پوسٹ تلاش کریں

میں تم سے قرآن کا بدلہ نہیں مانگنا چاہتا لیکن رشتہ دار ہونے کے ناطے اس کی فطری محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غور کرو۔

قل لا اسئلکم علیہ اجرًا الا مودة فی القربٰی (القرآن الکریم)
یہ مکی ہے اور اس کے اولین مخاطب قریشِ مکہ ہیں اور نبی ۖ سے ارشاد ہے کہ ان سے فرمائیے
کہ مجھے قرآن پر تم سے کوئی بدلا نہیں مانگنا ہے لیکن جوقرابتداری ہے اسکی فطری محبت کا لحاظ کیجئے

احادیث صحیحہ میں ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور
دوسرے میرے اہلبیت۔اور قرآن میں مودة فی القربیٰ سے مسلمانوں کیلئے اہلبیت نبیۖ مراد ہیں!
اگرمودة فی القربیٰ کے فطری تقاضوں پر عمل ہوجائے توعالم اسلام اور انسانیت کے تمام مسائل کا حل نکلے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہندوستان کی آزادی کے عظیم سپوت مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا ” یہ آیت مکی ہے اور اس سے مراد اہل بیت نہیں ہوسکتے، حدیث میں اہل بیت مراد ہیں ۔ یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی تھی۔ علی و فاطمہ، حسن و حسین خاندان اہل بیت کا وجودمدنی دور کے آخر میں آیا تھا۔ آیت کے مخاطب تو صحابہ نہ تھے ۔ اللہ نے مشرکینِ مکہ کو مخاطب کرنے کا حکم دیا: ” ان مشرکینِ مکہ سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے قرآن پر بدلہ نہیں مانگتا مگر قرابتداری کی فطری مودة کا لحاظ رکھیں ”۔اگر نبیۖ کی مودة کا لحاظ رکھا جاتا تو آپۖ اور آپ کے صحابہ ہجرت بھی نہ کرتے۔
مولانا آزاد نے انگریز کے مقابلے میں ہندوؤں سے مودة فی القربیٰ کے تقاضے پر عمل کیا۔ ہندو اورمسلمان یہی مطالبہ رکھیں کہ ہم وطن اور ہم زبان ہونے کی فطری مؤدت کا لحاظ کیجئے۔احادیث میں اہل بیت سے مودة فی ا لقربیٰ کی تلقین ہے ۔ مسلم لیگ کا مسلم قومیت کی بنیاد پر مودة فی القربیٰ کا نعرہ ہندو کے مقابلے میں تھا ۔ مشرکین کے مقابلے میں اہل کتاب اور یہود کے مقابلے میں عیسائی مسلمانوں کے قریب تھے۔قرآن کے مخاطب تمام بنی آدم بھی ہیں۔
اس بات پر اتفاق ہے کہ نبیۖ نے کسی سے قرآن کے بدلے کچھ نہ مانگا لیکن علماء ومفتیان، خطباء وذاکرین ، مساجد ومدارس اور مذہبی خدمات پر سب معاوضے کی طلب رکھتے ہیں۔ آیت مودة کے پہلے حصے پر عمل ہوتو بقیہ حصہ پر عمل کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔ امارت و اختیار کا طلب کرنا بہت بڑا عوض ہے اور آج دین کے بدلے سیاسی اور مذہبی دکانیں چمکائی جارہی ہیں۔
جب حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ بنائے گئے تو ابوسفیان نے سفر سے واپسی پر کہا کہ کیا بنی ہاشم مرگئے تھے کہ بنی تمیم کمزور قبیلے سے خلیفہ بنایا گیاہے؟۔ اس القائے شیطانی نے تعصب اور خود غرضی کا بیج بودیا۔ علی نے جواب دیا کہ کیا اسلام قبول کرنے سے پہلے کم اسلام دشمنی کا مظاہرہ کیا کہ اب بھی مسلمانوں میں دشمنی کا بیج بورہے ہو؟۔ نبیۖ نے فرمایا :”کسی بات کو لوگ ہلکا سمجھتے ہیں لیکن وہ اتنا بھاری گناہ ہوتا ہے کہ مشرق ومغرب اس سے بھر جاتے ہیں”۔ ابوسفیان کی صدائے بازگشت سے جو فضاء بنی، اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ حسن نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ” آپ میرے باپ کے منبر سے اُترجاؤ”۔حضرت ابوبکر نے روتے ہوئے حضرت حسن کو اپنی گود میں اٹھایااورفرمایا کہ ” خدا کی قسم ! یہ تیرے باپ کا منبر ہے ، میرے باپ کا نہیں ”۔ پھر حسین نے حضرت عمر سے کہا کہ ” تم نے میرے باپ کے منبر پر قبضہ کیا ہے”۔ حضرت عمر نے پیار کیا اور پوچھا کہ ”آپ کو کس نے یہ بات سمجھائی ؟”۔ حسین نے کہا کہ ” میں خود کہہ رہاہوں ۔کسی نے بھی نہیں سمجھایا”۔ حضرت عمر نے کہا ” آپ نے سچ کہا ہے۔ یہ تیرے ہی باپ کا منبر ہے”۔ یہ باتیں تبلیغی جماعت کے نصاب ”فضائل اعمال ” میں ایک کتابچہ” موجودہ پستی کا واحد علاج ”کے مصنف مولانا احتشام الحسن کاندھلوی نے اپنی ایک تصنیف میں درج کیں،جو کافی عرصہ پہلے نظرسے گزری تھی۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا:وماارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القا الشیطان فی امنیتہ…”اور ہم نے کسی نبی کو نہیں بھیجا اور نہ رسول کو مگر جب وہ تمنا کرتا ہے تو شیطان اس کی تمنا میں القا کرتا ہے۔ پھر اللہ مٹا دیتا ہے جو شیطان نے القا کیا ہوتا ہے اورپھر اپنی آیات کو استحکام بخش دیتا ہے”۔
نبیۖ نے بنی آدم میں سب سے زیادہ اپنے دور میں قریش اور بنی ہاشم کو افضل قرار دیا جس سے اللہ نے رحمة للعالمینۖ کا انتخاب کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں تھا کہ حضرت ابوبکر وحضرت بلال سے ابولہب وابوجہل بہتر تھے اور اس شیطانی القا کو حضرت ابوسفیان نے اپنے رنگ میں پیش کردیا۔ حضرت علی نے حضرت ابوبکر کے مقابلے میںاس کو مسترد کردیا۔حضرت عمر سے حضرت علی نے کہا کہ آپ خود جنگ پر تشریف نہ لے جائیں اور حضرت عثمان کی مدد کیلئے حضرت علی کے صاحبزادوں حضرت حسن و حضرت حسین نے پہرہ دیا تھا اور جب مسندِ خلافت اس لائق نہیںتھی کہ کوئی اس کو قبول کرتا تو حضرت علی نے اپنی ذمہ داری پوری کی۔ پھر حسن نے مسند کو مفاد عامہ کیلئے قربان کردیا اور حسین نے مفاد عامہ کیلئے کربلا میں قربانی دی۔ زین العابدین اور ائمہ اہلبیت کا احساس ہمیشہ ذمہ دارانہ رہا۔ شیعہ ذاکرین نے ابوسفیان کے نعرے سے متأثر ہوکر ائمہ اہل بیت اور اسلام کا چہرہ اجنبی بنادیا لیکن کافی علماء کی سوچ بہت مثبت بھی ہے۔
علماء کرام کو جمعہ کے خطبات میں فضائل صحابہ اور فضائل اہل بیت کی ساری احادیث کو باری باری پیش کرنا چاہیے۔ حضرت آدم کی نافرمانی اور شیطان نے جو نافرمانی کی تھی ،ان دونوں میں عبادت ، تجربہ ، نیکوکاری کے لحاظ سے ابلیس کو عزازیل اور فرشتوں کے استاذ کا درجہ حاصل تھا۔ فرشتے بھی عزازیل کی مکاری سے معصومانہ سوال کر بیٹھے تھے لیکن عزازیل کو قوم پرستی اور گھمنڈ نے خوار کردیا تھا اور حضرت آدم نے غلطی کی معافی مانگ کرخلافت کا استحقاق حاصل کرلیا تھا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

آدم نے بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ جس کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ’’میں امن چاہتا ہوں‘‘۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ (النور:55)

اللہ نے وعدہ کیا ہے تم میں ان لوگوں سے جو ایمان والے ہیں اور عمل صالح کرنے والے ہیں کہ وہ ان کو ضرور زمین میں ایسی خلافت دے دے گاکہ جیسے ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی گئی تھی اور ان کیلئے ضرورانکے دین کو ٹھکانا بخشے گا جو دین ان کیلئے اللہ نے پسند کیا ہے اور ضرور بدل دے گاان کیلئے خوف کے بعد امن۔جو میری عبادت کرتے ہیں اورکسی چیزکو میرے ساتھ شریک نہیں کرتے اور جس نے اس سے کفر کیا تووہی لوگ فاسق ہیں۔( سورۂ النور:آیت55)

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب اللہ نے زمین میں اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا تو فرشتوں نے اعتراض اٹھادیا کہ ایسی مخلوق کو کیوں پیدا کررہے ہو جو زمین میں فساد پھیلائے اور خون بہائے لیکن اللہ نے فرمایا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ پھر آدم علیہ السلام کی فضیلت کو علم کے ذریعے سے منوایا تھااور فرشتوں سے سجدہ بھی کروایا مگر ابلیس کو سجدے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس نے کہا کہ مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے بنایا ہے تو میں اس خاک سے بنے ہوئے انسان کو کیوں سجدہ کروں؟۔
مولانا فضل الرحمن نے کچھ عرصہ پہلے ایک خواب بیان کیا تھا کہ حضرت آدم نے فون کیا ہے اور مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کیا چاہتے ہو۔ جس کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” مجھے امن چاہیے”۔ حدیث میں خوابوں کو نبوت کا وہ حصہ قرار دیا گیا ہے جس کا کچھ حصہ مبشرات کی صورت میں رہ گیا ہے اور مبشرات سے مراد صحیح سلامت خواب ہیں جو الائش سے پاک ہوں اور نبوت سے مراد اصطلاحی نبوت نہیں ہے کیونکہ نبیۖ اس نبوت کی آخری اینٹ ہیں اور آپ ۖ کے بعد نبوت کے کچھ حصے کے باقی رہنے کا عقیدہ ختم نبوت کے خلاف ہے۔ نبوت سے مراد غیب کی خبریں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا خواب بھی غیبانی خبر ہے لیکن بشرط یہ کہ اس میں کوئی حقیقت ہو اور حقیقت اس وقت ہوگی کہ جب اس کا کوئی نتیجہ بھی نکل کے سامنے آجائے۔
خوابوں کی دنیا میں عرب وعجم کے اندر خلافت علی منہاج النبوت دوبارہ قائم ہورہی ہے اور اس کے نتیجے میں انشاء اللہ عنقریب خلافت بھی ضرور قائم ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن نے امن مانگنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو اس کا بھی پتہ چلے گا کہ واقعی ان کو امن چاہیے یا پھر اس کی منزل اقتدار میں حصہ بقدر جثہ ہے؟۔PDMکے پلیٹ فارم سے سیاسی جماعتوں کیساتھ چل سکتا ہے تو اسلامی احکام کیلئے کوئی ایک پلیٹ فارم پر تیار کیوں نہیں ہوسکتا ہے جس سے جمہوری انداز کی بنیاد پر خلافت اسلامیہ کی بنیاد رکھ دی جائے۔ ہمارا اللہ، ہمارے رسولۖ اور ہمارادین کسی ایک ملک اور خطے کیلئے نہیں بلکہ بین الاقوامی اور تمام جہانوں کیلئے ہے اسلئے مقامی سطح پر نمائندگی کیلئے کوئی مخلص اور ایکسپرٹ سامنے آجائے تو اس کو آگے لانے میں ہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دیوبندی ، بریلوی، شیعہ ،اہلحدیث اور پختون، پنجابی، سندھی ، بلوچ ، مہاجر اور کشمیری ہمارے حامی ہیں۔ الیکشن اور سلیکشن میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جب حضرت عمر کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی کہ اپنے بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کردیں تو حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو اسلئے نااہل قرار دیا کہ وہ طلاق کے مسئلے کو بھی نہیں سمجھ رہاتھا۔ قرآن وسنت میں طلاق اور اس سے رجوع کے مسائل بہت واضح ہیں لیکن علماء ومفتیان نے اتنا الجھاؤ پیدا کردیا تھا کہ سبھی اس مسئلے میں خلافت کی مسند کیلئے نااہل تھے۔ جب علماء کی بڑی تعداد منتخب ہوئی تھی تو مولانا فضل الرحمن نے اکرم خان درانی کو وزیراعلیٰ بنوایا تھا اور باقی سارے علماء اس منصب کیلئے بالکل ہی نااہل تھے۔ پشاور کے حاجی غلام علی اور حاجی غلام احمد بلور میں کیا فرق ہے؟۔ اگر نواب اسلم رئیسانی نے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کرلی تو کسی عالم دین کے مقابلے میں وہ بھی اکرم خان درانی کی طرح بلوچستان کے وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں۔ اگر پارٹیوں میں یہی فرق ہو تو پھر قوم کا بٹوارہ کرنے کیلئے مختلف طرح کی سنسنی خیزی پھیلا کر امن اور امان کے مسائل پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جس سے دہشتگردوں کو پھرمزید خوف وہراس پھیلانے کے مواقع مل جائیں؟۔
صدر اور وزیر میں فرق ہے۔ صدر اور ناظم اعلیٰ میں بھی فرق ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے ناظم اعلیٰ پر مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبیداللہ انور میں اختلاف ہوا تھا۔ پھر مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن میں اسی عہدے پر اختلاف تھا اور آخر میں مولانا فضل الرحمن نے امیر کے عہدے کو اپنے لئے پسند کیا تھا اسلئے کہ جماعت میں جنرل سیکرٹری کی جگہ احادیث میں امارت کی اہمیت ہم نے ہی اس کے سامنے اجاگر کی تھی لیکن جنرل سیکرٹری کے عہدے پر حافظ حسین احمد اور مولانا عبدالغفور حیدری کے درمیان مولانا فضل الرحمن نے اپنا وزن حیدری کے حق میں ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے حافظ صاحب ہارگئے تھے۔ جنرل سیکرٹری کا متبادل ملک میں وزیراعظم ہوتا ہے۔ پہلے جمعیت میں امیر کی حیثیت کٹھ پتلی کی ہوتی تھی جس طرح اب ملک میں صدر کی حیثیت ہے لیکن پھر جمعیت علماء اسلام میں امیر کی حیثیت اصل کی اور جنرل سیکرٹری کی حیثیت کٹھ پتلی کی بن گئی ہے۔
اسلامی جمہوری آئین کا تقاضہ یہی ہے کہ حکومت و ریاست میں صدر وامیر کی حیثیت کٹھ پتلی کی نہ ہو۔ وزیراعظم دوسرے وزیروں کی نسبت بڑا ہوتا ہے مگر پھر بھی بہرحال وہ ایک وزیر ہی ہوتا ہے۔ جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار نے اپنا اجلاس رکھا تھا تو مہاجرین کے بعض افراد بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ انصار نے انہیں کہا کہ ایک امیر ہم سے ہو اور ایک تم میں سے لیکن مہاجرین نے کہا کہ ہم امیر بنیں گے اور آپ لوگ وزیرومشیر بن جائیں۔ جب حضرت عمر نے خلافت کیلئے ایک شوریٰ تشکیل دی تھی تو اس میں کوئی بھی انصار ی صحابی نہ تھا۔ اگرانصار بھی مشاورت میں شریک ہوتے تو مدینہ میں شاید حضرت عثمان کی شہادت میں بیرونی باغی اتنے جریح نہ ہوتے اور نہ حضرت علی کو کوفہ اپنا مرکز بنانا پڑتا۔
پاکستان کے ابتدائی سالوں میںگورنر قائداعظم ،وزیراعظم لیاقت علی خان، پہلے دو انگریزآرمی چیف اور بعد میں آنے والے محمد علی بوگرہ سے لیکر شوکت عزیز تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان تک جتنے حکمران آئے ہیں وہ سب کے سب بیرون ممالک سے بلائے گئے نام نہاد پاکستانی تھے یا پھر کٹھ پتلی کی طرح بنائے گئے ۔ پاکستان پہلے بھی دولخت ہوا تھا اور اس میں سب کا مشترکہ کردار تھا اور اب بھی بیرونی اور اندرونی خطرات میں گھراہواہے جس میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ قرآن کی تعلیمات سے ہم اپنی معاشرتی اور معاشی تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن مفادات کی سیاست سے ہمارے کرتے دھرتوں کو وقت نہیں ملتا ہے۔ امریکہ میں صدارتی جمہوریت ہے ، برطانیہ میں پارلیمانی جمہوریت ہے اور پاکستان میں کبھی صدر طاقت کا محور بنا اور کبھی وزیراعظم طاقت کا منبع بنا ہے۔ اگر صدر کے وسیع اختیارات ہوں اور لوٹوں کی سیاست ختم ہوجائے تو یہ تجربہ بھی برا نہیں ہوگا۔ عوام بھی براہِ راست صدر کو ووٹ دیں گے تو لوٹوں کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ خلافت راشدہ میں خاندانی سیاست نہیں تھی لیکن جب بنوامیہ اور بنوعباس کی طرح خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت قائم ہوتی رہی اور عرب میں بادشاہت کا تصور قائم ہوگیا تو اسلام اجنبی بنتاگیا ،مسلمانوں پر زوال آگیا اور اغیار نے ترقی وعروج کی منزل طے کی۔
جب عمران خان دھڑلے سے کہتا تھا کہ ” ہمارے بے غیرت حکمران بھیک مانگتے ہیں۔ میں ڈوب کرمرجاؤں گا لیکن بھیک نہیں مانگوں گا ”توہمارے فوجی بھائی تو ہوتے ہی فوجی سری والے ہیں۔ پنجاب میں بغیر مغز کی سری کو فوجی سری کہا جاتا ہے لیکن بڑے بڑے سیاستدانوں اور دانشوروں نے بھی حماقت کا ثبوت دیدیا اسلئے کہ عمران خان کے پلے میں شوکت خانم ہسپتال کو بھیک سے بنانے کے سوا کیا تھا؟۔ سمجھ دار لوگوں نے سوچا تھا کہ یہودکا دامادعالمی مالیاتی اداروں سے فنڈز لاکر شوکت خانم ہسپتال کی طرح پاکستان کو بھی چلائے گا لیکن جب یہ ساری چیزیں ٹھس ہوگئیں تو اب یہ رونا رویا جاتا ہے کہ عمران خان کی گالیاں اپنی جگہ تھیں لیکن ہرچیز میں الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔
نوازشریف اور مریم نوازکو عدالت نے عمران خان کو اقتدار میں آنے سے پہلے قید کرلیا تھا ،ایک کو بیماری کے بہانے چھوڑ دیا اور دوسری کو تیمار داری کا بہانہ بناکر چھوڑ دیا۔ اب بیماری ہے اور نہ تیمارداری مگرپھر بھی ” میں نہیں چھوڑوں گا” کی رٹ جاری ہے۔ یہ مدینہ کی ریاست ہے یا یہود کی خباثت ہے؟۔ اگر مریم نواز کیلئے قانون الگ ہے اور دوسری سزا یافتہ عوام کیلئے الگ ہے تو پہلی قوموں کی تباہی کا باعث امیر غریب اور باحیثیت اور بے حیثیت کیلئے یہی فرق تھا جس کا عمران خان اپنی رٹی رٹائی تقریروں میں تذکرے کرتا رہتا ہے۔
ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ نے مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کو خرید ا تھا جس کا خمیازہ سقوطِ ڈھاکہ میں بھگتنا پڑا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ میں امریکہ اور روس کی جنگ میں ہم نے اپنا وزن امریکہ کے کھاتے میں ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے امریکہ سپر طاقت بن گیا۔ پرویزمشرف کی ڈکٹیٹر شپ میں ہمارا کردار امریکہ کیلئے تھا جس کی وجہ سے پاکستان ، افغانستان، عراق، لیبیا اور شام عدمِ استحکام اور فتنہ وفساد اور قتل وغارت گری کے شکار ہوگئے ۔ اب طالبان نے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ چھیڑا تو پھر بڑے پیمانے پر قتل وغارتگری کے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان بھی کسی موقع کی تلاش میں ہے۔ سیاسی قیادت سے بھی عوام کا اعتماد اُٹھ گیا۔BBC،وائس آف امریکہ ،DWجرمنی، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر تسلسل کیساتھ پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ چل رہاہے ۔
پاکستان کا فی الحال یہ واحد ادارہ ہے جو ملک کو استحکام بخشنے میں بنیادی کردار ادا کررہاہے مگر ہر محاذ پر اس کے قبضے کی خواہش نے اس کو کمزور سے کمزور تربھی بنادیاہے۔ نقیب اللہ محسود کیلئے اسلام آباد میں دھرنا تھا تو وزیراعظم شاہد خاقان نے قبائلی عمائدین اورمنظور پشتین سے کہا تھا کہ ” اس ملک میں فوج کے سوا کسی کی طاقت نہیں ہے۔ ہماری حکومت کو ختم کرکے نوازشریف اور شہبازشریف کو پکڑ کر بکریوں کی طرح باندھ دیا گیا اور پھر سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا”۔ کیا نوازشریف نے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ذریعے فوج کے کہنے پر قتل وغارت کی تھی؟۔ کیا پارلیمنٹ میں تحریری بیان بھی فوج کے کہنے پر پڑھ کر سنایا تھا اور کیا قطری خط بھی کسی کرنل یا میجر نے لکھ کر دیا اور پھر لاتعلقی کا اعلان بھی فوج کے حکم سے کیا تھا؟۔ ہم فریق نہیں لیکن انصاف چاہتے ہیں۔ جب شاہدخاقان عباسی کے کہنے پر قبائل کی اکثریت نے دھرنا ختم کیا تھا تو دھرنے ختم کرنے میں بنیادی کردار شیرپاؤ محسود ایڈوکیٹ کا تھا۔ منظور پشتین اور شیرپاؤ محسود متضاد تھے لیکن آج شیرپاؤ محسود نے بھی اپنی پٹڑی تبدیل کرکے اپنا لہجہ بدل دیا ہے۔
امریکہ کے خلاف طالبان کی حمایت میں جب وزیرستان میں فضاء بن گئی تو اس میں تحصیلدار مطیع اللہ برکی، گلشاہ عالم برکی ، خاندان ملک کوٹکئی کی پوری فیملی اور علی وزیر کی پوری فیملی کے علاوہ مولانا حسن جان پشاور، مولانا معراج الدین، مولانا نور محمد اور سردار امان الدین کے علاوہ سینکڑوں بے گناہ لوگ شہید ہوئے اور ایک لیڈی ڈاکٹر کو اغواء کرکے اس سے تاوان وصول کیا گیا جو مرد ہوکر چوتڑ تک بال رکھ سکتے تھے ان سے ہر قسم کی واردات اور بدکرداری کی توقع ہوسکتی تھی لیکن محسود قوم نے ان کو اس وقت اپنے گھروں میں تحفظ فراہم کیا ۔ یہ شوق سے تھا یا خوف سے تھا لیکن اس جرم کی سزا ان کو یہی ملی جو شیرپاؤ ایڈوکیٹ محسود کہتا ہے کہ افغان طالبان جیت گئے،GHQجیت گیا ، تحریک طالبان پاکستان جیت گئی لیکن ہماری عورتیں پھلادی گئی ہیں۔ کیا پنجابی مجاہدین ایسا کرنے کی بھی ہدایت اور ٹریننگ دیتے تھے جو اپنے لوگوں کیساتھ کیا گیا؟۔ اگر محسود اتنے زیادہ بیوقوف تھے تو بھی اپنے انجام تک ان کو پہنچانا بہت ضروری تھا۔
سوشل میڈیا پرہے کہ فوج نے اپنا ایک ریٹائرڈ افسر پکڑلیا ہے جس کے ساتھ ایک خٹک کو بھی گرفتار کیا جو امریکہ کو اطلاع دیکر دہشتگردوں کی جگہ عوام ، بچوں اور خواتین کو مرواتا تھا۔ امریکہ خود بھی دہشت گردوں کی جگہ عوام کو مارتاتھا اور دہشت گرد بھی امریکہ کے بجائے عوام کو مارتے تھے۔جبکہ ایک فوجی افسر نے اپنا مقدمہ سپریم کورٹ میں لڑا ہے جس میں اس نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے خلاف سارے الزام غلط ہیں۔ سب اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف اور توبہ کرکے ایک نئی منزل کی طرف چلیں، جس میں امن وامان اور سکون ہو اور ملک وقوم اپنی ترقی کی منزل پر گامزن ہوجائے ورنہ خیر کسی کی بھی نہیں ہوگی۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ اور اپنی اپنی حیثیت سے بہت گناہگار اور ناشکرے ضرور بن گئے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے

اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے

اِنَّ الّذِیْنَ جَآئُوْا بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْر لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ مِنْہُمْ لَہ عَذَاب عَظِیْم (النور)

بیشک جو لوگ بہتان کے ساتھ آئے وہ تمہارے اندر سے ایک گروہ ہے، آپ لوگ اس کو اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے خیر ہے۔ان میں سے ہر ایک نے اپنے حصے کا گناہ کمایا ہے۔اور ان میں سے جس ایک بڑے نے ان کی سرپرستی کی ہے،اس کیلئے بہت بڑا عذاب ہے۔(سورۂ النور:آیت11)

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورة نور کی اس آیت میں اس گروہ کی نشاندہی ہے جس نے حضرت اماں عائشہ پر بہتان لگایا تھا۔ اس گروہ میں جس جس فرد کا جس جس قدر حصہ تھا،اتنا اتنا اس نے گناہ کمایا تھا۔ رئیس المنافقین نے اس بہتان کی سرپرستی کی تھی۔جس کا نام عبداللہ ابن ابی تھا۔اس کے بیٹے مخلص صحابہ کرام تھے۔ نبیۖ نے ان کی دلجوئی اور رحمت للعالمینۖ کے تقاضے سے اس کو اپنا کرتہ کفن کیلئے عطاء فرمایا تھا اور اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھائی تھی اور اسکی قبر پر کھڑے ہوکراس کیلئے مغفرت کی دعا بھی فرمائی تھی۔ حضرت عمرفاروق اعظم نے عرض کیا تھا کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے ،اگر اس کی دوسری شرارتوں اور فتنہ انگیزی کونظر انداز بھی کردیا جائے تو حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کی شرارت کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟۔ لیکن نبیۖ نے پھر بھی رحمت للعالمین ہونے کا ثبوت دیا تھا اور یاد رہے کہ اللہ نے فرمایا :ان المنافقین فی در ک اسفل من النار ”بیشک منا فقین جہنم کے نچلے ترین حصے میں رہیں گے”۔ عبداللہ ابن ابی ان کا سردار تھا۔اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو ایسے کردار کیلئے یہاں تک فرمایا کہ ” اگر70مرتبہ بھی آپ اس کیلئے استغفار کریں گے تو اللہ اس کو معاف نہیں کرے گا”۔ یہ کثرت کیلئے تھا۔ اگر نبیۖ کو یقین ہوتا کہ100مرتبہ استغفار کرنے پر اللہ معاف کردے گا تو ایک تسبیح ضرور عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین کیلئے پھر بھی پڑھ لیتے۔لیکن اللہ نے کسی صورت اس کو معاف نہ کرنے کی وضاحت کی تھی۔
جب کوئی شرارت کا سرغنہ ایک راستہ دیکھ لیتا ہے تو ایسی منصوبہ بندی کرتا ہے کہ سیدھے سادے لوگ اس کے جال کا بری طرح شکار ہوجاتے ہیں۔ جب ابن ابی کو پتہ چل گیا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ سفر کے موقع پر کاروان سے پیچھے رہ گئیں تھیں اور ایک گھر کے خادم نے دیکھ لیا تو وہ ساتھ لے کر آگئے۔ اس واقعہ کا سن کر رئیس المنافقین نے منصوبہ بندی کرلی اورایک گروہ تیار کرلیا جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے۔ اس گروہ میں ہر فرد کا اپنا اپنا کردار تھا۔
یہاں سمجھانے کیلئے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں کہ شیطانی منصوبہ ساز گروہ کاسرغنہ کیسے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ حضرت حاجی محمد عثمان کے خلاف اپنے مرید و خلفاء نے پہلے ایک سازش تیار کی اور اس میں اندر اور باہر کے لوگوں کو ساتھ ملا کرالاستفتاء تیار کیا اور حاجی محمد عثمان پرفتویٰ بھی منصوبہ بندی سے لگادیا۔ اس کی تفصیلات دیکھ کر عوام کی عقل دنگ رہ جائے گی کہ معززین کہلانے والوں کا اتنا گھناؤنا کردار بھی ہوسکتا ہے ؟۔ اور سادہ لوح مفتی اعظم مفتی ولی حسن ٹونکی کس طرح سے اس سازش کا شکار ہوگئے؟۔ پھر ایک دوسرا دور آیا کہ حضرت حاجی محمد عثمان کے انتقال کے بعد کس طرح سے ان کو زہر کھلانے کی جھوٹی داستان گھڑی گئی اور بہت مخلص لوگ بھی اس کا زبردست طریقے سے شکار ہوگئے تھے۔
چشم دید معاملات کو دیکھنے کے بعد اچھی طرح سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رئیس المنافقین نے کس طرح سے منصوبہ بندی کی سرپرستی کی ہوگی؟۔قرآن کی آیات میں سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کی جتنی تفصیلات ہیں وہ قیامت تک کی رہنمائی کیلئے کافی ہیں۔ سورة محمد میں اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ” وہ کھاتے ہیں اور جنسی خواہشات پوری کرتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں اور جنسی خواہشات پوری کرتے ہیں”۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور خلافت کیلئے پیدا کیا ہے۔ جب انسان اپنے مقصد کیلئے کام کرتا ہے تو پھر وہ قرآن سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
واقعہ افک بہتان عظیم میں کس کا کیا کردار تھا؟۔ حضرت ابوبکر کے رشتہ دار حضرت مسطح ،معروف نعت خوان حضرت حسان ، نبیۖ کی سالی حمنا بنت جحش نے بہتان لگایا تھا اور ان کو80،80کوڑوں کی سزا بھی ملی تھی۔ سورۂ نور کی تمام آیات میں بہت بڑا انقلاب موجود ہے لیکن یہ مختصر اخبار اسکا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ ” اس واقعہ میں اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ تمہارے لئے اس میں خیر ہے”۔ آج جو مسلمانوں کے اندر ایک بہت بڑا حساس معاملہ بنا ہے کہ توہین رسالت اور اذیت رسول کے نام پر لوگوں کومحض تہمت لگاکر بھی قتل کیا جاتا ہے تو اس میں خیر کا یہ پہلو ہے کہ اس سے بڑھ کر اذیت رسول کی مثال کوئی نہیں ہوسکتی ہے مگر بہتان لگانے والوں کو قتل نہیں کیا بلکہ کوڑے مارے گئے تو کیا قرآن نے ان جذباتی لوگوں کی درست ترجمانی نہیں کی ہے یا اس سے کسی کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے؟۔ علماء اس کی نشاندہی عوام کے سامنے کریں۔
خیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آئینِ پاکستان میں لکھا ہے کہ قرآن اورسنت کے مطابق قانون سازی ہوگی لیکن ہماری عدالتوں میں حرام خوری کا مال کمانے کی مقدار پر ہتک عزت کے دعوے ہوتے ہیں۔ جو اپنے لئے جتنے پیسے خرچ کرکے بڑا کیس لڑسکتا ہے وہ اپنی ہتک عزت میں اتنے پیسوں کا دعویٰ دائر کرسکتا ہے۔ مریم نواز کی ہتک عزت کروڑوں ،اربوں اور کھربوں میں ہوسکتی ہے لیکن ایک غریب خاتون کی عدالت میں عزت اتنی بھی نہیں جتنی رقم سے وہ اپنا کیس لڑسکے اور اگر معروضی حقائق کو دیکھا جائے تو اس غریب عورت کو اپنی عزت اتنی پیاری ہوگی کہ اس کا باپ پچاس مرتبہ بھی وزیراعظم کی کرسی تک پہنچے لیکن وہ اجنبی افراد کے ہجوم میں اس طرح سرِ عام اسٹیج پر ایک مرتبہ بھی گھل مل نہیں سکتی ہے۔
نبیۖ کی سیرت طیبہ اعلیٰ ترین نمونہ اسلئے نہیں ہے کہ لوگوں کیلئے قطعی طور پر قابلِ قبول نہ ہو بلکہ اعلیٰ ترین نمونہ کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے بدترین دشمن بھی اسکو قبول کرنے سے نہیں ہچکچاسکتے ہیں آج پاکستان میں قرآن وسنت کا یہی قانون نافذ کیا جائے کہ غریب وامیر کی عزت برابر ہے۔ جس پر بھی بہتان لگے تو اس کی پاداش میں روپے کا کھیل نہیں کھیلا جائے گا بلکہ اسی اسی کوڑے مارے جائیں گے۔80کوڑوں کی سزا سب امیر وغریب کیلئے برابر ہے لیکن امیر کیلئے زیادہ رقم کا جرمانہ بھی بڑی سزا نہیں ہے اور غریب کیلئے کم رقم کا جرمانہ بھی بڑی سزا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عزت انمول چیز ہے ۔ انسان کی غیرت بھی گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی عزت کی کوئی قیمت لگائی جائے اور جس عزت کی قیمت لگے تو وہ عزت نہیں بلکہ قابلِ فروخت دھندہ ہے۔ اسلام کوئی نایاب چیزوں پر عمل کا نام نہیں بلکہ انسانی خمیر کی اس فطرت کے مطابق رہنمائی کرنے والا ایسا دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اشرف المخلوقات کیلئے نازل فرمایا ہے۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے خلاف رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کی چال میں آنے والے مخلص مسلمانوں کی قرآن کریم نے خوب سرزنش کی ہے اوریہ سلسلہ روایات اور اپنوں پرایوں کے درمیان انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ اہل تشیع کے ائمہ ومجتہدین نے ان کی توہین واہانت کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن کچھ لوگ قرآن سے بھی مطمئن نہیں تو حضرت عائشہ کے خلاف توہین آمیز روش کے مظاہرے سے باز نہیں آتے ہیں۔مسلمانوں کو قرآن سے رہنمائی لینی چاہیے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اصل قرآن کے دو نسخے ملے جو ائمہ اہل بیت نے لکھے تھے۔ برطانیہ سے تصدیق ہوئی تو منظرعام پر لائیں گے، علامہ شبیر میثمی

شیعہ معروف عالم دین کے بیان سے نیا فتنہ کھڑا ہوگا ، اہل بیت کے مخالفین کو اہل بیت پر طعن وتشنیع کا موقع ملے گا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل تھے۔

اَللّہُ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہ کَمِشْکَاةٍ فِیْہَا مِصْبَاح اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ اَلزُّجَاجَةُ کَاَنّہَا کَوْکَب دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَکَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّّلَا غَرْبِیَّةٍ یَکَادُ زَیْتُہَا یُضِیئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَار نُّوْر عَلٰی نُوْرٍ یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآئُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم (النور:35)

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے،اسکے نور کی مثال طاق کی طرح ہے جس میں چراغ ہو، چراغ شیشے میں ہو ، وہ شیشہ چکمدار ستارے کی طرح ہو،جو جل رہاہو زیتون کے مبارک درخت سے،جونہ مشرقی ہو اورنہ مغربی۔قریب ہے کہ اس کا تیل روشن ہوجائے ،اگرچہ اس کوآگ نہ چھوئے۔یہ روشنی پر روشنی ہے۔اللہ اپنے نور کی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ لوگوں کو مثالیں دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ نور کی اس آیت میں اللہ نے اپنے نور کو جس انداز سے بتایا اور جو مثال دی، وہ بالکل واضح ہے۔ اللہ کے نور پر مشرقی اور مغربی ہواؤں اور تہذیب کے کچھ اثرات مرتب نہیں ہوتے اور قریب ہے کہ اس کی روشنی آگ چھوئے بغیر بھی دنیا میں بھڑک اٹھے۔ اسلام کے فطری دین کو مولوی اور پیروں کو پھونکیں مارنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اس کی انقلابی روشنی مذہبی طبقات کی تحریکات کے بغیر بھی جل اُٹھ سکتی ہے جو پوری دنیا میں اسلامی انقلاب کا باعث بن جائے۔ علامہ اقبال اورقائداعظم محمد علی جناح کی علماء ومفتیان نے مخالفت کی یا پھر ان کی قیادت کے پیچھے آخری صفوں میں کھڑے ہوگئے ۔ افغانستان میں طالبان نے الیکشن کمیشن کا محکمہ ختم کردیاہے اسلئے کہ ان کو خوف ہے کہ اگر انتخابات کروائے تو کوئی اوراقتدار میں آسکتا ہے۔ ڈکٹیٹر شپ اور آپس کے کچھ یا زیادہ اختلافات کے باوجود افغانستان میں ایکدوسرے کے خلاف بدتمیزی کا وہ طوفان برپا نہیں ہے جو پاکستانی جمہوری انتخابات میں ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اہل غرب قیامت تک ہمیشہ حق پر رہیں گے” اور اس سے جمہوری نظام مراد ہے اسلئے کہ حضرت ابوبکر کی ہنگامی ، حضرت عمرکی نامزد گی، حضرت عثمان کی مختصر شوریٰ اور حضرت علی و حضرت حسن کی خلافت اچانک منعقد کرنے کے بجائے جمہوری طرزکے انتخابات رائے عامہ سے ہوتی تو امت میں اختلاف کی بنیاد نہ پڑتی۔ حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی کی شہادت اوربنوامیہ وبنو عباس کاخاندانی قبضہ بھی نہ ہوتا۔ شیعہ سنی کے اپنے اپنے دلائل ہیں لیکن بحث کا ابھی فائدہ نہیں۔ حضرت حسن کے بیٹوں کے نام ابوبکرو عمر تھے ، حضرت حسین کے بیٹوں کے نام بھی ابوبکر و عمر تھے اورمیرے بیٹوں کے نام بھی ابوبکر وعمر ہیں۔
ہندوستان میں ایک شیعہ وسیم نے سپریم کورٹ میں قرآن کے خلاف مقدمہ کیا کہ اس میں دہشتگردی کی جہادی آیات ہیں، ہمارا مسلمانوں سے تعلق نہیں ۔ جس کے خلاف شیعہ سنی دونوںنے زبردست احتجاج کیا۔ پھر پاکستان میں شیعہ عالم دین نے انکشاف کیا کہ” اوریجنل قرآن کے دو نسخے مل گئے جو اہل بیت کے ائمہ نے لکھے تھے۔ برطانیہ سے اس کی تصدیق ہوتو منظر پر لائیں گے، شیعہ سنی میںاختلافات کا معاملہ بڑھ سکتا ہے اسلئے اس پر بات نہیں کروں گا”۔ علامہ سید جواد حسین نقوی نے سخت الفاظ میں تردید اور بھرپور وضاحت کی کہ شیعہ میں روایت پر ست اہلحدیث کی طرح کچھ عناصر گزرے ہیں جنہوں نے ضعیف روایات کا سہارا لیکر قرآن میں بھی تحریف کی بات لکھی، جس میں ایک معروف عالم کی کتاب ”فصل الخطاب” ہے لیکن اس نے پھر دوسری کتاب اس کی تردید میں لکھی ہے جو معروف نہیں ہوئی۔ شیعہ معروف عالم دین کے بیان سے نیا فتنہ کھڑا ہوگا ، اہل بیت کے مخالفین کو اہل بیت پر طعن وتشنیع کا موقع ملے گا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل تھے۔ یزیدکے کارناموں کو پیش کیا جائیگا اور جن میں حضرت علی کا بغض ہے وہ اپنے بغض کا شیعانِ علی کے خلاف نیامحاذ کھڑا کرینگے۔
کالعدم سپاہ صحابہ کے مولانا رب نواز حنفی اور علامہ اورنگزیب فاروقی نے اپنی تقاریر میں کہا کہ وقت نے ثابت کردیا کہ مولانا حق نواز جھنگوی کا مؤقف بالکل درست تھا ۔ شیعہ کو جب بھی موقع ملے گا وہ اپنے قرآن کی تصدیق برطانیہ سے کروائیں گے کیونکہ موجودہ قرآن پر ان کا ایمان نہیں۔ علامہ شبیر میسمی نے اپنے بیان کی واضح تردید کردی کہ میرا مقصد یہ تھا کہ اہل بیت کے قرآنی نسخوں سے موجودہ قرآن کی تصدیق ہورہی ہے۔ حالانکہ پھر اختلاف بڑھنے کا اندیشہ کیونکر ہوسکتا تھا؟۔ علامہ شہر یارعابدی نے اپنے یوٹیوب چینل پر علامہ میسمی سے تردید کروادی ،جو متعصبانہ رویہ ہمیشہ نمایاں کرتا ہے ۔ ہماری چاہت ہے کہ دین میں کسی پر زبردستی نہ ہو اور ہرکوئی اپنے دفاع کا بھرپور حق اور دوسرے کی مخالفت کا حق رکھتا ہے۔ اسلام کے دامن میں ستر سے زیادہ متضاد فرقوں نے پناہ لی اور کچھ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ خلافت پر شروع سے اختلاف رہاہے۔
قرآن کے حوالے سے شیعہ سنی تنازع کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے اور امت مسلمہ کو اتفاق رائے سے قرآن کے مسئلہ پر واضح ہونا چاہیے کیونکہ دونوں طرف سے خراب معاملات موجود ہیںجن کی ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار کے مختلف شماروں میں وضاحت کردی ہے۔اگر جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن میدان میں آگئے ، قرآن کے تحفظ اور آیات کی درست تشریح میں بھرپور کردار ادا کیا تو پھر بعید نہیں کہ اسلامی انقلاب آئے ۔ مولانا فضل الرحمن کو اپنے پرائے امام انقلاب مان لیں گے۔ سپاہ صحابہ بھی پھر ان کی ہم آغوش ہو گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

لورالائی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن نیوٹاؤن کراچی کے سابق استاذ حضرت مولانا مفتی عبد المنان ناصر مدظلہ العالی جو بانگی مسجد رنچھوڑلائن کراچی کے امام و خطیب بھی رہے اور پھر بلوچستان حکومت میں قاضی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ تربت اور دیگر شہروں میں فرائض انجام دئیے، اللہ تعالی انکی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ نوشتۂ دیوار کے نمائند گان عبدالعزیز اور امین اللہ ان کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔ اس مرتبہ آپ نے رات کومہمان ٹھہرایا۔اللہ تعالی علماء حق کی شوکت میں اضافہ فرمائے۔ جب سید عتیق الرحمان گیلانی نے تحریک شروع کی تھی تو استاد مفتی عبدالمنان ناصر سے کسی نے کہا کہ اس نے مہدی کا دعویٰ کیا ہے۔ استاذ نے کہا کہ اگر یہ وہی عتیق ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور ثابت بھی کردیگا۔البتہ کوئی اور ہے تو میںکچھ نہیں کہہ سکتا ۔ عتیق گیلانی کی کتاب تحریر1991ء کانیگرم”خلافت علی منہاج النبوت کے وجود مسعود کا اعلان عام”میں اس کا ذکربھی ہے۔ جب عتیق گیلانی نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو علم الصرف کے استاذمفتی عبدالمنان ناصر اور مولانا عبدالقیوم چترالی تھے جبکہ درجہ اولیٰ کے دیگر فریقوں کو مفتی عبد السمیع شہید پڑھاتے تھے ۔مولانا عبدالمنان ناصر نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں نے طالب علمی کے اٹھارہ سالوں اور تدریس کے دوران اتنا قابل انسان طلبہ اور اساتذہ میں نہیں دیکھا ۔ ایک مرتبہ سرِراہ مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے صیغہ پوچھا اور اسکا پس منظر یہ تھا کہ ہر جمعرات کو مفتی عبدالسمیع سارے سیکشنوں کے طلبہ کو بلا کر مناظرہ کرواتے لیکن عتیق گیلانی اس میں شرکت سے انکار کرتے تھے۔عتیق گیلانی کے سیکشن کو یہ شکایت پیدا ہوگئی تھی کہ ہمیں استاذ اچھا نہیں پڑھاتے لیکن عتیق کہتے تھے کہ ہمیں بہت اچھا پڑھایا جارہاہے۔ عتیق گیلانی کے سیکشن میں مفتی اعظم امریکہ مفتی منیر احمد اخون بھی تھے ۔عتیق گیلانی نے بلاسوچے سمجھے مولانا عبدالسمیع کو جواب دیاکہ مجھے اس صیغے کا پتہ نہیں اور ایک چھوٹا سوال بھی کر دیا کہ ماضی کے صیغوں میں ضربتما دو مرتبہ کیوں لکھا ہے جبکہ صیغہ ایک ہے۔ مفتی عبد السمیع سے اسکا جواب نہیں بن رہا تھا اور آخر کار تقریباً گھنٹوںبحث میں بات یہاں تک پہنچی کہ مفتی عبد السمیع نے قرآن کا مصحف منگوا کر کہا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے؟۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ نہیں یہ نقش کلام ہے۔ مفتی عبدالسمیع نے کہا کہ آپ کافر ہو گئے اسلئے کہ اللہ کی کتاب کا انکار کر دیا۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ مولانا یوسف لدھیانوی کے پاس چلتے ہیں وہ بھی کافر ہو گئے اسلئے کہ یہ مسئلہ انہوں نے بتایا ۔اسوقت طلبہ کا بڑا ہجوم اکھٹا ہو گیا تھا، مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے غصے میں کہا کہ” تم افغانی ساری کتابیں پڑھ کر آتے ہو، تمہارا مقصد پڑھنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہے”۔ ایک طالب علم نے عتیق گیلانی کا بازو پکڑا اور مسجد کے سائیڈ میں لے جاکر کہا کہ صوفی صاحب بیٹھ کر اپنا ذکر کرو۔ دوسرے دن پورے مدرسے میں یہ چرچاتھا کہ صوفی صاحب تو علامہ تفتا زانی ہیں۔ مفتی عبدالسمیع کے بھی چھکے چھڑادئیے۔ عتیق گیلانی کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ میں قابل نہیں، مفتی عبد السمیع نالائق ہیں۔ استاذ مفتی عبدالمنان سے یہی سوال پوچھتا ہوں۔ مفتی عبدالمنان نے جواب دیا کہ مبتدی طالب علم کو سمجھانے کیلئے یہ صیغہ الگ الگ لکھ دیا تا کہ مذکر اور مونث کیلئے الگ الگ پہچان ہو۔ آگے کی کتاب ”فصول اکبری” میں یہ صیغہ ایک دفعہ لکھا ہے۔ جب عتیق گیلانی نے مولانا بدیع الزمان سے اصول فقہ کی کتابوں میں یہ تعلیم حاصل کی کہ کتابت کی شکل میں قرآن کے مصاحف اللہ کا کلام نہیں تو تعجب نہیں ہوا لیکن جب مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ”فقہی مقالات” میں یہ دیکھا کہ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے تو پھر اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی غلط تعریف کا معاملہ بھی کھل گیا اور اپنے استاذ مفتی محمد نعیم بانی جامعہ بنوریہ سائٹ ایریا سے بھی اس پر بات کی اور انہوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لیا اسی طرح مولانا محمد خان شیرانی مولانا عطاء الرحمان اور قاری عثمان سے بھی اس پر بات کی تھی۔ علاوہ ازیں انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد سے بھی قرآن کی اس تعریف کی غلطی منوائی تھی جو امریکہ اور کراچی یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر رہے ہیں اور اصول فقہ میں یہ غلط تعریف علم کلام کی وجہ سے آئی تھی جس سے امام ابوحنیفہ نے توبہ کی تھی۔
مولانا سید محمد یوسف بنوری کے ایک شاگرد نے سقوطِ طالبان حکومت کے بعد ظہورمہدی پر ایک کتاب میں پاکستان سے ڈنڈے والی سرکار کا بھی ذکر کیا اور ملاعمر کے حوالے سے لکھا کہ وہ بھی ایک مہدی تھے لیکن اس میں حماقت یہ کی ہے کہ ملاعمر سے پہلے بھی ایک مہدی کا ذکر کیا ہے۔ جب ملاعمر سے پہلے مہدی آیا نہ ہو تو پھر دوسرے نمبر کے مہدی کا تصور کیسے ہوسکتا تھا؟۔ عربی یوٹیوب چینل اسلامHDمیں یہ انکشاف ہے کہ فتنہ الدُھیما کا حدیث میں ذکر ہے جس میں99فیصد لوگ قتل ہوں گے۔ یہ فتنہ مہدی کے40سالہ، منصور کے20سالہ اور سلام اور امیرالعصب کے ادوار کے بعد ہوگا۔ پھر آخر میں دجال اور آخری مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوگا۔ اس میں نبیۖ کے بعد مختلف فتنوں اور صدیوں کے سرے پر مجددوں کے ادوار لکھے ہیں اور2022ء کو بھی ایک مجدد کا دور قرار دیا ہے اور اس میں پہلے مہدی کی خلافت کے آغاز کی بھی بات کی ہے۔ اس چینل میں ایک شخص نے مہدی امیر اول کا نام بھی جابر بتایا ہے۔جب مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے اور گیلانی نے طلاق کے حوالے سے سمجھایا تو شیرانی نے کہا کہ ”آپ ہم پر زبردستی سے اپنی بات مسلط مت کرو”۔
یوٹیوب پر عربی میں گھنٹوں کے حساب سے مہدی کے ظہور کے حوالے سے کئی کئی خواب ایک ایک چینل میں اپ لوڈ ہورہے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہاکہ
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخرزمانی
قرآن کی واضح آیات اور سنت کی طرف توجہ کئے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی اور یہی بات ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہماری تحریک کیلئے لکھ دی تھی۔محمد فاروق شیخ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اللہ اور اسکے رسول ۖ اُمت سے سخت ناراض ہیں ،چار راتوں سے سو نہ سکا ۔ طالبان وزیراعظم ملامحمد حسن

اللہ اور اسکے رسول ۖ اُمت سے سخت ناراض ہیں ،چار راتوں سے سو نہ سکا ۔ طالبان وزیراعظم ملامحمد حسن

افغانستان کے طالبان نے نہ صرف ڈیورنڈ لائن کی باڑ اکھاڑ پھینکی ہے بلکہ اٹک تک پیچھا کرنے کی بات بھی ویڈیو میں موجود ہے۔ افغان طالبان کے وزیراعظم ملامحمدحسن اخون نے روتے ہوئے ایک خواب بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ۖ اس امت سے سخت ناراض ہیں جس کی وجہ سے چار راتوں سے سو نہیں سکا ہوں۔ ظاہر شاہ کے وقت سے مختلف آزمائشوں کے ہم شکار ہیں اور امتحانات سے گزر رہے ہیں۔ پہلے بھی آزمائش سے نکلے تھے اور اب بھی نکل گئے ہیں لیکن ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ میں تمام ولایتوں (صوبوں) کے حکمرانوں کو اپنی شخصی اصلاح اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کر تا ہوں۔ ملاعبدالغنی برادر اور کسی سے میں کوئی عناد نہیں رکھتا ہوں۔
قرآن وسنت کا نفاذ ہمارے لئے ضروری ہے۔ دشمن ہمیں قرآن وسنت سے دور رکھنا چاہتا ہے۔

تبصرہ نوشتہ دیوار
پچھلے مہینے افغان طالبان کی حکومت نے خواتین کی آزادی اور حقوق کی بھی بحالی کا اعلان کیا تھا جو خوش آئند ہے۔ ایک بات پوری امت مسلمہ کے تمام افراد، شخصیات، قائدین، جماعتوں، ملکوں اور اداروں کو یاد رکھنی چاہیے کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف اپنی اصلاح بلکہ اپنی ذمہ داری کا احساس بھی کرنا چاہیے۔ یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ دوسرے کی اصلاح کی جائے اور گلہ کیا جائے کہ ہمارے ساتھ یہ ہورہاہے اور وہ ہورہاہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کیسے پوری کررہے ہیں اور ہمارے اندر کتنی تخریب ہے جس کی ہم پر اصلاح کرنا ضروری ہے؟۔ جب وزیرستان میں دہشت گرد ظلم کررہے تھے تو ہمارے خاندان نے ان کو سپورٹ کیا تھا۔ جب ہم پر حملہ ہوا تو میں نے اپنی غلطی کو اجاگر کیا تھا۔ جب اسلام آباد میں طالبان کے حامیوں نے اپنا نعرہ تبدیل کیا تھا تو ہم نے طعنہ نہیں دیا کہ اب تمہاری سمجھ کھل گئی ہے؟۔ بلکہ ان کی آواز سے اپنی آواز ملائی کہ واقعی تم مظلوم ہو! یہ نہیں کہا کہ جب طالبان کیساتھ حملے کے بعد محسود قوم کے تمام مشیران آگئے اور پھر کانیگرم میں تاریخ رکھ دی تو اپنے لونڈے باز طالبان نے تمہیں بزدل بناکر آنے نہیں دیا ۔
کانیگرم کے ایک برکی دوست نے کہا کہ ”ایک محسوددوست نے مجھ سے کہا کہ تم لوگ شیعہ کی طرح قوم پرست ہو۔جب سے کانیگرم کے پیروں کیساتھ واقعہ پیش آیا تو کانیگرم کے لوگ طالبان سے کنارہ کش ہوگئے ۔ جسکے جواب میں میں نے کہا کہ ہم تو ہیں شیعہ۔ ہم طالبان کیساتھ کیسے ہمدردی رکھ سکتے ہیں”۔
حالانکہ کانیگرم کے بہت سے برکی بھی طالبان کیساتھ اپنے جذبے اور خوف کی وجہ سے طالبان کیساتھ اُچھل کود رہے تھے اور ہمارے خاندان کے بعض لوگ طالبان سے اپنے بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔ محسود اور وزیر خاندانوں نے اپنے بڑوں کی مارا ماری دیکھ لی تو بھی زبان سے کوئی جنبش نکالنے کی ہمت نہیں دکھائی اور آج جب کوئی محسود مارا جاتا ہے تو اسکے خاندان والے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے بچوں کو پاک فوج میں اپنی خدمات اور فرائض انجام دینے کیلئے بھیجنے کی خواہش پال رکھی تھی۔ ہمیں کسی کو کم تر اور نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور خود کو بھی برتر اور کم تر سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چھت پر بیٹھا ہوا فرد فرش پر بیٹھے ہوئے فرد کو ایسے انداز سے دیکھے کہ وہ اونچا ہے یا فرش والا سمجھے کہ وہ نیچا ہے تو اس سے برتری اور کم تری کا احساس پیدا ہونا آنکھوں کا ہی نہیں بلکہ دل کا بھی نابینا پن ہے۔ ہم یہ سوچتے اور دل سے سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری جگہ طالبان ہوتے اور ہم طالبان کی جگہ پر ہوتے تو ہوسکتا ہے کہ زیادہ مظالم کرتے لیکن بس اطمینان کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو فتح نصیب کردی تو ابوسفیان اور اس کی بیوی ہند کیساتھ حسنِ سلوک رکھا اور جب کربلا میں یزید کے لشکر کو موقع ملا تو حضرت حسین ، آپ کے خاندان اور ساتھیوں کو شہید کردیا گیا۔
ہمارے لئے اطمینان اور اعزاز کی بات صرف یہی ہے کہ اللہ نے ہمیں ظلم کا موقع فراہم نہیں کیا تھا۔ جب ہمیں اللہ تعالیٰ موقع دے تو ظلم کرنے سے بھی پناہ دے ۔یہ اس کا احسان ہوگا لیکن اس کو احساس برتری نہیں بلکہ ایک خود اعتمادی کے درجے میں سمجھنا چاہیے۔ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے دنیا کیلئے نہیں بلکہ اپنی اس آخرت کیلئے بھی رکھی ہیں جس کے جزا وسزا کا بار بار اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ہے اور جب تک آخرت کے میدان میں سرخروئی نہ ملے تو بنوامیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ کی طرح خاندانی خلافتوں کے ملنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کو بہت بڑا اعتراض ہے کہ چند مسائل کا بار بار ذکر ہوتا ہے لیکن جب تک یہ حل نہ ہوجائیں تو اگر پوری دنیا میں انقلاب آنا ہے تو ان مسائل کے حل سے ہی آئے گا۔ کیا مدارس اور مساجد میں تین طلاق اور حلالے کے مسائل اب حل ہوگئے ہیں؟۔ اگر نہیں ہوئے ہیں تو پھر جن لوگوں کی عورتوں کو حلالے کے پراسیس سے گزارا جائے تو وہ اس لعنت اور بے غیرتی کے عمل سے گزرنے کے بعد ہمارے انقلاب پر لعنت نہیں بھیجیں گے؟۔ تبلیغی جماعت ہمارے سروں کی تاج اور ہماری محسن ہے اسلئے کہ دین کی طرف دعوت دینے کا اہم فریضہ یہ لوگ ادا کررہے ہیںلیکن جن چھ باتوں کو دہرایا جارہاہے ،اس سے کسی کو ذاتی فائدہ یا نقصان ملتا ہے۔ کیا تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تو پھر رجوع نہ کرنے میں یا پھر حلالہ کروانے میں کامیابی ہے؟۔ظاہر ہے کسی میں بھی کامیابی نہیں۔
اگر لاالہ الااللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین دلوں میں آجائے اور غیروں کے حکموں میں ناکامی کا یقین ہمارے دل میں آجائے تو پھر تبلیغی جماعت کے مخلص کارکن جب غصے میں بیوی کو تین طلاق دیتے ہیں اور کسی مفتی اور عالم سے حلالہ کروالیتے ہیں تو غیرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کیا کسی صحابی کا ایسا واقعہ ہے کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاق دیدئیے ہوں اور نبیۖ نے کسی سے حلالہ کروانے کا حکم دیا ہو؟۔ تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ۖ کا مطلب اللہ کے رسول کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے۔
اللہ کے احکام قرآن میں ہیں اور اللہ کے احکام پر عمل کا طریقہ سنت ہے۔غسل ، وضو اور نمازکا حکم قرآن میں ہے اور عملی طور پر غسل کرنا، وضو کرنا اور نماز پڑھنا سنت ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاس نے اسی مقصد کیلئے جماعت بنائی تھی۔ نماز،غسل اور وضو کے فرائض قرآن وسنت میں نہیں ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے دیوبندی اکابر سے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کا راستہ روک لیا تھا۔ فقہی مسائل میں فرائض اور واجبات کا تعلق قرآن وسنت سے نہیں تقلیدی مسائل سے ہے۔ مولانا الیاس کی چاہت تھی کہ مسائل علماء کیلئے چھوڑ دئیے جائیں اور فضائل سے قرآن کے احکام اور نبیۖ کی سنتوں کو زندہ کردیا جائے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا عبیداللہ سندھی سب اکابر کا اصلی مؤقف یہی تھا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگ بھی غیرمتنازع تبلیغی جماعت کیساتھ عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ تبلیغی نصاب میں شامل ”فضائل درود” کی وجہ سے ان کی یہ غلط فہمی دور ہوجاتی تھی کہ یہ وہابی لوگ نبیۖ کے دشمن ہیں۔ بعد میں تبلیغی جماعت نے سعودی عرب کی وجہ سے تبلیغی نصاب کا نام” فضائل اعمال” رکھ دیا۔ اور یہ صرف دیوبندی فرقے کی طرف منسوب ہوگئی ۔ حالانکہ اس میں زیادہ تر لوگ بریلوی مکتب سے تبلیغی جماعت کا حصہ بن گئے تھے۔
مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب” بہشتی زیور” کے مقابلے میں بریلوی مکتبہ فکر نے ” بہار شریعت ” کتاب لکھی ہے۔ اس کی ابتداء میں عقیدے کے حوالے سے یہ وضاحت ہے کہ ” نبیۖ اور سارے انبیاء بشر ہیں”۔ اگر اس کتاب پر اتفاق کرلیا جاتا تو دیوبندی بریلوی اختلافات کو اتنی زیادہ ہوا نہیں مل سکتی تھی۔ بہارِ شریعت میں ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ فرائض کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک فرائض عینی ہیں۔جیسے نماز، روزہ ، زکوٰة اور حج ۔اس کامنکر کافر ہے ۔ دوسرے فرائض ظنی ہیں جیسے غسل ، وضو اور نماز کے فرائض۔ دلیل کی بنیاد پر ان فرائض سے اختلاف کرنا اور ان کو فرائض نہ ماننا جائز ہے لیکن دلیل کے بغیر ان کا انکار کرنا گمراہی ہے۔ بہارشریعت بریلوی مکتب نے فقہ حنفی کی بنیاد پر لکھی ہے۔
بریلوی مکتب نے دیوبندی اکابر پر اسلئے گمراہی کے فتوے لگائے تھے کہ کسی دلیل کے بغیر فقہی تقلید اور فرائض ظنی کو بدعت قرار دے رہے تھے۔ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں تقلیدکو چوتھی صدی کی بدعت قرار دیاتھا۔ اس کتاب پر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھ دی ہے۔ جبکہ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے والد محترم حضرت مولانا محمدزکریا بنورینے فرمایا تھا کہ ” ہندوستان میں فقہ حنفی کی حفاظت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی وجہ سے ہوئی ہے”۔ اور مولانا سید محمد یوسف بنوری کے استاذ مولانا انور شاہ کشمیری نے فرمایا تھا کہ ”میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ، فقہ کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی”۔ اب وقت آگیا ہے کہ مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مولانا سید محمدیوسف بنوری ، مفتی محمد شفیع کراچی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا سید محمد میاں لاہوری اور دیگر پاکستان کے دیوبندی اکابر کے استاذ مولانا محمدانور شاہ کشمیری کی آخری خواہش کو عملی جامہ پہنادیں۔جس کو بہارشریعت کا مکتب بھی دل وجان سے ضرورتسلیم کرلے گا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا الیاساور مولانا عبیداللہ سندھی نے اسی انقلاب کیلئے جدو جہد فرمائی تھی۔
نبیۖ اور خلافت راشدہ کے دور میں غسل کے فرائض اور اس پر اختلاف کا تصور نہیں تھا۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے کہ پہلی تین صدیوں میں جو فقہی مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ خیرالقرون میں شامل ہیں۔جس کا حدیث میں ذکر ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم ”بہترین دور میرا ہے اور پھر جو اس کے ساتھ ملے ہوئے لوگ ہیں اور پھر جو اس کے ساتھ ملے ہوئے لوگ ہیں”۔ عام طور پر اس حدیث سے صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین مراد لئے جاتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ ” اس حدیث میں پہلا دور نبیۖ کا دور تھا۔ دوسرا دور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کا تھا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا تھا۔ جبکہ حضرت علی کے دور میں خلافت منتظمہ نہیں تھی اسلئے خیرالقرون کے تین ادوار میں آپ کی خلافت کادور شامل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کیساتھ خلافت کا وعدہ کیا تھا اور عربی میں جمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے، پہلے تین خلفاء کیساتھ یہ خلافت کا وعدہ پورا ہوگیا تھا۔ اس سے خوارج خوش ہونگے کہ حضرت علی کے دور کو خلافت سے نکال دیا تو آپ کا دور خلافت راشدہ میں شامل تھا اور قیامت تک کیلئے حضرت علی ایک امام انقلاب کی حیثیت سے قابل اتباع ہیں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ” حضرت شاہ ولی اللہ سے مجھے تھوڑا سا اختلاف ہے۔ میرے نزدیک حضرت ابوبکر کا دور نبیۖ کے دور میں شامل تھا اسلئے کہ نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ دوسرا دور حضرت عمر کا تھا جہاں کچھ تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ حفظ مراتب کے اعتبار سے مختلف لوگوں میں مال کی تقسیم کی گئی تھی اور اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام نے پورا تسلط قائم نہیں کیا تھا لیکن اس کا پھر بھی آغاز ہوچکا تھا جبکہ حضرت ابوبکر کے دور میں بقدر ضرورت وظائف ملتے تھے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظام میں بھی ایک یہ ہے کہ محنت اور صلاحیت کے مطابق تنخواہ دی جائے اور دوسرا یہ کہ افراد اپنی محنت اپنی صلاحیت کے مطابق ہی کریں لیکن تنخواہ ضرورت کے مطابق لیں۔ گویا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے نظام حکومت کو مولانا عبیداللہ سندھی نے روس کے دورے کے بعد اپنی بدلی ہوئی نگاہ سے تھوڑا مختلف محسوس کیا تھا اور دیانتداری سے بیان بھی کردیا تھا۔
حدیث میں نبی ورحمت کے دور کا ذکر ہے۔ پھر خلافت راشدہ کا ذکر ہے اور پھر امارت کا ذکر ہے اور پھر بادشاہت کا ذکر ہے اور پھر جبری حکومتوں کا ذکر ہے اور اس اعتبار سے نبوت ورحمت کا دور سب سے اچھا ہے۔ پھر خلافت راشدہ کا دوسرا نمبر ہے اور پھر امارت کاتیسرا نمبر ہے جس میں اگرچہ یزید جیسے لوگ تھے تو پھر امیرمعاویہ، معاویہ بن یزید اورہند زوجہ یزید اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے لوگ بھی تھے ،اسی طرح عباسی دور میں بھی اچھے برے لوگ تھے۔ خلافت عثمانی میں بھی اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگ تھے اسلئے لوگ خلافت عثمانیہ کھونے پر روتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے عرب وعجم مسلمانوں کیساتھ خلافت کا وعدہ پورا کیا تھا اوراب جمہوری اور جبری دور کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوہ کا دور ہے۔
جب حضرت ابوبکر نے زبردستی زکوٰة کی وصولی کا فیصلہ کیا تو بعض واقعات کی وجہ سے نبوت ورحمت کے دور اور خلافت راشدہ کے دور میں فرق واضح ہوا۔ حضرت عمر کے دور اور حضرت عثمان کے دور میں معاملات مزید آگے بڑھ گئے۔ حضرت علی اور حضرت حسن کے دور میں خلافت راشدہ کا نظام بہت زیادہ فتنوں کا شکار تھا۔ حضرت علی کے حق میںاسلئے بہت ساری احادیث ہیں ،حضرت حسن کی صلح کی توثیق ہے۔ اگر بنو اُمیہ ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ و مغل سلطنت اور خاندان غلاماں نے خاندانی بنیاد پر حکومتیں کی ہیں تو بنی فاطمہ نے بھی اقتدار کی منزل حاصل کی ہے۔ حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین کے بعد امامیہ کے باقی ائمہ نے بنو اُمیہ اور بنو عباس کے ادوار میں بہت امن و سکون کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ جبکہ امام حسن کی اولاد پر عباسیوں نے مظالم ڈھائے تھے۔
بار امانت میں خود اعتمادی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جدوجہد کرنے کے بعد منزل ملے یا نہ ملے لیکن انسان احساس محرومی کا شکار نہ ہو۔ ائمہ اہل بیت کے برعکس ان کے نام لیوا سب سے زیادہ احساس محرومی کا شکار نظر آتے ہیں۔
خلفاء راشدین کے دور میں زبردستی سے زکوٰة کی وصولی کے مسئلے سے بڑا معاملہ نماز کیلئے زبردستی اور سزاؤں کا تصور تھا۔ جس نے اسلام کو اجنبیت میں لوٹادیا۔ جن ظنی فرائض کے تصورات قرآن و سنت اور خلفاء راشدین کے ہاں نہیں تھے ان کا وجود اور ان کی تقلید اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کی زبردست انتہاء تھی۔ بہار شریعت میں دلیل کے ساتھ غسل ، وضو اور نماز وغیرہ کے فرائض کی مخالفت کا جواز دیا گیا ہے۔ احناف کے نزدیک غسل کے تین فرائض ہیں۔ (1)منہ بھر کر کلی کرنا۔ (2)ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا۔ (3)پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانا۔ شوافع کے نزدیک غسل میں پہلے دو فرائض نہیں بلکہ سنت ہیں۔ مالکیہ کے نزدیک جب تک پورے جسم کو مل مل کر نہ دھویا جائے تو فرض پورا نہ ہوگا۔ غرض کسی ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وضو کی آیت کے بعد اللہ نے فرمایا وان کنتم جنبًا فاطھروا ”اگر تم جنبی ہو تو خوب پاکی حاصل کرو” ۔ شوافع کے نزدیک پہلے دو فرائض وضو میں سنت تو غسل میں بھی سنت ہیں۔ احناف کے نزدیک غسل طہارت میں مبالغہ ہے اس وجہ سے پہلے دو فرائض ہیں۔ مالکیہ کے نزدیک جب تک مل مل کر پورا جسم نہیں دھویا جائے تو طہارت میں مبالغے پر عمل نہیں ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا جنبًا الا عابری السبیل حتیٰ تغتسلوا ”اور نہ نماز کے نزدیک جنبی حالت میں جاؤ مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو یہاں تک کہ نہالو”۔ اس آیت سے نہانے کو فرض قرار دیا گیا ہے اور وضو کے مقابلے میں نہانا طہارت میں مبالغہ ہے ۔
رسول اللہ ۖ ، خلفاء راشدین ، صحابہ کرام اور مدینہ کے سات فقہاء تابعین نے اس طرح کے ظنی فرائض بنانے اور اس میں اختلافات ڈالنے کی حماقت نہیں کی ہے۔ اگر بریلوی مکتبہ فکر کو دلیل کی بنیاد پر سمجھایا جائے تو وہ ماننے کو بھی تیار ہوجائیں گے۔ افغانستان میں دیوبندی مکتبہ فکر کے طالبان کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور اب وہ دلیل کے ساتھ نہ صرف قرآن و سنت کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک زبردست انقلاب لاسکتے ہیں اسلئے کہ مولوی بیچارہ ایک کمزور حیثیت رکھنے والا شخص ہوتا ہے جس کو نماز پڑھانے کیلئے محلے والے تنخواہ پر رکھتے ہیں۔ اور جب اس سے کوئی اختلاف ہوجاتا ہے تو اس کو مسجد سے بھگادیتے ہیں۔ طالبان کے پاس اقتدار ہے اور اس اقتدار کا درست استعمال بہت ضروری ہے۔ تین طلاق سے رجوع اور حلالہ کے بغیر باہمی اصلاح کیلئے ہم نے بفضل تعالیٰ بہت تفصیل سے دلائل دئیے ہیں۔ اگر طالبان اس کو سمجھ کر حلالہ کے خاتمے کا اعلان کریں گے تو ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اور عوام ان کے اس اقدام کو بہت زبردست خراج تحسین پیش کریں گی۔
جب لوگوں کو معلوم نہیں تھا تو عورتوں کو حلالہ کے ذریعے سے زندہ دفن کرنا اور میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنا ایک جاہلانہ مجبوری تھی۔ اب جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قرآن و سنت میںمروجہ حلالے کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی بار بار معروف طریقے سے باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے تو اللہ اور اس کے رسول ۖ کی ناراضگی کا طالبان وزیر اعظم کا خواب میں دیکھنا ایک تنبیہ ہے جس کو سُود کو جواز فراہم کرنے والے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

دو دل والا بچہ سہون شریف سندھ میں قرآن میں کسی شخص کے سینے میں دو دل نہ ہونے کی درست تفسیر

دو دل والا بچہ سہون شریف سندھ میں
قرآن میں کسی شخص کے سینے میں دو دل نہ ہونے کی درست تفسیر

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
چیف ایڈیٹر: اخبار نوشتہ دیوار کراچی

مَّا جَعَلَ اللَّہُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِہِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَکُمُ اللَّائِی تُظَاہِرُونَ مِنْہُنَّ أُمَّہَاتِکُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَائَکُمْ أَبْنَائَکُمْ ذَٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ وَاللَّہُ یَقُولُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیلَ (الاحزاب:4)

اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے اور نہ تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم نے ظہار کیا ہے۔ اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے۔ یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق کہتا ہے اوروہ راستہ دکھاتا ہے۔الاحزاب

ٹی وی24چینل میں11نومبر2021کی رپورٹ۔
10نومبر2021کو ڈسٹرکٹ ہسپتال عبداللہ شاہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سہون شریف سندھ میں6سالہ بچہ کامران رند گاؤں قاضی احمدسے تکلیف کے باعث لایا گیا۔ چیک اپ کے بعد قدرت کے اس کرشمے کا انکشاف ہوا کہ بچے کے دو دل ہیں اوردونوں دل بالکل نارمل طریقے سے کام کررہے ہیں۔ اتفاق سے ہم نے پچھلے شمارے میں یہی لکھا تھا کہ قرآن میں” اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ہیں”کا مطلب یہ نہیں کہ ”میڈیکل کے لحاظ سے دو دل نہیں ہوسکتے۔ یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے دو دل ہوں”۔ ہوسکتا ہے کہ کئی لوگ پہلے بھی دودل والے گزرے ہوں۔ اگر بچے کا اتفاقیہ دل کا چیک اپ نہ ہوتا تو پھر پتہ بھی نہ چلتا۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے چینل ہر چیز کا بہت مثبت اور منفی انداز میں زبردست پروپیگنڈہ کرنے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ کوئی انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے نوازشریف کو بے گناہ ثابت کرتا ہے اور کوئی گناہگار لیکن حقائق کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا نمازِ جنازہ پڑھانے والے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی نے تفسیر عثمانی میں لکھ دیاہے کہ” کسی کے دو دل نہیں ہوسکتے ،ورنہ تو کسی کا سینہ چیر کر دیکھ لیا جائے تو ایک ہی دل نکلے گا”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میلاد النبی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلامی بینکاری موجود تھی؟

میلادالنبیۖ ہم اسلئے نہیں مناتے کہ یہ مذہبی تقریب ہے جس کا نبیۖ کے دور میں وجود نہیں تھااور14اگست جشن آزادی کی تقریب ہم اسلئے مناتے ہیں کہ دنیاوی تقریب ہے۔شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نومنتخب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان۔پھرسوال بنتا ہے کہ رسول ۖ، خلفاء راشدین، ائمہ اربعہ ، مفتی تقی عثمانی کے والدمحترم مفتی محمد شفیع کے دور میں اسلامی بینکاری کا وجود تھا،وفاق المدارس کے سابقہ صدور بھی مخالف نہ تھے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

الحمد للہ وزیراعظم کی زبان پر نقاب کا ذکر آیا۔ مہاجرات صحابیات بہت قابلِ احترام تھیں جب پردے کا حکم آگیا تو انہوں نے لنگ (ازار) پھاڑ کر اپنا سر اور سینہ ڈھانپا تھا۔ مولانا محمد انور جمعیت علماء اسلام کا قومی اسمبلی میں خطاب

میلاد النبی ۖ اورمفتی تقی عثمانی
ہندوستان اور پاکستان میں بریلوی دیوبندی اختلافات نئے نہیں ہیں لیکن ذمہ دار حلقوں نے اپنی سمجھداری سے کام لیکرہمیشہ فرقہ واریت میں ہوا بھرنے سے گریز کیا ہے۔ علماء دیوبند کے اکابر کے پیرومرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے بھی اپنی کتاب ” فیصلہ ہفت مسئلہ” میں تمام متنازع امور کوبہت ہی خوبصورتی کیساتھ ختم کرنے کی زبردست کوشش فرمائی تھی۔ مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ میں علم کی وجہ سے حضرت امداد اللہ مہاجر سے بیعت ہوا ہوں۔لیکن مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فرمایا تھا کہ میں ان کے علم سے نہیںتقویٰ کی وجہ سے بیعت ہوا ہوں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے عرض کیا کہ مولانا رشیداحمد گنگوہی سے میری سفارش کرلیں کہ مجھے وہ بیعت کرلے۔ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی نے فرمایا کہ ” میں تجھے خود بیعت کرتا ہوں ”۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خانقاہی نظام کو سب سے زیادہ مولانا اشرف علی تھانوی ہی نے پھیلایا ہے۔ آپ کی کتاب ” فیصلہ ہفت مسئلہ ” کو بھی مولانا تھانوی نے ہی چھاپ دیا تھا ، ورنہ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگردوں نے اس کو پھاڑ دیا تھا۔
مولانا رشید احمد گنگوہی کے ایک شاگرد مولانا حسین علی تھے جن کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری تھے۔ پھر ان کے بھی دو دھڑے بن گئے۔ مولانا غلام اللہ خان عام دیوبندی علماء سے مل گئے لیکن مولانا طاہر پنج پیری دوسرے دیوبندی علماء کو بدعتی قرار دیتے تھے۔ آج بھی اختلافات کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اب یہ ایک نیا موڑ اختیار کر گیا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی میلاد النبیۖ کے منانے کو بدعت قرار دیتا ہے لیکن مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود اور جمعیت علماء کے قائد مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں دیوبندی اکابر علماء بہت اہتمام کیساتھ میلاد کا جلوس ڈیر ہ ا سماعیل خان میں بھی نکالتے ہیں۔ کیا مفتی محموداور ڈیرہ کے اکابر علماء دیوبند اس وجہ سے بدعتی ہیں ؟۔

دیوبندی اور بریلوی اختلافات
بدعت اور سنت کے حوالے سے دیوبندی بریلوی اختلافات بہت عروج پر رہتے ہیں۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ایک بہت بڑی کتاب لکھ ڈالی کہ جس میں سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا۔ ہندوستان، پنجاب اور کراچی میں علماء دیوبند کے اکابر اس پر عمل کرتے تھے اور سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے مگراندورنِ سندھ امروٹ شریف، بیر شریف اور ہالیجی شریف سنت نمازوں کے بعد بھی اجتماعی دعا ہوتی تھی۔ پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ افغانستان میں سنتوں کے بعد اجتماعی دعا مساجد میں ہوتی تھی۔اکوڑہ خٹک کے جامعہ حقانیہ اور پنج پیر کا اختلاف سنت کے بعد اجتماعی دعا اور حیلہ اسقاط وغیرہ سے زور وشور کیساتھ جاری رہتا تھا۔ جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں بھی پنج پیری طلبہ کو اپنی شناخت چھپانی پڑتی تھی۔ اسلئے کہ مولانا سیدمحمدیوسف بنوری کا تعلق پختونخوا سے تھا۔ پنج پیری علماء اپنے مخالف دوسرے علماء کو حق چھپانے کا مرتکب قرار دیتے تھے اور دوسرے دیوبندی علماء پنج پیری علماء کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیتے تھے۔ یہ جنگ ابھی جاری ہے۔
مولانا فضل غفور نے جب ایک عالمِ دین کا خواب اپنی جمعیت علماء اسلام کی تائید کیلئے بیان کیا تو پنج پیری علماء کی اکثریت نے اس پر رسول اللہۖ کی شان میں گستاخی کا فتویٰ لگادیا لیکن انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ مولانا حسین علی کی تفسیر” بلغة الحیران” میں لکھا کہ ” نبیۖ گر رہے تھے اور میں نے تھام لیا”۔ مولانا خضر حیات بھکروی اور دیگر پنج پیری علماء ان پر گستاخی کا فتویٰ کیوں نہیں لگاتے تھے؟۔ شمالی اتحاد کے احمد شاہ مسعود پنج پیری اور طالبان سنت کے بعد بھی اجتماعی دعا مانگنے والے بدعتی ہیں لیکن شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی طالبان سے نہیں کہتے ہیں کہ ” تم بدعتی ہو”۔ بریلوی دیوبندی اختلاف کی نوبت اس وقت آئے گی جب دیوبندی آپس میں کسی اچھے نتیجے پر نکل کر کبھی متفق بھی ہوجائیں گے۔

مفتی محمد تقی عثمانی اور سودی بینکاری؟
پاکستان میں پہلے سرکاری سطح پرربیع الاول کا اہتمام سیرت النبیۖ کے نام سے ہوتا تھا۔ دیوبندی علماء بھی ربیع الاول کا سیرت النبیۖ کے نام سے اہتمام کرتے تھے۔پہلی مرتبہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے گھر بنی گالہ اور سرکاری سطح پر عیدمیلالنبیۖ کا اہتمام کیا ہے۔دوسری طرف سے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے پہلی مرتبہ میلاد النبی ۖ منانے کو بدعت قرار دے دیا ہے۔
پاکستان میں پہلے دنیا پرستی کے نام پر سودی لین دین اور بینکاری کا اہتما م ہوتا تھا لیکن مفتی محمد تقی عثمانی نے مذہبی روپ میں سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا ہے؟۔ کیا یہ بدعت نہیں ہے؟۔ رسول اللہۖ اور خلفاء راشدین کے ادوار میں کوئی مذہبی پیشواء شیخ الاسلام نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بنوامیہ کے بعد بنوعباس کے دورمیں شیخ الاسلام کا سرکاری عہدہ اور منصب بھی سامنے آگیا اور اب اس نے مذہب کا روپ ہی دھار لیا ہے کیا یہ بھی بدعت نہیں ہے؟۔کیا نبیۖ اور صحابہ کے دور میں غسل اور وضو کے فرائض اور ان پر اختلافات کا تصور تھا؟۔ یہ بدعت نہیںہیں؟۔ دیوبندی علماء مفتی تقی عثمانی اور اس کے آباء واجداد کو سرکاری مرغا قرار دیتے تھے۔ تھانوی گروپ کو آزادی کے علمبرداروں جمعیت علماء ہند کا دشمن سمجھا جاتا تھا۔ پھر جنرل ایوب خان کے پروردہ اس گروپ نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں دیوبندی اکابر علماء پر1970ء میں کفر کا فتویٰ لگادیا۔ پھر تھانوی گروپ نے بھٹو کے برسر اقتدار آنے پر ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جنرل ضیاء کا ساتھ دیا۔ مفتی محمود نے جنرل ضیاء الحق کی سرکاری زکوٰة کو سود قرار دیا اور پھر مولانا فضل الرحمن اس کو شراب کی بوتل پرآب زم زم کا لیبل قرار دیتے رہے۔ آج سرکاری مرغے نے حکومت کے برعکس کوئی آذان دیدی ہے تو یہ بہت زریں موقع ہے کہ سرکاری سطح اور عوامی سطح پر دین اسلام کی حقیقت کو سیاست سے پاک کرکے پوری قوم کو فرقہ واریت کے چنگل سے نکالا جائے۔

مولاناانور کی قومی اسمبلی میں تقریر
لکی مروت سے جمعیت علماء اسلام کے منتخب رکن نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ” شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زبان پر بھی نقاب کا لفظ آگیا۔ جب قرآن کی آیت نازل ہوئی ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ولایبدین زنیتھن الا لبعولتھن او لآبائھن…… ”عورتیں اپنے دوپٹوںکو اپنے سینوں پرڈال لیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپوں کے سامنے…”۔تو اولین مہاجرات صحابیات نے جو بہت ہی قابلِ احترام تھیں ،لنگ (ازار ) پھاڑ کر اپنے سروں اور اپنے سینوں کو ڈھانپ لیا”۔ سوشل میڈیا پر خطاب دیکھ لیں۔
مروت قوم کا قومی لباس پہلے لنگ (ازار)ہوتا تھا جس کو تہبند، دھوتی،لنگی، لنگوٹ بھی کہا جاتا ہے۔ جب سے مولانا محمد امیر بجلی گھر نے لنگ دھوتی کو صرف پنجابی لباس قرار دینا شروع کیا ہے اور اس کو بے غیرتی سے تعبیر کیا ہے تو تہبند کا احترام بھی ختم ہوگیا،حالانکہ حج اور عمرے میں لنگوٹ (تہبند) پہنا جاتاہے۔
جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی مولانا محمدانورعالم ہیں۔ مولانا سید مودودی نے بھی اپنی تفسیر میں لکھا کہ ”عرب میں دوپٹے کا رواج نہیں تھا، قرآنی آیات کے بعد مسلمانوں نے دوپٹہ اوڑھنا لینا شروع کیا”۔ جب یہ بحث آتی ہے کہ عربوں میں دوپٹے کا رواج نہ تھا اور مشرکینِ مکہ تہبند پہنا کرتے تھے اسلئے بعض مہاجرصحابیات نے تہبندوںکو پھاڑ کر اپنادوپٹہ بناکر سر وں اور سینوں پر ڈالا۔ مگرقرآن سے یہ واضح ہے کہ پہلے سے دوپٹے کا رواج تھاکیونکہ آیت میں اپنے دوپٹوں کو اپنے سینوں پر ڈالنے کا حکم واضح ہے۔ البتہ دوپٹوں سے سینے ڈھانپ لینے کا رواج ختم ہوگیا ہوگا۔ پختون معاشرے میں برقعے اور نقاب کی روایت زیادہ عرصے کی بات نہیں۔ حج وعمرہ میں بھی خواتین دوپٹے سے سینوں کو ڈھانپ لیتی ہیں لیکن چہرے کا پردہ نہیں۔

_ سودی نظام سے پاکستان کی تباہی؟_
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سودی نظام کو اللہ اور اس کے رسول کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔ جب1947ء میں پاکستان بن گیا تو اس میں اسلامی نظام کو قراردادِ مقاصد تک محدود کیا گیا۔ پھر اسلامی نظام کیلئے متفقہ22نکات پیش کئے گئے۔ پھر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو1973ء میں ایک اسلامی جمہوری آئین تشکیل دیا گیا لیکن آج تک اسلام پر عمل ہوااور نہ جمہوری نظام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکا ہے۔ جو جمہوری پارٹیاں ڈکٹیٹروں کی پیداوار ہیں اور موروثی نظام کی حامل ہیں تو ان کے ذریعے جمہوریت کیسے آسکتی ہے؟۔
آج سول وملٹری بیوروکریسی ، سیاستدان اور عوام سب مل کربھی اتنا نہیں کھاتے ہیں جتنا سودی نظام کے تحت سودی قرضہ لیکر سودی رقم ادا کررہے ہیں۔ یہ اللہ کیساتھ اعلانِ جنگ کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ نوازشریف نے جتنا قرضہ لیکر سودی نظام کو تقویت دی تھی تو اس کو پورا کرنے کیلئے عمران خان نے مزید اور زیادہ سودی قرضے لے لئے ہیں۔ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا اور اس وجہ سے تمام ریاستی ادارے اور حکومتی شخصیات زیادہ سے زیادہ قرضے لیکر ملک وقوم کو ڈبونے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی لڑائی زیادہ سے زیادہ لوٹ مار اور اقتدار کیلئے ہے اسلئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری کے حق میں یا مخالفت میں کوئی بھی نہیں نکل رہاہے۔ ملکی مفادات کا مسئلہ ہوتا تو بہت سارے لوگ نکل آتے۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کل نئے آرمی چیف کی تقرری میں اس سے بھی زیادہ وقت لگے اور پوری دنیا پاکستان کی حکومت اور ریاست کا تماشہ دیکھنے لگ جائے۔ عوام کی بد دعائیں سب کو لگ رہی ہیں اور کھاؤ پیو معاملہ انجام کو پہنچنے والا ہے۔
سیاسی اقتدار کیلئے سب مررہے ہیں اور بڑے عہدے والے منصبوں کیلئے مررہے ہیں لیکن عوام کی غربت اور غریبوں کے بھوکے مرنے کا خیال کسی اقتدار والے کے دل ودماغ کو اپیل نہیں کرتا ہے۔ جن کا نام پانامہ پنڈورا میں بھی آیا ہے تو وہ میڈیا پر بڑی بے شرمی سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری اولاد غیرملکی باشندے ہیں اور ان پر پاکستان کے قوانین کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ جج ، جرنیل اور سیاستدان اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے لاتعلق اسلئے بنتے ہیں کہ کرپشن میں ان پر کوئی ادارہ گرفت بھی نہ کرسکے۔ جو اپنے والدین، بچوں اور بیویوں تک سے لاتعلقی کا اعلان کریں تو اپنے ملک اور قوم کے کیسے خیرخواہ ہوسکتے ہیں؟۔
سودی نظام کے نتائج ہم اللہ سے اعلانِ جنگ کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ جب اسلامی جمہوری اتحاد کے سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق شہید نے سودی نظام کے خاتمے پر زور دیا تو اس وقت کے رنگیلا وزیراعظم نوازشریف نے اس کے خلاف میڈم طاہرہ سکینڈل اخبارات کی زینت بنادیا۔ میڈم طاہرہ سے زیادہ طاہرہ سید کے معاملات میڈیا کے سامنے واضح تھے لیکن سودی نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی مولانا سمیع الحق شہید کو سزا دی گئی تھی۔ اگر گیدڑ کی طرح چیخم دھاڑ کرکے اچانک خاموشی اختیار کرنے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا بھی ہماری قوم کا مقبول سیاسی قائد ہو تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔
رسول اللہ ۖ نے آخری خطبے میں سودی نظام کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ سب سے پہلے اپنے چچا حضرت عباس کے سود کو معاف کردیا۔ اور دوسرے چچا کے خون کو معاف کردیا۔ اللہ کرے کہ پاکستان کی بھی جان چھوٹ جائے۔

مزارعت سے سودی نظام کا خاتمہ؟
جب سود کی حرمت کے بارے میں آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیدیا۔مزارعت کی وجہ سے دنیا میں غلامی کا نظام رائج تھا اور خاندان کے خاندان غلام بنتے رہتے تھے۔ جاگیردار اپنے غلام بچوں، بچیوں کو تربیت دے کر مہنگے داموں منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔ غلام ولونڈی بنانے کے سب سے بڑا ادارہ جاگیردارانہ نظام تھا۔ بدر میں70افراد کو قیدی بنایا گیا اور ان میں کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ غلام بنانا ممکن تھا اسلئے کہ دشمن سے گھر کی خدمت لینا مشکل نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ بھارت کے کلبھوشن اور ابھی نندن کو کون اپنے گھر کا غلام بناسکتا تھا؟۔
جب نبیۖ نے مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دے دیا تو جاگیرداروں کی اولاد بھی محنت کش بن گئی اور مزارعین کو مفت زمینیں مل گئیں تو وہ بھی خوشحالی سے زندگی بسر کرنے لگے اور جب محنت کشوں میں قوتِ خرید کی صلاحیت پیدا ہوگئی تو تاجر حضرات بھی خوشحال ہوگئے اور جب تاجروں نے زکوٰة اور زمینداروں نے عشر دینا شروع کردیا تو بہت سارے لوگوں نے خمس دینا بھی شروع کردیا تھا اور جن کی زمینیں بارانی تھیں تو ان سے بیسواں حصہ وصول کیا جانے لگا۔ غیرمسلم کو جزیہ کے نام سے اپنا ٹیکس دینا پڑتا تھا اور مسلمان اپنی مرضی سے اپنا فرض سمجھ کر زکوٰة ، خمس ، عشر اور بیسواں حصہ دیتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں جب سالانہ بجٹ پیش کیا گیا تو بہت سارا مال بچ رہا تھا۔ انہوں نے رعایا کے تمام قرض داروں کا قرض ادا کرنے کا حکم دیا۔ عرض کیا گیا کہ وہ پہلے سے ادا کیا گیا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنی بیگمات کے حق مہر ادا نہیں کئے ہیں ان کے حق مہر ادا کئے جائیں۔ وزیرخزانہ نے عرض کیا کہ پہلے سے اس پر عمل ہوچکا ہے، سب کے حق مہر بھی دیدئیے گئے ہیں۔ عمربن عبدالعزیز نے حکم دیا کہ جن جوانوں کی شادیاں نہیں ہوئی ہیں ،بیت المال سے ان کی شادیاں بھی کروادو۔ عرض کیا گیا کہ اس پر بھی عمل ہوچکا ہے۔ غرض بیت المال کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ رعایا پر خرچ کرنے کیلئے کوئی بہانہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔
مشرکینِ مکہ اور دشمنان اسلام کو یہ گمان تھا کہ مسلمانوں کا مختصر گروہ وقت کی تاب نہ لاکر ختم ہوجائیگا لیکن ان کواندازہ نہیں تھا کہ حجاز میں جہاں بہت مشکل سے پانی کے کنویں بھی نہیں ملتے تھے۔ آب زم زم تھا یا مدینہ کے کچھ چشمے تھے ۔ لیکن پھر وہ دور بھی آیا کہ مصروشام، عراق اور ایران اور برصغیرپاک وہند تک بھی مسلمانوں کا اقتدار پھیل گیا اور اسپین وروم بھی ان کے زیرتسلط آگئے تھے۔ جب ایران کو فتح کیا گیا تھا تو حضرت عمرفاروق اعظم کے دور میں کسریٰ ایران کے محل سے جو شہزادیاں ملی تھیں ان سے حضرت امام حسن ، امام حسین اور محمد بن ابی بکر کی شادیاں کرائی گئیں۔ لگتا ایسا ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم کی زوجہ حضرت سارہ کی خدمت میں ایک ظالم بادشاہ نے اپنی ایک لونڈی حضرت حاجرہ پیش کی تھی جو اصل میں شہزادی تھی۔ اسی طرح ایران کے بادشاہ کو شکست دینے کے بعد یہ شہزادیاں بھی بادشاہ کے دربار میں رہ گئی ہوں گی۔ اسلام میں آزاد عورتوں کو لونڈی بنانے کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا تھا۔ قرآن میں مسلمانوں کیساتھ بہت سارے وعدے کئے گئے تھے جن میں اقتدار اور خلافت کا وعدہ بھی تھا۔ وقت کی سپر طاقتوں روم وایران کو شکست دی گئی اور نہروں اور باغات کے دنیا میں بھی مالک بن گئے تھے۔ غلمان اور لونڈیوں سے بھی دنیا میں نوازا گیا تھا۔ اسلام نے لونڈی بنانے کا نہیں لونڈی وغلام کو آزاد کرنے اور سہولت دینے کا تصور دیا تھا۔
قرآن میں ان غلمانوں کا ذکر ہے جو ایکدوسرے پر تحفہ میں پیش کرینگے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرینگے جن کو سخت دھوپ اور گرم لُو سے نجات دیکر اچھے مالکوں تک پہنچایا۔ علی کے مالک اشتر سے غزنوی کے محمود تک زبردست تاریخ ہے۔

اسلام کا غیرسودی بڑامعاشی نظام؟
کارل مارکس نے جو کیمونزم کا نظریہ دیا تھا ،اس نے روس کو دنیا کی دوسری سپر طاقت بنادیا تھا۔ اگر چین اور اسلامی دنیا اس کا ساتھ دیتے تو اس کا مقابلہ امریکہ اور یورپ نہیںکرسکتے تھے۔ امریکہ نے پہلے پاکستان اور اسلامی دنیا کو روس کے خلاف استعمال کیا اور اب خدشہ ہے کہ بھارت اور افغانستان کو چین کے خلاف بھی استعمال کرسکتا ہے۔ایسی صورت میں پاکستان کا بھرتہ نکل جائے گا۔ پاکستان کا اپنا کوئی معاشی نظام نہیں ہے۔ سستی بجلی پیدا کرکے اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ہمارے بڑے لوگوں نے غیرملکی سودی قرضے لے لے کر بیرون ملک اپنے اثاثے بنالئے ہیں۔ اسلام کی معیشت میں کسانوں کو مزارعت کے بغیر زمینیں مفت میں دینا اور سود سے پاک نظام کی بنیادی اہمیت ہے۔ کیمونزم اور کیپٹل ازم کے درمیان اسلامی معیشت کا درمیانہ نظام دنیا کو تباہی کے کنارے پہنچانے سے بچانے میں اہم کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔ دریائے سندھ سمیت تمام دریاؤں پر چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرنے سے پاکستان کی زمینوں کو باغات اور کھیتی باڑی سے بھی سرسبزوشاداب کرسکتے ہیں اور اس پر بجلی بنانے کے آلات لگاکرسستی بجلی بھی پیدا کرسکتے ہیں۔
جب ہمارا محنت کش زمیندار خوشحال ہوگا تو وہ بجلی خریدنے اور ضروریات کی اشیاء اور اپنے بچوں کے اعلیٰ تعلیم وتربیت کے بھی قابل بن جائے گا۔ ان کی خوشحالی سے تاجر بھی اپنی صنعتیں لگاکر اپنے مزدوروں کو اچھی دیہاڑی دے سکیں گے اور نہ صرف ہمارا ملک خود کفیل بن جائے گا بلکہ ترقی وعروج میں پوری دنیا کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ جب زمین کے محنت کش کھیتی باڑی اور باغات سے خوشحال بن جائیں گے تو معاشرے میں باصلاحیت طبقہ انجینئر، ڈاکٹر، پائلٹ، سیاستدان، پروفیسر اورجج بن سکے گا۔ ہمارے یہاں بھی مثالی انصاف دیکھنے کو ملے گا اور دنیا کی ترقی میں مسلمان بھی اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔ اصل چیز محنت اور اس کی قدر ہے۔ عرب ممالک میں پیسہ ہے لیکن محنت سے عاری ہونے کی وجہ سے وہ دنیا میں ترقی کی دوڑ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب ہمارے ہاں محنت کش طبقے کو مواقع مل جائیں گے تو دنیا بھر سے ہمارا محنت کش طبقہ اپنے وطن میں کمائی کی سہولت سے فائدہ بھی اٹھائے گا اور دنیا میں عزت بھی کمائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” مردوں کا وہی حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے اور عورتوں کیلئے وہی حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے”۔ حضرت خدیجہ ایک بہترین تاجر تھیں اور حضرت فاطمہ نے اپنے ہاتھوں کی دستکاری سے اپنا گھر چلانے کیلئے کمایا تھا اورآپ اپنی کمائی غریبوں میں بھی بانٹ دیتی تھیں۔ مزارعین خاندان مرد اور خواتین اپنی اپنی محنت کے مالک ہوں تو ان کا گھر آباد ہوگا لیکن جب ان کے ہاتھوں کی کمائی کے مالک جاگیردار ہوں تو پھر وہ ہمیشہ غریب سے غریب تر بنتے چلے جائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، شاہ محمود قریشی، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اسلامی معیشت کی طرف آجائیں اور مذہبی جماعتیں مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف سے سود کے جواز کی بھرپور مذمت کریں تو انقلاب آجائے گا۔ ایک سید زادہ اکیلا کھڑے ہوکرانقلاب کی دھائی دے رہاہے اور لوگ اپنی ہی دھن میں مگن ہیں لیکن کوئی بات نہیں ،اللہ ایک اچھا وقت بھی لائیگا۔انشاء اللہ

_ چہر وں کونہیں نظام تبدیل کرناپڑیگا! _
سیاسی جماعتوں اور فوجی جرنیلوں کے پیٹ ابھی تک پاکستان کو کھانے سے نہیں بھرے ہیں اور نہ کبھی بھرسکتے ہیں جب تک کہ اللہ نہ بھر دے۔ اسلام کی ریاست عوام کو بیوقوف بنانے اور لوگوں سے ان کے وسائل چھین لینے کیلئے نہیں ہوتی ہے بلکہ ظالموں ،جابروں اور تیار خوروں سے مظلوم عوام کو نجات دلانے کیلئے ہوتی ہے۔ جب غریب مزارع اور محنت کش سے اس کی بیوی اور بچوں کی کمائی بھی ہمارا بااثر طبقہ کھانے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا ہے تو پھروہ مفت کے اندورنی قرضے اور بیرونی قرضوں پر ہاتھ صاف کیوں نہیں کرے گا؟۔یہ سب کچھ وہ عوام کو ریلیف دلانے کے جھوٹے وعدوں اور دعوؤں پر کرتا ہے۔
آج اگر امریکہ ایک خفیہ فنڈ جاری کرے کہ افغان طالبان کو چین سے لڑانا ہے تو ہماری ریاست اور حکومت کے وارے نیارے ہوجائیںگے۔ مفاد پرستی اور دہشت گردی کا کوئی مذہب ، اصول اور قانون نہیں ہوتا ہے۔ اگر ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر پختونوں اور پنجابیوں کے درمیان امریکہ جنگ برپا کردے تو بہت سے لوگ اپنی اپنی دُم اٹھاکر بے غیرتی اور بے ضمیری کے چھتر کھانے کو بھی تیار ہوجائیںگے۔ سیاسی جماعتیں گیدڑوں کی طرح احتجاج کیلئے وقت اور موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ عوام کو ان کی چیخوں کی آوازیں عجیب مسخرہ لگتی ہیں۔ قادر پٹیل نے قومی اسمبلی میں تقریر یںکی ہیں، وہی ہر جانب سے دہرائی جاتی ہیں۔
شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہل حدیث اور یہاں تک تبلیغی جماعت کی دھڑا بندیوں میں بستی نظام الدین بھارت اور رائیونڈ کے مرکز کے کارکنوں میں بھی تصادم اور نفرت بھڑکانے کا بازار گرم رہتا ہے۔ پنجابی، پختون، سندھی ، بلوچ اور مہاجر تعصبات کو ہوادی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما، کارکن اور برسراقتدار طبقات بھی ہمیشہ زخموں پر نمک پاشی کیلئے سرگرم رہتے ہیں۔ کوئی مثبت سرگرمیاں کرنا بھی چاہے تو لوگ اس کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
سرکاری اور غیرسرکاری زمینوں پر قبضے کا کاروبار جاری رہتا ہے۔ بلڈنگ بننے اور بیچنے کے بعد مکینوں کو لوٹ مار کی طرح بے گھر کردیا جاتا ہے۔ عدالت کو وقت نہیں ملتا ہے کہ عوام کو انصاف فراہم کرسکے۔ مجرموں کو سزا دلوانے کیلئے کوئی ٹھوس قوانین بھی نہیں ہیں کہ مخلص جج بھی کوئی اقدامات اٹھا سکیں۔ پارلیمنٹ کی کارکردگی طاقت اور دولت کے حصول کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ نفرت کسی ایک طبقے سے نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ پورانظام بگڑا ہوا ہے اور اس بگاڑ کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں ہے لیکن طاقت کے حصول کی دوڑ میں ضرورت سے زیادہ شرکت کیلئے عوام کو ورغلانے میں سب لگے بندھے رہتے ہیں۔
دنیا مسلمانوں سے خوف کھا رہی ہے کہ ان کے اشرافیہ کا بس چلے تو دوسری قوموں کی خواتین کولونڈی بنانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے اسلئے کہ قرآن کا حکم ان کو ایسا ہی لگتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے دودو، تین تین، چار چار شادیوں کی اجازت دینے کے بعد فرمایا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو کہ انصاف نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا جن سے تمہارا ایگریمنٹ ہوجائے۔ متعہ ومسیار سے بھی زیادہ بڑی بھیانک چیز لونڈیوں کا تصور ہے لیکن مسلمانوں نے قرآنی آیات سے لونڈیاں مراد لی ہیں اور پھر یہ تصور قائم کیا ہے کہ جنگوں کے بعد دشمنوں کو غلام ولونڈیاں بنایا جاسکتا ہے۔ قرآن وسنت اور صحابہ کرام کی سیرت کے مطابق نکاح میں مرد کو تمام اخراجات اور گھر سب کچھ کا پابند کیا گیا ہے لیکن ایگریمنٹ میں باہمی رضامندی سے معاہدے کرنے کی بات ہے۔ آج مسلمان عورتوں کو نکاح کے بھی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ان پر حرامکاری کا اطلاق نہیں ہوتا ہے لیکن ان پر ایگریمنٹ کا اطلاق ضرور ہوتا ہے۔ اسلامی حق مہر اور جہیز کی جگہ معاشرے میں خود ساختہ رسوم کے ذریعے عورت کے تقریباًتمام حقوق سلب کئے گئے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

The intention of fasting in Ramadan and the intention of the funeral prayer is fabricated by the incompetent jurists and is wrong Arabic.

رمضان کے روزے کی نیت اور نماز جناہ کی نیت نالائق فقہاء کی غلط عربی ہے۔

جب مجھے جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹان کراچی میں تحریری امتحان اور جائزہ ( انٹرویو کے بعد ) داخلہ ملنے کا مژدہ سنایا گیا تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بڑی تعداد میں ”درجہ اولی ”کیلئے طلبہ نے داخلے کا امتحان دیا ، صرف(150 )طلبہ کامیاب قرار پائے۔میرے ہم نام 2عتیق الرحمن اور بھی تھے۔(50، 50، 50)کی تعداد میں تین فریق الف، ب اور ج تھے۔ کامیاب طلبہ میںوزیرستان کے مفتی زین العابدین لسوندی بھی شامل تھے۔ جامعہ کے مہتمم مفتی احمدالرحمن(mufti ahmed rehman) نے اپنی پہلی افتتاحی تقریر میں فرمایا کہ ” دنیا کو دنیا کے راستے سے حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن دین کے راستے سے دنیا حاصل کرنا بہت بری بات ہے۔ جس کا مقصد دین نہیں دنیا ہو،وہ یہاں سے چھوڑ کر چلاجائے۔ یہ ادارہ دین کی خدمت کیلئے ہے، دنیا کو حاصل کرنے کیلئے نہیں ہے”۔
اس تقریر میں ایک درد اور پیغام تھا کہ اگر دنیا کی کشتیاں جلاکر آئے ہو تو ٹھیک ہے اور آئندہ زندگی بھر کیلئے یہ عہدوپیمان کیا ہے کہ دنیا سے کچھ بھی حاصل نہیں کرناہے۔ شہرت،دولت، سیاست، حکومت، اقتدارمیں شراکت داری اور دنیاداری کا کوئی روپ اختیار کرنا ہے تو اپنا بستر گول کرکے یہاں سے جا۔ دنیا کو دنیا کی راہ سے حاصل کرنا عار نہیں لیکن دین کے بہروپ میں دنیا کو حاصل کرنا بہت مذموم ہے۔ڈاکٹر صاحب بذاتِ خوداس کی ایک عمدہ تصویر تھے۔
سوادِ اعظم اہلسنت کے اکابر مولانا زکریا انوار(molana zakria anwar) العلوم فیڈرل بی ایریا کراچی جو مولانااعظم طارق(molana azam tariq) جرنیل سپاہ صحابہ کے سوتیلے باپ تھے اور مولانا اسفندیار خان و مولانا سلیم اللہ خان میں لڑائی ہوئی تھی۔ پیسہ کھانے کے الزامات جنگ اخبار کی زینت بنے تھے۔اہل تشیع پر فتوی بھی مولانا سلیم اللہ خان نے پہلے خود ہی لگایا اور پھر اعظم طارق کو وقت بدلنے پر فتوے سے الٹے پاں پھر کر آنکھیں پھیر دیں۔ اس میں دارالعلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) وغیرہ شامل نہیں تھے۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکند(doctor abdul razaq sikandar)ر استاذ محترم عربی کے بہت ماہر تھے۔ ہمارے قدیم فقہا و محدثین عجم نے عربی زبان کو اس طرح سیکھ لیا تھا جس طرح غیر اہل زبان اردو یا کوئی بھی غیرمادری زبان سیکھ کر اس کی ریڑھ لگاتے ہیں۔ وبصوم غد نویت من شہر رمضان ” اور میں کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں، رمضان کے مہینے سے”۔ یہ وہ عربی ہے جو نالائق علما نے ایجاد کی ہوئی ہے۔ استاذ محترم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے اس قدیم عربی زبان سے اعراض کرتے ہوئے زمانے میں ایک نئے اسلوب کا آغاز کرکے ہمارے اندر عربی کی نئی روح پھونک دی۔ جب جمعیت علما اسلام کی طرف سے لاکھوں افراد کا اجتماع تھا جس میں امام حرم نے بھی شرکت کی تھی تو ایک طرف شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے عربی میں تمہیدی کلمات اور دوسری طرف ڈاکٹر صاحب نے عربی میں تمہیدی کلمات کہے تھے،دونوں کی عربی سن کر کوئی بھی شخص اس بات تک پہنچ سکتا ہے کہ دیسی عربی اور اصل عربی میں کتنا زیادہ فرق ہے؟۔
حامد میر نے کہا تھا کہ ” مشہور گالی کا فیس بک وغیرہ پر نوٹس اسلئے نہیں لیا تھا کہ ایب میں تیری پھینڑ دی سری کا ترجمہ ہیڈ آف یوورسسٹر کیا جاتا ہے اور یہ کوئی گالی نہیں ہے”۔ میڈیا کے کارندوں کو جو لوگ گالیاں دیتے ہیں تو ان کو اہمیت بھی زیادہ دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے کبھی میڈیا نے پوچھنے کی زحمت کی ہے کہ ”بینکوں میں اسلام کے نام پر سودی نظام کا جواز ہے؟”۔
قاری اللہ دادصاحب (qari allahdad)نے بتایاکہ” ایک تاجر نے افسوس کا اظہار کیا کہ علما نے سود کے جواز پر مفتی محمدتقی عثمانی کیخلاف آواز نہیں اٹھائی ”۔ علما و مفتیان کا متفقہ فیصلہ جامعہ بنوری ٹان سے شائع ہوا تھا تو میڈیا قصور وارہے!۔
میڈیا نے وفاق المدارس پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان(molana saleemullah khan) اور پھر صدر وفاق المدارس پاکستان ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے سوال پوچھنے کی کبھی زحمت کی ہے کہ اسلام کے نام پر سودی بینکاری پر تمہارا کیا مقف ہے؟۔ میڈیا مفتی عبدالقوی ، مفتی عزیز الرحمن اورمفتی تقی عثمانی کے کرداروفتوے کو اہمیت دیتا ہے لیکن ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی زندگی اور وفات کو نہیں مگر کیوں یہ سب کچھ ہورہاہے؟۔ یاد رکھو!یہ دجالی میڈیا ہے جو خیر کی اشاعت میں کام نہیں آتاہے ۔
اگر دنیا میں اسلام اور علما حق کا کردار نہ ہوتا تو مفتی عزیزالرحمن کے اسیکنڈل سے آج مسلمانوں اور دنیا کو کوئی نفرت بھی نہ ہوتی۔ مغرب میں ہم جنس پرستی عورت کی عورت سے شادی اور مرد کی مرد سے شادی قانونا درست قرار دی گئی۔ جس اسلام، علما کرام اور مذاہب عالم کی برکت سے برائی کی دنیا میں تمیز موجود ہے ،اگر لوگ اسکے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑجائیں تو پھر اخلاقیات کا کوئی معیار دنیا میں قائم نہیں رہے گا۔ جس بنیاد پر مفتی عزیز الرحمن کے کردار کو بہت ہی برا کہا جا رہاہے اگر وہ بنیاد ہی نہ رہے تو پھر برائی کے تصورات بھی ختم ہونگے۔
کتنے افسوس کی بات تھی کہ مفتی عزیز الرحمن کو وفاق المدارس پاکستان کا صدر کہا گیا،جس کی وجہ سے وفاق المدارس کی شوری نے اجلاس منعقد کرکے واضح کیا کہ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی صدارت پر اطمینان کاا ظہار کیا گیا اور مزید دوسری مدت کیلئے بھی ان کا انتخاب کیا گیا ہے۔
مدارس عربیہ میں عربی کے معیار کو بھی جدید خطوط کے مطابق بہت بہتربنانا ہوگا۔ روزے اور جنازے کی نیت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے علما اور فقہا کس قدر غیرمعیاری عربی بناتے تھے۔ ایک عربی عالم کی تقریر کا ہندوستان میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمہ کرنا تھا۔ جب مولانا آزاد اس مجلس میں کچھ تقریر سن کر چلے گئے تو انتظامیہ کی سانس اٹک گئی کہ اب کیا ہوگا۔ پھر اس عربی عالم کی تقریر کے ختم کرنے سے پہلے مولانا آزاد پہنچ گئے تو سانس میں سانس میں آئی۔ جب تقریر ختم ہوئی تو مولانا آزاد نے اس عربی عالم کا مدعا اس سے بھی زیادہ بہتر انداز میں بیان کیا۔ جس پر مولانا سے پوچھا گیا کہ آپ تو موجود نہیں تھے ، پھر کیسے یہ ترجمانی کرلی؟۔ مولانا آزاد نے کہا کہ مقرر کے شروع اور آخر سے یہ اخذ کرلیا کہ بیچ میں کیا کہا ہوگا۔ مولاناآزاد کی ماں عربی تھی اور حرمین شریفین میں بچپن گزارا تھا اور اردو بعد میں ہندوستان آنے کے بعد سیکھ لی تھی۔
بڑاالمیہ ہے کہ فن کے ماہرسے فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدارس کو عربی لہجے میں ڈھال سکتے تھے۔ اگر نمازجنازہ یا روزے کی نیت کاکسی عربی سے ذکر کیا جائے تو ہنس ہنس کراسکے پیٹ میںدرد اٹھے گا۔ وبصوم غد نویت من شھر رمضان کا کوئی تک نہیں بنتا ۔وا حرف عطف دو جملوں کو ملانے کیلئے آتا ہے اور جملے کے شروع میں وا قسم کیلئے آتا ہے۔ اس طرح ب حرف جر بھی اس جملے میں بلاضرورت غلط استعمال ہوا اور شروع میں یہ بھی قسم کیلئے آتا ہے۔ نویت صوم الغد ھذاشھر رمضان سادہ جملہ یہی ہوسکتا تھا۔ جس میں کم ازکم عربی تو درست ہوتی۔ اردو میں کہ میں اس میت کی نماز جنازہ کی ادائیگی کی نیت کرتا ہوں تو عربی میں لفظ بہ لفظ ترجمے کیلئے الفاظ کی ضرورت نہیں کیونکہ عربی کا لفظ پورا جملہ ہوتا ہے۔ نویت صلو علی ھذا المیت لیکن نماز جنازہ کی نیت میں لایعنی لغو ڈھول پیٹنا سکھایا گیا ۔ نیت الفاظ کی ادائیگی نہیں دل کا ارادہ ہوتا ہے۔ عربی سکھانی ہوتو درست عربی جملہ ہونا چاہیے۔ عربی آتی نہ ہو تو نیت کا پتہ ہی نہ ہوگااور یہ انوکھی بدعت ہے۔ ان ھذا لشئی عجاب
بخاری کی پہلی حدیث ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اعمال کا دارومدار نیت پر ہے”۔ نمازپنج وقتہ، نمازجنازہ کی نیت کیلئے کوئی مسنون حدیث نہیں ہے، یہ بعد کی ایجاد ہے اور تبلیغی جماعت نے کمال کردیا کہ تصحیح نیت کے نام پرنیت کی حقیقت کا مقصد بھی بدل دیا۔ علامہ بدرالدین عینی اور امام ابن ہمام نے بھی حلالہ کی لعنت کی ترویج کیلئے نیت بدلنے سے معاملے کی تبدیلی ایجاد کردی تھی۔ www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

رمضان کے پہلے روزے ، لیلة القدر ، عید الفطر ، عید الاضحی اور حج کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک ہی چاند کی ایک ہی تاریخ پر بہت ہی معاملہ فہم اور فیصلہ کن تحریر جو قرآن و حدیث اور اسلام کی صداقت کیلئے آج بھی بہترین دلیل ہے

mufti muneeb ur rehman, royat e hilal committee, fawad chaudhry, ramzan ka chand, eid ka chand, laylatul qadr

رمضان کے پہلے روزے ، لیلة القدر ،(Laylatul Qadr) عید الفطر ، عید الاضحی اور حج کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک ہی چاند کی ایک ہی تاریخ پر بہت ہی معاملہ فہم اور فیصلہ کن تحریر جو قرآن و حدیث اور اسلام کی صداقت کیلئے آج بھی بہترین دلیل ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مشرق سے مغرب تک جب چاند پیدا ہوجائے تو اسکے دیکھنے کیلئے کہیں سے بھی کوئی معقول گواہی پہنچ جائے تو رمضان کی پہلی تاریخ ، عید الفطر اور عید الاضحی کا شرعی بنیاد پر تعین ہوتا ہے!

دنیا بھر میں ایک اسلامی نظام خلافت ہو یا پھر بہت ساری مسلمان ریاستیں ہوں چاند کے شرعی معاملے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ پاکستان میں اس پر معیاری انداز میں بات نہیں ہوئی

سورج کے حساب سے دن کی تاریخ رات بارہ بجتے ہی بدل جاتی ہے۔ پاکستان کا پہلا یومِ آزادی اسلئے پندرہ (15)اگست کو منایا گیا کہ ہندوستان و پاکستان کو انگریز نے آزاد کرنے کا اعلان کیا تھا تو جب (14) اگست کی تاریخ کے آخری لمحات گزرگئے۔ پندرہ (15) اگست کی تاریخ شروع ہوئی توایک منٹ بعد آزادی کا اعلان کیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کو پھر پتہ نہیں کس نے گمراہ کیا کہ ”ہم انگریز کی مخالفت میں آزادی کا دن (14)اگست کو منائیں گے”۔حالانکہ جب (13) اگست کے آخری لمحات گزرتے ہی ہم (14) اگست کو آزادی مناتے ہیں تو اس دن غلامی کا سورج برقرار تھااور ہم غلامی کی آخری تاریخ کو آزادی مناتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے اپنے سکول کبیر پبلک اکیڈمی گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان پختونخواہ کا ایک پیریڈ اسلئے لیا کہ مطالعہ پاکستان کا استاذ موجود نہیں تھا۔ اس دن کتاب کا نیا سبق (14) اگست یوم آزادی کے عنوان سے تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس میں لکھا ہوا تھا کہ ”پاکستان ستائیس (27) رمضان کی شب کو (14) اگست میں آزاد ہوا تھا لیکن ہندوستان مسلمانوں سے تعصب رکھتا ہے اسلئے وہ پندرہ (15) اگست کو اپنی آزادی کا دن مناتا ہے”۔ میں نے اپنے اخبار ماہنامہ ضرب حق میں اسکے خلاف لکھا اور پھر یہ مضمون بدل دیا گیا۔ حامد میر نے (14) اگست کی تائید میں اپنی شرارت سے یہ بات چھوڑ دی کہ پاکستان رات بارہ (12) بجکر ایک منٹ پر آزاد ہوا ۔ اور یہ انگریز کی شرارت تھی کہ جس دن جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے تو اس دن ہی کو ملک پندرہ (15) اگست کو آزادکیا لیکن پاکستان نے یہ ٹھیک فیصلہ کیا کہ وہ آزادی کادن انگریز کی مرضی اور سازش کے خلاف منائیں گے۔
قمری مہینے کی تاریخ سورج کے غروب ہوتے ہی بدل جاتی ہے۔ چاند کی تاریخ میں پہلے رات پھر دن ہے۔ مشرق سے مغرب تک سورج طلوع ہو تو دن شروع ہوتاہے ۔ جس طرح رات بارہ بجتے ہی مشرق سے انگریزی تاریخ کی ابتداء ہوتی ہے اور یہ سلسلہ مغرب تک جا پہنچتا ہے۔ اسی طرح مشرق سے مغرب تک چاند کی تاریخ کو مغرب کے وقت سے سورج کی اطلاع ملتے ہی بدل دیا جاتا ہے۔ ملائشیاء سے امریکہ تک چاند پوری دنیا میں ایک ہی رات کو ہوتا ہے۔اس رات دنیا میں جہاں بھی چاند نظر آجائے تو دن کو عید یا روزہ ہے۔ لیلة القدر(Laylatul Qadr) کی رات ایک ہی ہوتی ہے۔
چاند کی تاریخ پر جو اختلاف پاکستان ، سعودی عرب ، ایران ، ہندوستان، بنگلہ دیش میں ہوتا ہے، یہی اختلاف امریکہ میں بھی ہوتا ہے۔ امریکہ کی ایک ریاست لاس اینجلس میں چاند دیکھ کر ہی روزہ یا عید کا تعین کیا جاتا ہے جبکہ باقی ریاستوں میں سعودی عرب یا پاکستان کیساتھ رمضان اور عید کا معاملہ ہوتا ہے۔ برطانیہ لندن میں بھی سعودی عرب یا پاکستان کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اگر پوری دنیا میں ایک نظام خلافت ہو تو بھی چاند کی تاریخ کا تعین ایک ہی دن میں ہوگا۔ اگر چہ سعودی عرب اور پاکستان میں کچھ گھنٹوں کا فرق ہے اور اگر اس فرق کی بنیاد پر چاند کی تاریخ میں ایک دن کی تاریخ ہوسکتی ہے تو پھر جب امریکہ کا دس بارہ گھنٹے کا فرق ہے تو اس میں کئی دنوں کا فرق ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہے اور یہ اسلام کی صداقت کی زبردست دلیل ہے کہ پوری دنیا کے اندر چاند کی ایک ہی تاریخ ہوتی ہے۔ رمضان، لیلة القدر(Laylatul Qadr) ، عیدالفطر،عیدالاضحی، حج اور جمعہ وجمعرات کے دنوں تک کسی بھی چیز میں ذرا برابر بھی فرق نہیں ہوتا۔
اکثر لوگوں کو اس بات پر غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ رات ساڑھے گیارہ بجے عیدالفطر کا اعلان کیوں کیا گیا؟۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اسلام کے احکام سے کوئی غرض نہیں بلکہ سوئیاں اور مٹھائی کی تقریبات سے غرض رکھتے ہیں ، ان کو چاہیے کہ اسلامی عیدوں کی جگہ ہولی و دیوالی منائیں کیونکہ یہ ضروری ہے کہ اگر رات گئے چاند کی خبر ملنے پر عیدالفطر کا اعلان کیا جائے ۔ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے اور یہ علماء ومفتیان کی بہت بڑی جہالت رہی ہے کہ سرکاری ہلال کمیٹی ایک مخصوص وقت تک انتظار کرکے رمضان کا اعلان کردیتے ہیں۔
جب رسول اللہ ۖ کو دن کے آخری حصے میں اطلاع مل گئی کہ عید کا چاند نظر آگیا ہے تو آپ ۖ نے روزہ کھولنے کا حکم دیدیا اور دوسرے دن عیدالفطر کی نماز پڑھادی۔ یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔ یہ ہمارے علماء ومفتیان کی جہالت ہے کہ عیداور روزے کے چاند کو اپنی حکومتوں کیساتھ وابستہ کردیا ہے۔ کیا شریعت میں یہ ہوسکتا ہے کہ ملک کے سرحد کے باہر کسی کو چاند نظر آجائے تو پھر اس کی گواہی قابلِ قبول نہ ہو؟۔ شریعت میں چاند کا تعلق کسی ریاست کے تنخواہ دار ملازم کیساتھ ہے؟۔ ہمارا بڑا المیہ یہ رہاہے ۔ بقول علامہ اقبال کے
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق؟
مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن (Mufti Muneeb Ur Rehman)نے کہا کہ ” زندگی میں پہلی مرتبہ رمضان کے روزے کو کھایا۔ ساری رات روتے ہوئے گزاردی۔ جمعرات کے دن (13) مئی کو عید نہیں تھی جمعہ (14) مئی کو عید تھی اسلئے تمام امت کو شرعی حکم بتانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ (14)مئی کو عید کے دن اپنے روزے کی قضاء رکھ لیں”۔ کسی نے اسی وقت یہ نہیں کہا کہ بائیس ( 22) سال تک کتنے عید کے دن روزہ رکھوایا کہ اب ہلال کمیٹی کی چیئرمینی سے فارغ ہونے کے بعد بھی تمہارا دل ٹھنڈا نہیں ہوا اور عید کے دن کا اعلان کرکے بھی روزہ رکھواتے ہو؟۔ مفتی منیب الرحمن(Mufti Muneeb Ur Rehman) سے متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت کا رمضان پر اختلاف ہوا تو مفتی اعظم مفتی رفیع وشیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے قضاء روزے کا حکم جاری کیا۔ ہم نے لکھاکہ یہ اختلاف تو عید پر بھی ہوگا توکیا عید کے دن روزہ رکھ کر شیطان بنوگے؟۔ ہمارے بیوروکریٹوں، سرکاری ملاؤں اور سیاستدانوں نے چاند کے معاملے کو مذاق بنادیاہے۔
بریلوی مکتبۂ کے مفتی منیب الرحمن(Mufti Muneeb Ur Rehman) نے عید کی نماز پڑھانے کے شوق میں شرعی حکم روتے ہوئے توڑ دیا کہ رمضان میں عید پڑھائی اور پھر نہلے پر دھلہ یہ بھی کردیا کہ جمعہ کو عیدالفطر کا تعین کرکے قضاء روزہ بھی رکھنے کا حکم جاری کردیا لیکن یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ یہ کس خمار کے نشے میں یہ جاہلیت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بریلوی مکتب کے علامہ راغب سرفراز نعیمی نے اعلان کیا کہ جمعہ کے دن کے سوا کسی دن بھی رمضان کا ایک قضاء روزہ رکھیں۔ بریلوی مکتب کے علامہ آصف جلالی نے اعلان کیا کہ حکومت کے اعلان پر ہم عید نہیں روزہ رکھیں گے۔ چنانچہ اس نے جمعرات کو روزے اور جمعے کو عید کا اعلان کردیا۔ سوشل میڈیا کے محمد علی مرزا نے بھی جمعہ کے علاوہ ایک قضاء روزے کا شرعی اعلان کردیا۔
عوام بالکل بھی پریشان نہ ہوں کیونکہ جنہوں نے جمعہ کے دن قضاء روزہ رکھا ہے انہوں نے بھی شریعت کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ کیونکہ جمعرات ہی کو عید کا دن تھا۔ البتہ رمضان کا پہلا روزہ بہت لوگوں نے کھالیا تھا۔ جس طرح عید کے دن شام کو چاند بالکل واضح دو دن کا نظر آتا تھا تو اسی طرح رمضان میں بھی چاند اسی طرح سے کراچی کی عوام نے بھی گھروں سے دیکھ لیا تھا۔ اگر اس طرح کے چاند سے روزہ رکھنا ہو تو پھر گواہوں اور ہلال کمیٹی کی ضرورت ہے؟۔
شرعی مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی جگہ سے چاند دیکھنے کی گواہی مل جائے تو سارے مسلمانوں کیلئے وہ معتبر ہے۔ سعودیہ نے تیس (30) روزے پورے ہونے پر عیدالفطر کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے رمضان کیلئے بھی اسکے تیس روزے پورے ہوچکے تھے۔ جب فواد چوہدری(Fawad Chaudhry) وزیرا طلاعات کی بات سن لی کہ چاند کی پیدائش کوتیرہ (13)گھنٹے ہوگئے اور اس کا امکان بھی نہیں کہ چاند نظر آجائے اور اس سے بھی ایک دن پہلے میرعلی شمالی وزیرستان والوں نے سولہ (16)گواہوں پر عیدالفطر منائی تھی تو ہمیں بھی تشویش ہوئی کہ ایک طرف جھوٹے گواہوں کا مسئلہ اور دوسری طرف سائنسی معاملہ حقائق کے منافی ہو تو اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب نے منصوبہ بندی سے شعبان ورمضان کے تیس تیس روزوں سے عیدالفطر کو جمعہ کے دن سے بچانے کی سازش کردی ہو کیونکہ حکمران جب نااہل بن جاتے ہیں تو پھر توہمات کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ سعودیہ کے شاہی خاندان کے حوالے سے آئے روز سوشل میڈیا پر تسلسل کیساتھ صحافی پروپیگنڈے کرتے ہیں اور حالات کچھ خراب بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ دنیا بدل رہی ہے۔
فواد چوہدری(Fawad Chaudhry) نے تیرہ (13) گھنٹوں کی بات کی تھی لیکن چاند کی پیدائش کے بعد سترہ (17)گھنٹے مغرب کے وقت بنتے تھے اور نالائق محکمہ موسمیات کے بعض افراد نے پہلے پروپیگنڈہ کیا تھا کہ ستائیس (27) گھنٹے سے پہلے چاند کو نہیں دیکھا جاسکتا ہے تو مجھے اس بات پر تشویش تھی کہ پھر تو سعودیہ میں بھی نظر نہیں آسکتا ہے لیکن ماہرین نے واضح کردیا کہ بیس (20)گھنٹے گزرنے کے بعد بھی چاند نظر آتا ہے۔ امریکہ میں رابطہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ لاس اینجلس میں چاند کی پیدائش کو ستائیس (27) گھنٹے گزر جائیںگے اور کنفرم نظر آئے گا۔ سعودیہ میں سائنسی اعتبار سے چاند دیکھنے کے واضح امکانات تھے اور پاکستان میں بھی پسنی اور پختونخواہ میں چاند دیکھا گیااور امریکہ میں بھی اس رات واضح طور پر چاند نظر آنا تھا۔ سعودیہ میں تیس (30) روزے بھی پورے ہوچکے تھے اورچاند کی پیدائش زمین پر چوبیس گھنٹے سے زیادہ تھی۔
فواد چوہدری(Fawad Chaudhry) نے چاند کی پیدائش مزید گھٹادی تھی اور اینکرپرسن صابر شاکر نے اس پر مزید اضافہ کرکے دس (10) گھنٹے کردی ۔ پاکستان کی عوام کو بے چین کیا اورسب نے اپنی اپنی طرف سے تڑکے لگانے کی بھی زبردست کوشش کی۔ کتابی محمد علی مرزا نے عید کو غلط اور قضاء روزہ رکھنے کا شرعی حکم جاری کردیا۔ حالانکہ اس بات پربھی بہت شرم کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں جب رمضان کو عید کی گئی تو اس پر فوری طور پر ایکشن لینے کی ضرورت تھی۔ صابر شاکر نے ضرورت سے زیادہ افغانستان و سعودی اور امت کیساتھ اتحاد کرنے کوحکومتی ترجیحات قرار دیا۔ یہ کتنا عجیب معاملہ ہے کہ پوری دنیا میں مشرق سے مغرب تک رمضان، عید اور لیلة القدر(Laylatul Qadr) کا تہوار منایا جاتا ہے اور ہم اپنے آزادی کے دن کی طرح ہٹ دھرمی کے سرکاری وصحافتی مؤقف کی طرح شریعت میں بھی ڈنڈی مارنے پر ہی مجبور ہوتے ہیں۔ شریعت، فطرت اور غیرت سب کے علمبردار ہونے کیساتھ ساتھ سب سے عاری ہوکر عوام کو جہالت کی موت مارے جارہے ہیں۔ اب وہ وقت گیا کہ جب دیومالائی جھوٹی کہانیوں پر لوگ یقین رکھتے تھے۔ ریاست اور مذہب کی خدمت کیلئے اب بھی جھوٹ کا مقبول عوامی پروپیگنڈہ دم توڑ رہاہے۔ پہلے جب کوئی طالبان مرتے تھے تو عوام اپنے احساسات سے ان کو خوشبو سونگھ لیتے تھے ، الطاف حسین بھائی کراچی کے مہاجروں کو درختوں کے پتے اور گوہر شاہی چاند میں عقیدت مندوں کو دکھتا تھا۔ تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی ، جہادی اور دوسرے اپنی من گھڑت جھوٹی کہانیوں سے لوگوں کوورغلاتے تھے۔ جب کسی عورت نے اپنی شرمگاہ میں چھوٹا ٹیپ ریکارڈ فٹ کیا تھا توکراچی کے معروف علماء اور لاکھوں عوام نے(1970 عیسوی) میں اس فراڈی عورت کے پیچھے نماز پڑھی ۔