پوسٹ تلاش کریں

علماء و مفتیان کی قرآن فہمی کی تصویر کا پہلا رُخ اور حقیقت۔ عتیق گیلانی

علماء و مفتیان کی قرآن فہمی کی تصویر کا پہلا رُخ اور حقیقت۔ عتیق گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فرض روزوں کے بارے میں
یا ایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون Oایاما معدودات فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدة من ایام اخر و علی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین فمن تطوع خیرا فھوا خیر لہ و ان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمونO١٨٣۔١٨٤
اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ یہ گنتی کے دن ہیں۔ پس جو تم میں کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں تو ان پر فدیہ ہے مسکین کا کھانا اور جو کوئی بھلائی کرے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے۔ اور اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ (آیت 184-183 ، سورة البقرہ۔ )
ان آیات میں روزے فرض کرنے کی وضاحت ہے جس طرح پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے۔ فرض کا کوئی متبادل نہیں ہوتا ہے پھر وضاحت ہے کہ تم میں سے کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو روزے چھوڑ کر دوسرے دنوں میں رکھ سکتا ہے۔ چونکہ مرض اور سفر کی حالت میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے اسلئے روزوں کا متبادل دوسرے دنوں میں قضاء روزے رکھنے کی وضاحت کی گئی ہے۔ حالت سفر یا مرض میں دو قسم کے لوگ ہوسکتے ہیں، غریب اورامیر۔ جو غریب ہیں ان میں فدیہ دینے کی طاقت نہیں ہوتی ہے اور جو امیر ہوتے ہیں ان میں فدیہ دینے کی طاقت ہوتی ہے۔ غریب کو فدیہ دیا جاتا ہے اور امیر فدیہ دیتا ہے۔ سفر یا مرض کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے جو رعایت دی ہے تو پھر ضروری نہیں ہے کہ زندگی میں پھر کبھی روزہ رکھنے کا موقع بھی مل جائے اسلئے اللہ نے فدیہ کی طاقت رکھنے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائیں اور اگر اس سے زیادہ بھلائی کریں تو پھر یہ ان کیلئے زیادہ بہتر ہے۔ انسان عبادت اور مشقت سے راہ فرار اختیار کرنے میں بہت حیلے بہانے تراشتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ انسان کی نفسیات سے خوب آگاہ ہے۔ اسلئے اس کو جہاں سفر اور مرض کی حالت میں روزے کی رعایت دی ہے وہاں پر اس بات کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ اگر تم روزے رکھو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے تاکہ جس سفر اور مرض کی حالت میں انسان کو زیادہ تکلیف نہ ہو تو وہ روزوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش اور حیلے بہانوں سے بھی باز رہے۔ اسلئے فرمایا کہ اگر تم روزہ رکھ لو یعنی آسان سفر اور معمولی مرض کی حالت میں تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
علماء نے کمال کج فہمی سے کام لے کر لکھ دیا ہے کہ اس میں اللہ نے سفر اور مرض کی حالت میں روزوں کو مؤخر کردیا ہے لیکن جو لوگ روزہ رکھنے کی عام حالت میں طاقت بھی رکھتے ہیں تو ان کیلئے ایک مسکین کا کھانا کھلانا ہے۔ یہ ان کی کج فہمی ، کم عقلی اور مفاد پرستی میں اندھے پن کی انتہا ہے اور اس کی وجہ سے قرآن فہمی کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ مزدور اگر اپنی دیہاڑی آٹھ سو یا ہزار روپے لیتا ہو اور ایک سو روپے سے اس کیلئے روزہ معاف ہوسکتا ہو تو پھر وہ ایک سو روپے فدیہ دے کر پانچ سو کا اوور ٹائم کرلے گا۔
قرآن کے تراجم میں غلط بیانی کرکے بہت سے امیر لوگوں کیلئے مُلا کو سو روپے دینے کے بدلے روزہ معاف کیا گیا ہے۔ مُلاؤں کو ہر چیز میں جاگیرداروں و سرمایہ داروں کیلئے رعایت کا پہلو نظر آتا ہے۔ وہ ان پر فدیوں کی بارش کرتے ہیں اور یہ ان کو روزوں میں رعایت فراہم کرتے ہیں۔ قرآن کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ٹھوس احکام کو بیان کیا ہے۔ بعضوں نے ان کو منسوخ قرار دیا ۔
اللہ تعالیٰ نے روزوں کے بارے میں ان آیات کے اندر انسانی فطرت اور اسلامی احکام کی زبردست وضاحت اور رہنمائی فرمائی ہے تاکہ سفر اور مرض کی حالت میں آئندہ کے ایام تک روزے مؤخر کرنے کی رعایت بھی پیش نظر ہو اور اس رعایت کا فدیہ بھی ادا کیا جائے اور غلط فائدہ بھی نہ اٹھایا جائے۔ عوام اور مولوی اس کو باربار پڑھیں۔
اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں اُمت مسلمہ کو اعتدال اور میانہ روی پر کاربند رکھتا ہے۔ بعض ایسے خبطی قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو الفاظ پڑھ کر اس کی غیر فطری منطق سے خود کو بہت مشقت میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر یہی آیات ہی ہوتیں تو پھر بعض متشدد اور خبطی قسم کے لوگ بہر صورت روزہ رکھتے اور کہتے کہ بیماری اور سفر کی حالت میں خواہ کتنی زیادہ تکلیف کیوں نہ ہو لیکن جب اللہ نے کہا ہے کہ روزہ رکھنے میں تمہارے لئے زیادہ بہتری ہے تو پھر روزہ ہی رکھنا ہے اور اس قسم کے لوگوں کی جاہل دینداروں میں کمی نہیں۔
اسلئے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کو اعتدال پر ڈالنے کی روایت اور اپنی سنت پر قائم رہتے ہوئے آگے فرمایا کہ
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس و بینات من ھدیٰ و الفرقان فمن شھد منکم اشھر فلیصمہ ومن کان مریضا او علیٰ سفر فعدة من ایام اخر یرید اللہ بکم الیسرولا یرید بکم العسر ولتکمل العدة ولتکبروا اللہ علیٰ ما ھداکم و لعلکم تشکرونO ١٨٥
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اُتارا گیا ہے۔ لوگوں کی ہدایت کیلئے اور ہدایت کے دلائل کیلئے اور تفریق کیلئے(حق و باطل کے درمیان) ۔ پس جو تم میں سے اس مہینے کو پالے تو وہ روزہ رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ گنتی پوری کرے دوسرے دنوں میں۔ اللہ تعالیٰ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر مشکل نہیں چاہتا ہے اور تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو ۔ اور اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم اس پر شکر ادا کرو۔ (کھلی وضاحتوں پر ) آیت 185البقرہ۔
کاش! علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن کے متن کی طرف خصوصی توجہ دیں ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ نے جب نہ صرف روزوں کو فرض قرار دیا بلکہ پہلی اُمتوں کی طرح ہم پر فرض قرار دیا تو اس آیت میں فرض کا متبادل کیا فدیہ ہوسکتا ہے؟۔ یا آیت کو منسوخ قرار دیا جاسکتا ہے؟۔
ظاہر ہے کہ حالت سفر یا مرض میں جہاں روزوں کو دوسرے ایام تک مؤخر کرنے کا ذکر ہے وہاں طاقت رکھنے والوں کیلئے فدیہ دینے کا بھی حکم ہے۔ اور اگر ہوسکے تو پھر زیادہ بھلائی کرنے کی بھی ترغیب ہے۔ جس طرح بھلائی کی ترغیب ہے اسی طرح روزہ رکھنے کی بھی ترغیب ہے۔
پھر اگلی آیت میں ایک طرف تو روزہ رکھنے کی پوری ترغیب اور حکم ہے اور جن گدھوں سے خدشہ تھا کہ رعایت سے غلط مراد لیں گے تو ان کی باطل تاویلات کا راستہ روکا گیا ہے اور ساتھ میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تمہارے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے مشکلات نہیں۔
پوری دنیا میں چاند ایک ہے اور مشرق و مغرب میں ایک ہی روزہ ہوتا ہے لیکن پاکستان کے علماء و مفتیان نے اپنی شریعت اپنی حکومت کے پلو میں باندھ دی ہے۔ جس کا کھاؤ اس کا گاؤ کی منطق پر عمل کے نتیجے میں دنیا روزہ رکھتی ہے اور ہم رمضان کیلئے ایک ایسے ہلال کمیٹی کے چیئر مین کے محتاج ہوتے ہیں جو کبھی چاہے تو رات 9بجے فیصلہ کر دے کہ چاند نظر نہیں آیا اور چاہے تو 11بجے فیصلہ کردے کہ چاند نظر آگیا ہے۔ ریاست کا تعلق نظام مملکت سے ہی ہوتا ہے۔ اور اسلام کا نظام مملکت پوری دنیا میں جب ایک ہی خلافت ہے تو ریاستوں کو اس دورِ جدید میں الگ الگ روزے رکھنے اور عید منانے کی گنجائش ہے یا نہیں؟۔ غور کرنا چاہیے۔”عصر حاضر” مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب میں لکھا ہے کہ عن انس۔ رفعہ ۔ من اقتراب الساعة ان یریٰ الہلال قبلاً فیقال لیلتین و ان تتخذ المساجد طرقا و ان یظھر موت الفجاء ة…”
قرب قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ چاند پہلے سے دیکھ لیا جائیگا اور کہا جائیگا کہ یہ دوسری تاریخ کا ہے۔ …
ایک طرف سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ پہلے سے چاند نظر آتا ہے اور دوسری طرف ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ ہر ایک سمجھتا ہے کہ چاند دو دن کا ہے ۔ حالانکہ ایسے چاند کیلئے ہلال کمیٹی اور اس پر خرچے کی ضرورت ہے؟۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ