پوسٹ تلاش کریں

شہباز شریف کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ محترم آصف زرداری سے ملاقات کریں۔

شہباز شریف کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ محترم آصف زرداری سے ملاقات کریں۔
بہت اچھا ہوتا بہت خوشی کی بات ہوتی کہ ہمیں پورا مینڈیٹ ملتا اور ہم اکثریت پارٹی بنتے اور گورنمنٹ بناتے۔ ایسا بھی ہوتا تو باقی اپنے اتحادی پارٹیوں کو بھی دعوت دیتے کہ آپ بھی حکومت میں ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں۔ اور آپ ہمارے ساتھ چلیں لیکن آج ہمارے پاس اتنی میجارٹی نہیں کہ ہم اپنے طور پر حکومت بناسکیں اسلئے ہم اپنی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ جو کہ اس سلیکشن کے اندر کامیاب ہوئی ہیں ہم ضرور بہ ضرور ان کو دعوت دیں گے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ شراکت کریں ہم ملکر حکومت بنائیں۔ اور ملکر پاکستان کو مشکلات سے نکالیں۔ یہ جو میں آپ کو حل بتارہا ہوں ناں کیا آپ اس حل کو منظور کرتے ہیں؟۔ میں نے شہباز شریف صاحب کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ آج ہی محترم آصف زرداری سے ملاقات کریںمحترم مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کریں…

تبصرہ اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار

بشریٰ انصاری نے کہا ہے کہ باقی تو جو کچھ بھی الیکشن میں ہوتا ہے مگر دو ماؤں کو محروم کرکے اچھا نہیں ہوا ہے۔ ایک عثمان ڈار کی والدہ اور دوسری ڈاکٹر یاسمین راشد جو جیل میں تھیں اور کینسر کی مریض بھی ہیں۔ جب وہ مشکل حالات کے باوجود بھاری اکثریت سے جیت رہی تھیں تو ان کو جیتنے دیتے۔ نواز شریف کی اپنی سیٹ بھی یاسمین راشد کی وجہ سے خطرے میں تھی اسلئے خود وزیر اعظم بننے کو تیار نہ ہوا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن پاک کی عظمت

قرآن پاک کی عظمت
قرآن پاک کی عظمت اور طاقت ویڈیو میں دیکھیں۔ شاہ عبد العزیز فرزند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے حوالے سے مولانا قاری اکرام الحق پشتو اور اردو زبان کے ملے جلے الفاظ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک پادری نے شاہ عبد العزیز سے کہا کہ تمہاری مسجد خستہ حال ہے ، ہمارا گرجا عالیشان ہے مندر اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں بھی عالیشان ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تمہارا خدا اور مذہب جھوٹا ہے ۔ شاہ عبد العزیز نے کہا کہ اس کا جواب میں لوگوں کے مجمع میں دوں گا۔ ہزاروں لاکھوں لوگ مختلف مذاہب کے جمع ہوگئے تو شاہ عبد العزیز نے آیت پڑھی کہ اگر اس قرآن کو ہم پہاڑوں پر نازل کرتے تو وہ خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتے ، آیت کا پڑھنا تھا کہ پادری کا گرجا ٹکڑے ٹکڑے ہوکر زمین پر گرا۔ باقی لوگوں نے ہاتھ جوڑے کہ خدا کیلئے بس کرو۔ شاہ عبد العزیز نے کہا کہ اتنے عرصے سے ہماری مسجد قرآن کی طاقت کو برداشت کررہی ہے جبکہ تمہارا گرجا برداشت نہ کرسکا۔ قاری صاحب نے ہندوستان اور لندن وغیرہ کے چکر بھی لگائے ہیں اور کہا کہ یہ واقعہ تاریخ میں موجود ہے آدھا مجمع مسلمان ہوگیا جس میں لاکھوں لوگ تھے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امریکہ کی نصاب کتاب میں شیخ الاسلام کی خدمات کا بیان

امریکہ کی نصاب کتاب میں شیخ الاسلام کی خدمات کا بیان

ڈاکٹر طاہر القادری نے ویڈیو کلپ میں کہا کہ یہ کتاب امریکہ میں چھپی ہے جسکا نامTHINK WORLD RELEGION۔ رابسن مصنف ہے۔2011میں چھپی ہے۔ فلا ڈلفیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں جنہوں نے لکھی ہے۔ اور امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیز، کالجز اور اسکولز میں شامل نصاب ہے۔ اس میں کرسچین ٹی ، جودھا ازم، ہندو ازم ، بدھا ازم اور اسلام پر ایک ایک چیپٹر ہے۔ ان کو ہائی لائٹ کیا ہے۔ جب اسلام پر آئے ہیں حضور علیہ الصلوة و السلام کی بعثت سے لے کر موجودہ صدی تک جس طرح ہر مذہب کو پڑھایا انہوں نے تو ہر مذہب کی ڈسکرپشن دی۔ اینڈ کرکے وہ لکھتے ہیں ایک ورژن اسلام کا امت کے سامنے وہ ہے جس کے بانی اسامہ بن لادن ہیں۔ ایک ورژن اسلام کا امت کے سامنے اس موجودہ صدی کا وہ ہے جو طاہر القادری نے دیاہے۔ (ڈاکٹر طاہر القادری نے5سو صفحات کی کتاب خوارج پر لکھی ہے جس میں وہابیت اور دہشت گردی کو جوڑا گیا ہے۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید

جامعة الرشید کے مفتی رشید نے کہا :ہمارے ہاں الیکشن کے بعد جس طرح کی سیاسی گہما گہمی چل رہی ہے اور جس طرح کی چیزیں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں ساری پاکستانی قوم حیرت میں کہ ہو کیا رہا ہے؟ مولانا فضل الرحمن ایک عرصے تک طویل عرصے تک جے یو آئی کے حضرات عمران خان کو یہودی ایجنٹ ہے پتہ نہیں کیا کیا کہتے رہے ؟ہم سنتے سنتے رہے، ساری دنیا جانتی ہے ۔مولانا طارق جمیل تھوڑا قریب ہوئے تو ان کو ایک طرح سے نشان عبرت بنا دیاکہ یہ یہودی ایجنٹ کے کیسے قریب ہو گیا؟۔ اب جب گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کی تو جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بھئی ہمارا ان سے جسموں کا اختلاف نہیں، دماغوں کا اختلاف ہے۔ تو اسلئے وہ بھی ٹھیک ہو جائیگا۔ پھر پی ٹی آئی کا وفد بھی گیا وہاں ان سے ملاقات بھی کی۔ وہ جو ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت انگیز تقریریں تھیں کہ وہ ان کو یہودی ایجنٹ اور یہ ان کو ڈیزل اور جو بیہودہ القابات عمران خان کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو جو دیئے جا رہے ہوتے تھے پھرPTIکے کارکنJUIکے خلافJUIکے کارکنPTIکے خلاف جس طریقے کے الزامات ایک دوسرے پہ لگاتے تھے بیٹا باپ سے لڑا ،باپ بیٹے سے لڑا بھائی بھائی سے لڑا دوست دوست سے لڑا گھر ٹوٹے پتہ نہیں کتنی لڑائیاں کتنے پھڈے اسی ڈیزل اور جناب یہودی ایجنٹ کے چکر میں لوگ لڑتے رہے آج انکے لیڈر آپس میں مل رہے ہیں تو یہ جو کارکن ہیں یا جو لوگ ایک لیڈر کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملا کے دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے یا اس طرف والے زمین و آسمان کی قلابیں ملا کے اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے انکی اس وقت کیا پوزیشن ہے یہ کہاں کھڑے ہیں؟ جو بیٹا اپنے باپ سے لڑتا رہا5 سال تک کہ بھئی آپJUIکو کیوں سپورٹ کرتے ہیں یا جنابJUIکا جو ورکر تھا وہ اپنے باپ سے لڑتا رہا کہ آپPTIکے جلسوں میں کیوں جاتے ہیں یاPTIوالوں سے کیوں ملتے ہیں؟ اب جب یہPTIاورJUIوالے مل رہے ہیں تو آپ کہاں پہ کھڑے ہیں؟۔ روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ جس سے محبت کرنی ہے تو اعتدال میں رہ کے محبت کرو ہو سکتا ہے کل دشمنی ہو جائے، جس سے دشمنی کرنی ہے تو دشمنی بھی اعتدال میں رہ کے کرو ہو سکتا ہے کل دوستی ہو جائے۔ کہتے ہیں نا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا سیاستد ان کسی بھی وقت یوٹرن لے لے گا آپ اس کی شکل تکتے رہ جائیں گے یہ کیا کر دیا اسنے ہمیں کیا پٹی پڑھائی تھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا تھا خود کیاکیا؟۔ تو پاکستانی سیاست میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اسلئے بار بار ہم یہ گزارش کرتے ہیں اب ہو سکتا ہے یہ کلپ میں ریکارڈ کروا رہا ہوں تو یہ بھی کسی کو برا لگے کسی کو برا لگتا ہے تو ہماری بلا سے جس چیز کو ہم سمجھتے ہیں جو ٹھیک ہے وہ آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں بھائی آپPTIمیں ہیں نا آپPTIکے رہیں آپ عمران خان کو ووٹ دیتے ہیں دیتے رہیں قیامت تک، آپJUIکے ہیں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں دیتے رہیں لیکن ایکدوسرے کے خلاف اتنے گھناؤنے اتنے گھٹیا الزامات ایکدوسرے پر لگانا۔ پتہ نہیں چوری اور کرپشن کے اور ڈیزل چوری کے کوئی چیز کبھی کسی پہ ایک دوسرے پہ کوئی ثابت نہیں کر سکا نہ یہ اس پر نہیں اس پارٹی والے اس پارٹی والے پر تو یہ جو ہم تہمت لگاتے ہیں الزام لگاتے ہیں گالیاں دیتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں غیبت کرتے ہیں کیا یہ سب قیامت کے دن معاف ہو جائے گا اللہ ہم سے پوچھے گا نہیں؟۔ یہ بھی مسلمان وہ بھی مسلمان یہ اس پہ الزام لگا رہا ہے وہ اس پہ الزام لگا رہا ہے کیا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے تو اس طریقے سے سیاست کی وجہ سے اپنے تعلقات خراب کرنا ایک دوسرے سے لڑنا یہ بہت بیوقوفی کی بات ہے پھر لوگ اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں سیاست دانوں کیلئے جان دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے مظاہرے میں نکلیں گے احتجاج میں نکلیں گے تو سیاست دان کے نام پہ وہ کہتے ہیں میری جان جاتی ہے تو جائے اسلئے کہ سیاستدان نے اس کو یہ پٹی پڑھائی ہوئی ہے کہ یہ آپ شہید ہو جائیں گے اور آپ نظریے کیلئے لڑ رہے ہیں آپ ملک کیلئے لڑ رہے ہیں آپ فلاں کیلئے لڑ رہے ہیں بھائی جب نظرئیے کیلئے آپ لڑ رہے ہیں جس نظرئیے کیلئے آپ لڑ رہے ہیں کل آپ اس سے یوٹرن لے لیتے ہیں وہ جو بندہ مر گیا اس احتجاج کے چکر میں وہ اس کا کیا بنے گا اس کے گھر والوں کا بچوں کا کیا بنے گا؟۔ سیاسی لیڈر تو ایک دفعہ آئے گا دعا کرے گا تصویر کھنچوائے گا چلا جائے گا رُلیں گے تو اس کے بچے رلے گی تو اس کی بیوہ اس کے ماں باپ ساری زندگی خون کے آنسو روتے رہیں گے سیاستدان کو بعد میں کیا پتہ چلے گا کہ کون میرے لیے مرا تھا کون جیا تھا ؟۔تو یہ جو ہمارے ہاں سیاست دانوں کے چکر میں ہم ایک دوسرے کے دشمن بنتے ہیں خدا کیلئے یہ دشمنیاں نہ کریں کل آپ ٹینشن میں ہوں گے۔ سیاستدان یو ٹرن لے کے کسی اور پوزیشن پہ کھڑا ہوگا آپ کو سمجھ میں نہیں آرہی ہوگی تو یہ ایک بہت اہم میسج ہے جو ہمیں سارے پس منظر سے سیکھنے کو ملتا ہے سمجھنے کو ملتا ہے۔ اگر آسان جملوں میں میں کہوں تو سیاستدانوں کو اتنی ویلیو دیں جتنی ویلیو وہ آپ کو دیتے ہیںاتنی ویلیو آپ ان کو دیں۔ اس سے زیادہ کی ویلیو اگر ان کو دیں گے تو پچھتائیں گے ٹینشن میں آئیں گے آپ کے گھر والے پریشان ہوں گے۔ اور اعتدال اور بیلنس کے ساتھ چلیں گے تو انشاء اللہ امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
تبصرہ نوشتۂ دیوار:عتیق گیلانی
مفتی رشیدکا تعلق جامعة الرشید کراچی سے ہے ۔ مفتی عبدالرحیم کا شاگرد ہو گا جو مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا ایک سلسلہ خبیثہ ہے۔پچھلے شمارے میں دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں اور کپوتوں کا ذکر کیا تھا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے مجھ سے خود فرمایا کہ ” حاجی محمد عثمان کے فتوؤں کے پیچھے مفتی رشید خبیث ہے”۔ مولانا یوسف لدھیانوی اپنے داماد اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ حاجی عثمان کی قبر پر بھی حاضری دینے گئے تھے۔مفتی منیر احمد اخون جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں میرا کلاس فیلو تھا۔ جو ابھی مفتی اعظم امریکہ کے نام سے یوٹیوب چینل پر ہوتے ہیں اور مولانا یوسف لدھیانوی کے داماد بھی ہیں۔ جب مولانا فضل الرحمن اور عمران خان میں بہت سخت محاذ آرائی کا بازار گرم تھا تو مفتی منیر احمد اخون نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش مولانا فضل الرحمن اور عمران خان آپس میں مل جاتے تو بہت بڑا انقلاب پاکستان میں آسکتا ہے۔ یوٹیوب پر مفتی اعظم امریکہ کا بیان دیکھ سکتے ہیں۔ شیخ الحدیث مفتی زر ولی خان نے بھی اپنی زندگی میں اس بات کا کھل کر اظہار کیا تھا کہ ”میں عمران خان کو مولانا فضل الرحمن کے پاس لاؤں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں بہت اچھے ہیں ۔ان کی دوستی کرانی چاہیے”۔ ہم نے بھی لکھا تھا کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کو ایک ساتھ ہونا چاہیے ۔
لوگ سمجھتے ہوں گے کہ مفتی رشید نے بہت زبردست بات کی ہے ،اس پر اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔حضرت علی نے خوارج کے بارے میں فرمایا تھا کہ ” وہ بات صحیح کررہے ہیں لیکن صحیح بات سے باطل مراد لیتے ہیں”۔ یہ مفتی رشید کی بات درست ہے لیکن وہ اس سے باطل مراد لیتا ہے۔ذوالخویصرہ کی روحانی اولاد اور دارالعلوم دیوبند کے کپوت کو صحیح وقت پر سمجھانا پڑے گا کہ تم بکواس کررہے ہو۔ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان اختلاف کی نوعیت مذہبی نہیں سیاسی تھی۔ ایک دوسرے کے افراد کو قتل کرنے سے لیکر پتہ نہیں کیا کیا نہیں بولا ہوگا؟۔ مگر جب حضرت حسن نے صلح کی تو رسول اللہ ۖ نے یہ بشارت دی تھی کہ” میرا یہ بیٹا سید ہے اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں اللہ صلح کرائے گا”۔شیعہ سنی سب مسلمانوں کے نزدیک حضرت حسن کے اس کردار کو سراہا گیا ہے ۔لیکن خوارج جو ذوالخویصرہ کا گروہ تھا۔ اس نے اس سیاسی اتحاد کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگیا۔ جب حضرت عثمان کی شہادت ہوئی تھی تو شدت پسند مسلمانوں کے طرزِ عمل کی تفریق تاریخ کی نذر ہوگئی ہے۔ حضرت حسن و حضرت حسین نے حضرت عثمان کے بچانے میں اپنا کردار ادا کیا جبکہ دوسرے بھائی محمد بن ابی بکرنے سب سے پہلے حضرت عثمان کی سفید داڑھی میں ہاتھ ڈالا تھا۔وہ بیٹا تو حضرت ابوبکر کا ہی تھا مگر اس کی ماں پہلے حضرت علی کے بھائی کے نکاح میں تھی۔پھر حضرت ابوبکر کی بیوہ بن گئی تو حضرت علی نے نکاح کیا۔ اور محمد بن ابی بکرکی تربیت بھی حضرت علی نے ہی کی تھی۔ ایک گھر کے افراد اور بھائیوں میں کتنا اختلاف تھا؟۔ ایک نے حضرت عثمان کی داڑھی میں ہاتھ ڈا الا اور دوسرے آپ کو بچارہے تھے؟۔ اس سے زیادہ سیاسی اختلاف تو عمران خان اور مولانا فضل الرحمن پر بھی باپ بیٹے کا نہیں ہوا ہوگا؟۔ میرے دوست ناصر علی محسودPTIکو سپورٹ کرتے تھے اور اس کا بیٹاJUIکو سپورٹ کرتا تھا۔ میرا ایک بھتیجاPTIکو سپورٹ کرتا تھا اور دوسراJUIکو۔ میں نے خود شناختی کارڈ کو تصویر کی وجہ سے ضائع کیا تھا مگر پھرJUIکو سپورٹ دینے کیلئے شناختی کارڈ بنایا تھا تاکہ ووٹ دے سکوں۔ جب میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی میرے ہاں تشریف لائے تھے توPTIکے صوبائی امیدوار ایوب بیٹنی سے کہاتھا کہ”تم یہود ی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہو؟”۔ مگر میں نے جنرل صاحب سے کہا کہ ٹانک میں مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علماء اسلام کی مرکزی جامع مسجد سپین جماعت مولانا فتح خان کیPTIکا دفتر تھا جس میںMPAکا امیدوارPTIاورMNAکے امیدوار مولانا فضل الرحمن تھے۔ جس پر جنرل ظہیرالاسلام کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ لاڑکانہ میںPTIکیساتھ ہی مولانا راشد محمود سومرو کا اتحاد پیپلزپارٹی کے مقابلے میں تھا۔ سیاسی اختلافات اور اس میں احترام کا رشتہ تو صحابہ کرام سے چلا آرہاہے جس میں شدت بھی کبھی کبھی آجاتی ہے۔PTIکے معروف صحافی عمران ریاض خان نے لکھا تھا کہ ”اسرائیل کے یہود سے قادیانیوں کے بڑے مراسم ہیں”۔پھر الزام لگایا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں”۔ حالانکہ میاں افتخار حسین کیساتھ جب مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کی تھی تو مولانا نے اسرائیل کے خلاف ہی نہیں دوبئی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ عمران ریاض نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے معافی مانگ لی تو مولانا فضل الرحمن سے بھی مانگ لے گا۔ حامد میر نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پروگرام جنرل باجوہ کا تھا۔ جبکہPTIہی کی رکن اسمبلی خاتون نے یہودیوں کے حق میں تقریر کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی جنرل باجوہ کے وقت بریفنگ دی گئی تھی کہ مساجد میں پیسہ آئے گا اور یہ بھی بتایا ہوگا کہ عمران خان اسرائیل کا ایجنٹ ہے ۔ اگر دونوں کے درمیان غلط فہمی دور ہوجاتی ہے۔ تو اس کا بھی پتہ چلے گا کہ جو ان کو لڑارہے تھے۔
مفتی رشید کی دم پھر کسی نے ہلائی ہوگی یا اپنے شجرہ خبیثہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی فطرت سے مجبور ہوگا؟۔ یہودی ایجنٹ اور مولانا ڈیزل کے الزام کا معاملہ نیا نہیں ہے ۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف بھی ایک دوسرے پر اسرائیل اور امریکہ کے ایجنٹ کا الزام لگاتے تھے۔ کفر کے فتوے اور سودی نظام کو اسلامی کہنا زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ مفتی طارق مسعود و مفتی عبدالرحیم پہلے مجاہدین کو سپورٹ کرتے تھے پھر ان پر وعید کی احادیث فٹ کرنے لگے کہ یہ دہشت گرد ہیں؟۔ اس کا کیا بنے گا مفتی رشید لدھیانوی کالیا کے شاگردواور مریدو!،؟۔شیعہ پر کفر کے فتوے اور واپس لینے کا کیا بنا؟۔ حاجی عثمان کے عقیدتمندوںکی بڑی دنیا ہے جس میں دارالعلوم کراچی کے مولانا اشفاق قاسمی فاضل دارالعلوم دیوبندبھی شامل تھے۔ جن کے نکاح کے بارے میں لکھ دیا کہ اس کا انجام کیا ہوگا عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا۔ جس دن ان ذوالخویصرہ کی اولاد کا ادراک ہوگیا تو پھر امت مسلمہ میں کفر کے فتوے ،نفرت ، شدت پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

میری کوئی نیکی نماز روزہ زکوٰة قبول نہیں ہوئی کہا گیا جمعیت کا کارکن ہے اس کے بدلے تجھے جنت دی جاتی ہے۔ کشف

میری کوئی نیکی نماز روزہ زکوٰة قبول نہیں ہوئی کہا گیا جمعیت کا کارکن ہے اس کے بدلے تجھے جنت دی جاتی ہے۔ کشف

علامہ سید طیب الرحمن زیدی نے کہا:8فروری آ رہی ہے ایکMNAاعلان کر رہا ہے کہ اللہ کے بعد اگر کوئی ہستی ہے اس کا نام نواز شریف ہے۔ ساتھ دو گے؟۔ میں نےMNAکا ٹکٹ نہیں لیا،کہیں میرا ساتھ دینے لگ جاؤ ۔میرا یہ نظام ہی نہیں، یہ کافروں کا نظام ہے ہمارا یہ نظام نہیں ہے۔ علماء تاویل کر کے کہتے ہیں چلو اسکے ذریعے سے اسلام لاؤ۔ ٹھیک بڑے ہیں وہ جو چاہے کریں لیکن مجھے ایک سوال کا جواب دو یہ کفر ہے کہ نہیں کہ رب کے بعد اگر کوئی ہستی ہے تو نواز شریف؟۔ رب کے بعد اگر کوئی ہستی ہے تو وہ محمد رسول اللہ ،اسکے بعدکوئی ہستی ہے تو وہ ابوبکر صدیق اس کے بعد عمر فاروق اس کے بعد عثمان غنی اس کے بعد علی رضی اللہ تعالی عنہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔ان ظالموں کو رب کے بعد وہ نظر آ ئے میری اس سے کوئیMNAبننے کی لڑائی نہیں نہ میں اس کی فیکٹری میں منیجر ہوں ایم ڈی نہیں میں وہاں پر جی ایم نہیں ۔مجھے بڑا دکھ ہے اللہ! زمین تیری، کھاتے تیرا ، اور نبیوں سے بھی اوپر کر دیا ؟۔ اگر اسی پر رب پکڑ لے تو اللہ کی قسم نہ آ سمان رہے نہ زمین رہے۔ ہائے ہائے ایک اور اٹھا ہے میں نام نہیں لوں گا سیاسی جماعتوں کا، مجھے کیا ضرورت ہے نون ہے کوئیTیا کوئیPیا کوئیCہے میری کیا ضرورت ہے جو بھی ہے جو بھی ہیں جہاں بھی ہیں میرا سوال یہ ہے کہ نبی کی نبوت پر ڈاکہ ڈالے گا اہل حدیث کا یہ فرض ہے سینہ تان کر کھڑا ہوگا انشااللہ ساتھ دو گے؟۔ انشااللہ ایک اور اٹھا وہ بھی مولوی ہے اور یہ بھی مولوی تھا داڑھی والا مولوی سے معنی داڑھی والا صوفی صاحب ایک اور کہنے لگا کہا ایک عالم فوت ہو گئے دوسرے نے اسکے قبر پر جا کر کشف سمجھتے ہو شیخ کشف مراقبہ ہائے ہائے مراقبہ اور مراقبہ کر کے اندر سے پوچھ رہا ہے ہاں جی کے بڑا؟۔کیا ہوا اندر والا کہہ رہا ہے میری کوئی نماز کوئی روزہ کوئی زکو ةکوئی نیکی میری قبول نہیں ہوئی پھر کہا بس ایک کاغذ پہ لکھا ہوا تھا تو جمعیت علماء اسلام کا کارکن ہے اس کے بدلے تجھے جنت دی جاتی ہے ۔ہائے ہائے اور میرے پیغمبر نے کہا تھا من قال لا الہ الا اللہ دخل الجنة۔

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا بیان

چند اکابر علماء کے علاوہ بہت سوںنے شاید پڑھی اور سنی نہ ہو امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں ابو ہریرہ و حیدہ راوی ہیں، حسن بصری اور ابن سیرین نے مرسلاً روایت کی ہے میری حدیث کی اولیاء کی شان میں کتاب ”روضة السالکین” میں نے ابواب جمع کیے اس میں ”احسن الثناء فی اثبات شفائ” جمع کی۔ حدیث کی کتابوں میں ہے کہ تین دن گزرے آقا علیہ السلام نماز پڑھانے کیلئے تشریف لاتے۔ فجر ظہر عصر مغرب عشاء واپس چلے جاتے صحابہ کی مجلس میں نہ بیٹھتے۔ تین دن صحابہ کو مجلس نہیں ملی تین دن کے بعد صحابہ کرام پریشان ہوئے پوچھا یا رسول اللہ تین دن سے نگاہیں دید کو ترس گئی ہیں آپ نماز پڑھا کے چپکے سے چلے جاتے رہے اور بیٹھ نہیں رہے کیا ماجرہ تھا؟آقا علیہ السلام نے فرمایا میرے رب نے مجھ سے ایک وعدہ کیا کہ میرے محبوب تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تیری امت میں70ہزار لوگ ایسے پیدا کر دوں گا جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ تو میں نے اللہ تعالی سے مانگا کہ یہ تھوڑا ہے زیادہ کر تو میں تین دن عرض کرتا رہا اور زیادہ کر اللہ نے پہلے دن زیادہ کر دیا فرمایا ان70ہزار آدمیوں میں ہر ہزار ایسا ہوگا کہ اپنے ساتھ70،70ہزار بغیر حساب و کتاب کو شفاعت کر کے لے جائے گا۔ سبحان اللہ سبحان اللہ جب یہ اللہ نے یہ وعدہ کر دیا اور عرض کیا مولا فزد تو یہ بھی تھوڑا ہے اور بڑھا یہ تو ہزار اگر70ہزار کو لے جائے تو میری امت کے ایک ولی کے حصے میں70آدمی آئیں گے ناں! تو یہ تھوڑا ہے اور کر تین دن میں لجاجت کرتا رہا التجا کرتا رہا میرا رب لاڈ میں میری التجا سنتا رہا تین دن گزرے آج وعدہ مکمل ہوا میرے رب نے کہا میرے محبوب جا ان میں سے ہر ایک کو یہ شان دیتا ہوں کہ قیامت کے دن خود تو جائے گا ہی ایک ولی ان میں سے ایسا ہوگا کہ بغیر حساب و کتاب کے70،70ہزار لوگوں کو جنت میں لے جائیگا۔ سبحان اللہ بغیر حساب و کتاب کے۔ وہ جو حساب و کتاب کے بعد شفاعت سے جائیں گے وہ لاکھوں کروڑوں الگ ہوں گے جو حساب و کتاب کے بعد جائیں گے جو دوزخ میں پھینک دئیے جانے کے بعد اولیاء کی شفاعت سے نکالے جائیں گے، جنت میں جائیں گے وہ لاکھوں کروڑوں پھر الگ ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں کہ حساب کتاب سے بھی پہلے بغیر حساب و کتاب کے ان میں سے ایک ایک ولی شان کا ہوگا حکم ہوگا70،70ہزار ترازو بعد میں لگے گی ،نامہ اعمال بعد میں تلے گا تو اپنے70ہزار لے کر جا۔ آقا علیہ السلام کو فرمایا کہ70ہزار اور دوسرے راوی کہتے ہیں کہ شاید فرمایاکہ7لاکھ صحیح مسلم کی صحیح حدیث ہے شاید فرمایا7لاکھ ایسے ہوں گے یہ جو سلاسل ہیں اولیاء کے بعض لوگوں کے فہم میں اولیاء کے سلاسل طریقت سمجھ نہیں آتے، ان کے خانوادے انکے سوا، انکے فیوضات ،ان کی کڑیاں سمجھ نہیں آتیں۔ میں بتاؤں کہ یہ کڑیاں اللہ نے اور اس کے محبوب مصطفی نے قائم کی اور بخاری و مسلم میں آئی ہیں یہ سلسلے آقا نے فرمایا صحیح مسلم کی حدیث ہے صحیح70ہزار یا7لاکھ لوگ ایسے ہوں گے انکے چہرے چوھدویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے کہ بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جانے والے۔ انہیں حکم ہوگا اپنے متوسلین کو جنت میں لے جا آقا علیہ السلام نے فرمایا مسلم شریف میں حدیث ہے کہ پہلا شخص جو ولی کامل ہوگا جو امام ولایت ہوگا جو امام سلسلہ ہوگا جو سربراہ ہوگا پہلا شخص آقا نے فرمایا جنت کے دروازے پر کھڑا رہے گا جنت میں نہیں جائے گا جب تک وہ70ہزاریا7لاکھ جو جو ادب جس کو ایڈوکیشن ہوگی آخری آدمی جب تک اس سے محبت کرنے والے چاہنے کا حقدار جب تک آخری جنت میں داخل نہ ہو۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم

قال رسول اللہ ۖ لا یزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتیٰ تقوم الساعة
سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ (صحیح مسلم حدیث4843کتاب الامارة)

محترم قارئین ، علماء کرام ، مفتیان عظام، سیاسی قائدین، مجاہدین، صحافی ، دانشور اور عوام الناس!السلام علیکم ورحمة اللہ
رسول اللہ ۖ کی اس حدیث کے بارے میں کم از کم کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ من گھڑت ہے۔ کوئی ایسے قرائن نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ ان مقاصد کیلئے کسی راوی نے یہ حدیث گھڑی ۔ اہل غرب میں روس، یورپ، امریکہ اور مغربی ممالک ہیں ۔ یہ تو تاریخ نے دیکھ لیا کہ کبھی فرانس اور برطانیہ کی کالونیاں دنیا بھر میں ہوا کرتی تھیں۔ پھر روس اور امریکہ نے دو سپر طاقتوں کی شکل اختیار کی۔ سقوط بغداد سے بنو عباس کی خلافت کا خاتمہ ہوا اور پھر چنگیز خان اور ہلاکو خان کی بربریت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو ایمان سے سرفراز فرمایا اور شاعر نے یہ گایا
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
حماس نے ایک حملہ اسرائیل پر کردیا اور آج بچوں خواتین اور انسانوں کی لاشیں روز سوشل میڈیا پر دل جلانے کیلئے موجود ہیں۔ بیت المقدس پر تو یہود کا قبضہ ہوگیا ہے اور غزہ کی پٹی دور کی مسافت پر ہے۔ جب امریکہ نے افغانستان اور عراق میں بڑی تباہی مچائی تو لیبیا کے لوگوں نے خود ہی کرنل قذافی کو بہت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔ آج غیر ملکی طاقتیں بلکہ مغرب جب افغانستان ، ایران، پاکستان اور سعودی عرب کسی بھی ملک پر بمباری کرکے حکمرانوں کو تباہ کردیں تو اغیار سے زیادہ ہماری اپنی مسلم عوام سے اپنے اپنے حکمرانوں کو یلغار کا زیادہ خطرہ ہوگا اور پھر بھی ہم ایک لمحے کیلئے یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اجتماعی بقاء کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔ جبکہ اہل غرب ہماری طرح بے چینی اور بے سکونی کے ساتھ نہیں رہ رہے ہیں۔ ہماری کیفیت تو قرآن ، حدیث، علماء و مشائخ اور مذہبی طبقات کی وجہ سے ایسی بن گئی ہے کہ اگر کہیں بھول کر بھی شوہر کے منہ سے 3طلاق کے الفاظ نکل گئے تو حلالہ کی لعنت کا خمار دماغ پر چڑھ جاتا ہے۔ اگر اس لعنت کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا تو عورت کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوجاتی ہے۔ بھلا کرے اللہ تعالیٰ امام اعظم امام ابو حنیفہ کی شخصیت کا جس نے اکیلے یہ صدا بلند کردی کہ حلالہ سے عورت اپنے شوہر کیلئے حلال ہوجاتی ہے ورنہ تو باقی ائمہ امام مالک، امام جعفر صادق، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام ابو حنیفہ کے اپنے شاگرد عبد اللہ ابن مبارک ، امام ابو یوسف، امام زفر اور امام محمد وغیرہ کا اس بات پر اتفاق تھا کہ حلالہ سے عورت اپنے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوتی ہے۔
اگر امام ابو حنیفہ حلالہ کی لعنت سے حلال ہونے کا فتویٰ نہ دیتے تو پھر عورت کو اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہونا پڑتا۔ پھر پانچ چھ سو سال قبل حنفی مذہب میں مزید دو عظیم سپوت پیدا ہوئے ایک علامہ بدر الدین عینی اور دوسرے محقق ابن ھمام جنہوں نے مزید سہولت کاری فراہم کردی کہ ”ہمارے کچھ نامعلوم بزرگوں سے نقل ہے کہ اگر زبان سے حلالہ کے الفاظ ادا نہیں کئے اور دل میں حلالے کی نیت سے نکاح کیا تو حدیث میں آئی ہوئی لعنت سے بندہ بچ جائے گا”۔ اور پھر اس سے بھی زیادہ بشارت عظمیٰ یہ بھی سنادی کہ ”اگر نیت یہ ہو کہ دو خاندان آپس میں ملیں تو ہمارے نامعلوم بزرگوں نے کہا ہے کہ حلالہ سے ثواب بھی ملے گا”۔ نیت کے حوالے سے اتنا عظیم اجتہاد اہل مغرب نے تو نہیں دیکھا ہوگا لیکن یہود و نصاریٰ کی تاریخ میں بھی اس کی مثال نہیں ملے گی۔
سن2007میں جب قرآن و سنت کے حوالے سے یہ انکشاف کردیا تھا کہ قرآن و سنت میں حلالے کا غلط تصور پیش کیا گیا ہے تو بجائے خوشیوں کے کوئی شادیانے بجاتا ہمارے اخبار کو ہی بند کردیا گیا۔ پھر مذہبی طبقات کی طرف سے مشکلات کا شکار رہنے کے بعد کچھ آسانی پیدا ہوگئی تو اخبار کی دوبارہ اشاعت بھی شروع کردی اور چند کتابیں بھی لکھ ڈالیں۔ جس میں بہت مدلل انداز کے اندر قرآن و احادیث کے مؤقف سے آگاہ کیا گیا کہ دورِ جاہلیت میں حلالے کا جو تصور تھا اس کو قرآن نے ختم کیا۔ لیکن ہمارے علماء و مفتیان اپنے عقیدتمندوں کو بھی اس لعنت سے بچانے کیلئے کھل کر سامنے نہیں آئے۔ آج جماعت اسلامی کو اس بات پر شاید شرمندگی کا سامنا ہے کہ جو تحریک دنیا میں اسلام کے غلبے کیلئے مولانا مودودی نے اٹھائی تھی اور اس میں مولانا مسعود عالم ، مولانا ابوا لحسن علی ندوی اور مولانا محمد منظور نعمانی کے علاوہ بہت سارے علماء اور دانشور بھی شریک تھے ۔ لیکن پورے پاکستان سے سب سے زیادہ امید وار کھڑے کرنے کے باوجود کوئی ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی ہے۔ میں نے 2 دفعہ منصورہ لاہور میں اس غرض سے حاضری دی کہ جماعت اسلامی حلالے کے خلاف نکل کھڑی ہوگی تو لوگوں کو بہت بڑا ریلیف مل جائے گا۔ لیکن ان لوگوں کو صرف اس وقت جوش آتا ہے جب کوئی عوامی لہر کسی کی مقبولیت کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
مدارس اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اورنمائندوں تک مسلسل ہمارا اخبار اور کتابیں پہنچ رہی ہیں۔ لیکن ان کو اس بات کی فکر نہیں کہ کتابوں میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا گیا ہے یا حلالے کے نام پر خواتین کی ناجائز طور سے عزتیں لٹ رہی ہیں یا پھر مدارس کے نصاب میں قرآن کی حفاظت کیخلاف تعلیمات دی جارہی ہیں۔ عمران خان کی ایک سیٹ تھی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم بننے کیلئے دی تھی۔ دوسری طرف مولانا اعظم طارق کی ایک سیٹ تھی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم کیلئے دی اور اس ایک سیٹ سے ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ یہ نہیں بھولنا کہ جب غلام اسحاق خان کے خلاف نوابزادہ نصر اللہ خان نے صدارتی الیکشن لڑا تھا تو شہید بینظیر بھٹو نےMRDکی تحریک میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف قربانی کی تاریخ رقم کرنے والے نوابزادہ نصر اللہ خان کی بجائے غلام اسحاق خان کو ہی صدارتی ووٹ دیا تھا۔ جس نے پھر باری باری بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو چلتا کیا تھا۔ پرویز مشرف اور ق لیگ کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کے چند ووٹ اگر مولانا فضل الرحمن کے حق میں ڈال دئیے جاتے تو ق لیگ اور پرویز مشرف اس وقت اقتدار سے محروم ہوجاتے جس نے پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹ بنا کر پارٹی کو توڑا تھا اور ن لیگ کو توڑ کر ق لیگ بنائی تھی۔ پھر جب اس خدمات کے بدلے بینظیر بھٹو کو شہادت کی منزل پر پہنچادیا گیا اور پیپلز پارٹی کو اقتدار مل گیا تو مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں شرکت اقتدار کا شرف حاصل کیا۔ محسن جگنو کے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ اس وقت زرداری کو کیا مسئلہ تھا ؟۔ لیکن مولانا نے بات گول کی تو محسن جگنو نے بتایا کہ زرداری کی زندگی کو طاقتور حلقے سے جان کا خطرہ تھا اور وہ چند دن تک سو نہیں سکے تھے۔
اس وقت نواز شریف بھی یوسف رضاگیلانی اور زرداری کے خلاف بہت ہی آب و تاب کے ساتھ طاقتور حلقوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑرہے تھے۔ پھر جب نواز شریف کو آب و تاب کے ساتھ لایا گیا تو عمر چیمہ نے پانامہ لیکس کی خبر نشر کردی۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں بڑی صفائی کے ساتھ جھوٹ کی یہ تاریخ رقم کردی کہ لندن فلیٹ اللہ کے فضل و کرم سے2005میں سعودیہ کی اراضی بیچ کر2006میں خریدے۔ جس کے تمام دستاویزی ثبوت عند الطلب میڈیا اور عدالت کو دکھا سکتا ہوں۔ عدالت نے طلب کیا تو قطری خط سامنے لایا۔ پھر قطری خط میں بلا کی غلطیاں تھیں اسلئے کہ بلا کا یہ جاہل اپنے جاہل مریدوں کے غلط ڈھکوسلوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ پھر مجھے کیوں نکالا کا واویلا کیا اور ووٹ کو بھی عزت دو کا نعرہ لگایا۔ پھر2018میں محکمہ زراعت کے نام سے خلائی مخلوق کا یہ کارنامہ سامنے آیا کہ اڑن طشتری میں عمران خان کا نزول ہوا۔ دنیا جہاں کے لوگوں کو حیرت ہوگی کہ جس جنرل قمر جاوید باجوہ کو سب متفق علیہ گالی گلوچ سے نوازتے ہیں اس کو سب نے ملکر نہ صرف3سال کی ایکسٹینشن دی بلکہ قانون میں بھی ترمیم کر ڈالی اور مزید ایکسٹینشن کی بھی گنجائش موجود تھی۔
پہلے آرمی چیف کی ایکسٹینشن قانون میں بھی چور دروازے سے ہوتی تھی۔ کرائم کے دفعات میں یہ لکھا تھا کہ اگر کسی فوجی کو سزا دینی ہو تو اس کو بحال کرکے کورٹ مارشل کیا جائے گا اور اسی کے تحت جنرل ایوب ، جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف ، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے تاریخی ایکسٹینشن لی تھی اور یہ اتفاق تھا کہ جب پرویز مشرف کی پیٹھ میں نواز شریف نے چھرا گھونپا تو عدالت نے پرویز مشرف کو 3سال تک قانون سازی کی اجازت بھی دی تھی۔ لیکن کسی ایک نا معلوم شخص نے جب قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کو عدالت میں چلینج کیا تو پھر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر قانون کی کتاب کھل گئی کہ آج تک جتنے بھی فوجیوں کو ایکسٹینشن دی گئی ہے وہ تو بنتی ہی نہیں ہے۔ صحافت اور سیاست کے ایک نمایاں کردار ایاز امیر صاحب جو کبھی ن لیگ کے ایم این اے بھی رہے ہیں اور ابPTIکی طرف سے آزاد حیثیت میں بھی الیکشن لڑا تو وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے ایکسٹینشن کیلئے عدالت سے رجوع کرکے بڑی سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ ہر چیز قانون کے تابع نہیں ہوتی ہے۔ اس موصوف کو پھر بھی نہیں بخشا گیا حالانکہ اس کی ساری باتیں ن لیگ کے خلاف تھیں۔ وہ بھی اس وقت جب ن لیگ عقاب کے زیر عتاب تھی۔
ہمارے مذہبی ، سیاسی اور مقتدر طبقات کے کردار اور رفتار کو دیکھ کر لگتا تو یہی ہے کہ نبی ۖ نے سچ فرمایا کہ اہل غرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے۔ اگر ہم ماضی کے دریچوں میں تھوڑا جھانک کر دیکھیں تو خلافت عثمانیہ کے بادشاہ کی ساڑھے 4ہزار لونڈیوں سے پتہ چلے گا کہ سقوط بغداد کیوں ہوا؟۔ بنو عباس اور بنو اُمیہ کے اکثر حکمرانوں کا کردار اور ظلم و ستم بھی اگرچہ قابل رشک نہیں ہے لیکن اگر ہم نبی رحمت ۖ کے بعد خلفاء راشدین کے دور کو دیکھیں تو اس میں بھی عشرہ مبشرہ کے مقدس صحابہ کرام حضرت طلحہ و زبیر اور علی ایکدوسرے کیخلاف جنگوں کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت عثمان کو تخت خلافت پر شہید کیا گیا۔ اہل مشرق کے دانش نے مشاجرات صحابہ پر بات کرنے کی بھی پابندی لگائی ہے کہ اس سے عوام میں بدظنی کی روح بیدار ہوگی اور پھر مسئلہ خراب ہوگا۔
مولانا محمد مکی کا ایک ویڈیو کلپ ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید نے ایک شخص (مالک بن نویرہ )کی بیوی سے عشق کیا تو اس کو قتل کرکے اس کی بیوی سے عدت میں شادی کرلی۔ ایک طرف عمران خان کو عدت میں شادی کے الزام سے بچانے کیلئے یہ مہم جوئی ہورہی ہے تو دوسری طرف ہماری فوج کو بھی اس سے بڑا ریلیف مل رہا ہے کہ جب حضرت ابوبکر کے دور میں یہ المناک واقعہ ہوا تھا تو ہم15ویں صدی ہجری کے انسان ہیں۔ مولانا مکی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت خالد بن ولید کو منصب سے سبکدوش کردیا لیکن جس کو قتل کیا تھا اس کا کیا بنا؟۔ کیا قتل کے بدلے قتل کرنا نہیں تھا؟۔ شاید مولانا مکی بھی سعودی عرب میں شاہی خاندان کے اقدامات کو جواز بخشنے کیلئے یہ حقائق اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی سہولت کاری کیلئے یہ مسئلہ لکھ دیا گیا کہ بادشاہ قتل، زنا، چوری، ڈکیتی اور جو کچھ بھی کرے اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی۔ جب بادشاہوں اور علماء میں محبت کا یہ عالم تھا تو انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی لگاکر برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کرلیا۔
اہل سنت کے چاروں اماموں نے متفقہ طور پر یہ مسئلہ اُمت مسلمہ کو بتادیا کہ حضرت ابوبکر صدیق کی طرف سے جبری زکوٰة کا مسئلہ درست نہیں تھا لیکن پھر انہوں نے بے نمازی کو نہ صرف سزا دینے پر اتفاق کیا بلکہ بعضوں نے قتل تک بھی بات پہنچادی۔ ایک طرف بادشاہوں کی طرف سے عوام کو قتل کیا جاتا تھا جس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا تھا اور دوسری طرف بے نمازی کو قتل کرنے کا فتویٰ دینا ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات” کے مترادف تھا۔
اگر سنی علماء جمعہ کے خطبات میں حکمرانوں کیلئے یہ حدیث پڑھتے تھے کہ السلطان ظل اللہ فی الارض من اھان سلطان اللہ فقد اھانہ اللہ ”حکمران زمین پر خدا کا سایہ ہے جس نے اللہ کے بادشاہ کی توہین کی تو بیشک اس نے اللہ کی توہین کی”۔ دوسری طرف شیعہ امامت کیلئے معصومیت کا عقیدہ رکھتے تھے اور قرآن نے جس مشاورت کا حکم دیا تھا وہ بالکل مفقود ہوچکا تھا۔ اور جس قرآن میں ایک خاتون کو بھی نبی ۖ سے اختلاف کی نہ صرف گنجائش تھی بلکہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے وحی بھی نازل کی لیکن جب صحابہ و ائمہ اہل بیت کیلئے قرآن و احادیث سے بالاتر عقیدت رکھی گئی اور بادشاہوں پر تنقید کو اللہ کی توہین قرار دیا گیا تو مسلم ممالک سے ہما نے اُٹھ کر مغرب کے سر پر بیٹھنا تھا۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھاہے کہ نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اور پھر حضرت عمر کا دور تھا جس میں سرمایہ دارانہ نظام کیلئے بنیاد فراہم کی گئی۔ جس میں وظائف کی تقسیم طبقاتی بنیادوں پر بدری اور غیر بدری صحابہ کے اندر کردی گئی۔ پھر حضرت عثمان کے دور میں خاندانی نظام کیلئے بنیادیں فراہم ہوئیں اور آخر کار اسلام ملوکیت کا شکار ہوگیا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد پر آزادیٔ صحافت کو بھی فروغ نہیں دے سکتے۔ ایران ، سعودی عرب اور افغانستان میں اسلام کے نام پر اقتدار ہے لیکن اس آزادی کا تصور نہیں جو دنیا میں مغرب نے صحافیوں کو دی ہے۔ پاکستان میں آزادی صحافت باقی اسلامی دنیا کے مقابلے میں بہت مثالی ہے۔ اگر کوئی الیکٹرانک میڈیا کا صحافی یہ جھوٹ بولتا ہے کہ مجھے بولنے نہیں دیا جاتا تو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم بھی سب کو میسر ہے۔ صحافی بھی بعض سپوت ، بعض کپوت اور بعض مکس سپوت کپوت ہیں۔
جن سیاستدانوں اور صحافیوں کو مداری کے بندر کی طرح ڈنڈے پر چڑھنے کا شرف حاصل ہوتا ہے تو ان کی تعلیم و تربیت کیلئے ڈنڈے کا استعمال بھی بنتا ہے۔ اکثر صحافیوں کو بہت کچھ بولنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ ہماری فوج کا کردار بھی کوئی مثالی نہیں ہے۔ جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو بھی ہندوستان کی قید سے آزاد ہونے کے بعد ڈھول باجے کی تھاپ پر ان کا استقبال کیا گیا۔ حالانکہ کرکٹ ہارنے والوں کو بھی ٹماٹر اور انڈوں سے نشانہ بننے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اور جب میڈیا پر صرف اور صرف کرکٹ کی خبروں کے ذریعے سے بچے، بچیوں اور جوانوں اور خواتین و حضرات کو شیدائی بنایا جائے گا اور پوری قوم تاریخ، مذہب، تہذیب، تمدن، معاشیات، سیاست، سائنس اور تمام علوم و فنون سے عاری ہو تو اس کیلئے ایک کرکٹر ہی حقیقی لیڈر ہوسکتا ہے۔ جب ضرورت پڑی تھی تو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور آج بھی آرمی چیف اسی کا سہارا لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا آزادی سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے بجائے جھوٹ کا بازار گرم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جس کے اثرات الیکٹرانک میڈیا پر بھی پڑے ہیں اور جب تک کوئی سنسنی خیز عنوان سے جھوٹی خبر نہ لگائی جائے تو اس کی ریٹنگ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جب جھوٹ اور سچ کا اختلاط ہوتا ہے تو سچ پر بھی کسی کو یقین نہیں آتا۔ جب پنڈی کے کمشنر نے پریس کانفرنس کی تو کافی دیر تک مجھے یہ خبر بھی فیک لگی اور ہوسکتا ہے کہ کچھ فیک خبروں پر سچائی کا یقین بھی آگیا ہو۔ اسلئے کہ انسان بہت کمزور ہے اور اس کمزوری کی نشاندہی سورہ نور میں بھی ہوئی ہے۔ جب ایک اُم المؤمنین کیخلاف بہتان عظیم کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا تھا ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف غلط پروپیگنڈے کو پھیلانے سے روکا تو دوسری طرف اللہ نے فرمایا کہ اس کو اپنے لئے شر مت سمجھو بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔ اگر آج مغرب کو یہ پتہ چل جائے کہ قرآن و سنت میں برابری کا اتنا زبردست قانون ہے کہ جب اُم المؤمنین پر بہتان لگا تو اس کی سزا بھی80کوڑے تھی اور غریب خاتون پر بہتان لگے تو اس کی بھی سزا80کوڑے ہے۔ تو دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ لیکن ہمارا دانشور اور متعصب مذہبی طبقہ یہ سوچ پھیلارہا ہے کہ حدیث میں اُم المؤمنین کے خلاف سازش کرنے کیلئے یہ بات گھڑی گئی ہے۔ اگر اُم المؤمنین کے خلاف اتنی بڑی بات کوئی کرتا تو اس کی سزا قتل ہوتی۔ عمران خان مغرب کی طرح ایک قانون کی بات کرتا تھا لیکن جب وہ حملے کا شکار ہوا تو اس نے کہا کہ میں ایک سابق وزیر اعظم ہوں اور پنجاب میں میری حکومت ہے اور اپنی مرضی کیFIRدرج نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اپنے اقتدار میں تھانوں اور چھوٹی عدالتوں کی سطح پر انصاف کو عام کرتا تو پھر یہ شکایت کرنے کا موقع نہ ملتا۔ آج صحافی درست آئینہ دکھانے کے بجائے دیہاڑی دار ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری

صحابہ نے پوچھا کہ توبہ ہم جانتے ہیں طہارت سے کیا مراد ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا : ڈھیلوں کے بعد پانی کا استعمال کرنا زیادہ طہارت ہے(مفہوم)

آیت میں حیض کا ذکر ہے اور طہارت کا مفہوم بھی بالکل واضح ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے تعلیم یافتہ لوگوں کا بار اٹھایا ہے غلطی کا ازالہ ہونا چاہیے۔

پروفیسر احمد رفیق اختر نے ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ خواجہ مہر علی کی ایک بات مجھے وہ اخری لٹریٹ مسٹک سے ان کی رائے میں بڑا حسن ہے دل نے چاہا کہ اس کے اختتام سے پہلے میں ان کو کوڈ نہ کروں فرمایا کہ ان امور کے بیان میں جن کا جاننا ضروری ہے واضح ہو کہ تفسیر کے تمام طریقوں میں سے اول درجہ بڑی انقلابی بات ہے، اول درجہ تفسیر القران بالقرآن ہے۔ یعنی سب سے پہلے قران کی وضاحت قران سے طلب کیجیے اگر قرآن ایک بات ایک جگہ کہی ہے جیسے معتزلہ نے کیا یا ماتریدیہ نے کہا یا جہیمیہ نے کیاایسے نہ کیجئے۔ ایک آیت سے استنباط نہ کیجیے پہلے پورا قران تو پڑھ لیں۔ مختصر یہ کہنا ہے امام کا خواجہ مہر علی کا کہنا یہ ہے کہ یار پہلے پورا قران تو پڑھ لو نا اگر ایک آیت سپلیمنٹ آیت آئی ہوئی ہے سپلیمنٹ آیتیں آئی ہوں گی اگرآگے آیات ہوں گی تو پورا ادراک ایک موضوع پہ آیات قرانی سے کر لو پھر ان کے بارے میں رائے دینا۔ تو فرسٹ ڈگری قرآن کو سمجھنے کیلئے یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر بالقرآن۔ اس کے بعد کیونکہ ان القرآن یفسر بعضہ بعضا قرآن ایسی کتاب ہے کہ اس کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے ایک حصہ دوسرے حصے پہ دلالت ہے اس کی محکمات متشابہات پہ دال ہے اور متشابہات زمانوں پہ آکے دلیل دیتی ہے قرآن کے بارے میں۔ دوسرا درجہ تفسیربالسنہ باوجود اس کے کہ وہ ایک بڑے سپیشلائز مسٹک علوم میں استاد معظم ہیں اسکے باوجود جو رائے دے رہے ہیں قرآن پڑھنے کے بارے میں کہ دوسرا طریقہ قرآن کی تفسیر بالسنہ ہے کہ اصحاب کے رویوں سے تصدیق کرو اگرآپ کو پتہ لگے یہ ہے تو آپ کوشش کرو کسی سے پوچھو کہ جب یہ حکم آیا تھا اصحاب نے کیسے لی ؟۔ چھوٹی سی آپ کو ایک بات بتا دوں کہ جب یہ آیت اتری کہ پروردگار نے صفائی پہ اتاری یحب التوابین ویحب المتطاہرین کہ خدا توبہ کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے اور پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ تو اصحاب نے پوچھا یا رسول اللہ توبہ کی تو سمجھ آگئی مگر یہ پاک رہنے والے کون ہیں؟۔ تو اگر آپ کے سامنے بھی یہ لفظ پاک میں رکھ دو تو بڑی مشکل سے پتہ ہے کہ کیا پاکیزگی کا بیان ہے مگر رسول اکرم ۖ نے اصحاب کو جو بتایا کہ پاکیزگی کا مطلب ہے جوآپ ڈھیلے کے بعد آب دست لیتے ہیں کہ جب آپ گئے کیونکہ اس وقت جو رواج تھا رویہ تھا باہر گئے آپ نے ابولوشن کی تو پاک وہ لوگ ہیں جو اس ابولیوشن سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوئے اور گھر آکے انہوں نے پانی سے وضو کیا۔ اے لٹل ایکسٹرا کلین (تھوڑی سی مزید صفائی )۔تو آپ کیلئے قابل قبول ہو گیا۔ اصحاب کی ان وضاحتوں سے دین ہماری گرفت میں آجاتا ہے آپ کو پتہ ہے اگر ہم ان کی بات نہ سنیں تو دین ہماری گرفت سے نکل جاتا ہے۔ اگر میں طاہرین کا یا متطاہرین کا ترجمہ لنگوسٹیکلی کروں زبان کے لحاظ سے کروں تو مجھے پاکیزگی کے ہولناک خواب آنے شروع ہو جائیں مگر یہ جو ایک نیچرل بتایا ہے کہ اینی بوڈی ہووش ٹو بی مور کلین وہ طاہر ہے۔ وہ غیر معمولی کنڈیشن نہیں ہے معمولی سی بات ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو زیادہ صاف رکھنا چاہو۔ اسلئے اصحاب کے رویے جو ہیں وہ قرآن کی اور سنت رسول کی بہترین تائید میں ہیں اور بہترین تفسیر ہیں۔ اور تیسرا درجہ شاہ خواجہ مہر علی کہتے ہیں کہ اصحاب کرام کی تفسیر کا ہے اور یہ کون ہے خلفاء اربعہ عبداللہ بن مسعود عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما۔ پھر چوتھادرجہ تابعین اور تبع تابعین کا ہے۔ ان میں چند ایک کے انہوں نے نام بتائے ہیں کہ عمدہ ترین مفسرین جو ہیں حضرت مجاہد بن جبل ابن عباس کے شاگردوں میں سے ، امام بخاری اور امام شافعی نے ان کی تفسیر پر اظہار اعتماد کیا ہے۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار : عتیق گیلانی
پروفیسر احمد رفیق اختر کے اس بیان پر پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کی تصویر بھی یوٹیوب پر لگی ہے مگر اس میں ایسی جہالت کا مظاہر ہ کیا گیا ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ پاکی کا ایک تصور وہی ہے جس کی پہچان دنیا میں ”مسلم شاور” سے ہوتی ہے۔ یورپ وغیرہ میں ٹشو پیپر کا استعمال ہوتا ہے اور مسلمان استنجاء پانی سے بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے استنجاء میں استعمال ہونے والا شاور ”مسلم شاور”کہلاتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے قرآن کی آیت222البقرہ کے حوالہ سے بات کی ہے جسمیں توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کا ذکر ہے۔ اس آیت میں ناپاکی اور پاکی کے تصورات عام فہم ہیں۔ اللہ نے فرمایا: ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین ۔ ترجمہ :”اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ وہ ایک تکلیف ہے۔ پس حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔ اور ان کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے۔ بیشک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ”۔ (البقرہ آیت222)۔ اسمیں پاکی اختیار کرنے والوں کی تفسیر بالکل واضح ہے۔ حیض کی حالت میں بیگمات سے قربت یعنی جماع سے روکا گیا ہے اور یہی پاکیزگی اختیار کرنے والے مراد ہیں۔پروفیسر احمد رفیق اختر اتنی دور کی کوڑی لانے سے بہتر تھاکہ پہلے آیت کے ترجمہ کو دیکھ لیتے اور پھر اس سلسلے میں احادیث کو دیکھ لیتے جن کا تعلق حیض سے ہے۔جہاں تک پانی سے استنجاء کرنے کی بات ہے ۔تو وہ حدیث سورہ توبہ آیت108سے متعلق ہے۔ جس میں مسجد ضرار کے مقابلے میں مسجد قباء کی وضاحت ہے۔ فیہ رجال یحبون ان یطھروا واللہ یحب المطھرین ” اس میں لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں۔ اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے”۔ اس میں ان صحابہ کرام کی خبر ہے جو مسجد قباء کے پاس رہتے تھے۔ زیادہ پاکی سے مراد یہ ہے کہ وہ ڈھیلوں کے علاوہ پانی سے بھی طہارت حاصل کیا کرتے تھے۔ اس میں توبہ کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔
شاید اسرائیلیات میں کہیں درج ہے کہ مسلمانوںکا یہ امتیاز ہوگا کہ وہ ڈھیلوں کے استعمال کے بعد استنجوں کیلئے پانی سے بھی صفائی کریں گے۔ اس کی پہلی مثال مسجد نبوی سے بھی پہلے کی مسجد قباء تھی اور موجودہ دور میں بھی جہاں مشرق سے مغرب تک دنیا صرف ٹشو پیپر کا استعمال کرتی ہے تو وہاں مسلم شاور کی حیثیت سے استنجے میں استعمال ہونے والے شاور کو یاد کیا جاتا ہے۔ نمازی لوگ لوٹوں کا استعمال شروع سے کرتے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ کسی عالم سے غلطی کی وجہ سے بدظن مت ہو اسلئے کہ کبھی کبھی شیطان بھی کسی اچھے آدمی کے منہ سے غلط بات نکال دیتا ہے۔ ایک صحابینے دوسرے سے پوچھا کہ کیسے پتہ چلے گا کہ شیطان نے بات نکلوائی ہے؟۔ اس کا جواب اس صحابی نے یہ دیا کہ جب کوئی ایسی بات کرے کہ لوگوں کو تعجب ہو کہ یہ کیا بات کہہ دی لیکن اچھے عالم کی نشانی یہ ہے کہ وہ غلط بات سے رجوع کرلیتا ہے۔ اگر وہ رجوع نہیں کرتا تو پھر وہ ایک عالم نہیں بلکہ شیطان ہے۔ یہ روایت مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” لکھی ہے۔ جب مولانا یوسف لدھیانوی کی طرف سے حاجی عثمان صاحب کے خلاف خط کا جواب دیا گیا تو مجھے حاجی صاحب نے آخر میں وصیت کی تھی کہ مولانا لدھیانوی سے ضرور پوچھ لینا۔ مولانا لدھیانوی نے کہا تھا کہ یہ مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کردیا ہے۔ اور حاجی عثمان کی بہت تعریف بھی کی۔ جب میں نے کہا کہ میں اس کی وضاحت کروں گا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے گالیاں بھی دو تو میں جواب نہیں دوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ ”غلطی کا ازالہ آپ کا اپنا فرض بنتا ہے”۔ مولانا محمود حسن گنگوہی پر فتویٰ لگایا گیا تو ایک عالم نے چھپ کر معافی مانگی۔ مولانا نے فرمایا کہ ”فتویٰ کھل کر لگایا تھا تو اس کی معافی چھپ کر نہیں بنتی بلکہ یہ شریعت کا تقاضہ ہے کہ کھل کر اس کی تشہیر بھی کرنی ہوگی”۔
پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب نے یہاں پر بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور اس کا ازالہ بھی کھل کر کرنا ہوگا وگرنہ چھپ کر اس کی توبہ نہیں بنتی ہے۔ جہاں تک آیت222میں توبہ کا تعلق ہے تو یہ مردوں کیلئے عورت کو اذیت کی حالت میں تنگ کرنے کے حوالے سے وضاحت ہے۔ جب عورت اذیت کی حالت میں ہو تو اسکے شوہر کو اس کا خیال رکھنے کی تلقین ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کو دیکھیں کہ جب مفسرین اور فقہاء نے عورت کی اذیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا تو آیت222البقرہ کے بعد آیت223سے232تک مسلسل اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے احکام بیان کئے ہیں۔ لیکن عورت کی اذیت کو نظر انداز کرکے جب تفسیر کی گئی اور مسائل گھڑے گئے تو اسلام اس کی وجہ سے اجنبیت کا شکار ہوگیا۔ عورت صنف نازک ہے اور کمزور ہے اور اللہ نے اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے لیکن مردوں نے ان کے تمام حقوق کو غصب کرلیا ہے۔
جس دن مسلمان اپنی کمزور صنف نازک کے حقوق کو بحال کردیں گے تو ان پر مقتدر اور طاقتور حلقوں کی طرف سے ظلم بھی بند ہوجائے گا۔ ایک افغانی عورت امریکہ میں بظاہر بڑی بے شرمی کا ارتکاب کرتی ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کے شاعر گلامن وزیر کی تعریف بھی کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میں اپنے شوہر کی دسترس میں رہتی ہوں اور عورتوں پر طعنہ زنی کا کوئی حق نہیں بنتا اسلئے کہ جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اس کے فوجیوں نے خواتین کو نہیں چھوڑا۔ تاریخ میں جتنے لوگ بھی دوسری اقوام پر قابض ہوئے ہیں تو خواتین کی عزتیں تار تار کردیتے ہیں۔ مغرب مسلمانوں کے بارے میں یہ تاثر رکھتا ہے کہ اگر اس کے قبضے میں ہم آگئے تو ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو یہ لوگ اپنی لونڈیاں بنادیں گے۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے مغربی حکمرانوں نے اپنے دشمن یہودیوں کو بیت المقدس سونپ دیا ہے تو کیا وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو اپنے قبلے سے زیادہ مقدس سمجھیں گے؟۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے انکشاف کیا کہ کوئی5برسوں میں ہی مغرب کے حکمران دنیا کے مسلمانوں سے مکہ کی مرکزیت چھین لیں گے۔ کیونکہ ان کے نزدیک جب تک یہ مرکز ختم نہیں ہوگا تو مسلمانوں سے چھٹکارا نہیں مل سکتا ہے۔ یہودیوں نے مصر سے مدینہ کیلئے ایک سڑک کا پروگرام بنایا ہے جس کے بعد وہ مدینہ کے بنو قریظہ ، بنو نظیر کے قبائل اور خیبر کے مقامات کو تلاش کرکے اپنا قبضہ جمالیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر یہود و نصاریٰ اور عرب میں ایک نیا بھائی چارہ قائم ہوگا جس کو بنی اسحاق اور بنی اسماعیل کے درمیان رکھا جائے گا۔ باقی مسلمانوں کو حجاز مقدس میں قدم نہیں رکھنے دیا جائے گا۔
ایک طرف مسلمانوں کو وحشیوں کی طرح دہشت گرد بنادیا گیا اور دوسری طرف سیاستدانوں کے ساتھ جب تک بھلائی ہو تو ان کو آزادی کی فکر نہیں رہتی۔ جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو وہ آزادی کا طبلہ بجانے لگتے ہیں۔ اگر2018میں عمران خان کا ضمیر جاگتا اور محکمہ زراعت کو مسترد کردیتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے مگر اس وقت پروفیسر صاحب نے اس کا گٹار بجاکر سنا ہے کہ استقبال کیا تھا۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

مفتی طارق مسعود کا بیان آیا کہ ”جج کو کیا حق ہے کہ وہ ہماری بیوی کو طلاق دے یہ گدھاپن ہے” فقہ جعفریہ میں شروع ہی سے یہ ہے کہ عدالت کا عورت کوخلع دینا قبول نہیں ہے ۔علامہ شبیہ رضازیدی

اللہ نے قرآن میں خواتین کے حقوق بیان کردئیے ہیں۔ آیت19النساء میں خواتین کو خلع کا حق دیا۔ خلع میں شوہر کی دی ہوئی ان چیزوں کا عورت کو حقدار قرار دیا جن کو عورت اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے مگر غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ ، دکان ، پلاٹ ،زمین وغیرہ سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ البتہ طلاق میں منقولہ اور غیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں کی مالک بھی عورت ہی رہے گی،اگرچہ عورت کو بہت سارے خزانے دئیے ہوں تو بھی۔جس کی زبردست وضاحت سورہ النساء آیت20اور21میں بھرپور طریقے سے اللہ تعالیٰ نے کردی ہے۔
جس دن قرآن کے مطابق عورت کو خلع کا حق مل جائے اور اس کے ساتھ اس کے مالی حقوق بھی مل جائیں تو پاکستان، ایران اور افغانستان میں جبری حکومتوں کا خاتمہ ہوجائے گا مگر جب تک قرآن کے ظاہروباطن پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا ہے تو قائداعظم محمد علی جناح، امام خمینی اور ملامحمد عمربھی زندہ ہوجائیں تو جبری نظام حکومت سے عوام کو چھٹکارہ کبھی نہیں مل سکتا ہے۔ لندن کے اندرجمائما کے مال میں عمران خان کا حصہ تھا لیکن پاکستان میں عمران خان کے گھر اور جائیداد میں جمائما اور ریحام خان کا حصہ نہیں تھا؟۔یہ غیرفطری بات ہے۔
قرآن نے عورت کے مال میں شوہر کا حصہ نہیں رکھا ہے لیکن شوہر پر حق مہر کو فرض کیا ہے ۔ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے تو آدھا حق مہر اور ہاتھ لگانے کے بعدطلاق دے تو پورا حق مہر، گھراور تمام دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء بھی۔ اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اوردی ہوئی منقولہ اشیاء بھی۔
عرب اور پشتون قوم حق مہر کے نام پر لڑکیوں کو فروخت کردیتے ہیں اور درباری علماء ومفتیان نے نابالغ بچیوں کے نکاح کی بھی بہت خطرناک اجازت دی ہے جو انسان کی بچی کیا گدھی کیساتھ بھی یہ جائز نہیں لیکن اسلام کا ستیاناس کردیا گیا۔
ہندوستان اور پنجاب میں جہیز کے نام پر عورت کا مال بھی ہتھیا لیا جاتا ہے۔برصغیرپاک وہند ، افغانستان، ایران ، عجم و عرب میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو قرآن نے عطاء کردئیے ہیںاسلئے عورت گھرمیں ہویا بازارمیںوہ ایک ایسی جنس ہے جس کی کہیں کوئی اوقات نہیں ۔مغربی نظام بھی عورت کو اس کے وہ حقوق نہیں دے سکا ہے جو اسلام نے ساڑھے14سو سال پہلے عورت کو دئیے تھے۔ عورت کو سب سے زیادہ مذہبی طبقات نے حقوق سے محروم کیا ہے اسلئے کہ مذہبی طبقے کی طرف سے قرآن میں دئیے ہوئے حقوق کو بوٹی بوٹی کردیا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال عورت سے خلع کا حق چھین لینا ہے۔ بیوی کا زبردستی سے مالک بن جانا ہے۔عورت کو لونڈی بنانا ہے۔ عورت کو اس کی مرضی کے بغیر جنسی تشدد کا قانونی حق مرد کو دینا ہے۔ عورت کو سب سے زیادہ حقوق اسلام نے دئیے تھے لیکن پدر شاہی نظام نے نہ صرف عورت کے حقوق غصب کر ڈالے ہیں بلکہ نکاح اور اسلام کے نام پر جاہلیت سے بدتر عورت کے حقوق چھین لئے ہیں۔ پدر شاہی اور درباری علماء کا اس میں برابر کا کردار ہے۔ اسلام اجنبیت کا شکار ہونے سے معاملات جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہیں۔
جب جنرل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین بن گئے تھے تو پاکستان میں عورت کو عائلی قوانین میں خلع کا حق دیا گیا ہے۔ مفتی محمود پر الزام تھا کہ اس نے اس وقت جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپیہ لیکر اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر عورت کو حق خلع دینے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ میرے والد علماء کے قدر دان تھے۔ مفتی محمود کو بھی ووٹ دیتے تھے۔ میرے ماموں خان قیوم خان مسلم لیگ شیر کیساتھ تھے۔ ہماری سیاست پسند اور ناپسند کی حد تک تھی۔ کوئی بھی سیاسی کارکن اور رہنما کی طرح سیاست سے دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔سن 1970کے الیکشن میں مفتی محمود پر مفتی تقی عثمانی اس کے باپ، بھائیوں اور اساتذہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خان نے بھی کفر کا فتویٰ لگایا تھا اور بڑی یلغار کی زد میں تھے۔ جب جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک کے مولانا نور محمد المعروف سرکائی ملا نے میرے ماموں سے کہا تھا کہ مفتی محمود نے الیکشن کیلئے بس مانگا ہے تو میرے ماموں نے کہا تھا کہ ”آپ کو دیتا ہوں لیکن مفتی محمود کو بس نہیں دینا تھا اسلئے کہ اس نے ووٹ اسلام کے خلاف ایک لاکھ میں بیچ دیا تھا”۔ آج محسن جگنو سے مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ”میرے پاس وہی اثاثے ہیں جو میرے باپ نے چھوڑے ہیں۔ گزارا غیبی امداد سے ہورہاہے”۔
مفتی محمود کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمن امیر زادے نہیں لگتے تھے مگر اب حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ مفتی محمود بہت اچھے انسان تھے اور مولانا فضل الرحمن بھی بہت اچھے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اس کی مخالفت اسلئے کرتے ہیں کہ2018کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں عمران خان عسکری قیادت کے ہاتھ میں کھلاڑی سے وہ کھلونے اورکھلواڑ بن گئے تھے۔اب جب دونوں کو گلہ ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور گالی گلوچ اور فتوؤں کی زدوں سے نکلنے کی ضرورت ہے تو ایک پیج پر آنے میں مسئلہ نہیں ہے۔
عائلی قوانین میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے لیکن مولوی شیعہ ہو یا سنی ، حنفی ہو یا اہلحدیث اس حق کو غیر اسلامی سمجھتا ہے لیکن تمام مذہبی طبقات کو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جاویداحمد غامدی ،مولانا وحیدالزمان اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تک اس گمراہی کی زد میں آگئے ہیں۔ غلام احمد پرویز و دیگر جدت پسند مذہبی طبقات بھی اس گمراہی کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔ علامہ تمنا عمادی بہت بڑے حنفی عالم تھے جو پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان سے ریڈیو پر قرآن کا درس دیتے تھے۔ ان کی کتاب ”الطلاق مرتان” نہ صرف بہت مشہور ہے بلکہ سب کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی بہت اثر انداز ہوئی ہے۔ ادریس اعوان نے اپنے نشر واشاعت کے معروف ادارے ”میزان” سے یہ ابھی شائع بھی کردی ہے۔ اس کتاب میں حنفی مسلک کے عین مطابق قواعد عربی اور اصول فقہ کی کتابوں سے یہ اخذ کیا ہے کہ ” حلالہ کی طلاق کا تعلق خلع سے ہے۔کیونکہ چھوڑنے کا فیصلہ بھی عورت کرتی ہے اور پھر پشیمانی میں سزا بھی اس کو بھگت لینے میں حرج نہیں ہے”۔ ہمارے استاذمولانا سراج الدین شیرانی نے دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا میں غالباً اس کتاب کی تعریف کی تھی یا کسی اور عالم نے تعریف کی تھی؟۔ یہ مجھے یاد نہیں رہاہے ۔ لیکن اس کتاب کو بہت بعد میں دیکھ سکاتھا اور جب دیکھا تھا تو اس سے پہلے قرآن وسنت سے استفادہ کیا تھا اسلئے اس کا اثر بھی ویسے قبول نہیں کیا ہے جیسے معلومات کے بغیر اس سے متاثر ہوسکتا تھا۔ حنفی اصول فقہ میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں ۔ ایک قرآن کی بنیاد پر احادیث صحیحہ کا انکار۔ دوسری قرآن کے معانی کو لغت اور عقل کیساتھ جوڑنا۔ یہی ہدایت کی صراط مستقیم ہے لیکن علماء ومفتیان اس پر عمل سے محروم ہیں۔
حضرت مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ایک سینئر استاذ ہی نہیں تھے بلکہ ولی کامل کا درجہ بھی رکھتے تھے۔ علم النحو، اصول فقہ اور قرآن کے متن وتفسیر کو سمجھنے کا رحجان انہی کے فیوضات اور برکات ہیں۔ ایک استاذ کا اپنے شاگرد کو بھی نصاب کے مقابلے میں حوصلہ افزائی کے قابل سمجھنا بہت بڑی بات ہے۔ مولانا بدیع الزمان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی عبدالمنان ناصر، قاری مفتاح اللہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کرام اور جامعہ انوارالقرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی کے اساتذہ کرام مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید مولانا شبیراحمد، جامعہ یوسفیہ شاہو وام ہنگو کے مولانا محمد امین شہید،توحیدآباد صادق آباد کے مولانا نصر اللہ خان ، مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی کراچی کے مفتی کفایت اللہ ومولانا خطیب عبدالرحمان ایک ایک استاذ کی حوصلہ افزائی میرے لئے باعث افتخار ہے۔
علماء دیوبند میں دو طبقے ہیں۔ ایک سپوت اور ایک کپوت۔ اس طرح بریلوی مکتب، اہلحدیث اور اہل تشیع میں بھی دونوں طبقات سپوت اور کپوت موجود ہیں۔ نصاب میں غلطیوں کے حوالہ سے مولانا فضل الرحمن کے استاذ مولانا سمیع الحق شہید کا بیان بھی ہمارے اخبار ماہنامہ ضرب حق کراچی میں شہہ سرخی کیساتھ چھپ چکا ہے۔ علماء دیوبند کے سپوتوں کے امام مولانا سرفراز خان صفدرنے پیشکش کی تھی کہ ”ہمارے مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کو اپنا مرکز بناؤ” اورامیر مرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت مولانا خان محمد نے فرمایا تھا کہ ” اگر مولانا فضل الرحمن کو اپنے مشن میں شامل کرلو تو بہت جلد کامیابی مل سکتی ہے”۔ میں نے جواب میں عرض کیا تھا کہ ”وہ معروف ہیں اور میں مجہول ۔ اسلئے وہ میری تائید کریں تو ہمارا مشن ان کی طرف منسوب ہوگا اور اس کا میرے مشن کو نقصان پہنچے گا” ۔جو ان کو بہت اچھا لگا اور میری عزیمت کو انہوں نے بہت داد بھی دی اور دعا بھی دی تھی۔ مولانا سرفراز صفدر نے فرمایا تھا کہ ”تیری پیشانی سے لگتا ہے کہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگے”۔ پروفیسر شاہ فریدالحق جنرل سیکرٹری جمعیت علماء پاکستان اورپروفیسر غفور احمد جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی اور مولانا عبدالرحمن سلفی امیر غرباء اہل حدیث پاکستان اور علامہ طالب جوہری اہل تشیع کے علاوہ سبھی فرقوں اور جماعتوں نے ہماری تائیدات کردی تھیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیر شریف، مولانا محمدمراد سکھر ، مولانا عبداللہ درخواستی اور پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے اکابرین کی تائیدات ہمیںملی ہیں۔
جب عمران خان وزیراعظم تھے تو بھی ہماری کوشش تھی اور اس سے پہلے نوازشریف کی حکومت تھی تو بھی ہماری کوشش تھی اور مسلم لیگ ن کے مشاہداللہ خان کا حلالہ کی لعنت پرزبردست بیان بھی ہمیں ملا تھا جو ہم نے چھاپ بھی دیا تھا۔
جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی میں قرآن وسنت کی روشنی میں حضرت مفتی حسام اللہ شریفی شیخ الہند کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے شاگرد ہیں۔مفتی تقی عثمانی کے باپ مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود و غیرہ بھی مولانا غلام رسول خان ہزاروی کے شاگرد تھے۔ مولانا مودودی کے استاذ مولانا شریف اللہ بھی مفتی حسام اللہ شریفی کے استاذ تھے اور دونوں اکٹھے مولانا شریف اللہ سے ملنے بھی ایک دفعہ گئے تھے۔ میں نے اپنی کتاب ” تین طلاق کی درست تعبیر” میں بھی عورت کے حق خلع کو واضح کیا ہے جس کی تائید مفتی حسام اللہ شریفی اور شیعہ مفسر قرآن مولانا محمد حسن رضوی نے بھی کی ہے۔
جب8عورت مارچ کو اسلام باد، کراچی، لاہور وغیرہ میں طاہر ہ عبداللہ، فرزانہ باری، ہدی بھرگڑی اور دیگر منتظمین نکلیں تو ”بشری بی بی ” کے کیس کو قرآن وسنت کی روشنی میں اٹھائیں۔ جس سے نہ صرف بشری بی بی بلکہ عدالتوں میں خلع کے نام پر رلنے کے بعد بھی مولوی کی طرف سے طلاق کا فتویٰ نہ ملنے کی وجہ سے خواتین کو زبردست چھٹکارا مل جائے گا۔ عورت کا مسئلہ ایک دن کا نہیں بلکہ زندگی بھر کے مسائل ہیں۔ قرآن و سنت کو مذہبی طبقات نے روند ڈالا ہے اسلئے ان کو قیامت تک پذیرائی نہیں مل سکتی ہے۔اب مذہبی طبقہ بھی عورت کیساتھ کھڑا ہوگا۔
اسلام نے مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیا ہے ۔ جب مولوی عورت کے اس حق کو نہیں مانتا ہے تو اس کی گمراہی انسانی فطرت سے نکل کر جانور سے بھی بدتر حالت پر پہنچ جاتی ہے۔
مثلاً ایک شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تجھے تین طلاق!۔ پھر اس کی بیوی کو فتویٰ دیا جاتا ہے کہ اب شوہر کیلئے تم حرام ہو۔ لیکن اگر شوہر انکار کرتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو پھر عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر اس کے پاس دو گواہ نہیں تھے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی توپھر عورت خلع لے ، خواہ اس کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑے۔ اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو پھر عورت حرام کاری پر مجبور ہے۔ عورت کو چاہیے کہ شوہر جب اس سے اپنی خواہش پوری کرے تو لذت نہیں اٹھائے بلکہ حرام سمجھ کر اس کے سامنے لیٹی رہے۔
یہ مسائل فقہ کی کتابوں میں رائج ہیں اور اس پر فتوے بھی دئیے جاتے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ”حیلہ ناجزہ” میں بھی اس کو لکھ دیا ہے۔ بریلوی بھی اس پر فتویٰ دیتے ہیں۔
جب عورت کو خلع کا حق حاصل نہ ہو تو پھر اس کے نتائج بھی بڑے سنگین نکلتے ہیں۔ میری کتاب ” عورت کے حقوق” کے مسودے کی مفتی زرولی خان نے تائید کی تھی تو میں ملاقات بھی کرلی تھی اور ان سے ملاقات کے بعد کتاب میں تھوڑا اضافہ بھی کیا تھا۔ جس میں اسلام کی اجنبیت کو مزید واضح کیا تھا اور کتاب کی اشاعت کے بعد کتاب بھی ان کو بھیج دی تھی لیکن ان سے دوبارہ طے ہونے کے باوجود ملاقات نہیں ہوسکی اسلئے کہ وہ اچانک دار فانی سے کوچ کرگئے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے مہتمم مفتی محمد نعیم سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں اوران کی تائیدبھی اخبارمیں شائع کی تھی۔ جب مفتی تقی عثمانی نے ان پر دباؤڈال دیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ طلاق سے رجوع کیلئے اپنے پاس آنے والے افراد کواہلحدیث کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ خلع و طلاق کے مسائل بہت بنیادی نوعیت کے ہیں۔
علامہ شبیراحمد عثمانی کے بڑے بھائی مفتی عزیز الرحمن دیوبند کے رئیس دارالافتاء تھے اور ان کے فرزند مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے ”ندوہ دارالمصفین ” کی بنیاد1938میں رکھی تھی۔ پھر انہوں نے1964میں جمعیت علماء ہند سے استعفیٰ دے دیا تھا اور آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی۔ جس میں سبھی مسلمان فرقوں کے اہم نمائندے شامل تھے۔ ”تین طلاق ” کے مسئلے پر1973میں احمد آباد میں سیمینار منقعد کیا تھا جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے کی تھی۔ اس سیمینار میں دیوبندی ،جماعت اسلامی اور بریلوی علماء کے نمائندوں نے اپنے مقالے پیش کئے تھے۔ جو پاکستان سے بھی کتاب میں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مولانا پیر کرم شاہ الازہری کی بھی کتاب ” دعوت فکر” ساتھ شائع کی گئی ہے۔
شیخ الہند کے اصل جانشین ہندوستان میں مفتی عتیق الرحمن عثمانی تھے اور پاکستان میں مفتی حسام اللہ شریفی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے بینکوں کے سود کو اسلامی قرار دیا جس کی مفتی محمود نے مخالفت کی تھی۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سود ی بینکاری کو جواز بخش دیا جس کی مخالفت مفتی زرولی خان ، شیخ الحدیث مفتی حبیب اللہ شیخ ، مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور تحفظ ختم نبوت نمائش چورنگی کراچی کے دارالافتاء کے علاوہ پاکستان بھر سے سارے دیوبندی مدارس نے کی تھی۔ جو علماء اپنے علماء حق اکابر ین کے مشن سے روگردانی کرچکے ہیں وہ سپوت نہیں بلکہ کپوت بن چکے ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمن اور مفتی تقی عثمانی کے کاندھوں سے دیوبند کی گدھا گاڑی جوت دی جائے تو اس کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی طرف منسوب کرنا علماء دیوبند کی بہت بڑی توہین ہے۔ پہلے یہ توبہ کریں پھر علماء حق ہوسکتے ہیں لیکن جب تک گدھا کنویں سے نہیں نکالا جائے تو کنواں پاک نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے سودی نظام کو اسلامی قرار دینے سے ان کو تائب ہونا پڑے گا ۔ پھر عوام میں ان کی توبہ قبول ہوسکتی ہے اور انہوں اب وفاق المدارس کو بھی اپنے پیچھے لگادیا ہے۔
جب مولانا فضل الرحمن مفتی محمود کاسپوت تھاتو سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پرآ ب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔مجھ سے کہا تھا کہ ” کراچی کے اکابر علماء ومفتیان نے جو فتوے دئیے ہیں ان کو شائع کردیں۔ چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے اگریہ جانور کو ذبح کردیا توان کی ٹانگیں ہم پکڑ لیں گے”۔چونکہ دارالعلوم کراچی کے علماء ومفتیان نے اس پر دستخط اسلئے نہیں کئے کہ اس میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب ”اخبارالاخیار” کا حوالہ بھی تھا جس کا ترجمہ مولانا سبحان محمود نے کیا تھا، جس میں لکھا ہے کہ ”جب شیخ عبدالقادر جیلانی تقریر کرتے تھے تو تمام انبیاء کرام اور اولیاء عظام موجود ہوتے تھے اور نبی ۖ بھی جلوہ افروز ہوتے تھے”۔ پھر اس کتاب کے مترجم سے اپنی جان چھڑانے کیلئے مولانا سبحان محمود نے اپنا نام بدل کرسحبان محمود کردیا تھا۔ مفتی رفیع عثمانی نے اپنی کتاب ” علامات قیامت اور نزول مسیح ” میں حدیث نقل کی ہے کہ دجال سے بدتر حکمران اور لیڈر ہوں گے۔ انہوں نے سیاسی لیڈر مراد لیا ہے لیکن اس سے مذہبی لیڈر مراد ہیں۔ جو ایک دوسرے کفر کے فتوے بھی مفادپرستی کی بنیاد پر لگاتے ہیں اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کے بھی بدترین مرتکب ہوتے ہیں۔
عورت کے حقوق کیلئے پنجاب حکومت مریم نواز کی قیادت یہ بنیادی نکات اٹھائے تو پاکستان میں انقلاب آسکتا ہے۔
نمبر1:عورت کو نہ صرف خلع کا حق حاصل ہے بلکہ عدالت میں جانے کی ضرورت بھی نہیںہے۔ شوہر اسکا خود ساختہ مالک نہیں ہے۔عورت جب چاہے شوہر کو چھوڑنے کا حق رکھتی ہے اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اور شوہر کی طرف سے دی گئی تمام وہ چیزیں بھی واپس نہیں کرے گی جو لے جائی جاتی ہیں ۔ البتہ غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ، دکان اور فیکٹری وغیرہ واپس کرنا ہوں گی اسلئے کہ خلع میں شوہر کا کوئی قصور نہیں ہوتا ہے۔
سورہ النساء کی آیت19میں خلع کا حکم واضح ہے اور سورہ النساء کی آیت20،21میں طلاق کے احکام ہیں۔ طلاق کی صورت میں دی ہوئی تمام چیزوں منقولہ وغیرمنقولہ گھر، باغ، جائیداد اور دئیے ہوئے خزانوں کی مالک بھی عورت ہوگی۔ سورہ بقرہ کی آیت 229میں خلع نہیں طلاق کا ذکر ہے اور اس سے خلع مراد نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ صورت ہے کہ جس میں عدت کے اندر تین مرتبہ الگ الگ طلاق ہوچکی ہو۔ دونوں کو خوف ہو اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنیوالوں کو بھی خوف ہو کہ اگر دی ہوئی کوئی خاص چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس دی ہوئی چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ جب یہ طے ہوگیا تو یہ وہی صورت ہے جس میں میاں بیوی دونوں صلح نہیں چاہتے تو ایسی صورت میں شوہر کیلئے وہ حلال نہیں رہتی جب تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ اس کا مقصد صرف عورت کو اپنے سابقہ شوہر کی دسترس سے باہر نکالنا ہے اور بس۔
نمبر2: خلع کی صورت میں عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے اور اس میں شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہے۔طلاق کی صورت میں بھی عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو عدت میں رجوع کا اختیار نہیں ہے۔ بشریٰ بی بی نے خاور مانیکا سے خلع لیا تھا اسلئے ایک مہینے میں عدت پوری ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اس کو رجوع کا حق نہیں تھا اسلئے عدالت کا خاور مانیکا کے کہنے پر اس کے حق کو مجروح کرنے کی بات پر سزا دینا غلط ہے۔ طلاق میں بھی شوہر کو عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق نہیں ہوتا ہے اور اس غلط مسئلے کی وجہ سے قرآنی آیات کے ترجمہ وتفسیر میں بڑی سنگین غلطیوں کے علاوہ فقہ میں ناقابل حل مسائل بنائے گئے ہیں۔ بہشتی زیور سے لیکر درس نظامی میں پڑھائی جانیوالی کتابوں مسائل کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس گھمبیر مسئلے نے مذہبی طبقات کی فطرت کیسے بگاڑ دی ہے؟ ۔نبی ۖ نے فرمایا کہ ” انسان اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہود ونصاریٰ بنادیتے ہیں”۔ آج یہ حدیث مسلمانوں پر فٹ ہوتی ہے کہ جو لوگ مذہبی طبقات سے دور ہوتے ہیں تو ان کی فطرت سلامت ہوتی ہے اور جن کو اس مذہبی طبقے نے اپنے ماحول میں جھونک دیا ہوتا ہے جس نے یہود ونصاریٰ کی طرح اپنی انسانی فطرت کو بگاڑ دیا ہوتا ہے تو وہ حق کو قبول کرنے سے بگڑی فطرت کی وجہ سے انکار کرتا ہے۔
آئندہ شمارہ انشاء اللہ8عورت مارچ پرہوگا اسلئے کہ نعرہ بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ٹھوس حقائق کی ضرورت ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے

پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے

جب ہم نے ان کیلئے آواز نہیں اٹھائی تو آج ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا ، کل ہمارا نظام اور ہمارا آئین چوری ہوگا اسلئے سب کو فیصلہ کرنا ہوگا
بھٹو، عمران خان اور نواز شریف کے جیالے کم از کم اکھٹے ہوتے کبھی ایک کو پھانسی دی کبھی ایک اذیت میں اور کبھی دوسرا اذیت میں ہے

ANPکے سینیٹر عمر فاروق کا سینیٹ میں خطاب: آج تمام دوستوں کی باتیں سن کر جو جیتے ہیں جو ہارے ہیں سب مایوس کن نظر آرہا ہے لیکن اصل بات آج بھی کوئی نہیں کررہا ہے۔ ہم اپنے مینڈیٹ کی بات کر رہے ہیں آج چار چار مہینے ہم پہ جو گزری ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہہ رہا کوئی کہ یہ کر کون رہا ہے؟۔ یہ ہوا کیسے؟۔تو ان چیزوں کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے کہ آج ہمارا نظام کس کے ہاتھوں میں ہے؟۔ ایک پریزائڈنگ افسر یا کمشنر ہمارے ساتھ یہ کر رہا ہے؟۔ ہم تو آج اس پہ بحث کرنا چاہ رہے تھے کہ سینٹ میں بیٹھ کے ہم اس پہ بات کریں کہ ہم نے اپنا تمام نظام، تمام جمہوری ادارے، سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کسی اور کے ہاتھوں میں دے دیے ہیں۔ یہ کسی اور کے رحم و کرم پہ چل رہے ہیں۔ اور اسکے خلاف جب تک ہم سیاسی پارٹیاں آپس میں ون ایجنڈا کے تحت بات نہیں کریں گے اس کو آپ کیسے آزاد کرو گے؟۔ ہم بات کر رہے ہیں مینڈیٹ کی تو یہ کس نے چرایا ہے ؟۔ آپ کو90،93دیے یا کسی کو ایک بھی نہیں دیا تویہ کس نے کیا ؟۔ یہ کسی سیاسی پارٹی نے تو نہیں کیا۔ پہلے دن سے یہی طریقہ کار چل رہا ہے کہ ہماری جو بڑی پارٹیاں ہیں جو وزیراعظم بننے کے خواب دیکھتے اور خواہش رکھتے ہیں ان کو کبھی یہی ادارے ملک بدر کر دیتے ہیں لیکن بعد میں وہ ان کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں اقتدار کیلئے۔ ان کی بڑی لیڈرشپ کو پھانسی دی جاتی ہے لیکن آج وہ انکے رحم و کرم پہ اپنی سیاست کر رہے ہوتے ہیں۔ آج جو عمران خان کیساتھ کر رہے ہیں کیا عمران خان سے ان کا تعلق نہیں تھا؟۔ پھر بھی ہم سبق نہیں سیکھ رہے ہمیں مسئلہ اس چیز سے ہے۔ آج تو کم سے کم بھٹو، عمران خان، نواز شریف کے جو جیالے ہیں یہ تو کم سے کم ایک ساتھ بیٹھیں کہ ہمارے ساتھ کیا کس نے ہے؟۔ ہم ایک ایجنڈا پہ کیوں نہیں اکھٹے ہو سکتے کہ ہم اس سے جان چھڑائیں۔ ہم اپنی فارن پالیسی ان سے چھڑائیں۔ کس آئین میں یہ اختیار ملا ہے کہ کسی فوجی افسر کے پاس سیاستدان جائیگا پیسے جمع کرے گا تو اس کو سیٹ ملے گی؟۔ یہ کس نظام کی طرف ہم اپنے بچوں کو لے جا رہے ہیں۔ کل ہماری جگہ پہ ہماری آنے والی نسلیں اس سینٹ میں آئیں گی تو کس حساب سے آئیں گی؟۔ ہر کسی کے پاس اربوں روپے ہوں گے تو وہ آئیگا؟۔ ایک سیاسی کارکن تو یہاں نہیں آ سکتا نہ آپ کا کوئی سیاسی کارکن پاکستان میںMNAبن سکتا ہے نہ آپ کا کوئی سیاسی کارکنMPAبن سکتا ہے، نہ نمائندہ نہ سینٹر بن سکتا ہے جناب چیئرمین صاحب۔ آج آپ کا نظام ایسی نہج پہ پہنچا ہے اگر اس کو آج بھی آپ لوگوں نے سیریس کور نہیں کیا آج بھی آپ نے اپنی آنے والی نسلوں کیلئے اس کو ٹھیک نہیں کیا تو آپ یقین مانیں کہ پاکستان ایک ایسے راستے پہ جا رہا ہے جو ختم ہونے والا راستہ ہے۔ یہاں پہ ہمارے سینیٹر صاحب نے بات کی کہ تین چار مہینے میں کیا گزرا۔(ایک سینیٹر نے اپنی آپ بیتی بیان کی وہ زندہ لاش ہے۔اس کو بہت تشدد کا نشانہ بنایا گیا ) میں اس ہاؤس سے پوچھتا ہوںکہ یہاں پہ مسنگ پرسنز کی جو ہماری بچیاں آئیں۔ پانچ پانچ چھ چھ سال سے ان کا بیٹا یا شوہر یا والد مسنگ ہے ۔ دکھ اس بات پرہے کہ آپ سوچیں کہ ان کو کتنی تکلیف ہوگی کہ ڈیلی بیسز پہ ان کو فون آتا ہے کہ کوئی لاش کسی پہاڑ سے ملی ہے تو جتنے لوگوں کے ورثہ کو مسنگ کیا گیا ہوتا ہے وہ سارے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں لائن میں کھڑے رہتے ہیں تین تین چار چار گھنٹے لائنوں میں دو دو دن اسکے انتظار میں کہ میرا بیٹا تو نہ ہوگا، میرا والد تو نہ ہوگا۔جب سے پاکستان بنا ہے اتنی اذیت سے ہمیں اور بلوچستان کو گزارا جارہا ہے ۔اس کیلئے کسی نے بات کی؟۔مسنگ پرسنز پہ آنکھیں بند کیں تو آج آپ کے مینڈیٹس مسنگ ہوئے کل باقی چیزیں مسنگ ہوں گی۔کل آپ کا نظام آپ کا آئین مسنگ ہوگا۔ ہمارے بڑے باچاخان بابا مخالفت کرتے تھے اس پاکستان کی وہ اس پاکستان کی مخالفت نہیں کرتے تھے کہ آپ پاکستان مت بنائیں ۔یہ والا پاکستان مت بنائیں اس کا یہ مؤقف تھا کہ یہ آج جو یہ قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر ہم نے لگائی ہے کیا آج یہ اسی قائد اعظم محمد علی جناح کا نظام ہے؟۔ آج پاکستان اس نظام سے چل رہا ہے؟۔ جس مقصد کے لیے انہوں نے بنایا تھا اس مقصد کے لیے چل رہا ہے؟۔آج آپ کےAPSکے جو بچوں کے قاتل ہیں وہGHQسے چھڑائے گئے ہیں۔ آپ کا سارا نظام آج یہی فوجی نظام چلا رہے ہیں۔ آج ہم کیا کر رہے ہیں جناب چیئرمین صاحب؟۔ ایک طرف ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور ایک طرف اسکے خلاف ہم کھڑے نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ آپ کھڑے ہوں گے تو آپ کے بچے کو مار دیا جائے گا۔ آپ نے اگر حق بات کی آپ سے سیٹ لی جائے گی۔ ہم سارے یہاں پہ مسلمان ایماندار لوگ ہیں ایک دن آپ نے پیدا ہونا ہے ایک دن مرنا ہے کم سے کم یہ جب آپ سوچیں گے اس حساب سے آپ آئیں گے تو آپ بات کر سکیں گے آج بھی ہم یہاں رو رہے ہیں کہ ہم الیکشن کمیشن کے خلاف جائیں گے۔ کیوں بھائی!انکے کیخلاف کیوں جائیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا ہے؟۔ جس ادارے نے یہ کروایا ہے اسکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ جن اداروں کی وائس نوٹ صوبوں میں نکلے ہیں پیسے لیتے ہوئے انکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ ہمیں تو انکے اوریجنل نام نہیں معلوم، جو فیک نام انہوں نے رکھے ہیں اور بولیاں لگائی ہوئی ہیں20،20کروڑ کی اسکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ مجھے تو سمجھ نہیں آرہا جناب چیئرمین صاحب کہ ہم کس نظام اور کس آئین کی طرف جا رہے ہیں؟۔ یہاں پارلیمنٹ لاجس سے باہر نکلتے ہوئے پارک میں کچھ بن رہا ہے تو میں نے پوچھا کیا بن رہا ہے کہتا ہے آئین۔ میں نے کہا کون سا آئین جو ہمارے ٹیبل پہ پڑا ہوتا ہے وہ یا جو اس ملک کے حقیقی جو چلا رہے ہیں وہ والا آئین لگائیں گے ؟۔ ایک آئین سلیکٹ کر لیں ہم وہیں پہ چلے جائیں گے لیکن ہمیں ایک آئین کی کتاب کچھ اور دکھاتے ہو اور پاکستان کسی اورطریقے سے چلا رہے ہو۔ ان چیزوں کے خلاف ہم سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا اس نظام کو اگر آپ اس طرح نہیں بدلو گے تو آپ کا مینڈیٹ تو چھوڑیں آپ اپنے ساتھیوں کو پیدا نہیں کر سکیں گے جو بلوچستان کے ساتھ ہوا ہے وہ مسنگ ہر صوبے میں آپ کے پولیٹیکل لوگوں کے ساتھ ہوگا ۔ہمارا تو یہی مؤقف ہے اس پارلیمان میں ہمیں پارٹی کی حیثیت سے بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ کولیگز کی حیثیت سے یہاں پہ ہمیں ایک نظام لانا چاہیے۔ ہمیں ایسے بلز لانے چاہئیں کہ ہم ایک ساتھ ہوں اور اس پاکستان کو اب ریزولوشن کی ضرورت میرے خیال سے نہیں کہ آج ایک موشن پہ ہم بات کر رہے ہیں ریوولوشن کی ضرورت ہے ایک ریوولوشن جس پہ ہم تمام پارٹیاں مل کر اس کیلئے جدوجہد کریں اور اس پاکستان کو ان لوگوں سے آزاد کرائیں تو تب ہمارا پارلیمانی نظام بہتر ہوگا ۔

PTIکے رہنما عون عباس کی رونگٹے کھڑے کرواددینے والی روداد
سینیٹر عون عباس نے سینٹ میں کہا کہ مجھے لاہور ڈیفنس سے اٹھالیا گیا۔14دن میں جو بھی چلہ کاٹا واپسی پر ایک اسٹیٹمنٹ دے دی تھی کہ میں جنوبی پنجاب تحریک انصاف کی صدارت سے استعفیٰ دیتا ہوںاور9مئی کی مذمت کرتا ہوں اور مجھے آزاد کردیا گیا۔ آزاد تو ہوگیا لیکن ایک زندہ لاش ہوں ایک ایسی زندہ لاش جو نہ سوچ سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے نہ بول سکتا ہے۔ مجھے نفرت ہوتی جارہی ہے اس ایوان میں بیٹھ کر اس تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے جو مجھے اس چیز کا یقین دلاتی ہے کہ میں آزاد ہوں، میں آزاد نہیں ہوں۔ اگر مجھے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت یہ ریاست نہیں دے سکتی تو میرا یہاں جینے کا حق بھی نہیں بنتا۔ کون ہوتا ہے کہ جو مجھے ڈکٹیٹ کرے کہ میں کیا ہوں اور کیا سوچ سکتا ہوں؟۔ آپ کو اندازہ نہیںکہ پچھلے6،8مہینے کتنے کرب میں گزارے ہیں۔ سارے لوگ یہاں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے تھے سینٹ کا سیشن میں دیکھ رہا ہوتا تھا جب میں گھر میں چھپا ہوتا تھا۔ یہ باتیں کرنا آسان ہے آج آپ رگنگ کی باتیں کررہے ہیں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے مجھے آج تک ایک پلیٹ فارم نہیں دیا گیا۔ افسوس ہوتا ہے کہ یہاں بیٹھ کر سارے باتیں کررہے ہیں رگنگ پر لیکن ان بیچارے ورکروں کے ساتھ ہمارے دوستوں اور پی ٹی آئی کے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے آج تک کسی نے اس پر بات نہیں کی۔ یقین جانیں اگر میں ایک روداد سنا دوں تو آپ پریشان ہوجائیں گے۔ ان4مہینوں میں جب چھپا ہوا تھا میرا گھر گرادیا گیا ۔ میری فیکٹری میرے کاروبار بند کردئیے گئے۔ ایک چھوٹا سا زمیندار ہوں۔ آموں کے باغ پر جو باغ سنبھالتے ہیں ان کو اٹھاکر لے گئے باغ بھی برباد ہوگئے سر۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مغربی جمہوری نظام مکمل طور پر ناکام

مغربی جمہوری نظام مکمل طور پر ناکام
وطن عزیز پاکستان میں76برس سے جمہوریت کے نام پر ایک ایسا فرسودہ نظام رائج ہے جس میں نام نہاد عوامی مینڈیٹ کے نام پر چند خاندان چہرے بدل بدل کر عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے اقتدار کے ایوانوں میں مسلط ہیں۔ ایسا نظام جس میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے والے سیاست دان چند ذاتی سیاسی فوائد کیلئے ایک دوسرے کو گلے لگانے لگتے ہیں اس نظام میں سیاستدانوں کے نزدیک سیاست عوام کی خدمت نہیں بلکہ انکے منہ سے نوالہ چھین لینے کا نام ہے نظریہ ضرورت ان کا نظریہ کرپشن اور بے ایمانی ان کا ایمان اور عوام کو بے وقوف بنانا ان کی عقل و دانش کا معیار ہے ان کی عدالت میں ظلم و نا انصافی کا نام انصاف رکھ دیا گیا ہے۔ عوام کو مہنگائی و بے روزگاری جیسے مسائل میں الجھائے رکھنا ان کا مشغلہ ہے۔ تعصبات کو ہوا دے کر عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے میں ان کے سیاسی مفادات کا راز پوشیدہ ہے یہ ابن الوقت سیاستدان نظریہ پاکستان یعنی اللہ کی دھرتی پر اللہ کے نظام سے کبھی بھی وفادار نہیں ہو سکتے یہ ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جس کے تحت چند افراد کے ہاتھ میں تمام وسائل دے کر عوام کو محکوم و مجبور بنا دیا جاتا ہے اب وہ وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کے باشعور عوام اپنا فرض پہچان کر اس فرسودہ مغربی جمہوری نظام اور اسکے پروردہ سیاستدانوں کو ہمیشہ کیلئے گھر کا راستہ دکھا دیں ہمیں متحد ہو کر ایسی قیادت کو سامنے لانا ہوگا جو بہترین صلاحیت رکھنے کیساتھ ساتھ نہ صرف اسلامی طرز زندگی کا نمونہ ہو بلکہ اسلام کو نظام حکومت و سیاست کے طور پر نافذ کر کے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے عملی اقدامات کرے۔

ازایڈیٹرنوشتۂ دیواراجمل ملک

سوشل میڈیا پر یہ امانت کسی مخلص انسان کی ہوسکتی ہے مگر سعودی عرب، ایران اور افغانستان کے اسلامی ماڈل کے علاوہ ہمارے امیرالمؤمنین جنرل ضیاء الحق ، جنرل ایوب اورجنرل پرویر مشرف کے ماڈل بھی اہل پاکستان کو قبول نہیں۔ مغرب کی جمہوریت یہاں نہیں بلکہ شخصیات وخاندانوں کا قبضہ مافیا ہے۔ اگر اسلام کا معاشرتی ومعاشی نظام آگیا تو سیاست بدلے گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv