پوسٹ تلاش کریں

بندر کا مندر اسلام آباد میں! بندے تعصب کی کھاد میں

بندر کا مندر اسلام آباد میں! بندے تعصب کی کھاد میں اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بندر کا مندر اسلام آباد میں! بندے تعصب کی کھاد میں

اداریہ نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2020

رسول ۖ کا 10سال تک مشرکین سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ 6ھ کو ہوا تھا۔ 10ھ کو نبیۖ کاوصال ہوا۔ابوبکر کا پورا، عمر کا آدھا دور خلافت اسی میں گزرجانا ۔ معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ اگر مسلم مشرک بنے تو قریش واپس نہیں کرینگے ۔ مشرک مسلم بن جائے تو واپس کیا جائیگا۔ منافقین کا جہنم میں نچلا حصہ ہے۔ کوئی منافق بن کر رہنے کے بجائے مشرک بنتا تودنیاو آخرت کے اعتبار سے فائدہ تھا۔ مسلمان کو کفر پر مجبور کیا جائے تو قرآن میں معاف ہے۔ دوسری شق یہ تھی کہ قریش اور مسلم کے حلیف قبائل کی معاہدے میں پاسداری ہو گی ۔ معاہدہ ٹوٹا اس طرح کہ قریش نے اپنے حلیف قبیلے بنوبکر کی مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعة کے خلاف مدد کی۔ بنوخزاعة بھی مشرک قبیلہ تھا لیکن مسلمانوں سے اچھے مراسم تھے اور معاہدہ کررکھا تھا۔
خانہ کعبہ کو مشرکوں کے پاس چھوڑنا بڑی بات تھی یا اسلام آباد میں مندر بنانا بڑی بات ہے؟۔ تقسیم ہندکے وقت مولانا ابولکلام آزاد یہ تقریریں کرتاتھا کہ اتنی ساری مساجد ، مدارس، گھر ، شہر اور زمینیں چھوڑ رہے ہو ؟۔ تمہارا ضمیر یہ اجازت دیتا ہے کہ یہ ویران ہوجائیں؟۔ قرآن کے نسخے کس کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہو؟۔ لیکن کئی مسلمانوں نے پاکستان بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ مساجداور مدارس کو قرآن کے نسخوں سمیت قربان کردیا اور اپنی جان بچاکر چلے آئے۔ ہجرت کا حکم تو خدا نے نہیں دیا تھا،ورنہ دارالعلوم دیوبنداور تبلیغی جماعت کے اکابرین اور مولانا احمد رضا خان بریلوی اپنے خاندانوں سمیت ہجرت کرتے ہوئے پاکستان پہنچ جاتے۔
تبلیغی جماعت کا مرکز رائیونڈ ویران مندر تھا جو حکومت سے الاٹ کروایا۔ کیا مندر کے بدلے بھارت نے تبلیغی جماعت کے بستی نظام الدین مرکز پر قبضہ کیا؟۔ آج بھی بہت ہندو بھارت میں مسلمان ہورہے ہیں۔ شاعرہ لتا حیا ، ہندوپنڈت اسلام و مسلمانوں کی تعریف اور ہندوریٹائرڈ چیف جسٹس ہندوانہ جہالت کی سرِ عام مذمت کرتا ہے۔جس طرح ہندوؤں نے اپنے اصلی مذہب حضرت نوح علیہ السلام کی تعلیمات سے روگردانی کی ہے بالکل اسی طرح سے ہمارا مسلمان طبقہ خاص طور پر شدت پسند مذہبی طبقہ اسلام کی اصلی ظاہری اورباطنی روح سے محروم ہوچکا ہے۔
مولانا نے تعارف کے بغیر ویڈیو وائرل کی کہ ” فوج ہم نے جہاد کیلئے پالی۔ عوام کو غزوۂ ہند کیلئے کہا جاتاہے۔لیکن ہم کیوں جائیں؟، کیا فوج کاروبارکیلئے پال رکھی ہے؟”۔ ویڈیو کو بہت پسند کیا گیا۔ تبلیغی جماعت کا نعیم بٹ کہتا ہے کہ ” نبی ۖ نے یہودی کو زمین دی ۔ حضرت عمر نے کہا کہ نبیۖ نے زمین دی۔ اس وقت ہم کمزور تھے۔ اب ہم طاقتور ہیں اسلئے واپس لے رہا ہوں۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ مسلمان حکومت نے اپنے پیسوں سے کبھی غیرمسلم کو عبادتگاہ بناکردی ہو اور اگر یہ جائز ہے تو مفتی تقی عثمانی سے پوچھ لیں۔ اگر وہ جائز کہیں گے تو ٹھیک ہے۔ حق بات بہرصورت بولنا ایمان کا تقاضہ ہے ۔باقی کوئی عمل کرے یا نہ کرے”۔
تبلیغی نے ویڈیو میں یہودکو نبیۖ کی طرف سے عبادت کیلئے جگہ دینا اور حضرت عمر کی طرف سے واپس لینے کا عنوان بھی فیس بک پر لکھ دیا۔ حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔نبیۖ سے مسلمان نے زمین مانگی تھی جو آباد نہیں کررہا تھا۔ اسلامی نظام کا بنیادی مقصد جاگیرداروں کو نہیں کاشتکاروں کو زمینیں دینا ہے۔انگریز نواب ، خان، ایجنٹ جاگیرداروں کو زمین دیتا تھا ۔کانگریس کے منشور میں تھا کہ انگریز کی دی ہوئی جاگیریں بحق سرکار ضبط کی جائیں گی۔ نوابوں ، پیروںاور خانوں نے اپنی زمینوں کو بچانے کیلئے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ سیاستدان نہیںتھا اسلئے فوج قابض ہوگئی۔
سورۂ مائدہ میں فمن لم یحکم بما انزل اللہ کے بعد فأولئک ھم الکٰفرون، فأولئک ھم الظٰلمون ، فأولئک ھم الفٰسقون کا حکم لگایاگیا ہے۔ علماء ومشائخ کو توراة کے تحفظ کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی ، تھوڑے سے مال کے بدلے دینی احکام میں تحریف سے روکاگیا اور اللہ نے حکم دیا کہ مخلوق سے مت ڈرو، اللہ سے ڈرو۔ جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتا تو وہی لوگ کافر ہیں۔آج ہمارے علماء ومشائخ نے اللہ کی کتاب اور اس میں نازل کردہ احکام کا کیا حال بنارکھاہے؟۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو بھی معاوضہ لیکر جواز بخشاہے۔ کیا حکمران سے اس کا جرم ہلکا ہے؟۔ اگر مفتی تقی عثمانی مندر کو جواز بخشے تو جائز بن جائیگا؟۔ پہلی قوموں نے اپنے علماء ومشائخ کو اپنا رب بناکے رکھا تھا تو انکے حلال کردہ کو حلال ، حرام کردہ کو حرام سمجھتے تھے۔ یہی ان کو رب بنانا ہوا۔ اللہ کے احکام کوبدلنے کا سرغنہ ہردور میں کوئی ایک ایک شیخ الاسلام ہوتا ہے لیکن دوسرے چھوٹے بڑے مولوی اس کی مخالفت کا حق اسلئے ادا نہیں کرتے کہ ان کو اپنے رزق کی فکر لگ جاتی ہے۔ اللہ نے قرآن میں جگہ جگہ اپنے احکام پر فتویٰ نہ دینے والوں کو ہی کافر کہا ہے۔
اللہ نے سورۂ مائدہ میں پھر جان کے بدلے جان، کان کے بدلے کان، ناک کے بدلے ناک ، دانت اور ہاتھ کے بدلے دانت ،ہاتھ اور زخموں کے قصاص کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتا تووہی لوگ ظالم ہیں۔ اس کا تعلق حکمران طبقے سے ہے اسلئے کہ مظلوموں کو انصاف دینا حکمرانوں ہی کا کام ہے ۔اور پھر اللہ نے اہل انجیل کا ذکر کیا کہ جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتا تو وہی لوگ فاسق ہیں۔اس سے مراد عوام ہیں۔ مولوی جب شریعت کو بدلتا ہے تو اس سے دین بگڑ تا ہے اسلئے کافر کا حکم ہے، حکمران کاتعلق عدل سے ہے اسلئے اس پر ظالم کا حکم لگایا ہے۔ عوام نہ دین بدلتے ہیں اور نہ انصاف دے سکتے ہیں اسلئے فاسق کہا گیا۔
قرآن حکیم سے امت مسلمہ نے اجتماعی روگردانی اختیار کررکھی ہے۔ جب علما ومشائخ، حکمران اور عوام الناس حقائق کی طرف متوجہ ہوجائیںتو یہ امت کفر،ظلم اورفسق سے نکل آئے گی۔ ہمارا کام فوج کا دفاع نہیں اسلئے کہ ریاست میں طاقت کا سرچشمہ پاک فوج خود ہے۔ اچھائی اور برائی کا تعلق اسکے اپنے نامۂ اعمال کیساتھ ہے۔ وہ اپنے عمل سے قوم کیلئے محبت اور نفرت کے قابل بن سکتی ہے ۔ مولانا نے جو کشمیر کے حوالے سے پاک فوج کو کھری کھری سنائی ہے ،یہ ایمان کے زیادہ مضبوط ہونے کی علامت ہے ۔ واقعی ملک کا دفاع پاک فوج ہی کا فرض اور ذمہ داری ہے۔ عوام غلیلوں سے بھارت کے پائلٹ ا بھی نندن کو نہیں گراسکتے تھے۔ لیکن مولانا اس وقت انڈے سے نکلے تھے یا نہیں؟۔ جب طالبان دہشتگردوں نے عوام، بازاروں اور مساجد تک کو دھماکوں سے اُڑانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ جب ٹانک ، بنوں اور میرانشاہ میں تبلیغی اجتماع ہوتا تھا تو طالبان جنگ بندی کا اعلان کرتے تھے؟۔ کیا اس وقت بھی مولانا ومفتی صاحبان نے ظالمانہ خود کشوں کیخلاف کوئی فتویٰ جاری کیا اورکوئی بیان دیا۔ مولاناطارق جمیل سے سلیم صافی نے پوچھا تو مولانا نے کہا تھا کہ ہماری منزل ایک ہے مگر راستے جدا جدا ہیں۔ اپنا کام مولانا نے کیا یا نہیں کیاتھا؟۔
جس طرح تبلیغی جماعت مساجد پر قبضہ کرتی ہے ،اسی طرح کا غیرا خلاقی اور انتہائی مفاد پرستانہ رویہ حضرت عمر کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے۔ حضرت عمر نے مولفة القلوب کی زکوٰة کو بھی منسوخ نہیں کیا تھا ، یہ قرآن وسنت اور حضرت عمر کے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔ جب حضرت عمر کے دور میں جزیرة العرب میں مشرک اور یہودونصاریٰ کا کوئی وجود بھی نہیں تھا تو مولفة القلوب کی زکوٰة لینے والے کہاں سے آتے؟۔ قرآن وسنت کے واضح اورٹھوس احکام کے خلاف سازشوں کے جال بچھائے گئے۔ زکوٰة کے نام پر پلنے والوں نے انواع واقسام کی کہانیاںبنائی ہیں۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ