پوسٹ تلاش کریں

اگر مولانافضل الرحمن مریم نواز کا دوپٹہ اور مریم نواز مولانا کا رومال سرپر باندھ دے تب بھی قوم زندہ باد کے نعرے لگائے گی!

اگر مولانافضل الرحمن مریم نواز کا دوپٹہ اور مریم نواز مولانا کا رومال سرپر باندھ دے تب بھی قوم زندہ باد کے نعرے لگائے گی! اخبار: نوشتہ دیوار

مسلمان ماضی پرنہ لڑیں اپنے حال کو سدھاریں، اگر بروقت قرآن سے رہنمائی لینے کی کوشش نہ کی تو دیر ہوجائے گی! پھرکہنامت ،موقع نہیں ملے گا ۔جتنا بھی تم سے ہوسکے اپنے ارمان نکال لو، یہ دریائے کافری کے اُترنے کا وقت ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولوی کے درسِ نظامی سے لیکر نظام مملکت تک، فک النظام”نظام تہس نہس کرکے رکھ دو” شاہ ولی اللہ، کبھی ہندو پنڈت بھی ہندوستان کو کلمہ پڑھانے کا کہتاہے اور توکبھی علامہ اقبال

سورۂ نور سے مشرق اور مغرب کی ظلمت ختم ہوسکتی ہے ،اگر مولانافضل الرحمن مریم نواز کا دوپٹہ اور مریم نواز مولانا کا رومال سرپر باندھ دے تب بھی قوم زندہ باد کے نعرے لگائے گی!

اسلام اس بات کا نام ہے کہ جو کچھ قرآن میں ہے اس کو من وعن تسلیم کیاجائے اور مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے فرقے اورمسالک پکڑ کر رکھے ہیں لیکن قرآن کو چھوڑ رکھا ہے۔ قرآن میںہی ان کی اس خامی کا ذکر ہے۔
وقال الرسول یارب ان قومی اتخذا ھٰذالقرآن مھجورًا
”اور(قیامت کے دن اللہ کے نبیۖ) رسول کہیںگے کہ اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔
المOذٰلک الکتٰب لاریب فیہ ھدیً للمتقینOالذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلوٰة ومما رزقنٰھم ینفقونOوالذین یؤمنون بما انزل الیک وماانزل من قبلک وبالاٰخرة ھم یؤقنونOاولٰئک علی ھدیً من ربھم واولٰئک ھم المفلحونO
” الم، یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ھدایت ہے اس میں پرہیزگاروں کیلئے۔جو لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو ہم نے رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور اس پر جو آپ سے پہلے نازل کیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں”۔ البقرہ
ایک شیعہ علامہ حضرت صاحب ہیں جو آئے روز اپنے سامعین کے سامنے کوئی نہ کوئی نیا انکشاف کرتے ہیں کہ قرآن میں چار مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب کا نام اور پھر اپنی منطق بیان کرتے ہیں کہ جہاں محمد کا ذکر ہے وہاں علی کا ذکر ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ زندگی میں پہلا انکشاف ، قرآن میں حضرت حسین بن علی کا ذکر ہے۔ سامعین پھر اس کے نئے انکشاف پر سر دھنتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ شاید جاری رہے گا۔
ایک اور علامہ ہیں جو والفجر ولیال عشر سے مختلف اقوال کا ذکر کرتے ہیں کہ دس راتوں سے محرم کا پہلا عشرہ یارمضان کا آخری عشرہ یا پھر فجر سے مراد امام زمانہ ہیں یا پھر بارہ امام اور حضرت فاطمہ ورسول ۖ کیساتھ چودہ افراد کیلئے چودہ قسم ہیں۔
بعید نہیں کہ کوئی شیعہ الم سے مراد آل محمد بھی لے۔ال سے آل اور م سے محمد مراد ہیں۔ درسِ نظامی میں تفسیر کی آخری کتاب بیضاوی میں ہے ” الم” سے کیا مراد ہے؟یہ اللہ کے سواء کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الف سے اللہ، لام سے جبرئیل اور میم سے محمدۖ مراد ہیں ۔ یعنی اللہ نے جبریل کے ذریعہ محمدۖ پر کتاب نازل کی۔ میں درسِ نظامی کا طالب علم تھا۔ مولانا فداء لرحمن درخواستی کے مدرسہ انوارالقرآن میں ہمارے استاذ مولانا شبیراحمد رحیم یار خان والے تھے۔ بیضاوی کا یہ سبق تھا تو میں نے عرض کیا کہ پہلا تضاد یہ ہے کہ اگر صرف اللہ کو معلوم ہے تو پھر یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اللہ نے جبریل کے ذریعے حضرت محمدۖ پر یہ کتاب نازل کی ہے۔ دونوں قول میں تضاد ہے۔ دوسرا تضاد یہ ہے کہ اللہ کا پہلا حرف، محمدۖ کا پہلا حرف تو جبریل سے بھی پہلا حرف ہونا چاہیے۔ الف جیم میم ہونا چاہیے تھا۔ استاذ نے برملا درس کے دوران کہہ دیا کہ ”عتیق کی بات درست ہے ، بیضاوی کی تفسیر غلط ہے”۔
حضرت ابوبکر نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال کیا تو حضرت عمر نے آخر میں کہہ دیا تھا کہ کاش ہم نبیۖ سے زکوٰة نہ دینے پر قتال کا حکم پوچھ لیتے۔ حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں مانعین زکوٰة کیخلاف قتال ہوا تھا، حضرت عمر نے اقتدار میں آتے ہی حضرت خالد بن ولید کوہی منصب سے معزول کردیا تھا۔ اہل سنت کے چار فقہی امام حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل بالکل متفق تھے کہ مانعین زکوٰة کے خلاف قتال کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ انکی طرف منسوب ایک اور گمراہی ہے کہ نماز پر سزاؤں اور اس سزا پر اختلافات کے مسائل ہیں۔ اہل سنت و اہل تشیع اس پر متفق ہیں کہ قرآن کیخلاف کوئی حدیث اور قول قبول نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”یہ وہ کتاب ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں ہے” لیکن سنی و شیعہ دونوں ایک دوسرے پر شکوک اور تحریف کا الزام لگاتے ہیں اور اس مسئلے کا سنجیدہ حل نکالنا ہے۔ سینٹ الیکشن سے پہلے قومی اسمبلی میں اس پر بحث کی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” یہ کتاب پرہیزگاروں کیلئے ہدایت ہے” جبکہ شیعہ سنی اپنے فاسق طبقہ کو بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کے پرہیزگار طبقہ کوبھی گمراہ سمجھتا ہے۔
اللہ نے ہدایت یافتہ لوگوں کی پہلی صفت یہ بیان کی کہ ” وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں ”۔ لیکن دیکھا جائے تو مسلمانوں کا حاضروموجود پر ایمان لگتا ہے کہ جو مولوی نے بتادیا اور جس سے دنیا میں اچھی گزر بسر ہو۔ امریکہ اور دنیا کا نظام پہلے نمبر پر ہے۔
اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ” جو نماز قائم کرتے ہیں”۔ مسلمانوں کا پچانوے (95)فیصد طبقہ نماز پڑھتا نہیں ہے لیکن پھر بھی اپنے اپنے فرقوں کو گمراہ نہیں ہدایت یافتہ قرار دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جو ہم نے ان کو رزق دیا ہے ،اس میں سے خرچ کرتے ہیں”۔ ہم نے طبقات بانٹ دئیے ہیں جو نماز کا اہتمام کرتے ہیں وہ مرکر بھی خرچ کا کوئی اہتمام نہیں کرتے اور جو نماز نہیں پڑھتے ان کیلئے مولوی پر خرچہ ہدایت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جو ایمان لاتے ہیں جو احکام آپ کی طرف نازل کئے اور جو آپ سے پہلے نازل کئے ہیں”۔ ہم کہتے ہیں کہ ہماری عبادت ، معاشرت ، معیشت اور حکومت بھلے اپنے نبیۖ کی طرف نازل کردہ کتاب کے مطابق نہ ہو تب بھی ہم ہدایت پر ہیں اور وہ اپنی طرف نازل ہونے والے احکام پر ٹھیک عمل بھی کرتے ہیں تو بھی وہ گمراہ ہیں اور فلاح نہیں پائیںگے۔ کیا ہم اپنے نبی ۖ پر نازل کردہ کتاب کے احکام کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہیں؟۔ یقین جانئے کہ نہیں اور بالکل نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے کہ ” طلاق کے بعد عدت میں باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے”۔ جس میں حلالہ کی لعنت غیرفطری ہے۔ دنیا کے کسی مذہب ، ملک اور قوم کے پاس اللہ کے اس حکم کو لے جاؤ، وہ اس حکم پر سر تسلیم خم کردے گا اور یہ ثابت کرے گا کہ اسلم تسلم اس نے اسلام کا یہ حکم قبول کیا لیکن مسلمان انکار کرکے کفر کریگا۔ پھر بھی ہم مسلمان اور وہ کافر؟۔ ہمیں صرف اپنے روئیے پر غور کرناچاہیے۔
اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر فرقے کی اکثریت نماز قائم نہ کرنے کے باوجود ہدایت پر ہے تو حضرت ابوطالب بھی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ ہمیں ابوطالب کی گود میں پناہ ملے گی اور اگر ہم اللہ کے دئیے ہوئے میں سے خرچ نہیں کرتے تو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔
صحیح بخاری میں اہل بیت کے افراد کیساتھ علیہ السلام لکھا ہے۔ ہمارے اکابر نے بھی علیہ السلام لکھا ہے۔ ہم تو اہل قبور کو بھی سلام کرتے ہیں اور جاہلوں کو بھی سلام کہتے ہیں اور قرآن میں مخاطب کے صیغے سے بھی حق کا انکار کرنے والوں کوسلام کہا گیا ہے کہ سلام علیکم لا نبغی الجاہلین ”تم پر سلام ہو ، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے ہیں”۔ علماء دیوبند اور بریلوی نے اپنے اپنے اکابر کیساتھ رضی اللہ عنہ بھی لکھ دیا ہے اور کوئی جل جلالہ بھی لکھ دے تو مناسب اسلئے ہے کہ اللہ سے اپنے اکابرہی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہودونصاریٰ کی طرح اپنے علماء ومشائخ کو اپنے رب کا درجہ دیا ہے۔ عام مسلمانوں کو چاہیے کہ اُٹھ کر جاہلوں کا راستہ روکیں۔ ورنہ جس طرح پختون قوم طالبان کے ہاتھوں تباہ ہوگئی تھی ،اب دوسرے اپنے مولوی کے ہاتھوں تباہ ہونگے اور ہماری حکومت و ریاست جب قادیانیوں سے بھی بے بس ہو اور قادیانیوں کیلئے بھی بے بس ہو۔ جو نہ قادیانیوں کے خلاف کچھ کرسکے اور نہ قادیانیوں کے حق میں چاہنے کے باوجود کچھ کرسکے تو ایسی بے بس حکومت وریاست نے بلیک میل ہی ہونا ہے۔
شیعہ سنی دونوں مکتبہ فکر کے شدت پسندوں نے صحابہ واہل بیت سے زیادہ اپنے پیٹ کا مسئلہ سمجھ رکھا ہے۔ جس طرح یہود ونصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت سوزی اور شخصیت سازی پر ہلاک ہوئے تھے اور جب سے انہوں نے فرقہ واریت کو چھٹی دیدی ہے تو عروج وترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے ،اسی طرح شیعہ سنی بھی کچھ دیر کیلئے اپنی سابقہ شخصیات کو جنتی یا دوزخی بنانے کی رٹ چھوڑ دیں۔ کسی کے کہنے سے کوئی جنت میں جاسکتا ہے اور نہ جہنم میں جاسکتا ہے لیکن ان لوگوں کو سابقہ لوگوں کے جنت اور جہنم سے زیادہ اپنے پیٹ کیلئے دنیا کو جنت یا جہنم بنانے کی لگی ہے۔
اہل سنت سے عملی طور پر اہل تشیع زیادہ لچکدار بن سکتے ہیں اسلئے کہ اگرحضرت عثمان چالیس (40) یاستر (70)دن محاصرے کے دوران خلافت سے دستبردار ہوجاتے تو شہادت کی منزل پر نہیں پہنچتے۔ جبکہ حضرت حسن نے خلافت سے دستبردار ہوکر حضرت معاویہ کے سپرد کردی تھی۔ اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ امام مہدی امام حسن کی اولاد سے اسلئے آئیںگے کہ حضرت حسن نے خلافت کی قربانی دی تھی اور حضرت حسین نے حرص کیا تھا اسلئے حضرت حسین کی اولاد کو آئندہ بھی خلافت کایہ انعام نہیں ملے گا۔ اہل تشیع بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی اولاد کو کیا اسلئے خلافت نہیں ملے گی کہ انصار سے خلافت کے مسئلے پر نامناسب وقت پر الجھے تھے؟۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت حسن نے کسی مجبوری کے بغیر ہی خلافت چھوڑ دی تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑنے سے زیادہ خلافت سے دستبردار ہونا ہی بہتر ہے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی انصار و مہاجرین ، اہل بیت کے اسی روئیے نے امت مسلمہ کی قوت کو پوری دنیا میں سپر طاقت بنادیا تھا۔ حضرت حسین نے شہادت کیلئے خود فیصلہ نہیں کیا تھا اگر یزیدی لشکر ان کو چھوڑ دیتا تھا تو پھر وہ مدینہ واپس چلے جاتے۔ اگر یزید کے پاس بھی جانے دیتے تو حضرت ہند اپنے پوتے یزید کو ایسا نہ کرنے دیتی ،کیونکہ ایک مرتبہ رسول اللہۖ نے فتح مکہ کے بعد معاف کیا اور پھر امام حسن نے تمام تلخیوں کے باوجود حضرت معاویہ کے حق میں دستبرداری اختیار کی تھی اور اگر حضرت حسین نے اپنا مقصد شہید ہونا ہی مقرر کیا تھا تو آپ کی اولاد میں پھر کوئی بھی اس طرح آرام سے بیٹھنے کے بجائے باری باری قیام ہی کرتے۔
البتہ حضرت حسین نے سمجھوتہ نہیں کرنا تھا اور سمجھوتے کیلئے تیار ہوجاتے تو پھر یہ ممکن نہ ہوتا کہ امت کبھی بھی ظالم کے سامنے مزاحمت کی سیاست کرتی۔ امام حسین ہی ظالموں کے خلاف مزاحمت کا استعارہ اور یزید ظلم کا استعارہ اس قربانی کے سبب بن گئے ہیں۔ آج ہم نے پھر پوری دنیا میں حسین کے کردار سے یزیدیت کا بستر گول کرنا ہے اور یزیدیت کی صرف ایک شکل خاندانی طور پر حکومتوں اور پارٹیوں پر قبضہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ سول وملٹری بیوروکریسی اور اس کے آلہ ٔکار حکمران ، میڈیا اور مذہبی طبقہ سب یزید کے لشکر سے زیادہ بڑے یزیدی ہیں۔
حضرت حسین یزید کے ہاتھ پر بیعت ہوجاتے تو کربلا کے میدان میں شہادت کی موت نصیب نہ ہوتی۔ باقی ائمہ اہل بیت اور علماء حق نے بھی ظالموں کی چوکھٹ پر اپنا سر نہیں جھکایا تھا۔ البتہ دین خیرخواہی کا نام ہے اور موسیٰ کی فرعون سے خیرخواہی تھی اور ہردور میں فرعون ایک نئی روح کیساتھ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو تو مزاحمت کرنا ہی انبیاء کرام اور ان کے وارثوں کا وطیرہ رہاہے۔ اگر اکبر بادشاہ کے دربار میں حسین کو ماننے والے ابولفضل فیضی شیعہ اور شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سنی ہو توپھر یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کس کا عقیدہ کیا ہے ؟۔ بلکہ حسینی کردار والا ہی اہل حق ہے۔
اب تو مسئلہ یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے اور اگر مولوی اور اہل اقتدار سب کو اپنے حال پر بھی چھوڑ دیا جائے تو سب کا یونہی تیا پانچہ ہونے والا ہے۔ اب ہم نے ان کو گرانا نہیں سدھارنا اور بچانا ہے اسلئے کہ مشرکین مکہ نبیۖ کو مجبور نہ کرتے توپھر ہجرت بھی نہ ہوتی اور صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی نہ ہوتی تو مکہ اس طرح فتح نہ ہوتا۔

NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟