پوسٹ تلاش کریں

القائے شیطانی کا وسیع پس منظر ہے جس نے اُمت مسلمہ کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا کر قرآنی آیات کے تحفظ کے باوجود مدارس کو گمراہی میں ڈال دیا!

القائے شیطانی کا وسیع پس منظر ہے جس نے اُمت مسلمہ کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا کر قرآنی آیات کے تحفظ کے باوجود مدارس کو گمراہی میں ڈال دیا! اخبار: نوشتہ دیوار

امام ابوحنیفہ عالمِ حق لیکن فقہاء احناف نے تقلید کیلئے علمی قابلیت کا حق ادا نہیں کیا۔ القائے شیطانی کا وسیع پس منظر ہے جس نے اُمت مسلمہ کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا کر قرآنی آیات کے تحفظ کے باوجود مدارس کو گمراہی میں ڈال دیا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

آئیے جانِ من!بڑا حقیقت پسندانہ تحقیقاتی علمی جائزہ لیکر سورۂ جمعہ، بخاری ومسلم اور مولانا عبیداللہ سندھی کی تفسیر المقام المحمود کی روشنی میں پاکستان سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کریں

آج درسِ نظامی ، مولانا انورشاہ کشمیریکی فیض الباری، قاضی عبدالکریم کلاچی کے سوال اور مفتی فرید کے جواب ”فتویٰ دیوبند پاکستان” میں گھمبیر مسائل کا بھرپور انداز میںحل تلاش کریں

مجھے بریلوی مکتبۂ فکر کے بانی امام احمد رضا خان بریلوی کے خلوص اور ایک اچھے قابل فقیہ ہونے میں شک نہیں ہے لیکن ان کی باتوں کو مان لینا بہت بڑے درجے کی حماقت اسلئے ہے کہ قادیانی، دیوبندی، وہابی ،اہلحدیث اور شیعہ سب میں کوئی فرق کرنارضاخانیت اور بریلویت کی نفی ہے۔ جس بریلوی نے پہلے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے دور میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا تھا ،اسے بریلوی مکتبۂ فکر کے بعض زعماء نے بریلویت سے خارج کردیا تھا۔ دیوبندی اور بریلوی حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیاور پیر سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف شدت پسند طبقہ سے مبرا بہت اچھے مسلمان تھے اور بہت سوں کیلئے اصل امام کی حیثیت یہی لوگ رکھتے تھے۔ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک دونوں مکتبۂ فکر کا سلسلہ ایک ہی مسلک سے تھا۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک قرآن کریم کے تحفظ پر ایمان بہت ہی ضروری تھا اور قرآن کے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث بھی آجائے تو سراسر غلط ہی ہے۔ یہی عقیدہ اہلسنت کے چار اماموں اور اہل تشیع کے بارہ اماموں کا بھی تھا۔ جب پاکستان میں اہل تشیع کا ایرانی لٹریچر پہنچنا شروع ہوا تو مدارس کے علماء نے بڑے پیمانے پر اہل تشیع کواسلئے کافر قرار دیا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں لیکن مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی ایک تقریر شائع ہوئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ” شیعہ سے ہمارا صحابہ پر اختلاف نہیں ہے، ہمارا قرآن پر اختلاف نہیںہے، شیعہ سے ہمارا اصل اختلاف عقیدۂ امامت کی وجہ سے ہے۔ عقیدۂ امامت سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے”۔ شاہ ولی اللہ نے لکھ دیا ہے کہ رسول اللہۖ نے مشاہدے یا خواب میں فرمایا کہ” شیعہ کی گمراہی کی وجہ عقیدۂ امامت ہے” ۔ جب میں نے اس پر غور کیا تو یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے،اسلئے نبیۖ نے ان کو گمراہ قرار دیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنے مشاہدے یا خواب کی تعبیر بہت غلط کی ہے کیونکہ گمراہ اور کافر میں فرق ہے۔ ختم نبوت کے انکار سے گمراہی نہیں کفر کا فتویٰ لگتا ہے لیکن اہل تشیع کے عقیدۂ امامت کو گمراہی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ جب ملت جعفریہ کے قائد علامہ ساجد علی نقوی بہت کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ مجھے پتہ نہیں ہے کہ اہل تشیع نے برصغیر پاک وہند میںآذان اور کلمہ میں شہادت ثالثہ کا اضافہ کیوں کیا ہے؟۔ جبکہ عراق وایران اورکربلا میں شیعہ جو نسل در نسل اپنے کلمہ وآذان میں صرف توحید اور رسالت کی دو شہادتوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔
پاکستان میں ایران و عراق سے اہل تشیع کے جید علماء ومجتہدین اور حضرت علامہ ساجد علی نقوی قائدملت جعفریہ و علامہ جواد نقوی ، علامہ شہنشاہ نقوی ، علامہ شہریار رضا عابدی ، علامہ حیدر نقوی وغیرہ کو بٹھاکر آذان وکلمہ میں شہادت ثالثہ کا مسئلہ حل کردیا جائے تو شیعہ ملت کے آپس کا بھی جھگڑا ختم ہوجائے گا اور بہت بڑی تبدیلی سنی مکتبۂ فکر کے ہاں آنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ شیعہ نے برصغیر میں کلمہ وآذان میں اضافہ کیا تو وہی حال بریلوی مکتبۂ فکر نے اختیار کیا ہے۔
قندھار سے بریلی اور مردان سے کراچی تک پٹھان علماء سخت گیرتھے اور اگر مولانا احمد رضا خان بریلوی نے بڑے سخت فتوے دئیے ہیں جو قندھار کے پٹھان تھے تو شیخ الحدیث مفتی زرولی خان نے بھی اپنا حساب برابر کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانامفتی ڈاکٹر منظور مینگل پر علامہ خادم حسین رضوی کیلئے مغفرت کی دعا مانگنے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے پر تجدیدِ نکاح کا فتوی دیا ہے۔
پٹھان ناراض نہ ہوں ، ہندوستانی علماء خدائے کریم وجلیل کی قسم ان سے زیادہ جاہل ، چھوٹی کھوپڑی کے مالک ،مفاد پرست ، ہٹ دھرم اور ہڈ حرام تھے اسلئے کہ فتاویٰ عالمگیریہ پر (500)معتبر علماء نے دستخط کئے تھے جس میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری ، ڈکیتی اور ہرقسم کی حد وسزا معاف تھی اسلئے کہ اورنگ زیب بادشاہ نے اپنے بھائیوں کو قتل کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔ جس اسلام میں کسی خلیفۂ راشد کیلئے استثناء کی کوئی گنجائش نہیں تھی تو اس میں بادشاہ کیلئے کیسی ہوسکتی تھی؟۔ جب مسجد نبویۖ کے قریب حضرت عباس کے گھر کا پرنالہ نمازیوں کے لباس کو متاثر کررہا تھا تو لوگوں کی شکایت پر حضرت عمر نے اس پرنالے کی جگہ تبدیل کر دی، حضرت عباس نے اس کی شکایت سرکاری قاضی کے رجسٹر میں درج کردی اورقاضی انصاری صحابی تھے۔ انہوں نے حضرت عمر کیلئے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ دونوں کی بات سن کر حضرت عباس سے کہا کہ اگر خلیفۂ وقت اپنے ہاتھ سے اس پرنالے کی مٹی تیار کرکے اہل مدینہ کے سامنے آپ کو اپنے کاندھے پر چڑھاکر اسی جگہ پر لگادے تو آپ معاف کردیںگے ؟۔ حضرت عباس نے کہا کہ مجھے یہ منظور ہے۔ حضرت عمر نے اپنے ہاتھ سے مٹی تیار کی اور سب کے سامنے اپنے کاندھے پرحضرت عباس کو چڑھایا اور پرنالہ لگادیا۔ حضرت عباس نے بتایا کہ میں نے گھر بنایا تو رسول ۖ کو اپنے کاندھے پر چڑھایا کہ وہ پرنالہ لگادیں لیکن مجھ سے بوجھ برداشت نہیں ہوسکتا تھا تو رسول اللہۖ نے مجھے اپنے کاندھے پر چڑھایا اور میں نے یہ پرنالہ لگادیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ خلیفہ انصاف کرتا ہے یا نہیں؟۔ اب میں اپنے مکان کو مسجد نبویۖ کیلئے وقف کرتا ہوں۔
ایک مولوی صاحب نے یوٹیوب پر موجودہ ریاستی نظام کو اس واقعہ کی بنیاد پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن مذہبی لوگوں کو جنونی شدت پسند بنانے سے بہتر یہ ہے کہ اسلام کی اجنبیت کے پل کے نیچے جتنا پانی بہہ چکاہے اس کو بھی دیکھ لیا جائے۔ اہل تشیع تو عقیدۂ امامت میں بہت غلوکی وجہ سے یہاں تک پہنچ گئے کہ اگر شہنشاہ حسین نقوی اتحادامت کانفرنس میں شرکت کرکے علامہ جواد نقوی کے جامعہ عروة الوثقیٰ کی مسجد البیت العتیق لاہور میں شیعہ سنی علماء کے سامنے خطاب میں کہہ دیں کہ ” بسم اللہ کے بعد میں الحمد للہ رب العالمین کہنے کی بجائے الحمد لعلی ابن ابی طالب کہنے میں فخر محسوس کرتا ہوں ” تو شیعہ شرکاء بڑی گرم جوشی سے نعرہ بھی لگادیںگے۔ اگر علامہ جواد حسین نقوی کو اس کی مخالفت میں کچھ کہنا ہو تب بھی وہ پہلے سے ہوشیار نہ کریں کہ میں ان غلط اقدار کی مذمت کرنے کی بات کررہا ہوں تو بات سننے سے پہلے مجمع سے وہی پرجوش آواز آئے گی۔
درسِ نظامی میں پڑھایا جاتا تھا کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک عربی پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی فارسی زبان میں نماز پڑھنا نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے مگر جب حضرت شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کردیا تو شاہی خانوادے کے قابلِ اعتماد شہزادے شاہ ولی اللہ نے قرآن کا ترجمہ کرنے کے جرم کی پاداش میں دو سال تک روپوشی کی زندگی اختیار کرلی۔ شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی فتاویٰ عالمگیریہ پردستخط کرنے والے علماء میں شامل بلکہ سہولت کار تھے۔ یہ ہندوستانی علماء کی ہٹ دھرمی اور ہڈ حرامی تھی جن کی آل واولاد ہم پر مسلط ہیں۔ ملاجیون جیسے لوگ سادہ لوح مگر متقی وپرہیزگار تھے لیکن آج چالاک وعیار لوگوں نے پتہ نہیں کونسے قاعدہ کلیہ کے تحت شیخ الاسلامی ومفتی اعظمی کا درجہ پایا ہے؟۔
فقیہ العصر قاضی عبدالکریم کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان نے مفتی اعظم پاکستان مفتی فرید صاحب کے پاس خط لکھاکہ ” مولانا انور شاہ کشمیری کی فیض الباری شرح صحیح بخاری میں یہ عبارت پڑھ کر پاؤں سے زمین نکل گئی جس میں لکھا ہے کہ ”قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہے لیکن لفظی تحریف بھی ہے ،یہ انہوں نے غلطی سے کیا ہے یا عمداً کیا ہے”۔اس عبارت میں لفظی تحریف کی نسبت صحابہ کی طرف ہے کیونکہ کفار کی طرف اس جرم کی نسبت نہیں ہوسکتی ہے”۔
مفتی فرید صاحب نے اسکا بالکل غیر تسلی بخش جواب دیا تھا جو فتاویٰ دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہوچکا ہے۔ بریلوی مکتب کے مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن سابق چیئرمین ہلال کمیٹی کے ساتھی علامہ غلام رسول سعیدی نے کئی جلدوں میں تفسیر تبیان القرآن لکھی ہے، صحیح مسلم کی شرح اور صحیح بخاری کی شرح بھی لکھی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ”شیخ انورشاہ کشمیری کی فیض الباری کا حوالہ دئیے بغیر دارالعلوم کراچی سے عبارت پر فتویٰ لیا تو مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی کے ہاں سے اس پر کفر کا فتویٰ بھی لگادیا گیا ہے ، جس کا ریکارڈموجود ہے ”۔جب ہم نے دارالعلوم کراچی سے قرآن کی اس تعریف پر فتویٰ لینا چاہاتھا جس کو درسِ نظامی کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے تو فتویٰ دینے سے انہوں نے انکار کردیا۔
ہمارا اصل موضوع یہی ہے کہ قرآن میں جو معنوی تحریف ہوئی ہے جس کی نشاندہی امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے بخاری کی اپنی شرح میں کی ہے ۔ سورۂ حج کی آیت(52) میں جس القائے شیطانی کی مداخلت کی وضاحت ہے وہ قرآن کی معنوی تحریف ہے۔ جہاں تک سورۂ نجم کے حوالے سے کفارِ مکہ کے غلط پروپیگنڈے پر شیطانی آیات کی تائید یا تردید کا تعلق ہے تو اس پر مولانا مودودی کی تفسیر تھوڑی بہت عقل مگر علم سے عاری ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ وہ اتنا گھمبیر مسئلہ نہیں ہے جتنا اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی تعریف میں بہت بڑی تحریف کا مسئلہ گھمبیر ہے۔ جب اصولِ فقہ میں کتاب سے مراد قرآن میں احکام سے متعلق (500) آیات ہیں اورباقی قصے کہانیاں ہیں تو حق یہ بنتا تھا کہ وہ آیات مختلف عنوانات کے تحت درج کردی جاتیں اور پھر اس کیساتھ احادیث اور فقہ کے اجتہادی مسائل پر بحث ہوتی مگر یہ تو نہ ہوا ،البتہ قرآن کی تعریف میں تحریف کاارتکاب ہے۔ قرآن کی تعریف کا پہلا جملہ یہ ہے کہ المکتوب فی المصاحف ”جو مصحاف میں لکھا ہوا ہے”۔ پھر اس کی تشریح ہے کہ لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ہے ۔کیونکہ لکھائی تو محض نقشِ کلام ہے۔ اللہ کا کلام صرف زبانی الفاظ میں ہے۔ حالانکہ قرآن کی ڈھیر ساری آیات اس احمقانہ نصاب کی نفی کیلئے کافی ہیں۔ اللہ نے یہاں تک فرمایا کہ ”اگر میں اس کو قرطاس میں نازل کرتا اور یہ مشرک اس کو چھولیتے تب بھی انہوں نے نہیں ماننا تھا”۔ مشرکینِ مکہ بھی اس کتاب کی نسبت پرانی کہانیاں صبح شام لکھوانے کی تہمت لگاتے تھے۔ فتاویٰ قاضی خان سے فتاویٰ شامیہ تک اور مفتی تقی عثمانی کی کتاب تکملہ فتح الملہم اور فقہی مقالات سے وزیراعظم عمران کے نکاح خواں مفتی سعید خان کی ریزہ الماس تک سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا جواز فقہ حنفی کا شاخسانہ موجود ہے۔
قرآن کی تعریف کا دوسرا جملہ المنقول عنہ نقلًا متواترًابلاشبہہے جس سے غیرمتواتر قرآنی آیات نکل گئیں اور بسم اللہ کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ جب قرآن کے علاوہ دیگر آیات کا عقیدہ رکھا جائے تو قرآن کے تحفظ پر کتنا بڑا حملہ ہے۔ اگر سید مودودی نے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی ہوتی تو اس بات پر برہم ہوتے کہ صحیح سند کیساتھ ایسی قرآنی آیات کا تصور ماننا بہت بڑا کفر ہے کہ جس سے قرآن کی صحت مشکوک ہوجائے۔ جس طرح امام شافعی نے انکا وجود کفر سمجھاتھا ،اسی طرح امام ابوحنیفہ قرآن پر اضافی آیات کو کفر سمجھتے تھے مگر جس طرح مفتی تقی عثمانی نے اپنے باپ ، اکابراور ہم عصر لوگوں جن میں انکے استاذ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان بھی شامل تھے اور بینک کے سودی نظام کو دیگر مدارس والے بھی سود قرار دے رہے تھے لیکن مفتی تقی عثمانی کا فتویٰ چل گیا اور ہم جیسوں پر ان کی مخالفت کرنے کی وجہ سے رافضی کا فتوی بھی لگادیا ہے۔ یہی فتویٰ امام ابوحنیفہ کی درباری پود نے امام شافعی پر بھی لگایا تھا۔
اگر امام ابوحنیفہ نے اپنے فقہ میں حلف توڑنے کے کفارے میں روزوں کا تسلسل ضروری قرار دیا تھا تو اس کی وجہ نعوذ باللہ من ذٰلک یہ نہیں تھی کہ قرآن کی کسی اضافی آیت کے قائل تھے بلکہ سورۂ مجادلہ میں کفارے کے روزوں میں تسلسل کی وضاحت ہے اور کسی صحابی نے اپنے مصحف کی تفسیر میں تفسیری اضافہ کیا تھا۔ جس طرح تفسیرجلالین میں تفسیری اضافے کا مطلب آیات کا اضافہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں عبداللہ بن مسعود نے اپنے مصحف میں عورت سے خاص فائدہ اُٹھانے کیساتھ الی اجل مسمٰی ”ایک مقررہ وقت کا اضافہ کیا ہے”۔ تو یہ بھی قرآن کے متن میں اضافہ نہیں ہے بلکہ قرآن کی تفسیر ہے جو بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود سے نبیۖ کی حدیث میں بھی موجود ہے۔ اگر احناف کا مذہب تفسیری اضافہ قرآن کے متن میں اضافہ ہوتا تووہ متعہ کے قائل ہوتے۔ امام ابوحنیفہ نے علم الکلام سے توبہ کی تھی اسلئے قرآن کی تعریف میں المکتوب فی المصاحفکی غلط تشریح پڑھانا اور مسائل کی تخریج کرنا بہت بڑی گمراہی ہے اور اس گمراہی سے نکلنے کیلئے کسی مہدی کا انتظار کرنا زیادہ بڑی گمراہی ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ