پوسٹ تلاش کریں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)

خود ساختہ طلاق حسن، طلاق احسن اور طلاق بدعت

حنفی مسلک میں طلاق کی3اقسام ہیں۔ طلاق حسن:عدت کے تین ادوار کے مطابق طلاق دی جائے۔ طلاق احسن:ایک طلاق دیکر عورت کو عدت کے آخر تک چھوڑ دیا جائے۔ طلاق بدعت:اکھٹی3طلاق دینا یا حیض کی حالت میں طلاق دینا۔ جبکہ امام شافعی کے نزدیک اکھٹی3طلاق دینا بدعت نہیں مباح اور سنت ہے۔ قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ جب طلاق بدعت و طلاق سنت پر اتفاق نہ ہو تو باقی کیا کیا گل انہوں نے کھلائے ہوں گے۔ طلاق احسن میں یہ طرفہ تماشہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت کسی اور سے شادی کرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر کے پاس آئے تو اختلاف یہ ہے کہ پہلا شوہر نئے سرے سے3طلاق کا مالک ہوگا ؟ یا پھر پہلے سے موجود2طلاق کا مالک ہوگا؟۔ فقہ کے ائمہ کا بھی اس پر اختلاف ہے اور فقہاء حنفیہ کا بھی آپس میں اس پر اتفاق نہیں ہے۔ اگر10افراد ایک ایک طلاق دیکر عورت کو فارغ کرتے جائیں تو عورت پر2،2طلاق کی دس منزلہ بلڈنگ کھڑی ہوگی۔ تمام افراد اس صورت میں2،2طلاق کے مالک بھی رہیں گے ان فضول بکواسیات پروقت نہیں ضائع کرنا چاہیے۔
امام شافعی کے نزدیک ایک ساتھ3طلاق دینے کی دلیل ایک حدیث ہے کہ جب عویمر عجلانی نے اپنی بیوی سے لعان کیا تو کہا کہ تجھے3طلاق۔ حالانکہ اصل معاملہ قرآن میں واضح ہے کہ رجوع کا تعلق باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے صلح کرنے میں ہے۔ سورہ طلاق میں فحاشی کے ارتکاب پر عدت کے اندر بھی گھر سے نکالنے اور نکلنے کی اجازت ہے اسلئے عویمر عجلانی کی روایت اس قابل نہیں ہے کہ یہ بحث کی جائے کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں؟۔ امام ابو حنیفہ و امام مالک کے ہاں ایک ساتھ3طلاق کو گناہ قرار دینے کیلئے ایک روایت ہے کہ محمود بن لبید نے کہا کہ ایک شخص کے بارے میں نبی ۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو3طلاقیں دی ہیں۔ تو رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر اٹھے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل رہے ہو؟۔ جس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔ حالانکہ یہ بھی واضح ہے کہ جس شخص کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے3طلاقیں دی ہیں وہ عبد اللہ ابن عمر تھے اور جس نے قتل کی پیشکش کی تھی وہ حضرت عمر تھے۔ بخاری و مسلم کی اس سے زیادہ مضبوط روایات میں یہ واقعہ موجود ہے اور حضرت عبد اللہ ابن عمر کو نہ صرف نبی ۖ نے رجوع کا حکم دیا تھا بلکہ یہ بھی سمجھایا تھا کہ طلاق کا تعلق عدت کے مطابق مرحلہ وار3مرتبہ عمل ہے۔ جب حنفی مسلک کے چوٹی کے محقق حضرت علامہ ابوبکر جصاص رازی حنفی احکام القرآن میں سنت کے مطابق طلاق پر دلائل دیتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ2مرتبہ طلاق سے مراد الگ الگ فعل ہے جس طرح2درہم کو2مرتبہ درہم نہیں کہہ سکتے اسی طرح2مرتبہ کی طلاق2طلاق نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب طلاق کو واقع کرنے کا ٹھیکہ اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایک باریک بات ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتی ہے مگر پھر بھی ایک ساتھ3طلاق واقع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح جب طلاق سنت کے دلائل پر دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت علامہ انور شاہ کشمیری بحث کرتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ”ہوسکتا ہے کہ لعان کے بعد عویمر عجلانی نے بھی الگ الگ ہی مراحل میں 3مرتبہ طلاقیں دی ہوں”۔ (فیض الباری شرح بخاری)
اہلسنت کے ہاں متفقہ طور پر کہا جاتا ہے کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری ”اللہ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری شریف ہے”۔ امام اسماعیل بخاری کی امام ابوحنیفہ سے نہیں بنتی تھی اسلئے اس نے شافعی مسلک کو سپورٹ دینے کیلئے ”ایک ساتھ3طلاق کے جواز ”کے عنوان کے تحت لکھا کہ ”رفاعہ القرظی نے اپنی بیوی کو 3طلاق دی، پھر اس کی بیوی نے ایک اور شخص سے نکاح کیا اور رسول اللہ ۖ کے پاس آئی اوراپنے دوپٹے کا پلو دکھا کر عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے پوچھا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں جاسکتی یہاں تک کہ دوسرا شوہر تیرا ذائقہ ایسا چکھے جیسے پہلے والے نے چکھا ہے۔ اور تو دوسرے شوہر کا ذائقہ ایسا چکھے جیسے پہلے والے کا چکھا ہے”۔ اس واہیات حدیث کو پڑھ کر مولوی حضرات بھی چکر کھاجاتے ہیں اور عورت اور اس کا شوہر بھی دھوکہ کھاجاتے ہیں۔ حالانکہ کسی نامرد سے حلالہ کروانے کا تو کوئی کم عقل مفتی بھی قائل نہیں ہے۔ بخاری میں واضح ہے کہ رفاعہ القرظی نے مرحلہ وار طلاقیں دی تھیں اور دوسرے شوہر نے اس کی اس بات کی تردید کی تھی کہ وہ نامرد ہے۔ بخاری نے امام ابو حنیفہ کو شکست دینے کیلئے امام شافعی کی حمایت میں یہ روایت بیان کی ہے جس کے امام شافعی خود بھی قائل نہیں تھے۔ مدعی سست گواہ چست۔ لیکن ہمارے علماء خواہ مخواہ کے شیخ الحدیث بنے ہوئے ہیں۔

نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی اصل عمر کا مسئلہ

حضرت عائشہ سے ان کی بڑی بہن حضرت اسمائ بنت ابی بکر10سال بڑی تھیں۔ اور حضرت اسمائ کی وفات73ہجری میں100سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ صحیح بخاری سے بڑی غلط فہمی پھیلی ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت6سال اور رخصتی کے وقت9سال تھی۔ حالانکہ اس پر کئی کتابیں اور تحقیقات لکھی جاچکی ہیں جن میں بڑے بڑے لوگ ہیں کہ یہ حقائق اور قرائن کے بالکل منافی ہے۔ عربی میں بچی کو طفلة اور لڑکی کو بنت کہتے ہیں اور مدارس و اسکول بھی اطفال اور بنات کے الگ الگ ہوتے ہیں۔6سے9سال تک کی عمر پر طفلة کا اطلاق ہوتا ہے اور صحیح بخاری میں بنت کا ذکر ہے۔ قرآن میں یتیم لڑکوں کیلئے بھی حتیٰ اذا بلغوا النکاح ”یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر تک پہنچ جائیں” کا ذکر ہے اور جب لڑکوں کیلئے نکاح کی عمر ہے تو کیا لڑکیوں کی نکاح کی عمر عرف عام میں نہیں ہوتی ہے؟۔ جب لڑکیوں کے نکاح کی عمر بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے تو پھر حضرت عائشہ کے نکاح کی عمر میں کوئی ابہام ہوسکتا ہے؟۔ حضرت اسمائ بڑی بہن کے لحاظ سے آپ کی عمر نکاح کے وقت16سال اور رخصتی کے وقت19سال بنتی ہے۔ پاکستان میں کم عمری کے نکاح پر قانوناً بھی پابندی ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سنت پر پابندی لگادی گئی ہے؟۔ اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں مولوی اور پیر صاحب اپنی بچی یا پوتی وغیرہ کا نکاح6سال کی عمر میں اور رخصتی9سال کی عمر میں کرنا چاہتا ہے لیکن حکومت پاکستان اس میں رکاوٹ ہے؟۔
بخاری میں ڈھیر ساری رفع یدین کی احادیث ہیں لیکن وہ نہیں مانی جاتی ہیں اور تصاویر کی حرمت کے بارے میں بھی احادیث ہیں لیکن جب جدید دور میں تصاویر کا ایک طوفان کھڑا ہوا ہے تو مولوی چاروں شانوں اوندھا اس کے آگے لیٹ گیا ہے۔ جب اس کو حرام قرار دیتا تھا تب بھی وہ تصاویر کی حرمت سے ناواقف تھا اور آج بھی وہی حالت ہے۔

ابنت الجون کے نکاح کا بخاری میں اصل قصہ

بخاری میں اتنا ہے کہ ابنت الجون کو نبی ۖ کے پاس ایک باغ کے کمرے میں لے جایا گیا اور نبی ۖ نے خلوت میں کہا کہ مجھے خود کو ہبہ کردو تو اس نے کہا کہ کیا ملکہ بھی ایک بازارو کے حوالے خود کو کرسکتی ہے؟۔ نبی ۖ نے ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ جس پر نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ آپ نے اس کی پناہ مانگی جس کی پناہ مانگی جاتی ہے۔ اور دو چادر دے کر کسی سے کہا کہ اس کو اپنے گھر پہنچادو۔ (صحیح بخاری)۔ اس پر بخاری کے شارح نے لکھا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی ۖ نے بغیر نکاح کے اس سے خلوت کیسے کی؟۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی ۖ کا صرف آپ کو طلب کرنا نکاح کیلئے کافی تھا چاہے وہ راضی تھی یا نہیں اور اس کا ولی راضی تھا یا نہیں۔ اس جواب کو دیوبندی مکتبہ فکر کے مولانا سلیم اللہ خان اور بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی اپنی اپنی بخاری کی شرح میں نقل کرکے تھوڑی عقل سے کام نہیں لیا اور پوری دنیا میں سنت کا مذاق بنادیا۔ حالانکہ نبی ۖ نے اس کا حق مہر ادا کیا تھا۔ اس کے باپ نے خود پیشکش کی تھی اور ازواج مطہرات نے بناؤ سنگھار کرکے نبی ۖ کے پاس بھیجا تھا۔ انہوں نے سوکناہٹ کی وجہ سے ابنت الجون کو سمجھایا تھا کہ یہ یہ کہنا ہے تاکہ نبی ۖ اس کو فارغ کریں۔ پھر جب نبی ۖ نے فارغ کیا تو اس کے گھر والوں نے کہا تھا تو بڑی کمبخت ہے کہ اس شرف سے محروم رہی۔ یہ واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے بھی زیادہ احسن اسلئے تھا کہ نبی ۖ نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر لڑکی راضی نہ ہو تو اس کو واپس گھر بھیجا جائے اور ہاتھ لگانے سے پہلے اس کی رضامندی کیلئے بھرپور جانچ پڑتال بھی کی جائے اور یہ ازواج مطہرات کو پتہ تھا۔
چونکہ یہ خلع کا معاملہ بنتا تھا اسلئے جو حق مہر دیا تھا وہ بھی اپنی جگہ پر تھا اور اس کے علاوہ چادریں دیں تو وہ نبی ۖ کی طرف سے مزید اضافہ تھا۔ اگر قرآن اور سنت کی ایک ایک بات کو ملایا جائے تو رسول اللہ ۖ کی سیرت طیبہ قرآن کا مرقع نظر آتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ علماء و مفتیان نے تو قرآن کی واضح تعلیمات کا بھی اپنی فقہ کی کتابوں میں معاملہ بگاڑ دیا ہے۔ اللہ کرے کہ مذہبی طبقہ قرآن کی طرف رجوع کرکے اپنے کردار اور اپنے علم کے ذریعے عوام کی بہترین رہنمائی کرے۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)

البقرہ232اور اس کی تحریف میں عورت کی اذیتیں؟

اللہ نے فرمایا:اور جب تم نے طلاق دی عورتوں کو ، پس وہ پورا کرچکیں اپنی عدت تو اب ان کو مت روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے تم میں سے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے دن پر اور اس میں تمہارے واسطے زیادہ تزکیہ اور زیادہ طہارت ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (البقرہ :آیت232)
اس آیت میں یہ بھی واضح کردیا کہ اگر طلاق کے بعد ایک اچھی خاصی مدت گزر چکی ہو اور عورت کو اپنے شوہر کے پاس جانا ہو تو اللہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور دوسرے لوگ بھی اس میں کوئی رکاوٹ کا کردار ادا نہ کریں۔ آج اگر یہ مہم چل جائے تو بہت سارے جوڑوں ، ان کے بچوں ، خاندانوں اور معاشروں کی زندگی میں زبردست انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اور اسی میں معاشرے کیلئے تزکیہ بھی ہے اور پاکیزگی بھی۔ لیکن یہ ان کیلئے ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہوں۔ عورتوں کو جس کی وجہ سے اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ تمام معاملات ایک ایک کرکے اللہ نے حل کردئیے ہیں۔
سورہ بقرہ کی آیت233میں میاں بیوی کی جدائی کے احکام ہیں۔ جس میں بچوں کے خرچے کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ”ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے ضرر نہ پہنچائی جائے اور نہ باپ کو بچے کی وجہ سے ضرر پہنچائی جائے”۔ اور جو ذمہ داری بچے کے خرچے کی باپ پر ہے اسکے وارث پر بھی اس کے مثل ہے۔ افسوس کہ قرآن میں ذمہ داریوں کا ذکر ہے اور مذہبی طبقے کی وجہ سے عدالتوں میں لڑائی ہوتی ہے اور باپ کو بچے کا مالک قرار دے کر ماں کو محروم کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر غلط ہے۔ بچہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ تعلیم و تربیت ، رضاعت اور خرچے کے لحاظ سے ماں باپ پر جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہ بھی عیاں ہیں اور جب بچہ بڑا بنتا ہے تو اس کی ذمہ داری والدین کو سنبھالنا ہوتی ہے۔ ایک طرف عورت کو طلاق دیکر اس کے تمام مالی حقوق سے اس کو محروم کردیا جاتا ہے دوسری طرف اس کا لخت جگر بھی اس سے چھین لیا جاتا ہے۔60،60سال کے بعد بھی بیٹا اپنی ماں سے جدائی کے بعد ملتا نظر آتا ہے۔ریاستی جبر و تشدد کا رونا رونے والامعاشرہ حق بجانب ہے لیکن معاشرتی نظام پر کوئی توجہ دینے والا نہیں ہے۔ جب باپ اپنے بچوں کو ان کی ماں سے دور کرنے کی سزا دے سکتے ہیں تو پھر ریاستی نظام سے شکوہ کرنا بنتا ہے ؟۔لیکن اس کے اوپر کوئی توجہ بھی دے گا؟۔ یہ مشکل ہے۔
سورہ بقرہ کی ان تمام آیات میں جتنا بڑا سبق معاشرے کو دیا گیا ہے وہ سب کچھ تلپٹ کردیا گیا ہے اور اس میں احادیث صحیحہ کو بالکل غلط انداز میں پیش کرکے مسائل بگاڑے گئے ہیں۔ اگر ان کو صحیح پیش کیا جائے تو خواتین پرہی نہیں مسلمان معاشرے پر بھی اس کے بہت دور رس اثرات پڑیں گے۔
ان آیات کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی طلاق کے حوالے سے موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو چھوڑو تو ان کو عدت تک کیلئے چھوڑ دو۔ اور عدت کا احاطہ کرکے شمار کرو۔ اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ ان کو مت نکالو ان کے گھروں سے اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو اس نے اپنے نفس کے ساتھ ظلم کیا۔ تمہیں خبر نہیں شاید اللہ اس اختلاف کے بعد موافقت کی کوئی صورت پیدا کرلے۔ اور جب وہ پہنچے اپنی عدت کو تو ان کو معروف طریقے سے رکھ لو یا معروف طریقے سے الگ کردو۔ اور گواہ بنادو اپنے میں سے دو عادل افراد کو۔ اور گواہی دو اللہ کیلئے۔ یہی ہے جس کے ذریعے سے نصیحت کی جاتی ہے اس کو جو ایمان رکھتا ہے اللہ اور آخرت کے دن پر اور جو اللہ سے ڈرا تو وہ اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنادے گا۔ (سورہ طلاق:آیت1،2)۔
حضرت رکانہ کے والد نے رکانہ کی ماں کو طلاق دی اور پھر دوسری عورت سے شادی کی۔ اس عورت نے نبی ۖ سے شکایت کی کہ اس کے پاس بال کی طرح چیز ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ رکانہ کے بچے اس سے کس قدر مشابہ ہیں۔ اس عورت کو طلاق دینے کا فرمایا اور پھر رکانہ کی ماں سے رجوع کرنے کا پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو 3طلاق دے چکا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے اور پھر سورہ طلاق کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں۔ (ابوداؤد شریف)۔ طلاق کے حوالے سے فقہاء نے اپنی کتابوں میں اتنا گند بھرا ہے کہ اگر ایک طرف قرآن و احادیث کا واضح نقشہ ہو اور دوسری طرف اس گند کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو خطرہ ہے کہ وہ مشتعل ہوکر مساجد اور مدارس میں علماء و مفتیان پر پل پڑیں گے۔ ہماری علماء و مفتیان سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی طرف جلد از جلد لوٹ آئیں۔

بشریٰ بی بی کو عدت میں نکاح پر عدالتی سزا کا مسئلہ

قرآن و سنت میں عدت کے حوالے سے جو بھرپور وضاحتیں ہیں افسوس کہ مدارس کا نصاب اس میں ہدایت سے زیادہ گمراہی پھیلارہا ہے۔ قرآن میں سب سے پہلی عدت ایلاء یا ناراضگی کی صورت میں ہے۔ جس میں طلاق کی وضاحت نہ ہو۔ آیت226البقرہ میں بالکل واضح ہے اور یہی وہ عدت ہے جس کی وجہ سے دورِ جاہلیت میں بھی خواتین کو بڑی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور آج بھی خواتین اس سے دوچار ہیں۔ اگر طلاق کا اظہار شوہر نہیں کرتا تو ساری زندگی عورت اس کے انتظار میں بیٹھی نہیں رہے گی بلکہ4ماہ اس کی عدت قرآن میں واضح ہے۔ پھر طلاق واضح الفاظ میں دینے کی وضاحت آیت228میں واضح ہے۔ جس میں طہرو حیض کے3ادوار ہیں ۔ اور حیض نہ آتا ہو یا اس میں ارتیاب یعنی شک کمی و زیادتی کا مسئلہ ہو تو پھر عدت3ماہ ہے۔ عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو اس کی کوئی عدت نہیں ہے۔ بیوہ کی عدت4ماہ10دن ہے۔ سورہ بقرہ آیت234۔ عورت کو حمل ہو تو طلاق کی صورت میں عدت بچے کی پیدائش ہے۔
احادیث صحیح میں خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے آخری بیان میں بھی کہا کہ مجھ سے طلاق مانگی اور یہی خلع ہے۔ اس تحریری طلاق کے بعد بشریٰ بی بی کی عدت ایک ماہ یا ایک حیض بنتی تھی۔ ڈیڑھ مہینے کے بعد عمران خان سے نکاح کیا تھا اور اس کا نکاح بالکل درست تھا۔ حنفی مسلک والے خلع کی حدیث کو بالکل غلط طریقے سے رد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیوہ کی عدت ٹھوس4ماہ10دن رکھی ہے جس کا تقاضہ یہ تھا کہ بیوہ کو حمل ہو یا نہ ہو مگر اس کی عدت4مہینے10دن ہی ہو۔ احادیث کے اندر بیوہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر اس کے بچے کی پیدائش4ماہ10دن سے پہلے ہو تو بھی اس کی عدت پوری ہے۔ چونکہ عدت یاانتظار عورت ہی نے کرنا ہوتا ہے اسلئے ان کی ترجیحات کو حنفی مسلک نے حدیث کے مطابق ترجیح دی ہے۔ لیکن دوسری طرف خلع کی حدیث کو حنفی مسلک والے نہیں مانتے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف حدیث پر بلکہ حنفی مسلک پر بھی زد پڑتی ہے۔ اسلئے کہ لونڈی و غلام کے مسئلے پر عدت اور طلاق میں قرآن کے مقابلے میں حنفی مسلک کو احادیث پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عدت کی اصل بنیاد بچے کی پیدائش ہے تو یہ بالکل لغو بکواس ہے۔ پھر بیوہ کیلئے4ماہ10دن اور طلاق شدہ کیلئے3ماہ یا3حیض کا تصور بھی نہیں رہتا ہے۔ البتہ قرآن میں یہ واضح ہے کہ طلاق میں عورت پر عدت کا حق شوہر کا بنتا ہے۔ اس کی وجہ اصل میں وہی ہے کہ طلاق کی صورت میں شوہر کو مالی خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے اور عورت کی بھی جدائی چاہت نہیں ہوتی اور دونوں کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ زیادہ مدت تک انتظار کیا جائے۔ جب گھر بار اور شوہر کی طرف سے بھی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی عورت مالک بنتی ہے تو عدت طلاق و عدت وفات کا دورانیہ بھی زیادہ ہے۔ دوسری طرف خلع میں جب عورت کچھ مالی معاملات سے دستبردار ہوتی ہے تو اس کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ بھی کافی ہے اسلئے بشریٰ بی بی کی سزا کا کوئی حق نہیں بنتاہے۔
اگر اسلامی تعلیم کے مطابق عورت کو خلع اور طلاق میں شوہر کی طرف سے دی ہوئی مالی چیزوں کا مالک بنادیا جاتا تو مغربی اور ترقی یافتہ دنیا بھی اس کی پیروی کرتی۔ عورت صنف نازک ہے اور اس کو مرد کے مقابلے میں برابر کے نہیں زیادہ حقوق دئیے گئے ہیں۔ لیکن یہ حقوق ان کو ملتے نہیں ہیں۔ مشترکہ گھر کی مالک بیوی ہوتی ہے۔ جو سورہ طلاق میں بھی واضح ہے کہ ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو۔ اور نبی ۖ کے وصال کے بعد ازواج مطہرات کے حجرے بھی ان کے ذاتی تھے اور ان کی اجازت سے حضرت ابوبکر و حضرت عمر وہاں مدفون ہوئے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضرت حسن کو بھی تدفین کی اجازت دی تھی لیکن مروان نے آپ کو دفن نہیں ہونے دیا تھا۔ باغ فدک پر حضرت فاطمہ کے حوالے سے معاملے کا ذکر ہے لیکن حجروں میں اولاد کی وراثت کے حق کی کوئی بات نہیں تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عمران خان کو جمائمہ کی جائیداد میں حصہ مل رہا تھا مگرعمران خان کی جائیداد میں جمائمہ کا کوئی حصہ نہیں تھا اور نہ ریحام خان کا تھا۔ ریاست مدینہ کی رٹ لگانے سے مدینے کی ریاست قائم نہیں ہوگی بلکہ قرآن و سنت پر عمل کرنے سے مدینے کی ریاست قائم ہوگی۔ یہ صرف بشریٰ بی بی کا مسئلہ نہیں بلکہ پونے2ارب مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور صرف ریاست کو ٹھیک کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ گمراہی کے اڈے مدارس کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔

عورت کے حق مہر کی مقدار اور حق طلاق کا مسئلہ

اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت234میں بیوہ کی عدت کو واضح کیا اور اس میں عدت کے بعد بیوہ کو اپنی مرضی کا مالک قرار دیا۔ اگر وہ چاہے تو قیامت اور جنت تک اسی وفات شدہ شوہر کے ساتھ اس کا نکاح باقی رہے گا۔ اور اگر وہ چاہے تو دوسرے شخص کی طرف سے بھی نکاح کی دعوت قبول کرسکتی ہے۔ آیت235میں اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران اشارہ کنایہ سے نکاح کا پیغام بیوہ کو دینے کی اجازت دی ہے لیکن پکا وعدہ کرنے سے منع کیا ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مذہبی طبقات نے جہالت کی بھرمار سے پتہ نہیں کیا کیا بکواسات کئے ہیں۔ اس کی وجہ قرآن و سنت کے موٹر وے کو چھوڑ کر فقہی علماء کا بھول بھلیوں میں خود بھی گمراہ ہونا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہی میں ڈالنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ اگر تم عورتوں کو چھونے سے پہلے طلاق دے دو۔ اور ان کا حق مہر مقرر کرو تو ان کو رقم دو مالدار اپنی قدرت اور غریب اپنی قدرت کے مطابق۔ معروف متاع ۔ اچھوں پر حق ہے اور اگر تم نے چھونے سے قبل طلاق دی اور ان کا حق مہر مقرر کیا تو مقرر آدھا حق مہر تم پر فرض ہے۔ مگر یہ کہ عورتیں درگزر کریں یا جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ درگزر کریں۔ اگر مرد درگزر کریں تو یہ تقویٰ کے قریب ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل نہ بھولو۔ بیشک اللہ تمہارا عمل دیکھتا ہے۔ (البقرہ: آیت236،237)۔اس آیت میں یہ واضح ہے کہ حق مہر شوہر پر وسعت کے مطابق فرض ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے بھی طلاق دے تو آدھا حق مہر دینا فرض ہے۔ لیکن اگر عورت آدھے میں سے کچھ چھوڑنا چاہتی ہو یا جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ چھوڑنا چاہتا ہو تو اس کی گنجائش ہے لیکن تقویٰ کے قریب یہ ہے کہ مرد اپنی طرف سے رعایت کرے۔ چونکہ عورت خلع نہیں لے رہی ہے اورمرد طلاق دے رہا ہے اسلئے نکاح کا گرہ بھی اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں میں سے کون مالی قربانی دے تو مرد کی طرف سے مالی قربانی کو تقویٰ کے زیادہ قریب قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت سے عجیب و غریب نتیجہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ طلاق دینا صرف مرد کا حق ہے اور عورت کا خلع لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بہت فضول اور لغو دلیل ہے۔ جبکہ سورہ نساء آیت21میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے۔ جہاں مرد سے کہا گیا ہے کہ اس پر بہتان لگاکر محروم کرنے کا سوچنا بھی غلط ہے۔ یہاں بھی یہی ترغیب دی گئی ہے کہ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رعایت لینے کے بجائے عورت کو رعایت دو جبکہ طلاق بھی تم ہی تو دے رہے ہوناں!۔
ایک عورت نکاح کرنا چاہتی تھی تو اس نے خود کو نبی ۖ کے سامنے پیش کردیا۔ نبی ۖ نے اس سے نکاح کرنے میں اپنے لئے کوئی دلچسپی نہیں لی تو ایک صحابی نے کہا کہ یا رسول اللہ ۖ! مجھے اس کی ضرورت ہے۔ نبی ۖ نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس مال ہے؟۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ جاؤ اگرچہ گھر میں کوئی لوہے کی انگوٹھی کیوں نہ ہو۔ اس کے پاس وہ بھی نہیں نکلی تو نبی ۖ نے قرآنی سورتوں کو یاد کرانے کی ذمہ داری اس کو سونپ دی۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس کچھ نہیں تھا تو آپ کے سسر نبی نے بکریاں چرانے کے عوض اپنی ایک بیٹی سے نکاح کا مہر مقرر کردیا۔ اس دور میں بکریاں چرانے سے جتنا معاوضہ8سال میں بنتا تھا اور عورت کی جگہ نوکری کرنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے حق مہر تھا۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رہائش اور کھانے پینے کا خرچہ بھی اسی گھر میں تھا اس لئے حق مہر بھی ٹھیک ٹھاک رکھ دیا۔ جبکہ اس صحابی نے اپنی گھر والی کی رہائش و خرچہ اٹھانا تھا اسلئے تعلیم کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس سے فقہاء نے غلط نتیجہ اخذ کیا ہے کہ لوہے کی انگوٹھی کے برابر حق مہر بھی کافی ہے۔ حالانکہ اس کے پاس لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی اور ہوتی تو یہ اس کی وسعت کے مطابق کل سرمایہ تھا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ اے نبی ! یہ تیرا ہی خاصہ ہے کہ اگر کوئی عورت خود کو ھبہ کرنا چاہے کسی اور کی یہ خاصیت نہیں ہے۔ تاکہ قیامت تک مذہبی طبقات کو سنت نبوی سے دلیل پکڑ کر عورتیں ھبہ کرنے کا حیلہ نظر نہ آئے۔ اگر فقہاء اور محدثین کی کتابوں کو کھنگالا جائے تو انسانیت حیران ہوگی کہ جس فقیہ کے نزدیک جتنی کم از کم مقدار میں چور کا ہاتھ کٹ سکتا ہے اتنی کم از کم مقدار ایک عورت کے حق مہر کی ہے۔ کسی کے نزدیک10درہم، کسی کے نزدیک1چونی، کسی کے نزدیک 1پیسہ۔ حالانکہ چور کے ہاتھ سے تشبیہ دینا افسوسناک ہے۔ ایک شخص کی دیت100اونٹ ہے اور ایک ہاتھ کی دیت50اونٹ ہے۔ ”چور جتنی مقدار میں ایک عضو سے محروم ہوتا ہے اتنے حق مہر میں عورت کے عضو کا شوہر مالک بن جاتا ہے”۔( کشف الباری :مولانا سلیم اللہ خان)۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)

البقرہ229اور اس کی تحریف میں عورت کی اذیتیں؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” طلاق دومرتبہ ہے۔پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ نا۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو مگر یہ کہ دونوں کوخوف ہو کہ وہ دونوںاللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں ۔ یہ اللہ کی حدود ہیں ،ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں” ۔(البقرہ229)
آیت228میں اللہ تعالیٰ نے طلاق شدہ خواتین کیلئے عدت کے تین ادوار کی وضاحت کردی اور اس میں عدت کے3ادوار میں3مرتبہ طلاق کی بھی وضاحت کردی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ قرآن میں آیت229میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ احسان کیساتھ رخصت کرنا تیسری طلاق ہے۔ جس کا مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری اور علامہ غلام رسول سعیدی نے نعم الباری میں ذکر کیا ہے۔
صحیح بخاری کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق ، کتاب العدت اور کتاب التفسیر میں عبداللہ بن عمر کے واقعہ کی وضاحت ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” بیوی کو اپنے پاس طہر کی حالت میں رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر کی حالت میں پاس رہے یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر طہر کی حالت آجائے تو اگر چھوڑ نا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑدو اور رجوع کرنا چاہتے ہو تو رجوع کرلو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح سے طلاق کا حکم فرمایا ہے”۔ قرآن وحدیث میں معاملہ واضح ہے۔
مذہبی طبقے نے قرآن میں تضادات اور تحریفات کا نقشہ اپنے زنگ آلودہ گمراہ دلوں میں جمادیا ہے کہ اگر کسی نے ایک ساتھ3طلاق کہہ دیا تو عدت میں بھی قرآن کے واضح احکام کے برعکس رجوع کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اور دومرتبہ طلاق کے بعد بھی غیر معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔ حنفی مسلک کے نزدیک رجوع کیلئے نیت شرط نہیں ہے۔ شہوت کی نظر پڑگئی تو رجوع ہوجائے گا ۔ شافعی مسلک کے نزدیک رجوع کیلئے نیت ضروری ہے ۔اگر نیت کے بغیر جماع کرلیا تو بھی رجوع نہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت229میں یہ واضح کردیا ہے کہ عدت کے تیسرے مرحلے میں چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر جو کچھ عورت کو دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہے جو واپس نہیں کی گئی اور دونوں کو خدشہ ہو اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی خدشہ ہو کہ پھر وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو وہ پھر اس دی ہوئی چیز کو واپس کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ہے۔ اس میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن مذہبی طبقات نے واضح آیت کے برعکس اس سے خلع مراد لیا ہے۔ مگر دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور کہاں سے آسکتا ہے؟۔ آیت229کے الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ جو شوہر نے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیںہے ۔جو سورہ النساء آیت20اور21میں بھی بالکل واضح ہے لیکن یہاں اس چیز کا استثنیٰ ہے کہ اگران دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ تو پھر دی ہوئی چیز فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ اسی صورت کی بات ہے کہ جب عورت کی کسی اور شخص سے شادی ہوجائے۔ جب دوسرے شخص سے شادی ہوجائے گی اور کوئی چیز ایسی ہوگی کہ پہلے سے رابطے کا ذریعہ بنے گی جس سے دونوں جنسی خواہشات میں پڑکر اللہ کی حدود توڑنے میں ملوث ہوسکتے ہوں تو پھر اس کو واپس کرنا بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایک چیز بہت وضاحت کیساتھ بیان کرکے واضح کردی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اللہ کے بیان کردہ حدود سے نکل کر مذہبی فتوے دینا بہت بڑا ظلم ہے۔ اللہ نے طلاق میں مالی تحفظ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ شوہر نے جو چیز یں دی ہیں وہ واپس لینا جائز نہیں اور علماء ومذہبی طبقے نے اس سے خلع مراد لے کر اللہ کی حدود سے بہت بڑا تجاوز کیا ہے۔ جس میں عورت کو بلیک میل کرنے کی اجازت کا سامان فراہم کیا گیاہے۔اسلئے ان سب کو ظالم قرار دیا گیا ہے۔
حنفی مسلک کے نزدیک دو مرتبہ طلاق کے بعد یہ خلع آنے والی تیسری طلاق کیساتھ ضم ہے۔ شافعی مسلک کے نزدیک یہ جملہ معترضہ ہے۔ اسلئے کہ خلع مستقل طلاق ہے اور پھر تیسری طلاق کی گنجائش نہ رہے گی۔ حنفی مسلک کے نزدیک عربی قواعد کا یہ تقاضہ ہے کہ فان طلقہا کا حرف ”ف” تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے اور اس کو خلع سے منسلک کیا جائے۔ علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں ابن عباس کے قول کو نقل کیا ہے کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ کے فدیہ سے اس تیسری طلاق کو منسلک کیا جائے لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہاں خلع نہیں بلکہ وہ صورت مراد ہے کہ جس میں صلح کا دروازہ مکمل بند کیا جائے۔

البقرہ230میں تحریف اور عورت کی اذیت کا سفر

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کے بعد اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ پھر اگر اس نے طلاق دے دی تودونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ رجوع کرلیں اگر دونوں کو گمان ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ وہ اللہ کی حدود ہیں جو اس قوم کیلئے بیان کرتا ہے جو علم رکھتے ہیں۔ (البقرہ آیت230)
سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے۔جب رسول اللہ ۖ نے پوچھنے پر واضح کردیا کہ قرآن میں تیسری طلاق آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد احسان کیساتھ رخصت کرنا تیسری طلاق ہے تو پھر مترجمین اور مفسرین کا اس کو تیسری طلاق قرار دینا ہی بہت غلط ہے۔
جب اللہ نے اس سے پہلے کی آیات میں باہمی صلح واصلاح اور معروف کی شرط پر رجوع کی عدت کے اندر اجازت دی ہے اور اس کی بعد کی آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے ۔تو کیا اللہ کے قرآن میں اتنا بڑا تضاد ہوسکتا ہے کہ آگے پیچھے کی آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد تو واضح رجوع کی اجازت ہو اور درمیان میں اتنا سخت حکم ہو کہ رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے ایک ایک باطل رسم کا خاتمہ کیا ہے ،اگر قرآن پر تھوڑا سا تدبر کیا جائے تو پھر اس کے سارے راز کھل جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آیت230البقرہ میں یہ نیا حکم نہیں ہے بلکہ آیت228البقرہ میں بھی یہی حکم ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر کا رجوع حرام ہے۔ اس سے پہلے آیت226البقرہ میں بھی یہی ہے کہ ایلاء میں عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع حرام ہے اور آیت229البقرہ میں بھی یہی حکم ہے کہ معروف کے بغیر رجوع حرام ہے ۔ جب ان آیات کی وضاحتوں کے باوجود بھی عورت کی رضامندی کی کہانی سمجھ میں نہیں آئی اور شوہر کے رجوع کیلئے باہمی اصلاح اور معروف کی شرط نظر انداز کردی گئی تو اللہ نے یہ زبردست چال چلی کہ آیت230میں حلالہ کی حرام لذت کا دانہ ڈال دیا۔ جب قرآن نے کوئی مداوا نہیں کیا تھا تب بھی نبی ۖ نے حلالہ کی رسم کو خدا کی لعنت اور بے غیرتی کی انتہاء قرار دیا تھا۔لیکن آیت228میں اس لعنت کے خاتمے کا علاج آیا تو بھی یہ اندیشہ تھا کہ نااہل لوگ پھر شیطان کے جال میں آجائینگے۔ پھر اس کا مزید علاج آیت229البقرہ میں بھی ہوا۔ لیکن دوسری طرف عورت کے حق واختیار کا مسئلہ تھا جو ان آیات228اور229میں نظر انداز کئے جانے کا خدشہ تھا اسلئے آیت230البقرہ میں عورت کے اختیار کو اس انداز میں واضح کرنے کی ضرورت پڑگئی کہ کسی طرح کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو حلالہ سے اتنی عزتیں نہیں لٹی ہیں جتنی عورتیں ظالم مردوں کے ظلم سے آزاد ہوگئی ہیں۔ آج بھی عورت کو جس طرح کا قانونی اختیار چاہیے وہ اس کو دوسری آیات کی روشنی میں علماء ومفتیان دینے کو تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ ایک مرتبہ کی طلاق ہو،یا دومرتبہ کی طلاق یا پھر ناراضگی و ایلاء کا مسئلہ ہو ،عورت کو علیحدگی کا اختیار نہیں ملتا ہے جبکہ قرآن وسنت میں واضح ہے۔
محرمات کی فہرست میں اللہ نے واضح کیا ہے لاتنکحوا مانکح آبائکم من النساء الا ما قد سلف ” نکاح مت کرو، جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے گزر چکا ہے”۔ اگر اس وضاحت کو چھوڑ کر سورہ مجادلہ سے ان الفاظ کو لیا جائے کہ ”مائیں نہیں مگر صرف وہی جنہوں نے جن لیا ہے ” اور اس کی بنیاد پر سوتیلی ماں کو حلال قرار دیا جائے تو کتنی بڑی کم بختی ہوگی؟ اور یہی صورتحال آیت230کی بھی ہے کہ جب عورت کو طلاق کے بعد بھی شوہر اپنی غیرت سمجھ کر کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا تو اللہ نے بہت واضح الفاظ میں یہ رسم جاہلیت ختم کردی مگر سیاق وسباق سے نکال کر حلالے کی لعنت پھر دورِ جاہلیت سے بھی زیادہ خطرناک جاری کی گئی ۔
سوال :اللہ نے کیوں فرمایا کہ ”دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد دونوں کو رجوع کی اجازت ہے کہ جب دونوں کو اللہ کی حدود کو قائم کرنے کا گمان ہو؟”۔ جواب: پہلے شوہرمیں مردانہ کمزوری ہو اور دوسرے میں مالی ۔ دوسرا شوہر طلاق دے اور پہلا دوبارہ نکاح کرے تو دونوں کو گمان ہو کہ جب عورت پہلے مردانہ کمزوری والے شوہر کے پاس جائیگی تو عورت کی جنسی خواہش اور شوہر کی کمزوری حدود پر قائم رہ نہ سکنے کا سبب بن سکتی ہے یہ رابطہ آیت229میں واضح ہے۔ صحابہ وہ قوم تھی جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا لیکن پھر اسلام اجنبیت کا شکار ہوتے ہوتے یہاں پہنچ گیا۔

البقرہ:231میںمعنوی تحریف اور عورت کی اذیت

”اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو پس ان کو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے چھوڑ دو۔ اور تم ان کو اسلئے نہ روکو کہ ان کو ضرر پہنچاؤ تاکہ تم زیادتی کرو۔ اور جو ایسا کرے تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔ اور اس نعمت کو یاد کرو جو اللہ نے تمہارے اوپر کی ہے۔ اور جو اللہ نے تمہارے اوپر کتاب میں سے نازل کئے اور حکمت جس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے۔ اور اللہ سے ڈرو ، اور جان لو کہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے” ۔ (البقرہ231)
قارئین ! اس بات کو اچھی طرح سے ذہن نشین بلکہ دل نشین کرلیں کہ اللہ کی کتاب بے ربط نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ عدت کی تکمیل پر عورت دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار دیا جائے؟۔ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق میں عورت جدائی نہیں چاہتی ہے اسلئے اگر عدت کی تکمیل کے بعد بھی شوہر معروف طریقے سے یعنی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کرنا چاہے تو اس کو اللہ نے واضح کیا ہے۔ مولوی کم بخت نے عورت کے اختیار کو نظر انداز کرتے ہوئے یہاں بھی یہ فلسفہ جھاڑ دیا ہے کہ اللہ نے شوہر کو رجوع کی اجازت دی ہے اور عورت کا اختیار طلاق رجعی میں ختم کردیا ہے۔
فقہاء نے فقہ وفتاویٰ کی کتابوں میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کیلئے بدترین حد بندی کرتے ہوئے فتاویٰ رائج کیا ہے کہ ” جب عورت کی عدت حمل والی ہو توآدھے سے کم بچے کی پیدائش کے وقت رجوع ہوسکتا ہے لیکن آدھے سے زیادہ بچے کی پیدائش کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا”۔ حالانکہ اگر یہ کہا جائے کہ مفتی رفیع عثمانی یا مولانا فضل الرحمن کی ماؤں کو ان کی پیدائش سے پہلے طلاق دی گئی تھی اور جب ان کی نصف نصف پیدائش ہوئی تو مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود نے رجوع کرلیا تو کیا یہ رجوع درست تھا؟۔ اور اس کے بعد کی اولادیں مفتی تقی عثمانی اور مولانا عطاء الرحمن وغیرہ کی پیدائش کو کیا جائزقرار دیا جائے گا؟۔اگر ان علماء نے قرآن اور خواتین کی عزتوں کا پاس نہیں رکھا تو پھر ان کے معزز رہنے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے مفتی تقی عثمانی اور قاری حنیف جالندھری کو بغل میں بٹھا کر کہا کہ اللہ حکومت یزید کو دیتا ہے اور عزت حسین کو دیتا ہے لیکن حسین بنے تو سہی!۔
ایک طرف رونا رویا جاتا ہے کہ ”ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں نے اختیار چھین لیا ہے ”۔ دوسری طرف عورت ”جو حقیقی ماں ہوتی ہے اور اس کو قرآن نے اختیار دیا ہے لیکن مولوی نے اس کا اختیار اپنی جہالت کے باعث چھین لیا ہے”۔ عورت مارچ والے اس اختیار کا مطالبہ کریں جو قرآن نے دیا ہے اور علماء ومفتیان نے اپنے جاہلانہ نصاب تعلیم میں چھین لیا ہے تو ایک بہت بڑا انقلاب برپا ہوگا۔
طلاق کی صورت میں جب عورت معروف طریقے سے رجوع کیلئے عدت کی تکمیل کے بعد راضی ہو تو پھر شوہر کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ اسلئے مت روکو کہ ان کو ضرر پہنچاؤ ، تاکہ زیادتی کرو۔ جو ایسا ظلم کرے گا تو اس نے درحقیقت اپنی جان پر ظلم کیا۔ اسلئے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کے بدلے پر قادر ہے۔ یہ جو حکمرانوں ، عدالتوں اور دنیا کی عالمی طاقتوں کا رونا روتے ہیں تو اس کی وجہ قرآنی تعلیمات سے ان کی دوری اور عورت پر مظالم کے نہ ختم ہونے والے سلسلے ہیں جس کا احساس تک بھی کسی کو نہیں ہے۔ اللہ نے یہاں سورہ احزاب میں زید کی بیوی کو نعمت قرار دینے کی طرح سبھی کیلئے اپنی اپنی بیوی کی نعمت کا ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی کتاب میں اتارے ہوئے ان احکام اور حکمت کا بھی جس کے ذریعے وہ نصیحت کرتا ہے۔ پھر اللہ سے ڈرنے کی تلقین کی ہے جو کسی کے کرتوت سے بے خبر نہیں ہے۔
قرآن میں فاذابلغن اجلھن ” جب وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ جائیں”البقرہ231،232اور234میں آیا ہے اور سورہ طلاق کی دوسری آیت میں بھی۔ ترجمہ کرنے والے تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں لیکن مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ”آسان ترجمہ قرآن ” میں حد کردی ہے اور ان الفاظ کا بالکل متضاد ترجمے کا ارتکاب کیا ہے۔ حالانکہ جس طرح بیوہ کو عدت کے ان الفاظ سے رجوع کا حق حاصل ہے اور آیت232البقرہ میں بھی عدت کی تکمیل کے بعد مزید زبردست وضاحت ان الفاظ سے ہے کہ باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے نکاح کرنے سے مت روکو،اسی طرح آیت231البقرہ اور سورہ طلاق کی آیت2میں بھی معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش عدت کے بعد بھی ہے۔ فقہاء نے جس طرح کے خود ساختہ مسائل نکالے ہیں اگر ان پر عوام کی نظر پڑگئی تو مدارس ومساجد کے علماء ومفتیان کا تماشہ دیکھنے کیلئے لوگ جائینگے کہ یہ کتنی عجیب مخلوق ہے جو اس طرح کے خرافات پڑھتے پڑھاتے ہیں۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 2)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 2)

البقرہ:223میںمعنوی تحریف اور عورت کی اذیتیں

اللہ تعالیٰ نے آیت222البقرہ میں حیض ، اذیت ،گند اورتوبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کی جن الفاظ میں وضاحت کردی ہے وہ بالکل واضح ہے ۔ قرآن میں اس عالم کو کتے کی طرح کہا گیا ہے جس نے علم کے ذریعے دنیا کو طلب کرنے کا پیشہ اختیار کررکھا ہو۔ مثلہ کمثل الکلب ان تحملہ یلھث او یترکہ یلھث ” اس کی مثال کتے کی طرح ہے۔اگر اس پر بوجھ لا دو تو بھی ہانپتا ہے اور چھوڑ دو تو بھی ہانپتا ہے”۔مدارس کے مسند ارشاد پر بیٹھے ہوں یا جنہوں نے مذہب کے نام پر پیری مریدی کی مسند ارشاد سجار کھی ہے یا نام نہاد دانشور وں نے مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا ہو سبھی زد میں اس وقت آتے ہیں۔جب ایک طرف حق بات ہو اور دوسری طرف قرآن کی تحریف کا مسئلہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں۔ ان کے پاس آؤ جس طرح تم چاہو۔اور آگے بھیجو،اپنی جانوں کیلئے اور اللہ سے ڈرو، بیشک تم نے اس سے ملنا ہے اور مؤمنوں کو بشارت دو”۔
اس آیت223سے پہلے آیت222میں حیض اور اذیت کی وضاحت ہے۔ حیض کی حالت میں اذیت کا بھی ذکر ہے اور مقاربت سے بھی منع کیا گیا ہے۔ فقہ وتفسیر کی کتابوں میں جو فضولیات پڑھائی جاتی ہیں ان میں اذیت کی بات کو مدنظر رکھا جاتا تو پھر اس بات پر کوئی جھگڑا نہ ہوتا کہ مرد کو کہاں سے کیا کرنے کی اجازت ہے اور کہاں سے کیا کرنے کی اجازت نہیں ہے؟۔ شیعہ سنی کے ہاں یہ معاملہ بہت افسوسناک حد تک بیان کیا جاتا ہے۔ جسے کتے کی دم کی طرح مسلکی بنیاد پر سیدھا نہیں کیا جاسکتا۔
ایرانی نژاد ایک امریکن عورت نے اسلام میں عورت کے مقام پرکتاب لکھی ہے جس میں عورت کی انتہائی تذلیل کے حقائق بیان کئے گئے ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ عورت کی قیمت ادا کی جائے تو لونڈی کی صورت میں اس سے نکاح کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ۔وہ اس سے بدفعلی کرسکتا ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے اور اس کی تفصیل سے وضاحت کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ ” ایک شخص نے نکاح کیا اور وہ عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرتا تھا۔ عورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی تو عورت نے خلع کا مطالبہ کیا۔ وہ خلع دینے پر راضی نہیں تھا۔ آخرکار حق مہر کی رقم سے خلع کی زیادہ رقم ادا کردی تو اس نے عورت کی جان چھوڑ دی”۔ حالانکہ شوہر پر عورت کو اذیت دینے کی حرمت واضح ہوتی اور اس سے توبہ کی تلقین ہوتی تو عورتیں گناہگار نہ بنتیں بلکہ مردوں کو گناہگار قرار دیا جاتا۔ غلط تفسیر اور قرآن کے واضح الفاظ سے منحرف ہونے کے جو خطرناک نتائج نکلے ہیں اس سے مذہبی طبقے نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ مدارس میں بڑے پیمانے پر عورتیں تعلیم حاصل کررہی ہیں ان کو اپنے حقوق کیلئے اُٹھنا پڑے گا۔
اگر آیت222البقرہ اور آیت223البقرہ میں قرآن کی معنوی تحریف کا راستہ روکا جاتا تو پھر آنے والی آیات میں بھی عورت کو مشکلات سے نکالا جاسکتا تھا۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ عربی لغت میں کہیں بھی اذی کے معنی گند کے نہیں ہیں لیکن قرآن کے اردو تراجم میں اس کے معانی گند کے لکھے گئے ہیں۔ اذی کے معانی اذیت اور تکلیف کے ہیں۔ اذیت اور تکلیف سے توبہ کی جاتی ہے اور اللہ سے ڈرنے کی تلقین اسلئے کی گئی ہے کہ عورت کو اذیت نہ پہنچائی جائے۔ شیخ الحدیث مفتی عزیزالرحمن سواتی ثم لاہوری اور جامع امدادالعلوم فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا نذیر احمدفیصل آبادی قوم لوط کے عمل میں مبتلاء تھے۔ اگر اس جیسے لوگ اپنی بیگمات کو اذیت نہیں دیتے تو یہی ان کا تقویٰ تھا۔ صابر شاہ کے بارے میں اس مدرسہ کے طلبہ نے میڈیا کو بتایا کہ ” صابر شاہ میں یہ علت تھی”۔ ویڈیو نے دنیا کے لوگوں کو چونکادیا تھا لیکن مدارس اور سکولوں میں ماحولیاتی آلودگی پھیل چکی ہے جس کے علاج کا قرآن نے ذکر کیا ہے ۔ واللذان یأتیانھا فآذوھما فان تابا و اصلحا فأعرضوا عنھما ان اللہ کان توابًا رحیمًا”اور اگر دو مرد بدکاری کے مرتکب ہوں تو ان دونوںکو اذیت دیدو۔ اگر دونوں توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو پھر ان دونوں سے اعراض کرو۔اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم والا ہے”۔
سورہ النساء آیت16میں قوم لوط کے عمل پر سزا کی اتنی زبردست وضاحت کے باوجود بھی مسالک میں اس کی سزا پر فقہی اختلافات مضحکہ خیز ہیں۔مفتی عزیز الرحمن کو مینار پاکستان سے گرا یا جارہاتھا؟۔

البقرہ224،225،226،227میں اذیتیں؟

یہ آیات طلاق کے احکام کا مقدمہ ہیں۔ آیت224البقرہ میں یہ واضح ہے کہ اللہ اور مذہب کے نام کو ڈھال بناکر نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب میاں بیوی صلح کیلئے راضی ہوں تو اللہ کے نام پر ان کو صلح سے روکنا بہت بڑی اذیت ہے اور اللہ نے اس آیت کے ذریعے اس جاہلیت کو ختم کرنے کا واضح اعلان کردیا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کو بالکل غلط پیش کیا جاتا ہے کہ ایک عورت کا شوہر نامرد تھا اور وہ اپنے سابقہ شوہر کی طرف لوٹنا چاہتی تھی لیکن نبیۖ نے اس کو حلالہ کے بغیر اجازت نہیں دی۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کتاب ”کشف الباری شرح صحیح البخاری” میں لکھ دیا ہے کہ ”اس حدیث کی حنفی مسلک میں اتنی حیثیت نہیں کہ اس کو قرآن کے مقابلے میں لایا جائے”۔ اس روایت میں عورت اپنے شوہر سے خلاصی چاہتی تھی اور دوسری روایت میں ہے کہ شوہر نے اس کو جھٹلادیا تھا کہ وہ نامرد ہے اور اصل مسئلہ مار پیٹ اور لڑائی کا تھا۔ ایک کم عقل مفتی بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتا کہ کسی عورت کو مجبور کرے کہ نامرد سے حلالہ کراؤ ،تو نبیۖ پر تہمت کیسے لگائی جاسکتی ہے؟۔ بخاری نے جس عنوان سے درج کیا ہے اس کا غلط ہونا بخاری سے ہی ثابت بھی ہے۔
احادیث کے ذخائر میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں کہ میاں بیوی طلاق کے بعد ملنا چاہتے ہوں اور نبی ۖ نے ان کو منع کیا ہو۔ اور ہوتا بھی تو قرآن سے متصادم قرار دیکر اس کی تردید کرنا ایمان کا تقاضا ہوتا اسلئے کہ قرآن کے خلاف کوئی حدیث کیسے ہوسکتی ہے؟۔ یہ عورت کیلئے اذیت ہے۔
آیت225میں ان تمام الفاظ کو لغو قرار دیا گیا ہے جو طلاق صریح وکنایہ سے متعلق عوام کسی طرح کے وسوسوں کا شکار ہوتے ہیں کہ یہ کہنے ، سوچنے اور لکھنے سے طلاق تو نہیں ہوئی؟۔ لیکن دل کے گناہ سے پکڑنے کی وضاحت ہے۔ دل کا گناہ یہ ہے کہ طلاق کا پروگرام ہو لیکن اس کا اظہار نہ کیا جائے بلکہ یونہی عورت سے ناراضگی اختیار کرکے چھوڑ دیا جائے اسلئے کہ پھر عورت کی عدت میں ایک ماہ کا اضافہ ہوگا۔ آیت226البقرہ میں طلاق کا اظہار کئے بغیر ناراضگی کی عدت چار ماہ ہے اور آیت227البقرہ میں واضح ہے کہ اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے۔ یہ عزم دل کا گناہ ہے کیونکہ اس کا اظہار نہ کرنے سے عورت کی عدت میں ایک ماہ کا اضافہ ہے اور اگر اس نے طلاق دینی تھی تو اس کا اظہار بھی کردیتا اور پھر اس کی عدت تین ماہ بن جاتی۔ ایک مہینے زیادہ انتظار کی اذیت عورت کو دینے پر اللہ کی طرف سے پکڑ ہوگی اور اسی کی وضاحت ہے۔
فقہاء اور مفسرین نے ان آیات میں عورت کی اذیت کو نظر انداز کیا ہے اور ان آیات کا اصل مفہوم کتوں کی طرح تقسیم کرکے نوچ ڈالا ہے۔ ایک مسلک کہتا ہے کہ عورت کو چار ماہ بعد طلاق ہوجائے گی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا اور وہ یہ ہے کہ4مہینے عورت کے پاس نہیں گیا اور دوسرا مسلک کہتا ہے کہ4مہینے نہیں زندگی بھر بھی اس کو طلاق نہیں ہوگی اسلئے کہ شوہر نے اپنے حق کو استعمال نہیں کیا ہے۔ حالانکہ یہ4مہینے ناراضگی میں عورت کی عدت ہے۔ رسول اللہ ۖ کی مثال قرآن میں واضح ہے۔ آپ ۖ اپنی ازواج مطہرات سے ناراض ہوگئے۔ ایک مہینے بعد جب آپۖ نے رجوع کیا تو اللہ نے فرمایا کہ ” آپ رجوع نہیں کرسکتے۔ ان کو طلاق کا اختیار دے دیں۔ اگر وہ رہنا چاہیں تو ان کی مرضی ہے اور نہیں رہنا چاہیں تو بھی ان کا اختیار ہے”۔
یہ ایک جاہلیت کی رسم تھی کہ جب شوہر ساری زندگی عورت کو یرغمال بناکر رکھنا چاہتاتھا تو پھر وہ کھلے لفظوں میں طلاق نہیں دیتا تھا۔ عورت بیچاری زندگی بھر رُل جاتی تھی۔ اللہ نے عورت کے حق کو واضح کرنے کیلئے قرآنی آیات اتاری ہیں۔ اگر فقہاء ومفسرین نے عورت کی اذیت کا خیال رکھا ہوتا تو پھر کھلی اور واضح آیات میں ایسے تضادات کا شکار نہ بنتے۔ قرآن کی یہ پہلی آیت ہے جس میں4مہینے کی عدت واضح ہے۔ ناراضگی میں4مہینے اور طلاق میں تین ادوار کی عدت ہے۔ مدارس اور مساجد کے علماء ومفتیان نے اگر عزت کمانی ہے تو اللہ کی آیات کو مان کر واضح کریں۔

البقرہ228اور علماء کی معنوی تحریفات کی اذیتیں؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” طلاق شدہ عورتیں3ادوار تک اپنی جانوں کو انتظار میں رکھیں۔ اور ان کیلئے حلال نہیں ہے کہ وہ چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے۔اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگر ان کا پروگرام اصلاح کا ہو۔اور ان عورتوں کیلئے اسی کی طرح کے حقوق ہیں جیسے عورتوں پر شوہروں کے ہیں معروف طریقے سے۔اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔ (البقرہ:228 )
دورِ جاہلیت میں دوانتہائی غیراخلاقی اور غیر قانونی مذہبی مسائل تھے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیتا تو حلالہ کی لعنت کے بغیر اس کیلئے وہ حرام بن جاتی تھی۔ اس آیت میں اس غیرفطری مذہبی مسئلے کو اڑاکر رکھ دیا کہ رجوع کا تعلق ایک ساتھ تین طلاق اور حلالہ کی لعنت سے نہیں بلکہ عدت میں باہمی اصلاح سے ہے۔ دوسرامسئلہ یہ تھا کہ جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا تھا تو جتنی مرتبہ چاہتا تھاوہ عدت کے دوران رجوع کرسکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے عورت کی رضامندی ، صلح اور اصلاح کی شرط پر معروف طریقے سے رجوع کی وضاحت کرکے اس باطل مسئلے کو ختم کردیا۔ جب تک عورت راضی نہ ہو تو شوہر ایک مرتبہ میںبھی رجوع نہیں کرسکتا ۔ اور عورت راضی ہو تو پھر جتنی مرتبہ چاہیں باہمی اصلاح سے اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ اسلئے اسلام دین فطرت ہے۔
عورت صنف نازک ہے ، اس کو حیض آتا ہے، اس کو بچے جننے ہوتے ہیں۔ بچے کو دودھ پلانا ہوتا ہے اور جب اس کی ایک مرتبہ شادی ہوتی ہے تو طلاق سے اس پر اثر پڑتا ہے اسلئے اللہ نے اس کو عدت کا بھی پابند بنایا ہے۔ عورتوں اور مردوں کے حقوق برابر ہیں لیکن عدت کے اعتبار سے ایک درجہ مردوں کا ان پر اضافی ہے۔ اس میں بھی عورت کیلئے ہی مصلحت ہے اور مردوں کو اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔بلکہ حق مہر کی صورت میں عورت کیلئے بڑی انشورنس اور شوہر پر جرمانہ عائدہے۔
علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات نے اس آیت میں پہلی تحریف یہ کی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع کا دروازہ بند کیا ہے۔ دوسری تحریف یہ کی ہے کہ اللہ نے صلح واصلاح اور معروف کی شرط پر شوہر کو رجوع کی اجازت دی ہے اورگمراہ مذہبی طبقات نے غیر مشروط رجوع کی اجازت دی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر شوہر ایک مرتبہ طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے اور پھر طلاق دے ۔ اس طرح پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلے اور پھر طلاق دے تو عورت کو ایک کی جگہ تین عدتیں گزارنی پڑیں گی۔ جب اللہ تعالیٰ نے عورت کو ایک ہی عدت کا پابند بنایا ہے اور مولوی شوہر کو تین عدتوں کا حق دیتا ہے۔پھر تو جس حدیث میں آتا ہے کہ طلاق مذاق میں بھی ہوجاتی ہے تو اس کا مفہوم ہی غیر مؤثر ہوجاتا ہے اسلئے کہ شوہر کہے گا کہ میں نے طلاق رجعی دی ہے۔ مسائل کے نام پر بکواسات ہیں۔
بہشتی زیور میں ہے ۔ مسئلہ : شوہر نے بیوی سے کہا کہ طلاق طلاق طلاق۔ یہ تین طلاقیں ہوگئیں۔ اگر شوہر کی نیت ایک طلاق کی ہو تو پھر ایک طلاق ہوئی ۔ا س طلاق رجعی سے شوہر یکطرفہ رجوع کرسکتا ہے اور عورت اس کی بدستور بیوی رہے گی لیکن بیوی پھر بھی سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوگئی ہیں۔
جب عورت کو اصلًا طلاق نہیں ہوئی ہے اور شوہر نے ایک طلاق رجعی سے رجوع کرلیا ہے اور بیوی اس کے نکاح میں ہے تو پھر بھی عورت کو فتویٰ دیا جارہاہے کہ وہ سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں پڑ چکی ہیں۔ اب وہ حلالے کیلئے دوڑے گی اور شوہر کہے گا کہ میری بیوی ہے اس کو جانے نہیں دوں گا۔ مولوی اس کا علاج کیا کرے گا؟۔ اگر خود کسی بڑے عالم اور مفتی کے گھر میں یہ واقعہ ہو تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟۔
حضرت عمر حکمران تھے ۔ جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو فیصلہ دے دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ اور ٹھیک فیصلہ دیا اسلئے کہ رجوع کیلئے باہمی رضامندی شرط ہے۔ حضرت عمر کے پاس ایک اور مسئلہ آیا کہ شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا تھا۔ حضرت عمر نے پوچھا عورت رجوع کیلئے راضی تھی تو رجوع کی اجازت دیدی۔ حضرت علی کے پاس ایک مسئلہ آیا ۔ شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا تھا۔ عورت راضی نہیں تھی تو حضرت علی نے رجوع کو حرام قرار دیا تھا۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

پانچویں پارے کے شروع میں شادی شدہ عورت کو لونڈی بنانے کا تصور قرآن نے دیا ہے؟

پانچویں پارے کے شروع میں شادی شدہ عورت کو لونڈی بنانے کا تصور قرآن نے دیا ہے؟

ایران یا شیعہ کے ہاں متعہ اور سعودی یا عربوں کے ہاں مسیار کا تصور ہندوستان کی داشتاؤں اور مغرب کی گرل فرینڈز سے بھی بہت بدتر ہے اسلئے کہ اسلام کا حقیقی تصور اجنبیت کا شکار ہے

اسلام میں نکاح انتہائی قابل احترام تصور ہے ہمارے ہاں اگرچہ وقتی معاہدے یا ایگریمنٹ کا تصور بہت مجروح ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن نکاح جن حقوق کا نام ہے وہ یہاں مفقود ہیں

اسلام دین فطرت ہے۔ پردے سے متعلق مختلف آیات نازل ہوئی ہیں۔
اللہ نے فرمایا : نہیں ہے اندھے پر کوئی حرج اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر اور نہ تمہاری جانوں پر کہ تم لوگ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر سے یا اپنی ماں کے گھر سے یا اپنے بھائی کے گھر سے یا اپنی بہن کے گھر سے یا اپنے چچا کے گھر سے یا اپنی پھوپھی کے گھر سے یا اپنے ماموں کے گھر سے یا اپنی خالہ کے گھر سے یا جس کے گھر کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوست کے گھر سے ۔ نہیں کوئی گناہ تم پر کہ کھاؤ آپس میں مل کر یا الگ الگ ہوکر۔ پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو سلام کہو اپنی جانوں پر دعائیہ کلمات کے ساتھ اللہ کے ہاں برکت اور اچھائی کے ساتھ۔ اسی طریقے سے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی آیات بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔ (سورہ النور:آیت61)۔
اس آیت میں روایتی پردے کا ذکر ہے۔ جو عرب کے زمانہ جاہلیت سے موجودہ دور تک ہر قوم اور ہر علاقے میں موجود ہے۔ جب کوئی اپنے خاص منصب یا عہدے کی وجہ سے مرجع خلائق بنتا ہے تو پھر اس کے پاس ایسے اجنبی لوگ بھی آتے ہیں جن میں منافق اور دشمن بھی ہوسکتے ہیں۔ جب نبی کریم ۖ لوگوں کیلئے مرجع خلائق بنے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کیلئے پردے کا خاص حکم بھی نازل فرمایا۔ ایک طرف حضرت عائشہ صدیقہ نے جنگ جمل میں خلیفہ راشد حضرت علی کے خلاف اپوزیشن کی قیادت کی اور دوسری طرف پردے کی وہ آیات جن میں گھروں کے اندر محصور ہوکر بیٹھنے کا حکم ہے۔ چونکہ بعد کے لوگ بال کی کھال اتارنے کے چکر میں اللہ کے احکام کو صحیح سمجھنے میں ناکام رہے اسلئے پردے کے احکام بھی ان کی نظروں میں متضاد اور اوجھل ہی رہے۔
رسول اللہ ۖ کو اللہ تعالیٰ نے بڑا امتیازی منصب عطا فرمایا تھا۔ ایک طرف عقیدتمندوں کے احترام کا مسئلہ تھا تو دوسری طرف بدو اعراب سے واسطہ تھا جو حجرات کے پیچھے سے پکارتے تھے اور ان کے بارے میں اللہ نے واضح کیا تھا کہ وہ یہ نہ کہیں کہ انہوں نے ایمان لایا بلکہ وہ یہ کہیں کہ ہم نے اسلام لایا۔ کیونکہ ایمان ابھی تک ان کے دلوں تک نہیں پہنچا تھا۔ عقیدتمندوں سے تو اُمہات المؤمنین کے احترام کی توقع ہوسکتی تھی لیکن بد عقیدہ اور بدبخت لوگوں کے علاوہ سادہ لوح لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف نبی ۖ کی ازواج کیلئے پردے کا خاص حکم نازل فرمایا اور دوسری طرف یہ تلقین کردی کہ ازواج مطہرات تمہاری مائیں ہیں۔ ان سے نکاح نہ کریں کیونکہ اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے۔ قرآن میں یہ آیات بہت واضح ہیں۔ آج کی دنیا میں بھی جن خواتین کے شوہر کوئی امتیازی مقام رکھتے ہیں تو ان کو نکاح کی دعوت دینا ان کی توہین سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح سے جب بعض لوگوں پر اجنبیت کا ازدہام ہو تو وہ پردے کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محصنات عربی میں بیگمات کو بھی کہتے ہیں جن میں وہ بیگمات بھی شامل ہیں جنکے شوہر زندہ ہیں اور وہ بیگمات بھی ہیں جن کے شوہر فوت ہوگئے۔ ایک عورت کیلئے اپنے شوہر کی اہمیت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ قرآن کی اس آیت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ نے فرمایا: مردوں کو عورتوں کا محافظ بنایا گیا ہے بسبب اللہ کے فضل کے جو بعض پر بعض کو عطا کیا۔ اور جو مرد خرچہ کرتے ہیں ۔ پس عورتیں نیک ہیں ، عاجزی کرنے والی ہیں ، حفاظت کرنے والی ہیں غیب میںجو اللہ نے ان میں حفاظت کا جوہر رکھا ہے۔ اور جن کی بدخوئی کا خوف ہو تو ان کو سمجھاؤ اور ان کو الگ کرو ٹھکانوں میں اور ان کو مارو اگر وہ تمہاری مانیں تو ان کیلئے لڑنے کی راہیں تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ بلند بڑا ہے۔ (النسائ: آیت34)۔
صنف نازک عورت کو تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے اور زیادہ تر مرد اپنی کمائی خواتین پر لگاتے ہیں تو یہ بھی ایک فضیلت ہے۔ اور دوسری طرف کی فضیلت عورتوں کی ایسی صفات ہیں جو مردوں میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ وہ فطرتاً نیک ہوتی ہیں، عاجزی کرنے والی ہوتی ہیں اور غیب میں اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔ ایک طرف مرد طاقتور ہوتا ہے اور دوسری طرف عورت زبان کی تیز ہوتی ہے۔ پاکستان کے محافظ افواج پاکستان ہیں اور ان کے ہاتھ میں طاقت اور ڈنڈا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے صحافیوں کی زبان بہت چلتی ہے۔ اگر ان میں یہ صفات پیدا ہوجائیں کہ وہ صالح بھی بن جائیں ، عاجز بھی بن جائیں اور غیب کی حالت میں حفاظت کرنے والے بھی بن جائیں اور پھر جب ایک دوسرے کے ساتھ ٹاکرہ ہو تو ایک دم سخت ڈنڈے چلانے کے بجائے پہلے مہینے میں ان کو سمجھانے سے کام لیا جائے دوسرے مہینے میں ان کے ٹھکانوں کو الگ کیا جائے اور پھر تیسرے مہینے میں ہلکی پھلکی مار پڑے تو پاکستان کے لوگ خود کو بہت خوش قسمت سمجھیں گے۔
اللہ نے مردوں کو مارنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ ان کی مارنے کی طاقت کو کنٹرول کرنے کیلئے یہ حکم دیا ہے۔ جب ہلکی پھلکی مار کی ضرورت پڑے تو اس کا مطلب شوہر کا پیمانہ بھی لبریز اور عورت بھی اس پر نہ مانے تو دونوں میں پھر نباہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن جدائی کیلئے پھر بھی ایک دم 3طلاق کا وہ شرعی مسئلہ نہیں ہے جس کے بعد دونوں مدارس اور مساجد کے طواف حلالہ کے چکر میں لگاتے ہیں بلکہ اللہ نے فرمایا : اور اگر تمہیں خوف ہو ان دونوں میں جدائی کا تو تشکیل دو ایک فیصلہ کرنے والا شوہر کے خاندان سے اور ایک فیصلہ کرنے والا بیوی کے خاندان سے۔ اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو تو اللہ ان میں موافقت پیدا کردے گا۔ بیشک اللہ بہت علم رکھنے والا خبر رکھنے والا ہے۔ (النسائ: آیت35)
پانچویں پارے کے شروع میں ان محترم بیگمات خواتین کا ذکر ہے کہ جن کو کسی اور سے نکاح پر اس کے نام و نمود اور مفادات کا نقصان پہنچتا ہے۔ جس طرح آج کل کی ایسی خواتین جن کے شوہر وفات پاچکے ہیں اور ان کو بڑی بڑی پینشن ملتی ہے جیسے نشان حیدر والیاں وغیرہ۔ حکومت کی طرف سے ان کی مراعات اسی وقت ختم کردی جاتی ہیں جب وہ کسی اور سے نکاح کرتی ہیں۔ حرمت کے حوالے سے پوری فہرست بیان کرنے کے بعد آخر میں پہلے دو بہنوں کو اکھٹا کرنا منع کردیا جس میں ایک کے بعد دوسری سے نکاح ہوسکتا ہے لیکن دونوں کو اکھٹا نہیں کیا جاسکتا۔ پھر بالکل آخر میں سب سے کم درجے کی حرمت کا ذکر ہے۔ اس سے لونڈیاں مراد نہیں ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے اپنے چچا کی بیٹی حضرت اُم ہانی کو نکاح کی پیشکش کی اور وہ اولین مسلمانوں میں سے تھیں۔ ان کے گھر میں ہی معراج کا واقعہ ہوا تھا۔ اس کو اپنے مشرک شوہر سے بڑی محبت تھی۔ جس کی وجہ سے اس نے اللہ کے حکم کے باوجود بھی ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی نے اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہا تو اس نے اپنے شوہر کیلئے نبی ۖ سے پناہ مانگی۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ اپنے شوہر کو اور جس کو بھی چاہو پناہ دے سکتی ہو۔ پھر اس کا شوہر عیسائی بن کر نجران چلاگیا تو نبی ۖ نے اس کو اپنے نکاح میں آنے کی دعوت دی۔ اس نے پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم نازل کیا کہ تمہارے لئے وہ چچا کی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے۔ پھر اللہ نے کسی بھی عورت سے نبی ۖ کو نکاح کرنے سے منع فرمایا اگرچہ اس کا حسن بہت بھلا لگے۔ پھر الا ما ملکت یمینک کی اجازت دے دی۔ جس عورت سے آپ کا معاہدہ ہوجائے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے علامہ بدر الدین عینی کے حوالے سے نقل کیا کہ نبی ۖ کی 28ازواج تھیں جن میں اُم ہانی بھی شامل تھیں۔ حالانکہ قرآن کی رو سے نبی ۖ کو نکاح سے منع کیا گیا تھا مگر معاہدہ کی اجازت تھی۔ تو یہ معاہدے والی ہی ہوں گی۔ اسلئے اُمہات المؤمنین میں شامل نہیں تھیں۔ جب اُم ہانی کو اپنے مشرک شوہر کیلئے اتنی بڑی مان تھی کہ اسکے بعد نبی ۖ سے عقیدت رکھنے کے باوجود بھی نکاح کے شرف کو قبول نہیں کیا تو اس سے خواتین کی فطرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پروین شاکر کو شوہر نے بیوفائی کرکے طلاق دی تھی لیکن پھر بھی اس کی وفاداری نے اُردو کی شاعری کو بہت بڑا شرف بخشا ہے۔ عورت کی فطرت سے ناواقف شوہر ہمیشہ بیوفائی بھی کرتے ہیں لیکن ان کو اس کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔ عورت کی اسی فضیلت کو اللہ تعالیٰ نے زبردست انداز میں بیان کیا ہے۔
سورہ النور میں گھروں میں کھانے کے حوالے سے : او ماملکتم مفاتیحہ او صدیقکم ”جن کی چابیوں کے تم مالک ہو یا تمہارے دوستوں کے”۔ ظاہر ہے کہ اس سے غلام و لونڈیاں اور آزاد دوست مراد لینا غلط ہوگا۔ ایک طرف قرآن نے لونڈی اور غلام کی ملکیت کو باطل قرار دیتے ہوئے اس کو ایک معاہدہ قرار دیا ہے چنانچہ لونڈی و غلام دونوں پر اس کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے جس طرح آزاد مردوں اور عورتوں کے درمیان نکاح کے علاوہ آزادی سے ایک معاہدے کی اجازت دی ہے تو اسی معاہدے کی اجازت لونڈی و غلام سے بھی دی ہے۔ جاگیردارانہ نظام تربیت یافتہ لونڈی و غلام فراہم کرتا تھا جب اللہ نے سُود کو حرام قرار دیا تو مزارعت کو بھی نبی ۖ نے سُود قرار دے دیا۔ اگر اس وقت سے اسلام جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیتا تو پھر بادشاہوں کے دربار میں لونڈیوں کے سلسلے بھی نہ ہوتے۔ ہم نے اس پر کافی مرتبہ بہت کچھ دلائل لکھ دئیے ہیں۔
پانچویں پارے کے ابتدائی صفحے میں جو احکام بیان ہوئے ہیں ان میں محصنات اور ماملکت ایمانکم کی زبردست وضاحت ہے۔ صحیح بخاری میں عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ سے صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم خود کو خصی نہ بنالیں؟۔ نبی ۖ نے فرمایا : ایک دو چادر کے بدلے متعہ کرلو۔ لا تحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبات حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے۔ بخاری کی اس روایت میں نبی ۖ نے متعہ کی علت بھی قرآن کی اس آیت سے واضح کی ہے۔ صحیح مسلم میں بھی عبد اللہ ابن مسعود نے اس علت کو اپنی طرف سے بھی واضح فرمایا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں متعہ کے حوالے سے الیٰ اجل مسمیٰ کی اضافی آیت لکھی تھی۔ حالانکہ جلالین کی طرح وہ تفسیر تھی جو حدیث کے مطابق تھی۔ سورہ النساء کی آیت3میں بھی ماملکت ایمانکم سے مراد لونڈیاں نہیں ہیں بلکہ جن لاچار لوگوں کے بس میں ایک بیوی تک بھی پہنچ نہ ہو تو ا سے مجبوری کی حالت میں خصی ہونے کے بجائے وقتی طور پر معاہدے کی اجازت کا معاملہ ہے۔ اگر دنیا کو قرآن کی صحیح سمجھ آئے تو وہ بھی اپنے لئے اس کو راہ ہدایت کا واحد ذریعہ سمجھے۔ اگر کوئی ایسی لڑکیاں ہوں جنہوں نے دوستیوں کے اندر معاہدے کا کردار ادا کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگرتمہیں بیوہ و طلاق شدہ تک بھی نکاح کیلئے میسر نہ ہوں تو پھر ایسی لڑکیوں کو بھی ان کے سرپرستوں کی اجازت سے نکاح میں لاسکتے ہیں لیکن اس وقت پھر اپنے سے ان کو کم تر مت سمجھو اور اللہ تمہارا ایمان جانتا ہے۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو تو پھر عام عورت کے مقابلے میں ان کو آدھی سزا ہے۔ اور اس میں بھی اگر مشکل میں پڑنے کا خوف نہ ہو تو درگزر کرو۔ (سورہ النسائ:آیات24،25)۔اسلام دنیا میں عیاشیوں کیلئے نہیں سرفروشی اور جانسوزی کیلئے آیا ہے۔ لیکن قرآنی آیات کی غلط تفاسیر سے نہ صرف عورت ذات کو اسلام سے متنفر کردیا گیا ہے بلکہ دنیا کے کفار بھی اس سے خطرات کھارہے ہیں۔میں اعلانیہ یہ بات کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں جو بھی نکاح کے نام سے رشتے ہیں ان کی حیثیت نکاح کی نہیں ایگریمنٹ کی ہے جب خلافت قائم ہوگی تو پھر عورتوں کو قرآن کے مطابق نکاح کے شرعی اور قانونی حقوق ملیں گے اور وہ ایگریمنٹ نہیں ہوگا۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

کیا سورہ النساء میں دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح اور لا تعداد لونڈیاں جائز ہیں ؟

کیا سورہ النساء میں دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح اور لا تعداد لونڈیاں جائز ہیں ؟

ایک طویل عرصے تک خلافت راشدہ کے بعد بنو اُمیہ ، بنو عباس کے بعد دنیا پر خلافت عثمانیہ کی حکمرانی قائم رہی ہے جس کا خاتمہ1924کو ہوا اور اب غیر مسلم اس کی احیاء سے خوفزدہ ہیں

جب ہم نے1991میں خلافت علیٰ منہاج النبوة کے قیام کیلئے آواز اٹھائی تھی تو اس وقت دنیا میں مذہبی طبقات کے اندر خلافت کا کوئی تصور نہیں تھاایران اور سعودی مذہبی حکومتیں تھیں۔

خلافت عثمانیہ کا عیاش اور باریش حکمران سلطان عبد الحمید اول جس کی ساڑھے4ہزار لونڈیا ں تھیںاور اس میں ہر رنگ اور ہر نسل کی لڑکیاں شامل تھیں کیا یہ قرآن میں جائز ہوسکتا تھا؟۔

اللہ نے مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے تو کیا زبردستی سے مردوں کو نگاہ نیچے رکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟۔ عورت کو پردے کا حکم ہے مگر اس کو مجبور کرنے کا حکم نہیں ہے

سعد اللہ جان برق نے اپنی کتاب ”دختر کائنات” میں بہت سے حقائق لکھے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ”پارلیمنٹ سے بازار حسن تک” کی کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ سعد اللہ جان برق نے محمد شاہ رنگیلا کی عیاشیوں پر بہت کچھ لکھا ہے اور سلطان عبد الحمید کی بھی ساڑھے 4ہزار لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ حکمران جو کچھ کرتے رہے ہیں اس کے ذمہ دار وہ خود اور اس دور کے حالات ہیں۔ جب سلطان عبد الحمید اول اتنا عیاش تھا تو اس کی سرپرستی میں محمد شاہ رنگیلا نے بھی عیاشی کے علاوہ کیا کرنا تھا؟۔ آج دنیا میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے ہیں۔ سعودی عرب کا جس دن فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کیلئے قدم اٹھا تو شاید مغربی دنیا حرمین شریفین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کی مدد سے صفحہ ہستی سے مٹادے۔ جس کیلئے مسلمانوں کو بہت اکسایا جارہا ہے۔ مسلمانوں نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا تو فلسطین کے دکھ درد پر بھی محض اپنا دل دکھانے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ فلسطینیوں کی بربادی کو دیکھ کر مسلمان اور کچھ نہیں تو اپنا غم بھی بھول جائیں پھر بھی بہت قابل رشک ہوسکتے تھے۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ فلسطینیوں کو بھول کر ہم سیاست اور قوم پرستی و فرقہ پرستی میں الجھے ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار پورا مغرب اور ترقی یافتہ دنیا مسلمانوں کی ایسی دشمن کیوں بنی ہوئی ہے؟۔ اس کا جواب یہی ہے کہ سب سے زیادہ فحش پروگرام دیکھنے کا ریکارڈ مسلمانوں کے حصے میں آرہا ہے اور اگر ان کو بڑی مقدار میں لونڈیوں کی عیاشیاں میسر آئیں تو انہوں نے دہشتگردوںکی مدد سے پوری دنیا کے کفار کی ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو لونڈیاں بنانا ہے۔ اس خوف سے کہ ان جنگلیوں کے ہاتھوں میں اگر ان کی خواتین آگئیں تو اس سے بہتر ہے کہ مسلمانوں کا مرکز کعبہ اور مدینہ نہیں رہیں۔ عیسائی اس بات پر حیران ہیں کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بہت برا اعتقاد رکھتے ہیں لیکن عیسائی طاقتور ہونے کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت المقدس پر اتنا جوش نہیں کھاتے ہیں جتنا وہ مسلمان کھارہے ہیں جنہوں نے اس سے اپنا رُخ پھیر لیا تھا۔ جب ان کا قبلہ بیت المقدس تھا تو ان کا بیت المقدس پر قبضہ نہیں تھا۔ اور جب بیت المقدس سے اپنا رُخ پھیر لیا تو پھر بیت المقدس پر قبضہ کرنا ایسا تھا جیسے یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے قبلے پر اور مراکز پر اپنا قبضہ زبردستی سے جمائیں۔ ان کے نزدیک مسلمان ایک جنونی مخلوق ہیں اور ان کو اخلاق و اقدار کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ دوسروں کیلئے اخلاقیات کے الگ پیمانے ہیں اور اپنے لئے الگ ہیں۔ جب وہ لونڈیوں کے لباس کا شرعی حکم بیان کرتے ہیں تو وہ اتنا مختصر اور گندہ لباس ہوتا ہے کہ مغرب کی عورتیں بھی بہت مشکل سے اپنے ماحول میں اس طرح کا لباس پہن کر شرمندگی سے دوچار ہوتی ہیں۔
ان کے ذہن میں یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب بھی تمہاری خلافت قائم ہو تو ان کو ذلیل کرکے غلام اور لونڈیاں بناؤ جو غیر مسلم ہیں۔ مسلمانوں کی شدید خواہش بھی یہی ہے کہ جس طرح جنت میں ہزاروں حوریں ان کے مقدر میں ہوں گی اسی طرح سے کافر کی عورتوں کو بھی ہزارں کی تعداد میں لونڈیاں بناکر رکھنا ان کا اہم فریضہ ہے، بس چلنے کی بات ہے۔
عورت مارچ والی خواتین سوچتی ہیں کہ اگر مسلمانوں کی خلافت قائم ہوگئی اور ہمیں گھروں میں بند کرکے بازاروں کو اغیار کی لونڈیوں سے سجایا گیا تو دنیا ہمارے لئے جہنم بن جائے گی۔ جب تک قرآن کے ٹھوس دلائل سے مسلمان عوام الناس ، شدت پسندوں، حکمرانوں، سیاستدانوں اور مذہبی طبقات کو مطمئن نہ کیا جائے تو سب ایک ایسی مایوسی کا شکار رہیں گے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
اللہ نے فرمایا : اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر تم نکاح کرو جن عورتوں کو تم چاہو دودو، تین تین، چار چار ۔ پھر اگر ڈرو کہ تم انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی سے نکاح کرو۔ یا پھر جن سے تمہارا معاہدہ ہو۔ یہ اسلئے ہے تاکہ تم کسی ایک طرف نہ جھکو۔ (سورہ النسائ:3)
اس آیت اور اس قسم کی دوسری آیات سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ آزاد عورتیں زیادہ سے زیادہ چار ہوسکتی ہیں جن سے نکاح کیا جائے۔ اور لونڈیوں کی کوئی تعداد نہیں ہے چاہے ہزاروں میں ہوں یا لاکھوں میں۔ لونڈیوں کو اپنی خواہشات کیلئے استعمال میں رکھ سکتے ہیں۔ سلطان عبد الحمید اور دیگر کی طرف سے عیاشی کے بازار اسلئے سجائے گئے تھے کہ ان کو قرآن نے اجازت دی تھی اور علماء و مفتیان نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا تھا۔ جب قرآن کا فتویٰ سامنے آجائے تو پھر کون غلط کہہ سکتا ہے؟۔
آیت شروع ہوئی ہے یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرنے کی وجہ سے اور پھر دو دو، تین تین، چار چار کی اجازت کے بعد انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کی اجازت دی ہے یا پھر جن سے معاہدہ ہو۔ اب اس کی تشریح و تفسیر کا جاننا ضروری ہے کہ جن سے معاہدہ ہو ان سے کیا مراد ہے؟۔ ما ملکت ایمانکم ”جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں”۔ ما موصولہ ملکت فعل ایمان مضاف کم مضاف الیہ ۔ مضاف مضاف الیہ سے مل کر فاعل ۔ فعل اور فاعل مل کر صلہ۔ یہ عربی کی ترکیب ہے۔ جس سے ترجمہ بالکل درست سمجھ میں آئے گا۔ یعنی وہ عورتیں جن کے مالک تمہارے معاہدے ہیں۔ عام طور پر ملکت کا لفظ دیکھ کر یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ اس سے مراد لونڈی ہے۔ حالانکہ جس طرح اس سے لونڈی مراد ہوسکتی ہے اسی طرح سے اس سے غلام بھی مراد ہوتا ہے۔ یہاں پر نہ تو لونڈی مراد ہے اور نہ غلام۔ بلکہ جس عورت کے ساتھ بھی معاہدہ ہوجائے وہی مراد ہے۔
سنی شیعہ احادیث ، تفسیر اور فقہ کی کتابوں میں متعہ کے حلال و حرام ہونے میں بڑی بحثیں ہیں۔ عام لوگوں کو جب تک تفصیلات کا علم نہ ہو تو وہ حقائق سمجھنے میں بہت مغالطہ کھاتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن میں جس طرح آزاد مرد اور آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی کھلے الفاظ میں اجازت ہے اسی طرح سے لونڈی اور غلام کے ساتھ بھی نکاح کی اجازت ہے۔ بلکہ اللہ نے فرمایا ہے: اور نکاح کراؤ جو تم میں سے ایامیٰ (طلاق شدہ و بیوہ) عورتیں ہیں اور اپنے صالح غلاموں کا اور لونڈیوں کا۔ اگر وہ فقراء ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ وسعت والا جاننے والا ہے۔ اور وہ لوگ عفت میں رہیں جو نکاح تک نہ پہنچ پائیں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مستغنی (نکاح کی دولت سے )کردے۔ اور جو تمہارے غلاموں میں سے معاہدہ کرنا چاہتے ہوں تو ان کے ساتھ لکھنے کا معاملہ کرو۔ اگر تم ان میں خیر سمجھتے ہو۔ اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اور اپنی ان لڑکیوں کو بغاوت (یابدکاری) پر مجبور مت کرو جو نکاح کے ذریعے اپنا تحفظ چاہتی ہوں تاکہ اس کی وجہ سے تم دنیاوی وجاہت حاصل کرو اور ان میں سے جن کو مجبور کیا تو اللہ انکے جبر کے بعد غفور رحیم ہے۔ (النور:32،33)
ان آیات میں ایک طرف بیوہ طلاق شدہ ، غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کا ذکر ہے اور دوسری طرف یہ وضاحت بھی ہے کہ اگر یہ فقیر ہیں تو اللہ ان کو امیر بنادے گا۔ پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی نکاح نہیں کرسکتا تو وہ پاکدامنی اختیار کرے یہاں تک کہ اللہ اس کو مستغنی بنادے۔ طلاق شدہ ، بیوہ اور لونڈی سے نکاح کرنا تو سب کو سمجھ میں آتا ہے لیکن غلام کے ساتھ نکاح کا کیا مطلب ہے؟۔ اس کو سمجھنا تھوڑا درکار ہے۔ جب ایک غلام کسی آزاد عورت سے کوئی نکاح کرے گا تو اس کی صورتحال کیا ہوگی؟۔ اس کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ آزاد عورت اس غلام کے ساتھ کوئی لکھت پڑھت کرے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تمہیں ان میں خیر نظر آئے تو یہ لکھت ضرور کرو۔ اور ان پر اپنا مال بھی خرچ کرو۔ یہ ہے غلام سے نکاح کی حقیقت۔ جبکہ کچھ لوگوں نے بلکہ اکثر ترجمہ و تفسیر کرنے والوں نے اس سے مراد مکاتبت لیا ہے۔ مکاتب سے مراد کسی غلام کو آزاد کرنے کیلئے کوئی معاہدہ کرنا ہے۔ حالانکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اپنے کلام میں غلام کی آزادی کیلئے بھی لوگوں سے کہے کہ اگر تمہیں خیر نظر آئے تو پھر ان سے مکاتبت کرو۔ یہ رب جلیل سے کیسے ممکن ہے؟۔ حالانکہ غلام کا آزاد کرنا بھی بہت بڑی نیکی ہے۔ اور مکاتبت کے ذریعے سے اس کو آزاد کرنا اور مشقت میں ڈالنا اللہ کی رحمت سے جوڑ نہیں کھاتا۔ اور پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں بھی اللہ کہے کہ اگر خیر نظر آئے تو پھر مکاتبت کرو؟۔ یہ دراصل نکاح کا موضوع ہے اور نکاح کیلئے کوئی آزاد عورت غلام سے تیار ہوجائے تو بڑا مشکل تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے قرآن کے ترجمے اور تفسیر کو بدلنا بھی درست نہیں ہے۔ یہ ثابت ہوگیا کہ لونڈی و غلام سے اللہ نے نکاح کا حکم دیا ہے تو پھر نکاح کے بغیر لونڈی رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ آیات کے آخری حصے میں لونڈیوں کا ذکر نہیں بلکہ جوان لڑکیوں کا ذکر ہے کیونکہ لونڈیوں کا ذکر تو پہلے ہوچکا ہے۔ اس میں افسوسناک بات یہ ہے کہ اللہ نے جوان لڑکیوں کی ضد پر نکاح کی اجازت دی ہے کہ تم اپنے خاندانی وجاہت کی وجہ سے ان کو مجبور مت کرو کہ وہ کھل کر یا چھپ کر بغاوت کریں۔ بلکہ ان کو جہاں چاہیں نکاح کرنے دیں۔ اور اگر تم نے ان کو مجبور کیا تو پھر ان پر کوئی گناہ نہیں لیکن اس کا یہ مقصد لینا انتہائی غلط ہے کہ لونڈیوں کو اگر زبردستی سے بدکاری پر مجبور کیا گیا تو پھر لونڈیاں گناہگار نہیں ہوں گی۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک نکاح ہے اور دوسرا ایگریمنٹ نکاح میں قانونی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور ایگریمنٹ میں باہمی رضامندی کا معاملہ ہوتا ہے۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 1)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 1)

بیوی شوہر کی ملکیت ہے، اگر عورت خلع لینا چاہے تو پھر شوہر اس سے اس کی منہ مانگی قیمت وصول کرسکتا ہے۔ علماء ومفتیان کایہ گھناؤنا تصور عورت کو جانور سے بھی بدترحالت پر پہنچادیتا ہے

شوہر نے3طلاقیں دیں اور مکر گیااورعورت دوگواہ پیش نہ کرے توپھر عورت ہرقیمت پر خلع لے اور اگرخلع نہ ملے تو حرامکاری پرمجبور ہے پھر جماع سے لذت نہیں اُٹھائے ورنہ گناہگار ہوگی

تھانوی کی کتاب ”حیلہ ناجزہ” سے اور فقہی مسائل

انگریزدور میں مسلمان عورت کا شوہر گم ہوا۔ یہ شرعی حکم تھا کہ وہ حنفی مسلک کے مطابق80سال تک اپنے گم شدہ شوہر کا انتظار کرے۔آخر کار عورت عیسائی بن گئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اس پر حیلہ ناجزہ لکھ دی۔ جس میں عورتوں کو کنجریاں لکھ دیا کہ انتظار نہیں کرسکتی ہیں اسلئے ہم مجبوری میں امام مالک کے مسلک پر فتویٰ دے سکتے ہیں۔ چنانچہ فقہاء نے تصریح کردی ہے کہ اگر مجبوری ہوتو پھر کسی اور مسلک پر بھی فتویٰ دیا جاسکتا ہے۔ امام مالک کے مسلک میں اگر شوہر گم ہوجائے تو عورت4سال کے انتظار اور پھر عدت وفات4ماہ10دن گزرنے کے بعد شادی کرسکتی ہے۔ حیلہ ناجزہ میں یہ بھی لکھ دیا کہ ”اگرشوہر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور پھر مکر گیا تو عورت کو دو گواہ پیش کرنے ہوں گے ۔ اگر عورت کے پاس دو گواہ نہیں ہوئے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی کہ اس نے3طلاقیں نہیں دی ہیں تو پھر وہ عورت اس شوہر کی بیوی رہے گی لیکن اس کے ساتھ جماع حرام کاری ہوگی۔ عورت کو چاہیے کہ اس سے ہر قیمت پر خلع لے اور اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے اور عورت سے جماع کرتا ہے تو شریعت میں وہ اس کی بیوی ہے لیکن اس سے جماع حرامکاری ہے۔ عورت اس سے لذت نہ اٹھائے ورنہ گناہ گار ہوگی”۔
بریلوی مکتب کے ہاں بھی یہ فتویٰ جاری ہورہا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے” فتاویٰ عثمانی”میں ہے کہ ” ایک شخص نے اپنی9،10سالہ بچی کا نکاح ایک شخص سے کردیا لیکن کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس نے شادی نہیں کی ۔ اس نے لڑکے والے سے کہا کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہوگئی ہے اسلئے رخصتی کردو لیکن لڑکے والوں نے نہیں مانا۔ پھر لڑکا5سال تک مفقود الخبر ہوگیا، جس کا پتہ نہیں تھا کہ کہاں ہے؟۔ لڑکی کے باپ نے لڑکی کی طرف سے عدالت میں کیس کردیا۔ جب وہ جج کے بلانے پر بھی نہیں آیا تو آخر کار7مہینے کے بعد جج نے خلع کی ڈگری جاری کردی۔ پھر لڑکی نے ایک اور شخص سے نکاح کرلیا۔ اس کے کئی مہینے گزرنے کے بعد پہلا شوہر پہنچ گیا اور دارالعلوم کراچی سے اس کو یہ فتویٰ مل گیا کہ چونکہ لڑکی کا نکاح اس کے باپ نے کیا تھا تو وہ کسی صورت بھی فسخ نہیں ہوسکتا۔ اسلئے لڑکی بدستور پہلے شوہر کی بیوی ہے اور دوسرے سے اس کا نکاح نہیں ہوا ہے”۔ فتاویٰ عثمانی میں یہ بھی ہے کہ ” ایک آرائیں لڑکی سے ایک شیخ ذات کے شخص نے زبردستی سے ڈرادھمکا کر نکاح کرلیا اور اب اس سے خلع چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں شیخ ذات کو آرائیں کے مقابلے میں کم درجہ سمجھا جاتا ہے”۔ جواب میں فتویٰ دیا گیا کہ ” عجم میں کوئی اونچی ذات نہیں،اب اگر خلع لینا ہے تو لڑکی کے شوہر کی رضاکے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے”۔ فتاوی عثمانی میں متضاد فتوے ہیں۔ کہیں ہے کہ عرف کا اعتبار ہے اور کہیں پر عرف کا اعتبار نہیں ۔ کہیں شیعہ کیساتھ نکاح جائز اور کہیں ہے کہ شیعہ کیساتھ نکاح جائز نہیں ہے۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے فتویٰ دیا کہ ”اگر حلالہ سے بچنے کیلئے غیرت کا مسئلہ ہے تو دوسرے مسلک پر فتویٰ دے سکتے ہیں”۔
مذہب کی تبدیلی پر مرتداور واجب القتل کا فتویٰ لگتا ہے لیکن انگریز دور میں بزدل مولوی یہ رسک نہیں لے سکتے تھے اسلئے مسلک تبدیل کرنے اور گالیاں دینے پر اکتفاء کرلیا۔ جمعیت علماء ہند کے صدر مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ میں غیرت تھی اسلئے غیرت کی بنیاد پر مسلک کی تبدیلی کی اجازت دی ۔
عورت کے حقوق کے علمبرداروں کو چاہیے کہ قرآن وسنت کے ٹھوس مسائل کی روشنی میں عدالتوں سے رجوع کریں اور جاہلیت پر مبنی فتوؤں کی کتابوں کو پیش کرکے جواب طلب کریں۔ عوام کی عدالت سب سے مضبوط عدالت ہے اور پارلیمنٹ میں بھی ان مسائل کو اٹھائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ حکومت کی طرف سے افہام وتفہیم کیساتھ قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی سے جاہلوں کو شکست فاش ہوگی۔

البقرہ:222کی معنوی تحریف سے عورت کو اذیت

” اور تجھ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ وہ ایک اذیت ہے۔ پس حیض کی حالت میں انکے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں ،پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جیسے اللہ نے حکم دیا ہے ۔اللہ پسند کرتا ہے توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں کو”۔
سورہ بقرہ کی اس آیت222میں حیض کا حکم پوچھا گیا ہے۔اس میں دو چیزوں کی وضاحت ہے ایک اذیت جس سے توبہ کی جاتی ہے اور دوسری گندگی جس سے پاکیزہ رہا جاتا ہے۔ عورت کو حیض میں تکلیف ہوتی ہے۔جس میں مقاربت سے منع کیا گیا ہے اور اس میں ناپاکی ہوتی ہے جو بالکل واضح ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے اختراع پردازی کرتے ہوئے کہا کہ صحابہ نے پوچھا کہ یار سول اللہ !ہم توبہ کرنا تو جانتے ہیں۔پاکیزگی کیا ہے۔ فرمایا کہ ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی کا استعمال پاکیزگی ہے۔ حالانکہ یہ آیت کے مفہوم کیساتھ بہت بڑی واضح زیادتی ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے قادیانیوں سے متعلق فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے جب آیت کا حوالہ دیا کہ لااکرہ فی الدین” دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے”۔تو پورے ملک میں بڑا کہرام مچ گیا اور صحافی ہارون الرشید نے بھی اس کو سیاق وسباق پیش کرنے کی بات کردی۔جب پروفیسر احمد رفیق اختر نے مندرجہ بالا آیت کا لیکچر دیا تو ہارون الرشید ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ قرآنی آیات کو بھی سیاسی مفادات اور مذہبی استحصال کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
پروفیسر احمد رفیق اختر نے بتایا کہ5سالوں میں مکہ اور مدینہ میں یہود ونصاریٰ آزادی سے گھوم رہے ہوں گے اور عام مسلمانوں پر وہاں پابندی ہوگی۔ پھر ہم بھی حج وعمرہ نہیں کرسکیںگے۔ لاہور میں سعودی برینڈ پہننے والی عورت کو اگرASPپولیس شہر بانو نقوی نے نہ بچایا ہوتا تو جاہل ہجوم اس کا حشر نشر کردیتا۔ کپڑوں پر عربی میںحلوہ لکھا تھا۔فتاویٰ شامیہ اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ ”سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے” ۔لیکن اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے۔2004میں مفتی تقی عثمانی کا حوالہ شائع کردیا تو اس نے اپنی کتابوں سے نکالنے کا اعلان کیا مگر مفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان نے2008میں اپنی کتاب ” ریزہ الماس” میں فتاوی قاضی خان میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا پھر دفاع کرتے ہوئے شائع کردیا۔ اللہ نے ایک ایک رسم جاہلیت ختم کرتے ہوئے حلالہ کی لعنت کو بھی بیخ وبنیاد سے ختم کیا ہے مگر پھر بھی علماء ومفتیان اپنے مدارس میں حلالہ کی لعنت کے فتوے دیکر عورت کی عزت لوٹتے ہیں۔

قرآن کی وضاحتیں اوراس میں تحریف کی موشگافیاں!

سورہ بقرہ کے جس رکوع کی ابتداء آیت222سے شروع ہے اور اس میں حیض اور اذیت ، توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کی وضاحت ہے۔ اس کی آیات میں تسلسل کیساتھ عورت کو اذیت دینے کے مسائل کی وضاحتیں ہیںلیکن اس میں معنوی تحریف کی گئی ہے۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری اورمفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع وغیرہ کے استاذ مولانا انورشاہ کشمیری نے اپنی ”بخاری کی شرح فیض الباری” میں لکھا ہے کہ ”قرآن کی معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لفظی تحریف بھی انہوں نے کی ہے یا تو مغالطہ سے یا جان بوجھ کر”۔ جس پر فقیہ العصرقاضی عبدالکریم کلاچی نے مفتی فرید مفتی اعظم پاکستان کو خط لکھا کہ ” اس عبارت کو پڑھ کر پیروں سے زمین نکل گئی کہ دوسروں پر قرآن کی تحریف کے فتوے لگانے والوں کے اپنے اکابرین کی کتابوں میں یہ موجود ہے؟۔ عبارت سے کافر بھی مراد نہیں ہوسکتے اسلئے کہ وہ عمداً ایسا کرسکتے ہیں لیکن مغالطہ سے ایسا نہیں کرسکتے”۔ اس کا ایک بہت ہی بے کار جواب مفتی فرید نے دیا ہے جو فتاوی دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہواہے۔ اس عبارت کا حوالہ دئیے بغیر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے جامعہ دارالعلوم کراچی سے ایک فتویٰ لیاہے جس پر کفر کا فتویٰ بھی لگایا گیا ہے۔ مفتی فرید اور علامہ غلام رسول سعیدی درس نظامی میں جو نصاب تعلیم پڑھاتے ہیں اس میں ”اصول فقہ”کے اندر تحریف ہی پڑھائی جارہی ہے۔
وزیرستان کے مشہور بلند ترین پہاڑ کا نام ”پیر غر” ہے۔ غر پشتو میں پہاڑ کو کہتے ہیں۔ پیر سید کو کہتے ہیں۔ وزیرستان کے پہاڑوں کا یہ سردار ہے۔ لیکن اس کا نام بگاڑ کر ”پرے غل” مشہور ہے۔ ماں بچے کو لوریاں دیتے کہتی تھی کہ ”غل شہ خدائے دے مل شہ” ۔(چور بن جاؤ ، خدا تمہارا مدد گار بن جائے)۔ پہاڑ کا نام پیر کی جگہ چور رکھنے سے پہاڑ کو بھی تکلیف ہوگی۔ اسلئے کہ جب اللہ نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اٹھانے سے انکار کردیااور انسان نے اٹھالیا جو بڑا ظالم جاہل تھا۔ آج نااہل لوگ اقتدار کی امانت اٹھانے کے پیچھے مررہے ہیں۔ انسان کا نام بگاڑ نے پر تکلیف ہوتی ہے۔ جیسے مولانا فضل الرحمن کا نام ”ڈیزل” رکھ دیا۔ اس اذیت سے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اللہ نے فرمایا:” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں ”۔ آیت223البقرہ۔ حرث اثاثہ کو بھی کہتے ہیں اور کھیتی کو بھی۔ کسی کو اپنا اثاثہ قرار دینا فخر کی بات ہوتی ہے لیکن کسی کو کھیتی قرار دینے سے اذیت ہوتی ہے اور جب اللہ نے حیض کو بھی اذیت قرار دیا اسلئے کہ حیض کو اذیت قرار دینے سے عورت کو تکلیف نہیں اور گند قرار دینے سے اس کو تکلیف پہنچتی۔ حیض کو قذر، نجس اور وسخ بھی کہا جاسکتا تھا جس کا معنی گند ہے مگر اذی(اذیت) کہہ کرادب کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا ۔ عربی کے کسی لغت میں اس کا معنی گند نہیں ہے ۔
اگر عورت کو خلع کا حق ملتا تو80اور4سال انتظار کی ضرورت نہ پڑتی۔اور نہ وہ علماء ومفتیان کے غلط فتوؤں کے مطابق حرام کاری پر مجبور ہوتی۔ عورت کا اختیار سلب کرکے اس کو اذیتوں سے دوچار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے عورت کو خلع کا اختیار دیا ہے اور پھر مرد کو طلاق کا حق دیا ہے۔ جب عورت سے خلع کا اختیار چھین لیا گیا ہے تو اس میں طاقتور مردوں کیساتھ علماء ومفتیان بھی مکمل طور پر شریک مجرم بن گئے ہیں۔ عورت کا اختیار چھین لینے سے عورت کو جتنی اذیتوں کا سامنا ہے اس کی تمام تفصیلات سورہ بقرہ کی آیت222کے بعد والی آیات میں موجود ہیں۔ پڑھتا جا شرماتا جا۔8عورت مارچ کی عورتوں نے اگر اس طرف توجہ دیدی تونہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیابھر میں عظیم انقلاب آجائے گا۔ انشاء اللہ
سورہ بقرہ آیت222کے بعد223سے231تک2رکوع ہیں ۔صفحہ نمبر2پر ملاحظہ فرمائیں۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ 2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

خطبہ حجة الوداع میں نبی رحمت ۖ نے عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کاواضح حکم فرمایا تھا قرآنی آیات میں عورت کے ٹھوس اختیارات پر مذہبی طبقے نے بالکل سیدھی واردات ڈالی ہے؟

خطبہ حجة الوداع میں نبی رحمت ۖ نے عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کاواضح حکم فرمایا تھا قرآنی آیات میں عورت کے ٹھوس اختیارات پر مذہبی طبقے نے بالکل سیدھی واردات ڈالی ہے؟

عورت کو خلع کا حق اللہ نے دیا، مولوی اسکے منکر ہیں؟

اللہ جل شانہ نے فرمایا: اے ایمان والو!تمہارے لئے حلال نہیں کہ عورتوں کے زبردستی سے مالک بن بیٹھواور ان کو اسلئے مت روکو کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے کہ ان میں سے بعض ان سے واپس لے لومگر جب وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوجائیں اور ان سے اچھا برتاؤ کرواور اگر تمہیں وہ ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر بنادے ۔(النساء : 19)
اس آیت میں زبردست وضاحتیں ہیں جن پر تدبر کرکے اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
1: مسلمانوں کو مخاطب کرکے واضح کردیا ہے کہ ” عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو!”۔
سوال یہ ہے کہ ”ان عورتوں سے کون سی عورتیں مراد ہیں؟”۔ جواب واضح ہے کہ ” عورتوں سے بیویاں مراد ہیں ”۔ اسلئے کہ آیت کے اگلے جملہ میں واضح ہے کہ ” اور ان کو اسلئے جانے سے مت روکو کہ جو تم نے ان کو دیا ہے اس میں بعض واپس لے لو مگر جب وہ فحاشی کا ارتکاب کریں”۔ ظاہر ہے کہ اپنی بیویوں کو ہی چیزیں دینے کی بات ہے ، دوسروں کی بیویوں کو تو کوئی چیزیں نہیں دی جاتی ہیں۔ اور فحاشی کے ارتکاب کی صورت میں اپنی بیویوں کو ہی بعض دی ہوئی چیزوں سے محروم کیا جاسکتا ہے۔
اگرچہ زمانہ جاہلیت میں سوتیلی ماؤں اور بھابیوں پر باپ اور بھائی کے فوت ہونے کے بعد قبضہ کیا جاتا تھا اور ان کو نکاح پر مجبور کیا جاتا تھالیکن یہاں وہ مراد نہیں ہوسکتی ہیں بلکہ اپنی بیویاں ہی مراد ہیں۔
2: جس طرح مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے ،اسی طرح بیوی کو بھی خلع کا حق حاصل ہے ۔ جب بھی عورت شوہر کو چھوڑنا چاہتی ہو توشوہر زبردستی سے اس کا مالک نہیں بن سکتا۔ جو چیزیں شوہر نے اس کو دی ہیں تو ان میں سے بعض وہ چیزیں بھی واپس نہیں لے سکتا جو لے جانے والی ہیں۔ مثلاً کپڑے، گاڑی ، زیورات، نقدی وغیرہ جن کو منقولہ جائیداد کہا جاتا ہے ۔ البتہ غیرمنقولہ جائیداد مثلاً گھر، باغ، زمین ، پلاٹ ، دکان اور فیکٹری وغیرہ سے خلع کی صورت میں عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔
3: خلع پرشوہر کو اللہ نے اچھے برتاؤ کا حکم دیا کہ اگر وہ بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگتی ہو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیربنادے۔ عورت کو زبردستی سے رہنے پر مجبور کیا جائے تو وہ خود بھی زہر کھاسکتی ہے بچوں اور گھروالوں کو بھی کھلاسکتی ہے۔ گھر کا ماحول سکون کی جگہ جہنم رہے گا اور بندے کی عزت بھی خراب ہوسکتی ہے اسلئے بہت سارا خیررکھنے میں شک نہیں ہونا چاہیے۔

بدقسمت عرب اور پشتون بیوی کو قیمتاً خریدتے ہیں

آج پٹھانوں میں جاہلانہ دستور ہے۔ بیوہ وارث کی ملکیت ہے۔ قلعہ سیف اللہ بلوچستان کی جمعیت مولانا فضل الرحمن کے عالم دین نے شرعی مسئلہ مجھ سے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کے بدلے میں بیوی خریدلی اور اس کی رخصتی بھی ہوگئی لیکن وہ بیمار تھا اور عورت کیساتھ جماع کرنے کے قابل نہیں تھا اور اس کا انتقال ہوگیا۔ اب باپ کی بیوہ سے اس کا بیٹا شادی کرسکتا ہے؟۔
عرب جاہلیت میں بیوہ خاوند کے وارثوں کی ملکیت تھی۔ بیٹا باپ کی بیوی سے نکاح بھی کرلیتا تھا جس پر قرآن نے منع کیا کہ لاتنکحوا ما نکح آبائکم من النساء الا ما قد سلف ”نکاح مت کرو،جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کیا مگر جو پہلے گزر چکاہے”۔ جمعیت علماء اسلام کی بلوچستان میں قومی وصوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی ہوتی ہے لیکن وہ جاہلیت کے خلاف قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی کی بات اس وقت کرسکتے ہیں جب معاشرتی بنیاد پر علماء ومفتیان نے منبر ومحراب سے علم بلند کررکھا ہو۔ جب وہ اس جاہلیت میں ملوث ہوں تو پھر قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں شریعت کے مطابق قانون سازی کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟۔
عرب اور پشتون قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ بیگمات کو بہت بھاری قیمت سے خرید تے ہیں اور پھر بکاؤ مال کی طرح اپنی بیگمات کے مالک بھی بن جاتے ہیں۔ عرب امیر ہیں اور بیوہ عورتوں کو یرغمال رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں لیکن پشتون قوم غریب ہے اور بیوہ عورتوں کو بھی ملکیت بنالیتے ہیں۔ جب20،20لاکھ سے غریب لوگ بیویاں خرید لیتے ہوں تو ان کو خلع کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟۔ گزشتہ مہینوں میں افغان طالبان حکومت نے بہت سارے غریب افراد کی مدد کرکے عورتوں کی قیمت ادا کرنے میں اپنا زبردست کردار ادا کیا تھا۔ پنجاب اور ہندوستان کی عورتیں جہیز بھی دیتی ہیں لیکن پھر بھی عورت کو خلع کا حق نہیں ملتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ مذہبی طبقے نے اس کا حق شرعی بنیاد پر غصب کیا ہے۔ آئین پاکستان نے عائلی قوانین میں عورت کو خلع کا حق دیا ہے لیکن مذہبی طبقہ اس کو نہیں مانتا ہے۔ محترمہ مریم نواز مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی سے بات کرکے1973کے آئین کے مطابق پنجاب اسمبلی سے خلع پر قانون سازی کا آغاز کریں۔ جس پر منبر ومحراب اور مدارس کے فتوؤں سے بھی عوام کے اندر زبردست ذہن سازی کی جائے۔

مدارس کے نصاب تعلیم میں خلع کے حوالہ سے غلطیاں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اگرتم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہتے ہو اور ایک کوان میں سے بہت سارا مال دے چکے ہو تو پس اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو۔کیا تم بہتان لگاکر اور صریح گناہ کرکے کچھ واپس لوگے؟۔اور تم کیسے اس سے لے سکتے ہو؟۔جبکہ تم نے ایک دوسرے سے خاص معاملہ کیا ہے۔اور وہ عورتیں تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔ (سورہ النساء آیت20،21)
خلع میں صرف ان دی ہوئی چیزوں کو واپس نہیں لیا جاسکتا، جو لے جانے والی ہیں، منقولہ اشیائ۔ اس کی وضاحت سورہ النساء آیت19میں بھی ہے اور ایک صحابیہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ مجھے اپنے شوہر کے دین اور اخلاقیات سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے لیکن خلع چاہتی ہوں۔ نبی ۖ نے پوچھا : وہ دیا ہوا باغ واپس کرسکتی ہو؟۔ صحابیہ نے کہا : اور بھی بہت کچھ! نبی ۖ نے فرمایا : اور کچھ نہیں۔
طلاق کی صورت میں تمام دی ہوئی چیزیں واپس نہیں لے سکتے۔ منقولہ وغیرمنقولہ اشیائ۔ گھربار، باغ، زمین، پلاٹ ، فیکٹری اور اگرچہ بہت بڑے خزانے بھی دئیے ہوں کچھ بھی واپس نہیں لیا جاسکتا ۔
عیسائیوں کے ہاں مذہبی بنیاد پر طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن اسلام نے خلع اور طلاق کی شرعی اور قانونی حیثیت بالکل واضح کردی تھی۔ عورت صنف نازک کو صرف نمائش کی تتلیاں اسلئے سمجھاجاتا ہے کہ اس کے تمام حقوق غصب کرلئے گئے ہیں۔ قرآن نے حق مہر کی صورت میں عورت کو انشورنس دی ہے۔ اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو بھی آدھا حق مہر عورت کا حق قرار دیا ہے اور حق مہر بھی شوہر پر اس کی وسعت کے مطابق رکھا ہے۔ عورت کی رخصتی کے بعد اگر عورت خوش نہ ہو تو خلع ہے اور خلع میں پورے حق مہر کے علاوہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی ان چیزوں کو بھی واپس نہیں لیا جاسکتا ہے جو لے جانے والی ہیں۔طلاق میں منقولہ وغیر منقولہ کوئی چیز بھی واپس لیناغیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔
قرآن کی یہ وضاحتیں آنکھ کے اندھے کو سمجھ آسکتی ہیں لیکن دل کے اندھے کو سمجھ نہیں آسکتی ہیں ۔ اللہ نے فرمایا:”اور بستیوں میں سے ہم نے کتنی برباد کردیں اور وہ ظالم تھیں، پس وہ اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھیں اور کتنے کنویں ویران تھے اور محل اجڑ ے تھے ۔کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی ؟ تو ان کیلئے دل بن جاتے جس سے وہ سمجھتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں۔پس بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں”۔ (سورہ الحج آیت :45،46)

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ 2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv