پوسٹ تلاش کریں

طلاق پر حلالہ کی لعنت سے نبیؐ کے دل میں اللہ نے جان چھڑانے کی تمنا پیدا کرکے آیات نازل کیں مگر شیطانی القا نے معاملہ اُلٹا دیا!

طلاق پر حلالہ کی لعنت سے نبیؐ کے دل میں اللہ نے جان چھڑانے کی تمنا پیدا کرکے آیات نازل کیں مگر شیطانی القا نے معاملہ اُلٹا دیا! اخبار: نوشتہ دیوار

جاہلیت میں خواتین کے حقوق پامال تھے، عدت میں بار بار طلاق سے رجوع اور اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کی لعنت سے رسول اللہۖ کے دل میں اللہ نے جان چھڑانے کی تمنا پیدا کرکے آیات نازل کیں مگر شیطانی القا نے معاملہ اُلٹا دیا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہۖ نے آخری خطبہ میں خواتین کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کا حکم فرمایا مگر اللہ تعالیٰ نے قرآنی آیات میں خواتین کو جو تحفظ دیا تھا وہ بھی شیطانی القا نے خراب کرکے رکھ دیا!

اگر سابقہ رسولوں اور انبیاء کی طرح قرآنی احکام میں شیطانی القا سے بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش نہ ہوتی تو پھر قرآن اور ہمارے نبی ورسولۖ سے متعلق پیش گوئی کیسے پوری ہوسکتی تھی؟

قل یاایھاالناس انماانالکم نذیر مبینOفالذین اٰمنوا وعملوا الصّٰلحٰت لھم مغفرة ورزق کریمOوالذین سعوا فی آےٰتنا معٰجزین اُولٰئک اصحاب الجحیمOومآارسلنامن قبلک من رسولٍ ولانبیٍ الّآ اذاتمنٰی القی الشیطٰن فی امنیتہ فینسخ اللہ ما یلقی الشیطٰن ثم یحکم اللہ آےٰتہ واللہ علیم حکیمOلیجعل مایلقی الشیطٰن فتنة للذین فی قلوبھم مرض والقاسیة قلوبھم وان ظٰلمیں لفی شقاقٍ بعیدٍOولیعلم الذین اُوتوالعلم انہ الحق من ربک فیومنوا بہ فتخبت لہ قلوبھم وان اللہ لھادالذین اٰمنوا الیٰ صراط مستقیمOولا یزال الذین کفروا فی مرےةٍ منہ حتی تاتیھم الساعة بغتةً او یأتیھم عذاب یومٍ عقیمٍOالملک یومئذٍ للہ یحکم بینھم فالذین اٰمنوا و عملوا الصٰلحت فی جنٰت النعیمOوالذین کفروا وکذّ بوا باٰےٰتنافاولٰئک لھم عذاب مھینO
ترجمہ”کہہ دیجئے کہ اے لوگو! بیشک میں تو صرف تمہارے لئے بہت کھلا ڈرانے والا ہوں۔ پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو ان کیلئے مغفرت ہے اور عزت والی روزی ہے۔ جو لوگ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اللہ کی آیات ناکام بنائیں تو یہی لوگ جحیم والے ہیں۔ اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کسی رسول کواور نہ کسی نبی کو مگر یہ کہ جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنا القا کردیا۔ پس اللہ مٹا دیتا ہے جو شیطان نے القا کیا پھر محکم بنادیا ہے اپنی آیات کو اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ تاکہ بنادے جو شیطان نے القا کیا ہو،ان لوگوں کیلئے فتنہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دلوں میں سختی ہے۔ اور بیشک ظالم لوگ دُور کی پھوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے کہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے۔ پس اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل اس کیلئے جھک جائیں۔ اور بیشک اللہ ہدایت دینے والا ہے ایمان والوں کو سیدھی راہ کی طرف۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہے وہ برابر شک میں پڑے رہیںگے اس سے۔ یہاں تک کہ وقت اچانک ہی آن پہنچے یا پھر ان پر بانجھ پن کا عذاب ۔ اس دن ملک اللہ کیلئے ہوگا ،وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ پس جو لوگ ایمان والے اور عمل صالح والے ہیں تو وہ نعمتوں والے باغات میں ہوںگے اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا تو ان لوگوں کیلئے رسوا کن عذاب ہوگا”۔ (سورہ حج آیات49تا57)
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بہت وضاحت کیساتھ شیطانی القا سے متاثر ہونے والے دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔ایک ایمان اور عمل صالح والے ہیں ان کیلئے مغفرت اور عزت والی روزی کا وعدہ ہے۔ بینکوں کے سودی معاوضے کو عزت کی روزی کون کہہ سکتا ہے؟۔ مفتی تقی عثمانی کے سارے اثاثے چیک کئے جائیں تو پتہ چل جائیگا کہ اس میں روزی کے کیا بارودی دھماکے ہوتے ہیں؟۔ آیت میںدوسرے کافر ہیں جن کی کوشش یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات کو مغلوب کردیں۔ یہ لوگ جحیم والے ہیں۔میرے استاذ مفتی محمد نعیم نے بتایاتھا کہ مفتی تقی عثمانی نے دباؤ ڈالا کہ طلاق کے مسئلے میں قرآنی آیات کی تائید مت کرو۔ یہ حلالے کی لعنت میں ملوث لوگ کس طرح صالح عمل کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟۔
اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ پہلے بھی لوگوں پر ایک وقت گزر جاتا تھا توپھر ان کے دل سخت ہوجاتے تھے۔ جب قرآن نازل ہورہاتھا تو جن کافروں کے دلوں میں مرض تھا ،ان کیلئے طلاق سے رجوع کے احکام میں بڑا فتنہ تھا ۔ اللہ بھی ان کو ہدایت نہیں دینا چاہتا تھا۔ کیونکہ دین میں جبر نہیں ہے۔ قرآنی آیات کے محکمات بھی ان کافروں اور منافقوں کیلئے قابلِ قبول نہیں تھے جن کے دلوں میں مرض تھااور جنکے دل سخت ہوچکے تھے۔ آج پھر جن لوگوں کے دلوں میں حلالہ کی لعنت کا مرض ہے اور جن کے دل سخت ہوچکے ہیں وہ کسی شادی شدہ عورت کی عزت خراب ہونے پر ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں تو یہ القائے شیطانی ان کیلئے فتنہ اور آزمائش ہے۔ جو دین کے نام پر تجارت اور اپنے نفس کی ہوس مٹانے کے مرض میں مبتلاء ہیں وہ واضح آیات کے مقابلے میں دل کے اندھے پن کا شکار ہیں ۔ یہ اب حق سے بہت دورجا پڑے ہیں۔
دوسری طرف ایمان والے ہیں۔ جن کو اللہ نے علم دیا ہے وہ اللہ کی آیات کو دیکھ کر سمجھ رہے ہیں کہ شیطانی القا باطل ہے اور حق تیرے رب کی طرف سے قرآن کی محکم آیات میں موجود ہے ۔پس وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور انکے دل اس کیلئے جھک جاتے ہیں۔ اور بیشک اللہ ایمان والوں کو ہی صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ آج کراچی کے مفتی محمد حسام اللہ شریفی سے لیکرگوجرانوالہ کے مفتی خالد حسن مجددی تک بہت سارے علماء دیوبند، بریلوی ،اہلحدیث اور شیعہ قرآنی آیات سے صراط مستقیم کی ہدایت پارہے ہیں۔
جب اسلام نازل ہوا تھا تو کفر کرنیوالے فتح مکہ تک شک میں پڑے تھے۔ فتح مکہ ہی ان کیلئے اچانک انقلاب کا بہت بڑا دن تھا۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اہل حق اس طرح سے غالب آجائیںگے۔ وہ نبیۖ اور صحابہ کرام کیلئے سمجھتے تھے کہ تاریخ کا حصہ بن جائیںگے لیکن پھر بانجھ ہونے کا عذاب خود ہی دیکھ لیا، اللہ نے پہلے خبر دی تھی کہ دشمن کو بے نام ونشان کردوں گا۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے اسلام قبول کیا ،ابولہب کے بچے تھے یا نہیں لیکن ان لوگوں کی اولادیں بھی یہ نہیں بتاتی تھیں کہ کس کی نسل سے ہیں؟۔ جبکہ نبیۖ کی طرف منسوب سادات آج بھی دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ جب پھر انقلاب آجائیگا تو دیکھنا مفتی تقی عثمانی کی اولادیں انشاء اللہ پھر قیامت تک بھی شرمندگی سے اپنی نسبت ظاہر نہیں کریںگی۔ پاکستان پر ہمیشہ سودی نظام اور حلالہ کی لعنت کا عذاب مسلط کرنے والے غالب نہیں رہیںگے۔
اب سیدھے سادے طالبان ، القاعدہ ، داعش اور جہادی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے اور فرقہ پرستی سے مخلصانہ تعلق رکھنے والے بھی بات سمجھ رہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی زندگی میں پہلی مرتبہ چیخنے اور دھاڑنے کی کوشش میں ڈھینچو ڈھینچو کر رہے ہیں۔ ہم اس کے اعصاب پر سوار ہوگئے ہیں۔ وہ دن بہت زیادہ دور نہیں ہیں کہ جب اچھے لوگ نعمت والے باغات میں ہوں گے اور اللہ کی آیت کا انکار کرنے والے اور ان کو جھٹلانے والے رسوا کن عذاب کا سامنا کریںگے۔
بلا ان پر اچانک نازل ہوگی جو اللہ کی محکم آیات سے شک میں پڑے ہیں اور پھر دیکھ لیںگے کہ شیطانی القا اور حلالہ کی لعنت کا کیسے خاتمہ ہوجائے گا۔
جاویداحمد غامدی کا علم اتنا سرسری ہے کہ ایک ویڈیو میں کہتاہے کہ ”اللہ نے عوام پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں لیکن رسول اللہۖ پر چھ نمازیں فرض کی ہیں۔ آپۖ پر تہجدکی نماز بھی فرض کردی ہے، عام مسلمانوں کیلئے تہجدنفل ہے” ۔
حالانکہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ اقم الصلوٰة لدلوک الشمس الی غسق الیل و قراٰن الفجر ان قراٰن الفجر کان مشھودًاOومن اللیل فتہجد بہ نافلةً لک ”نماز پڑھیںسورج کے ڈھلنے سے رات گئے تک۔ اور فجر کا قرآن،بیشک فجر کے قرآن کی شہادت ہے۔ اور رات میں سے آپ کیلئے تہجد کی نماز نفل ہے”۔ اگر غامدی صاحب یہ کہتے کہ سورج کے ڈھلنے سے رات کی تاریکی چھا جانے تک نماز پڑھنے کا حکم نبیۖ کیلئے خاص تھا اسلئے کہ یہی آپۖ کے شایانِ شان تھا۔ پھر فجر کے وقت کا قرآن اسلئے بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں انسان کا دل ودماغ بالکل تروتازہ ہوتا ہے۔ تہجد کی نماز نبیۖ کیلئے بھی نفل ہی تھی۔ اگر علماء وفقہاء فجر کے وقت قرآن پر توجہ دیتے تو فقہی مسائل میں اتنا زیادہ اُلجھنا نہیں پڑسکتا تھا۔
دورِ جاہلیت میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ ” شوہر اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا تو اس کو ایسا حرام تصور کیا جاتا تھا کہ حلالہ سے بھی وہ حلال نہ ہوسکتی تھی، مذہب کا یہ فتویٰ رائج الوقت سکے کی طرح چلتا تھا”۔ رسول اللہۖ سے خاتون نے اس معاملہ میں مجادلہ کیا تو آپۖ کی رائے بھی رائج الوقت مذہبی فتوے کے مطابق تھی۔ یہ القائے شیطانی پہلی شریعتوں کے نام پر چل رہاتھا اور جب رسول اللہۖ کی رائے بھی اس سے متاثر تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس شیطانی القا کا راستہ اپنی واضح آیات سے روک دیا۔ چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات ،جو آپ سے اپنے شوہر کیلئے جھگڑ رہی تھی”۔ اس القائے شیطانی نے معاشرے میں اس درجہ سرایت کی ہوئی تھی کہ اس کے مذہبی ہونے اور القائے شیطانی میں امتیاز باقی نہیں رہ گیا تھا اور جب اللہ نے اس کوواضح فرمادیا، سورۂ مجادلہ کی آیت میں یہاں تک واضح کیا کہ”وہ ان کی مائیں نہیں ہیں،ان کی مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ یہ منکر اور جھوٹا قول ہے۔ جو تمہارے اپنے منہ کی بات ہے”۔سورہ ٔمجادلہ
جس تھوڑی بہت عقل اور سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان سے کہا جائے کہ اس آیت میں اللہ کے احکام اور القائے شیطانی میں کیا فرق ہے ؟۔ تو صاف صاف بتادے گا کہ بیوی کو ماں قرار دینے اور اس پر شرعی حکم جاری کرنے پر اللہ نے منکر اور جھوٹ کا حکم جاری کیا ہے اور یہی القائے شیطانی بھی ہے۔ ماحول اس قدر شیطان نے خراب کردیا تھا کہ سورۂ الاحزاب میں پھر اللہ نے نبیۖ کو حکم دیا کہ اللہ سے ڈرو۔کفار اور منافقین کی مت مانو، اس پر حکم جاری کرو جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کیا ہے۔ اللہ تمہارے اعمال کوجانتاہے اور اس کی وکالت کافی ہے۔ اللہ نے کسی کے شخص کے پیٹ میں دو دل نہیں رکھے ہیں اور نہ جن بیگمات سے تم نے ظہار کیا ہے ان کو تمہاری مائیں بنایاہے”۔
انسان کے پاس ایک دل ہوتا ہے ، ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ماں کو ایک دل سے اپنی ماں سمجھے اور دوسرے دل سے اس کو بیوی سمجھے۔ اللہ کی وکالت انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ کافروں اور منافقوں نے پھر بھی بڑا زور لگالیا تھا کہ القائے شیطانی کی رائج کردہ شریعت کی خلاف ورزی کردی تو یہ دین اور مذہب کے خلاف ہوگا۔ جس دور میں اللہ تعالیٰ نے پہلے شیطانی القا کے علاج کیلئے فرمایا ہوگا کہ ”مائیں نہیں ہیں مگروہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے” تو پھر شیطانی القا نے عوام کو مذہبی طبقات کی شکل میں الجھن میں ڈال دیا ہوگا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوتیلی مائیں اور باپ کی لونڈیاں حرام نہیں ہیں۔ پھر اس القائے شیطانی کو ختم کرنے کیلئے اللہ نے وحی نازل کی کہ ولاتنکحوا مانکح اٰبائکم من النساء الی ما قد سلف ”اور نکاح مت کرو جس سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہو مگر جو پہلے گزر چکاہے”۔
عباسی دور کے حنفی شیخ الاسلام بہت بیوقوف تھے اسلئے کہ امام ابوحنیفہ نے جیل میں زندگی گزاری، دوسرے ائمہ کرام نے بھی سختیاں برداشت کیں لیکن یہ بادشاہ کو اس کے باپ کی لونڈی جائز قرار دینے کے حیلے بتارہے تھے۔ اگر اسکے پاس علم اور عقل ہوتی توسورۂ مجادلہ کی آیت سے استدلال کرتے کہ لونڈی نے انسان کو جنا نہیں ہے تو وہ ماں بھی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ القائے شیطانی ہوتا مگر جس طرح مفتی تقی عثمانی نے سودی زکوٰة اور بینک کے سودی نظام کیلئے حیلہ بنایا ہے اسی طرح سے شیطانی القاء ہر دور میں مذہب کے نام پرکارگر ثابت ہوا ہے بات کچھ ہوتی تھی اور شیطان اس میں اپنے مقاصد پورے کرنے کیلئے اپنی القا کردیتا تھا۔ جب سود کی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دے کر منع فرمادیا۔ علماء وفقہاء نے بعد میں رسول اللہۖ کی تمنا میں القائے شیطانی ڈال کر یہ مسئلہ گھڑ دیا کہ چونکہ لوگ مزارعت کی وجہ سے غلامی کا شکار ہورہے تھے اسلئے نبیۖ نے اس کو سود اور ناجائز قرار دیا تھا۔ اپنے اصل کے اعتبار سے یہ ناجائز نہیں تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیا اور بعد میں آنے والے حیلہ ساز فقہاء نے مزارعت کو جائز قرار دیا۔
رسول اللہۖ کی تمنا تھی کہ جس طرح انبیاء نے دین کی تبلیغ کو اپنا پیشہ نہیں بنایا ،اسی طرح امت مسلمہ مذہب کے نام پر تجارت اور کاروبار نہ کریں، پہلے کے علماء متفق تھے کہ قرآن، نماز اور دینی تعلیم کو تجارت بنانا جائز نہیں ہے لیکن پھر شیطان نے اپنا القا اس تمنا میں شامل کردیا اور مذہب آج ایک تجارت ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں