پوسٹ تلاش کریں

بھارتی میڈیا چینلوں کے گدھ اینکروں نے پاکستانی کشمیر میں انڈین فوجی اسٹرائک کے جھوٹےفوٹیج دکھادیئے

بھارتی میڈیا چینلوں کے گدھ اینکروں نے پاکستانی کشمیر میں انڈین فوجی اسٹرائک کے جھوٹےفوٹیج دکھادیئے اخبار: نوشتہ دیوار

بھارت میں کچھ میڈیا چینلز اورمودی سرکار کو خوش کرنے کی دوڑ میں لگے ان میڈیا چینلوں کے
گدھ اینکروںکی وجہ سے ملک میں لوگوںنے صحافت کو دلالوں کا پیشہ کہنا شروع کردیا ہے۔
میڈیا چینلوں نے جھوٹ سے پاکستانی کشمیر فوج کے اسٹرائک کے فوٹیج دکھادئیے ، پھر انہیں آہستہ آہستہ اس خبر کی جھوٹ کا پتہ چل جانے کی خبر کے بعد ڈیلیٹ کرنا شروع کردیا تھا
چینل مودی کو خوش کرنے کیلئے کہ اتنا جھوٹ بولتے ہیںکہ عوام کے دماغ میں اس قدر بیٹھ جاتا ہے کہ جب ان کو سچ بتایا جائے تو اسکا یقین نہیں کرتے بلکہ غدار کہنا شروع کرتے ہیں
بھارتی پروگرام ”پولیٹیکل تماشہ.. ود.. ڈاکٹر عرشی”
بھارت میں کچھ میڈیا چینلز اورمودی سرکار کو خوش کرنے کی دوڑ میں لگے ان میڈیا چینلوں کے گدھ اینکروںکی وجہ سے ملک میں لوگوںنے صحافت کو دلالوں کا پیشہ کہنا شروع کردیا ہے۔ 19 نومبر جمعرات کی شام تقریباً 7بجے کو اچانک سے کئی بڑے چینل بھارت میں گودی میڈیا کے ٹی وی چینلوں آج تک، اے بی پی نیوز، ٹائمز ناؤ، ریپبلک ٹی وی سمیت کئی ٹی وی چینل کی اسکرینیں پاکستانی کشمیر میں بھارتی فوج کی ایئر اسٹرائیک کی خبروں سے جگمگا اٹھیں۔ فوج کی ایئر اسٹرائک والی بریکنگ نیوزکیساتھ ہی آناً فاناً کچھ چینلوں کے بکاؤ اینکروں نے اس موضوع پر ہوائی پینل ڈسکشن کا تماشہ بھی شروع کردیا۔ ویسے ہی ایک چینل پاکستان یا مسلمانوں سے جڑی ہر خبر کو اس طرح سے سجاتے سنوارتے ہیں کہ اس سے فائدہ ملک کی مودی سرکار کو ہو۔ اور پھر بھاجپا (بی جے پی) کے نیتا عوام کو جاکر بتاتے ہیں کہدیکھو مودی جی نے کتنا زبردست کام کیا۔ اب آپ بھوکے پیٹ فخر محسوس کریں۔ یہاں پر سب سے زیادہ مشکل اسی بات کی ہے کہ جب عوام تک اس میڈیا کی طرف سے چلائی ہوئی جھوٹی خبر کی سچائی پہنچتی ہے اس سے پہلے جھوٹ انکے دماغ پر قبضہ جما کر اپنا کام کرچکا ہوتا ہے۔ جھوٹ پھیلانے میں یہ بکاؤ میڈیا اتنا ماہر اور چست ہے کہ ان چینلوں کو دیکھنے والے بھارت کے کروڑوں لوگ ان کی طرف سے دکھائی گئی خبروں کو اس حد تک سچ مانتے ہیں کہ اگر آپ ان چینلوں کے دیکھنے والے کسی شخص کو سچ بتائیں گے بھی تو وہ آپ کی بات پر یقین ہی نہیں کرے گا اور الٹا آپ کو ہی دیش کا غدار کہے گا۔ کئی بار ان چینلوں کے کارنامے اور حقیقتوں کو سوشل میڈیا پر بے پردہ کراجاچکا۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ تک اس بات کو کہہ چکا ہے کہ میڈیا پر کسی طرح کا تو سیلف ریگولیشن تو ہونا ہی چاہیے۔ لیکن مودی سرکار کے سائے میں پنپنے والے یہ نفرت کا زہر بیچنے والے سیلز مین اور سیلز وومین دونوں کسی کی بھی بات سننے کو تیار نہیں۔ ان چینلوں میں بیٹھے دانشور دہشت گرد نفرتی زہر کا کاروبار بند کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اور حکومت کو خوش کرنے کیلئے یہ بنا کراس چیک کئے فرضی خبروں کو چلاتے رہتے ہیں۔ حالانکہ لگاتار سوشل میڈیا پر بے عزت ہونے کے باوجود یہ اینکر سرکار کو خوش کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی کارنامہ انجام دیتے آرہے ہیں۔ اور جو نیا تماشہ ان نام چین چینلوں نے انجام دیا ہے وہ ہے 19نومبر 2020کو۔ جی ہاں! ان چینلوں نے یہ خبر چلادی کہ بھارتی فوج نے پاکستانی کشمیر میں ایئر اسٹرائک کردی ہے۔ ستا دھاری پارٹی بی جے پی کو سب سے زیادہ خوش کرنے کیلئے انہوں نے دھواں دھار طریقے سے اس خبر کو ٹی وی سمیت سارے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پرتیز رفتاری سے دوڑادیا۔ان اینکروں نے جوش میں بڑے بڑے دعوے تک کردئیے۔ آج تک کے اینکر روہت سردانا نے چیخ کر کہا کہ اس وقت ایک بڑی خبر آپ کو دے دیں کہ پاکستان کے دہشت گردوں پر بھارت نے ایک اور ایئر اسٹرائک کردی ۔ وہیں ٹائمز ناؤ نے تو ایئر اسٹرائک کے ویڈیو کلپ تک چلادئیے۔ ساتھ ساتھ چینل کے دو سینئر خود کو جرنلسٹ کہنے والے لوگوں نے اس ایئر اسٹرائک پر تفصیلی بحث شروع کردی۔ اسی طرح ری پبلک ٹی وی نے تو اس خبر پر بات کرنے کیلئے پینل ہی بٹھادئیے۔ اوراے بی پی نیوز نے اس خبر پر مودی کو کریڈٹ دیتے ہوئے کہہ دیا کہ مودی سرکار کی بھارتی حکومت کی ایک اور بڑی کامیابی۔یہ تماشہ یہیں پر نہیں رکا ہر دن نیشنلزم اور دیش بھگتی کا ڈھول پیٹنے والے کچھ چاپلوس، فرضی اینکروں نے سرکار کو خوش کرنے کیلئے اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی اس افواہ کو پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج تک کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انجنا اوم کاشیاپ نے 7بجکر 4منٹ پر ٹوئٹ کیا کہ پی او کے (pakistan occupied kashmir)میں بھارتی فوج کی ایک اور بڑی اسٹرائک۔ پی او کے میں اب تک کا سب سے بڑا آپریشن۔ یہی حال نیوز نیشن کے دیپک چورسیا کا بھی رہا۔ جو کہ حال کے دنوں میں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے فیک نیوز پھیلاتے ہوئے پکڑے گئے ہیں انہوں نے بھی لکھا کہ پی او کے میں اب تک کا سب سے بڑا اسٹرائک۔ دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے تباہ، فوج کے جوانوں کا آپریشن کامیاب۔ اے بی پی نیوز کی روبیکا لیاقت کا جوش تو اس دوران دیکھنے کے لائق تھا۔ انہوں نے تو ٹوئٹ میں اسٹرائک کا تو ذکر کیا ہی ساتھ ہی دوسرے اینکروں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اب کی بار آر پار کاٹیگ بھی چلادیا جیسے بہت ہی پختہ ثبوتوں کے ساتھ اس اسٹرائک کی پوری انفارمیشن انہوں نے حاصل کرلی ہو۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ پی او کے (POK)میں بھارتی فوج کی ایک اور بڑی ٹارگٹڈ اسٹرائک۔ دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے تباہ۔ بارود سے ہوگا سب کا سواگت (استقبال) اب کی بار آر پار۔ چینلوں نے اس معاملے کو لیکراسکرینوں کو اتنا گرمادیا کہ بھارتی فوج کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل پرم جیت سنگھ کو خود سامنے آنا پڑا۔ اور چینلوں پر دکھائی جانے والی خبروں کو انہوں نے پوری طرح سے بے بنیاد اور فیک بتاکر ان جوکروں کے تماشے کو بند کرایا۔ اسکے بعد ان چینلوں کے گودی اینکروں نے آہستہ آہستہ اپنے ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنے شروع کردئیے۔ اب آپ کو بتادوں کہ یہ تماشہ آخر شروع کیسے ہوا تھا۔ دراصل اس خبر کی ابتدائی سورس انڈین نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کے حوالے سے آئی ایک رپورٹ تھی۔ حالانکہ اس خبر کے کچھ ہی دیر بعد بھارتی فوج نے پی او کے (POK)میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائک جیسے کسی بھی ایکشن کو خارج کردیا۔ فوج نے بیان جاری کیا کہ ایسی کوئی اسٹرائک نہیں کی گئی ہے۔ اسکے بعد زیادہ تر ٹی وی چینلوں نے یہ خبریں ہٹالیں۔ لیکن اس خبر کی بنیاد پر کچھ گھنٹوں کے دوران ان چینلوں نے پورے ملک میں طوفان سا کھڑا کردیاتھا۔ بعد میں پی ٹی آئی نیوز ایجنسی کی طرف سے یہ وضاحت آئی کہ اس نے کسی نئے ایئر اسٹرائک کی بات نہیں کی تھی بلکہ اس نے 13نومبر کو اپنے ایک آرٹیکل میں ایل او سی پر سیز فائر کی خلاف ورزی پر اپنا صرف ایک تجزیہ ہی جاری کیا تھا۔ اس آرٹیکل کی لینگویج ایسی تھی جس پر بعض چینلوں نے اپنی مرضی سے ایئر اسٹرائک بتا کر چینلوں پر چلادیا۔ جبکہ سچائی یہ تھی کہ 19نومبر کو ایل او سی پر سیز فائر کی کوئی خلاف ورزی ہی نہیں ہوئی تھی۔ لگ بھگ تمام گودی میڈیا کے نیوز چینلوں نے اس حساس مسئلے کو تازہ ائیر اسٹرائک کے طور پر پیش کیا۔ اور ان نیوز چینل کے اینکروں نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے بے حد غیر ذمہ دارا نہ طریقے سے اس فرضی خبر کو چلایا اور پھیلایا۔ پوری دنیا کے سامنے ہنسی ور چاپلوسی کا نمونہ بن چکے ان نیوز چینلوں نے مودی سرکار کی واہ واہ کرنے اور مودی سرکار کو خوش کرنے کیلئے جو ہڑ بڑی اور جو گڑ بڑی دکھائی اس سے بہت آسانی سے بچا جاسکتا تھا۔ رپورٹنگ کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں وہ یہ کہ اس طرح کی بڑی اور حساس خبر کو ڈبل چیک کرنا۔ ساتھ ہی ساتھ کم از کم دو ذرائع سے ان کی تصدیق کرنا۔ لیکن صحافت کو دلالوں کا پیشہ بنانے والے ان لوگوں نے اپنے آقا کو خوش کرنے کی جلد بازی میں اصلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس فرضی خبر کو چلادیا۔ سب سے زیادہ دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ ان اینکروں نے جب پہلا ٹوئٹ کیا تو اس میں پی ٹی آئی کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔ لیکن فوج نے جیسے ہی اس خبر کو بے بنیاد بتایا تو ان اینکروں نے خود کو بچاتے ہوئے اس مسئلے کو پی ٹی آئی کے سرپر پھوڑ دیا۔ نیوز ٹی وی چینل اور اینکروں کے اس غیر ذمہ دارانہ تماشے کی وجہ سے دوسرے دن دن بھر ٹوئٹر پر فرضی گودی میڈیا معافی مانگے۔ ٹاپ پر ٹرینڈ کرتا رہا۔ ویسے چاپلوس میڈیا کی اتنی دھلائی ہونے کے بعد امید تو یہ ہونی چاہیے کہ ان کو عقل آجائے اور وہ حکومت میں بیٹھے حکمرانوں کو خوش کرنے کے بجائے عام پبلک کے مفاد سے جڑی خبروں کو دکھائیں لیکن بنا کچھ سوچے سمجھے اپنے اور مودی سرکار کے فائدے کیلئے پچھلے کئی برس سے فرضی خبریں چلا کر عوام کو بیوقوف بنانے والے یہ لوگ آسانی سے سدھر جائیں گے اسکی امید تو کم ہی ہے۔

 

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟