پوسٹ تلاش کریں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا

نبی ۖ نے اپنے چچا عباس کے سود کو معاف کرنے کا اعلان فتح مکہ کے بعد کیا لیکن مزارعت کو بہت پہلے سے سود قرار دیکر مدینہ میں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے یثرب مدینہ بن گیا
اگر پاکستان کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں محنت کش عوام کو بنجر زمینیںمفت میں فصل ،باغات اور جنگل اُگانے کیلئے دی گئیں تو اناج ،پھل ،لکڑی سے غربت کا خاتمہ اور جنت کا منظر ہوگا

ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھاتو سندھ اور پنجاب میں مقبول ہوا، عوام کو پتہ نہ تھا کہ سوشلزم کیا ہے؟۔ آج تک پڑھے لکھے لوگوں کو ادراک نہیں۔جاہل لوگوں میں بھٹو کی مقبولیت اسلئے بڑھ گئی تھی کہ انڈسٹریوں کو سرکار کی تحویل میں لیا گیا تو مزدورطبقے کو یقین دہانی کرائی گئی کہ سرکار تمہاری ہے اور سرمایہ داروں سے انڈسڑیوں کو چھین لیا۔ پختونخواہ میں آج تک بہت سی زمینوں پر غریب مزارعین نے قبضہ کرلیا اور زمین مالکان ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بینظیر بھٹو نے باپ کے برعکس سرکاری اداروں کو پرائیوٹ کردیا۔ عوام کو کچھ سمجھ نہیں کہ باپ اور بیٹی میں کیا تضادتھا؟۔ روس امریکہ کی سرد جنگ کا ایندھن افغانستان اور پاکستان بن گئے۔اسرائیل نے فلسطین میں بچوں،خواتین اور انسانیت کا بہت برا حال کیا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عزام کا تعلق فلسطین سے تھا جس کو اپنی سرزمین کی فکر نہ تھی۔ سعودی عرب کے تنخواہ دار نے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کو افغان جنگ میں جھونک دیا۔ بینظیر بھٹو نوازشریف پر اسامہ اور اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگاتی تھی ۔ نوازشریف بینظیر بھٹو کوامریکی ایجنٹ کہتا تھا۔ بینظیر بھٹو نے نصیراللہ بابر کے ذریعے امریکہ کیلئے طالبان حکومت قائم کی ۔نوازشریف نے مولانا لاہوری کے پوتے مولانا اجمل قادری کو اسرائیل بھیجا ۔25فیصد سود کو اسلامی بینکاری قرار دیا۔ بیت المقدس کو چھوڑ کر ابھی مکہ مدینہ پر یہودی قبضہ کی بات ہے۔ اگر مزارعت سے سودی نظام کے خاتمے کی ابتداء ہوگئی تو بینکاری کے سودی نظام سے بھی چھٹکارا مل جائیگا۔ اقتصادی تباہی سے ہمارا دینی، ہمارا دفاعی اور سیاسی نظام سب کچھ اغیار کے حوالے ہوجائیگا۔ آج اگر مزارعت سے ابتداء کرلی تو عالمی سودی نظام سے بھی جلد چھٹکارا مل جائے گا۔ اللہ ہمارے اہل اقتدار کو عقل دے۔ جاگیردار اور سرمایہ دار کیلئے بھی مہنگائی ہے۔ غریب و محنت کش کو ریلیف دینے سے نہ صرف سب کو ریلیف مل جائے گا بلکہ لینڈ مافیا اور ظالموں کو بھی لگام مل جائے گی۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور اس کو اسلامی بنیاد پر جنت نظیر بننے میں دیر نہیں لگے گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اور انہوں نے چال چلی اور اللہ نے چال چلی اور اللہ بہتر چال چلنے والا ہے۔ شہبازوزیراعظم بننے اور زرداری صدر مملکت بننے کا نتیجہ آخرکیا نکلے گا؟

ومکروا ومکراللہ واللہ خیر الماکرین
اور انہوں نے چال چلی اور اللہ نے چال چلی اور اللہ بہتر چال چلنے والا ہے۔ شہبازوزیراعظم بننے اور زرداری صدر مملکت بننے کا نتیجہ آخرکیا نکلے گا؟

واتقوا النار التی وقودھا الناس و الحجارة
اور اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں
پیپلزپارٹی نے اگرجمہوریت کی بقاء کیلئے فیصلہ کیا ہوتا کہ تحریک انصاف نے عمر ایوب کو وزیراعظم نامزد کیا ہے ہم پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت ہیں اسلئے شہبازشریف اور عمر ایوب کے درمیان وزیراعظم کیلئے بالکل غیرمشروط عمر ایوب کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں تواس کا سب سے زبردست نتیجہ یہ نکلتا کہ جمہوریت اور عوام کا بھلا ہوجاتا۔ لیکن پیپلزپارٹی شاید جمہوریت اور عوام سے زیادہ اپنے مفادات کے کھیل کو ترجیح دیتی ہے اور یہ سمجھ رہی ہے کہ میری لاٹری نکلی ہے۔ پنجاب کی دونوں بڑی پارٹیاں تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان کھل کر کھیل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ جو اسٹیبلیشمنٹ اور مسلم لیگ ن کل تک پیپلزپارٹی کی بساط سندھ میں بھی لپیٹنے کے چکر میں تھی آج وہ زرداری کو صدر مملکت بنانے پر بھی مجبور ہیں جو انکے دل و دماغ میں پھوڑا بن کر نکلے گا۔ مرکزی حکومت کمزور گدھیڑے کی طرح ہاتھ کا کھلونا ہوگی جس سے سندھ حکومت کو تحفظ دینے کیساتھ ساتھ18ویںترمیم کی ان شقوں کو بچانے کا موقع ملے گا جس کو ن لیگ اور تحریک انصاف پرائے بچے کی طرح کھڈے لائن لگانا چاہیں تو لگام ہاتھ میں ہوگی۔ پھر جمعیت علماء اسلام،پختونخواہ ، بلوچستان اورسندھ کی پارٹیوں نے صدر زرداری کی سیاست کو سلام پیش کرنا ہے۔ تحریک انصاف شروع سے18ویں ترمیم کا خاتمہ چاہتی تھی لیکن اس کو موقع نہیں مل سکا۔ حالیہ دنوں میں اپنے نئے منشور کا اعلان بھی اسلئے کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیدیا کہ
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
اپنی خدمات کسے پیش کریں کوئی جوہر قابل ہی نہیں
پیپلزپارٹی یہ سمجھ رہی ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں وہ گدھیڑیاں ہیں جو اپنی دم ہمیشہ اٹھا کر جیتے ہیں۔اسٹیبلیشمنٹ کے گدھے اور ان کے درمیان فاصلہ نہیں رکھا تو چھوٹے تینوں صوبوں کو بھی مرکز یت کی بھینٹ چڑھاکر پنجاب کیلئے تختہ مشق بنادینگے۔ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ من پسند لوگوں کو منتخب کرتی ہے اورپختونخواہ میں تیسری بار تحریک انصاف کو لایا گیا جو صوبے کا فنڈز لگانے کے بجائے صحیح سلامت واپس کردیتی ہے اور پنجاب میں ہمیشہ اطاعت گزار طبقہ ہوتا ہے جو مرکز کو فنڈز واپس کردیتا ہے لیکن ایک سندھ ہے جو ایک پائی بھی مرکز کو واپس نہیں کرتا ۔ پیرپگاڑو اور علامہ راشد محمود سومرو کو پہلے یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ حامد میر کے پروگرام میں انصار عباسی نے بتایا تھا کہGHQنے مولانا کوپلاٹوں سے بہت نواز دیا اسلئے نواز لیگ بن گیا۔ حالانکہ انصار عباسی کے ذاتی گھر تک شہباز شریف نے کروڑوں کے روڈ کا خرچہ کیا تو حامد میروہ بھی بتادیتے!۔

تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن پر چیک ہوئے
بالفرض تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نےMQM، جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان ،تحریک لبیک، عوامی نیشنل پارٹی ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور سندھیوں و بلوچوں کی قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ قومی حکومت بنالی تو کیا پھر عوام آنے والی مہنگائی کا بوجھ برداشت کرسکیں گے؟ اور نہیں تو سیکورٹی فورسز، سول بیرو کریسی اور عدالتوں کے ساتھ مل کر ان کے بدمعاش کارکن عوام کو سنبھال سکیں گے؟۔ قرآن نے سودی نظام کو اللہ اور اسکے رسولۖ کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ اسرائیل کی حکومت2.5%سود لیتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اب25%سے زیادہ سود ہے ۔ کون عذاب کا مستحق ہے؟۔جب ہماری سیاسی قیادت اورعسکری قیادت میں اتنا بھی دم خم نہیں ہے کہ عوام بھوک سے مررہی ہے ، مہنگائی کا طوفان ہے۔ گیس دستیاب نہیں ہے تو ایسی صورتحال میں ایران سے اپنے معاہدے کے مطابق گیس لے سکیں؟ ۔ تیل بڑے پیمانے پر سمگل کرنے کے بجائے عوام کو زبردست ریلیف دے سکیں؟۔تو پھر اس سے زیادہ غلامی کیا ہوسکتی ہے؟۔
عمران خان نے اعلان کردیا کہ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اورMQMکے علاوہ ساری جماعتوں سے اتحاد ہوسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اس کے بعد گرین سگنل دے دیا۔ تحریک انصاف کے وفد نے ملاقات کی اور دشمنی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ یہی سیاست ہوتی ہے۔ اگر تحریک انصاف اعلان کردیتی کہ سب سے بات ہوسکتی ہے تو زیادہ بہتر بات تھی۔ اگر تحریک انصاف کہتی کہ ن لیگ اورMQMکے علاوہ سب سے بات ہوسکتی ہے تو پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن سے مل کر حکومت بھی بنالیتے اور واضح دھاندلی کی نشستیں بھی پنجاب سے واپس لے سکتی تھی۔اپنی قیادت عمران خان اور کارکنوں کو جیلوں سے آزادی بھی دلاتی۔ کراچی میں بھی دھاندلی سے ہاری ہوئی سیٹوں کو واپس لینے کا موقع مل جاتا۔ سب سے بڑھ کر بات یہ کرسکتے تھے کہ فوج کو اپنی اصل پوزیشن پر واپس بھیج دیتے۔ پنجاب سے ن لیگ کا صفایا ہوجاتا تو سیاسی جماعتوں کی بالادستی یقینی ہوتی۔ صحافی حضرات بھی دلالی کا دھندہ چھوڑ دیتے۔ اب یہ تاثر باوثوق ذرائع سے پھیلایا جارہاہے کہ ن لیگ مرکز میں حکومت لینے کا ارادہ ترک کرچکی تھی لیکن ان سے کہا گیا کہ پھر پنجاب سے بھی بستر گول ہوگا۔ مریم نواز کی وزارت اعلیٰ نے مسلم لیگ ن کو زردای سے اتحاد کرنے پر مجبور کیا۔ سیاست حکمت کا نام ہے۔ اگر مریم نواز پنجاب اور مرکز میں عورت کے اسلامی حقوق کا ایجنڈہ اٹھالیتی ہے ۔ بشریٰ بی بی کے نکاح پر معاملہ واضح کردیتی ہے تو بڑا انقلاب آسکتا ہے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ ریاست چھچھوری بھی ہوتی ہے۔ وسعت اللہ خان

مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ ریاست چھچھوری بھی ہوتی ہے۔ وسعت اللہ خان

1970الیکشن کے نتائج سے سلیکٹر نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ کتنی آزادی دینی ہے وسعت اللہ

سب سے پہلے یہ ڈسکلیمر دینا چاہتا ہوں نرا صحافی ہوں میرا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور9مئی کے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ مظہر کے بارے میں عاصمہ اور ایک اور مقررہ نے کہا کہ انکی رپورٹنگ، اصول پسندی اوراس کی وجہ سے لفافے میں گولیاں بھر کے بھیجی گئیں۔ تو بھائی جب آپ لفافہ قبول نہیں کرو گے تو لفافے میں اور کیا آئے گا؟۔ یہ بھی کہا گیا کہ متوازن جرنلسٹ، غیر جانبدار جنرلسٹ ہیں میرے حساب سے جرنلسٹ کا متوازن اور غیر جانبدار ہونا یہ خوبی نہیں یہ عیب ہے۔ آپ کیسے متوازن ہو سکتے ہیں جب لوگ غیر متوازن ہوں۔ آپ کیسے غیر جانبدار ہو سکتے ہیں جب زیادتی ہو رہی ہو۔ آپ کو جانبدار ہونا پڑتا ہے اس کیلئے جس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اسلئے اچھی بات یہ ہوگی کہ اگر آپ نہ متوازن ہوں نہ غیر جانبدار ہوں۔ غیر جانبدار ویسٹرن میڈیا ہے اگر غزہ ہو ورنہ وہ بھی غیر جانبدار نہیں ہوتا ہے اور پاکستان میں ایسے بہت سے ایشوز ہیں کہ میرے خیال میں وہاں صحافی کا غیر جانبدار ہونا جانبدار ہونے سے بھی زیادہ برا ہے ۔ اس میں نو گو ایریاز ہیں، انسانی حقوق کے بے شمار ایشوز ہیں، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ، اگر کوئی تعلق نہیں تو پھر ہمارا صحافت سے بھی کوئی تعلق نہیں سیدھی سی بات ہے ۔ سیاست ہمیشہ سے اس ملک میں100میٹر کی بجائے ایک ہرڈل دوڑ رہی ہے اور ہر دفعہ رکاوٹیں جو ہیں وہ بدل دی جاتی ہیں۔ ایبڈو لگا دیا جاتا ہے اس کے بعد ایمرجنسی لگا دی جاتی ہے اگر ایبڈو سے کام نہیں چل رہا ہے تو پہلے احتساب ہوگا پھر انتخاب ہوگا وہ چھلنی لگا دی جاتی ہے۔ اس سے کام نہ چلے تو پھر58-2Bآ جاتی ہے اس سے بھی کام نہ چلے تو62،63کے تحت جو سب سے کاذب آدمی ہے وہ میرے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ میں صادق اور امین ہوں یا نہیں ۔ اس سے کام نہیں چلتا تو کہتے ہیں کہ جی ووٹر تو خیرجاہل ہیں لیکن کینڈیڈیٹ کو تو کم از کم جاہل نہیں ہونا چاہیے ۔ تو پھر ایسے ایسے گریجویٹ سامنے آتے ہیں2002میں کے بعد وہ شرط خود بخود کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ اس سے کام نہیں چلتا تو نیب کی چھلنی میں چھن کے جاؤ گے تو ہم تمہارے ساتھ بات کریں گے اس سے کام نہیں چلتا ہے تو کہتے ہیں ٹھیک ہے آپ الیکشن میں حصہ لے لیں لیکن انتخابی نشان نہیں دیں گے۔ اس سے بھی اگر کام نہ چلے تو مجھے بتایا گیا ہے کہ بحیرہ عرب میں ایسی10،15شارکیں ہیں جو27تاریخ کو ٹھیک ساڑھے چار بجے انٹرنیٹ کی تار کاٹ دیتی ہیں۔
میرا جو بیک گرانڈ ہے وہ انٹرنیشنل ریلیشنز کا ہے مظہر جانتا ہے۔ میں نے جو ہسٹری پڑھی ہے سٹیٹس کی اس میںویلفیئر سٹیٹس پڑھی ہیں۔ فاشسٹ اسٹیٹ بھی ہوتی ہے، ہائبرڈ سٹیٹ بھی ہوتی ہے لیکن پہلی دفعہ مجھے یہ پتہ چل رہا ہے کہ چھچوری ریاست بھی ہو سکتی ہے جو چلمن سے لگی ہوئی ہے سامنے بھی نہیں آرہی ہے سیدھا سیدھا کہہ دو یار تو یہ کام نہیں کر سکتا اس میں کیا قباحت ہے ماضی میں آپ یہ کر چکے ہیں۔ اب آپ کو جو ہے نین تارہ بن کے گھونگٹ نکال کے وہی حرکتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سیدھا سیدھا سامنے آئیں ہم نے پہلے بھی صبر کیا ہم آگے بھی صبر کر لیں گے۔ ہم میں کچھ اور خوبی ہو نہ ہو لیکن صبر کی خوبی تو بڑی مثالی ہے ہم نے ایک ایک چیز کو جو ہے ایک ایک تجربے کو برداشت کر لیا ہے ہم نے تو ایسے سیاست دان بھی برداشت کر لیے ہیں جن کے لیے ایک کی مصیبت دوسرے کے لیے سنہری موقع بن جاتی ہے اور وہ یہ سوچے بغیر کہ کل وہ بھی اس شکنجے میں آ جائیں گے وہ بقول فراز کے کہ
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا گدا گرانے سخن کے ہجوم سامنے تھے
رول انکے چینج ہوتے ہیں پھرآخر میں مجبور دلہن بن کے وہ سائن کر دیتے ہیں جو کاغذ سامنے پڑا ہو۔ یہ جو جسے ہم کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ یا عسکری قیادت یا ہائبرڈ سسٹم یا طالع آزما کچھ بھی کہہ لیں۔ یہ درست ہے کہ70کے الیکشن نسبتاً پہلی دفعہ ون مین ون ووٹ کا مزہ چکھ رہے تھے عوام بھی اور حکمران بھی تو دونوں کو نہیں پتہ تھا کہ کیا کرنا ہے تو انہوں نے بھول پن میں جو ان کے دل میں آیا کہ جی یہ اچھا ہے اس کو ووٹ دے دیا۔ جب گڑبڑ ہو گئی تو اس کا تو وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے تیر کمان سے نکل چکا تھا انہوں نے کہا آئندہ یہ نہیں ہونے دیں گے۔ ایوب خان بالکل درست تھا ان لوگوں کو ووٹ دینے کی بالکل تمیز نہیں ہے اسی لیے بیسک ڈیموکریسی کی لیبارٹری سے ان لوگوں کو گزارنے کی کوشش کی لیکن ان کو ککھ عقل نہیں آئی ۔ لہٰذا ہم ان کو فیصلہ کرنے دیں گے بیلٹ ڈالنے کی حد تک لیکن جو اصل فیصلہ ہے وہ ہم ہمیشہ شام کو پانچ بجے پولنگ کے خاتمے کے بعد کریں گے۔ تو یہ فارمولا موٹا موٹا سا طے ہو گیا اور انکو شاید کسی نے یہ مقولہ بھی بتا دیا ہو کہ کتنے ووٹ پڑے اس کی اہمیت نہیں ہوتی، کتنے گنے گئے اس کی اہمیت ہوتی ہے تو یہ کم و بیش آپ کو فارمولا۔ اس میں یہ ہے کہ کبھی91،93،97،2002،2008،2013،2018اور2024کبھی نمک تیز ہو جاتا ہے مرچ ہلکی کر دیتے ہیں کبھی مرچ اور نمک جو ہے تیز کرنا پڑتا ہے وہ حالات کے حساب سے جو ہے وہ دیکھ لیا جاتا ہے۔ تو اس دفعہ بھی یہی ہوگا اور ایک اور چیز جو سیکھی گئی تھی70کے الیکشن کے نتائج سے کہ اب کسی کو کھلا ہاتھ نہیں دینا ہے۔ بھٹو صاحب نے بہت تنگ کیا تھا انہیں شروع شروع میں تو اب جو ہے جو بھی بنے گا اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مقناطیس لگا دیے جائیں گے علاقائی پارٹیوں کی شکل میں چھوٹی قومی پارٹیوں کی شکل میں مذہبی تنظیموں کی شکل میں اور وہ مقناطیس جو ہیں وہ بیلنس آف پاور جو ہیں وہ قائم رکھیں گے۔ کسی نے کہا تھا کہ ہماری جو ہیں دو ایکسپورٹس ہیں ایک تو کپاس ہے اور دوسری ہے ہائی براڈولرجی تو اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے سہیل وڑائچ نے آپ کی کتاب میں جو لکھا ہے تبصرہ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مظہر عباس کا سینہ رازوں سے بھرا ہوا ہے اب وقت آگیا ہے کہ وہ مرتضی بھٹو کے قتل، بے نظیر بھٹو سے ملاقاتوں اورMQMکی اندرونی کہانیوں اور لڑائیوں کا احوال بھی لکھیں۔ ابھی جب سہیل وڑائچ صاحب آئیں گے یہ دیکھیں میں نہیں کہہ رہا عوام تک بات پہنچ گئی ہے جو میں نے بغیر تبصرے کے آپ کو بتا دی تو سر ابھی انہیں کتابیں لکھنے دیں ۔ ایک زمانے میں جو ہے ایک لطیفہ بھی تھا بلکہ فاروق ستار صاحب کی مناسبت سے ہی وہ مشہور ہوا تھا اب چونکہ2015میں یہ اس لیے میں سنا سکتا ہوں وہ یہ تھا اچھا لطیفہ لطیفہ ہوتا ہے یعنی تردید مت کیجیے گا کہ یہ حقیقت تھی حقیقت نہیں تھی یہ لطیفہ ہے کہ جی فاروق ستار صاحب نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نون میں شامل ہو رہے ہیں ان کی نماز جنازہ کل سہ پہر ساڑھے چار بجے ادا کی جائے گی آئی ایم سوری یہ اس زمانے میں تھا تو یہاں جو چیزیں ہیں وہ اس طرح چلتی ہیں یہ جو آپ کو دیوانے نظر آتے ہیں بظاہر ہو سکتا ہے یہ دیوانے نہ ہوں ہو سکتا ہے آپ کو یہ دیوانے بنانے کے لیے دیوانے بنائے گئے ہوں۔ تو یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ پیش نظر رہنی چاہئیں اور8فروری کوآپ بھرپور انداز میں ووٹ دیجئے اور9مئی کے واقعات کی مذمت کرتے رہئے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں پر کم از کم معافی تومانگ لیں۔ سہیل وڑائچ

سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں پر کم از کم معافی تومانگ لیں۔ سہیل وڑائچ

جماعت اسلامی ضیاء الحق کیBٹیم اور نواز شریف فوجی گاڑی میں بیٹھ کر مخالف کو کچل رہا ہے

بہت شکریہ میںآج صبح لاہور سے آیا ہوں آپ اہل کراچی کیلئے سلام محبت لے کے آیا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ کراچی بدل گیا مجھے یاد ہے کہ میں کراچی آتا تھا تویہ وائلنس میں پوچھتا تھا کون کرتا ہے وہ کہتے تھے یہ پتہ نہیں کون کرتا ہے ہمیں پتہ نہیں چلتا ۔ تو بات یہ ہے کہ شکر ہے کچھ انہیں پتہ چلا ہے کراچی کے لوگوں کو کہ وائلنس کون کرتا ہے اور کہاں سے ہوتی ہے۔ جب کتاب کی لانچنگ ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں یہ آج شادی کی تقریب ہے مظہر عباس لاڑا ہیںیہ انکی شادی کی تقریب ہے۔ کتاب کو میں بہت اہم سمجھتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں ۔میری تقریر کے دو حصے ہیں ویسے تو ایک ہی تھا صحافت لیکن چونکہ سیاست کی بات چھڑی ہے تو وہ میں دو منٹ کے لیے مؤخرکر کے پہلے صحافت پہ بات کر لیتا ہوں۔ مظہر عباس آئیڈیل صحافی دنیائے صحافت میں کسی بھی مکتبہ فکر کو دیکھ لیں مظہر عباس آئیڈیل صحافی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ وہ صدارتی محل میں ہوں یا وزیراعظم کے ہم نشین یا لیاری کی غریب بستیوں میں انکے اندر کا صحافی ہر وقت جاگتا رہتا ہے۔ وہ نہ حکمرانوں کے دبدبے سے متاثر ہوئے اور نہ ہی جابروں کی دھمکیوں سے وہ اپنی دھن میں وہی کہتے ہیں جو انہیں کہنا چاہیے۔ انہیں اپنے قلم اور اپنی زبان پر مکمل کنٹرول ہے۔ وہ نہ کسی کی مخالفت میں حدیں پار کرتے ہیں نہ کسی کی حمایت میں چاپلوسی اور خوشامد اختیارکرتے ہیں۔ مظہر عباس زمانہ طالب علمی سے بائیں بازو کی نظریاتی سیاست میں متحرک رہے۔ بائیں بازو سے منسلک رہنے والے لوگ لازمی طور پر صاحب مطالعہ ہوتے ہیں ان کا دنیا کا ویژن بڑا واضح اور عوام دوست ہوتا ہے مظہر عباس انہی خوبیوں سے مزین ہو کر میدان صحافت میں اترے وہ عملی صحافت میں آئے تو اس وقت کراچی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ہار تھا ایک طرف ضیاء آمریت کے ظلم کا شکار پیپلز پارٹی تھی تو دوسری طرف اردو بولنے والوں کی محرومیوں کی نمائندہMQMتھی۔ مظہر عباس اس مشکل وقت میں دونوں مخالف جماعتوں میں ہمیشہ محترم رہے حالانکہ وہ دونوں پر تنقیداور غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔ انہیں لٹریچر کا تڑکا لگا ہے۔ انہیں ساری بڑی اردو شاعری ازبر ہے فیض کا ذکر ہو یا جوش کا ہندوستان کے اندر لٹریری رجحانات ہوں یا پاکستان میں شائع ہونے والی نئی کتابیں مظہر عباس اپڈیٹڈ ہوتے ہیں۔ مظہر عباس کا سینہ رازوں سے بھرا ہوا ہے وقت آگیا کہ وہ مرتضی بھٹو کے قتل ،بے نظیر سے گفتگو اور ایم کیو ایم کی اندرونی کہانیوں اور لڑائیوں کو لکھیں تاکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ مکمل ہو سکے ۔یہاں پر بڑے ماشااللہ سارے لوگ جتنے سٹیج پہ بیٹھے ہیں محترم ہیں لیکن شروع کرتے ہیں زبیر صاحب نے آ کر جمہوریت کی بات کی لیکن یہ بھول گئے کہ ان کے والد محترم جنرل غلام عمر وہ پاکستان کو جو آج اس جگہ کھڑا ہے فوج کے کردار کی وجہ سے اس میں وہ پلر تھے جنہوں نے سب سے پہلے پیپلز پارٹی، عوامی لیگ اور اس وقت کے عوامی نمائندوں کے خلاف سازشیں کیں پیسے بانٹیں اور ان کا ثبوت موجود ہے۔ پہلے تو انہیں ان سے برأت کا اعلان کرنا چاہیے کہ یہ غلط تھا پھر جمہوریت آئے گی ناں۔ بھئی آپ ہی نے تو جمہوریت کا بیڑا غرق کیا اور آپ ہی کہہ رہے ہیں کہ جناب جمہوریت ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی ماشااللہ جمہوریت کی بات کررہی ہے۔ اوبھائی آپ تو مارشل لاء کیBٹیم اور جنرل ضیاء الحق کے ساتھی،افغان جہاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ پاکستان کو تباہ کرنے میں آپ کے نظریات کا کردار تھا۔ کم از کم یہ تو کہیں کہ یار ہم نے ماضی میں بڑی غلطیاں کی ہیں آپ کون سے الیکشن کراتے ہیں۔ مجلس شوریٰ نام دیتی ہے جیسے ایران میں ہوتا ہے تو ان ناموں کو آپ ووٹ دیتے ہیں یہ کون سا الیکشن ہے۔ زبیر صاحب آپ کے والدجنرل غلام عمر کابھی پاکستانی سیاست کو گندا کرنے میں، سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچانے میں بہت بڑا کردار تھا، جنرل یحییٰ خان کے ایڈوائزر تھے اور انہوں نے پیسے بانٹے سیاست دانوں میں۔ تو آپ کو بھی ان کے غیر جمہوری کردار سے برأت کا اعلان کرنا چاہے۔ جناب فاروق ستار اورMQMسے گزارش یہ ہے کہ کراچی سب سے پڑھا لکھا شہر ،سارے آپ لوگ پڑھے لکھے کیا کرتے رہے ہیں ؟۔ الطاف بھائی کے کہنے پہ وائلنس کو سپورٹ کرتے رہے ،لوگوں کو مارنے کو سپورٹ کرتے رہے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے آپ کو کچھ خیال نہیں آیا کہ آپ میںکوئی تعلیم، کوئی عقل ہے کچھ خیال نہیں آیا ؟۔ تو بھائی آپ بھی کم از کم شرمندہ تو ہوں۔ زبیر صاحب سے مسلم لیگ ن کے آپ گورنر رہے ہیں تو سن لیں۔ بھئی گزارش یہ ہے کہ جو کام عمران خان نے2018میں کیا اس دفعہ آپ وہ کر رہے ہیں۔ بھئی وہ اسٹیبلشمنٹ کی گاڑی میں بیٹھ کے آیا تھا اور سب کو روند کے انہوں نے اس کو وزیراعظم بنا دیا اب آپ یہ کر رہے ہیں تو بھائی کیسے جمہوریت آئے گی؟۔ آپ سارے تو استعمال ہوتے ہیں۔ اگر تنقید کرتے ہیں تو سب نے میڈیا پہ پابندیاں لگائی ہیں۔ بھئی آپ بھی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔ پیپلز پارٹی، بھئی آپنے دو لیڈرشپ کی قربانیاں دیں بڑی بات ہے واحد پارٹی ہے جس نے اپنے لیڈرشپ کی قربانی دی لیکن اب آپ کیا کر رہے ہیں اب آپ تو فوج کے سیکنڈ کیا، تھرڈ کمانڈ کے سامنے بھی جھک کے آپ سیاست کر رہے ہیں۔ کیا یہ عوامی سیاست ہے ؟۔ آپ اس سے محروم طبقات کو فائدہ دیں گے؟۔ تو بھائی بنیادی بات یہ ہے کہ ہم تو آپ سیاست دانوں کے ہمیشہ خیر خواہ رہے میں نے اپنی زندگی بھر کسی سیاست دان پر کبھی الزام نہیں لگایا کبھی کوئی اس کا سکینڈل نہیں کیا کیونکہ میں سیاست دانوں کی عزت کرتا ہوں لیکن سیاسی جماعتوں کا کیا یہی کردار ہونا چاہیے ہمارے معاشرے میں؟۔ کیا یہی جمہوری کردار ہے؟۔ ہرگز نہیں! مظہر عباس اور میں اس کو نہیں مانتے۔ اور ہم نہیں مانیں گے تھینک یو ویری مچ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ایسٹ انڈیا کمپنی سے آج تک سلیکٹڈ و سلیکٹر کی سیاست۔ رضاربانی

ایسٹ انڈیا کمپنی سے آج تک سلیکٹڈ و سلیکٹر کی سیاست۔ رضاربانی

پاکستان کی ریاست نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نصاب میں تاریخ کو مسخ کر رکھا ہے

جناب مظہر عباس! اسٹیج پہ بیٹھے مقررین خواتین و حضرات! سب سے پہلے تو میں مظہر کا نہایت شکر گزار ہوں۔ مجھ سے پہلے نہایت تفصیل کیساتھ بہت اچھی تقاریر ہوئی اور میں نہیں سمجھتا کہ کچھ زیادہ گنجائش ہے کہ ان کو مزید وسعت دی جائے۔ مظہر کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں گو کہ مظہر کی کتاب کے مختلف آرٹیکلز چھپ چکے ہیں اور ایک جو نہیں چھپا اس کا مجموعہ ہے لیکن اس مجموعے کو میں ایک نوجوان نسل کیلئے ہسٹری بک بھی سمجھتا ہوں ۔کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان کی ریاست نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اور پاکستان کی عمومی تاریخ کو مسخ کیا ہے۔ اور آج جو نصاب یونیورسٹیز، کالجز اور سکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے اس میں تاریخ یقینی طور پہ وہ نہیں جو حقیقت میں ہے۔ نوجوان نسل اگر سیاسی تاریخ کا جائزہ لینا چاہتی ہے تو یقینی طور پہ مظہر کی یہ کتاب سنگ میل ہے۔ میرے حساب سے ہم بہت عرصے سے ایک دوسرے پہ الزام رکھتے چلے آئے اور آئندہ بھی یہ روش جاری رہے گی۔ لیکن آج پاکستان ایسے مرحلے پہ کھڑا ہے جہاں آپ جیسے لوگ جو دانشورہیں جو سوچ رکھتے ہیں جو فہم رکھتے ہیں ان کو یہ بات لازم ہے کہ اگر اس بھنور سے اس ملک نے نکلنا ہے اور یقینی نکلنا ہے تو ایک نیشنل ڈیبیٹ کا آغاز لازم ہے۔ اور نیشنل ڈیبیٹ آئیسولیشن میں نہیں ہوسکتی ہم اگر کہیں کہ جی یہ ایک لائٹ سوئچ ہے آف کریں گے تو کلISIکی مداخلت پاکستان کی سیاست میں ختم ہو جائے گی یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ اس خطے کی تاریخ کو اٹھا کے دیکھ لیں تو ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے کے آج دن تک سلیکٹڈ اور سلیکٹر کی سیاست ایک یا دوسری شکل کے اندر چلتی آئی ہے۔ پہلے برٹش راج سلیکٹرز تھا۔ برطانوی سامراج یہاں سے گیا تو بدقسمتی سے پاکستان سے سامراج تو چلا گیا لیکن کلونیل مائنڈ سیٹ اور کلونرائزیشن جو وہ کر کے گیا وہ آج دن تک موجود ہے آج بھی پاکستان کی نوکر شاہی چاہے سول یا ملٹری بیوروکریسی ہو اس کا وہی برطانوی سامراج کا کلونیل مائنڈ سیٹ ہے۔ لہٰذا وہی بات آج بھی چل رہی ہے۔47میں پاکستان کا جو مقصد تھا جس کو قائد اعظم نے بنایا اور کہا کہ یہ ویلفیئر سٹیٹ ہوگی لیکن انکے جانے کے بعد سول اور ملٹری بیورکریسی نے پاکستان کا مقصد تبدیل کر دیا اور اسے گیریزن سٹیٹ بنا دیا لہٰذا جب آپGarrisonStateبن جاتے ہیں جب آپ نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ بن جاتے ہیں تو آپ کے تقاضے مختلف ہو جاتے ہیں۔47میں اور اس کے بعد پاکستان کی ملٹری بیوروکریسی نے سول بیوروکریسی کو ساتھ ملاتے ہوئے مختلف پارٹنرز کی تلاش شروع کی اس میں سیاسی جماعتیں شامل تھیں اس میں مذہبی رائٹ شامل اس میں پاکستان کی عدلیہ شامل تھی۔ اور اس میں پاکستان کی معذرت کے ساتھ میڈیا کے کچھ اشخاص بھی شامل تھے جس کی جب ضرورت پڑتی تھی اس وقت وہ پسندیدہ ہوجاتے تھے۔
2017 میں جب میں چیئرمین سینٹ تھا تو ہم نے کمیٹی آف دی ہول کی اور چیف آف آرمی سٹاف کو بلایا اور چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جیISIاس کمیٹی آف دی ہول کے سامنے پیش ہوئے۔ اسی طرح ہم نے چیف جسٹس آف پاکستان اس وقت جمالی صاحب تھے ان سے درخواست کی کہ وہ بھی تشریف لائے۔ لیکن صرف ڈائیلاگ اس کا راستہ نہیں ہے ڈائیلاگ کے علاوہ سب سے بڑی چیز جو ہے وہ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ہے۔ جب تک مائنڈ سیٹ کی تبدیلی تمام سٹیک ہولڈرز کے اندر نہیں آئے گی اس وقت تک یہ ممکن نہیں ہے اور مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کون لائے گا؟۔ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی آپ لائیں گے۔ پاکستان کی سول سوسائٹی لیکر آئے گی۔ پاکستان کے دانشور لیکر ائیں گے۔ وہ پریشر بلڈ کریں گے کہ ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن اب حق ِحکمرانی پاکستان کے عوام کا ہے شکریہ بہت بہت شکریہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

نثار عثمانی نے صحافت میں سکھایا کہ وقت پر سچ بولا جائے۔ مظہر عباس

نثار عثمانی نے صحافت میں سکھایا کہ وقت پر سچ بولا جائے۔ مظہر عباس

جنرل حمید گل نے بتایا کہ1988میں جرنیلوں کو خطرہ تھا کہ بینظیر دو تہائی اکثریت لے گی

میں رضا ربانی، سہیل وڑائچ،زبیر صاحب کا ڈاکٹر ریاض شیخ ،وسعت اللہ خان، احمد شاہ اورآپ سب کا بے انتہا شکر گزار ہوں ۔ابھی میں سہیل صاحب سے بھی یہی کہہ رہا تھا کہ مجھے امید نہیں تھی کہ کسی کتاب کے لانچنگ میں ہال بھرا بھی رہ سکتا ہے۔ تو سہیل صاحب نے کہا کہ آپ کو اپنی مقبولیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ کتاب کا عنوان ”سلیکٹر سے سلیکٹڈ” تک یہ الفاظ ہماری سیاست میں نایاب تھے لیکن چند سالوں میں اس میں اضافہ ہو گیا اور جب یہ الفاظ آئے تو اس کی ایک خاص وجہ تھی اس کے بعد امپائر کی اصطلاح بھی آئی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا یہ اصطلاح بھی آئی اور کرکٹ کی تمام اصطلاحیں آئیں کیونکہ کرکٹر سیاست میں آگیا۔ جس کا ابھی اکرم ذکر کر رہے تھے اکرم قائم خانی سے اتنی پرانی دوستی اور اتنی گہری دوستی ہے کہ جب یہ انڈر گراؤنڈ تھے تو انہوں نے اپنا نام مظہر عباس رکھ لیا تھا۔ میں نے کہا یار آپ مجھے بتا تو دیتے کہ آپ نے یہ نام رکھا۔ تو انہوں نے کہاآپ یقین جانیں کہ جب واپس آیا ہوں اور مرتضی بھٹو اگر زندہ ہوتے تو وہ مجھے اکرم قائم خانی سے نہیں مظہر عباس کے نام سے پہچانتے ۔ بہت حسرت تھی جب ہم سٹوڈنٹ لائف میں تھے کہ اس ملک میں جمہوریت پائیدار ہو مضبوط ہو طاقتور ہو ۔ہم نے آزادی صحافت کیلئے نثار عثمانی، پیکر نقوی جیسے لوگوں کو اسٹرگل کرتے دیکھا تھا کہ جب وہ اپنے گھر سے گرفتاری دیتے تھے عثمانی صاحب کا ذکر کروں گا جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا ۔وہ کہتے تھے کہ سچ وہ ہے جو وقت پر بولا جائے اور انہوں نے حاکم وقت کے سامنے بھی وقت پر سچ بولا تو وہ جب جا رہے تھے جیل گرفتاری کے لیے تو ان کی جو بیوی کی آنکھیں کمزور تھیں اور جب وہ جیل سے واپس آئے تو صرف ان کی آواز سے وہ ان کو پہچان سکیں۔ جب وہ جیل گئے تو جیلر سے کہا کہ دیکھو مجھے قیدیوں کا لباس لا کے دو اور مجھے بتا ؤکہ مشقت کیسے کرنی ہے؟۔ تو جیلر نے کہا عثمانی صاحب آپ لوگ بڑے کازکیلئے اسٹرگل کر رہے ہیں آپ کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں مجھے قید با مشقت ہوئی ہے لہٰذا مجھے تمہیں مشقت کا بھی بتانا ہے اور قیدی کا لباس بھی لا کر دینا ہے۔ یہ وہ پلرز تھے جن کو دیکھتے ہوئے ہم نے صحافت کا آغاز کیا۔ پیکر نقوی رات کو بسوں میں جاتے تھے کیونکہ لانڈھی کورنگی میں رہا کرتے تھے اتنی دیر سے جاتے تھے کہ بسوں کا ٹائم ختم ہو جاتا تھا تو وہ وہیں سو جاتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو صحافت کی آبرو تھے اور یہ لوگ آزادی صحافت کیلئے اسلئے سٹرگل کر رہے تھے کہ یہ سمجھتے تھے اور ہم بھی سمجھتے تھے کہ آزادی جمہوریت آزادی صحافت کے بغیر ممکن نہیں۔ تو جس ملک میں آج تک جمہوریت نہیں آئی ہو اس ملک میں آزادی صحافت کیسے آ سکتی ہے؟۔ سلیکٹرز کون رہے ہمارے ملک میں1954میں جگتو فرنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کی اور مغربی پاکستان کی لیڈرشپ نے اسے قبول نہیں کیا اس حکومت کو برطرف کردیا گیا۔ اس ملک کا پہلا سلیکٹر ایوب خان تھا جنہوں نے اپنے ہی آپ کو سلیکٹ کیا۔ اور یہ پھر تسلسل چلتا رہا کبھی سلیکٹرز اپنے آپ کو سلیکٹ کرتے تھے تو کبھی اپنی سلیکشن ٹیم کو سلیکٹ کرتے تھے ۔اور اگر کوئی قابل قبول نہیں ہے تو وہ ملک توڑنے کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور بالآخر ہم نے دیکھا کہ آدھا ملک الگ ہو گیا تو اس کتاب کا عنوان یہی ہے کہ اس ملک کے سلیکٹرز یہاں سیاسی جماعتیں بناتے ہیں سیاسی جماعتیں توڑتے ہیں حکومتیں بناتے ہیں حکومتیں توڑتے ہیں۔ کبھی کوئی بدعنوان ہو جاتا ہے اور پھر وہی اہل ہو جاتا ہے ، اسی وجہ سے اس ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی۔ اس کتاب کو لانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کیونکہ اب الیکشن ہونے والے ہیں 8فروری کو، کہنے کو الیکشن ہے لیکن یہاں بیٹھے ہال میں تقریبا ہر آدمی کو پتہ ہے کہ سلیکشن ہونے جا رہا ہے۔ تو جس واقعے کا احمد شاہ نے ذکر کیا ہم وہی حسرت لیے وہی ڈریم لے کے چلے تھے ۔گاؤں دیہاتوں میں گئے لوگوں سے بیٹھ کے بات کی نوابشاہ ، لاڑکانہ، ملتان ، رحیم یار خان ،فیصل آباد تو میں نے کہا کہ بائی روڈ چلیں کیونکہ11سال کے بعد اس ملک میں جمہوریت آرہی ہے اور پھر ہم لاہور پہنچے لاہور پہنچے تو بے نظیر بھٹو نے مجھ سے کہا کہ کیا سچویشن ہے؟۔ میں نے کہا وہاں تو سب ہار رہے ہیں۔ کہنے لگیں تمہارا کیا مطلب ہے؟۔ میں نے کہا جتوئی، پیر پگاڑا ، سلطان چانڈیو سب ہار رہے ہیں۔ اس نے کہا کیسے ہو سکتا ہے پیر پگاڑا ہار جائے۔ میں نے کہا کیونکہ اس کے پیر ہم سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ووٹ بھٹو کا ووٹ ہے ظاہر ہے بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی88میں۔ میں نے کہا جتوئی کے گاؤں دیہات میں ٹریکٹر چلانے والے کے ٹریکٹر پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگا ہوا تھا اس نے کہا ہم نے سائیں سے کہہ دیا یہ ووٹ بھٹو کا ووٹ ہے۔ ادھر جب ہم پہنچے تو ہم نے دیکھا وہاں سب سے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد کا جلسہ ہو رہا تھا واحد وہ جلسہ تھا جس میں پریزیڈنٹ فورٹ اور بیگم نصرت بھٹو کے ڈانس کی تصویریں سپیشل ہیلی کاپٹر سے گروائی گئی تھیں۔ وہاں مجھے پھر اندازہ ہوا کہ یہ الیکشن نہیں ہو رہا۔ کچھ سالوں بعد جنرل حمید گل سے انٹرویو کیا اور جنرل حمید گل سے میں نے پوچھا کہ آئی جی آئی کیوں بنائی آپ نے؟۔ تو اس نے کہا مظہر صاحب86میں جب بے نظیر آئی تھی تو فوج کے کئی جنرل پریشان ہو گئے تھے کہنے لگے کہ یہ تو بہت خوفناک صورتحال ہے یہ تو دو تہائی اکثریت لے جائے گی تو ہم نے الیکشن کو مینج کیا اور آئی جی آئی بنائی۔88میںIJIبنتی ہے90میں اصغر خان کیس سامنے آتا ہے93میں ایک جنرل صاحب سب کو بٹھا کے پریزیڈنٹ اور پرائم منسٹر ریزائن کرتا ہے اور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔ ایک مضمون میں میں نے لکھا کہ جب تک سلیکٹرز عوام نہیں ہوں گے اس وقت تک اس ملک میں الیکٹڈ لوگ نہیں آئیں گے جس دن عوام سلیکٹرز بن گئے اس دن الیکشن کو ہم سب مان لیں گے۔ تو میری کتاب کا محور یہی ہے کہ ہمیں انتظار کرنا چاہیے ایک اچھے الیکشن کا یہ نہیں کہ ہمیں ووٹ نہیں دینا چاہیے ہمیں ووٹ دینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ سلیکشن کو ہم الیکشن میں تبدیل کر دیں جس دن عوام نے سلیکشن کو الیکشن میں تبدیل کر دیا تو صحیح معنوں میں اس ملک میں جمہوریت آجائے گی اس ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں آگئی تو آزادی صحافت کا وہ مشن بھی مکمل ہو جائے گا جو نثار عثمانی ایم اے شکور صاحب نے شروع کیا تھا۔ آج ہی ابھی جب ہم آ رہے تھے تو یہ خبر آئی کہ65یوٹیوبرز کو بشمول407جنرلسٹ ان کو نوٹسFIAنے دیے ۔ پرنٹ پر پریشر ہے الیکٹرانک میڈیا پہ پریشر ہے ڈیجیٹل میڈیا پہ پریشر ہے۔ ایسے میں اس ملک کا وزیراعظم کیسے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں آزادی اظہار ہے۔ تو میرے خیال میں میں یہاں لوگوں سے اسی لیے میں نے اسے ایک ابتدائیہ کے طور پہ پیش کیا اتنے پرانے پرانے ہمارے سیاسی کارکن آئے ہوئے ہیں جنہوں نے جیلیں کاٹ لی ہیں جنہوں نے شاہی قلعہ کاٹا جنہوں نے ٹارچر برداشت کیا ایک خواب کے لیے اور آج بھی وہ خواب خواب ہی ہے ہم جس جگہ کھڑے ہیں آرٹس کونسل میں اوربڑے سال لگے اس آرٹس کونسل کو بنانے میں اور اب اتنا وائبرنٹ ہے کہ میں نے ابھی احمد شاہ سے کہا کہ ایسا بنے گا پاکستان تو چلے گا پاکستان بہت بہت شکریہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

1970 میں بلوچستان کے میر بخش بزنجو ، خیر بخش مری ، عطاء اللہ مینگل جمہوری تھے اب باپ پارٹی لائی گئی۔ افراسیاب خٹک

1970 میں بلوچستان کے میر بخش بزنجو ، خیر بخش مری ، عطاء اللہ مینگل جمہوری تھے اب باپ پارٹی لائی گئی۔ افراسیاب خٹک

میںANPکا صوبائی صدر تھا تو مجھے خبر ہوئی کہ گُڈ اور بیڈ طالبان ان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں اصل خطرہ ان کو بلوچستان اور پختون قوم پرستوں سے ہے۔ ان کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

افراسیاب خٹک نے کہا کہ یہ تو صحیح ہے کہ پاکستان میں طبقاتی مشکلات بھی ہیں اشرافیہ اور ورکنگ کلاس، وہ بھی ہونا چاہیے اصول کی بات ہے۔ لیکن یہ اس بات کا جواز نہیں بن سکتی کہ جب طبقاتی تقسیم ختم ہوجائے اس کے بعد جمہوریت آجائے گی۔ جمہوریت کیلئے الیکشن اس کی ایک بیسک خصوصیت ہے۔ تو اس الیکشن کو ممکنہ حد تک آزاد اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔ اور یہ کیوں آزادانہ نہیں ہورہے؟۔ میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ جو خاکی پولیٹکل انجینئرنگ کی فیکٹریز ہیں۔ جب تک یہ بند نہ ہوں گی یہاں آزادانہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ (سوال: کیسے ہوگا؟ یہ مزاحمت ہمیں نظر آرہی ہے۔ ) ایسے ہوگا جیسے جنرل مشرف پر مقدمہ چلا۔ نواز شریف کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں یہ مقدمہ شروع کیا جنرل مشرف پر۔ مشرف سے ہمیں ذاتی دشمنی خدانخواستہ نہیں لیکن پاکستان کے آئین کو روند نا یہ تو لکھا ہے کہ غداری ہے اور لوگ یہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ فلاں کیخلاف کررہے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ جس کیخلاف بھی کررہے ہوں یہ نہیں کرنا چاہیے۔ سیاست میں جن کا کام نہیں ہے قانون نے جس کو روکا ہے ان کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو لینا چاہیے تو پھر آئین بدل دیں۔ جیسے کچھ ملکوں میں انڈونیشیا، چلی اور ترکی میں مستقل طور پر فوج کی حکومتیں تھیں ۔ لیکن جب ایک وفاقی جمہوری پاکستان جو قائد اعظم محمد علی جناح کا ویژن تھا اور وہی چل رہا ہے لیکن چلائیگا کوئی اور ؟۔ آئین میں ایک بات لکھی ہوگی لیکن ہوگی کوئی اور یہ تو نہیں ہوسکتا ناں؟۔
سوال: مگر سوال وہی ہے کہ کیسے ہو؟۔ انقلاب آنا تھا تو آچکا ہوتا۔ انقلاب نہیں آنا آپ نے ہتھیار بھی نہیں اٹھانا ریاست کیخلاف تو اس کی حکمت عملی کیا ہے؟۔
افراسیاب خٹک: دیکھیں امپائر چلارہے ہیں سلطنت۔ بزنس کی سلطنت، سیاسی اقتدار کی سلطنت۔ یہ سلطنت صرف لاجک سے نہیں ہوگی کہ ہم ان کو سمجھائیں کہ دیکھیں جی یہ غلط ہے آپ نہ کریں۔ نہیں! عوامی تحریک۔ پاکستان کے اصل مالک 25کروڑ عوام کے پاس جانا ان کو اٹھانا اور ان کو سیاست سے نکالنا جن کو سیاست نہیں کرنی ہے یہ آئین کی بحالی، آئینی نظام اور جمہوریت کی بحالی ہے اور جوMRDنے کیا تھا ضیاء الحق کیخلاف ، جو چارٹر آف ڈیموکریسی پر جنرل مشرف کیخلاف ہوا تھا۔ (سوال: مگر خٹک صاحب! عوام خود بخود تو نہیں اٹھتے ایک لیڈر شپ ہوتی ہے ، سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں جو عوام کو لیڈ کرتی ہیں۔ وہ ڈائریکشن دیتی ہیں، ان کی منصوبہ بندی ہوتی ہے کہ اس وقت دو قدم آگے جانا ہے دو قدم پیچھے جانا ہے اس کو ایسے ہینڈل کرنا ہے ۔ یہ عوام تو نہیں کررہی ہوتی ۔وہ مجھے بتائیں)۔ میری تجویز یہ ہے کہ نیا چارٹر آف ڈیمو کریسی ہو بغیر اسکے کہ اس میں کونسی فلاں پارٹی ہے یا نہیں۔ یہ تلخ تجربہ آجPTIکے ساتھ ہے کل ن لیگ کیساتھ تھا پرسوں پھر ن لیگ کیساتھ یا کسی اور کیساتھ ہوسکتا ہے۔ جیسے پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے آپس میں19کی دہائی میں ایکدوسرے کے تختے الٹے۔ اور پھر کیسے اس نتیجے تک پہنچے کہ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی ہونا چاہیے۔ مجھے یاد ہے غوث بخش بزنجو اور ہم حیدر آباد جیل میں تھے بھٹو نے جو مقدمہ نیب پر چلایا تھا میں بھی ان ملزموں میں سے تھا۔ مجھے یاد ہے بھٹو کا آدمی آیا اس نے بزنجو سے کہا کہ وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی کیا تجویز ہے؟۔ بزنجو بہت ہوشیار آدمی تھے۔ وہ پاکستان کے بہترین سیاستدانوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں علی گڑھ کالج میں فٹبال ٹیم میں تھا ، فٹ بال اس وقت تک کھیلا جاسکتا ہے جب تک لوگ ریفری کی وسل سنتے ہیں۔ آپ نے بال بغل میں دبالیا ہے اور گول کی طرف جانا شروع کردیا ہے ۔ بلوچستان کی منتخب حکومت کو آپ نے زبردستی توڑ دیا۔ تو یہ نہ کریں اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ آپ کرسکتے ہیں تو کل کوئی زیادہ طاقتور آجائیگا بال کو سینے کیساتھ لگا کر گول میں لیٹ جائیگا اور کھیل ختم ہوجائیگا۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا ضیاء الحق آیا اور11سال تک کھیل ختم ہوگیا۔ لوگوں نے سیکھا اس سے تو میں سمجھتا ہوں اب جو کچھ گزرا ہے پچھلے10سالوں میں2014کے بعد جو سلسلہ ہے ن لیگ ،PTIپھرPTIکیساتھ جو ہوا، اس سے ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہPTIن لیگ ، پیپلز پارٹی،ANP، مولانا فضل الرحمن سب لوگوں کو ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی کرنا چاہیے جیسے انہوں نے سبق سیکھا تھا2007میںچارٹر آف ڈیموکریسی۔ اسی طرح سے ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی ہو جس میں سب شامل ہوں۔ اور وہ فیصلہ کریں عوام جس کو بھی ووٹ دے۔ چاہے بہت برا لگتا ہے لیکن لوگوں نے جس کو ووٹ دیا ہو اس کو حکومت ملنی چاہیے۔ میں اس کمیشن میں تھا جو جسٹس اطہر من اللہ کے حکم پر بنا تھا بلوچستان طلبہ کی شکایت کیلئے۔ اختر مینگل اسکے کنوینئر تھے اور ہم لوگ اسکے ممبرز تھے۔ تو میں بلوچستان گیا تھا2022نومبر میں کوئٹہ میں یہ کیمپ تھابلوچستان یونیورسٹی گئے۔ ہم نے جو دیکھا زیادہ میڈیا میں تو رپورٹ نہیں ہوا لیکن وائس چانسلر نے الگ سے ایک رسمی سی بریفنگ دی لیکن جب ہم اسٹوڈنٹس سے ملنے گئے تو پہلے تو اسٹوڈنٹس آئے نہیں کچھ تھوڑی تعداد میں ایک دو قطاروں میں تھے باقی ہال خالی تھا۔ بہرحال ہم نے شروع کیا اپنا فنکشن۔ تھوڑی دیر کے بعد اسٹوڈنٹس بڑی تعداد میں آئے لڑکیاں بھی لڑکے بھی اور ہال اور گیلریاں بھرگئے۔ ہم حیران تھے اختر مینگل نے کہا کہ ہمیں تو شک تھا کہ آپ کو کسی نے روکا ہے کیا بات ہے؟۔ تو وہاںکے مقامی سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ سردار صاحب آپ نے غور نہیں کیا۔ یہ بچے دور کھڑے تھے آنہیں رہے تھے ۔ ان کو پتہ تھا کہ پہلے تلاوت ہوگی پھر قومی ترانہ ہوگا، اسکے بعد ایجنڈہ شروع ہوگا۔ یہ قومی ترانہ پڑھنا نہیں چاہتے تھے۔ ہزاروں بلوچ لڑکے لڑکیاں۔ اگلے دن گورنر ہاؤس میں میٹنگ تھی میں نے کہا کہ کل بلوچستان یونیورسٹی میں میں نے وہ دیکھا جو ڈھاکہ یونیورسٹی میں71میں میں نے دیکھا تھا۔ اگر آج آپ نوٹس نہیں لیں گے تو کیا17دسمبر کا انتظار کریں گے کیا یہ وقت نہیں کہ آپ آج کہیں کہ یہ غلط ہورہا ہے۔ جبری گمشدگی بنیادی طور پر ریاستی دہشت گردی ہے۔ جو لوگ اس میں ملوث ہیں ان کو پکڑنا چاہیے ان کو سزا دینی چاہیے لیکن ان کے بارے میں جب بل آجاتا ہے تو ہاؤس میں گم ہوجاتا ہے۔یہ ماننے والی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون گم کیسے ہوسکتاہے؟۔ یہ پاکستان کوناکام اسٹیٹ بنارہے ہیں۔ اصل ذمہ داری جنرل شاہی پر ہے۔ جب تک پاکستان کے عوام اور سیاسی پارٹیاں اٹھ کر یہاں پر جمہوریت اور آئینی نظام کی بحالی نہیں کریں گی یہ قصے ہوتے رہیں گے خدانخواستہ کسی اور حادثے سے ہمارا سامنا نہ ہوجائے۔
میںANPکا صوبائی صدر تھا۔ صوبے کے انتخابات کی نگرانی میری ذمہ داری تھی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کوئی دہشت گردی نہیں تھی۔ سرکاری انٹیلی جنس ایجنسیوںکی سیاسی انجینئرنگ کا ایک طریقہ تھا۔ میں نے مباحثوں میں سنا ہے کہ طالبان کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ طالبان ہم نے بنائے ہیں کبھی گڈ طالبان کبھی بیڈ طالبان ۔ وہ کہتے ہیں اصل پشتون اور بلوچ نیشنلسٹ ہیں ان کو ہم نے قابو کرنا ہے یا ان کو ہٹانا ہے۔ تو وہاں پر دہشت گردی کا یہ سارا سلسلہ پولیٹیکل انجینئرنگ کی ایک نئی شکل ہے۔ دیکھیں محسن داوڑ پر حملہ ہوا کیوں حملہ ہوا؟۔ کیونکہ وہ ایک اور نظرئیے سے بات کرتا ہے۔ ڈیموکریسی، نیشنل رائٹس اور پولیٹیکل رائٹس کی بات کرتا ہے۔ بلوچستان جو مرکز تھا جمہوری سیاست کا ۔
نیشنل عوامی پارٹی1970کے انتخابات وہاں جیتی صوبائی گورنمنٹ اسکی آئی ۔ غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، خیر بخش مری یہ بڑے نام تھے پاکستان میں بڑی جمہوری پسند تحریک کے۔ باپ کو بٹھادیا وہاں، باپ کیا ہے؟۔ اردو میں ایک صوفی شاعر کا شعر ہے وہ کہتے ہیں منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے
یہ جو باپ ہے وہ منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے۔ بنیادی طور پر سینٹ کیا ہے؟۔18ویں ترمیم میں اسکے نام کیساتھ بڑھایا گیا ”ہاؤس آف فیڈریشن”۔ وفاق کی اتحاد کی علامت کوHouseOfConspiracyبنادیا گیا۔
چیئر مین کا انتخاب کیسے ہوا؟۔ جب میں ہیومن رائٹس کمیٹی کا چیئر پرسن تھا سینٹ میں2009سے2015تک تو گمشدگیوں کی خبریں بہت آئیں لوگ ہمارے پاس شکایتیں لیکر آئے ہم نے تھوڑی سی تحقیقات کیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ان گمشدگیوں میں بڑا ہاتھISIکا ہے۔ اور کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کے بارے میں قانون بنانا چاہتے ہیں ۔ ہم نے ڈیفنس منسٹری کو خط لکھا اور ایک آؤٹ لائن اس قانون کا ہم نے بھیجا کہ یہ قانون ہم پیش کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے انہوں نے کہا کہ ہاں ہم جواب دیں گے۔ جنرل آصف یاسین ملک اس وقت ڈیفنس سیکریٹری تھے۔ وہ آئے کمیٹی میں لیکن پھر وہ چپ ہوگئے او ر انہوں نے جواب دینا بند کردیا۔ ہم نے سینٹ سے منظور کرایا ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ پاگل ریٹائرڈ ہوجائیں گے تو ختم ہوجائے گی یہ بات۔ لیکن اس کے بعد فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی نے دوبارہ اس کو پیش کیا۔ دوسری بار جب وہ آیا تو پھر ایجنسی نے فیصلہ کیا کہ اب سینٹ کو ہم نے کنٹرول کرنا ہے۔ اس کیلئے سنجرانی فارمولا ۔ یہ بلوچستان میں ن لیگ کی پارٹی کو ختم کرکے آزاد ممبران کا گروپ لایا گیا اور6سال سے چیئر مین کو اسلئے بٹھایا کہ ایجنڈے میں یہ قانون پھر کبھی نہ آئے۔ اب آپ دیکھیں سینیٹ میں فلٹر لگائے گئے ۔ فرحت اللہ بابر کو اپنی پارٹی نے ٹکٹ دیا اس کے اور سینیٹر ہوگئے پختونخواہ کے وہ نہیں ہوسکے۔ اسلئے کہ فلٹر میں وہ نہیں جاسکتے۔ تو اس طرح کی یہ ساری چیزیں ہیں اسلئے ہم یہ بے یقینی کی باتیں کررہے ہیں۔ مجھے لگ نہیں رہا کہ یہ فیئر الیکشن ہوں گے۔ یہ عدالت کا فیصلہ آیا لیکن میں کوڈ کرکے بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جو امریکی سپریم کورٹ کی چیف جسٹس تھیں مارشل اس نے کہا تھا ہم سیاسی فیصلے کرتے ہیں اور اس کو قانونی ڈریسنگ یا لبادہ پہناتے ہیں لیکن ہوتے یہ سیاسی فیصلے ہیں۔ تو یہ رات کا فیصلہ بھی بنیادی طور پر سیاسی فیصلہ ہے۔ اس کو صرف قانونی شکل دی گئی ہے۔
سوال: آپ نے دو باتیں کیں کہ نئی انجینئرنگ کی شکلKPاور بلوچستان میں مگر کیا وہاں مولانا فضل الرحمن پر حملے ہورہے ہیں۔ تو وہ اسی چیز کا حصہ ہیں؟ ۔
افراسیاب خٹک: مولانا فضل الرحمن صاحب کی پارٹی پر ایک جگہ حملہ ہورہا ہے باجوڑ میں۔ اور باجوڑ میں اسلئے ہورہا ہے کہ کنڑ میں داعش کا مرکز ہے۔ داعش مولانا فضل الرحمن پر اسلئے حملے کرتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ طالبان کے اتحادی یا حامی ہیں۔ داعش طالبان کے خلاف ہے۔ لیکن ان کے اوپر ایسے عام حملے نہیں ہورہے ہر جگہ۔باجوڑ میں جہاں کنڑ سے بارڈر ملتا ہے جہاں سے داعش والے لوگ آتے ہیں تو بنیادی طور پر ان پر حملے کی وجہ یہ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سپوت و کپوت کیلئے ملک کو تباہ کیا ہمیر سنگھ

سپوت و کپوت کیلئے ملک کو تباہ کیا ہمیر سنگھ
عمر کوٹ سندھ کے راجہ ہمیر سنگھ کو وزیر اعظم بنایا جائے

مسلم لیگ کی بنیاد مشرقی پاکستان بنگال میں رکھی گئی تھی۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے دلت رہنما جوگندر ناتھ منڈل کو ہندوستان نے پہلا وزیر قانون بنانے کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے مسترد کردی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے کہنے پر پاکستان کے پہلے وزیر قانون بن گئے۔ جوگندر نے اسلام کو انسانیت کا مذہب سمجھ کر پاکستان کو ترجیح دی تھی۔ اگر وہ وزیر اعظم یا گورنر جنرل کے منصب پر بٹھادئیے جاتے تو نہ صرف مشرقی پاکستان ہمیشہ کیلئے قائم رہتا بلکہ ہندوستان میں بھی مغربی تہذیب و تمدن اور تعلیم و انتظامی معاملات کی جگہ وہ اسلامی تعلیمات رائج کردی جاتیں جو14سو سال پہلے قرآن میں نازل اور سنت کے ذریعے رائج ہوئی تھیں جس کی وجہ سے دنیا میں ایک طویل عرصے تک صرف اور صرف اسلام اور مسلمانوں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ راجہ داہر نے نجومی کے کہنے پر اپنی بہن سے شادی کی اور نواز شریف و بینظیر بھٹو بابا دھنکا سے اقتدار لینے کیلئے ڈنڈے کھاتے تھے۔ عمران خان کو عدت میں نکاح پر سزا ہوئی ۔ اگر عمر کوٹ کے راجہ ہمیر سنگھ کا ایک دن جیو کے ساتھ انٹرویو دیکھ لیں تو ہماری جمہوری پارٹیوں کے مقابلے میں ان کو وزیر اعظم بنانا مناسب ہوگا۔
ہمیر سنگھ نے سہیل وڑائچ سے کہا کہ بیٹے اور بیٹی کو یکساں تعلیم و تربیت دینا دونوں کا حق ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق اپنی جان پر خرچہ کرنا چاہیے۔ اولاد کیلئے کچھ چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ قابل بیٹے کو سپوت کہتے ہیں نالائق کو کپوت ۔ سپوت اپنی گزر اوقات کیلئے اپنی لیاقت پر گزارہ کرتا ہے اور اس کیلئے دولت چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کپوت نالائق ہوتا ہے اگر اس کیلئے دولت چھوڑ بھی دی جائے تو وہ ضائع کرے گا۔ اسلئے کپوت کیلئے دولت نہیں چھوڑنی چاہیے۔ ہمارے ملک کے بااثر طبقات نے اپنے سپوتوں اور کپوتوں کیلئے پاکستان کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔
رانا ہمیر سنگھ نے کہا کہ درخت بہت قیمتی چیز ہیں ان کو کاٹنا وطن عزیز کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ جلانے کیلئے کچھ مخصوص قسم کے درخت ہوتے ہیں۔ عام درختوں کو کاٹنا بہت بڑا جرم ہے۔ عمر کوٹ کے جنگلات بھی محفوظ ہیں لیکن ہمارے کرتے دھرتوں نے پہاڑوں کے جنگلات کے ساتھ بھی بڑی زیادتیاں کی ہیں۔ جس کی روک تھام کیلئے کسی کے پاس ضمیر نہیں ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ان نا اہلوں کی وجہ سے ہیں۔
رانا ہمیر سنگھ نے کہا کہ دین سب کا ایک ہے لیکن عقیدہ اپنا اپنا ہے۔ اگر پاکستان اقلیت کے ساتھ جبر کرتا تو5%ہندو اور دیگر غیر مسلم اقلیتیں5منٹ میں مسلمان بن جاتیں۔ یہاں پر مذہب کے جبری تبدیلی کے حوالے سے الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بھارت میں اقلیت کا تحفظ بالکل ڈھونگ ہے۔ پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے اقلیتوں کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا ہے۔ بھارت کا کوئی ایسا نامور شخص نہیں ہے جس نے اقلیت کیلئے جان دی ہو۔پاکستان میں اقلیت کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اگر کہیں کوئی تشدد کا واقعہ ہوتا ہے تو یہ شدت پسند لوگ مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی تشدد والا برتا ؤ روا رکھتے ہیں۔ ریاست کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتاہے۔
رانا ہمیر سنگھ نے بتایا کہ جب ایوب خان نے لینڈ ریفارمز کے تحت رقبوں کو محدود کردیا تو اس کے بعد بڑی بڑی جاگیریں کوئی نہیں رکھ سکتا ہے۔ پہلے جاگیرداری سسٹم تھا اب کھاتے داری نظام ہے۔ بچوں اور کزنوں کے نام زمینیں کردی ہیں۔
رانا ہمیر سنگھ نے کہا کہ مشرقی اور مغربی تہذیب کا ملاپ نہیں ہوسکتا ہے۔ جیسے آدھا تیتر آدھا بٹیر بننا بیکار ہے اسی طرح ان دونوں تہذیبوں سے نئی تہذیب بنانا انتہائی خطرناک ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اتحاد کے حوالے سے کہا کہ دونوں کی ریاستوں میں ڈرامہ چل رہا ہے لیکن عوام ایک دوسرے سے پیار رکھتے ہیں۔ اسلئے کہ دونوں کا خون ایک ہے۔ دونوں اپنے اپنے عقیدے پر رہ کر ایک دین انسانیت کیلئے کام کریں اور دونوں ریاستوں کا حال ان دو بلیوں والا ہے جو آپس میں ایک روٹی پر لڑے اور پھر بندرنے دونوں کا ماما بن کر روٹی اوپر درخت پر چڑھادی۔ دونوں سے کہا کہ میں انصاف کروں گا۔ کبھی ایک طرف سے نوالہ کھاتا اور کہتا کہ زیادہ کھالیا پھر برابر کرنے کیلئے دوسری طرف نوالہ کھاتا اور ساری روٹی کھاگیا۔ اگر ہندوستان اورپاکستان لڑتے رہے تو تیسری قوت آئے گی اور یہاں کے وسائل پر ماما بن کر قبضہ کرے گی۔ جیسا کہ اتنا عرصہ ہوا کہ پاکستان سے امریکہ ڈو مور ڈو مور کا مطالبہ کررہا ہے۔ ہمارا ملک مقروض ہوگیا ، دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا مگر اس کے مطالبے ختم نہیں ہورہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کو ان کی چال سمجھ کر آپس میں مل بیٹھنا ہوگا۔
رانا ہمیر سنگھ کے کزن وکرم سنگھ ڈائریکٹر سول ایوی ایشن کی حیثیت سے رہے اور کراچی جناح ایئر پورٹ ، لاہور، اسلام آباد اور ملک کے دوسرے ایئر پورٹ بنانے میں کردار ادا کیا۔
ہمیں ہندوؤں سے کوئی تعصب نہیں۔ قرآنی تعلیمات کو مسلمانوں نے چھوڑ رکھا ہے۔ البتہ پاکستان میں نوکریاں بھی رشوت دے کر حاصل کی جاتی ہیں۔ وہ ہندو جو اصل میں را کے ایجنٹ ہیں جن کے کاروبار ہندوستان میں ہیں اور یہاں بہت بڑی رقم دے کر نیب میں نوکریاں حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنا پیسہ کمانے کیلئے نیب کے ذریعے سے پاکستان کے قابل لوگوں کو تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اس طرف ریاست کو خصوصی طور پر توجہ دینی ہوگی تاکہ ملک کو بچایا جاسکے۔
نوٹ: اس آرٹیکل کے بعد ”رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ” عنوان کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔
اس آرٹیکل کے بعد ”دارلعلوم دیوبند کے سپوتوں کی چند یہ مثالیں” کے عنوان کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔
اس آرٹیکل کے بعد ”دارالعلوم دیوبند کے کپوتوں کی یہ چند مثالیں” کے عنوان کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

خلفاء راشدین سپوت اور ذوالخویصرہ کپوت ، عبد اللہ ابن مبارک سپوت، ابویوسف کپوت، جامعہ بنوری ٹاؤن سپوت اور دار العلوم کراچی و جامعة الرشیدکپوت

رسول اللہ ۖ پر قرآن نازل ہوا ، خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت حسن، حضرت امیر معاویہ جیسے عظیم سپوتوں کے بعد سلسلہ یزید و مروان بدترین کپوتوں تک پہنچ گیا۔ ابو سفیان کے دو بیٹے تھے۔ ایک یزید بن ابی سفیان اور دوسرا امیر معاویہ بن ابی سفیان۔ یزید بن ابی سفیان تو امیر معاویہ کے مقابلے میں بھی زیادہ اچھے صحابی تھے۔ بہرحال حضرت حسن نے امیر معاویہ کے حق میں اپنی خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تو امیر معاویہ نے20سال تک بہت کامیابی کے ساتھ امارت کا نظام چلایا تھا۔ یزید سے نااہلی کا سلسلہ شروع ہوا تو یزید کے بیٹے معاویہ بن یزید بھی عظیم سپوت تھے۔ جس نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کردیا۔ پھر مروان بن حکم سے کپوتوں کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری خلیفہ تک جاری رہا لیکن ان میں بھی حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت نے جنم لیا تھا۔ پھر بنو عباس میں سپوتوں اور کپوتوں نے تخت پرقبضہ کیا اور آخر چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بنو عباس کی امارت ختم کردی۔ پھر سلطنت عثمانیہ سے نئی بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا جو1924تک جاری رہا۔ برصغیر پاک و ہند سے مولانا محمد علی جوہر وغیرہ اور ہندو سکھ رہنماؤں نے خلافت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ پھر تقسیم ہند کے بعد بر صغیر پاک و ہند میں پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں بھی سپوت اورکپوت کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح و قائد ملت لیاقت علی خان اورپہلے دو انگریز آرمی چیف سے اب تک عمران خان و شہباز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ وحافظ سید عاصم منیر تک سپوتوں اور کپوتوں کا سلسلہ قائم ہے۔ حکمرانوں کے علاوہ مشائخ و علماء حق اور علماء سوء کا بھی سلسلہ حضرت علی و قاضی شریح سے لیکر حضرت امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل سے موجودہ دور تک کے سپوتوں اور کپوتوںتک جاری ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اکابر دیوبند کے شیخ المشائخ تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی ، شیخ الہند محمود الحسن اور مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت ، مولانا یوسف ، مولانا شیخ زکریااور حاجی محمد عثمان تک بھی سلسلہ حق تھا۔ مولانا انور شاہ کشمیری ، مولانا یوسف بنوریاور مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن و دار العلوم کراچی تک کا سلسلہ ۔ مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی ،مولانا سراج احمد دین پوری، مولانا عبد اللہ درخواستی ، مولانا عبد الکریم بیر شریف، مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان شیرانی تک سپوت و کپوت کا سلسلہ ہر میدان میں جاری ہے۔1970میں جب مشرقی و مغربی پاکستان اکھٹے تھے تو علماء حق جمعیت علماء اسلام پر ایک کفر کا فتویٰ لگاتھا جس میں سرغنے کا کردار مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا احتشام الحق تھانوی وغیرہ نے ادا کیا تھا۔ لیکن دوسری طرف حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی وغیرہ نے علماء حق کے خلاف اس سازشی فتوے کا کردار ادا نہیں کیا تھا۔
پھر1977میں جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود نے ذو الفقار علی بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی و قوم پرستوں کا ساتھ دیا تھا جبکہ مولانا غلام غوث ہزاروی نے سازش کو بھانپ کر ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے معروف رہنما مولا بخش چانڈیو لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بلوچ رہنماؤں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ نہیں دیا لیکن ولی خان و دیگر پشتون رہنماؤں نے بھٹو کے خلاف جنرل ضیاء کا ساتھ دیا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب مفتی محمود نے نصرت بھٹو کے ساتھMRDکے اتحاد پر جنرل ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک پر اتحاد کیا لیکن دوسری طرف جماعت اسلامی اور دار العلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی وغیرہ نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینا شروع کیا۔ رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر نے جب زبردستی سے زکوٰة لینے کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر اس پر متفق نہیں تھے۔ مگر مجبوری میں ایک خلیفہ وقت کا ساتھ دیا تھا۔ پھر حضرت عمر نے وفات سے پہلے اس بات کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش ہم رسول اللہ ۖ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھ لیتے۔ (1):زکوٰة نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا ۔(2):نبی ۖ کے بعد جانشین خلفاء کے نام۔ (3):کلالہ کی میراث کے بارے میں۔
اہل سنت کے چاروں امام امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے شریعت کا یہ حکم واضح کیا تھا کہ ”مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنا جائز نہیں ہے”۔ حضرت عمر و حضرت عثمان کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل چکے تھے اسلئے مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنے اور نہ کرنے پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اہل سنت کے چاروں اماموں نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر مکمل اعتماد کے باوجود بھی اپنے اختلاف رائے سے اسلام کی حفاظت کا سامان کیا تھا۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ بہترین دور میرا ہے، پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے دور سے ملے ہوئے ہیں۔ پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے بعد والوں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ عقیدہ بن گیا کہ صحابہ کرام اُمت مسلمہ کے افضل ترین لوگ ہیں۔ پھر تابعین اور پھر تبع تابعین تک یہ سلسلہ پہنچتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”بدعت کی حقیقت” میں لکھا ہے کہ پہلی صدی ہجری تو صحابہ کرام کی ہے، دوسری صدی ہجری تابعین کی ہے اور تیسری صدی ہجری تبع تابعین کی ہے۔ ان پہلے تینوں صد ہجری میں ”تقلید کی بدعت” ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے۔ لہٰذا چاروں مسالک کی تقلید بدعت ہے۔
علامہ ابن تیمیہ و علامہ ابن قیم نے بھی بہت پہلے تقلید سے انتہائی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے چاروں فقہی مسالک کو چار الگ الگ فرقے قرار دیا تھا۔ شاہ اسماعیل شہید نے بھی علامہ ابن تیمیہ سے متاثر ہوکر مسالک کی تقلید کو بدعت قرار دیا تھا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” کے اردو ترجمہ پر اپنی تقریظ میں زبردست حمایت بھی کی ہے اور ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل شہید کی دوسری کتاب ”منصب امامت” کی بھی تائید فرمائی ہے۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کا تعلق علامہ ابن تیمیہ کے مسلک سے ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے خانہ کعبہ میں چاروں مسالک کے الگ الگ مصلے تھے جو تقلید ہی کی وجہ سے اپنی الگ الگ جماعت کراتے تھے۔ علماء دیوبند کے اکابر نے شاہ اسماعیل شہید کی حمایت کی تو اس وقت حرمین شریفین میں شریف مکہ کی حکومت تھی۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے علماء دیوبند پر فتویٰ لگایا کہ یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کے ماننے والے ہیں تو اس وقت کے حرمین شریفین والوں نے مولانا احمد رضا خان بریلوی کے فتوے پر دستخط کردئیے۔ دیوبندی اکابر نے اپنی صفائی کیلئے ”المہند علی المفند” کتاب لکھی اور اس میں واضح کیا کہ ہم چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور خود حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ تصوف کے چاروں سلسلوں کو برحق مانتے ہیں اور خود مشرب چشتی سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کو بھی بہت برا بھلا کہہ کر برأت کا اعلان کیا۔
جب رسول اللہ ۖ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تھی تو قرآن نے فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد والے صحابہ کے اندر واضح فرق رکھا ہے۔ بدری اور غیربدری صحابہ کے اندر بھی واضح فرق تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل گئے تو حضرت عمرنے بدری صحابہ کے لئے الگ وظائف مقرر کئے اور غیر بدریوں کیلئے الگ۔ حضرت حسن اور حضرت حسین بدری صحابہ نہیں تھے لیکن اہل بیت ہونے کی وجہ سے حضرت عمر نے ان دونوں کیلئے بھی بدری صحابہ کے درجے پر وظائف رکھے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر نے جب عرض کیا کہ مجھے بھی حسنین کی طرح بدری صحابہ کے برابر وظیفہ دیا جائے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ ”وہ نبی ۖ کے نواسے ہیں آپ نہیں ہو، ان کی برابری کاسوچو بھی مت”۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے پہلا دور نبی ۖ کا ، دوسرا حضرت ابوبکر و عمر کا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا بہترین قرار دیا ہے۔ حضرت علی کے دور کو فتنے میں شمار کیا ہے جو خیر القرون میں داخل نہیں ہے۔ لیکن حضرت علی کے دور کو قیامت تک کیلئے فتنوں میں مثالی دور قرار دیا ہے اور میرے نزدیک نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اس لئے کہ حضرت ابوبکر کے دور میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آئی تھی۔ پھر حضرت عمر کا دور ہے جس میں مال و وظائف کے اعتبار سے طبقاتی تقسیم کا آغاز ہوگیا تھا۔ تیسرا دور حضرت عثمان کا دور ہے جس میں خاندانی اور طبقاتی کشمکش کی بنیادیں مضبوط ہوگئیں۔
جب حضرت عثمان کو شہید کیا گیا تو ذوالخویصرہ نے اپنے قبیلے کے10ہزار افراد کے ساتھ دعویٰ کردیا کہ حضرت عثمان کے قاتل ہم ہیں۔ حضرت عثمان کے قاتلین دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک طرف وہ حضرت علی کے ساتھ تھے اور دوسری طرف وہ حضرت علی کے مخالفین کے ساتھ تھے۔ حضرت علی کی بیعت کرنے اور نہ کرنے والے بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ حضرت امیر معاویہ نے قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کا جو مطالبہ حضرت علی سے کیا تھا اس پر عمل کرنا بہت مشکل تھا۔جس کی وجہ سے اہل حق کے دو گروہوں میں قتل و غارت ہوئی۔ ان میں حق پر کون تھا؟۔ یہ حضرت عمار کی شہادت سے نبی ۖ نے بتادیا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا جس کو عمارجنت کی طرف بلائے گا اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے۔
حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے حضرت حسن و حسین کی طرف سے حفاظت ہورہی تھی اور محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کی داڑھی میں سب سے پہلے ہاتھ ڈالا تھا۔ محمد بن ابی بکر بھی حضرت علی کے پالے ہوئے تربیت یافتہ بیٹے تھے۔ جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو شک تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت میں حضرت علی کا بھی ہاتھ ہے۔ یہاں سے اُمت کی جو تفریق شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ آج تک جوں کا توں موجود ہے۔
حضرت علی کے بعد امام حسن کی خلافت قائم ہوگئی تو حسن نے امیر معاویہ کے حق میں دستبردار ہوکر مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائی۔ لیکن یہ پھر یزید کی نامزدگی کے بعد واقعہ کربلا سے معاملہ شروع ہوا تو یزید کی سرکردگی میں عبد اللہ بن زبیر کے خلاف مکہ میں کاروائی ناکام ہوئی۔ یزید نے اہل مدینہ کو کچل کر اہل مکہ کو بھی کچلنا چاہا تھا۔ یزید کے مرنے کے بعد یزید کے بیٹے معاویہ نے تخت نشین ہونے سے دستبرداری اختیار کی تو مروان بن حکم جو بنو اُمیہ کا دوسرا سلسلہ تھا وہ اقتدار میں آگیا۔ مروان نے پھر حضرت عبد اللہ بن زبیر کی خلافت کو بھی مکہ مکرمہ میں کچل دیا تھا۔ مروان کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری حکمران تک جاری رہا جن میں حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت بھی شامل تھے۔ بنو اُمیہ کے شروع دور میں مدینہ کے7مشہور فقہاء نے مسند سنبھالی جن میں حضرت ابوبکر کے پوتے قاسم بن محمد بن ابی بکر اور نواسے عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر وغیرہ شامل تھے۔ حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو بھی بہت بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔
امام ابو حنیفہ نے بنو اُمیہ کے آخری اور بنو عباس کے شروع دور میں اپنی خدمات انجام دیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے100سال بعد احادیث کی کتابیں مرتب کرنے کی اجازت دی تھی۔ جب ضعیف و من گھڑت اور صحیح احادیث کا ایک سلسلہ مرتب ہونا شروع ہوا تو امام ابو حنیفہ نے قرآن کے مقابلے میں ان احادیث کو بھی مسترد کرنے کی بنیاد رکھ دی جن کی سند بظاہر صحیح لیکن خبر واحد یعنی کسی ایک شخص کے توسل سے نقل تھیں۔
امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا تعلق دوسری صدی ہجری سے تھا۔ امام مالک اہل مدینہ تھے۔ امام ابو حنیفہ کا تعلق فارس سے تھا۔ امام شافعی نے امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد سے فقہ کی تعلیم حاصل کی تھی اور امام احمد بن حنبل امام شافعی کے شاگرد رشید تھے۔ ان ائمہ نے اپنے اپنے دور کے حکمرانوں سے سخت سے سخت سزائیں کھائی ہیں۔ جن کو تاریخ میں سنہری حروف سے یاد کیا جاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ کے ایک شاگرد عبد اللہ ابن مبارک تھے جس کو محدثین اور صوفیاء میں بھی بہت بلند مقام حاصل تھا۔ عبد اللہ ابن مبارک اپنے اُستاذ امام ابو حنیفہ کے عظیم سپوت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاة (چیف جسٹس) کا منصب اسلئے مل گیا کہ وہ درباری تھا اور اس نے یہ گھناؤنا کام کیا تھا کہ بادشاہ کا دل جب اپنے باپ کی لونڈی پر آیا تو بادشاہ نے اپنے باپ کی اس لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کیلئے حیلہ تلاش کیا۔ امام ابو حنیفہ نے درباری بن کر بادشاہ کی خواہش کو پورا نہیں کیا تو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ امام ابو حنیفہ نے واضح کیا تھا کہ اگر باپ نے لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم رکھے ہیں تو بادشاہ کیلئے اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا قطعی طور پر حرام ہیں۔ جبکہ امام ابو یوسف نے بادشاہ کیلئے یہ حیلہ نکال دیا کہ لونڈی عورت ہے اور جب وہ بولے کہ تیرے باپ نے میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ہے تو اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک اچھا خاصہ معاوضہ بھی طے کیا گیا۔ جب امام ابو یوسف نے حیلہ بتایا تو بادشاہ نے کہا کہ صبح خزانے کا دروازہ کھل جائے گا تو معاوضہ لے لینا۔ امام ابو یوسف نے کہا کہ مجھے ابھی راتوں رات وعدے کے مطابق معاوضہ دے دینا۔ میں نے بھی تمہارے لئے رات ہی کو بند دروازہ کھولا ہے۔
یہ واقعات علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء اور امام غزالی نے اپنی کتابوں میں لکھ دئیے تو امام غزالی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مصر کے بازار میں ان کی کتابیں جلائی گئی تھیں۔ جس کے بعد امام غزالی نے فقہ کی راہ چھوڑ کر تصوف کی راہ کو اپنالیا تھا۔ تصوف کے مشائخ اور فقہ کے علماء کے درمیان اختلافات کا بھی ایک سلسلہ ہے اور علماء نے اہل تصوف سے بیعت و سلوک کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے۔ امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید و خلیفہ مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر سے ان کے علم کی وجہ سے بیعت ہوں۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے علم کی بنیاد پر اختلاف رکھتا ہوں مگر عمل کی وجہ سے بیعت ہوں اور یہ بھی یاد رہے کہ مولانا منظور مینگل نے کہا ہے کہ مولانا رشید احمد گنگوہی واحد شخص ہیں جو علامہ ابن تیمیہ سے عقیدت رکھتے ہیں جبکہ دوسرے تمام اکابر نے ابن تیمیہ کی سخت مخالفت کی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پنج پیری طلبہ کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہی حال جامعہ فاروقیہ و دیگر مدارس کا بھی تھا۔ حالانکہ دونوں کا تعلق دیوبند سے تھا۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے ”توحید خالص” وغیرہ کتابیں لکھ کر اکابرین پر شرک و کفر کے فتوے لگائے تھے۔ جس طرح عام دیوبندی پنج پیری طبقے کو اپنے سے الگ اور گمراہ سمجھتے تھے اس سے بڑھ کر ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی کتابوں سے پنج پیری الرجک تھے۔ آج خود کو بہت بڑا شیخ الحدیث ، شیخ القرآن ، جامع العلوم سمجھنے والا ڈاکٹر منظور مینگل کہتا ہے کہ میں نے ابن تیمیہ اور پنج پیری کو بڑا کافر گمراہ کہہ کر گالیاں دی ہیں مگر ابھی توبہ کرتا ہوں۔
حنفی مسلک پر دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کا اتحاد ہے اور درس نظامی میں فقہ ، اصول فقہ ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں بھی ایک ہیں۔ ایک نصاب کے باوجود دونوں میں اختلافات بھی ہیں۔ ابوبکر صدیق اکبر نے جبری زکوٰة کی وصولی شروع کردی تو اہل سنت کے چاروں اماموں نے اختلاف کیا تھا۔
مالکی و شافعی مسالک نے بے نمازی کو واجب القتل قرار دیا تو حنفی مسلک نے ان سے اختلاف کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب حضرت ابوبکر نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال کیا تو بے نمازی کے خلاف قتال بدرجہ اولیٰ بنتا ہے۔ حنفی مسلک والوں نے جواب دیا کہ جب حضرت ابوبکر کے فیصلے سے تمہارا اتفاق نہیں ہے تو اس پر نماز کو کیسے قیاس کرسکتے ہو؟۔ مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن” میں لکھ دیا کہ بے نمازی کے خلاف قتال کرنے کا حکم سورہ توبہ اور حضرت ابوبکر صدیق کے فعل سے ثابت ہوتا ہے۔ تو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں اس کو مسلک حنفی کے خلاف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مفتی شفیع نے حنفی فقہاء کے مسلک سے انحراف کیا ہے۔
امام ابو یوسف نے جب بادشاہ کیلئے لونڈی کی گواہی کو غلط قرار دینے کی بدعت جاری کردی تو ایک طرف حدیث صحیح کے خلاف زنا بالجبر میں بھی عورت کی گواہی کو ناقابل قبول قرار دیا گیا اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ کے نام پر حرمت مصاہرت کا غلط پروپیگنڈہ کرکے انتہائی غلیظ مسائل کو فقہ کا حصہ بنایا گیا۔ چنانچہ اورنگزیب عالمگیر مغل بادشاہ کے دور میں لکھی گئی کتاب ”نور الانوار:ملاجیون” درس نظامی میں داخل نصاب ہے۔ جہاں یہ مسئلہ پڑھایا جاتا ہے کہ ”اگر ساس کی شرمگاہ کو باہر سے شہوت کے ساتھ دیکھ لیا تو عذر کی وجہ سے معاف ہے لیکن اگر اندر کی طرف سے دیکھا تو اس سے بیوی حرام ہوجائے گی”۔
اسی طرح مفتی تقی عثمانی سے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن تک نے پرویز مشرف کے دور میں یہ نام نہاد غلط شرعی مسئلہ اُجاگر کیا کہ ” کسی عورت کو زبردستی سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو اگر اس کے پاس چار سے کم گواہ ہوں تو وہ زیادتی پر بھی خاموش رہے اسلئے کہ اگر تین افراد نے بھی اس کے حق میں گواہی دی تو ان سب پر بہتان کی حد جاری کی جائے گی”۔
جب جنرل ضیاء الحق نے بینکوں کے سُودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کا فیصلہ کیا تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ جس پر مفتی محمود نے دونوں بھائیوں کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں طلب کیا۔ دونوں نے چائے پینے سے انکار کیا کہ ہم دن میں ایک بار چائے پیتے ہیں۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم پیتا ہے تو اس کو پسند کرتا ہوں۔ مفتی تقی عثمانی نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں یہ نہیں لکھا تھا کہ اسکے باوجود میں نے پان کھلایا جسکے بعد مفتی محمود پر دورہ پڑگیا۔ اور مفتی رفیع عثمانی نے دورہ قلب کی خصوصی گولی حلق میں ڈال دی۔ مگر مولانا یوسف لدھیانوی نے یہ لکھ دیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے اپنا بیانیہ بعد میں بدل دیا کہ مفتی محمود بے تکلفی میں وہ مجھ سے پان مانگ کر کھایا کرتے تھے۔

دارلعلوم دیوبند کے سپوتوں کی چند یہ مثالیں

علماء حق کی یاد گار جامعہ بنوری ٹاؤن عظیم یہ شخصیات
علامہ سیدمحمدیوسف بنوریکی ایک یاد گار تقریر ماہنامہ البینات میں شائع ہوئی جو ماہنامہ نوشہ ٔ دیوارنے قارئین کیلئے شائع کی ،جو سودی نظام کے خلاف تھی ،جس میں اسلام کے معاشی نظام پر زور تھا۔علامہ بنوری کے دامادمولانا طاسین نے مزارعت پر تحقیق کا حق ادا کرکے قرآن وسنت سے اس سود کو واضح کیا۔جب سود کی حرمت پرآیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ جس کی وجہ سے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ دونوں نظام کا خاتمہ ممکن تھا اور محنت کشوں کیلئے بڑا متوازن روزگار تھا۔ اس سے محنت و دیہاڑی کا ایک مناسب معاوضہ بھی خود بخود معاشرے میں رائج ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں پانی کا بہاؤ ایک نعمت ہے جس سے سستی بجلی پیدا کرنے اور سستی خوراک ملنے میں مثالی مدد مل سکتی ہے۔ رسول اللہ ۖ نے مدینہ میں یہ نظام قائم فرمایا تو پوری دنیا میں اسکا ڈنکا بج گیا۔ روم و فارس کے بادشاہوں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پیغام مل گیا کہ اب دنیا میں انسان اپنی طاقت ، جاگیر اور سرمایہ کے ذریعے سے دوسرے انسانوں کو غلام نہیں بناسکتا ہے۔ آج پاکستان سے پھر پوری دنیا کو یہ میسج جائے گا تو سُودی نظام کا خاتمہ ہونے میں دیر نہ لگے گی۔

دارالعلوم دیوبند کے کپوتوں کی یہ چند مثالیں

دارالعلوم کراچی وجامعة الرشید علماء سوء کی یہ یادگاریں
ہمارے مرشد حضرت حاجی محمد عثمان سے تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور بڑے بڑے مدارس کے علماء و مفتیان حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ سعودی عرب کے سرکاری افسران اور شام کے عرب بھی بیعت تھے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی، مفتی عبد الرحیم اور مفتی تقی عثمانی نے ان کے خلاف الائنس موٹرز سے کچھ مالی مفادات اٹھاکر جو گھناؤنا کردار ادا کیا تھا اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ اب بھی مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد دوم” میں موجود ہے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں بھی ان فتوؤں کی سرسری روداد موجود ہے۔ ہمیں ذاتیات سے غرض نہیں ہے لیکن جن لوگوں نے کتابیں چھاپ کر شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کے لین دین کو سُود قرار دیا تھا اور نبی کریم ۖ پر بھی آیت کی من گھڑت تفسیر لکھ کر سُود کا بہتان لگایا تھا اور سُود کو 73گناہوں میں سے کم از کم اپنی سگی ماں کے ساتھ بدکاری کے برابر گناہ قرار دیا تھا لیکن پھر اللہ کی طرف سے ایسی پھٹکار ہوئی کہ پوری دنیا کے سُودی نظام کو حیلے بہانے سے جائز قرار دیا۔ حالانکہ سبھی علماء اور مفتیان نے ان کے خلاف متفقہ فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ انتظار کریں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv