پوسٹ تلاش کریں

جاوید غامدی کا قرآن کے بارے میں سراسر جھوٹا بیان اور حلوے میں زہر کی ملاوٹ اور ملمع سازی

نوشتۂ دیوار کے منتظم اعلیٰ فیروز چھیپا علمدار نے ڈاکٹر جاوید غامدی کے حالیہ بیان پریہ تبصرہ کیا کہ جاوید غامدی مسلمانوں کو قرآن کی آیت کا غلط مفہوم پیش کرکے مٹھائی کے اندر زہر کھلاتا ہے۔ قرآن مردہ قوموں میں زندگی کی روح پھونک کر دورِ جاہلیت سے علم وعمل، بلندی وعروج اور بڑے اعلیٰ درجے کے اقتدار کی منزل پر پہنچاتاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک اچھوت نسل سے تعلق کی بنیاد پر آدمی وہی سوچے گا جو اسکے ماحول کیمطابق ہوگا، لیکن قرآنی تعلیمات کو غلط رنگ میں پیش کرنا بڑی زیادتی ہے۔ واقعۂ کربلا کے بعد ائمہ اہلبیتؒ بھی مھدی کے انتظار میں بیٹھ گئے مگر قرآن کو نہ بدلا۔ انبیاء کرامؑ نے مشکل حالات میں قوم کو بدلنے کی مثالیں قائم کیں۔ جاوید غامدی کے بیان پر تبصرہ صفحہ2میں اداریہ پر دیکھ لیجئے۔

جاوید غامدی کا قرآن کے بارے میں سراسر جھوٹا بیان اور حلوے میں زہر کی ملاوٹ اور ملمع سازی

یہ سوال ہے کہ یورپ کی جو عیسائی قومیں ہیں وہ پچھلے تین سو سالوں سے They have been rolling the planet. مسلمانوں کی باری کب آئیگی؟۔

غامدی: مسلمان اپنی باری لے چکے۔

سوال: اب دوبارہ نہیں آئیگی؟۔

غامدی: اور یہ میں محض تفنن طبع کیلئے نہیں کہہ رہا۔ قرآن مجید کہتا ہے، تلِکَ ایام نداولہا بین الناس ہم اس دنیا کے اقتدار کو اسی طرح ایک لائن میں ایک کے بعد دوسری قوم کو دے رہے ہیں اور یہ ایام اسی طرح اُلٹتے پلٹتے رہتے ہیں بلکہ مزید یہ کہتا ہے کہ دنیا کی قوموں کو ایک لائن میں رکھکر ہم ایک کے بعد دوسری قوم کو اسٹیج پر لارہے ہیں۔ یہ آخری زمانہ ہے، قرآن نے بتایا ہے کہ حضرت نوح کے تیسرے بیٹے یَافِس کی اولاد کے پاس حکمرانی ہو گی۔ پہلے دور میں انکے پہلے بیٹے حام کی نسلوں افریقی اقوام کے پاس دنیا کی حکمرانی رہی۔ دوسرے دور میں انکے دوسرے بیٹے سام کی سمیٹک نیشن کے پاس اقتدار رہا ہے اور اب یہ یافِس کی اولاد ہے جو امریکہ میں، آسٹریلیا میں، یورپ میں، وسط ایشیاء میں اور اسی طرح ہندوستان میں بھی بڑی حد تک آباد ہیں تو اللہ نے اپنے اسٹیج پر اب ان کو موقع دے رکھا ہے۔ مسلمان قومیں اپنا وقت لے چکی ہیں۔ یہ ہے آپکے سوال کے ایک حصے کا جواب۔دوسرا یہ کہ مسلمان سے ہٹ کے اسلام کو ذرا زیر بحث لائیں تو اسلام تو کسی قوم کا مذہب نہیں، آپکے اندر جذبہ یہ نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ وہ پٹی ہوئی مسلمان قومیں دوبارہ اقتدارحاصل کر لیں، پوری طاقت سے اٹھئے اور جنکے حق میں اقتدار کا فیصلہ ہو چکا ہے ان کو مشرف بہ اسلام کریں۔ اسلام کسی قوم کا نام نہیں میسج، پیغام ایک عالمگیر صداقت ہے تو آپ اٹھیں اور پیغام انکے پاس پہنچائیں جنکے حق میں اقتدار کا فیصلہ ہو چکا ۔میں کئی مرتبہ پاکستان میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ پاکستان پر جن کو اللہ نے حکومت کیلئے منتخب کیا، وہ تین چار سو خاندان ہیں اور انکی اولادیں ہیں ایک لمبے عرصے تک یہی رہنا ہے کیونکہ جب تک ایجوکیشن نہیں بڑھے گی بہت سے حالات نہیں ہونگے تو کوشش کریں کہ یہ کچھ تھوڑے سے دیندار ہو جائیں کچھ اخلاقی چیزوں کو مان لیں، لیکن لوگ الٹی کوشش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مسجد کے مولوی صاحب کو ایوان اقتدار پر پہنچانا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار تک لیجانے میں بڑی مشکلات ہیں اسلئے کہ قدرت کا نظام تو اپنا فیصلہ کر چکا لیکن یہ موقع ہمارے پاس موجود ہے کہ ہم اپنے میسج کو ان قوموں تک پہنچا دیں اور کیا بعید ہے آپ کو معلوم کہ ایک زمانے میں یافِس کی اولاد حملہ آور ہوئی، عرب کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور آپکے علم میں ہے کہ بغداد کا سکوت ہوا اور سعدی نے اس موقع پر بڑا ہی درد انگیز مرثیہ کہا ، پوری مسلمان امت رو رہی تھی اور ترک چنگیزخان کی اولاد وہ حملہ آور ہو گئی آخری خلیفہ کو ٹاٹ میں اور قالین میں بند کر کے مار دیا گیا،اسکے بعد ہوا کیا؟۔ اسلام کی طاقت آگے بڑھی اقبال نے کہا کہ پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے۔ ترک مسلمان ہو گئے، سلطنت عثمانیہ وجود میں آئی اور پانچ سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ میرے نزدیک اب یہ صحیح راستہ وہ نہیں، جسکی وجہ سے لوگ ایکدوسرے کو مار رہے ہیں، صحیح یہ ہے، اسکو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ میسج میں بڑی طاقت ہے۔

سوال: سر ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ امام مہدی اور حضرت عیسیٰ نے آنا ہے وہ ہمیں دوبارہ سے ریوائیو کرینگے اور اینڈ آف ٹائم میں مسلمانوں کا غلبہ ہو گا۔

غامدی: اگر انھوں نے آنا ہے اور آکر یہ کام کرنا ہے تو تشویش کی کیا بات ہے؟

سوال: آ نہیں رہے یہ تو ابھی تک آ نہیں رہے؟۔

غامدی: پھر اطمینان کیساتھ سوتے ہیں۔ میں تو کئی بار یہ کہتا ہوں کہ بھئی کوئی اچھا کھانا وانا بنا کر فریج میں رکھ لیتے ہیں تاکہ انکی خدمت میں پیش کیا جائے۔ میرے نزدیک مسلمانوں کو ان افسانوں سے اب نکلنا چاہیے اور اس حقیقت کی زمین پر کھڑے ہونا چاہیے، مسلمان قومیں عالمی اقتدار کا خواب نہ دیکھیں۔ ان کیلئے پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنی جہالت دور کریں۔ سچا علم پھیلائیں۔پانچ سو سال سے ہم نے دنیا کو کچھ نہیں دیا۔ اچھا جمہوری نظام اور جمہوری کلچر پروان چڑھائیں لوگوں کو اس طرح تربیت کریں کہ وہ اعلی اخلاق کیساتھ جینا سیکھیں۔ اپنے گریبان میں اپنا منہ ڈال کر دیکھیں تو ہم جھوٹ بولتے بد دیانتی کرتے ہیں دھوکا دیتے ہیں، ہماری بنائی ہوئی دواؤں پر کوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ تو اپنے آپ کو علم اور اخلاق کے لحاظ سے بلند کریں۔ جن ملکوں نے کچھ ہمت دکھائی توانکے حالات بدلے ۔ یعنی عالمی اقتدار الگ چیز ہے لیکن اپنی قوم کی حالت بدلنا، زندگی کی سہولتیں فراہم کرنا، علم کے دروازے کھولنا۔ میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہوں اس قوم نے اپنے آپ کو بہتر جگہ پر کھڑا کر لیا ۔ باقی عالمی سطح پر اقتدار کا فیصلہ اب انکے حق میں ہو گا جن کا میں نے ذکر کر دیا۔ یہ بات خود قرآن نے واضح کر دی ہے۔ ایک ہی راستہ ہے جیسے ہمارے جلیل قدر علماء نے بہت صبر کیساتھ اسلام کی دعوت پیش کی اور ترک مسلمان ہو گئے ایسے ہی آپ کو ان قوموں تک خدا کا پیغام پہنچانا ہے اور سب سے بڑا موقع آپ لوگوں کو ملا ہے جو ان قوموں کے اندر آ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

بلال قطب کی دوجہتوں سے جہالتوں کا پول کھل گیا ۔بول کا تول ومول کھل گیا: ارشاد نقوی

نوشتۂ دیوار کے مدیر خصوصی سید ارشاد نقوی نے دوجہتوں سے سید بلال قطب کی جہالتوں کا تعاقب کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد اسلامی اسکالر اور علاج معالجے کے نام سے جعلسازی کا مرتکب ہے۔ بڑا بچپن کے دودھ دودھ کی رٹ لگانیوالے نے اگر بچپن میں گدھی کا نہیں کسی انسان کا دودھ پیا ہو تو اعترافِ جرم کرنے میں دیر نہیں لگائے۔ جب نام نہاد اسلامی اسکالر کومحرمات کا بھی پتہ نہیں اور جس جبہ پوش اور دین فروش ذاکر کو اتنی بڑی بات کا بھی معلوم نہیں تو ایسوں کو علامہ بن کر بیٹھنے سے عوام کا بیڑہ غرق ہوسکتاہے۔مولانا طارق جمیل کی نقل اتارنیوالے کاپول کھل گیا مگر پھر بھی بول ٹی وی نے موقع فراہم کئے رکھا۔ جس سے میڈیا کا تول اور مول کھل گیاجنہوں نے لمبے چوڑے قصے اور دلفریب جملے ازبر کئے ہوں مگر ان کی جہالت کا حال یہ ہو کہ قرآن میں واضح اور عوام کو معلوم محرمات کا بھی پتہ نہ ہو۔ بہو کے بیوہ بن جانے کے بعد اس کی سسر سے شادی کرائیں کہ اگر کوئی دوسرا رشتہ دار نہ ہو تو بہو کی سسر سے شادی ہوسکتی ہے۔ کوئی سنجیدہ ملک ہوتا تو آزاد جمیل کی داڑھی مونڈھ کر اس کا چہرہ سیاہ کرکے عوام کے سامنے گدھے پر گھماتا اور ساتھ میں بیٹھے بلال قطب اور جبہ پوش ذاکر سے بھی یہی سلوک روارکھتا۔ اسلام کے حوالہ سے علم کا حال تو ان سب کا معلوم ہوگیا جن کو میڈیا میں ایک سازش کے تحت اسلام کی بدنامی کا باعث بنایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بلال قطب روحانیت کے نام پر بھی ٹی وی پر بیٹھ کر مستقل جعلسازی کادھندہ کررہاہے۔ اے آر وائی کے سید وقار الحسن کو ایک دن اس پر بھی چھاپہ مار کاروائی کی ضرورت ہے۔
بلال قطب کی چکنی چپڑی باتیں سن کر کتنے لوگ مغالطہ کھاتے ہوں؟۔ شاہین ائر لائن کا ایک گارڈ نوید نے اپنی ضعیف والدہ کیلئے بڑی مشکل سے بلال قطب کا فون نمبر حاصل کیا تاکہ اس سے بات کرنے کا اعزاز حاصل ہو۔ بلال قطب نے جب اسے کہا کہ ’’تمہارے اوپر کالا جادو ہوا ہے‘‘ تو خاتون حیران ہوگئی کہ مجھ پر کون اور کس لئے جادو کرے گا؟۔ پھر بلال قطب کو برا بھلا کہنے لگی۔ کتنے لوگوں کو اس طرح ٹی وی کے ذریعے نفسیاتی مریض بنانے میں کامیاب ہوگا۔ حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ نے بھی روحانی علاج کا سلسلہ جاری کیا تھامگر کاروبار نہیں بنایا تھا۔ مسجدو مدرسہ اور خانقاہ کیلئے کبھی کوئی چندہ تک نہیں کیا۔ جن مریدوں نے کچھ دیا تو اس پر ہی گزارہ چلایا، اب نااہل قسم کے لوگوں نے اس مرکز کو بھی چندہ اور جنگ وجدل کا میدان بنالیا۔
جب سید عتیق الرحمن گیلانی مسجد کے امام اور خانقاہ کے منتظم تھے تو حاجی عثمانؒ نے فرمایا تھا کہ ہماری مسجد کو الحمد للہ مسجد نبوی ﷺ کے قرون اولیٰ کا اعزاز حاصل ہے، اس دور میں بھی تنخواہ دار کوئی امام نہ تھا اور آج اس سنت کو زندہ کیا گیا۔ حاجی عثمانؒ کے مخالفین درپردہ سازشوں کے پیچھے کھڑے ہیں لیکن جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکے۔ وہ دور زیادہ دور نہیں کہ خانقاہ چشتیہ، مدرسہ محمدیہ، خدمتگاہ قادریہ، مسجد الٰہیہ اور یتیم خانہ اصغر بن حسینؓ کے تمام شعبہ جات کو فعال بناکر بہت پرانی یادیں پھر سے تازہ کردی جائیں گی ۔انشاء اللہ ۔ حضرت حاجی محمد عثمان اپنے وقت کے عظیم مجددتھے ، جو ایک نالائق طبقے کے باعث مفاد پرستی اور جہالت پر مبنی فتوؤں کے شکار ہوئے۔ شیطان کو خوف تھا کہ یہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز تباہ وبرباد نہیں کیا گیا تو یہاں سے دین حق کو ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔
مرکز رشد وہدایت منبع انوارِ حق
یا مدینہ پاک ہے یا خانقاہ چشتیہ

حاجی محمد عثمانؒ نے فرمایا کہ مسجدالہٰیہ نام توحید کی وجہ سے رکھا، تاکہ دیوبندی مکتبۂ فکر مانوس رہے۔ خدمتگاہ قادریہ سے بریلوی مکتبۂ فکر ، مدرسہ محمدیہ سے اہلحدیث اور یتیم خانہ اصغر بن حسینؓ سے اہل تشیع مانوس رہیں۔حاجی عثمانؒ کے مشن کی تکمیل پر تمام مکاتب فکر کے بڑے علماء کرام کی طرف سے ہماری تحریک کی تائید نے مخالفین کے حوصلے پست کردئیے ہیں ۔ ہمارا مقصد نہ کسی کو شکست ہے اور نہ ہی ہم کسی کو ملامت کرنا چاہتے ہیں البتہ دین خدمت ہے جس کو تجارت بنانے کے خلاف ہم سربکف مجاہدہیں۔ اسلام کی نشاۃ اول دین کو قربانیوں اور خدمت سے ہوئی تھی ۔
روش روش پہ ہراساں ہیں چاند کی کرنیں
قدم قدم پر سلگتے ہیں بے کسی کے چراغ
میرے چمن کو جہاں میں یہ سرفرازی ہے
ہر ایک پھول نئی زندگی کا غازی ہے
روش روش پہ ہیں برق وشرر کے ہنگامے
مجھے یقین ہے بہاروں کی کارسازی ہے
لکھو یہ عظمت ہستی کے باب میں ساغر
کہ غزنوی کی جلالت غم ایازی ہے
آلام کی یورش میں بھی خورسند رہے ہیں
نیرنگئی حالات کے پابند رہے ہیں
آفاق میں گونجی ہے میری شعلہ نوائی
نالے میرے افلاک کا پیوند رہے ہیں
ڈالی ہیں تیرے خاک نشینوں نے کمندیں
ہر چند محلات کے در بند رہے ہیں
ہر دور میں دیکھا ہے میری فکرِ رسا نے
کچھ لوگ زمانے کے خدا وند رہے ہیں
ساغر نہ ملی منزلِ مقصود خرد کو
ہاں قافلہ سالار جنوں مند رہے ہیں
وقار انجمن ہم سے فروغ انجمن ہم ہیں
سکوتِ شب سے پوچھو صبح کی پہلی کرن ہم ہیں
ہمیں سے گلستان کی بجلیوں کو خاص نسبت ہے
بہاریں جانتی ہیں رونقِ صحن چمن ہم ہیں
زمانے کو نہ دے الزام اے ناواقفِ منزل
زمانے کی نظر ہم ہیں زمانے کا چلن ہم ہیں
قریب و دور کی باتیں نظر کا وہم ہیں پیارے
یقین رہنما ہم سے فنون راہزن ہم ہیں
طلوع آفتاب نو ہمارے نام پہ ہوگا
وہ جن کی خاک کے ذرّے خورشید وطن ہم ہیں
بہر صورت ہماری ذات سے سلسلے سارے
جنوں کی سادگی ہم ہیں خرد کا بانکپن ہم ہیں
ہمارے ہاتھ میں ہے ساغر ادھر دیکھو!
ادھر دیکھو حریف گردش چرخ کہن ہم ہیں

جاوید احمد غامدی کے انتہائی باطل نظرئیے کا تعاقب

جاوید غامدی نے حالیہ ویڈیو بیان میں کہا کہ’’ حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے ، ایک بیٹے کی اولادافریقی اقوام ہیں، دوسرے بیٹے کی موجودہ مسلمان اقوام ہیں اور تیسرے بیٹے کی امریکی ویورپی اقوام ہیں۔ قرآن کے مطابق تلک ایام نداولھا بین الناس باری باری پہلے افریقی اقوام دنیا پر حکومت کرچکی ہیں، پھر نوح علیہ السلام کے دوسرے بیٹے کی اولاد مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ، اب مسلمانوں کی باری کبھی نہیں آئے گی ، یہ قرآن کا فیصلہ ہے ، حضرت نوحؑ کے تیسرے بیٹے کی اولاد امریکہ وپورپ نے دنیا میں حکومت کرنی ہے البتہ مسلمان اپنی زندگی کے طرز کو بہتر کرنے کی کوشش کریں اور مسلمانوں کے عالمی غلبہ اور امام مہدی کے انتظار میں بیٹھنا ہوتو انکی مرضی‘‘۔
جاوید غامدی کو سند سمجھا جاتاہے، وہ اپنی ذہنی ساخت کو قرآنی تعلیم کا رنگ نہ دیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ یہود کا کام یہ تھا یحرفون کلم من بعد مواضعہ ’’ جملوں کو ان کی جگہوں سے ہٹا کر بات کرتے تھے‘‘۔ جاوید غامدی نے یہودی احبار کے طرز پر قرآنی آیت کو غلط رنگ میں پیش کیا۔ اللہ نے نوحؑ کے بیٹوں کی ترتیب کے لحاظ سے نہیں فرمایا کہ’’ ترتیب وار باری باری ان کو حکومت ملے گی ‘‘ بلکہ ونرید ان نمن الذین استضعفوا فی الارض ان نجعلھم الائمہ وان نجعلھم الوارثیں ’’ ہمارا پروگرام ہے کہ جن لوگوں کو دنیا میں کمزور کرنے کی پوری سازشیں ہورہی ہیں کہ انہی لوگوں کو من حیث القوم دنیا کا امام بنائیں اور انہی کو زمین کا وارث بنائیں‘‘۔ قرآن تو ان لوگوں کو حوصلہ دیتا ہے جنکے خلاف سازش پر دنیا متحد ہوتی ہے۔ یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے کنویں میں پھینکااور عزیز مصر کی بیگم نے جیل میں ڈلوادیا مگر جیل سے وہ اقتدار تک پہنچے۔ خمینی سے جیل میں شاہ ایران نے پوچھا کہ تیرے ساتھی کہاں ہیں؟، خمینی نے جواب دیا کہ ’’ماؤنوں کی گود میں‘‘ امریکہ میں کالوں کیخلاف بدترین قوانین تھے لیکن بارک حسین مشعل اوبامہ کیساتھ پورے 8 سال تک امریکہ کا صدر بن کر وائٹ ہاؤس میں رہے۔
جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر فرید پراچہ نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل پر کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبیﷺ کو اذیت دینے والوں کا حکم دیاہے کہ اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلا ’’ ان کو جہاں بھی پاؤ ، قتل کردو‘‘۔ حالانکہ یہ آیت بھی ڈاکٹر فرید پراچہ نے اپنی جگہ سے ہٹاکر پیش کی جو یہود کا وطیرہ تھا۔آیت میں خواتین کوزبردستی سے زیادتی کا نشانہ بنانے پر یہ خبر دی گئی ہے کہ پہلے بھی ایسے لوگ گزرے ہیں جو خواتین کو زیادتی کا نشانہ بناتے تھے لیکن پھر اللہ نے ان کو مغلوب کردیا اور اچھے لوگوں کے پاس طاقت آگئی تو خواتین سے زیادتی پر قتل کرنے کا سلسلہ آتا تھا۔ نبیﷺ نے ایک خاتون کی شکایت پر یقین کیا تو گواہ طلب کئے بغیر قرآن کے حکم کے مطابق اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا۔ افسوس کہ زبا بالجبر کیلئے بھی علماء نے قرآن و سنت کیخلاف چار شرعی گواہوں کو ضروری قرار دیا تھا جس کی وجہ سے کوئی مجرم کیفر کردار تک نہیں پہنچتاتھا ۔ پرویز مشرف نے اس وجہ سے زنا بالجبر کو تعزیرات میں شامل کیا، جس پر مفتی تقی عثمانی نے انتہائی غلط تحریر لکھ ڈالی، وائل ابن حجرؓ کی روایت میں گواہی کے بغیر سنگسار کرنے کی وضاحت ہے ، اسی روایت کا حوالہ دیکر سنگسار کرنے کی حد کو ثابت کیا لیکن گواہی کے حوالہ سے اس حدیث کو نہ مانا۔ جماعتِ اسلامی نے اس کو پمفلٹ کی صورت میں خوب بانٹا، جس کا ہم نے جواب بھی لکھ دیا تھا،مذہبی طبقے کا معاشرے میں یہ سب سے بدتر کردارہے۔
مشعال خان کیس کے بعد جماعتِ اسلامی پختونخواہ علماء ومشائخ کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، تقاریر کے دوران کوئی قافلہ داخل ہوتا تو نعرے بازی کا تکلف کرتے ہوئے عجیب وغریب چال ڈھال کا مظاہرہ کیا جاتا تھا، علماء اور مشائخ اس طرح کی ڈرامہ بازی سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ مشعال خان پر خوب تنقید کی گئی۔ جبکہ ڈاکٹر فرید پراچہ نے مشعال خان کیس کے بعد ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ’’ بہت سی آیات ہیں جن میں نبیﷺ کو اذیت دینے پر قتل کا حکم ہے‘‘ ۔ ایک خاتون پوچھ رہی تھی کہ بتاؤ قرآن میں کہاں یہ حکم ہے۔ لیکن ڈاکٹر فرید پراچہ مسلسل اپنی بات دہرا رہا تھا کہ قرآن میں بہت سی آیات ہیں مگر حوالہ نہیں دے رہا تھا۔ سلمان تاثیر کے حوالہ سے بھی نبیﷺ کی اذیت پر جو آیت پیش کی تھی ،اس کا اس رکوع سے بھی تعلق نہیں، جس میں نبیﷺ کی اذیت کے حوالہ سے ذکر ہے۔ اس اذیت میں بھی بنیادی بات یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ مخاطب ہیں کہ جب نبیﷺ کھانے کی دعوت پر بلائیں تو پہلے سے آکر مت بیٹھو، کھانا کھانے کے بعد بھی باتیں بنابناکر زیادہ دیر تک نہ بیٹھو ، اس سے نبیﷺ کو اذیت ہوتی ہے۔۔۔ ‘‘۔ جماعتِ اسلامی جان بوجھ کر بے شعور عوام کے جذبات کو مذہبی بناکر اپنے مذموم سیاسی عزائم کے ذریعے اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تشدد کی سیاست اسلامی جمعیت طلبہ نے شروع کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت اور نوازشریف کے کرپشن میں جماعتِ اسلامی برابر کی شریک رہی۔ اسلامی جمہوری اتحاد وغیرہ کے نام سے جماعتِ اسلامی ہمیشہ استعمال ہوتی رہی ہے۔ جس طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ نے شریف برادران کو پاک صاف رکھا تھا اور پانامہ لیکس میں اس کا پاجامہ لیکس ہوگیا ، اسی طرح جماعتِ اسلامی کو بھی پاک صاف رکھا ہے۔
پروفیسر غفور احمد ؒ جیسے اچھے لوگ جماعت اسلامی میں بہت ہیں لیکن انہیں بالکل بے خبر رکھا جاتاہے، اسلامی جمہوری اتحاد کے بارے میں بھی پروفیسر غفور احمد نے بعد میں بتایا تھا کہ وہ لاعلم رہے اور بعد میں حقائق کا پتہ چلاہے۔ مشعال خان کے والد صاحب کے پاس جماعت اسلامی دیر کا کوئی شخص آیاتھا تو اس نے کہا کہ ’’ہم دیر میں علماء کو بہت آگے آنے اور اہم معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرنے دیتے ، تم لوگ علماء کو کیوں اتنی اہمیت دیتے ہو؟ ‘‘۔ واقعی جماعت اسلامی میں علماء ومشائخ کی اوقات بھی نہیں، جماعت کاامیر کوئی عالم نہیں بن سکتا، سید منور حسن سے سلیم صافی نے ضمیر کی بات کہلوائی تو جماعت کی امارت سے انکو ہٹادیا گیا۔ جماعت اسلامی ضمیر رکھنے والے افراد کو بھی آگے نہیں لاتی جو باشعور اور مخلص ہوں، سید منور حسن کو سیدھا سادا ہونے کے علاوہ کراچی پر قابو پانے کی غرض سے لایا گیا۔جمعیت علماء اسلام نے بھی علماء کی بھیڑ کے ہوتے ہوئے اکرم خان درانی کو داڑھی رکھا کر وزیراعلی بنایاتھا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری پہلے نوازشریف کا غلام رہا، تمام جرموں میں شریک اور چشم دید گواہ،اب شریف برادری کی بھینس سے مولانا فضل دودھ پی رہاہے۔

موجودہ دور میں خیر اور شرکا تصور

نبی ﷺ نے قرون اولیٰ میں خیر کے بعد جس شر کا ذکر فرمایا تھا، وہ حضرت عثمانؓ کے آخری دور اور حضرت علیؓ کے دور میں ظاہر ہوا۔ حضرت علیؓ نے نہج البلاغہ میں حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد ان کی صلاحیتوں کا جن الفاظ میں اعتراف کیا ہے، اس سے زیادہ اہلسنت بھی حضرت عمرؓ سے عقیدت و احترام کے تعلق کے قائل نہیں۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت پر جوافواہ پھیلائی گئی تھی اس کیلئے بیعت رضوان کی آیات سے صحابہؓ نے رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ کی سندحاصل کی تھی۔آج نہ تو قاتلین عثمانؓ سے بدلہ لینا ممکن ہے اور نہ ہی حضرت علیؓ اور آپ کی آل کو مسند اقتدار کے استحقاق کو تسلیم کرنے سے کوئی تاریخی حقیقت بدل سکتی ہے۔ قرآن میں نبیﷺ سے اختلاف کرنے والے منافقین اور مؤمنین کا واضح فرق ہے۔ مؤمنین پر منافقین کی آیات کا فٹ کرنا قرآن کی روح کے منافی ہے۔
حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاس کے معاملہ میں نبیﷺ سے اختلاف کیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس کی تعلیم وتربیت قرآن وسنت کا تقاضہ تھا اسلئے کہ بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور ہجرت نہ کرنے کے باوجود نبیﷺ کا حضرت علیؓ کی بہن سے نکاح کی خواہش پر اللہ نے نبیﷺ کے مقابلہ میں آیات نازل کیں۔ حضرت علیؓ سے حضرت عثمانؓ کی شہادت کا معاملہ اختلاف جنگ وفساد اور شر وفتنہ تک اسلئے پہنچا کہ وحی کا سلسلہ بند ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کیلئے حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد اتفاق واتحاد اور وحدت کا راستہ حضرت امام حسنؓ کے کردار کے طفیل باعث تقلید رہا ہے۔ حضرت علیؓ سے اختلاف کرنے سے زیادہ یزید کیخلاف حضرت امام حسینؓ کی طرف سے حزبِ اختلاف کا کردار قابلِ تقلید ہے۔ بنی امیہ کے بعد بنو عباس کے دور میں اہل تشیع کے بارہ اماموں میں سے ایک امام تو ایک خلیفہ کے ولی عہد بھی تھے۔ ان سے زیادہ خلافتِ راشدہ کے دور میں ائمہ اہلبیت سے اکابر تین خلفاء کے تعلقات بہتر رہے۔ تاریخی باتوں میں بہت کچھ مسخ ہوچکاہے اور ایسے تاریخی واقعات پر یقین نہ کرنا بہتر ہے جن سے اہلبیتؓ اور صحابہؓ دونوں کے حوالہ سے بدتر تأثر قائم ہوتا ہو۔ حضرت علیؓ نے قرآن وسنت کی تعلیمات کی وجہ سے ہی حدیث قرطاس کے معاملے کو برداشت کیا،ورنہ تو حضرت عمرؓ جب ننگی تلوار لارہے تھے تو حضرت امیر حمزہؓ نے کہا تھا کہ ’’ اگر غلط ارادے سے آرہا ہو تو اس کو اس کی اپنی تلوار سے قتل کردوں گا‘‘۔
خلافت راشدہ کے بعد حضرت امام حسنؓ نے صلح کا کردار ادا کیا تو خیر میں دھواں بھی شامل ہوا۔سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کے علاوہ راستہ اختیار کیا گیا جس میں نیک و بدسب طرح کے لوگ آئے۔ یہ دھویں والا خیر اب پھر اس شر میں بدل گیا ہے جہاں داعی اسلام کے لبادے میں اسلام کی زباں میں جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرقہ واریت کی دعوت دے رہے ہیں۔ کل حزب بمالدیھم فرحون کا مظاہرہ ہورہاہے۔ تمام فرقوں اور جماعتوں نے اپنی طرف بلانا شروع کیا ہے اور دوسروں کو برا بھلا اور غلط کہتے ہیں۔ کوئی سمجھتا ہے کہ اہل بیت سے محبت نجات کا راستہ ہے باقی جو بھی کرو، خیر ہے۔ کوئی توحید کو نجات کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے، کوئی رسول اللہ ﷺ سے محبت کے جذبے کو کافی قرار دیتا ہے، کوئی اسلاف کی طرف سے بنائی ہوئی سنت اور ہدایت کے طریقۂ کار کو کافی سمجھتا ہے۔ کوئی ذکر کرنے کو نجات کا پہلا اور آخری وسیلہ قرار دیتا ہے، کوئی نماز کے بارے میں فرض ادا کرنے کو کافی خیال کرتاہے۔ کوئی نبوت والے کام کے نام پر اپنے طریقۂ کار سے مطمئن ہے،کوئی فرقہ واریت کو نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے لیکن خانہ سب کا خراب ہے۔
فرقے ، مذہبی جماعتیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی ڈگر پر چل رہی ہیں مگر اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟۔ کوئی حکومت سے چمٹ کر اپنے مفادات حاصل کرتاہے ۔ کوئی مذہب کو اپنا الو سیدھا کرنے کا ذریعہ سمجھتاہے لیکن اندھے ہوکر مذہب کو بے دریغ استعمال کیا جارہاہے۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد امریکہ میں بھی پروفیسر رہے ہیں۔ بہت قابلِ احترام شخصیت ہیں۔ طالب علمی کے دور میں جماعت اسلامی کے اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی ناظم اعلیٰ رہے ہیں۔ عربی پر پورا عبور حاصل کیا ہے اور اصول فقہ کی تعلیمات کو درست معنیٰ میں سمجھ لیاہے لیکن اسلام کے نام پر خلوص کیساتھ اسلام کی حمایت میں ایسی کتاب لکھ ڈالی جو اسلام کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دینے کیلئے کافی ہے۔ علماء ومفتیان حضرات مدارس میں اصول فقہ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر اس تعلیم کی روح سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں ورنہ دو باتوں میں ایک بات ضرور ہوتی یا تو ڈاکٹر منظور احمد صاحب کی طرح اسلام سے جان چھڑانے کی بات کرتے اور یا پھر ہماری تحریک میں شامل ہوکر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد ڈالتے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک شر کا ذکر قرون اولیٰ کے دور میں کیا تھا ، اس سے پہلے جب خواتین پر مساجد میں آنے سے روکنے کا عمل شروع کیا گیا تو اس میں اجتہادی غلطی شامل تھی۔ اب ایک طرف اسکول کالج، یونیورسٹیوں ، کاروباری مراکز اور دفاتر میں مخلوط نظام رائج ہوتا جارہا ہے۔ یورپ و مغربی دنیا کی طرح اسکے نتائج کھلے عام فحاشی کی صورت میں نکلیں گے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے مساجد خوف و دہشت اور نفرتوں کی آماجگاہیں بنی ہوئی ہیں۔ حج کا عظیم اجتماع آج بھی خواتین و حضرات کا مخلوط ہوتا ہے، جو مذہبی سیاسی جماعتیں خواتین کے کردار کی مخالفت کرتی تھیں جونہی پرویز مشرف نے خواتین کو خصوصی نشستیں دیں تو اپنی بیگمات ، بیٹیوں اور سالیوں کو اسمبلیوں میں لایا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر اسمبلی میں جانے کیلئے مساجد میں جانا بھی ضروری قرار دیا جائے تو اللہ کیلئے نہ سہی پارلیمنٹ کیلئے مساجد بھی آباد ہوجائیں گی۔ اگر کوئی اپنی بیگم ، بیٹی، ماں اور بہن کیساتھ پانچوں وقت باجماعت مسجد میں نماز پڑھنا شروع کردے تو اس سے بڑھ کر کیا ولایت اور شرافت ہوسکتی ہے؟۔ مساجد کردار سازی کے اہم ترین مراکز ہیں لیکن اسکا فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ جدید دنیا میں داخل ہوتے ہوئے اگر شہر گاؤں محلے کی مساجد کو کردار سازی کیلئے بنیادی ماحول کے طور پر استعمال کیا جائے تو اسلامی معاشرہ پوری دنیا میں جلد سے جلد غالب آجائیگا۔ مکہ مکرمہ کے مسجد حرام میں خواتین و حضرات ایک ساتھ ہی طواف کرتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔ جہاں ایک نماز کا ثواب لاکھ کے برابر ہے، مگر 49 او ر 89کروڑ کے برابر ثواب کمانے والوں کو بھی زبردست کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔

اجنبی کا تعارف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں

قال رسول اللہ ﷺ: اذا حضر الغریبَ فالتفتُ عن یمینہٖ و عن شمالہٖ فلم یرالا غریباً فتنفس کتٰب اللہ لہ بکل نفس تنفس الفی الف حسنۃ و خط عنہ الفی الف السیءۃ فاذا مات مات شہیداً(الفتن: نعیم بن حماد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اجنبی کو میرے پاس حاضر کیا گیا تو میں نے اس کی طرف دائیں جانب سے التفات کیا اور بائیں جانب سے التفات کیا ، وہ نظر نہیں آتا تھا مگر اجنبی، پس اللہ کی کتاب پوری عظمت کیساتھ اسکے سامنے روشن ہوگئی ، اس کو ہزارہا ہزار نیکیاں ملیں اور ہزار ہا ہزار گناہیں اسکی معاف کی گئیں۔ پس جب وہ فوت ہوا تو شہادت (گواہی) کی منزل پاکر فوت ہوا۔
یہ حدیث امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد ؒ نے اپنی کتاب الفتن میں نمبر 2002 درج کی ہے، یہ اجنبی کا تعارف بتایا گیاہے

قرون اولیٰ میں خیر اور شرکا تصور

نبوت و رحمتﷺ کے بعد خلافت راشدہ کا تیس سالہ دور بھی مثالی تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور میں ترقی و عروج کی منزلیں طے ہوئیں ، حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کادور مسلمانوں کی آپس میں لڑائی ، جھگڑے اور فتنے فساد کا دور تھا۔ حضرت حسنؓ نے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح کا کرائی، جسکی پیشگوئی نبیﷺ نے فرمائی تھی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت چالیس دن تک انکے گھر کا محاصرہ رہا ۔ حضرت عثمانؓ کی داڑھی میں ہاتھ ڈالنے والے پہلے شخص حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے تھے۔ خوارج پہلے حضرت علیؓ کیساتھ تھے مگر بعد میں مخالف ہوگئے اور جب خلافت کا مرکز مدینہ سے کوفہ و شام منتقل ہوا تو مسجدوں کے جمعہ خطبات میں ایک دوسرے پر لعن طعن کے معاملات بھی شروع ہوئے، ان تلخ تاریخی حقائق کواگر دیکھا جائے تو جن صحابہؓ کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ آپس میں ایکدوسرے پر رحیم اور کافروں پر سخت ہیں مگر عشرہ مبشرہ کے صحابہؓ نے ایکدوسرے سے قتال کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کے خیر کے بعد جس شر کی پیش گوئی فرمائی تھی وہ جنگ صفین اور جنگ جمل وغیرہ میں پوری ہوئی تھی۔ قرآن میں یہود و نصاریٰ کے حوالے سے تنبیہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسروں کے جنت میں داخل ہونے کے قائل نہ تھے اور پھر خود بھی ایک دوسرے کی مذمت کرتے تھے۔
اسلامی تاریخ اور خلافت راشدہ کے آخری دور میں جس شر کا نبی ﷺ نے ذکر فرمایا وہ پورا ہوکر رہا۔ اگر امت مسلمہ حقائق کی طرف دیکھنے کے بجائے جانبداری اور وکالت کا سلسلہ جاری رکھے تو قیامت تک بھی مسلم اُمہ متحد و متفق اور وحدت کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی ہے۔ اہل تشیع کے نزدیک ایک گروہ حق پر اور دوسرا باطل پر تھا۔ آغا خانی اسماعیلیہ فرقہ کے شیعہ امام حسنؓ کو اسلئے نہیں مانتے کہ صلح میں بنیادی کردار ادا کیا، اثنا عشری امامیہ فرقہ جو اہل تشیع کا اکثریتی فرقہ ہے حضرت امام حسنؓ کا کردار قابلِ تحسین سمجھتا ہے ۔ اہل سنت یزید کے مقابلے میں حضرت امام حسینؓ کے کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ سنی شیعہ کو قریب لانے کیلئے ضروری ہے کہ جن غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتاہے ان کو جلد از جلد دور کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ باطل قوتیں شیعہ سنی کو لڑا کر دنیا میں اسلحہ کے فروغ اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔ایران و سعودی عرب کے درمیان فتنہ و فساد کا مرکز پاکستان بنے تو دنیا کی واحد مسلم ایٹمی قوت کا بھی خاتمہ ہوجائیگا۔ کوئٹہ میں قتل و غارت گری کے شکار ہزارہ برادری کے باشعور لوگ ایران اور سعودی عرب دونوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ انکی وجہ سے پھر سے شیعہ سنی کے درمیان منافرت کا بازار گرم ہوگا ۔ اللہ نے بار بار اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اولی الامر کے ساتھ اختلاف کی گنجائش رکھی ہے۔حضرت علیؓ اور یزید کی اولی الامری میں بڑا واضح فرق تھا۔
مسلم اُمہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود خلافت و امامت کے مسئلے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ قرآن و حدیث کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور تاریخی اختلافات کو اچھالتے اچھالتے فرقہ واریت کو اسلام سمجھ لیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے فرقہ وارانہ ذہنیت کی بھی بیخ کنی فرمائی ہے اور عبادتگاہوں کی آبادی کو قرآن میں اہمیت دی ہے۔ تمام مذاہب یہود ، نصاریٰ، مجوس اور مسلمانوں کی مساجد کو اللہ کے نام کی وجہ سے قائم دائم رہنے کی قرآن میں وضاحت ہے۔ جب خلافت راشدہ کے دور میں اللہ کے حکم کے برعکس مسلمان خواتین کو مساجد میں آنے سے روکا گیا تو اسمیں ان کی نیت خراب نہ تھی لیکن یہ قرآن و سنت کے بالکل منافی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نماز میں اجتماعیت کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اپنی بیگمات کو مساجد میں آنے دو، ان کو مساجد میں آنے سے نہ روکو۔ اسی طرح سے جن کی بیگمات یہود و نصاریٰ تھیں ان کو بھی ان کی عبادتگاہوں میں جانے دینے کا حکم تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج سے فرمایا تھا کہ میرے ساتھ جو حج کرلیا وہ کافی ہے ، میرے بعد حج نہیں کرنا۔ کچھ ازواجؓ نے اس حکم کی پابندی کی ، اُم المومنین حضرت میمونہؓ مکہ مکرمہ کی رہائشی تھیں لیکن حج نہیں کیا۔ اوراُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ مدینہ منورہ سے حج کیلئے نکلیں اور پھر سیاسی و جہادی لشکر کی قیادت فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا تھا کہ’’ اگر اس زمانے میں نبی ﷺ حیات ہوتے تو خواتین پر مساجد میں جانے کی پابندی لگاتے‘‘۔ اجتہادی معاملہ میں خطاء کی گنجائش ہوتی ہے ۔ اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اور اولی الامر سے جن کو اختلاف ہوتا ہے ان سے بھی یقیناًاختلاف کی گنجائش رہتی ہے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت پر قرآن میں بیعت رضوان کا ذکر ہے ، جو صلح حدیبیہ سے پہلے حضرت عثمانؓ کی شہادت کی افواہ پر لی گئی تھی۔ حضرت علیؓ کو شہید کرنے والے کو سزا دی گئی مگر حضرت عثمانؓ کو شہید کرنے والے ہجوم کو سزا دینا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ جو ہوا سو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
قرون اولیٰ کے دور میں جب مسلمانوں نے خواتین کو اجتہادی بنیاد پر مساجد میں نہ آنے دیا تو خوف و ہراس کی فضا بن گئی۔ حضرت علیؓ کو مسجد میں جاتے ہوئے شہید کیا گیا۔ حضرت عبد اللہ ابن زبیرؓ کے وقت میں بیت اللہ کا مطاف منجنیق کے ذریعے پتھروں سے بھر دیا گیا۔ بنو اُمیہ کے دور میں جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ اور دیگر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کو جہری پڑھنے کی پابندی لگائی گئی۔ حضرت امام شافعیؒ کو نماز میں جہری بسم اللہ پڑھنے کو ضروری قرار دینے پر رافضی قرار دیا گیا۔ ان کا منہ کالا کرکے گدھے پر گھمایا گیا۔ آج نئی صورتحال ہے ، اگراس رمضان میں سورہ فاتحہ اور دیگر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کو جہری پڑھنے کی ابتداء کی گئی تو یہ بہت بڑا انقلاب ہوگا۔ اہل تشیع ماتم کو سنت اور تراویح کو بدعت سمجھتے ہیں تو علمی بنیادوں پر عملی طور سے حقائق کو سامنے لانا ہوگا۔ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر اہل سنت جہری نمازوں میں جہری بسم اللہ پڑھنی شروع کریں گے تو اہل تشیع بھی ماتم کی زحمت سے باز آنے میں امسال دیر نہیں لگائیں گے۔ بعض قرآنی آیات میں واضح رہا کہ صحابہؓ نے نبیﷺ سے اختلاف کیااور بعض اوقات وحی بھی نبیﷺ کے برعکس مخالف کی تائید میں نازل ہوئی جیسے بدرکے قیدیوں پر فدیہ، سورۂ مجادلہ، رئیس المنافقین کا جنازہ اور حضرت علیؓ کی بہن سے فتح مکہ کے بعد ہجرت نہ کرنے کے باوجود نکاح کی پیشکش۔

مدارس دہشتگردی کے مراکز، جاوید غامدی… جاوید غامدی کو کرارا جواب: عتیق گیلانی

جاوید غامدی TITچینل انٹرنیٹ ویڈیو
سوال یہ ہے کہ دہشتگردی کا سبب کیا ہے؟ اور اس سے کیسے نجات حاصل کرسکتے ہیں؟ ۔
جواب: دہشتگری اسوقت جو مسلمانوں کی طرف سے ہورہی ہے اسکا سبب وہ مذہبی فکر ہے جو مسلمانوں کے مدرسوں میں پڑھایا جارہا ہے جو انکی سیاسی تحریکوں میں سکھایا جارہا ہے اسکا باعث ہے اور اسمیں چار چیزیں ہر مدرسہ پڑھاتا ہے ہر مذہبی مفکر سکھاتا ہے وہ آپ کے سامنے نہ سکھائے تو بہر حال لازماً سکھاتا ہے۔ وہ چار چیزیں کیا ہیں وہ سن لیجئے؟۔ پہلی چیز یہ کہ دنیا میں اگر کسی جگہ شرک ہوگا یا کسی جگہ کفر ہوگا یا ارتداد ہوگا یعنی کوئی شخص اسلام چھوڑ دیگا اس کی سزا موت ہے اور یہ سزا ہمیں نافذ کرنیکا حق ہے۔ دوسری بات یہ سکھائی جاتی ہے کہ غیر مسلم صرف محکوم ہونے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں مسلمانوں کے سوا کسی کو دنیا پر حکومت کا حق نہیں ۔ غیر مسلموں کی ہر حکومت ایک ناجائز ہے۔ جب ہمارے پاس طاقت ہوگی ہم اس کو الٹ دینگے۔ تیسری چیز ہر جگہ سکھائی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی ایک حکومت ہونی چاہیے جسکو خلافت کہتے ہیں الگ الگ حکومتیں ان کا کوئی جواز نہیں۔اورچوتھی بات یہ ہے کہ جدید نیشنل اسٹیٹ جو قومی ریاست ہے یہ ایک کفر ہے۔ اسکی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ چار باتیں ہماری مذہبی فکر کی بنیاد ہیں۔ مجھے یہ بتائیے کہ اگر یہ آپ کو سکھادی جائیں تو آپ کیا کرینگے؟۔ اس وجہ سے میں مسلسل اپنی حکومت سے بھی اور پاکستان کے لوگوں سے بھی کہہ رہا ہوں کہ جب تک آپ اس مذہبی فکر یہ Narativeہے اس کے مقابل میں اسلام کا صحیح Narativeپیش نہیں کرینگے یہ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے ایک کے بعد دوسرا دوسرے کے بعد تیسرا۔ چنانچہ میں نے پاکستان میں بہت سے آرٹیکل لکھے ہیں۔ ابھی حالیہ چند مہینے پہلے اسلام اور ریاست ایک جوابی بیانیہ Counter Narativeکے عنوان سے ایک آرٹیکل میں نے لکھا اس پر بہت بحث ہوئی۔ پاکستان میں تمام علماء نے اس پر تنقید کی پھر میں نے اس پر جواب دیا۔ اس میں بھی میں نے یہی بات واضح کی ہے کہ ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے ورنہ یہ جو اس وقت صورتحال پیدا ہوگئی ہے یہ صورتحال مشرق وسطیٰ میں جہنم بنا دے گی دنیا کو۔ اور میں یہ آپ سے عرض کررہا ہوں کہ ایک زمانے میں یہی بات افغان جہاد کے بارے میں لکھ رہا تھا کوئی نہیں مانتا تھا۔ اس کے بعد پوری قوم نے مانا۔ آج میں آپ کو بھی متنبہ کررہا ہوں اس کیلئے تین اقدام ضروری ہیں۔ Counter Narativeپر مسلمان قوم کی تربیت ضروری ہے۔ میں نے دس نکات کی صورت میں اس کو بیان کردیا ہے۔ اسلام کا اصل Narativeکیا ہے ؟ یہ نہیں ہے اصل Narativeکیا ہے آپ پڑھ لیجئے۔ یہ ضروری ہے کہ اس پر مسلمان قوم کو Educateکیا جائے۔ دوسری کیا ہے دوسری چیز یہ ہے کہ دینی مدارس کا نظام بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ کسی علم کی اسپیشلائزیشن کی تعلیم بچے کو نہیں دی جاسکتی۔ ہر بچے کا حق ہے اس کو پہلے بارہ سال تک broad baseتعلیم دی جائے۔ اسکے بعد عالم بنے اسکے بعد سائنسدان بنے ۔ ہمارے دینی مدارس اس اصول پر کام کرتے ہیں کہ پانچ سال کے سات سال کے بچے کو عالم بنادیتے ہیں۔ اس کا حق کسی کو نہیں ہے۔ ڈاکٹر بنانے کا حق بھی نہیں ہے انجینئر بنانے کا حق بھی نہیں ہے۔ بارہ سال کے Broad baseتعلیم کے بعد جو جی چاہے بنائیے۔ اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس کیلئے سول سوسائٹی تیار ہو۔ لوگ ایجوکیٹ ہوں۔ مسلم حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ بارہ سال کی Broad base تعلیم کے بغیر کسی اسپیشلائزیشن کے ادارے کو قائم نہ ہونے دیں۔ اسکے بعد جس کا جو جی چاہے دیوبندی مدرسہ بنائے، بریلوی بنائے لیکن طے شدہ بات ہے کہ بارہ سال کی Broad base تعلیم کے بعد داخلے کا حق ہو۔ مجھے بتائے کہ آپ کسی کو حق دیتے ہیں اس بات کا کہ وہ پانچ سال کے بچے کو ڈاکٹری کی تعلیم دینا شروع کردے، نہیں دیتے۔ بارہ سال کیBroad base تعلیم ہربچے کا حق ہے۔ تیسری چیز یہ کہ جمعہ کامنبر علماء کیلئے نہیں ہے یہ ریاست کے حکمرانوں کیلئے ہے،اسکو واپس لانا چاہیے، اگر یہ واپس نہیں جائیگا تو عالم اسلام میں مسجدیں یا تو بریلوی کی ہو نگی یا دیوبندیوں کی ہونگی یا اہل حدیث کی ہونگی خدا کی کوئی مسجد نہیں ہوگی۔

:جاویداحمد غامدی کو کرارا جواب : عتیق گیلانی

جاوید غامدی کے یہ الزامات حقائق کے بالکل منافی ہیں۔مدارس کی تعلیم کا دہشت گردی سے تعلق نہیں ۔دہشت گردی آج کی اصطلاح ہے جبکہ مدارس کا وجود ہزار سال قبل ہے البتہ نام نہاد سکالرز جنہوں نے مدارس میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی ہو تو وہ قرآن کا مفہوم غلط پیش کرکے دین کو دہشت گردی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ غامدی نے جس فن میں تعلیم حاصل کی، اپنی خدمات اس تک محدود رکھتے تو یہ اسلام، فطرت اور عقل کا بھی تقاضہ ہوتا۔ عطائی ڈاکٹروں کی طرح ان عطائی اسلامی اسکالرز کا بھی سدباب ہوتا۔ مدارس اور مذہبی جماعتوں پر تنقید کا حق سب کو ہے لیکن یہ نہیں کہ’’ الٹا چور کوتوال کو پکڑے‘‘۔ یہ افکارخلافِ حقیقت کے علاوہ بدترین قسم کے تضادات کا شکار ہیں۔دنیا میں اسلام ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ دین میں زبردستی نہیں۔ جو صلح حدیبیہ اور فتح مکہ سے لیکر آج تک قائم ہے۔ ہندوستان پر 8سو سال کی حکومت میں کس مشرک و کافر کو مدرسہ کی تعلیم نے قتل کروایا؟۔انگریز نے پوری دنیا پر ظالمانہ حکومت کی مگر اسلام عدل کا نظام چاہتا ہے۔ صدیوں خلافت قائم رہی مگر دہشتگردی نہ تھی تو اب خلافت کیونکر دہشتگردی کا ذریعہ بن جائیگی
جاوید غامدی نے تین چیزوں کی وضاحت کردی۔ 1: یہ کہ قرآن و سنت ، علماء اور مذہبی طبقات کے مقابلے میں جاوید غامدی کی ذاتی فکر کے مطابق اسلام کا مفہوم پیش کیا جائے، جو دس نکات پر مشتمل ہے۔جاوید غامدی نے سورہ مائدہ کی آیات کا بھی غلط مفہوم بیان کرتے ہوئے حکمرانوں پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں سیاق و سباق کے اعتبار سے تین قسم کے لوگوں کی وضاحت کرتے ہوئے الگ الگ حکم واضح فرمایا ہے۔ علماء و مشائخ اگر دنیاوی مفاد کیلئے دین کو بیچ ڈالیں تو ان پرکافر کا فتویٰ لگایا ہے اور جو حکمران اللہ کے حکم کے مطابق انصاف نہ کریں ان پر ظالم کا فتویٰ لگایا ہے اور جو عوام اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں ان پر فاسق کا فتویٰ لگایا ہے۔ ایک سوال کہ قرآن میں ماں کے پیٹ کے اندر بچے یا بچی کا علم نہ ہونے کی بات ہے جبکہ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے پتہ چلتا ہے، کے جواب میں جاوید غامدی نے کہا کہ مشرکین مکہ نے قیامت کے بارے میں سوال اٹھایا تھا کہ اس کے وقت کا پتہ نہیں تو قیامت کیسے آئے گی؟۔ جس کے جواب میں اللہ نے کہا تھا کہ جس طرح بارش اور ماں کے پیٹ میں بچے کا پتہ نہیں مگر اس کی حقیقت سے انکار نہیں کرتے ، اسی طرح قیامت کا دن بھی ہے۔
حالانکہ ان پانچ چیزوں کے بارے میں حدیث ہے کہ یہ غیب کی چابیاں ہیں۔ موجودہ دور نے یہ ثابت کیا ہے کہ واقعی قرآن و حدیث برحق ہیں اور یہ غیب کی چابیاں ہیں۔ پہلی چیز ساعہ کا علم ہے، قیامت کو بھی ساعہ کہتے ہیں اور گھنٹے اور لمحے کو بھی ساعہ کہتے ہیں۔ سورہ معارج میں فرشتے چڑھنے کی مقدار یہاں کے ایک دن کے مقابلے میں 50ہزار سال ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے معراج میں اس کا مشاہدہ کیا، 80سال سے زیادہ کا سفر کرنے کے باوجود یہاں ایک لمحہ گزرا تھا۔ آئن اسٹائن نے ریاضی کے قاعدے سے اس نظریہ اضافیت کو درست قرار دے کر ثابت کیا، جسکے ذریعے علوم کا دروازہ کھل گیا۔ دن رات ، ماہ و سال سے زمیں کی گولائی اور اپنے محور کے گرد چکر لگانے اور سورج کے گرد چکر لگانے کے انکشاف سے ثابت ہوا کہ واقعی الساعہ (وقت)غیب کی چابی ہے۔ دوسری چیز قرآن میں بارش کا برسنا ہے، بارش میں ژالہ باری اور آسمانی بجلی کا مشاہدہ غیب کی چابی تھی۔ اللہ نے بادل کو بھی مسخر قرار دیا تھا اور جب انسان اس مشاہدے کو عملی تجربات میں لایا تو مصنوعی بجلی پیدا کرنی شروع کی۔ الیکٹرک کے ذریعے دنیا کے کارخانے اور روشن کائنات اسی غیبی چابی کی مرہون منت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا تھا کہ قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا ۔ دنیا کو قرآن و حدیث کی پیشگوئی بتائی جائے تو ان کا ایمان بن جائیگا۔ تیسری چیز قرآن میں ارحام کا علم ہے۔ رحم صرف ماں کا پیٹ نہیں ہوتا بلکہ تمام جانور، پرندے اور حشرات الارض کے پیٹ اور انڈے بھی رحم ہیں۔ اسی طرح نباتات درخت پودوں کے بیج وقلم وغیرہ بھی رحم ہیں۔ آج نت نئے فارمی جانور ، مرغیاں اور پرندوں کے علاوہ پھل ، اناج، گندم اور مکئی وغیرہ اسی غیبی چابی کی مرہون منت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حیوانات و نباتات کے علاوہ ایسے جوڑوں کا ذکر بھی کیا ہے جس کو اس وقت کے لوگ نہ جانتے تھے۔ جمادات میں ایٹم کے ذرات پر بھی رحم کا اطلاق ہوتا ہے ، جس پر مثبت و منفی الیکٹران بنتے ہیں۔ ایٹم بم ، ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیا بھی اسی غیبی چابی کی مرہون منت ہے۔
2: جاوید غامدی نے بارہ سال تک عام تعلیم کی بات کی ہے لیکن مدارس میں جو نصاب علم کا پڑھایا جاتا ہے اس میں بارہ سال سے کم عمر کے اندر اتنی صلاحیت بھی نہیں ہوتی کہ کو ئی اس کو پڑھ سکے۔ جس طرح ارفع کریم نے کم عمری میں علم میں کمال حاصل کیا اور وہ پاکستان کیلئے اعزاز کی بات ہے اس طرح بعض اکابر نے پہلے کم عمری میں علم حاصل کیاہو تو یہ ان کا کمال تھا۔ بریلوی دیوبندی مدارس کا نصاب تعلیم ایک ہی ہے مگر میٹرک ، ایف اے ، بی اے اور ایم اے کے بعد بھی فرقہ وارانہ ماحول کی تعلیم دی جائے تو اسکے نتائج مختلف نہیں ہونگے ۔ یہ بہت بڑی کم عقلی کی سوچ ہے اور مذہبی ماحول سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔ مدارس میں قرآن و سنت اور تمام مسالک کے دلائل پڑھائے جاتے ہیں۔ سوال جواب اور اشکالات کے نتیجے میں علماء و طلباء میں بڑی وسیع النظری اور وسیع الظرفی پروان چڑھتی ہے،مدارس کی تعلیم سے جمہوری تہذیب و تمدن پروان چڑھتا ہے، مسائل میں جمہور کا مسلک اور شخصیات کا مسلک پڑھایا جاتا ہے۔ اسکول و کالج اور یونیورسٹی کے مقابلے میں مدرسے کے طلبہ زیادہ با اخلاق ، باکردار اور اعلیٰ تہذیب و تمدن کا کرشمہ ہوتے ہیں۔حال ہی میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد منشیات کا اڈہ بن گیا تھا۔ قانون اور سزا نہ ہو تو یہ تعلیمی ادارے ہر وقت جنگ و جدل اور فتنہ و فساد کے مراکز بن جائیں۔ جماعت اسلامی پر انبیاء کرامؑ اور امہات المؤمنینؓ کی گستاخی کے فتوے اور الزامات لگے، دیوبندیوں پر بریلوی تسلسل کیساتھ نبیﷺ کی گستاخی کے الزامات لگاتے ہیں لیکن کسی مدرسہ میں بھی کسی کیساتھ وہ سلوک نہیں ہوا جو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشعال خان کیساتھ الزام کی بنیاد پر ہوا۔ کسی نے سلمان تاثیر کی طرح سیکیورٹی اہلکار بن کر دوسرے قتل نہیں کیا، ریاست اور یونیورسٹی میں کام خراب ہو اور الزام مدارس پر لگایا جائے؟۔
3: غامدی کا تیسرا نکتہ جمعہ پڑھانا سرکار کا حق ہے۔ جہاں جرائم پیشہ لوگوں اور منشیات کے سب سے زیادہ اڈے ہوں وہاں کا تھانہ مہنگے دام اور سفارش سے تھانیداروں کو ملتا ہے۔ شریف لوگ انصاف کے حصول کیلئے بھی تھانہ جانے میں خوف محسوس کرتے ہیں تو کیا مساجد بھی ان تھانیداروں اور بیورو کریٹوں کو حوالہ کی جائیں جنہوں نے رشوت سے معاشرے کا کباڑہ کیا ؟۔ غامدی اس عمر کو تو نہیں پہنچے ؟،اللہ فرماتا ہے ومنھم من یرد الیٰ ارزل العمر لکی لا یعلم بعد علم شیئا ’’اور بعض لوگ وہ ہیں جو اس نکمی عمر تک پہنچتے ہیں کہ سمجھ بوجھ کے بعد ان کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔
فرمایا:خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ’’تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے سب بنایا ‘‘۔ جس طرح ماں ، بہن، بیٹی اور بیوی کا اپنا اپنا مقام ہے ، اس طرح لوگوں کے ذاتی مکانات ، زمینیں ، فیکٹریاں ، کارخانے اور دفاتر ہیں۔ ذاتی ملکیت کے خاتمے کا فلسفہ ناکام ہوا۔ مزدور روس جانا پسند نہ کرتا تھا۔ اسلام میانہ روی کا دین ہے ۔ احادیث میں زمین کو مزارعت پر دینا سُود اور ناجائز ہے ۔ امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ متفق تھے کہ زمین کو بٹائی پر دینا ناجائز اور سُود ہے، علماء و فقہاء نے حیلہ نکال کر جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کیاتو مزارعین غلامی سے نہ نکل سکے ۔ اگریہ حیلہ نہ ہوتا تو آج پاکستان اور دنیا میں غربت اور غلامی کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ بیٹی بہن کم زیادہ حق مہر کے عوض نکاح میں دی جائے تو میاں بیوی جتنے چا ہیں بچے جن لیتے ہیں ۔ یہ تصور نہیں کہ اسلئے بہن یا بیٹی یا کوئی خاتون دے کہ اسکے ذریعے میرے لئے یا آدھو ں آدھ پر بچے جنواؤ۔ انسانی حقوق کا تقاضہ یہ ہے کہ جسطرح ماں باپ سے آزاد بچے پیدا ہوں ، اسی طرح زمین کی پیداوار مزارعین کیلئے غلامی کا ذریعہ نہ بنے۔ فقہاء نے لکھا کہ احادیث میں اسلئے سُود قرار دیا کہ مزارعت غلامی کا ذریعہ تھا لیکن کیا اب بھی مزارعین جاگیرداروں کی وہی بدترین غلامی کی زندگی نہیں گزار رہے ہیں؟۔
معاشرتی تہذیب و تمدن کی عوام میں اتنی غیرت ہوتی ہے کہ شک کی بنیاد پر بھی بیوی کو موت کی گھاٹ اتار دیتے ہیں جبکہ علماء و فقہاء اسکے اندر اس قدر بے غیرتی پیدا کرلیتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے والا خود اپنی بیوی کو حلالہ کی لعنت کیلئے پیش کردیتا ہے۔ کیا اس تعلیم کو عدم برداشت اور دہشتگردی کیلئے بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے؟۔ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم یہ تعلیم دیتے ہیں کہ شادی بیاہ میں جو لفافے ایکدوسرے کو دئیے جاتے ہیں وہ سُود ہیں اور اسکے ستر گناہ ہیں اور کم از کم گناہ ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے اور دوسری طرف سُودی بینکاری کو معاوضہ لیکر اسلامی قرار دیتے ہیں تو کیا اس سے عدم برداشت اور دہشتگردی کی فضاء پیدا ہوگی؟۔ بنی اُمیہ ، بنی عباس اور خلافت عثمانیہ تک ہر دور میں فتوے ماحول کیمطابق ڈھالنے والے بیچارے کونسی دہشتگردی کی تعلیم دیتے ہیں؟۔ ہندوستان کی متحدہ قومیت کے علمبردار بھی مدارس کے علماء اور پاکستان کیلئے مسلم لیگی قیادت کیساتھ بھی علماء تھے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے حکومت الٰہیہ کا نظریہ پیش کیا، پاکستان کی اسلئے مخالفت کی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو متحد رکھنا ممکن نہ ہوگا۔ مگرپاکستان بن گیا تو فرمایا کہ’’ مسجد بننے پر شروع میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر جب مسجد بن جائے تو اسکی حفاظت ضروری ہے۔ اگر ہندوستان کی طرف سے مولانا حسین احمد مدنیؒ بھی آجائیں تو اسکے سینے میں گولیاں اتاردوں گا کیونکہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہونگے اور میں اپنے ملک کی‘‘۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن دارالعلوم دیوبندسے اسلام نہیں اقوام متحدہ کیمطابق یہ فتویٰ نہیں دلاسکتے کہ’’ کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم بند کرو‘‘۔ علماء کی بیچارگی کا یہ عالم ہے کہ مساجد میں مقتدیوں کے ڈر سے بسم اللہ پڑھنے کی نماز میں سورۂ فاتحہ ودیگر سورتوں سے پہلے جرأت نہیں کرسکتے۔ ارباب فتویٰ کے خوف کا یہ عالم ہے کہ طلاق کے درست مسئلہ کی حمایت کرکے لکھ کر فتویٰ نہیں دے سکتے۔علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓاوربی بی عائشہؓ کی جرأت کوئی کہاں سے لائے؟۔ حسینؓ کی شہادت تاریخ کا ایک سانحہ بن کر رہ گیا ہے۔
اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کیلئے قرآن و سنت اور صحابہؓ و اہل بیتؓ کی سیرت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ انصار کے سردار تھے مگر جب لعان کی آیات نازل ہوئیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر بیوی دیکھ لوں تو اسکو قتل کردونگا‘‘۔ نبی ﷺ نے انصارؓ سے شکایت کی تو وہ عرض کرنے لگے کہ وہ بڑی غیرت والا ہے ، کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے شادی نہیں کی اور جسے طلاق دی ہے تو کسی اور سے شادی نہیں کرنے دی۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے (صحیح بخاری)۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ مہاجر صحابی تھے اور انکے انصاری بھائی صحابیؓ نے پیشکش کی کہ ’’ جائیداد آپ کیساتھ آدھی آدھی کرلیتا ہوں ، دو بیویاں ہیں ، جو پسند ہو، آپ لے لیں‘‘۔ یہ صحابیؓ تھے بیگمات کی صلاح سے یہ پیشکش کررہے تھے۔
اللہ کی حکمت کو دیکھئے کہ جب شوہر کی نیت میں فتور آئے تو وہ طلاق اور بیوی کوبدلنے میں غیرت محسوس نہیں کرتا مگر جب بیوی کی دوسری جگہ شادی کا مسئلہ آتاہے تو غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ جاوید غامدی کے شاگرد ڈاکٹر زبیر احمد سے ہماری ملاقات ہوئی ، ہم نے بتایا کہ جاوید غامدی نے لکھا کہ ’’ایک ساتھ تین طلاق پر سخت سزا ہونی چاہیے ‘‘ مگر حلالہ سے بڑھ کر سزا کیا ہے؟۔ ہم نے مؤقف پیش کیا تو ڈاکٹر زبیر نے بتایا کہ یہ مؤقف سو فیصد درست ہے مگر یہ ٹی وی پر پیش کیا تو ہمارا پروگرام بند کردیا جائیگا۔ اب کامران خان نے دنیا نیوز پر طلاق کا معاملہ اٹھایا توجاوید غامدی کا یہ مؤقف سامنے آیاکہ ’’قرآن میں ایک طلاق ہی کی وضاحت ہے اور پھر عدت کے اندر اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کا دروازہ کھلا ہے‘‘۔ حالانکہ یہ خلافِ حقیقت اور سراسر فراڈ ہے۔
کامران خان اور دیگر اینکرپرسن کیلئے قرآن سمجھنا دشوار نہیں، طلاق کی سورۃہے ،اللہ نے عورتوں کی عدت کیلئے طلاق کا حکم دیا، عدت پوری گننے اور اس دوران بیوی کو اسکے گھر سے نہ نکالنے اور نہ خود نکلنے کا فرمایا، ہوسکتاہے کہ طلاق کے بعد اللہ دونوں میں موافقت پیدا کردے ۔جب عدت کی تکمیل ہو تو معروف رجوع یا معروف الگ کرنے کا حکم دیا ہے، علیحدگی کی صورت میں دوعادل گواہ مقرر کرنے کا بھی حکم ہے اور پھر اللہ سے ڈرنے والے کیلئے راہ کھولنے کی بشارت بھی دی ہے۔
یہ فراڈہے کہ’’ اللہ نے ایک طلاق کا حکم دیا ‘‘۔ عربی میں طلاق علیحدگی کا نام ہے، آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ ’’جب تم بیوی کو علیحدہ کرنا چاہو تو عدت تک کیلئے علیحدہ کرلو‘‘۔ مذہبی طبقہ طلاق کا مفہوم غلط لیتاہے، اس مفہوم سے قرآن کا ترجمہ نہیں ہوسکتا، اسلئے کہ قرآن میں عدت تک کیلئے طلاق کا حکم ہے اورمذہبی مفہوم یہ ہے کہ’’ ایک طلاق دی تو یہ مخصوص عدت کیلئے نہیں بلکہ کمان سے نکلا ہوا وہ تیر ہے جس کا زمان و مکان سے تعلق نہیں۔1،2،3۔جو لفظ زبان سے نکل گیاوہ حتمی ، حرفِ آخر اور ہمیشہ کیلئے ہے۔ اللہ کہتاہے کہ عدت تک کیلئے طلاق دو، اور مذہبی طبقہ سمجھتاہے کہ قرآن کا یہ جملہ محض الفاظ کی رنگینی کے سوا کچھ نہیں۔ حالانکہ یہ جملہ مذہبی تصورات کا ڈھانچہ گرا دیتاہے، جس کی بنیاد پر طلاق کی باطل عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ طلاق کا مفہوم مذہبی نہیں بلکہ عربی لغت کا لفظ ہے جو عورت کو علیحدہ کرنے کیلئے استعمال ہوا ہے ۔ ’’جب عورت کو چھوڑنا چاہو تو عدت تک کیلئے چھوڑ دو‘‘
جب عورت کو حیض آتا ہو تو اس کی عدت کے تین ادوار پاکی کے بعد حیض، پاکی کے بعد حیض اور پاکی کے بعد حیض میں علیحدگی کے عمل کو تسلسل کیساتھ تین مرتبہ طلاق کہتے ہیں۔ جن عورتوں کا حمل ہو تو وہاں تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا کوئی تصور نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حیض کی صورت میں عدت کا تصور دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ ’’ طلاق دومرتبہ ہے، پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان سے رخصت کرنا ہے‘‘۔ نبیﷺ نے وضاحت فرمائی کہ پاکی کے دِنوں میں روکے رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے، (پہلی مرتبہ طلاق )پھر پاکی کے دِنوں میں روکے رہو، یہاں تک کہ حیض آجائے، (دوسری مرتبہ طلاق )پھر پاکی کے دِنوں میں معروف طریقے سے رجوع کرلو، یاپھر ہاتھ لگائے بغیر احسان سے رخصت کردو، (یہ تیسری مرتبہ کی طلاق ہے)۔ بخاری کی کتاب التفسیر سورۂ طلاق، کتاب الاحکام، کتاب العدت اور کتاب الطلاق میں یہ وضاحت ہے۔ سورۂ طلاق کی میں بھی یہی وضاحت ہے۔ ابوداؤد میں ہے کہ رکانہؓ کے والدنے رکانہؓ کی ماں کوطلاق کے بعد کسی خاتون سے شادی کرلی،جس نے اس کی نامردی کی شکایت کردی، نبیﷺ نے اس کو چھوڑنے اور رکانہؓ کی ماں سے رجوع کا حکم دیا، انہوں نے عرض کیا کہ وہ تین طلاق دے چکا ، نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات کو تلاوت فرمایا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرحلہ وار تین طلاق کے بعد بھی رجوع کا دروازہ بند نہیں ہوتا؟۔ جواب یہ ہے کہ حدیث کا مفہوم واضح ہے اور اس حدیث سے زیادہ قرآن میں بھی یہی بات واضح ہے کہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کا دروازہ اللہ نے کھلا رکھا ہے۔یہی سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں تفصیل سے واضح ہے۔ جہاں تک آیت میں فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ کا تعلق ہے تووہ ایک خاص صورتحال سے نتھی ہے۔ مثلاً رمضان کے روزوں میں تین عشرے ہیں۔ پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا مغفرت کا ہے اور تیسرا آگ سے نجات کا ہے۔ پھر اگر آخری عشرہ میں مساجد کا اعتکاف ہوتو اللہ نے اس صورت میں بیویوں سے مباشرت کو منع کردیا ہے۔ یہ کتنی بڑی نالائقی ہے کہ کوئی آخری مساجدکے اعتکاف کی صورتحال نکال کر آخری عشرہ میں مباشرت پر پابندی لگائے؟۔ یہی صورتحال قرآن میں تین مرتبہ طلاق کے حوالہ سے ہے، اللہ نے بار بار عدت کے اندر اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت دی مگر ایک صورت میں یہ وضاحت کی کہ’’ طلاق دومرتبہ ہے، پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ رخصتی ہے اور (رخصتی کا فیصلہ کرتے ہوئے) تمہارا لئے حلال نہیں کہ جو کچھ ان کو دیاہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خدشہ ہو کہ پھر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکوگے۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ عورت اس میں سے وہ فدیہ کردے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں، پھر اگر طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے شادی کرلے‘‘۔
درسِ نظامی، اصول فقہ کی کتاب ’’نورالانوار ‘‘ میں اس آیت کے حوالہ سے حنفی مؤقف کی بھرپور واضح ہے کہ فان طلقہا کا تعلق دومرتبہ طلاق سے نہیں بلکہ فدیہ دینے کی صورت سے ہے اسلئے کہ ف تعقیب بلا مہلت کیلئے ہے۔دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ میں فدیہ کوئی مستقل طلاق نہیں، بلکہ تیسری طلاق کیلئے ایک ضمنی چیز ہے۔ جس طرح مساجد میں اعتکاف کی صورت کے بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو چوتھا عشرہ شمار کیا جائے بلکہ رمضان کے تیسرے عشرے کی ایک صورت ہی ہے جو تیسرے عشرے کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔علامہ ابن قیمؒ نے بھی حضرت ابن عباسؓ سے نقل کیاہے کہ ’’اس طلاق کا تعلق دومرتبہ طلاق کے بعد فدیہ ہی کی صورت سے سیاق وسباق کے مطابق ہے۔ کسی بھی اس پر سیاق وسباق کے بغیر اطلاق کرنا درست نہیں ہے‘‘۔ (زادالمعاد: علامہ ابن قیمؒ )
رسول اللہﷺ ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی چند سال تک کوئی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیتا تو وہ ایک شمار ہوتی۔ تین طلاق کا تعلق طہرو حیض کے مراحل، رجوع کا تعلق عدت سے تھا لیکن حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق کو تین قرار دیکر ناقابلِ رجوع کا فیصلہ کیا۔ حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ قرآن کے عین مطابق خواتین کے حقوق کو تحفظ دینے کیلئے 100%درست تھا۔یہ وہ صورت تھی جس میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا برقرار ہو۔ میاں بیوی راضی تو حکومت کو مداخلت کرنے سے کوئی غرض نہیں ہوسکتی۔ بالفرض ایک مرتبہ طلاق کے بعد عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہوتی تویہی فیصلہ حضرت عمرؓ ، خلفاء راشدینؓ اورتمام صحابہؓ کرتے کہ شوہر کو یکطرفہ رجوع کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا: وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحا ’’ اور ان کے شوہروں کو ہی انکے لوٹانے کااس مدت میں حق ہے ، بشرط یہ کہ صلح کرنا چاہیں‘‘۔ وان خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکما من اہلہ و حکما من اہلہا ’’ اگر تم دونوں کی جدائی کا خوف کرو، تو ایک فیصل شوہر کے خاندان سے اور ایک بیوی کے خاندان سے مقرر کرلو، اگر دونوں صلح پر رضامند ہوں تو اللہ انکے درمیان موافقت پیدا کردیگا‘‘۔ قرآن کے برعکس شوہر کوغیرمشروط رجوع کا حق دیا گیا۔حضرت عمرؓ کے فیصلے کی ائمہ اربعہؒ نے درست توثیق کی، ورنہ عورت شادی نہ کرسکتی تھی مگریہ تو وہم وگمان میں نہ تھا کہ ڈھیر ساری آیات کے باوجود باہمی صلح سے بھی رجوع کا راستہ روکا جائیگااور تمام حدود کو پامال کرکے حلالہ کیلئے فتویٰ بازی ہوگی۔شوہر رجوع نہیں چاہتا،تب بھی بیوی کو مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا اسلئے اللہ نے دوسرے خاوند سے نکاح کی وضاحت کردی ۔

پاکستان و دیگر ممالک میں اہل تشیع کا ماتم و جلوس پر تماشہ لگانا جائز نہیں. ایرانی علماء کا فتویٰ

ایران (ساجدحسین) محمد رضاصاحب (ایران خوزستان، شہروزفول، خیابان امام خمینی، ڈاک نمبر 6461758746، مکان نمبر 234 نے اپنی ایک ویڈیوکال پربتایا کہ ان علماء کرام (آیت اللہ خامنہ ای، آیت اللہ نوری ھمدانی، آیت اللہ شبیری زنجانی، آیت اللہ صافی گلیایگانی، آیت اللہ بہجت مرحوم، آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ سیستانی) نے متفقہ طورپر یہ فتویٰ صادرفرمایاہے کہ پاکستان یا دوسرے ممالک کے اندراہل تشیع حضرات جوماتم اورکوب زنی، خون خرابہ ، سرے عام جلوس کی شکل میں نکل کر تماشہ کرتے ہیں یہ سب اسلام اوردین وشریعت میں جائزنہیں حرام ہے۔
اورصحابہ کرام جن میں حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اسی طرح دوسرے صحابہؓ کوگالیاں دیتے ہیں یا برا بھلاکہاجاتاہے یہ کسی بھی شخص کوحق نہیں پہنچتاکہ انکو گالیاں دے یا برابھلاکہے۔ مزیدانہوں نے کہا کہ پوری دنیاکیلئے جب تک ایک امام مقرر نہ ہواسوقت تک مسلمانوں کے اندراتحادواتفاق نہیں ہوسکتا۔ اسلام کی سربلندی اسی میں ہے کہ ہم سب صرف اورصرف مسلمان بن کر رہیں اور آپس کے اختلافات کو چھوڑ دیں۔ اور اللہ نے چاہاتوانشاء اللہ پاکستان آکرمیں شاہ صاحب سے ضرورملاقات کیلئے آؤں گا۔ آپ ان سب علماء کرام کے نام ایک پیغام لکھ کربھیجیں تاکہ آپ کا یہ پیغام ہم ان علماء تک پہنچاسکیں۔ آپ یہ پیغام عربی میں لکھیں یا فارسی میں۔ اگرآپ ان علماء سے بات کرناچاہیں توانٹرنیٹ پربھی آپ سوالات پوچھ سکتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح کردہ قیامت کی یہ نشانی حرف بہ حرف پوری ہوئی.

عن انس رفعہ۔اقتراب الساعۃ ان یری الہلال قبلا فیقال لیلتین و ان تتخذ المساجد طرقا و ان یظھر موت الفجاء ۃ
(طبرانی اوسط ، کنزل العمال ج 14، ص 220، جمع الفوائد ج: 3، ص:443، حدیث نمبر: 9808 ، مطبوعہ علوم القرآن بیروت، عصر حاضر حدیث نبوی ؐکے آئینہ میں، لدھیانویؒ )
قرب قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ چاند پہلے سے دیکھ لیا جائیگا اور پھر کہا جائیگا کہ دو رات کا چاند ہے اور مساجد کو گزر گاہ بنالیا جائیگا اور نا گہانی موت عام ہوگی۔
رسول اللہ ﷺکی طرف سے واضح کردہ قیامت کی یہ نشانی حرف بہ حرف پوری ہوئی ہے۔ پہلے سے چاند دیکھنے کی بات تو اتنی بڑی بات نہیں جتنی چاند گرہن اور سورج گرہن کا معاملہ ہے۔ وہ بھی پہلے سے بتادیا جاتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن چیئر مین رویت ہلال کمیٹی کے چشمے سے لگتا ہے کہ آٹھ نمبر سے کم نہیں ہوگا۔ قریب اور دور کے چشمے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور اگر کبھی دور کے ساتھ قریب کا چشمہ بھی لگایا جاتا ہے تو نیچے کی طرف سے ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں ہلال کا پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے مگر پاکستان میں ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کا فیصلہ اسوقت کرنا ہوتا ہے جب چاند سب لوگوں کو اتنا بڑا نظر آتا ہے کہ اس کیلئے مخصوص کمیٹی کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایک مرتبہ ہم اسلام آباد گئے اور اخبارات میں خبر یہ تھی کہ رمضان کا چاند نظر آنے کا اسلام آباد میں کوئی امکان نہیں البتہ کراچی میں نظر آسکتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن کراچی سے پھر بھی اسلام آباد چاند دیکھنے کیلئے گئے ۔ اسلام آباد کے ایئر پورٹ پر واپس آتے ہوئے میں نے چیئر مین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن سے پوچھا کہ اگر پاکستان اور سعودی عرب کے وقت میں کچھ گھنٹوں کا فرق ہے تو اس سے زیادہ فرق پاکستان اور برطانیہ و امریکہ کا ہے۔ اگر 2 گھنٹوں سے ایک دو دن کا فرق ہوسکتا ہے تو 8اور 12 گھنٹے کا پھر زیادہ فرق ہونا چاہیے۔ جب محکمہ موسمیات نے خبر دی کہ چاند اسلام آباد میں نظر نہیں آسکتا ، کراچی میں موسم صاف ہے ، کراچی میں نظر آسکتا ہے تو پھر چاند دیکھنے کیلئے کراچی سے اسلام آباد آنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ تو مفتی منیب الرحمن نے اس کا بہت زبردست جواب دیا کہ یہ پاکستان ہے انجوائے کرو انجوائے۔ اگر دنیا کی سطح پر مختلف چاند ہوں تو پھر الگ الگ روزے اور عید منانا بھی درست ہے۔ جس طرح سے نماز کے اوقات میں مختلف جگہوں پر سورج یا طلوع ہوتا ہے یا غروب اور کہیں عصر و ظہر کے وقت میں مغرب و عشاء کا وقت ہوتا ہے۔ اس طرح سے چاند کا بھی یہ مسئلہ ہوتا تو پھر مختلف روزے اور عید الفطر و عید الاضحی کا جواز تھا۔ دنیا تماشہ دیکھتی ہے کہ لندن اور امریکہ میں بعض لوگ سعودیہ کیساتھ اور بعض پاکستان کیساتھ روزہ و عید مناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں توراۃ کے حوالے سے مذہبی ذہنیت رکھنے والوں کو گدھوں سے تشبیہ دی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں یہ وضاحت ہے کہ ہلال کو پہلے سے ہی دیکھ لیا جائیگا ۔ یہ صلاحیت تو دنیا نے حاصل کرلی ہے۔ مگر اسکے باوجود مسلم امہ کی کیفیت یہ ہے کہ دو دن کے چاند پر روزہ و افطار کرتے ہیں۔ پہلے علماء ریڈیو کے اعلان کو شریعت کے منافی سمجھتے تھے اسلئے چشم دید گواہوں پر روزہ و عید کا فتویٰ دیتے تھے۔ پھر ریڈیو کے اعلان کو ہی معتبر قرار دیا۔ پھر ٹی وی کی نشریات کو حرام قرار دیا اور اب ٹی وی پر اعلان نہ ہو تو چاند کا دیکھنا بھی معتبر نہیں۔
ایک لطیفہ ہے کہ کسی شخص نے قسم کھائی ہوئی تھی کہ جب تک چاند کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں روزہ نہیں رکھوں گا۔ وہ آسمان کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا ایک دن اپنی گائے کو پانی پلارہا تھا تو چاند کے عکس کو پانی میں دیکھا۔ پھر کہنے لگا کہ اب تم پاؤں میں پڑ گئے ہو اسلئے روزہ رکھنا پڑے گا۔ ہلال کمیٹی والے چاند کو نہیں دیکھتے جب تک چاند بہت ترس نہیں جاتا۔ ماہرین عوام کو بتادیں کہ دوربین کیلئے قریب کے چشموں کی ضرورت ہے یا دور کے؟۔ اگر سعودیہ کا چاند پاکستان کیلئے معتبر نہیں تو پاکستانی حج کا فرض کیسے ادا کرتے ہیں؟۔ نماز کے اوقات کی طرح تمام مہینوں کے ہلالوں کے بھی آئندہ کلنڈر شائع ہوسکتے ہیں جس کو علماء و مفتیان سمجھے بوجھے بغیر بھی اپنے نام کے ساتھ منسوب کرینگے۔ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا کلینڈر بھی علماء و مفتیان نے جدید علوم کی روشنی میں بنایا ہوتا ہے تو پھر چاند کا کیوں نہیں؟۔ خدارا اُمت مسلمہ پر رحم کریں۔محمد اشرف میمن، پبلشر نوشتہ دیوار

تبلیغی جماعت اور دعوت اسلام سنت زندہ کریں

مولانا الیاسؒ نے بلامعاوضہ تبلیغ سے نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی مگر اب گروہ بن گیا
پڑھے لکھو ں کو قرآن وسنت کی راہ دکھائی جائے تو لمحوں میں اسلام زندہ ہوگا
مولانا الیاس قادری علماء ومفتیان کو اکٹھا کرکے طلاق کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں

دعوتِ اسلامی کے چینل نے ایک بہت اچھی مہم یہ شروع کررکھی ہے کہ عوام کو بیرونِ ملک کا جھانسہ دیکر لوٹنے والوں کے کردار سے آگاہ کررہے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ کسی کے نماز اور روزے کو دیکھ کر اس کی شخصیت کا فیصلہ نہ کرو بلکہ اس کی معاشرت ، معاملہ اور کردار کو دیکھو۔ نماز اہم ترین عبادت ہے اور کردار سازی کا زبردست ذریعہ بھی ہے۔ غلام احمد پرویز کے بعض پیروکار نماز کی افادیت کو ختم کرنے کی مہم جوئی کررہے ہیں حالانکہ نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی اسلام کے بنیادی فرائض ہیں۔ جب میں سنی سنائی باتوں پر یقین کرتا تھا تو اپنے بھائی سے کہاتھا کہ رمضان میں ایک نماز کا ثواب 70گنا بڑھ جاتاہے۔ بھائی سے کہا کہ اللہ کی راہ میں نماز کا ثواب49کروڑ ہے اور اس کوپھر70سے ضرب دیا جائے تو کیلکلولیٹر میں نہیں آتا۔وہ تبلیغی جماعت میں نکلے اور میں جہاد کیلئے جنت کا مختصر راستہ سمجھ کر افغانستان گیا۔ اس وقت شرعی پردہ ایک وہم تھا لیکن میں نے پھر بھی شروع کردیا تھا ، گاؤں سے سارے ٹی وی نکلوادئیے تھے۔
آج بہت عرصہ کی جدوجہد کے بعد اللہ نے اپنے راستے کھول دئیے ہیں، اگر کوئی خاندان کی خواتین کو مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کی نماز سے محروم کردے تو یہ تصور بھی نہیں ہوسکتاہے اسلئے کہ کہاں ایک لاکھ کا ثواب اور کہاں ایک نماز کا ثواب؟۔ باجماعت نماز کیلئے 25اور بعض حدیث میں 27گنا زیادہ ثواب کا ذکر ہے۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی فضائل کے ذریعے سے ہی قرآن و سنت کے احیاء پر زور دے رہی ہیں اگر انکے مراکز میں 49کروڑ کی بات درست ہے تو مقامی مراکز ومساجد میں بھی یہ توقع کرنی چاہیے۔ نبیﷺ کے وقت میں یہ حکم تھا کہ خواتین کو مساجد سے نہ روکا جائے۔ یہ قرآن کا تقاضہ بھی تھا۔ ایک سنت کو زندہ کرنے پر 100شہیدوں کے اجر کی بشارت ہے ، فقہ کی کتابوں میں پڑھایا جاتاہے کہ پہلی صفوں میں مرد ، پھر بچے ، بچیاں اور پھر آخر میں خواتین کی صفیں بنائی جائیں گی۔ اگر تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی نے محلے کی سطح سے اس اسلامی فریضے اور سنت کے عمل کو زندہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار اداکیا تو امت کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ تبلیغی جماعت کے حاجی عبدالوہاب اوردعوت اسلامی کے مولانا الیاس سے گزارش ہے کہ طلاق کے درست مسئلے و نماز سے اپنی تقدیر بدلنے کا آغاز کریں۔