پوسٹ تلاش کریں

ایم کیوایم کو بحران سے نکالنے میں مدد کی ضرورت

ایم کیوایم کو بحران سے نکالنے میں مدد کی ضرورت اخبار: نوشتہ دیوار

ایک بہت بڑا طبقہ اسٹیبلشمنٹ اور ایم کیوایم کی مخاصمت سے فائدہ اٹھاکر بہت بڑی سازش میں مصروف ہے، پاکستان برطانیہ سے الطاف حسین کیخلاف کاروائی کا مطالبہ کرتا ہے تو برطانیہ کے کرتا دھرتا حکام کو ہنسی آتی ہوگی کہ جب ایم کیوایم کے کارکن کراچی میں خون کی ہولی کھیلتے تھے، اس وقت تو تمہاری اسٹیبلشمنٹ، حکمرانوں اور صحافیوں نے کچھ دباؤ ڈالنے کی بات نہیں کی، اب خالی مردہ باد کے نعرے لگانے پر اتنا طیش آگیاہے؟ اگر بالفرض برطانیہ نے الطاف حسین کو ملک بدر کرکے امریکہ بھیج دیا اور وہ امریکی شہری بن گئے تو جس طرح ریمنڈ ڈیوس نے عدلیہ ، اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی ومرکزی حکومتوں کے چہرے پر کالک مَل دی اور قتل کرکے امریکہ جانے میں کامیاب ہوا، اسی طرح امریکہ الطاف حسین کو کراچی میں کھڑا کردے ،چیلنج سے کہہ دے کہ یہ میرا شہری ہے اور اس کیساتھ زیادتی ہوئی تو میں فوجی اور USایڈ بند کردوں گا ، تو لوگ دیکھیں گے کہ ہمارا وہ غیرتمند طبقہ جو آج اس کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں کل یہی لوگ دُم اٹھا اُٹھاکر کہیں گے کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں الطاف بھائی آپ بہت اچھے ہیں، یہاں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں اور صحافیوں کو رویہ بدلنے کا زبردست تجربہ ہے۔ ایم کیوایم کے منحرف رہنماایک زندہ اور تابندہ مثال ہیں۔
جنرل راحیل شریف اور اسکی موجودہ ٹیم نے پاکستان کو بدلنے میں بڑی قربانی دی۔ طالبان، بلوچ قوم پرست، پنجابی فرقہ پرست اور کراچی لسانیت پرست دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور یقینااوندھی پڑی ریاست کی ٹوٹی ریڑھ کی ہڈی کو جوڑ کر کھڑا کیا ہے۔ پختونخواہ میں لوگ طالبان کے خلاف،بلوچستان میں قوم پرستوں، پنجاب میں فرقہ پرستوں اور کراچی میں الطاف حسین کے خلاف بول نہیں سکتے تھے۔ اپنے کرپٹ فوجی افسران کے خلاف بھی کاروائی کی ہے اسلئے کہ وہ خود کرپٹ نہیں ہیں۔ نواز شریف اور زرداری خود کرپٹ ہیں اور عمران خان بھی اپنے کرپٹ ساتھیوں کی بدولت وہ اسٹیٹس کو بنارہا ہے جس کو توڑنے کا دعویٰ کررہا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی اُٹھان نوازشریف کی بغل میں ہوئی اور پاک سر زمین پارٹی کی قیادت جس کی پروردہ ہے اسی کو گالیاں دے رہے ہیں۔
جنرل راحیل شریف سیاسی ذہنیت نہیں رکھتے ، وہ خالص پیشہ وارانہ خدمات پر توجہ دیکر قوم کی کشتی کو پار لگانے کی مخلصانہ کوشش کررہے ہیں، ان کو سیاسی حکمت عملی کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا، نوازشریف نے بے تحاشہ قرضے لیکر میڈیا کو اشتہارات کے ذریعہ رام کیا ہوا ہے، جب کوئی تابعدار جرنیل آئیگا تو میڈیا کو پیسہ نہیں طاقت کے ذریعہ رام کریگا۔ محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی میں شروع سے طالبان اور ایجنسیوں کیخلاف یہی بات کررہا ہے جو اس نے وکلاء کے سانحہ پر کی ، مولانا محمد خان شیرانی کا بھی شروع سے جو مؤقف تھا اس کود ہرایا ہے، جیواور جنگ نے اپنا مفاد سمجھ کر اس خبر کی ایسی تشہیر کی جیسے حامد میر کے زخمی کیے جانے پر ڈی جی ISI ظہیر الاسلام کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ یہی نہیں بلکہ ایبٹ آباد میں اسامہ کیخلاف امریکی آپریشن کے بعد جیو نیوز اور باقی چینلوں پر امریکہ کے سوال کو بہت اچھالا گیا کہ ’’پاکستان کی ایجنسیاں جرم میں ملوث ہیں یا نااہل ہیں؟۔‘‘ جسکے جواب میں ہم نے جیو سمیت تمام ٹی وی چینلوں کو مسیج کردیا کہ ’’ 9/11کاواقعہ امریکہ کے ملوث ہونے کی وجہ سے تھا، یا اس کی نااہلی تھی؟۔‘‘ جو بیشتر چینلوں نے اٹھایا اور اس کی وجہ سے امریکہ کا توپخانہ بند ہوا، دیکھا جائے کہ کس نے پاکستان کے دفاع کو کیوں ترجیح نہ دی تھی؟۔
ایم کیوایم نے اپوزیشن کے ٹی او آرز کمیٹی سے علیحدگی اختیار کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ واقعی نوازشریف نے ان کو کھڈے لائن لگانے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔ میں نے ڈاکٹر فاروق ستار سے یہ بھی کہا کہ’’ سیاسی جماعتیں آپکی ہمدرد نہیں‘‘ لیکن انہوں نے مجھے فوج کا نمائندہ سمجھ کر اپنے کام کو جاری رکھنے کو ترجیح دی، پھر وہ ہوا، جس کی میں نے پیش گوئی کردی تھی، اے آر وائی کے ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا تھا کہ ’’پانی نکالنے سے کنواں صاف نہ ہوگا جب تک کتا نہیں نکالا جائے‘‘۔ پھر پیمرا کے ذریعے ڈاکٹر شاہد مسعود کو ہی 45دن کی پابندی لگاکر نکالا گیا۔ ایم کیوایم نے بھی حکومت کی طرح اے آر وائی کو ہی نشانہ بنایا۔ پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر کو اپنے بھائی نصیراللہ بابر کی طرف سے کاروائیاں کراچی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں لگ رہی تھی اور اب انسانی حقوق پر آواز اٹھاکر ایم کیوایم کو کھڈے لائن لگایا۔
ایم کیوایم کیساتھ 1992ء کے آپریشن کے مقابلہ میں رینجرز کا رویہ کافی بہتر ہے،آج ایم کیوایم میں پہلے جیسی صلاحیت نہ رہی، اس کا بڑا کریڈٹ زرداری کو بھی جاتا ہے جس نے ایم کیوایم کو حکومت میں بار بار شامل کرکے اسکی ساکھ کوزبردست نقصان پہنچایا، جانثاروں میں وہ جان نہ رہی جو ایم کیو ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں کا خاصہ تھا۔ جیوو جنگ کا نامور صحافی حسن نثارکہتا تھا کہ ’’ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین واحد سیاسی قائد ہیں جو اپنے کارکنوں کو ٹیچر کی طرح تربیت دیتے ہیں، باقی تو ساری سیاسی قیادت اور کارکن کچرہ ہیں‘‘۔ کیا حسن نثار مؤقف بدلے تو ایم کیوایم کے کارکن عظیم دانشور قرار دیکر یقین کرینگے کہ حسن نثار زبردست تجزیہ نگارہیں؟۔ اسٹیبلشمنٹ نے ڈاکٹر فاروق ستار اور اسکی ٹیم کو موقع دیکر بہت اچھا کیا ہے، صحافیوں اور سیاستدانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ رینجرز کے جذبات کو ابھار کر ایم کیوایم کیخلاف اپنا ذاتی عناد نکال لیں، فوج کو بھڑکانے کی بجائے ایم کیوایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کی اصلاح کریں۔ ایم کیوایم کے بانی کو دھکیلنے کی بجائے علم ودانش کی نکیل ڈالیں۔
کراچی کے نومنتخب ناظم وسیم اختر نے بالکل درست کہا کہ ’’ مرد کے بچے ہو توپھر 12مئی کا مقدمہ پرویز مشرف پر چلاؤ‘‘۔ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز بلال اکبر کو بڑھکانے کیلئے میڈیا پر یہ بیان بار بار چلایا گیا، پرویزمشرف پر مقدمہ ہو یا نہ ہو لیکن ایم کیوایم کے دفاتر مسمار کردئیے گئے۔ وسیم اختر نے طعنہ اور طیش دلانے سے کام نہ لیا ہوتا تو وہ خود کو کیسے مرد کا بچہ سمجھتا؟۔ وسیم اختر کی بات درست ہے کہ یہ لوگ مرد کے بچے نہیں جو پرویز مشرف پر مقدمہ نہیں چلاتے۔ یہ حقیقت ہے کہ فوج کے جرنیل مرد نہیں ریاست کے بچے ہوتے ہیں ، ریاست مرد یا باپ نہیں ماں ہوتی ہے۔اس میں بھی شک نہیں کہ ایم کیوایم کے علاوہ کسی نے یہ نعرہ نہیں لگایا کہ ’’جس نے قائد کو بدلا ، اس نے باپ کو بدلا‘‘۔ اسلئے کوئی ایسی جماعت نہیں جسکے رہنما اور کارکن ویسے باپ اور مرد کے بچے ہوں مگر باپ کام سے ریٹارڈ ہوسکتا ہے۔
البتہ سوال یہ ہے کہ کیا مرد کا بچہ ایسا ہوتا ہے کہ پرویزمشرف اور لندن میں بیٹھے اپنے قائد کے کہنے پر12مئی کے واقعہ میں کردار ادا کرے اور پھر کہہ دے کہ مجھ پر سیاسی مقدمہ ہے؟ کیا ایسے مرد کے بچے سے ریاست ماں کا بچہ ہونا بہتر نہیں ہے؟۔ کیا مرد ایسا ہوتا ہے کہ خود لندن میں بیٹھ کر اپنے چاہنے والوں کی جان ، مال، عزت، سیاست اور سب کچھ کو داؤ پر لگادے؟۔ ایم کیوایم کے جذباتی کارکنوں کو میں تہہ دل سے سلام پیش کرتا ہوں جو یہ بات سوچنے پر بھی اس وقت تیار نہیں کہ الطاف بھائی کو بُرا کہیں۔یہ بڑے بے غیرت قسم کے لوگوں کی عادت ہوتی ہے جو کسی پر برا وقت آنے پر گرگٹ کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ویسے تو قرآن میں زبردستی سے کلمہ کفر کہنے پر بھی اللہ نے معافی کی گنجائش کا ذکر کیا ہے لیکن ڈاکٹر فاروق ستار نے ڈر سے نہیں بلکہ اپنی جان پر کھیل کر الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے ، کیونکہ جو جذباتی کارکن ہوتے ہیں ان میں سمجھ نہیں ہوتی ، اس کا کچھ بھی ردِ عمل آ سکتاتھا۔ اسلئے جذباتی کارکن ، ریاست اور صحافی ڈاکٹر فاروق ستار کو بہت رعایت دیں۔اتنا ان کو الطاف حسین کیخلاف مجبور کرنے سے ان کی اپنی بھی کوئی حیثیت نہ رہے گی۔ عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟