پوسٹ تلاش کریں

تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزا وار… کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک؟

تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزا وار… کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک؟ اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر علماء کرام اسلام کی روح ہی نکال چکے تھے۔ علامہ اقبال کی دعوت اسلام کی نشاۃ ثانیہ بیت اللہ محسود نے ’’وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو ہو جس کی رگ وپے میں فقط مستئ کردار‘‘ زندہ کردی۔پاکستان کی سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ نے جہادِ افغانستان سے روس کے مقابلہ کیلئے جو کھایاپیا، اسکی ایک سبیل پھر اس وقت نکل آئی جب امریکہ نے 9/11کے بعد افغانستان میں اپنے مجاہدین کو مار بھگانے کا پروگرام بنایا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پھر ڈومور کا مطالبہ کیا تو آرمی چیف باجوہ نے ’’نومور‘‘ کی صدا بلند کردی ۔
اسلام کی بیخ کنی کیلئے فرقہ واریت ،ملک کی بیخ کنی کیلئے لسانیت کافی ہے۔ قائداعظم کی بڑی خوبی لسانیت و فرقہ واریت سے ماوراء ہونے کی تھی۔ پاکستانی وزیر اعظم،صدر مملکت ،آرمی چیف، چیف جسٹس تمام ذمہ دار عہدوں پر تعینات شخصیات میں یہی قدرِ مشترک ہی معیار ہے۔پاکستان کی تمام لسانی اکائیاں قدر ومنزلت کے لائق ہیں، سب پھولوں کا الگ الگ رنگ اور جدا جدا خوشبو ہیں۔ قادیانیوں کو فرقہ واریت نے نگلا ،شیعہ فرقہ واریت کا خمیازہ بھگت چکے۔ سپاہِ صحابہ کو فرقہ واریت نے ختم کرڈالا۔ سنی تحریک کو فرقہ واریت نے انجام کو پہنچایا ۔ تحریک طالبان فرقہ واریت سے نابودہوئی۔ ولی خان اور محمود اچکزئی لسانیت کی وجہ سے وہ مقام حاصل نہ کرسکے جسکے وہ مستحق تھے۔ بلوچوں کی قیادت لسانیت کی وجہ سے ناپید ہوگئی۔ کراچی سے راولپنڈی تک ریاست کو ہلا ڈالنے والے وزیرستانی مشکلات سے نکلے مگر بلوچ خواتین اور معصوم بچے تاایں دَم مشکلات کے گرداب میں ہیں۔ کبھی پختون و بلوچ کا پلیٹ فارم ایک تھا، اب بلوچ الگ ہیں پھر وہ وقت بھی آئیگا کہ بلوچ اور بروہی بھی بالکل الگ الگ ہونگے۔
اپنی قوم وزبان سے محبت ایمان اور تعصب کفر ہے، جن میں فرق باریک مگر بہت واضح ہے۔ جس طرح کان کے پردے آواز سے بھی پھٹتے ہیں پھر انسان موٹی اور باریک آواز سننے سے عاری ہوتا ہے ،اسی طرح اپنی قوم سے محبت و تعصب کے درمیان پردے کو نعروں سے پھاڑا جاسکتا ہے۔ جسکے بعد بہری قوم کو کچھ سجھائی نہیں دیتا، جس طرح زور دار تھپڑوں سے بہرے کا علاج ممکن نہیں، اسی طرح کسی قوم کو تعصب کی پٹری سے اتارنا مشکل ہے۔ کون بہروں کو سمجھائے کہ اگر طالبان اور بلوچ قوم لڑنے میں قانون کا سہارا لیتے تو مجرموں سے قانونی برتاؤ کیا جاتا۔اگر وہ اپنا راستہ طاقت سے ڈھونڈیں تو طاقت سے ہی انکا قلع قمع کیا جانا ہے۔ طاقتور طاقت استعمال کرنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے اور کمزور اس کو یہ موقع فراہم کردے تو اس میں کمزور ہی کا نقصان ہوتا ہے۔ فاروق اعظمؓ وامیر حمزہؓ کی طاقت ابوجہل وابولہب سے کم نہیں تھی لیکن مسلمانوں کی حالت کمزور تھی تو اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں اپنے دفاع کیلئے بھی جہاد کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
غزوہ بدر میں مسلمانوں نے کفار سے جہاد کا کوئی پروگرام نہیں بنایا تھا بلکہ یہ تو شام کامال بردار قافلہ لوٹنے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے قتال میں بدل ڈالا۔ غزوات کی قیادت رسول اللہ ﷺ نے بنفس نفیس کی تھی ۔ غزوۂ اُحد میں صحابہ کرامؓ کے پیر میدان سے اُکھڑ گئے تو نبی ﷺ نے بلند آواز سے فرمایا تھا کہ
انا نبی لا کذب انا ابن ابن عبدالمطلب
’’میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں اور ابن عبدالمطلب کے بیٹے کا بیٹا ہوں‘‘۔ اللہ نے فرمایا تھا کہ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ رسل افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ’’اور محمد (ﷺ) کیا ہیں؟ مگر رسول ، بیشک آپ سے پہلے بھی رسول گزر چکے تو کیا اگر آپ فوت ہوں یا قتل کردئیے جائیں تو آپ لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ بہترین نمونہ ہے جو قرآن کی رہنمائی سے بھرپور ہے۔ صحابہؓ کے قدم میدان سے اکھڑ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے نبوت اور حضرت عبدالمطلبؓ کی اولاد ہونے پر فخر کا اظہار فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے پیرائے سے رہنمائی کا حق ادا کردیا۔ انبیاءؓ کی ایک بڑی فہرست تاریخ میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محمد ﷺ ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے بھی بہت رسول گزر چکے ہیں لیکن ان کے فوت ہوجانے یا قتل ہوجانے سے کیا تم اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوگے؟۔ اللہ تعالیٰ نے سیرت طیبہ کو اعلیٰ ترین رہنمائی کا ذریعہ اسلئے قرار دیا ہے کہ قدم قدم اور لمحہ بہ لمحہ رہنمائی کا سلسلہ موجود رہتا تھا۔غزوہ بدر میں عبدالمطلب کا ایک بیٹا ابولہب قتل اور دوسرا عباس گرفتار ہوا۔ خاندانی عصبیت و فوقیت کی اللہ نے تائید نہ کی۔
ہماری قوم پاکستانیوں کیلئے بہترین جمہوری روایات ،لکھنے بولنے کی آزادی کے مواقع ہیں لیکن ہمارے سیاسی اور مذہبی لیڈروں کی حیثیت دولہوں کی طرح، سیاسی رہنماؤں کا برتاؤ میراثیوں اور سیاسی کارکنوں کی حیثیت باراتیوں کی طرح ہوتی ہے۔ قائد وزیراعظم بنتا ہے تو ریاست کواپنی دلہن سمجھنے لگتاہے۔ نوازشریف اور بینظیر بھٹو کے بعد آج عمران خان وزیراعظم بن گئے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ایک کھدڑے کی ریاست سے بے لذت شادی ہوئی ہے۔ جس کا نہ کوئی تول ہے اور نہ کوئی بول۔ قانون کی پاسداری تو دور کی بات ہے اخلاقیات بھی تباہ کردئیے۔
نابینا صحابی ابن مکتومؓ کی آمد نبیﷺ پر ناگوارگذری تو وحی نازل ہوئی۔نبی ﷺفرما تے کہ اس صحابی کی وجہ سے مجھے اللہ نے ڈانٹا ۔ نبیﷺ ظاہری و باطنی خلافت کے سزاوار تھے لیکن جب تک سیرت کے ان پوشیدہ گوشوں کو نمایاں نہ کیا جائے جن سے یہ مسلم قوم ظاہروباطن کی خلافت کا سزاوار بنی، ہم من حیث القوم خلافت کے حقدار نہیں بن سکتے ۔ پھر ہم خود خس وخاشاک کی طرح اپنے شعلہ کی نذر ہونگے۔تحریک طالبان پاکستان نے GHQپر قبضہ، مہران ایربیس اور آئی ایس آئی ملتان کے ہیڈ کواٹر سمیت شعلہ بن کر بازاروں عبادت گاہوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ڈالروں کو پرویزمشرف نے انفراسٹرکچر پر خرچ کیا اور بعض مفاد پرست عناصر کو بیرون ملک اپنے اثاثے بنانے کا موقع ملا ،فوجی جرنیلوں کی سیاستدانوں کے اثاثہ جات پر نظر پڑگئی تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جنرل راحیل شریف نے بنیادی کام یہ کیا کہ فوجیوں کوبھی کرپشن پر لگام دی تھی۔
فوج ایم کیوایم اور طالبان کی پشت پناہی یا نرم گوشے کا مظاہرہ کررہی تھی تو سیاستدانوں کے ذریعے قابو کرنے میں مدد ملی اور اب عمران خان کو فوج کھلم کھلا استعمال کررہی ہے اور اس بیماری کا علاج ناممکن نہیں ہو تو مشکل ضرور ہوگا۔ملک و قوم کو چندوں سے زندہ نہیں رکھا جاسکتا، اپنا اشرافیہ چندوں میں لگ گیا۔ امریکہ پہلے مذہبی چینل کو افراتفری کیلئے استعمال کرتا تھا، اب لسانی قوتوں کو کررہاہے مگر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریاست وحکومت اس بیماری کو پروموٹ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے طاہر داوڑ کی شہادت کی مذمت سوئم گزرنے کے بعد کی۔ اگر اس آگ نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو کسی کیلئے بھی خیر نہیں ہوگی۔ پاکستان مسلم قومیت سے بناتھا اور اسی میں بچت ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟