پوسٹ تلاش کریں

جمعیت علماء اسلام بزرگوں کی جماعت تھی ،ہے ،نہ ہوگی

جمعیت علماء اسلام بزرگوں کی جماعت تھی ،ہے ،نہ ہوگی اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جب تحریک نظام مصطفی کے نام سے مفتی محمود نے پیپلزپارٹی کے خلاف قومی اتحاد کی قیادت شروع کردی تو مولانا غلام غوث ہزاروی بزرگ تھے اور پیپلزپارٹی کو بچانے نکلے لیکن مولانا غلام غوث ہزاروی کا ہزاروی گروپ تنہائی کا شکار ہوا اور مفتی محمود کیساتھ علماء کی اکثریت تھی۔ مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن نے ایم آر ڈی (MRD) میںبحالیٔ جمہوریت کیلئے قربانیاں دیں تو مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مولانا سرفراز خان صفدر گوجرانوالہ اور مولانا احمد علی لاہوری کے فرزند مولانا عبیداللہ انور سے لیکر مولانا عبداللہ درخواستی ، قاضی عبدالکریم و قاضی عبداللطیف ، مولانا علاء الدین ڈیرہ اسماعیل خان ، مولانا اللہ داد ژوب اور کراچی کے مدارس تک سب مولانا فضل الرحمن کے خلاف تھے لیکن مولانا فضل الرحمن نے سب کو شکست دی۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کابڑا کٹھ پتلی نوازشریف تھا۔ بے نظیر بھٹو پر نوازشریف نے امریکی ایجنٹ کا الزام لگایا تھا اور بے نظیر بھٹو نے نوازشریف پر اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگایا تھا۔ اوصاف اسلا م آباد کے ایڈیٹر حامد میر تھے ، ان کو اس وقت کی خبروں کا بھی پتہ ہوگا۔ مولانا اجمل قادری نے جمعیت کااپنا گروپ بناکر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم شروع کی ۔ مولانا احمد لاہوری کا پوتا اور مولانا عبیداللہ انور کا بیٹا گوشہ گمنامی کا شکار ہوا۔ مولانا شیرانی کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ ان سوشل میڈیا کے گیدڑ چھوڑوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے جو مولانا فضل الرحمن کے خلاف جھوٹی افواہیں چھوڑتے ہیں۔
جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ جماعت شخصیت پرستی اور وراثت سے پاک ہو۔ رسول اللہۖ کی رہنمائی وحی سے ہوتی تھی۔ کسی بھی فیصلے میں رسول اللہ ۖ کی ذاتی اور خاندانی حیثیت صحابہ کی جماعت پر اپنا اثر نہیں ڈالتی تھی۔ رسول اللہۖ کے چچا عباس بدر میں گرفتار ہوگئے تو صحابہ کی بھاری اکثریت نے فدیہ لیکر معاف کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت عمر اور سعد بن معاذ نے سب کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ رسول اللہۖ نے اکثریت کا مشورہ مان لیا جس میں حضرت ابوبکر، عثمان اور علی بھی تھے لیکن اللہ نے اسکے خلاف وحی نازل کرکے صحابہ کی وحی سے تربیت فرمائی۔ اُحد میں رسول اللہۖ کے چچا سید الشہداء امیر حمزہ کے ٹکڑے کئے گئے اور کلیجہ نکال کر چبایا گیا۔نبیۖ نے انکے ستر (70)افراد سے اس طرح کا بدلہ لینے کا اظہار فرمایا لیکن اللہ نے اعتدال اور صبر کی تقلین کرتے ہوئے معاف کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
پہلے مولانا عبداللہ درخواستی امیر اور مفتی محمود جنرل سیکرٹری تھے۔ پھر مولانا سراج احمد دین پوری امیر اور مولانا فضل الرحمن جنرل سیکرٹری بن گئے ۔ مولانا سراج احمد دین پوری پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے تو مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ کو امیر بنایا گیا۔پھر مولانا فضل الرحمن نے مولانا عبدالکریم بیرشریف سے خود امارت سنبھالی اور حافظ حسین احمد کی جگہ مولانا عبدالغفور حیدری کو جنرل سیکرٹری کیلئے راز داری سے جتوانے میں کردار ادا کیا۔ سندھ میں مولانا محمدمراد سکھر، مولانا عبدالصمد ہالیجوی، مولانا محمد شاہ امروٹیاور ڈاکٹر خالد محمود سومروسب کی قربت اور قربانیوں کا خیال رکھتے ہوئے مولانا عبدالکریم بیرشریف کو امارت سے ہٹانے کی زیادتی پر سندھیوں کو افسوس تھا اور مولانا فتح خان ٹانک نے بھی کہا تھا کہ پنجاب اور سندھ کے علماء کے پاس امیر یا جنرل سیکرٹری میں ایک بڑا عہدہ ہونا چاہیے۔ دونوں بڑے عہدوں کا پختونخواہ اور بلوچستان سے ہونا جمعیت کی وحدت کو کمزور کردیگا ۔ مولانا غلام غوث ہزاروی کے بعد مولانا سراج احمد دین پوری پیپلزپارٹی کا حصہ بن گئے اور مولانا عبدالکریم بیرشریف جنرل ضیاء الحق کی صفائی کو بھی نہیں مانتے اور اس کو قادیانی قرار دیتے تھے لیکن مولانا فضل الرحمن نے جنرل ضیاء الحق کے جنازہ میں شرکت کرلی۔ مولانا فضل الرحمن کو ایک طرف امارت پر قبضہ کی سوجھی تھی تو دوسری طرف مولانا عبدالکریم جنرل ضیاء الحق کو قادیانی قرار دے رہے تھے۔ پنجاب اور سندھ کا علماء طبقہ جمہوری تھا ، مولانا محمد مراد سکھر نے جمعیت علماء کی مرکزی شوریٰ میں اپنی رائے پیش کی تھی کہ جمعیت علماء ہند کے دور سے ہماری جماعت انقلابی نہیں بلکہ جمہوری جدوجہد والی جماعت ہے ، جس کی وجہ سے اکثریت کا رخ جمہوری جدو جہد کی طرف مڑ گیا تھا ، پھر مولانا شیرانی نے انقلابی سیاست کیلئے دلائل دئیے تو اکثر کی رائے بدل گئی اور اکثریت نے انقلابی سیاست کی رائے دیدی اور فیصلہ بھی اسی پر ہوگیا۔ جب مولانا فضل الرحمن نے فوج کے کہنے پر جمعیت کے کارکنوں سے ہاتھ کیا اور انقلابی سیاست کا فیصلہ مؤخر کردیا تو مولانا شیرانی صاحب کو اصولی طور پر اس وقت مولانا فضل الرحمن کو جماعت کی امارت سے ہٹانے کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔
مولانا فضل الرحمن کے پچھلے دھرنے میں حافظ حسین احمد نے تحریک انصاف کی رہنما زرتاج گل سے کہا تھا کہ ” مدرسے کے بچے نہیں سب کے پاس شناختی کارڈ ہے ۔پندرہ (15)سال میں بچے بالغ ہوجاتے ہیں اور اٹھارہ (18)سال میں شناختی کارڈ بنتا ہے۔ اگر پھر بھی تسلی نہ ہو تو ہم ہر طرح کی تسلی کرواسکتے ہیں”۔
مولانا فضل الرحمن سے افراد کی ناراضگی اسلئے ہے کہ بلوچستان کی امارت کو اپنی جاگیر سمجھنے والے مولانا شیرانی امارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔پہلے آئینی اور نظریاتی گروپ بن گئے لیکن انکے اصل سرغنے بھی دوبارہ مولانا فضل الرحمن سے مل گئے۔ مولانا گل نصیب خان نے مولانا عطاء الرحمن سے شکست کھائی تو یہ احساس ابھرنے لگا کہ صوبائی اپوزیشن لیڈر مولانا کے بھائی مولانا لطف الرحمن ہیں، سینیٹ میں جمعیت کے لیڈرصوبائی امیر مولانا عطاء الرحمن ہیں، قومی اسمبلی میں بھی پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ مولانااسعد محمود ہیں۔ مولانا نے ٹیلی فون کے محکمے سے اپنا بھائی ڈی ایم جی گروپ میں منتقل کرکے پاکستان کی میرٹ کی دھجیاں بکھیر دیں۔
اگر کربلا کے واقعہ میں حضرت حسین کیساتھ اپنے نو (9)بھائی ابوبکر، عمر، عثمان اور دیگر شہادت کی منزل کیلئے جاسکتے ہیں تو مولانا فضل الرحمن بھی کربلا کی طرح سے سربکف نکل کر پنڈی اور اسلام آباد کا رخ کرلیں۔ جس محمود خان اچکزئی کو یزیدی لشکر کا حر سمجھا جاتا تھا وہ بھی اس لشکر کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی ، ن لیگ اور دیگر جماعتوں نے دھوکہ بھی دیا تو مسئلہ نہیں انقلاب کی منزل مل جائے گی اسلئے کہ اگر خیر خیریت ہوئی تو غازی بن جائیںگے ، پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت کوئی بھی بے وفائی کرنے والی جماعت اور اس کی لیڈر شپ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی اور اگر شہادت کی منزل پالی تو لاکھوں لوگ اُٹھ کھڑے ہونگے اور انقلاب برپا کرنے میں نام روشن اور تابندہ وپائندہ رہے گا۔ ن لیگ نے ہاتھ دکھایا بھی تو مسئلہ نہیں لیکن نوازشریف باہر ہیں اسلئے آر یا پار کا رسک لینے میں مریم نواز کا فلسفہ کام کرسکتا ہے۔ گڑھی خدا بخش کے شہداء اور مریم نواز کی امی اور دادی کی موت میں نمایاں فرق تھا۔ گڑھی خدا بخش والوں کو مولانا طارق جمیل بھی جنازے کیلئے نہیں مل سکتا ہے۔ زرداری کھلاڑیوں کابڑا کھلاڑی اور شکاریوں کا بڑاشکاری لگتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے بینظیر بھٹو کی برسی پر جو اشعار پڑھے وہ پی ڈی ایم (PDM)کے مہمانوںکی توہین تھی۔شہید مرتضی بھٹو کا بینظیر زرداری سے اختلاف درست تھا کہ ”صدارت کیلئے ایم آر ڈی (MRD)کے قائد نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو ووٹ دینا منافقانہ کھیل تھا جس پر اب بھی پیپلزپارٹی زرداری کاربند ہے”۔ عوام تو اپوزیشن میں رہتی ہے اسلئے مولانافضل الرحمن پاکستان کی عوام کو لیڈ کریںگے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

شہباز شریف کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ محترم آصف زرداری سے ملاقات کریں۔
میری کوئی نیکی نماز روزہ زکوٰة قبول نہیں ہوئی کہا گیا جمعیت کا کارکن ہے اس کے بدلے تجھے جنت دی جاتی ہے۔ کشف
پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے