پوسٹ تلاش کریں

پشتون، ترک، ہند نے اسلام قبول کیا، سپین پرچھ (6) سوسال حکومت مگر یورپ نے اسلام قبول نہ کیا؟۔ رقیب اللہ محسود!

پشتون، ترک، ہند نے اسلام قبول کیا، سپین پرچھ (6) سوسال حکومت مگر یورپ نے اسلام قبول نہ کیا؟۔ رقیب اللہ محسود! اخبار: نوشتہ دیوار

پشتون، ترک، ہند نے اسلام قبول کیا، سپین پرچھ (6) سوسال حکومت مگر یورپ نے اسلام قبول نہ کیا؟۔ رقیب اللہ محسود!
محسود وزیرستان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، پاکستان میں بڑی تعداد میں ہیں لیکن متحد نہیں ہوتے۔حیات پریغال

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

رقیب اللہ محسود نے سوال کا جواب مانگا اور یہ سوال اٹھا کیوں ہے؟ اور اس کا تسلی بخش تو نہیں مگر سرسری جواب دینے کی اپنی سی کوشش کی ہے، ہمارا مقصد شعور کی منزل کو آگے بڑھانا ہے!

حیات پریغال نے مکین میں ایف سی اھکار خٹک کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد میں دھرنے سے خطاب کیا جو حق بجانب ہیں لیکن اپنی قوم سے جو گلہ کیا ہے، اس پر توجہ دلائی ہے !

محترم رقیب اللہ محسود اپنے فیس بک میں لکھتے ہیں جسکا خلاصہ ہے کہ ”پشتون اور ترک قوم نے اسلام قبول کیا، ہندوستان کے لوگوں نے اسلام کو قبول کیا لیکن یورپ نے اسلام کو قبول نہیں کیا؟۔ حالانکہ مسلمانوں نے سپین پر چھ (6) سو برس حکومت کی ہے۔ کیا پشتون کا کوئی مذہب نہیں تھا اور یورپ میں لوگوں کے پاس اپنا مذہب تھا؟۔ میں بھی اس پر لکھ سکتا ہوں لیکن میرے پاس علم کی کمی ہے اسلئے میری چاہت ہے کہ آپ اس موضوع پر کچھ لکھیں”۔
جواب : میرا خیال یہ ہے کہ پشتون لکھے پڑھے جوانوں کو احساس ہوا ہے کہ طالبان نے ہمارا کلچر تباہ کیا ،اسلام کے نام پر قتلِ عام کیا، پشتو نوں کی نیک نامی کو پاکستان اور دنیا بھر میں بدنام کیا تو یہ سوچ پیدا ہوگئی کہ ایسے مذہب کو آخر ہمارے آباء واجداد نے قبول کیوں کیا ؟۔ مصیبت سے ہماری جان ایک عرصہ سے نہیں چھوٹ رہی ہے۔ حوروں کی تلاش میں خود کش حملے آوربے گناہ لوگوں میں دھماکے کرکے کئی افراد شہید کرتے، جس کی وجہ سے گھر، خاندان اور علاقے میں صف ماتم بچھ جاتا تھا اور کسی کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ کس گناہ کی پاداش میں وہ مارا گیا، اس کا گھر اجڑ گیا؟۔ بس اسلام پسندوں کی کاروائی کے علاوہ مجرم کا بھی کوئی پتہ نہیں چل سکتا تھا۔ گڈ طالبان اور انکے ماموں سے جان نہیں چھٹتی ہے اور یہ ایک دومہینے اور سال کی بات نہیں بلکہ بہت عرصہ سہتے سہتے گزر گیا ہے۔
اگر آپ کے احساسات کو کچھ غلط رنگ دیا ہو تو پیشگی بہت معذرت۔ آج جو حال اسلام کے نام پر مسلمان شدت پسندوں نے اختیار کیا ہے ،کبھی اس سے ملتا جلتا حال یورپ کا بھی تھا۔ کوئی خواہ کتنا ہی اسلام سے تنگ ہو لیکن اسلام کے چھوڑنے پر اس کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا جاتا ہے۔ پورے افغانستان کی امریکہ اور نیٹو نے اینٹ سے اینٹ بجادی مگر عام افغانیوں میں اشتعال نہ پھیلا لیکن جب ایک افغانی کے مرتد ہونے کی خبر افغانستان میں پھیل گئی تو پورا ملک کئی دنوں تک احتجاجی مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ سے بند رہا تھا۔
یورپ مذہبی تعصبات کا شکار تھا تو وہ اسلام کو قبول نہیں کرسکتا تھا؟۔ جس طرح آج ہم مذہبی تعصبات کا شکار ہیں اور اپنا مذہب بدلنے کا سوچ نہیں سکتے۔ جب یہود حضرت عیسیٰ کو والدالزنا اور حضرت مریم کوزانیہ کہتے تھے اور عیسائی ان کو خدا اور خداکی بیوی کہتے تھے تو اسلام نے مشرکانہ اور گستاخانہ عقائد کی خواتین سے نکاح کی اجازت دیدی۔ اہل کتاب مسلمانوں کی اعتدال پسندی اور روشن خیالی کو قبول نہیں کرتے تھے۔ یورپ میںنسلی امتیاز نہ تھا۔ افریقہ میںنسلی امتیاز تھا تو وہاں اسلام کو تیزی کیساتھ قبول کیا گیا۔ امریکہ میں نسلی امتیاز کی وجہ سے کالے گوروں کے مقابلے میں اسلام قبول کرتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی نسلی امتیاز تھا ،یہاں زیادہ تر اچھوت، دلت اور نچلی ذات کی وجہ سے لوگوں نے اسلام کو قبول کیا ہے۔ بہت قصائی قریش بن گئے، تیلی عثمانی بن گئے ، میراثی درانی بن گئے۔آج برصغیر میں مسلمان ہونے والوں میں سے کوئی اچھوت اور دلت دکھائی نہیں دیتا۔ جب چنگیز اور ہلاکو نے خلافت عباسیہ کے مرگز بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تو درندہ صفت قوم نے مفتوح قوم کے اخلاقیات سے بھی کچھ سیکھا اور اسلام قبول کرکے ہی وہ دنیا میں کامیاب خلافت عثمانیہ کے نام پر اقتدار کرسکتے تھے،اسلئے ترک قوم نے اپنے وسیع ترمفاد میں اسلام قبول کیا تھا۔ جس طرح شیعہ سنی اور دیگر مسالک کے علماء اپنی دنیا کے وسیع ترمفاد میں اپنا مذہب تبدیل کرلیتے ہیں۔ سلطان عبدالحمید کی ساڑھے چار ہزار لونڈیاں تھیں جن میں ہررنگ ونسل اور عمر کی حوریں شامل تھیں۔ اگر وہ چنگیزی رہتے تو شاید اس کی قوم اتنی بڑی تعداد میں حرام سراؤں کو بھرنے کی اجازت نہ دیتے۔
پشتونوں کی یہ روایت اور فطرت رہی ہے کہ جب کوئی اس کو اپنی مدد کیلئے پکارتا ہے تو بہت فراخ دلی سے اس کی مدد کرنے کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں۔ جب حضرت خالدبن ولید نے پشتونوں سے مسلمانوں کیلئے کفار کیخلاف مدد مانگی تو پشتون لشکر کی شکل میں مدد کو پہنچ گئے۔ فتح کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے لیکن وہ شخصیت پرستی کا دور تھا۔ نبیۖ کی شخصیت پر ایمان لائے۔کلمہ، نماز، ختنہ ، پردہ ودیگراحکام تبلیغی جماعت نے سکھادئیے۔ تبلیغ والوں نے لطیفہ مشہور کیا کہ مولوی نے فضائل بیان کئے کہ ایک ہندو کو کلمہ پڑھانے کا یہ اجر ملے گا۔ پٹھان نے کہا کہ یہ تو بہت سستا سودا ہے اور تلوار لیکر نکلا ، راستے میں ہندو مل گیا تو اس کو زمین پر پٹخ دیا کہ خو کلمہ پڑھو۔ ہندو نے کہا کہ میں اسلام قبول کرنے کی نیت سے نکلا تھا، کلمہ پڑھادو تو میں پڑھ لوں۔ پٹھان کو خود بھی کلمہ نہیں آتا تھا تو کہا کہ جاؤ منحوس مجھ سے بھلادیا۔ پاکستان بھی کلمہ کے نام پر بناتھا مگر پٹھان کی طرح کلمہ خود بھی نہیں آتا تھا۔ کشمیر میں لڑائی کی ضرورت پڑی تو پٹھانوں نے قائداعظم کی دعوت کو اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھ لیا۔ جب افغانستان اور پاکستان سمیت پوری دنیا نے القاعدہ اور طالبان کو کچلنے کا فیصلہ کیا تو پٹھانوں نے ازبک، چیچن، عرب اور سب کو پناہ دینا اپنا اعزاز سمجھ لیا۔ مسلم لیگ کے سینٹر مشاہداللہ خان نے ہمارے اخبار کو بیان دیا کہ ”حلالہ اسلام میں نہیں ہے، یہ لوگ قوالی سن کر مسلمان ہوئے ہیں، ورنہ کہیں بھی حلالہ نہیں ہے”۔ باچا خان گاندھی کیساتھ متحدہ قومیت پر متفق تھے ، علامہ اقبال نے متحدہ قومیت کی وجہ سے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی پر ابولہب کا فتویٰ لگایا تھا۔ جب باچا خان ہندوستان گئے تھے تو جنگ اخبار میں میاں طفیل محمد امیر جماعت اسلامی نے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا ۔ولی خان نے جواب دیا کہ ” اگر ہمارے آبا واجدا د تمہارے اجداد کو مسلمان نہ کرتے تو تمہارا نام طفیل محمد کی جگہ طفیل سنگھ ہوتا۔ امید ہے کہ اس مختصر تبصرے سے خوش ہونگے ۔ محسود قوم کا خاص طور پر اور پختون قوم کا عام طور شعور اجاگر کرنا ہوگا۔صحابہ نے مشکلات برداشت کرکے دنیا کی امامت کی تو محسود قوم کا بھی انتخاب ہواہے۔
معروف شخصیت حیات پریغال نے مکین میں ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں شہید نوجوانوں کے دھرنے سے خطاب میں کہا جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ” محسود قوم نے خاص طور پر، پشتون قوم نے عام طور پر خوشی کی خبر کافی عرصہ سے نہیں سنی ہے۔ موت کی خبرہے اور لاشوں کا مسئلہ ہے، ٹارگٹ کلنگ ہے ۔ ایک خاتون کو گھر میں قتل کیا گیا تھا، ایک شخص دوبئی سے آیا تھا اس کو قتل کیا گیا، ایک شخص اپنی بیوی کے کٹے ہوئے بال لفافے میں لیکر آیا تھا۔ اب یہ دو جوانوں کی لاشیں پڑی ہیں۔ انکے والدین نے محسود قوم کو اپنے بچوں کی لاشیں دیدیں لیکن لوگ اکٹھے نہیں ہوئے۔ محسود قوم کا ننگ وناموس خراب ہورہاہے، سب مشکلات میں ہیںلیکن کوئی کھیل رہے ہیں اور کوئی بازاروں اور دکانوں میں لگے ہیں۔ یہاں بہت کم لوگ آئے ہیں۔ پھر بات کرتے ہیں کہ نقیب کے والد نے بیٹے کی قیمت وصول کرلی۔ جب قوم حال تک پوچھنے کیلئے تیار نہ ہو اور طعنے دینے میں پیش پیش ہو تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟۔
وزیرستان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور پورے پاکستان میں محسود قوم کی بڑی تعداد ہے لیکن ہمارا کوئی اتحاد نہیں ہے۔ بیس (20) سے پچیس (25) ہزار افراد قتل ہوگئے اور جس طرح مکین بازار میں پنجروں سے مرغیاں کٹ رہی ہیں اسی طرح ہم بھی مارے جائیںگے اگر متحد نہیں ہوئے۔ ہم نہیں کہتے کہ آئین کو چھوڑ کربغاوت کا قدم اُٹھاؤ لیکن اپنے قتل پر کوئی مؤثر احتجاج تو کرو۔ متحد ہوجاؤ، کب تک ہم ان مشکلات کو برداشت کرتے رہیںگے؟۔جب تک اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر متحد نہیں ہونگے تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ایک بچے کو ماں پیٹ میں رکھ کر پیدا کرتی ہے، بچپن سے اس کو بڑی مشکلوں سے بڑا کرتی ہے۔ باپ دھوپ کے اندرمحنت مزدوری کرکے اس کو جوان کرتا ہے لیکن ان جوانوں کو ماردیا جاتا ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ ان جوانوں کی لاشوں کو والدین نے قوم کے حوالے کیا لیکن قوم کے افراد یہاں نہیں پہنچے۔ ہم ہر جگہ ہر کسی کے پاس ہر واقعہ پر پہنچ جاتے ہیں اسلئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری طرف سے کوئی کمی کوتاہی نہیں ہے۔ جب قوم کے سپرد لاشیں کی جائیں اور قوم ننگ کا مظاہرہ نہ کرے اور پھر باتیں بنائے کہ پیسے لے لئے ہیں تو یہ بہت افسوس کی بات ہے”۔
قابلِ صد احترام حیات پریغال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بالکل سوفیصد درست ہیں۔ محسود قوم کیساتھ جتنی زیادتی ہوئی ہے اور جتنی ہورہی ہے تو اس پر اہل وزیرستان، پشتون قوم ، پاکستان اور عالمِ انسانیت کی طرف سے بجا طور پر بہت ہمددردی کی مستحق ہے۔ریاستِ پاکستان کی طرف سے اب بھی یہ مسئلہ ہے کہ وزیرستان کے شناختی کارڈ پر ریاستی اہلکاروں کے تیور بدلتے ہیں۔
میرا تعلق وزیرستان سے تھا، کراچی سے معروف اخبار نکالتا تھا اور طالبان کی طرف سے نشانہ بنایا گیا تھا لیکن اسکے باجود حکومتی اہلکاروں نے بھی میرے گھر پر چھاپے مارے ہیں۔ اپنی ذات کے اعتبار سے گلہ کرنا میرا شیوہ نہیں۔
فطرت کے مقاصد کرتا ہے نگہبانی یا بندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی
جو فقیر ہوا تلخئی دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
جب مجھ جیسے معروف انسان کیساتھ ریاستی اہلکاروں کا سلوک ایسا تھا جس کو دہشتگردوں نے حملے کرکے عوام سے لاتعلق ہونے پر مجبور کیا تھا تو محسود قوم پر کتنے مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے ہونگے؟۔ چونکہ حیات پریغال نے قوم سے گلہ کیا ہے اسلئے کچھ گر کی باتیں بتاتا ہوں۔ ہمارے عزیز ٹانک میں رہتے ہیں ۔ ان کا جوان بیٹا ناجائز سرگرمیوں میں پڑگیا تو والدین نے خود گولی سے اُڑا دیا۔ اگر وہ اپنے ہاتھ سے اس فتنے کو ختم نہ کرتے تو ایک نہیں کئی بیٹے کھودیتے۔ محرومی کا گلہ الگ کرتے، بے عزت الگ ہوتے، عوام اور ریاست دونوں کی طرف سے نفرت کا شکار بنتے۔ یہ طعنے دینے کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ہم پر حملہ ہوا تو اس کی پلاننگ چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارے عزیزوں کے ہاں ہوئی۔ حملے کے باجود قریبی عزیز کے پاس دہشتگردوں کا آنا جانا تھا اور جب آئی ایس آئی نے چھاپا مارکر طالبان کی پک اپ کو اڑادیا، طالبان کے سپوٹر کو لیکر گئے تو ہم نے ان کی جان چھڑائی۔ جب تک اپنے اندر کی خرابی کے خلاف مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے جائیںاس وقت تک ریاست بھی ہماراپیچھا نہیں چھوڑے گی اور لوگوں کی ہمدردی اور متحد ہونے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ ہم سے محسودقوم کو ساتھ لاکر طالبان نے معافی مانگی تھی لیکن جس دن میرا بس چلے گا تو پوری قوم سے عرض کروں گا کہ طالبان نے ہمارے ساتھ جو کیا تھا اگر اس پر ہمیں معافی دیدو تو یہ تمہاری مہربانی ہوگی اور اگر کچھ قرض سمجھتے ہو تو اس کیلئے بھی ہم تہہ دل سے تیار ہیں اسلئے کہ طالبان کی سپورٹ ہمارا مجرمانہ کردار تھا اور یہ اسلئے نہیں کہ میں گمراہ تھا کیونکہ ٹانک اور پاکستان کے مشہور علماء نے مجھے تحریراور تقریر سے سپوٹ کیا تھا تو چند بدکرداروں کا اسلام پر اجارہ نہیں تھا مگر مجھے اپنے ذاتی کردار اور غلطیوں کی وجہ سے اللہ نے مشکلات سے گزارا تو اس نے ٹھیک کیا ۔ اگر قوم نے مشکلات سے جان چھڑانی ہے تو اپنے سرنڈر اور کلنڈر دہشت گردوں کو خود سنبھالنا ہوگا۔اور اگر ہماری طرح تم لوگ بھی دہشتگردوںاور ان کی حمایت کرنے والوں سے اچھا تعلق رکھوگے تو پھر گلہ خود سے کرنا۔ غالب نے کہا کہ
غالب خوش ہوا مسجد ویراں کو دیکھ کر
کہ میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے
ہم پر جو گزری سو گزری ، قوم کازیادہ برا ہوا۔گدھا کنویں سے نہ نکالا جائے تو پانی صاف نہ ہوگا۔ پیغلے یعنی کنواری لڑکیوں کی طرح جوانوں کے شوقیہ بال ہیں، خدا کرے کہ لمبے ناخن بھی رکھیں لیکن قوم کی فکرہے تولاشوں پر گلے سے کام نہیں بنے گا بلکہ اپنی حالت بدلنی ہوگی اور محسود قوم میں یہ صلاحیت ہے۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟