پوسٹ تلاش کریں

البقرہ کی آیات (224سے232) اور سورۂ طلاق کی دو آیات میں طلاق اور اس سے رجوع کے علاوہ عورت کے حق کا جو نقشہ پیش کیاگیا ہے ، اگر صرف یہ قرآنی احکام علماء حق سمجھ کر دنیا کے سامنے رکھ دیں تو انقلاب عظیم کا آغاز ہوگا!

البقرہ کی آیات (224سے232) اور سورۂ طلاق کی دو آیات میں طلاق اور اس سے رجوع کے علاوہ عورت کے حق کا جو نقشہ پیش کیاگیا ہے ، اگر صرف یہ قرآنی احکام علماء حق سمجھ کر دنیا کے سامنے رکھ دیں تو انقلاب عظیم کا آغاز ہوگا! اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلان

رسول ۖ اللہ سے شکایت کرینگے کہ ” بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا” تو اس میں سرِ فہرست طلاق کے بعد رجوع کا مسئلہ ہوگا اسلئے کہ قرآن نے یہ بہت ہی واضح کیاہے

جب اُمت مسلمہ کے علماء ومفتیان ، دانشور ، وکلائ، جج، صحافی، اساتذہ ، لیکچرار، پروفیسراور تعلیم یافتہ وان پڑھ لوگ ان حقائق کی طرف توجہ دینگے تو خود کو بہرے و اندھے محسوس کرینگے!

قرآن میں اَیمان جمع یمین کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ عربی میں لفظ ”یمین ”عہدو پیمان کو کہتے ہیںاور عہدوپیمان توڑنے کوبھی کہتے ہیں اور حلف کو بھی کہتے ہیں اور حلف توڑنے کو بھی کہتے ہیں۔ فتاویٰ قاضی خان کے اندر شوہر کی طرف سے طلاق کیلئے بھی یمین کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لونڈی کے آزاد کرنے کیلئے بھی یمین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یمین پختہ ہونے کے بعد کفارے کا حکم اس وقت ہے کہ جب حلف ہو ۔ ذٰلک کفارة ایمانکم اذا حلفتم ”یہ تمہارے یمین کا کفارہ ہے کہ جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔(سورة المائدہ) یمین سے مراد حلف نہ ہو تو پھر معاہدہ کرنے یا اسکے توڑنے پر کفارہ نہیں ۔
غلام ، لونڈی اور کاروبار وغیرہ میں معاہدے کیلئے بھی ملکت ایمانکم ”جن کے مالک تمہارے معاہدے ہیں” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جہاں جملے اور سیاق وسباق میں یمین کا لفظ استعمال ہواہو،اسکے مطابق معنی مراد ہوتا ہے۔
سورۂ بقرہ آیت (224، 225) میں یمین سے مراد طلاق ہے، فتاویٰ قاضی خان میں طلاق کیلئے یمین کا لفظ استعمال ہواہے ۔البقرہ آیت (226) سے (232) تک کا تمام مضمون طلاق سے متعلق ہے اسلئے آیات (224اور 225) میں اَیمان جمع یمین طلاق اور میاں بیوی میں صلح کے حوالے سے ایک زبردست مقدمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا” اور اپنے عہدوپیمان کو اللہ کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی اختیار کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ” (آیت224 )
یہ آیت مقدمہ ہے طلاق کے مسائل کیلئے۔ نیکی، تقویٰ اور صلح کرانے کیلئے اللہ نے واضح منع فرمایا کہ اللہ کو ڈھال کے طورپر استعمال مت کرو کہ میاں بیوی کے درمیان صلح کروانے سے رُک جاؤ۔ اگر سورۂ بقرہ کی ان آیات کو سادہ الفاظ میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ہوتی تو مولوی اپنے فتویٰ خانے بند کردیتے ۔
طلاق صریح اور طلاق کنایہ کے جتنے الفاظ دورِ جاہلیت میں تھے اور ان پر جتنے اختلافات اور تضادات بنار کھے تھے، اب اسلام کے حوالے سے جاہلیت کو بھی فرقوں ، مسلکوں اور شخصیات کے اقوال نے بہت پیچھے چھوڑ دیاہے۔ اگر بیوی سے حرام کا لفظ کہہ دیا تو اس میں علامہ ابن تیمیہ کے شاگر علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ” زاد المعاد” میں بیس مختلف شخصیات کے اقوال نقل کردئیے ہیں۔
قرآن نے جاہلیت کے تضادات اور الجھنوں کو جڑ وںسے بالکل ملیامیٹ کرتے ہوئے ان مذہبی طبقات کیلئے کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ کمثل الحمار یحمل اسفارا ”ان کی مثال گدھوں کی طرح ہے جنہوں نے کتابیں لاد رکھی ہوں”۔ اللہ کو پتہ تھا کہ امت محمدۖ کے مذہبی طبقات نے بھی سابقہ قوموں کے نقشِ قدم پر چل کرقرآن کے احکام کو اسی طرح جعل القراٰن عضین پارہ پارہ کرنا ہے جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی اپنی کتابوں کیساتھ کیا تھا اور آئندہ کسی نبی نے نہیں آنا ہے اسلئے قرآن میں ایک ایک بات کھول کھول کر ایسی بیان کردی کہ گدھے نما انسانوں کو بھی سمجھ میں آجائے اور اس کیلئے کسی نئے نبی کی بعثت کی ضرورت نہیں پڑے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا” تمہیں پکڑتا نہیں اللہ تمہارے لغو عہدوپیمان پر مگر تمہیں پکڑتا ہے جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے”۔(البقرہ آیت225 )
اس آیت میں طلاقِ صریح اور کنایہ کے الفاظ سے قطع نظر صرف دل کے گناہ پر پکڑنے کی بات واضح ہے لیکن یہ اللہ کی طرف سے پکڑنے کی نفی ہے ۔ کوئی ایسے الفاظ طلاق کے حوالے سے نہیں جو اللہ نے صلح کیلئے رکاوٹ بنائے ہوں۔ البتہ اگر ان الفاظ پر بیوی پکڑنا چاہے تو وہ پکڑنے کا حق رکھتی ہے۔ آیت میں اللہ کی طرف سے نہ پکڑنے کی وضاحت ہے ۔
اللہ نے فرمایا کہ ” جن لوگوں نے اپنی عورتوں سے نہ ملنے کا عہد کیا ہو تو ان کیلئے چار ماہ ہیں۔ اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے۔ (آیت226 )
اس میںناراضگی کا ذکر ہے جب شوہر طلاق کا اظہارنہ کرے تو عورت چارماہ انتظار کی پابند ہے اور باہمی رضامندی سے صلح کرسکتے ہیں۔ ناراضگی شوہر کا حق ہے لیکن صلح دونوں کے اختیار میں ہے۔یہ نکتہ دنیا نے سمجھ لیا تو اسلام کی افادیت کا پتہ چل جائے گا کہ عورت کو کس قدر شوہر کے جبر سے بچایا ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ ” اگر انہوں نے طلاق کا عزم کیا ہو تو پھراللہ سننے جاننے والا ہے۔( آیت227البقرہ )
چونکہ طلاق کے اظہار کے بعد عورت کی عدت تین ادوار یا تین ماہ ہے اور طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں چار ماہ ہے ۔ اگر طلاق کا عزم رکھنے کے باجود اس کا اظہار نہیں کیا تو پھر یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ کی پکڑ ہوگی۔
علیحدگی مرد کی طرف سے ہو تو یہ طلاق ہے اور اگر علیحدگی عورت کی طرف سے ہو تو یہ خلع ہے۔ سورہ النساء میں آیت(19) میں خلع اور آیات (20 ،21) میں طلاق کی وضاحت ہے۔ خلع میں عورت گھر بار چھوڑ کر نکلنا چاہے تو شوہر اس کو جبری طور سے روک نہیں سکتا اور حدیث صحیحہ میں خلع کی عدت ایک حیض ہے۔ خلع میں دی ہوئی منقولہ جائیدادعورت کا حق ہے اور طلاق میں دی گئی منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد عورت کا حق ہے۔ عورت طلاق کا دعویٰ کرے تو دو گواہ لانے پڑیںگے۔ اگر دو گواہ یا شواہد نہیں ہوں تو پھر خلع کے حقوق عورت کو ملیں گے۔
فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ” اگر شوہر نے تین طلاقیں دیدیں اور پھر اپنی بات سے مکر گیا تو عورت کو دوگواہ لانے پڑیںگے اور اگر عورت کے پاس دو گواہ نہ ہوں تو شوہر قسم کھائے گا اور اگر اس نے قسم کھالی تو عورت اس کیلئے حرام ہوگی پھر عورت خلع لے لیکن اگر عورت کو خلع نہ ملے تو وہ شوہر کیلئے حرام اور حرامکاری پر مجبور ہوگی”۔ قرآن کریم سے انحراف کے اتنے بھیانک نتائج نکلے ہیں۔
عورت جان چھڑانا چاہے تو شوہر کیلئے حرام ہے ، چاہے شوہر نے طلاق دی ہویا ناراض ہوا ہو یا عورت خلع لے ۔ قرآن میں یہ احکام واضح الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں ۔مذہبی طبقہ کبھی اس انتہاء پر پہنچتا ہے کہ عورت جان چھڑانا چاہتی ہے مگر مذہب کے نام پر اس کی جان نہیں چھٹتی ہے اور کبھی میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں تو مفتی جہالت کافتویٰ لیکر کھڑے ہوتے ہیں کہ صلح نہیں ہوسکتی ہے۔
آیت (230) البقرہ کی اگلی اور پچھلی آیات کے ظاہری الفاظ کو سمجھ لیا جائے تو پھر دنیا میں قرآن سارے انسانوں کیلئے ہدایت کا مقتدیٰ بن جائے گا۔ ہماری قوم قیامت کے دن مجرم بن کر کھڑی ہوگی اور نبیۖ شکایت فرمائیں گے کہ ”اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ (القرآن)
اللہ نے واضح کیا کہ ” عورت تین ادوار تک خود اپنی جانوں کو انتظار میں رکھیں اور اگر ان کو حمل ہو تو پھر اس کو نہ چھپائیں اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں اور اس مدت میں ان کے شوہر ان کو لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں، بشرط یہ کہ اگر وہ اصلاح کرنا چاہتے ہوں اور عورتوں کے مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ان پر ہیں اور مردوں کا ان پر درجہ ہے”۔( آیت228)
مرد کو طلاق کا حق ہے تو عورت کو خلع کا حق ہے۔ مرد کو رجوع کا حق ہے تو عورت کا اس کیلئے راضی ہونا ضروری ہے۔ البتہ مردوں کا عورتوں پر ایک درجہ ہے اور وہ یہی ہے کہ مردوں کی کوئی عدت نہیں لیکن عورت کی عدت ہے۔
جب آیت (226)میں ناراضگی اور (228) میں طلاق کے بعد عورت کی رضا مندی کے بغیر شوہر رجوع نہیں کرسکتا تو کیا اللہ نے آیت (229) میں ایک نہیں بلکہ دومرتبہ طلاق کے بعد بھی شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دیدیا ؟۔ نہیں ہرگز نہیں معروف کا معنی اصلاح و باہمی صلح کی بنیاد پر مشروط رجوع ہے۔ اور جب اللہ نے معروف کی بنیاد پر رجوع کا حکم دیا ہے تو پھر اسکا عورت کی رضا کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔ ان تمام آیات میں عورت کی رضامندی کی شرط کے باوجود بھی معروف رجوع کو نظر انداز کیا گیا ہے اور پھر آیات (228 اور 229) میں جس طرح ایک ایک بات کھول کے واضح کردی کہ تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کے بعد آخر کار اس حدتک پہنچ جانا کہ وہ دونوں اور فیصلہ کرنیوالے ڈریں کہ وہ حدود پر قائم نہ رہیںگے تو اگر چہ شوہر کی دی گئی کوئی چیز واپس لینا جائز نہیں مگر جب دونوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتی ہو تو عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ پھر ایسی صورت میں آیت (230) میں طلاق کے بعد کی صورتحال سے یہی واضح ہوتا ہے کہ مرد اس طلاق کے بعد عورت کو اپنی مرضی سے جینے کا حق دے۔ اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح کرنے دے۔ جبکہ مردوں کا دستور یہ ہے کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے نکاح کرنے کے مخالف ہوتے ہیں جیسے لیڈی ڈیانا کو بھی طلاق کے بعد برطانوی شاہی خاندان نے کسی اور سے نکاح پر قتل کردیا تھا۔
پھر اللہ نے عدت کی تکمیل پر آیت (231 اور آیت232) میں معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاقرآن میں یہ تضاد ات نہیں کہ پہلی آیات میں عدت کے اندر ہی رجوع کی اجازت دی اور بعد کی آیات میں عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے؟۔ اس کا جوا ب بہت واضح ہے کہ اللہ نے پہلی آیات میں عورت کا حق بیان کیا ہے کہ عدت تک انتظار فرض ہے جس میں باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے تاکہ عورت عدت کے بعد انتظار پر خود کو مجبور نہیں سمجھے۔ بعد کی آیات میں یہ واضح کردیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت ہے۔ علماء وفقہاء نے اپنی معتبر کتابوں میں طلاق رجعی کیلئے ان آیات کو بھی دلیل بنایا ہے جن میں عدت کے بعد معروف رجوع کی اجازت ہے۔ جس کے حوالے ” طلاق ثلاثہ : حبیب الرحمن ”۔ادارہ تحقیقات قرآن وسنت انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی دئیے گئے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز کو بالمشافہہ ملاقاتوں میں ان معاملات سے آگاہ بھی کردیا تھا۔
سورۂ طلاق کے حکم کے مطابق عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق دی جائے تو پہلی آیت سورۂ طلاق کے مطابق عدت کو پورا کیا جائیگا، عورت اسکے گھر سے نہیں نکلے گی اور نہ اس کو نکالا جائے گا۔ مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہو۔ (تواس کو گھر سے نکلنے اور نکالنے کی اجازت ہے) یہ اللہ کی حدود ہیں ،ان سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ باہمی اصلاح کی کوئی صورت اس بگاڑ کے بعد نکالے۔ (سورہ طلاق)
اس پہلی آیت کے مطابق پاکی کے دنوں میں طلاق دی جائے یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں دوسری مرتبہ طلاق دی جائے یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں تیسری طلاق دی جائے یہاں تک کہ حیض آجائے۔ عدت وطلاق کے ان تمام ادوار میں اللہ تعالیٰ نے صلح کی بھی گنجائش رکھی ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیات اور سورۂ طلاق کی آیات میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے۔ جب عدت کے ادوار میں تین مرتبہ طلاق کے باوجود بھی رجوع کی گنجائش اللہ تعالیٰ نے رکھ دی تو کیا عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی گنجائش اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے؟۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔ طلاق کی آیت2میں یہ فرمایا کہ ”جب ان عورتوں کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے الگ کردو”۔سوال ہے کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش اللہ نے رکھی ہے؟۔ جواب یہ ہے کہ بالکل ان واضح الفاظ کے بعد کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ یہی الفاظ سورہ ٔ بقرہ آیت (231) میں بھی اللہ تعالیٰ نے استعمال کئے ہیں۔
سورۂ طلاق کی دوسری آیت کے مطابق اگر عدت کی تکمیل پر عورت کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو انصاف کیساتھ گواہی کی تلقین فرمائی ہے اور ساتھ میں مژدہ بھی سنایا ہے کہ ومن یتقی اللہ یجعل لہ مخرجًا ” اور جو اللہ سے ڈرا،اس کیلئے اللہ نکلنے کا راستہ بنادے گا”۔ (سورہ طلاق آیت2) جس طرح سورہ بقرہ آیت (232) میں عدت کی تکمیل کے بعد ایک عرصہ گزرنے کے بعد رجوع کی اجازت باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے دی گئی ہے اسی طرح سے سورۂ طلاق میں بھی اللہ نے رجوع کا راستہ بالکل نہیں روکا ہے لیکن مفتی سمجھنا نہیں چاہتا ہے تو؟۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں