پوسٹ تلاش کریں

سنی شیعہ اتحاد کا مسئلہ بہت گھمبیر بھی ہے اور ناگزیر بھی

سنی شیعہ اتحاد کا مسئلہ بہت گھمبیر بھی ہے اور ناگزیر بھی اخبار: نوشتہ دیوار

سنی شیعہ اتحاد کا مسئلہ بہت گھمبیر بھی ہے اور ناگزیر بھی۔معروضی حقائق کے نتیجے میں بہت دلگیر بھی اور اچھی اُمید کی زندہ تصویر بھی۔جب تک عدل واعتدال سے کام نہیں لیا جاتا تب تک صراط مستقیم پل صراط سے بھی زیادہ مشکل ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی محمدزرولی خان کا مولانا طارق جمیل صاحب پر اعتراض اور علامہ سید شہریار رضاعابدی کا علامہ سید جوادحسین نقوی پر اعتراض بڑا زبردست آئینہ ہے!

مفتی زرولی خان نے مولانا طارق جمیل کے مولیٰ کہنے پر اعتراض کیا اور علامہ شہریار عابدی نے علامہ سید جواد نقوی پر علامہ زاہدالراشدی سے ملنے اور پیچھے نماز پڑھنے پراعتراض کیا

سنی شیعہ مسئلہ شروع سے گھمبیر تھا لیکن اب انتہاء کی طرف پہنچ رہا ہے۔ برطانیہ اورامریکہ کی ایجنسیوں کی مشترکہ قینچی سے اُمت مسلمہ کے اتحاد کو کون نقصان پہنچارہاہے؟۔یہ لوگ ایک دوسرے پر اغیار کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے پر اُتر آئے ہیں۔ علامہ شہریار رضاعابدی بھی ٹھیک کررہے ہونگے جنہوں نے علامہ سید جواد نقوی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مفتی زرولی خان نے بھی ٹھیک کیا کہ مولانا طارق جمیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مفتی زرولی خان نے کہا کہ اکابر اہل سنت نے حضرت علی کیساتھ مولا کا لفظ نہیں لگایا ہے تو اہل تشیع کی معتبر کتابوں میں ائمہ اہل بیت نے بھی حضرت علی کیساتھ کبھی مولا کے لفظ کا اضافہ نہیں کیا۔ بہت سارے صحابہ کرام کیساتھ ان الفاظ کا کبھی اضافہ نہیں لکھا گیا جو نبیۖ نے ان کیلئے استعمال کئے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص سے نبیۖ نے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ جس کا ذکر مفتی زرولی خان نے نہیں کیا۔ لیکن بہت سے دوسرے صحابہ کرام کی صفات اور خصوصیات کا ذکر کیا۔
مفتی زرولی خان نے کہا کہ اہل تشیع کے فتنہ گروں نے حضرت علی کیلئے یہ تک کہا کہ کائنات کے خالق بھی حضرت علی ہیں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے رب العالمین کو بھی مولا قرار دیا ہے۔ اہل تشیع جب اللہ اور علی میں فرق نہیں کرتے تو پھر علی کیلئے مولا کے لفظ کا استعمال ان کی خوشنودی کیلئے کسی امام باڑے کے ذاکر کا کام ہوسکتا ہے لیکن اہل سنت کا لبادہ پہن کر یہ کام بہت خطرناک ہے اور پھر اکابرین سلف کو اس وجہ سے مجرم کہنا شیعہ کی ترجمانی ہے۔ مفتی زرولی خان کے مدلل اور تفصیلی مؤقف کو یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔
علامہ شہریار رضاعابدی کی باتوں میںوزن ہ کہ زاہدالراشدی نے ہمیشہ سپاہ صحابہ کے مؤقف کی تائید کی جنہوں نے اہل تشیع کا خون بہایا ہے۔ زاہد الراشدی کے والد مولانا سرفراز صفدر نے اپنی کتاب میں امامیہ شیعہ کو کافر قرار دیا ہے اور جنہوں نے شیعوں کا قتلِ عام کیا ہے وہ دیوبندی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے تو پھر دیوبندیوں پر اہل تشیع کا اعتماد بحال کرنے میں غور کرنا چاہیے۔
علامہ شہریاررضاعابدی نے بریلوی مکتبہ فکر کی طرف سے مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک حیدر آبادی ماموں کا بھی حوالہ دیا جس نے شریعت کے معارف بیان کرنے کیلئے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ مجمع میں برسربازار ننگا چلے گا اورایک آدمی اسکے عضوتناسل کو پکڑ کر آگے اور دوسرا اسکے پیچھے دبر میں انگلی ڈال کر پیچھے چلے گا اور لڑکے یہ آواز لگائینگے کہ بھڑوا ہے بھڑوا،بھڑوا ہے بھڑوا، بھڑوا ہے بھڑوا۔ اس میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب”الافاضات یومیہ ” کا حوالہ ہے۔ علامہ شہریار رضاعابدی کہتے ہیں کہ میں بریلوی کی زبان سے سنانے کے بعد اسکو دہراؤں گا نہیں لیکن اگر ہماری کسی کتاب میں یہ واقعہ ہوتا تو دیوبندی ہمارا کیا حشر کرتے؟ ۔ہم صرف ان کو ایک آئینہ دکھانا چاہتے ہیں۔
یہ ذہن نشین رہے کہ سپاہ صحابہ نے ایک کتابچہ نما پمفلٹ چھا پا تھا جس میں بریلوی مکتبۂ فکر کے مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دیگر معتبر علماء کے فتوے ہیں کہ ”جو شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے”۔ گوگل میں دیکھ سکتے ہیں۔
ہمارا تعلق علماء دیوبند سے ہے، دیوبندی اور اہلحدیث بہت بعد میںتوحید کی وجہ سے وہابی کہلائے ہیں جبکہ ہم اپنے جدامجد سید عبدالقادر جیلانی کے بعد تسلسل ہی کیساتھ توحیدی ہیں۔ جس ماحول سے انسان کا تعلق ہوتا ہے اسکے اثرات ہوتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں دیوبندی مسلک پھیل گیا تو دوسری طرف بریلوی مکتبہ فکر پھیل گیا۔ مولانا احمد رضاخان بریلوی نے جس طرح سے مزاروں پر خرافات کی مخالفت کی تھی تو اس کی تصویر عملی طور پر علماء دیوبند تھے۔ دوسری طرف ان خرافات کے دفاع میں بریلوی علماء بلکہ جہلاء نے مولانا احمد رضا بریلوی کی ایماء پر آذان سے پہلے صلوٰة وسلام پڑھنا شروع کیا ۔ مذہبی جذبہ اور مشن کاروبار بن گیا۔ جب دیوبندی و بریلوی اپنااپنا نظریہ برصغیر میں پھیلارہے تھے تو ہمارا تعلق علماء دیوبند سے نہیں تھابلکہ دیوبند کے فاضل نے ہماری مسجد کی امامت شروع کی۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب نے بہت بڑی ضخیم کتاب لکھ دی تھی جس میں نماز کی سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تھا لیکن فاضل دیوبند مولانا اشرف خان صاحب نے جہاں ہمارے ہاں امامت کرائی وہاں علماء دیوبند کے مسلک کو مسلط نہیں کیا تھا۔ اگر مولانا احمد رضاخان بریلوی کا شاگرد ہوتا تو بھی صلوٰة وسلام کا آذان میں اضافہ نہ کرتا۔
مولوی بیچارا زیادہ تر ماحول کا غلام ہوتا تھا۔ اب تو دین ،ایمان اور اسلام سے ہٹ کر مولوی فرقہ پرست اور مفادات کا غلام بنتا جارہاہے ۔ مولوی کو جہاں سیاستدانوں اور فرقہ پرستوں نے بالکل بے وقعت بنادیا ہے وہاں منبر ومحراب ، مسجد ومدرسہ اور خانقاہ وامام باگارہ کی طاقت کا بہت غلط استعمال ہورہاہے۔ کچھ لوگ نیک نیتی سے سب کچھ کررہے ہیں اور کچھ ایک مفید کاروبار سمجھ کر چھپکلی بنے پھرتے ہیں۔ ظالموں کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگِ نمرود میں پھینکا گیا تھا تو یہ پھونکیں مارہی تھی۔ جو لوگ چڑیا بن کر یہ آگ بجھا رہے ہیں تو ان کی روح یانار کونی بردًا وسلامًا علی ابراھیم کی خلافت کا حق ادا کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ قادرمطلق ذات تو اللہ کی ہے۔
کانیگرم جنوبی وزیرستان میں پنچ پیر یکے شاگرد نے نماز میں سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تو کانیگرم کے مولانا محمدزمان نے اس پر قادیانیت کا فتویٰ لگادیا ۔ ہماری مسجد کا امام مولانا اشرف خان شریف آدمی تھا اورمولانا محمدزمان بدمعاش تھا جس کی موت بہت عبرتناک ہوئی ہے۔کانیگرم کے مولاناشاداجان اب بھی بقید حیات ہیں جو بہت نیک اور اچھے آدمی ہیں۔ سنت کے بعد اجتماعی دعا کراچی کے معروف دیوبندی مدارس جامعہ بنوری ٹاؤن، دارلعلوم کراچی اور جامعہ فاروقیہ سمیت لاہور، ملتان، فیصل آباد، پشاور ، بنوں ڈیرہ اسماعیل خان اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی اب نہیں ہوتی ہے۔
دیوبندی پہلے ہی تقسیم تھے۔اب بریلوی لوگوں نے ایکدوسرے پر یلغار شروع کردی ہے اور مولانا سید مظفر حسین شاہ نے علامہ الیاس قادری کو چیرنے کی دھمکی دیکر معافی مانگ لی ہے جو صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر واپس آجائے تو کوئی حرج نہیں لیکن دوسری طرف علامہ آصف جلالی اور علامہ عرفان شاہ قادری کے پیچھے بریلوی شخصیات نے بھول بھلیوں کا سفر شروع کردیا ہے۔ یہ آغا ز ہے انجام سفر کیا ہوگا یہ فتنوں کے اس دور کے آخر میں پتہ چلے گا اور جب بیرون ملک کی ایجنسیاں اور مذہبی جاہلوں کا سامنا ہوتو معاملہ خطرناک ہوسکتا ہے اور ہماری ریاست کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ ان کو کنٹرول کرسکے۔
احسان اللہ احسان کے بارے میں سلیم صافی نے یہ خبر دی کہ فوج نے اس کو استعمال کرکے اپنا کام لے لیا لیکن اسکے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا اسلئے وہ فرار کروایا نہیں گیا بلکہ فرار ہوا ہے اور غفلت برتنے والے اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کاروائی ہوئی۔ بہت لوگوں کو یہ بہت عجیب لگتا ہوگا کہ احسان اللہ احسان سے آخر کیا کام لیا گیا اور اتنی بڑی غفلت کو کیسے آسانی سے برداشت کیا گیا؟۔ لیکن اس سے بڑے کام تو ان سرنڈر طالبان سے لئے جاتے ہیں جو آئے روز کبھی کبھافوج کو دھوکہ میں نشانہ بھی بناتے ہیں ۔ جس طرح پنجابی کے علاقے میں ایک پٹھان فوجی پنجابیوں کی پہچان نہیں کرسکتا ہے اسی طرح سے پنجابی فوجی بھی علاقہ غیر کے آزاد قبائل میں اچھے برے پٹھانوں کی پہچان نہیں کرسکتے ہیں اور مجبوری میں ایسے لوگوں سے کام لیا جاتا ہے جن کو گڈ طالبان کہا جاتا ہے مگر کوئی شریف آدمی اس کام کیلئے تیار نہیں ہوتا ہے اسلئے پلے پلائے پِلے اور جگریوں سے کام لیا جاتا ہے ۔فوجیوں کا قتل ہو یا عوام کا اس کو برداشت کرنا دل گردے کا کام ہے لیکن جس طرح مولانا کے حیدر آباد دکنی ماموں نے ملامتی صوفی بننے کیلئے عجیب کردار ادا کیا تھا اس سے زیادہ پاک فوج اپنے لئے سلیکشن کی قربانی دینے والوں کی شلواریں اترواکر ملامتی صوفی بنادیتے ہیں۔
بہت ہوچکا ہے ، عوام برداشت کی آخری حد کو پہنچ چکی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے تصوف کے تین واقعات دکھائے۔ خوامخواہ میں کشتی خراب کرکے تخریب کاری کا بہت کھلا مظاہرہ کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام وعدے کے باوجود بھی اس پر خاموش نہیں رہ سکے۔ پھر بولنے پر یاد دلایا تو کہنے لگے کہ آئندہ سوال نہیں کروں گا۔ پھر جب بچے کو قتل کردیا تو حضرت موسیٰ نے سوال نہ کرنے کی خاموشی توڑ دی۔ جب یاد دلایا تو ایک موقع اور مانگ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی بھوک بھی انتہاء تک پہنچائی تھی۔ تخریب کاری اور قتل پر سوال نہ اٹھانے کا وعدہ تو کرچکے تھے لیکن ایک دیوار کو اُٹھانے پر معاوضہ طلب نہ کرنا اتنی بڑی بات نہیں تھی لیکن جب دیوار سیدھی کردی تو پھر سوال اٹھاکر معاملہ انجام تک پہنچادیا تھا۔ ریاست ، حکومت اور مذہبی طبقات کی ساری منطق صحیح ہے اور یہ تخریب کاری اور معصوم کے قتل تک سب کچھ برداشت کرلیتے ہیںمگر پیٹ پر لات مارنا اچھا نہیں لگتا ہے۔
حضرت ابوبکر اور حضرت علی کے قد بہت اونچے اونچے تھے۔ مذہبی بونوں کیساتھ یہ بات جچتی نہیں ہے کہ اپنے سے بڑی شخصیات کے قدکاٹھ ناپ کر فیصلہ کریں کہ کس کی کیا اوقات تھی اور کس کی کیا اوقات نہیں تھی؟۔ فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان زیادہ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ اصحاب رسولۖ نے کس کس مرحلے میں کیا کیا قربانیاں دیں؟ ان سے اہل سنت کے ماحول میں پیدا ہونے والے بڑی محبت کریں تو یہ فطری بات ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی کو بہت مبارک ہو کہ وہ چرس کے نشے میں موالیوں کے جھرمٹ میں پہنچ کر جب علی کا نام لیتا ہے جہاں علامہ خود نہیں پہنچ سکتے تو وہ ملنگ بڑا اچھا لگتا ہے اور اچھا لگنا بھی چاہیے ۔ ہمیں بخدا اچھا ہی لگتا ہے لیکن جس صحابی نے مکی دور، بدر اور احد اور خندق کے علاوہ تمام جنگوں اور صلح حدیبیہ میں رسول اللہۖ کا ساتھ دیا وہ سنی کو کیسے اچھا نہیں لگے گا؟۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی قرآن سے نبیۖ کے ہم سفروں کو نکالنے پر بھی اصرار کرے اور ملنگوں کو داخل کرے تو اس پر بھی خوشی کے شادیانے بجائے جائیں لیکن علماء حق کی یہ ذمہ داری ہے کہ چرس کے نشے میں نہیں دین کے نشے میں پھانسی کے پھندوں کو چومنے کی سنت کو زندہ رکھیں۔ جہاں ریڈ بتی جلے وہاں اسٹاپ نہ کرنا موت کا باعث بن سکتا ہے۔ سڑک کی موت سے بڑی عقیدے اور نظریے کی موت ہے۔
اگر ایک کہتا ہے کہ مجھے اللہ نے اپنی بندگی کیلئے پیدا کیا ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ مجھے علی کی پرستش کیلئے پیدا کیا ہے تو دونوں کا راستہ ایک نہیں ہوسکتا ہے۔ علامہ شہنشاہ نقوی کی بات صحیح ہے کہ اہل تشیع کو مارو مت، انکے خلاف کتابیں لکھو، دلیل سے بات کرو۔ ہماری بھی اتنی گزارش ہے کہ اہل تشیع ایک تو اختلاف اور توہین کے درمیان تمیز کاپیمانہ بنائیں ۔ ہم نے مان لیا کہ قرآن میں حضرت موسیٰ کی طرف خوف اور ظلم کی نسبت ہے اور علی کے درجے کو اسلئے افضل مانتے ہونگے کہ علی کی طرف ظلم اور خوف کی نسبت نہیں ہے اور موسیٰ فرعون کے پاس اسلئے جانے سے ڈرے تھے کہ ایک قتل خطاء ہوا تھا اور حضرت علی نے کئی مشرکوں کو قتل کیا تھا تب بھی مشرکوں سے نہیں ڈرتے تھے۔ اگر اس کو افضلیت کی دلیل نہیں بناتے بلکہ جہاد اور تعصبات کی فضاء میںقتل خطاء کے اندر تفریق کرتے تو ذاکر نہیں علامہ کہلانے کے مستحق ہوتے۔ جب حضرت علی نے اپنے منصوص حق کیلئے تین خلفاء کے خلاف قیام نہیں کیا جو سب کو قتل کرکے منزل مراد تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے تھے اور حضرت حسین نے بہتّر ساتھیوں کیساتھ یزید کے چھوٹے لشکر کے سامنے شہید ہونا قبول کیا اور یزید کے لشکر کے سپاہ سالار حر نے حسین کیساتھ شہید ہونا قبول کیا لیکن کوفہ کے ذاکر دُم گھسائے بیٹھے رہے تھے تو پھر آنے والے وقت میں حسین کے مقابلے میں علی پر بھی ملامت کا خطرہ ہوگا۔ جس طرح بوہری و آغا خانی حضرت حسن کو نہیں مانتے ہیں۔
علامہ شہریار عابدی دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، آغاخانی ،بوہری سب کو مسلمان مانتے ہیں جو ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں لیکن اکابر صحابہ کیلئے کلمہ خیر نہیں مانتے۔ اہل سنت ائمہ اہلبیت کو مانتے ہیں لیکن جاہل شیعوں کو نہیں مانتے تو وقت نے فیصلہ کرنا ہے کہ اصل شدت پسند اور مجرم کون ہے کون نہیں ہے؟۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ