پوسٹ تلاش کریں

قانون سے کوئی بالاتر نہیں. عاصمہ جہانگیر کا بیان اور تبصرہ

قانون سے کوئی بالاتر نہیں. عاصمہ جہانگیر کا بیان اور تبصرہ اخبار: نوشتہ دیوار

asma-jahangir-gulu-bat-shahbaz-sharif-model-town-case-army-chief-javed-qamar-bajwa-syed-atiq-ur-rehman-gailani

عاصمہ جہانگیر کی بات 100%درست ہے کہ اگر فوج کی طرف سے تحفظ کا یقین نہیں ہوتا تو ججوں نے نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ نہیں دینا تھا۔ واقعی نہیں دے سکتے تھے اگر عدلیہ کی پشت پر ریاست کی قوت نہ ہو تو بوڑھے ججوں کے اندر مولا جٹوں ، گلوبٹوں اور موٹے گینگ نکٹوں سے کشتی کرنے کی صلاحیت تو نہیں !۔ ضعیف العمری و ییرانہ سالی میں محترمہ سٹیا گئیں یا مُلا کی طرح معاوضے کی آذان دے رہی ہیں؟۔ نوازشریف، شہبازشریف اور تمام ن لیگی رہنما عدالت کیخلاف سینہ سپر تھے۔ آرمی چیف کی وضاحت درست تھی کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ آیاتو قابلِ عمل ہونا چاہیے۔ کیا آرمی چیف اور نوازشریف کے رشتہ دار آئی ایس آئی چیف یہ کہتے کہ نوازشریف ہمارا لاڈلہ بچہ ہے ، بگڑا ہوا ہے تو کیا ہوا؟۔ ماڈل ٹاؤن کی پولیس کے ہمراہ گلو بٹ نے کیمرے کی آنکھ کے سامنے ڈنڈا برسایا اور گاڑیوں کے شیشے توڑ دئیے ، گولی کا نشانہ بننے والے خواتین و حضرات بڑی تعداد میں زخمی، معذور اور 14شہید ہوگئے۔ کیایہی نوازشریف کو ملنے والے فوجی بٹ مین بھی ادا کرتے تو اچھا ہوتا؟۔
آپ چاہتی کیا ہیں؟۔ کرپشن پر پہلی مرتبہ ہی ہاتھ پڑنے والا ہے تو پیٹ میں درد شروع ہوا، اپنا دوپٹہ نواز شریف کو پہنادیں، شہباز شریف کی ہیٹ پہن کر شاہد خاقان عباسی کی جگہ پر خود وزیر اعظم بن جائیں۔ پھر ججوں کو اٹھا کر جہاں پھینکنا چاہیں وہاں پھینک دیں۔
دوججوں نے پہلے ہی نااہل قرار دیا تھا جس پر مٹھایاں تقسیم کی گئیں۔ سلمان اکرم راجہ اپنی وکالت سے پہلے کہہ رہاتھا کہ پارلیمنٹ اور قطری خط کے تضاد پر جج وزیراعظم کو نااہل کرسکتے ہیں، یہ ان کا صوبدید ہے کہ نااہل کریں یا چھوڑدیں۔ 62،63کے اطلاق میں فرق ہے۔ ایک شخص اپنے طورپر دن بھر بدبودار پھوسیاں مارتا رہے مگر جب وہ نماز پڑھے گا تو وضو کے ٹوٹنے پر مقدس مسجد سے جانا پڑے گا۔ پھر جب نماز کی امامت کررہا ہو اور پھر زوردار ہوا کی آواز بھی گونج اُٹھے تو خود ہی نماز چھوڑ کر کسی کو نائب مقرر کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ عوام اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوں اور جب تک کوئی کان سے پکڑ کر نکال باہر نہ کرے وہ ڈٹا رہے۔ محترمہ ذرا سوچئے!
عاصمہ جہانگیرومولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے تھے کہ بہت مال نکلے گامگر اقامہ نکل آیا۔ مال کے چارجزلگانا ٹرائل کورٹ کا کام ہے جس میں اپیل کا بھی حق ہوگا۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟