میں نے اپنے ماموں سے کہا کہ جب امریکہ نے اسامہ پر حملہ کیا تھا اور میں نے اسامہ کے حق میںامریکہ کو گالی دی تھی تو آپ لوگ کتنے ناراض تھے؟۔ جس پر میرا بڑابھائی مہمان علماء کرام پر برسنے کے بجائے مجھ پر برس پڑا ۔ یوں میں نے ڈھال بن کر اپنا کام دکھایا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مولانا معراج الدین فائرنگ کے بعد بھی میرے پاس آئے اور جب بڑے بھائی کی تعزیت کے سلسلے میں آئے تب بھی اسپیشل اُٹھ کر میرے پاس بیٹھ گئے تھے اور پھر میں ان کو رخصت کرنے باہر گاڑی تک ساتھ گیا۔
طالبان کی تحریک کو محسود ایریا میں سب سے آخر میں پذیرائی مل گئی لیکن سب سے زیادہ فوجی آپریشن، عوام کی بار بار نقل مکانی اور بمباری سے تباہی ونقصان بھی محسود قوم کو پہنچا ہے۔ آپریشن کیلئے محسود ایریا خالی کرالیا جاتا تھا تو طالبان ملحقہ وزیرایریا میں چلے جاتے اور آپریشن مکمل ہوتا اور عوام کیساتھ طالبان بھی پہنچ جاتے۔ محسود ایریا کو کلیئر قرار دیا گیا تو عسکری حکام نے اپنے علاقہ میں واپسی کی اجازت دی بلکہ کیمپوں میں راشن پہنچانے کا انتظام بھی ان کی ذمہ داری تھی اسلئے حکم تھا کہ وزیرستان واپس جاؤ۔ مولانا معراج الدین نے کہا پہلے سارا علاقہ کلیئر ہو تو پھر عوام کو جانا چاہیے۔ پھر مولانا شہید کردئیے گئے۔
جنوبی وزیرستان وزیر علاقہ میں طالبان تھے اور آج تک وہاں آپریشن نہیں ہوا۔ جب وزیر قوم کی ازبک سے لڑائی ہوئی تو وزیرطالبان اور پاک فوج نے وزیر قوم کوان دہشت گردوں سے بچایا تھا۔ پھر ازبک محسود ایریا میں پہنچ گئے اور جب حکومت نے بمباری کی تو قبائل کے کیمپ کو نشانہ بنایا، ازبک کے کیمپ کو چھوڑ دیا۔ جو تباہی کے مناظر کی ویڈیوز بنارہے تھے۔ مولانا عصام الدین محسود نے اس وقت گورنر جنرل ریٹائرڈاورکزئی سے پوچھا تھا کہ ہم اتنی معلومات نہیں رکھتے جتنی تمہارے پاس ہیں لیکن پھر قبائل کی بجائے ازبک کو کیوں نشانہ نہیں بنایا؟۔ جس پر گورنر نے کہا کہ ”اگر ہم نہ کرتے تو امریکہ تمہیں مارتا”۔
محسود قوم کی اپنی بھی بہت غلطیاں تھیں جن کی سزا بھی بہت بھگت لی لیکن آزمائش کے نتیجے میں قوم کے اندر بڑا نکھار پیدا ہوتا ہے، صدیوں کی منزل محسودقوم نے چند عشرے میں طے کرلی۔وزیرستان کا دنیا میں ایک نام پیدا ہوا ہے۔ امریکہ سے مقابلہ ہوگیا۔ طالبان نے پاکستان کو وزیرستان کی پہچان کروائی۔ PTMکو بھی شہرت مل گئی۔ لیکن کرنے کا کام کیا ہے؟۔ کیا مذہب کے بعد قومی جذبہ نئی آزمائش ،نجات یا عالمی سازش کاشکار بنادے گا؟۔
جب تلوار ، نیزوں ، اونٹوں ، گدھوں اور خچروں سے لڑائی لڑی جاتی تھی تو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں ایک چھوٹی سی ریاست کی بنیاد رکھنے والے مہاجر صحابہ تھے۔ رسول اللہۖ نے ہمیشہ تہبند پہنا لیکن یہودکا قومی لباس پسند فرمایا ۔ صحابہ سے شلوار پہنے کی تلقین فرمائی۔ تعصبات کی جگہ معاشرتی فلاحی معاملات کو سلجھایا۔ پھر اس دور میں یہ قوم ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی کہ قیصر وکسریٰ کی سپرقوتوں کو اس اُمی قوم کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
آج سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ محسود قوم کی تعداد مدینہ کے گرد رہنے والی عرب قوم سے زیادہ ہے۔ اگر یہاں وہ معاشرہ قائم کرلیا جاتا ہے جو مدینہ میں چودہ سو سال پہلے قائم ہوا تھا تو قبائل اور پاکستان کی اقوام اس خطے کی وجہ سے بدلنے پر مجبور ہونگے۔ وزیرستان میں معاشی بہتری کیلئے رسول اللہۖ کے دئیے ہوئے نظام سے استفادہ کی ضرورت ہے۔ یہ طے ہے کہ کونسی زمین اور کونسا پہاڑ کس قوم ، کس خاندان کی ملکیت ہے۔ چند سالوں کیلئے کسی محنت کش کو زرعی کاشت اور باغ لگانے کی اجازت دی جائے تو وزیرستان جنت کا منظر پیش کریگا۔ اسکے عشر وزکوٰة سے معذور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونگے اور صحتمند افراد کو معاشی طور پر کھڑا ہونے کااچھا موقع ملے گا۔ قرآن کا بہترین معاشرتی نظا م دنیا سے اوجھل ہے ۔ وزیرستان کے لوگ بڑا انقلاب لاسکتے ہیں۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز