پوسٹ تلاش کریں

تیز و تند عبد القدوس بلوچ

تیز و تند عبد القدوس بلوچ اخبار: نوشتہ دیوار

یوسف رضا گیلانی کو صدر مملکت کیخلاف خط نہ بھیجنے پر نااہل قرار دیا، اصغر خان کیس جرم میں نوازشریف اور شریک دیگر تمام افراد اور جماعتوں کوبھی نااہل قرار دیا جائے
پاکستان میں کرپشن، سیاسی ناہمواری اور فرقہ وارانہ تشدد کا خاتمہ کرکے نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کے 20کروڑ مسلمانوں کے ذریعہ غزوہ ہند برپا کیا جاسکتاہے
شریف برادارن پنجاب کو مضبوط نہیں بنارہے پاکستان کو توڑنے کا بیج بورہے ہیں، فوج کمزور اور لوگ بدظن ہونگے تو پاکستان کوبھی خطرہ ہوگا ، عبدالقدوس بلوچ صفحہ:3

پاکستان میں ایک ڈرامہ شروع ہوتا ہے اور وہ ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔ عدالت نے 16سال بعد اصغر خان کیس کا فیصلہ جاری کیا لیکن سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک طرف پیپلزپارٹی کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو محض اس بات پر نااہل قرار دیا تھا کہ ’’وہ صدرکیخلاف آئینی طور پر تحفظ سمجھ کر خط بھیجنے کا عذر پیش کررہاتھا‘‘، دوسری طرف اصغر خان کیس کے مجرموں کی سزا کو لٹکائے رکھا تاکہ شاید نوازشریف اقتدار میں آکر آخر نوکری میں توسیع دیدیں۔ شریف بردران نے حضرت علیؓ کی طرف منسوب سچا یا جھوٹا قول اپنے پلے باندھ دیا ہے کہ ’’کسی پر احسان کے بعد اسکے شر سے بھی بچو‘‘۔ یہی وجہ تھی کہ جلاوطنی کے دوران جاوید ہاشمی نے باغی بن کر سزائیں کاٹیں، ان کی صاحبزادی میمونہ ہاشمی کاحامد میر کے پروگرام میں جسطرح سے مذاق اڑایا گیا، اس خاندانی عورت ذات کی بے بسی کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا مگر نوازشریف نے یہ خوف کھایا کہ جاویدہاشمی کیساتھ احسان کے بدلے میں بھی کوئی اچھائی کا برتاؤ کیا تو گلے پڑسکے گا، اسلئے اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی بجائے برطانیہ سے چوہدری سرور کو لیکر آیا۔ چوہدری سرور نے بھی پنجاب کی گورنری کو لات ماری، اسلئے کہ کوئی انسانیت کا کام کرنے ہی نہیں دیتا تھا۔ تو شکریہ ادا کرنے کے بجائے ازخود گورنری سے علیحدہ ہونے پر احسان فراموشی کے طعنے شروع کردئیے۔
جنرل پرویز مشرف پر نوازشریف نے کوئی احسان نہیں کیا تھا بلکہ اپنی اہلیت کے مطابق مگر اپنے مقاصد کیلئے اپنی ترجیحات میں شامل کرکے چیف آف آرمی سٹاف کیلئے نامزد کیا، پھر مدتِ ملازمت سے پہلے ان کی غیرموجودگی میں برطرف کیا، جس پر پاک فوج نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ آج بھی عدالت میں درست کیس چلے تو نوازشریف کو قصوروار قرار دیا جائیگا۔ نوازشریف نے سبق نہ سیکھاہوتا تو جنرل راحیل شریف ہی نہیں جنرنیلوں کو لات لگاگر نکالنے کی لائن لگی ہوتی، جو جہانگیر کرامت کیساتھ ہوا، سنا ہے وہ شیخ برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی بزدل جرنیل تھا جس کوڈرا دھمکاکر فارغ کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ گنجے کو ناخن نہ دے‘‘۔ نوازشریف کو ناخن مل گئے تو دور کی کہانی چھوڑیں، ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو ڈرانے کیلئے وہ کیا جو کشمیر میں انڈیا کی فوج کررہی ہے۔ سندھ سے واحد قومی اسمبلی کے ممبر عبدالحکیم بلوچ نے وزارت، قومی اسمبلی ، ن لیگ کو کیوں چھوڑا۔ شریف برادران نے اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کے علاوہ کسی کو اختیارات دئیے ہی نہیں ہیں۔ جو لوگ اسٹیبلیشمنٹ سے تنگ ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف اچھا ہے یا برا مگر یہ واحد راستہ ہے کہ پنجاب کے اس جمہوری حکومت کو مستحکم کرکے فوج کو سیاسی مداخلت سے روکنا ممکن ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جمہوری تجربوں سے قوم میں شعور بیدار ہوگا اور ووٹ کے ذریعہ سے ہی تبدیلی لانے کی روایت کو مستحکم کیا جائے، ورنہ ہر طالع آزما لٹھ کر میدان میں اترے گا اور کٹھ پتلی قسم کے لوگوں کو لیڈر بناکر ایک تماشہ جاری رہے گا۔
اس میں شک نہیں ہے کہ پاک فوج کی تربیت حکومت کیلئے نہیں ہوئی ہے، اور جب عوام کیلئے ان کو کردار دیا جائیگا تو بہت ساری غلطیاں سرزد ہوں گی، ظلم و زیادتی اور بربریت کا مظاہرہ ہوگااور اس کی وجہ سے عوام سیاسی حکومتوں کو زیادہ قابل ترجیح سمجھتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوج کے بارے میں عوام مثبت یا منفی جیسے پروپیگنڈہ کرنا چاہیں تو انکے خلاف پروپیگنڈہ بھی کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ’’یہ مذموم پروپیگنڈہ بھی کامیاب تھا کہ وہ اپنی خواتین کے ذریعہ ترقی کا راستہ ڈھوندتے ہیں اور بے غیرتی ، اغیار سے منظوری کے بغیر ان کی ترقی ممکن نہیں ہوتی ہے‘‘۔ یہ سب بکواسات کسی کی طرف سے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ جو غیرت فوجی جرنیلوں میں ہوتی ہے وہ سیاسی قائدین میں بھی نظر نہیں آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوؒ ، زرداری، نواشریف اور عمران خان کے مقابلے میں جنرل ایوب ؒ ، جنرل ضیاء الحقؒ ، پرویزمشرف اور جنرل احیل شریف زیادہ غیرتمند نظر آتے ہیں۔ جنرل پرویزمشرف نے تربت بلوچستان میں ڈیم اور روڈ بنائے، گوادر کو چین کے حوالہ کرنے کا اقدام کیا، ڈیرہ اسماعیل خان ٹانک میں گومل ڈیم اور سڑکوں کی تعمیر کا سلسلہ جنوبی وشمالی وزیرستان تک پھیلایا، اشفاق کیانی کو بھی بڑا کریڈت جاتا ہے ۔ شریف برادارن اپنی تجارت کیلئے پنجاب کو مضبوط نہیں پاکستان کو توڑ رہے ہیں۔
گومل ڈیم کا سب سے قریبی شہر ٹانک اور اس ضلع کے علاقہ گومل، عمر اڈا، ملازئی وغیرہ ہیں، ڈیم سے 17میگاواٹ بجلی کی سپلائی بڑی مشکل سے خدا خدا کرکے اب شروع ہوئی ہے مگر ٹانک شہر اور اسکے ملحقہ علاقوں کو وہاں سے بجلی پیدا ہونے کی سخت سزا دی جاری ہے۔ ملازئی فیڈر، گومل کوٹ اعظم،عمراڈا سمیت بجلی کے تمام فیڈر ناکارہ ہیں، ٹانک شہر میں بھی بجلی کا بہت برا حال ہے، مولانا فضل الرحمن نوازشریف سے ملکرداورکنڈی کوجتوانے کی سزا دے رہا ہے۔ فیڈر کے افتتاح کے مسئلہ پرجمعیت علماء اسلام ٹانک کے ضلعی صدر مولانا عبدالرؤف ؒ گل امام نے ٹانک آنے پر دھمکی دے کر روکا تھا۔ عتیق گیلانی نے مولانا عبدالرؤفؒ کو نہ روکا ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کیساتھ بہت برا ہوتا۔ ایک خاندانی اور اچھے آدمی کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے دوسروں کو اکسایا، ڈیرہ اسماعیل خان میں خلیفہ عبدالقیوم نے لڑائی کے دن ہی کہا تھا کہ ہمارے ساتھی کسی کے ورغلانے میں آگئے ہیں۔ مولانافضل الرحمن نے بھرپور مشن چلانے کے بعد جب ناکامی ہوئی اور ہمارا مشن جاری رہا تو عتیق گیلانی کے گھر پر آکر کہا کہ ’’میں ہمیشہ حمایت کرتا ہوں‘‘۔
یہ کہانیاں عوام کے سامنے آئیں تو جمہوریت کے علمبرداروں کے چہروں سے نقاب اٹھے گا۔ سید عتیق گیلانی نے کبھی نیٹو اور امریکی افواج کی حمایت نہ کی بلکہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنوں کے روپ میں ہمارے امن وامان کو خراب نہ کریں، مولانا معراج الدین شہیدؒ ایم این اے کے پرسنل سیکرٹری اختر گل محسود کے سامنے طالبان کے ترجمان مولوی محمد امیر گلشئی شمن خیل محسود سے کہا تھا کہ ’’ ہماری اپنی عوام امریکہ کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے، ان سے اسلحہ اکٹھاکرکے تم کس کی خدمت کررہے ہو؟۔ اس نے کہا کہ ہم آئی ایس آئی والے نہیں ہیں، عتیق گیلانی نے کہا کہ آئی ایس آئی کا ہونا مسئلہ نہیں ، میں بھی تمہارا ساتھ دوں گا لیکن جو تم کررہے ہو، اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے مقاصد پورے ہورہے ہیں،پھر طالبان کے امیر بیت اللہ محسود سے ملاقات کی بات طے ہوئی مگر چند دن بعد عتیق گیلانی پر فائرنگ کی گئی،پھر جب دوبارہ کچھ عرصہ بعد بھائی کی وفات پر جانا ہوا ، تو گھر سے نکلنے کے چند گھنٹے بعد حملہ کرکے طالبان نے کئی افراد کو شہید کیا۔
کافی عرصہ بعد مولانا فضل الرحمن نے تعزیت کیلئے گئے تو ٹانک کی مسجد میں صحاح ستہ کی وہ حدیث سنائی جسکے راوی حضرت ابوبکرؓ ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ خراسان کی طرف سے ایک دجال کا لشکر آئے گا، جس میں ڈھال کی طرح گول چہرے والے اور ہتھوڑے کی طرح لمبوترے چہرے والے اقوام کے افراد ہونگے‘‘۔( جیسے ازبک اور پٹھان ہیں)۔ مولانا فضل الرحمن نے یہ روایت طالبان پر فٹ کردی، پھر عتیق گیلانی کے بھائی سے بھی اس روایت کا ذکر کیا، عتیق گیلانی کے بھائی پیرنثار نے کہا کہ ’’تم لوگوں کے پاس متحدہ مجلس عمل کی حکومت ہے، یہ تمہاری ذمہ داری بنتی ہے کہ لوگوں کی حفاظت کرو، اگر یہ نہیں کرسکتے تو حکومت چھوڑ دو‘‘۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’مجھے پتہ ہے میں نے آنے میں دیر لگادی ، اس وجہ سے آپ ناراض ہیں‘‘۔ پیرنثار نے کہا کہ ناراضگی کا بالکل سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مولانا عطاء الرحمن صاحب آپ کے بھائی ہیں، جنازہ بھی انہوں نے پڑھایا، پھر مسلسل کئی دنوں تک تشریف لاتے رہے، اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا تھا یہ بھی اپنے حق اور حدود سے زیادہ کیا۔ کسی نے پیرنثار سے کہا کہ آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن اب اس موقع پر یہ بات نہ کرتے تو اچھا تھا، مولانا فضل الرحمن کے مدرسہ کے مہتمم مولانا سید عطاء اللہ شاہ نے کہا کہ ’’بالکل صحیح وقت پر اور صحیح موقع پر ٹھیک بات کی ہے‘‘۔ آخرسید توپھر سید ہوتاہے۔
زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ ایک طرف مولانا فضل الرحمن کا وہ بیان صحافیوں نے شائع نہ کیا تو دوسری طرف یہ خبر مولانا عطاء الرحمن کی طرف سے شائع ہوئی کہ ’’ سیکیورٹی فورسس کا شرعی اور حکومتی فرض ہے کہ دہشت گردوں کو قتل کریں‘‘۔ اس سے زیادہ تعجب اس بات پر تھا کہ طالبان اس واقعہ کی وجہ سے اختلافات کا شکار تھے، آپس میں لڑنے مرنے اور مارنے تک بات پہنچی ہوئی تھی، تو مولانا فضل الرحمن نے ان دونوں کو متحد کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ سب سے بڑی تعجب کی بات یہ تھی کہ مولانا عطاء الرحمن بھی اپنے بھائی کے مشن سے بے خبر رہے ورنہ وہ کیوں جوشیلا بیان جاری کرتے۔ قوم مذہبی رہنماؤں اور سیاسی قائدین کی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی دیکھ رہی ہے۔
فرقہ واریت ، شدت پسندی، انتہاپسندی اور دہشت گردی کی مقبولیت کے دور میں ہم نے اللہ کے فضل وکرم سے آندھی اور طوفان میں عدل واعتدال، میانہ روی اور صراطِ مستقیم پر گامزنی کا راستہ چن کر قوم میں علم وکردار کی روشنی دوسروں کو بھی مہیا کی ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام نہیں کرپشن کا پیسہ ایک دوسرے سے لڑارہے ہیں ، قومی اسمبلی کیلئے قانونی طور پر پندرہ لاکھ سے زیادہ رقم خرچ کرنا غلط ہے مگر علیم خان و ایاز صادق اور صدیق بلوچ و جہانگیر ترین کے درمیان مقابلے میں میڈیا پرکروڑوں و اربوں کا تخمینہ لگایا گیا، گری قیادت پولیس اور دیگر ریاستی اداروں میں کیا اخلاقیات کا کوئی معیار قائم کرسکے گی؟ ۔اگراسلام کو معاشرتی طور سے اپنایا گیا ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مسئلہ حل کیا گیا اور سیاست میں کرپشن اور ناہمواری کی فضاء ختم کی گئی تو پاکستان ناقابلِ تسخیر ہوسکتا ہے بلکہ بھارت کے مسلمانوں کی نظر میں بھی پاکستان اور پاکستانی مسلمانوں کا وقار اتنا بڑھ جائیگا کہ نہ صرف کشمیر کی آزادہوگا بلکہ حدیث کیمطابق بھارتی حکمران کو قید کر نے کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟