پوسٹ تلاش کریں

علماء کا کردار: ایک جائزہ

علماء کا کردار: ایک جائزہ اخبار: نوشتہ دیوار

مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی ایک کتاب’’ اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم‘‘ ،دوسری ’’عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ ہے۔ اختلافِ امت میں جماعتِ اسلامی کے بانی سید مودویؒ کا لکھا ہے کہ ’’ ان کی تحریر کو سب سے بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے، میرے نزدیک انکی سب سے بڑی خامی ان کی قلم کی کاٹ ہے، جب کفروالحاد کیخلاف لکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا شیخ الحدیث گفتگو کررہاہے مگر جب وہی قلم اہل حق کیخلاف اٹھتا ہے تو لگتاہے کہ غلام احمد پرویز اور غلام احمد قادیانی کا قلم اس نے چھین لیا ہے‘‘ مولانا لدھیانویؒ نے بڑی شائستگی سے مولانامودودیؒ کو انبیاء کرامؑ اور امہات المؤمنینؓ کا گستاخ قرار دیا۔جماعتِ اسلامی نے بڑی شائستگی سے یہ کیا کہ ’’اپنی مسجد الفلاح نصیر آباد کا امام وخطیب مولانا لدھیانویؒ کو بنادیاتھا‘‘۔ رمضان میں مولانالدھیانویؒ نمازِ فجر کے بعد درس دیتے، محراب میں مولانا لدھیانویؒ خاموش تشریف فرماتھے ،پروفیسر غفور احمد ؒ وہاں کھڑے ہوکر بیان کررہے تھے۔ تو سوچا کہ بڑے بڑوں کی بات سمجھتے ہیں، ہم چھوٹوں کی عقیدت میں نجات ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ سے پہلے دار العلوم اسلامیہ واٹر پمپ میں عارضی طور سے رہاتھا، مولانا یوسف لدھیانویؒ نے تقریر کے دوران یہ فقہی مسئلہ بتادیا کہ ’’ قرآن کے نسخے پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے سے کفارہ واجب نہیں ،اسلئے کہ یہ اللہ کی کتاب نہیں بلکہ اس کا نقش ہے، زبانی اللہ کی کتاب کی قسم کھانے پرکفارہ اد ا کرنا ضروری ہوجاتاہے‘‘۔ مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ علماء اور جاہلوں میں یہ فرق ہے کہ جاہل زبانی قرآن کی قسم کھالیتے ہیں مگر کتاب پر ہاتھ رکھ قسم کھانے سے بہت ڈرتے ہیں، حالانکہ علم کی دنیا میں معاملہ بالکل برعکس ہے‘‘۔ پھر جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ ملا اور مولانا بدیع الزمانؒ نے علم النحو کی کتاب میں پڑھایا کہ ’’ لفظ وہ ہے جو زباں سے نکلے، عربی میں کھجور کھانے کے بعد گٹھلی پھینکنے کیلئے لفظت (میں نے پھینکا) استعمال ہوتاہے۔ جو مولانا لدھیانویؒ سے سنا ، یہ گویا تصدیق تھی۔ پھر علم الصرف کے صیغوں میں مولانا عبدالسمیع ؒ سے سرِ راہ بحث کا سلسلہ لمبا ہوا، تو انہوں نے قرآن منگوایااور پوچھا کہ ’’ یہ اللہ کی کتاب ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ نہیں تو مجھ پر کفر کا فتویٰ تھوپ دیا، میں عرض کیا کہ یہ فتویٰ تو مولانا یوسف لدھیانویؒ پر بھی لگتاہے، ان کا حوالہ دیا تو مجھ پر بہت زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا کہ ’’ تم لوگ کتابیں پڑھ کر آتے ہو، مقصد پڑھنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہوتاہے‘‘۔ ایک طالب علم نے مجھے بازوسے پکڑا ،اور مسجد کے کونے میں لیجاکر کہا کہ ’’صوفی صاحب اپنا ذکر کرو‘‘۔
چوتھے سال میں ’’نورالانوار‘‘ میں قرآن کی تعریف پڑھ لی کہ ’’ کتاب میں موجود لکھائی الفاظ ہوتے ہیں اور نہ معنیٰ بلکہ یہ محض نقوش ہوتے ہیں‘‘ تو کوئی تعجب نہ ہوا،اسلئے کہ پہلے سے یہی معلوم تھا۔ مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ’’فقہی مقالات‘‘ میں دیکھا کہ ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘ تو پاؤں سے زمین نکل گئی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن نے فتویٰ میں بالکل ناجائز اور ایمان کے منافی قرار دیا۔ دونوں فتوے ہمارے اخبار کی زینت بن گئے تو بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگوں نے طوفان کھڑا کردیا، جب ہم نے بتایا کہ فتاویٰ شامیہ میں صاحبِ ھدایہ کی کتاب تجنیس کا حوالہ دیکر لکھا گیا ہے ۔ مولانا احمد رضابریلویؒ نے بھی اپنے فتاویٰ میں دفاع کیا ہے تو بولتی بند ہوگی، مفتی تقی عثمانی نے روزنامہ اسلام میں مضمون لکھ کر اعلان کیا کہ ’’میں یہ تصور کرسکتا، اپنی کتابوں فقہی مقالات اور تکملۃ فتح الملہم سے یہ عبارات خارج کرتا ہوں‘‘۔مفتی تقی عثمانی نے تو صاحبِ ہدایہ کے مؤقف کاجانے بوجھے بغیر حوالہ دیا اور ان کو دباؤ کی وجہ سے نکالا بھی مگر سوال پیدا ہوتا کہ ’’صاحبِ ہدایہ نے کیوں لکھا اور فتایٰ شامیہ نے کیوں نقل کیا، وہاں سے کون نکالے گا؟۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ عوام کے پریشر سے جس میں ایم کیوایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور کارکنوں کے بیانات بھی شامل تھے، شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنے ہتھیار ڈال دئیے، اگر مفتی تقی عثمانی میڈیا پر صرف کہہ دے کہ مجھ پر ناجائز دباؤ ڈالا گیا تو بھی ہم معافی مانگ لیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’’جب اصول فقہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کی کتابت اللہ کا کلام نہیں بلکہ نقش ہے تو سورۂ فاتحہ بھی کتابت کی صورت میں اللہ کا کلام ہے ہی نہیں پھر صاحبِ ہدایہ اور فتاویٰ شامیہ میں پیشاب سے لکھنے پر حرج کیوں ہوگا؟‘‘۔ جب مفتی تقی عثمانی نے اس حقیقت کو سمجھے بغیر آگے بڑھنے اور ریورس گھیر لگانے میں کردار ادا کیا تو دیگرعلماء کاپھر کیا حال ہے؟۔
مولانا یوسف لدھیانوی ؒ کی کتاب عصر حاضر میں اسلام کے حوالہ سے بتدریج مختلف پیرائے میں تنزلی کا زبردست عکس اوراس دور کی تمام صورتحال کا ذکرہے۔ علماء، مفتیان، مساجد کے ائمہ، مقتدیوں اور مذہبی طبقات کی بدترین حالت کے علاوہ سیاسی جماعتوں، برسراقتدار ٹولوں اور عام لوگوں کی زبردست عکاسی کی گئی ہے، ظلم وجور سے بھری دنیا میں ان لوگوں کی فضیلت کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے دین کو سمجھ لیا، پھر اسکی خاطر ہاتھ، زبان اور دل سے جہاد کیا، دوسرا طبقہ وہ ہے جہنوں نے دین کو سمجھ لیا اور پھر زبان سے اس کی تصدیق بھی کرلی، تیسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے دین کو سمجھ لیا ، اچھوں سے دل میں محبت رکھی اور بروں سے نفرت رکھی مگر ان میں اظہار کی جرأت نہ تھی۔اسکے باوجود یہ طبقہ بھی نجات پاگیا۔ یہ حدیث موجودہ دور پر بالکل صادق آتی ہے۔ جب حاجی عثمانؒ سے اپنے خلفاء نے بغاوت کی، اپنے دوست علماء نے فتوے لگائے تو مولانایوسف لدھیانویؒ ان ہی لوگوں میں تھے جو دل میں ہم سے محبت اور مخالفین سے نفرت رکھتے تھے مگر اظہار کی جرأت نہ کرسکتے تھے، حاجی عثمانؒ کی قبر پر اپنے دامادوں کو لیکر بھی جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ روزنامہ جنگ میں بھی ان کی طرف منسوب کرکے لکھا گیا کہ ’’ حضرت عیسیٰؑ کے چاچے نہیں تھے البتہ ان کی پھوپھیاں تھیں‘‘ جس پر عوام کی طرف سے شور مچ گیا، مولانا لدھیانویؒ نے صرف یہ وضاحت کردی کہ ’’یہ جواب میں نے نہیں لکھا تھا‘‘۔
ایک دن روزنامہ جنگ کی شہہ سرخی تھی کہ وزیرمذہبی امور مولاناحامد سعیدکاظمی نے کرپشن کا اعتراف کرلیا، اسی دن شام کو مولانا سعید کاظمی نے کہا کہ ’’میں حلف اٹھاکر کہتا ہوں کہ میں نے کرپشن نہیں کی‘‘۔ اگر میڈیا جھوٹ بولے اور ن لیگ کے متضاد بیانات کو بھی اعتراف نہ قرار دے تو عام لوگ اندھیر نگری سے کیسے نکل سکیں گے؟۔ مدارس کے علماء ومفتیان وقت ضائع کئے بغیر نصاب کو درست کرلیں ورنہ وہ طوفان کھڑا ہوگا جو پھر ریاست سے بھی سنبھل نہ سکے گا۔ بڑی بڑی ریاستوں کا تیا پانچہ ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی حفاظت ایک عظیم مقصد کی خاطر کی ہے۔

JUI-BanoriTown-MolanaZarwali-MolanaFazlurRehman
مفتی محمودؒ نے بینک کی زکوٰۃ کو سود قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن میں دین کی حفاظت تھی، مولانایوسف لدھیانویؒ نے عصر حاضر میں حدیث نقل کی ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علماء دین کے محافظ اور ذمہ دار ہیں جبتک یہ اہل اقتدار سے مل نہ جائیں اور جبتک دنیا میں گھس نہ پڑیں۔جب اہل اقتدار سے مل گئے اور دنیا میں خلط ملط ہوگئے تو انہوں نے دین سے خیانت کی‘‘۔ مولانافضل الرحمن نے دین کے بجائے اب وزیراعظم نوازشریف کی وکالت شروع کردی ، جبکہ مفتی تقی عثمانی وغیرہ شروع سے سرکاری ٹانگے رہے ، اب تو اتنی ترقی کرلی ہے کہ عالمی سطح پر سودی نظام کو اسلامی قرار دینے کا بڑا معاوضہ لے کر ٹھیکہ اٹھار کھا ہے۔ ان سے مذہب کے حوالہ سے دلچسپی لینے کی کوئی توقع کیا ہوسکتی ہے؟۔ مفتی زرولی خان نے مفتی تقی عثمانی کے استاذاوروفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان وغیرہ کو سود کے خلاف فتویٰ دینے پر آمادہ کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے لیکر عالمی سطح تک بینکوں اور حکومتوں کی حمایت حاصل ہو تومفتی تقی عثمانی کے مقابلہ میں مفتی زرولی، جامعہ بنوری ٹاؤن اور دیوبندی مکتبۂ فکر کے سارے مدارس کی کیا چلے گی؟۔ مدارس کے نصاب سے اتنی استعداد پیدا نہیں ہوتی ہے جس سے موٹی موٹی باتوں کا بھی علماء ومفتیان کو پتہ چل سکے۔ مدارس کا نصابِ تعلیم صوفیاء کا کوئی وظیفہ نہیں بلکہ سیدھے لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں۔مولانا سمیع الحق نے کہا تھا کہ اس میں غلطیوں کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ یہ کوئی آسمانی وحی تو نہیں ہے حق بات سمجھنے کیساتھ ماحول میں ا سکی جرأت بھی ہونی چاہیے۔

Molana-MasoodAzhar-SarwatQadri-HasanZafarNaqvi
جامعہ بنوری ٹاؤن سے پاکستان بھر، بھارت اور بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں علماء ومفتیان نے اہل تشیع پر کفر کا فتویٰ لگایا تو دارالعلوم کراچی نے انکار کیا کہ ’’ہم سرکاری ٹانگے ہیں ہم یہ نہیں کرسکتے‘‘۔ حاجی عثمانؒ سے انکے اپنے استاذ مولانا عبدالحق بیعت تھے، دارالعلوم کراچی کے ملازم مولانااشفاق احمد قاسمی فاضل دارالعلوم دیوبندفتوے کے بعد بھی حاجی صاحبؒ سے منسلک رہے۔ مولانا عبداللہ درخواستی ؒ کے نواسے جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کے مولانا انیس الرحمن درخواستی شہیدؒ فتوؤں کے بعد بیعت ہوگئے، جمعیت علماء اسلام کے دونوں دھڑے حامی تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’ یہ سن70کا فتویٰ لگتاہے۔علماء نے پیسہ کھاکر فتویٰ دیا ہوگا‘‘۔ میں نے علماء کو پھانسا تو مولانا فضل الرحمن نے بھری محفل میں کہا کہ ’’ دنبہ لٹادیا ہے، چھرا ہاتھ میں ہے، ذبح کرو، ٹانگیں ہم پکڑ لیں گے‘‘۔ علماء معافی کیلئے تیار تھے۔ فتویٰ میں شیخ جیلانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ؒ مولانا بنوریؒ اور شیخ مولانا زکریاؒ پر کفر والحاد، گمراہی و زندقہ اور قادیانیت کے فتوے لگائے ، ہفت روزہ تکبیر میں پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھ دیا کہ ’’یہ فتویٰ حاجی عثمان کے خاص مرید سید عتیق الرحمن گیلانی نے لیاہے‘‘ ۔ عدالتی نوٹس پر مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ’’ ہم نے نام سے فتویٰ نہیں دیا‘‘، ہم نے درگزر سے کام لیا۔پھر کچھ عرصے بعد فتویٰ دیا کہ ’’حاجی عثمان ؒ کے معتقد سے نکاح کا انجام کیا ہوگا؟، عمر بھر کی حرام کاری اور اولادالزنا‘‘۔ جب میں نے ان کو انکے مدارس میں چیلنج کیا تو بھاگ گئے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی نے ہمارے ساتھیوں کو پٹوایا، جب ہم نے کیس کیا تو تھانہ میں دونوں طرف کے افراد لاکپ میں بند ہوئے۔ ہماری طرف سے عبدالقدوس بلوچ وغیرہ تھے اور ان کی طرف سے لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق وغیرہ تھے۔آج ہم نے مشکلات کے پہاڑ وں کو جس طرح سے سر کرلیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے صدر اور جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد ؒ ہمارے اخبار کے ایک مضمون سے بہت متأثر ہوئے جو مولانا مسعود اظہر کی بھارت سے رہائی کے بعد لکھا ۔ قاضی حسین احمد سے ہمارے نمائندہ کی ملاقات ہوئی اور پوچھا کہ شیعہ مسلمان ہے یا کافر؟۔ تو ملی یکجہتی کونسل کے صدرسوال کرنے پر بھی ناراض ہوئے۔ تجزیہ تھا کہ تہاڑ جیل سے یہ ممکن نہیں کہ دشمن بھارت مولانا مسعوداظہر کو ہفت روزۂ ضرب مؤمن میں مضامین لکھنے کی اجازت دے۔ سعودیہ، بھارت، افغانستان اور پاکستان میں امریکی سی آئی اے ایک ایسی طاقت ہے جو اپنے پسِ پردہ معاملات کو ڈیل کرسکتاہے۔ مولانا مسعود اظہر نے تنظیم کا علان کرتے ہوئے کہا کہ ’’الحمدللہ چالیس مجاہدین کو اسامہ بن لادن نے ذاتی بارڈی گارڈ کیلئے قبول کرلئے‘‘۔ 9\11کے وقت مسعوداظہر کی جماعت کے سرپرست مفتی جمیل خان (جنگ گروپ) کو امریکہ سے لندن آتے ہوئے واپس امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ بہت بے گناہ گوانتاناموبے کی جیل میں تشدد کی نذر ہوئے۔ ڈاکٹرعافیہ صدیقی آج بھی جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہے، مولانا مسعود اظہر کا اللہ بال بھی بیکا نہ کرے لیکن امریکہ نے نہیں مانگا، امریکہ نے چاہا تو اسامہ کا خاتمہ کردیا، یا اٹھاکر لے گئے، وہ جو بولیں لوگ یقین کریں گے اور آئی ایس آئی کے جنرل پاشا کو ملازم رکھ لیا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ’’نوازشریف کو روتا دیکھ کر جنرل ضیاء الحق یاد آیا‘‘ حالانکہ جنرل ضیاء حادثاتی موت کا شکار ہوئے۔ نوازشریف کیساتھ قاضی حسین احمد بھی اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام تک برسی مناتا رہاہے۔مولانامسعوداظہر، حافظ سعید ، مفتی زرولی خان ، مولانا سیدحسن ظفر نقوی ، ثروت اعجاز قادری اور دیگر مذہبی لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر مدارس کے نصاب ، مسالک کی چپقلش اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ایک جامع اور واضح لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ ایران اور سعودیہ کے علاوہ شیعہ سنی فسادات کرانے کے چکر میں لگ رہا ہے۔مفتی تقی عثمانی نے اہل تشیع سے خود کو بچانے کیلئے ملاقاتیں کی ہیں اور سوشل میڈیا پر جو لوگ مفتی تقی عثمانی تیرے جانثار بے شمار کے نعرے لکھ رہے ہیں وہی اہل تشیع کو کافر قرار دینے کے فتوے بھی جاری کررہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کو ان افراد پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے جو انکے لبادہ میں فرقہ واریت پھیلانے کی مذموم کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسروں کیلئے خیر نہ مانگنے والے اپنی خیر بھی نہیں مانگ سکتے ہیں۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ