پوسٹ تلاش کریں

گلے کاٹنے والے دہشت گردوں سے بچیوں کا ریپ زیادہ بڑا فتنہ ہے!

گلے کاٹنے والے دہشت گردوں سے بچیوں کا ریپ زیادہ بڑا فتنہ ہے! اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان میں چھوٹی بچیوں کا ریپ کرکے قتل کرنیکا سلسلہ جاری ہے مگر ہم لسانیت، فرقہ واریت، جمہوریت، فوجیت، طالبیت اور اپنے مفاد کی جنگ لڑرہے ہیں۔ گلے کاٹنے والے دہشت گردوں سے بچیوں کا ریپ زیادہ بڑا فتنہ ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حضرت عائشہ پر بہتان سے بڑی اذیت اور آزمائش رسول اللہۖ کیلئے کوئی نہیں تھی لیکن اس سے جو سبق قرآن نے مسلمانوں کو سکھادیا تھا ،آج ہم تباہی کی کس سمت جارہے ہیں؟

اشرافیہ کے چھوڑے ہوئے کتے صحافی صبح سے بھونکتے ہوئے شام کردیتے ہیں اور شام سے بھونکتے ہوئے صبح کردیتے ہیںلیکن اُمت کی نجات کیلئے حقائق کو سامنے نہیں لاتے ۔

جب حضرت عائشہ پر بہتان لگادیا گیا تو آسمان کے فرشتے بھی اس غم کا بوجھ اُٹھانے کے بجائے معاشرے پر اجتماعی عذاب نازل کرنے کے حق میں ہونگے کہ ام المؤمنین پرہی اتنا بڑا بہتان لگانے سے گریز نہیں کیا گیالیکن اس سے اللہ تعالیٰ کیا سبق دینا چاہتا تھا؟۔
لولآ اذسمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنات بانفسھم خیرًا وقالوا ھٰذا افک مبینO
” کیوں ایسا نہ ہوا کہ جب اس (بہتان) کو سن لیتے تو مؤمنین ومؤمنات اپنے نفسوں کے بارے میں اچھا گمان رکھتے اور کہتے کہ یہ کھلی گھڑی ہوئی بات ہے؟”۔
یہ کمال کی آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مسلمانوں نے حضرت ام المؤمنین کے بارے میں کیوں اچھا گمان نہیں رکھا؟۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ”مسلمانوں اپنے نفسوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں رکھا؟”۔ اس کلام میں بہت بڑا کمال یہ ہے کہ عربی کامقولہ ہے کہ المرء یقیس علی نفسہ”آدمی اپنے نفس پر دوسروں کو بھی قیاس کرتا ہے”۔ یعنی جیسا خود ہوتا ہے ،دوسروں کیلئے بھی ویسا ہی خوش گمان یا بدگمان ہوتا ہے۔ یہ حدیث بھی ہے کہ المؤمن مرئآة المؤمن ” ایک مؤمن دوسرے مؤمن کا آئینہ ہوتا ہے”۔اس آیت میں اماں حضرت عائشہ سے بدگمانی نہ کرنے کی بجائے اپنے بارے میں اچھا گمان رکھنے کی تلقین کی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ جنہوں نے اماں عائشہ سے بدگمانی رکھی تھی تو وہ دراصل اپنے نفسوں سے بدگمان تھے جس کا یہ نتیجہ نکلاکہ اللہ نے اس کو من گھڑت کہانی کہنے کیلئے حضرت عائشہ کے حوالے سے کھل کر بات کرنے کا اظہار نہ کرنے پر تنبیہ فرمائی۔
جن تین افراد پر حدقذف نافذ کی گئی تو وہ اس آیت کا نشانہ ہیں۔ ایک طرف حضرت عائشہ کے حوالے سے گھٹیا سوچ رکھنے کی بھرپور مذمت ہے تو دوسری طرف ایک عمدہ ترین سوچ کی دعوت اور عکاسی ہے۔ حضرت علی نے جب دیکھا کہ ایک کشمکش کا معاملہ ہے توپھر نبی ۖ کو مشورہ دیا کہ عورتیں کم تو نہیں ہیں، طلاق دے کر کسی اور سے نکاح کیا جاسکتا ہے اور سورۂ تحریم میں بھی جب حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے حوالے سے آیات اتریں تو اللہ نے فرمایا کہ ”اگر انہوں نے توبہ نہ کی توان سے بہتر خواتین بھی نبیۖ کے نکاح میں آسکتی ہیں”۔ حضرت عائشہ سے حضرت علی کی بے نیازی کا مقصد یہ ہرگز بھی نہیں تھا کہ حضرت علی نے ذرہ بھر بھی بدگمانی کی ہو۔ حضرت علی کے کاندھے پر خلافت کی ذمہ داری ڈال دی جاتی تو شاید حضرت عثمان کی شہادت کا سانحہ اور حضرت ابوبکر کا وہ اقدام جس سے اہل سنت کے چاروں ائمہ فقہ کا اتفاق نہیں تھا کہ مانعینِ زکوٰة کیخلاف قتال کیا جائے اور حضرت عمر کے کچھ اقدامات جن پر احناف کا بھی اختلاف ہے جیسے حج وعمرے کے احرام پر ایک ساتھ پابندی اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کے خلاف گواہوں کو تائب ہونے کی شرط پر یہ پیشکش کہ پھر ان کی گواہی قبول کی جائے گی۔ اگر خلافت بنوامیہ وبنوعباس کی جگہ حضرت علی کے بعد حسن، حسین اور بارہ ائمہ اہل بیت کے پاس ہوتی تو بھی معاملہ زبردست ہوتا۔ اہل تشیع کو اپنے مؤقف پر بھرپور طریقے سے کھڑا ہونے کا حق کوئی نہیں چھین سکتا ہے۔
سیدابولاعلیٰ مودودی نے سورۂ النساء اور سورۂ نور میں رجم اور سو (100)کوڑے لگانے کا مؤقف بہتر طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن غلط مؤقف کو بہر حال درست قرار دینے کی کوشش ایک سعی لا حاصل ہوتی ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھیاور مولانا مناظر احسن گیلانی کا مؤقف بہت زبردست اور درست تھا۔ اگر کسی عورت پر معاشرے میں چار گواہ مہر تصدیق ثبت کردیں تو اس کو آلودگی پھیلانے سے روکنے کیلئے اپنے گھر میں نظر بند کرنے سے اصل مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ پھر اس کی کسی سے شادی یا سزا کی صورت میں معاملہ بدل سکتا ہے۔ سورۂ النساء میں شادی شدہ لونڈی کیلئے آزاد عورت کے مقابلے میں آدھی سزا سے بالکل یہ ثابت ہوتا ہے کہ پوری سزا رجم نہیں بلکہ سو (100)کوڑے ہیں۔ ازوج مطہرات کیلئے دہری سزا سے مراد دوسو (200)کوڑے ہی ہوسکتے ہیں۔ ڈبل سنگساری یا آدھی سنگساری کا تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ چار افراد کی گواہی سے مراد فقہ کی کتابوں میں موجود شرائط ہوں تو پھر شریعت کی وجہ سے نعوذ باللہ من ذالک بے حیائی پھیل سکتی ہے ، ختم نہیں ہوسکتی ہے۔
لولاجآء وا علیہ باربعة شہدآء فاذلم یأتوا بالشہدآء فاولٰئک عند اللہ ھم الکاذبونO
” وہ اس پر چار گواہ کیوں نہیں لائے؟۔ پس جب چار گواہ نہیں لائے تو وہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں”۔ معاشرے میں جو انسان بستے ہیں۔ وہ بہت بڑا پیمانہ رکھتے ہیں۔ صالح وبدکار کی شناخت معاشرے میں کوئی مشکل چیز نہیں۔ سید ابولاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن میں تفصیل سے لکھ دیا ہے کہ رسول اللہۖ نے حضرت عائشہ سے متعلق مختلف لوگوں سے رائے طلب کی۔ تفتیش اور تحقیق کا حق ادا کردیا۔ جب کسی کے حوالے سے بات اُٹھتی ہے تو پھر معاشرے میں اس کیلئے چار گواہوں کا ملنا اس وقت زیادہ مشکل نہیں ہوتا ہے کہ جب وہ بدفعلی کی انتہائی حرکت تک پہنچ جائے۔ ہر فرد کے حوالے سے معاشرے میں ایک اچھی یا بری رائے بنتی ہے۔ یہ نہیں کہ مولانا صاحب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں مگر موقع پر تین گواہ تھے ، چوتھا گواہ اچھی طرح سے گواہی دینے میں تھوڑا مختلف انداز سے اپنی بات کررہاتھا۔ بس یہ لوگ جھوٹے ہیں اور ان پر بہتان کے کوڑے برساؤ اور جس کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا ،جس پر مختلف اوقات میں ایک ایک ، دودو گواہوں کا پہلے سے بھی سلسلہ جاری تھا۔ اگرمولوی صاحب کی اس خود ساختہ شریعت کی بنیاد پر کسی بھی فرد کو پاکدامن قرار دیا جائے تودنیا میں اس پر کوئی یقین نہیں کریگا۔ اسلام نے اجنبیت کی طرف اسلئے بہت بڑا سفر کیا ہے کہ ہرچیزبالکل ہی اُلٹ کرکے رکھ دی گئی ہے۔
جب حضرت اماں عائشہکے خلاف بہتان کا بہت بڑا طوفان کھڑا تھا اور مسلمانوں کی اجتماعیت نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوکر اماں عائشہ کے دفاع کا حق ادا نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے بہت واضح پیغام دیا کہ ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ فی الدنیا ولاٰخرة لمسکم فی ما افضتم فیہ عذاب عظیمO
”اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت شاملِ حال نہ ہوتی تو دنیا اور آخرت میں تمہیں عذاب عظیم میں مبتلاء کردیتا جس چیز میں تم بہت بڑھ گئے”۔ بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کے مسئلہ سے یہ بہت بڑا معاملہ تھا۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کا نقشہ بھی دکھادیا تھا لیکن یہاں اس سے کہیں بڑھ کر معاملہ تھا۔ حساس دل رکھنے والے اس کو سمجھ رہے تھے لیکن غفلت کے شکار لاپرواہی کے مرتکب ہورہے تھے۔ اللہ نے فرمایا: اذ تلقونہ بالسنتکم وتقولون بافواھکم ما لیس لکم بہ علم وتحسبونہ ھےّنًا وھو عنداللہ عظیمO
”جب تم اس کی اپنی زبانوں سے تلقین کرتے اور اپنے منہ سے کہتے تھے جس کا تمہیں علم نہیں تھا۔ اور تم اسے بہت ہلکا سمجھ رہے تھے اور اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی”۔
ہماری ریاست کے کتے جس طرح سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزتوں کو اُچھالنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔ فیک تصویریں اور من گھڑت قصے کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کو خدا کا کوئی خوف نہیں ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی ایک دوسرے کے خلاف اس فعل میں ملوث رہے ہیں۔ عورت کی عزت اچھالنا ایک محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اسلئے طرح طرح کے عذاب نازل ہورہے ہیں۔ اگر اللہ کی رحمت اور اس کا فضل نہ ہوتا تو تم کب کے غرق ہوچکے ہوتے۔ اللہ نے قرآن کو آئندہ نسلوں کیلئے قیامت تک بہترین سبق بناکر بھیجا ہے۔ اللہ نے فرمایا: ولولا اذ سمعتموہ قلتم ما یکون لنآ ان نتکلم بھٰذا سبحانک ہٰذا بہتان عظیمOیعظکم اللہ ان تعودوا لمثلہ ابدًا ان کنتم مؤمنینOویبین اللہ لکم الاٰےٰت واللہ علیم حکیمO
”کیوں نہیں ایسا ہوا کہ جب تم نے اس کو سن لیا تو کہہ دیتے کہ ہمارے لئے حق نہیں ہے کہ اس پر بات کریں۔ پاکی تیرے لئے ہے یہ بہت بڑابہتان ہے۔اللہ تمہیں وعظ کرتا ہے کہ پھر اس طرح کے کسی بہتان میں ملوث ہوجاؤ،اگر تم مؤمن ہو تو۔ اور اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کو کھول کربیان کرتا ہے اوراللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (سورۂ نور12تا18)
کسی بھی ماحول اور کسی بھی معاشرے میں مسلمانوں کیلئے کسی عورت پر بہتان کا مسئلہ انتہائی خطرناک ہے۔ جس کی ماں ، بیٹی، بہن اور بیگم پر بہتان لگایا جائے۔تو اس کی حالت کیا ہوگی؟۔ قرآن میں اس واقعہ افک سے کتنے اسباق ملتے ہیں۔ منفی سوچ اس کے اپنے نفس پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے۔ کن لوگوں کی سوچ منفی ہوتی ہے۔ منفی سوچ سے معاشرہ کس قدر متأثر ہوتا ہے ؟ اور اللہ نے منفی سوچ سے بچانے کیلئے رسول اللہۖ، اماں عائشہ ، حضرت ابوبکر وحضرت ام رمان اور سب کو کتنی زبردست مصیبت اور آزمائش میں ڈالا؟۔
کسی بھی پاکدامن عورت کیلئے بہتان بہت بڑا جرم ہے ؟۔ لیکن جب ہمارے معاشرے میں بچیوں کیساتھ پیش آنے والے واقعات کی روک تھام کیلئے بھی ہمارے پاس صلاحیت نہیں ہے۔ پوری دنیا میں بھی جبری جنسی زیادتی کے خلاف8مارچ یوم خواتین منایا جاتا ہے اور اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب سے یہ مارچ شروع ہوا تھا جہاں جنسی آزادی کیلئے عورتوں کو مارچ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ایک پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ8مارچ کا دن خواتین جنسی آزادی کیلئے مناتی ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں ترقی یافتہ ممالک سے بہت زیادہ نہ صرف بچیوں کیساتھ جبری جنسی تشدد ہوتا ہے بلکہ بے دردی کیساتھ ان کو قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ اشرافیہ پر ان واقعات کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ وہ اپنے دھندوں کے کام سے کام رکھتے ہیں۔ ان کو اپنے مورال اور سیاست کی فکر ہوتی ہے۔ وہ عقیدے اور نظریاتی لڑائی کے لوگوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ اتنے بڑے مظالم کیخلاف ہمارے یہاں معاشرتی سطح سے لیکر ریاستی سطح تک کچھ بھی نہیں ہورہاہے۔
جس اسلام میں نظروں تک کی حفاظت کا حکم ہے،اس کے ہوتے ہوئے جبری جنسی تشدد کا سنگین جرم بہت تباہ کن ہے۔ بعض کم بخت انسان نظروں کی حفاظت نہ کرنے کے عمل کو جبری جنسی تشدد کو جواز فراہم کرنے کیلئے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ جب نظروں تک کی حفاظت کا حکم ہے تو جبری جنسی تشدد کے جرم کی سنگینی بہت بڑھ جاتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ نام نہاد شیخ الاسلام اور مفتی اعظم نے ریاست کے تنخواہ دار کی حیثیت سے ہمیشہ اسلام کا بیڑہ اپنی غلط تشریح سے غرق کیا ہے۔ آج خود ساختہ طور پر اس جرم کے مرتکب ہیں۔
قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذٰلک ازکٰی لھم ان اللہ خبیر بما یصنعونOوقل للمؤمنٰت یغضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولایبدین زینتھن الا ماظھر منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعولتہن او اٰبآئھن … وتوبوا الی اللہ جمیعًا ایہ المؤمنون لعکم تفلحونO
” کہہ دیجئے مؤمنوں سے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزگی ہے۔ بیشک اللہ جانتا ہے کہ وہ جو کار کردگی کرتے ہیں۔ اور مؤمنات سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیںاور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اوراپنی زینت کو مت دکھائیں الا یہ کہ جو ازخود اس میں سے ظاہر ہوجائے۔ اور اپنے دوپٹوں کو اپنے سینوں پر لپیٹ لیں۔ اور اپنی زینت کو نہ دکھائیں مگر اپنے شوہروں کو یا اپنے باپوں کو یا اپنے سسر کو یا اپنے بیٹوں کو یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کو یااپنے بھائیوں کو یا اپنے بھتیجوں کو یا اپنے بھانجوں کو یااپنی عورتوں کو یا اپنے غلاموں کویا جو مرد تابع ہوں جو عورتوں سے رغبت نہیں رکھتے۔ یا بچہ جو عورتوں کے پوشیدہ رازوں کی خبر نہ رکھتے ہوں۔اور اپنے پاؤں سے ایسی چال نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زنیت ظاہر ہوجائے۔ اور اللہ کی طرف سے سب توبہ کرو،اے مؤمنو! شاید کہ تم فلاح پاجاؤ”۔
عورتوں کی زینت سے مراد ”حسن النساء ” ہے جس پر دوپٹہ لپیٹنے کا حکم ہے ۔ گھر میں دوپٹہ لینے کا حکم بھی اپنے محرم اور تعلق رکھنے والے لوگوں سے نہیں۔ روایتی پردے اور شرعی پردے میں جس طرح کا توازن ہے وہ معاشرے میں اعتدال قائم کرتا ہے۔ جب ایک طرف اغیار کے سامنے بھی دوپٹے کا تکلف نہ ہو اور دوسری طرف گھروں میں بھی بڑا تکلف ہو تو پھر معاشرہ اعتدال کی جگہ پر افراط وتفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز