پوسٹ تلاش کریں

پی ٹی ایم ( PTM) تعصبات کے برعکس ظلم کیخلاف خوش آئندہے: اداریہ نوشتہ دیوار

پی ٹی ایم ( PTM) تعصبات کے برعکس ظلم کیخلاف خوش آئندہے: اداریہ نوشتہ دیوار اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
پی ٹی ایم ( PTM) کراچی کے قائدنوراللہ ترین کی تقریر حقائق کے مطابق زبردست ہے۔ اس کا فائدہ پختون قوم، طالبان، ریاست، حکومتِ پاکستان اور عوامِ پاکستان سب کو یکساں پہنچتا ہے۔ یہ شعور کی بات ہے ،اس میں تعصبات نہیں۔ کراچی سے پختونوں کے بہت جنازے گئے۔ کوئی انکار نہیں ہے۔ بہت ظلم تھا اور اس پر حضرت حاجی محمد عثمان کے علاوہ شاید کسی نے افسوس کا اظہار بھی نہیںکیا تھا ۔ جس پر مولانا شیرمحمد صاحب نے حاجی عثمان سے عقیدت کا اظہار بھی کیا تھا کہ واحد مذہبی شخصیت ہیں جو پٹھانوں کا خون بہانے پر اظہار افسوس کررہے ہیں۔
بس یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جب سواداعظم اہلسنت کی تحریک کو عراق نے پیسہ دیا تو ایک طرف مولانا اسفندیار خان، مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا زکریالنگڑا سوتیلے باپ مولانااعظم طارق جرنیل سپاہِ صحابہ پاکستان کے درمیان مارکٹائی ہوئی اخبارات میں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگے۔ دوسری طرف لالو کھیت سمیت مختلف جگہوں پر اہل تشیع کی عبادتگاہوں اور دکانوں کو جلانے والے پٹھان بھائی تھے۔ پھر جب ایم کیوایم بن گئی تو پٹھان اپنے مکافات عمل کا شکار ہوگئے۔
کراچی کے کالجوں میں پختون، پنجابی، سندھی، بلوچ طلبہ تنظیمیں بدمعاشی کا طرز اپناتے تھے، اسلامی جمعیت طلبہ بھی اپنی مثال آپ تھی۔ جس کی وجہ سے مہاجر طلبہ تنظیم کیلئے سازگار ماحول بن گیا۔ چونکہ مہاجر کراچی میں زیادہ تھے اسلئے سیاست میں بھی کامیاب ہوگئے۔ فرقہ واریت کو شکست دی۔ پختونوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اسلئے پختون زیادہ ٹارگٹ بن گئے تھے۔ آج پھر جس طرح کے جذبات کی بات پی ٹی ایم ( PTM) کے جلسے جلوسوں کو گرمانے کیلئے ہوتی ہے تو اس کے نتائج بھی بھگتے گی اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کل پھر پختون گلہ کریں کہ پہلے طالبان کے نام پر ہمیں مارا گیا اور اب پی ٹی ایم ( PTM) کے نام پر۔ طالبان کے کمانڈر بھی محفوظ ہوتے تھے اور خڑ کمر شمالی وزیرستان میں علی وزیر اور محسن داوڑ بھی محفوظ تھے لیکن عام جذباتی جوان مارا گیا جس کو قوم اور مستقبل کا اثاثہ کہا جاتا ہے۔ اگر حکومت علی وزیرکو گرفتار نہ کرتی اور محسن داوڑ رضاکارانہ گرفتاری نہ دیتے تو شہداء کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ تھے۔ بچوں کے والدین کہتے کہ تمہاری لیڈری چمکانے کے عوض ہمارے بچے کیسے گئے اور تم نے خود کوبچایا کیسے؟ ہمارا کام اپنا نام چمکانا نہیں اور نہ جھوٹی تسلی سے کسی کو دلاسہ دینا ہے۔
طالبان کی حمایت کرنے میں پٹھان سب سے زیادہ پیش پیش تھے لیکن اس حمایت کی وجہ سے نہ صرف پختون اس آگ میں جلے بلکہ پورے پاکستان کو بہت آزمائش سے گزرنا پڑا تھا۔ آج جس طرح طالبان کی کھل کر مخالفت ہوتی ہے جب خود کش حملوں کا دور تھا تو کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اس طرح کھل کر اپنے پروگرام کرتا۔ اس میں پختون من حیث القوم مجرم تھے اسلئے اس کی سزا بھی بھگت لی اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں بلکہ بڑی عزت ہے۔
فوج سے تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں حتی کہ جماعت اسلامی بھی تنگ آچکی ہے اسلئے پی ٹی ایم ( PTM) کو زیادہ پھنے خان بننے کی ضرورت نہیں۔ پہلے طالبان سے اپنی قوم کو مروایا گیا اور اب اگر مذہب کا پالان اتار کر لسانی بنیاد پر قوم کو مروایا جائے تو فقیر ایپی مرزا علی خان کے بقول گدھا وہی ہوگا صرف پالان اس کی بدل جائے گی تو کوئی فرق بھی نہیں پڑے گا۔ انگریز کے بعد پاکستان کیلئے اس نے یہ بات کہی تھی۔ قبائل میں فوج، پولیس ، عدلیہ ، سول بیوروکریسی ، پٹوار اور دیگر انگریزی نظام نہ ہونے کی وجہ سے نسبتاً ہمارے ہاں ظلم وزیادتی اور جبر کا نظام بالکل نہ ہونے کے برابر تھا۔تاہم چالیس ایف سی آر (40FCR)کے کالے قوانین بھی انگریز کا تحفہ تھا۔ امریکہ سے نگران وزیراعظم معین قریشی آیا تو اس نے قبائل کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق دیا اور گاڑیوں میں وی سی آر لگانے پر اسلئے پابندی لگائی تھی کہ ڈرائیور ایکسیڈنٹ بہت کررہے تھے۔ ہمارے سیاسی اداکاروں نے کبھی کوشش تک بھی نہیں کی۔
اب قبائل کے انضمام کے خلاف اور حق میں آواز اٹھائی جائے تو پختون ایک ایسی قوم ہے جس کے بچے ، جوان اور بوڑھے ہر ڈھول پر ناچتے ہیں۔ قوم کو نچانے اور لڑانے کی نہیں شعور دینے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کے جذبات سے متأثر ہوکر قائدین کو اسٹیج پر بے قابو نہیں ہونا چاہیے۔پی ڈی ایم (PDM)کے پلیٹ فارم سے جب تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکر لے رہے ہیں۔ گجرانوالہ شو میں پی ٹی ایم ( PTM)کو دعوت نہیں دی گئی اور لاہور میں بھی پی ٹی ایم ( PTM)کو نہیں بلانا تھا تو اچھا ہوا کہ پشاور میں گھر سے باعزت حل کا آغاز ہوا۔ پی ٹی ایم ( PTM)نے پنجاب سے نفرت کا اظہار کرکے ن لیگ سے دوری پیدا کرلی اور آئندہ یہ خامی نہیں ہونی چاہیے اسلئے کہ پختونخواہ کے سب سے قریبی پڑوسی پنجابی ہیں۔ سندھی اور بلوچ تو خیبر پختونخواہ کے بہت سے لوگوں نے دیکھے تک بھی نہیں ہیں۔

قیادت کے مسئلے پر مفتی محمود پر بھی قومی اتحاد نے اتفاق رائے کیا تھا ، آج مولانا فضل الرحمن پر اپوزیشن کی تما م سیاسی جماعتیں متفق ہیں تو یہ پی ٹی ایم ( PTM)کیلئے ہی اعزاز کی بات ہے کہ پنجابی، سندھی، بلوچ اور تمام قومی پارٹیاں ایک پختون مولانا کی قیادت میں اکٹھے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں مل کر فوج سے جان چھڑاسکتی ہیں تو بلوچستان ، کراچی ، سندھ اور پختونخواہ کے مسائل بھی حل ہوجائیںگے۔ اگر قبائل میں حکومت کی رٹ ، دہشت گردی کے خاتمے اور مسائل کے حل پر توجہ دی جائے تو عوام سکون کا سانس لیںگے ۔ یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ نوازشریف نے بلوچستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر گوادر سے کوئٹہ ، پشاور اور گلگت کا سیدھا راستہ چھوڑ کر اس موٹروے کا راستہ تختِ لاہور کی طرف موڑا۔ جہاں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے آواران میں بلوچوں کے گاؤں جلانے پڑے اور اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں تھیںاسلئے کہ سب سے زیادہ مزاحمت کار وہاں موجود تھے۔ جنہوں نے موٹروے بنانے والوں کو پھولوں کے گلدستے پیش نہیں کرنے تھے بلکہ شدید مزاحمت کرنی تھی۔ سوشل میڈیا پر بلوچوں کے گاؤں جلانے کی ویڈیو موجود ہے جس کو پٹھان سپاہی کہہ رہاہے کہ اللہ اور دے گا۔ گھر خالی کرواکے جلارہے ہیں۔ ریاست نے یہ سب اس وقت کرنا ہوتا ہے جب انکو مزاحمت کا سامنا ہو۔ اس کا سارا قصور نوازشریف کا مفاد پرستانہ رویہ تھا جس نے مغربی کوریڈور کا سارا پلان تبدیل کرکے موٹروے کو لاہور کی طرف موڑا تھا۔ اس وقت پیپلزپارٹی ، مولانا فضل الرحمن اور دیگر لوگوں نے شروع میں مخالفت بھی کی تھی اور پی ٹی ایم ( PTM)کے ڈاکٹر سید عالم محسود نے اس پر کئی سیمینار بھی کئے ہیں۔
کراچی کے جلسے میں ڈاکٹر سید عالم محسود نے پختونوں کی تین کمزوریوں کا ذکر کیا ہے جن میں ایک یہ بھی ہے کہ پختون مفاد پرست ہے۔ اگر طالبان پر عورت کی طرح چوتڑ تک بال رکھنے کی پابندی لگادی جاتی جو شریعت و سنت تو بہت دورکی بات انتہائی درجے کی بے غیرتی اور غیر شریفانہ حلیہ تھا تو بھی پختون اتنا بدنام نہ ہوتا لیکن جب چوتڑ والے بال رکھنے کی ہم نے اپنوں کو اجازت دیدی تو ہمارا کلچر، مذہب اور انسانیت سب تباہ وبرباد ہوگئے۔ اب پھر پی ٹی ایم ( PTM)کے قائدین کو دوسری قوموں کی نقالی کرکے چرب زبان جذباتی خطیبوں سے زیادہ سنجیدہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم پہلے اپنا کھویا ہوا وقار واپس لاسکیں اور پھر اپنی خامیاں دور کرکے صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کی امامت کرکے پختون دنیا کو انسانیت سمجھا ئیں گے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟