پوسٹ تلاش کریں

نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں حتی کہ زمین میں زیادہ خون بہاتے تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے

ghazwa e badar, ghazwa e uhud, imam mehdi, abhinandan, londi, ghulam

نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں حتی کہ زمین میں زیادہ خون بہاتے تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے..

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اس آیت کا واضح اور درست مفہوم مسلمانوں کی سمجھ میں آجاتا تو وہ دنیا کو بدل سکتے تھے!

اس آیت میں قرآن کے اعلیٰ مقاصدصحابہ کرام کا تزکیۂ ، کتاب اور حکمت کی تعلیم ہے۔

قرآن کی ایک ایک آیت فیصلہ کن ہے جسمیں بیشمار حکمتوں کے زبردست خزانے ہیں

اللہ نے فرمایا کہ ” نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں حتی کہ زمین میں خوب خون بہائے، تم لوگ دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ (القرآن) آیت میں میدانِ جنگ میں مشرکوں کا خون بہانے سے قیدیوں سے فدیہ لینے تک کی تمام روداد ہے۔ جب اللہ نے مسلمانوں کا پلہ بھاری کردیا تو صحابہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں اور نبیۖ کے چچا عباس اور داماد کو قیدی بنالیا۔ جب ان قیدیوں کو فدیہ لیکر چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا تو مسلمان جشن منارہے تھے کہ ان کو فتح بھی ملی۔قریبی رشتہ داروں کی جان بھی بچ گئی اور فدیہ کے ذریعے بہت سارا مال بھی کمالیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر وحی کے ذریعے وہ تاریخی ڈانٹ پلادی کہ سب کی طبیعت صاف کردی۔ حضرت عمر اور حضرت سعد نے یہ مشورہ دیا تھا کہ جو قیدی جس کا قریبی رشتہ دار ہو وہ اس کو قتل کردے۔ عباس حضرت علی کے چچا ہیں، فلاں فلاں کے عزیز ہیں لیکن باقی صحابہ نے مشورہ دیا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ نبیۖ نے وحی نازل ہونے کے بعد فرمایا کہ اللہ نے مجھے وہ عذاب بھی دکھایا جس کا قرآن میں ذکر ہے اور اگر وہ عذاب نازل ہوتا تو عمر اور سعد کے علاوہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ ان آیات اور احادیث صحیحہ کی درست تفسیر پیش ہو تو آج ہم صراط مستقیم پر چل سکتے ہیں۔ علماء کرام اور مفسرین نے اس واضح قرآنی آیات سے مثبت نتائج نکالنے کے بجائے تفسیر اور مفہوم کا بیڑہ غرق کردیا۔
اگر نبیۖ کے چچا اور داماد کو بدر میں دانستہ قید کرنے کی بجائے قتل کردیا جاتا تو خلافت راشدہ سے لیکر بنوعباس کے اقتدار تک مسلمانوں کے اندر نبیۖ کے داماد حضرت علی اور چچا کی وجہ سے تفریق وانتشار کے معاملات کا سامنا کرنا پڑتا۔اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے میں دنیاوی قرابت نے کردار ادا کیاہے۔
(1:)نبی ۖ نے مشاورت کیساتھ یہ فیصلہ کیا تو اللہ نے اس کو نامناسب قرار دے دیا کہ نبیۖ کیلئے یہ مناسب نہیں تھا۔ تم لوگ دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ یہ آیت انسانوں کیلئے بڑی رہنمائی ہے۔
کیا آج کا کوئی مذہبی اور سیاسی لیڈر یہ اعتراف جرم کرسکتا ہے کہ جس فیصلے میں رہنماؤںاور کارکنوں کو اپنے دنیاوی مفاد کی خاطر آمادہ کرے اور پھر اقرار کرے کہ یہ نامناسب تھا اس میں میرا مفاد تھا؟۔
اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے یہ زبردست رہنمائی فراہم کردی کہ نبیۖ سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں اور جب نبیۖ کیلئے کوئی بات نامناسب اور دنیاوی مفاد ہوسکتی ہے تو پھر مذہبی اور سیاسی قیادتوں کی ساری کی ساری زندگی جب دنیاوی مفادات کی تابع ہو اور ایک بار بھی اعترافِ جرم کی جرأت نہ کرسکیں تو لعنت ہو ان جھوٹے منافقوں پر جو نبیۖ کی سیرت کو اعلیٰ نمونہ سمجھنے کے باوجود بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف نہ کریں۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” اگر خیر یعنی دنیاوی مفادات میرے ہاتھ میں ہوتے تو سب سمیٹ لیتا لیکن اللہ نے سب کچھ اپنے ہاتھوں میں رکھا ہے”۔ اللہ نے ہر انسان کیلئے واضح فرمایا کہ انہ لحب الخیر لشدید ” بیشک وہ دنیا کی محبت میں بہت سخت ہے”۔ نبیۖ نے اللہ کی وحی کا اعتراف اس آیت کی تفسیر کی وجہ سے نہیں کیا تھا بلکہ یہ آپۖ کے ضمیر کی آواز اور نفس پاک کی وہ بے تکلفی تھی جس کا اعتراف ہرانسان کو کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن میں ہے کہ ” حضرت یوسف نے جیل سے رہائی کی پیشکش کو ٹھکرادیا”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” میں یوسف کی جگہ ہوتا تو ایسا نہیں کرسکتا تھا”۔ نبیۖ نے بشری تقاضے کو سامنے رکھ کر حقیقت کا اعتراف کیا لیکن یہ صلاحیت جب اللہ انسان میں وقتی طور پر پیدا کرتا ہے تو جس طرح حضرت موسیٰ کی والدہ کے دل کو تسلی کیلئے مضبوط کردیا تھا ،اس طرح وہ اپنی قدرت سے ہی انسانوں کو کامیاب کردیتا ہے اور اللہ نے قرآن میں بار بار اسکا ذکر فرمایا ۔مگرکچھ لوگ عقیدتمندوں کوغلط جھانسہ دیتے ہیں۔
اگر قرآن وسنت سے مسلمان رہنمائی لیتے تو آج ہم اتنے گرے ہوئے نہ ہوتے۔ نبیۖ کے وصال پر انصار و مہاجرین کے درمیان خلافت کے مسئلہ پر زبردست اختلاف اور اپنا اپنا استحقاق واضح کرنے پرفتنہ وفساد برپا ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تھا مگر اللہ نے اپنے فضل سے خیر کردی تھی۔قرآن کی اس آیت سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ اکثریت کی رائے پر مشاورت کے بعد عمل ہو لیکن یہ امکان بھی رہتا ہے کہ اکثریت کی رائے مفادپرستی پر مبنی ہو اور اقلیت کی رائے ٹھیک اور اس میں خلوص بھی ہو۔
سیاستدان و مذہبی لیڈر اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر جس طرح مساجد کی امامت، مدرسوں کے چھوٹے بڑے عہدوں کیلئے جتن کرتے ہیں انکا ٹریک ریکارڈ بھی دیکھ لیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب کی موجودگی میںجس طرح انکے صاحبزادگان، مولاناحسین احمدمدنی و مولانا انور شاہ کشمیری کے صاحبزادگان میں پھڈا ہوا۔ اور دارالعلوم دیوبند دو حصوں میں بٹ گیا۔ جمعیت علماء اسلام اور دیگر جماعتوں میں تقسیم کا عمل رہا۔ مولانا فضل الرحمن نے مولانامحمد خان شیرانی کا کہاکہ صوبائی امارت سے ان کو محروم کرنے کا معاملہ تھا یا اسٹیبلیشمنٹ کی پشت پناہی تھی ۔ اوریہ دونوں باتیں مختلف ہیں۔ یہ الزامات اپنے ذاتی مفادات کو ایک تقدس کا ناجائز لبادہ پہنانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اگرعلماء کرام قرآن وسنت اور صحابہ کرام سے کچھ سبق سیکھ لیتے تو بہت ہی اچھا ہوتا۔
تبلیغی جماعت کو دیکھ لیں جس نے اپنے اصل مرکز بستی نظام الدین انڈیا سے بغاوت کرلی ہے۔ جو راستے میں دو یا تین افراد میں سے ایک کواپنا امیر بنانا شرعی حکم اور شیطان سے بچنے کا اہم ذریعہ سمجھتے تھے ۔ آج انکا کوئی مشترکہ امیر تک بھی نہیں ہے۔
قرآنی آیات کو سامنے رکھتے تو بڑے بڑوں کو اعترافِ جرم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ انسان بہت کمزور ہے اور دنیاوی خواہشات و لالچ کا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن انکے پیچھے انسان کس حدتک گرسکتا ہے؟۔یہ انسانوں کے کردار اور شخصیات کا ذاتی معاملہ ہے۔جس میں ماحول کا عمل دخل ہے اورقرآن وسنت رہنمائی کابہترین ہیں۔
(2:) اگر اللہ بدری قیدیوں کے فدیہ لینے پر تنبیہ نازل نہ کرتا تو ہم قافلوں کی لوٹ مار اورفدیہ لیکر قیدیوں کو آزاد کرنے کو اسلامی فریضہ سمجھتے۔ اللہ نے نبیۖ اور صحابہ کی تنبیہ سے دنیاوی مفاد کاراستہ بند کیا۔ دہشتگردوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں نے اغواء برائے تاوان کی جو دھوم پاکستان میں مچائی تھی جس سے اسلام اور مجاہد بدنام ہوگئے ۔ اگر علماء ومفتیان ان آیات کو واضح کرتے تو اسلام کے نام پر بدکردار اور مفادپرست طبقہ اس مہم جوئی کی کبھی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ پختونوں کو معاملہ سمجھ میں آیا تو انہوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ طالبان اور پاک فوج کے لوگ انبیاء اور صحابہ کا درجہ رکھتے ہیں اور ہم عام لوگ کافر ہیں۔قرآن کی تعلیم واضح ہوتی تو طالبان مفادات کو تقدس کا نام نہ دیتے۔
اسلام کے نام پر خاندانی خلافتوں سے پہلے جو خلافت راشدہ کے دور میں قتل وغارتگری ہوئی تھی یا بعد میں حکمرانوں ، بادشاہوں اور مذہبی طبقات نے بشری تقاضوں کے مطابق اپنی کمزوریاں دکھائی ہیں تو ان کو تقدس کا لبادہ پہنانا غلطیوں پر غلطیاں ہیں۔
(3:) ہم صحابہ کرام کیلئے حسنِ ظن رکھنے کو سب ہی سے زیادہ بنیادی فرض سمجھتے ہیں کیونکہ مؤمنوں سے حسنِ ظن رکھنے کا حکم ہے اور وہ اولین مؤمنین تھے۔ صحابہ کرام نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے بچاؤ اور فدیہ کے حصول کیلئے یہ جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیکر اپنی موت کی قیمت پر جہاد کیا تھا اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا قرآن میں جھوٹ بولا ہے کہ ”تم لوگ دنیا چاہتے ہو”۔ جس کا سادہ جواب یہ ہے کہ دنیا سے مراد یہ تھا کہ نبیۖ سے صحابہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبت رکھتے تھے اور یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ ۖکے چچا عباس کو قتل کرکے نبیۖ کو تکلیف پہنچائی جائے۔
صحابہ کا تزکیہ ہوا تو خلافت راشدہ قائم ہوگئی کیونکہ نبیۖ کی قرابتداری اور دنیاوی محبت کو خاطر میں نہیں لایا گیا اور حضرت ابوبکر پر قریش کے کمزور قبیلے سے تعلق کے باوجود بھی اتفاق کیاگیا۔ امریکہ نے کتنے عرصے بعد بارک حسین اوبامہ اور کالی بیگم کو امریکی صدر اور خاتون اول کا اعزاز بخشاتو اس سے زیادہ ابولہب و ابوجہل جیسے اکھڑ دماغوں کے غرور خاک وخون میں ملاکر پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر اتفاق بڑا کرشمہ تھا۔
خاندانی جاہلیت کے جذبات جاگ اُٹھے تو بنو امیہ اور بنو عباس کا اقتدار خلافت راشدہ نہیں رہا۔ آج مذہبی اور سیاسی موروثی طبقات میں کوئی اعلیٰ اقدار نہیں بلکہ نکمے قبضہ مافیا ہیں۔ جب طالبا ن کی دہشتگردی زوروں پر تھی تو ایک قبائلی رہنما گربز بیٹنی نے کہا تھا کہ ” ایک قوم کا بادشاہ مرگیا تو کوئی بادشاہ بننے کو تیار نہیں تھا۔ آخر کار ایک شخص نظر آیا جس نے بکری کا بچہ ڈنڈے سے ماردیا، بکری کی ٹانگیں توڑ دیں اور اس کو سرِ عام ظالمانہ طریقے سے گھسیٹنے لگا۔ یہ ظالمانہ منظر بعض لوگوں نے دیکھا تو یہ فیصلہ کیا کہ اسی کو بادشاہ بنانے کی پیشکش کرتے ہیں۔وہ بادشاہ بننے پر راضی ہوا تو لوگوں نے شاندار استقبال کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلا بادشاہ اچھا نہیں تھا وہ ہاتھ اُٹھا دیں۔ کچھ لوگوں نے ہاتھ اُٹھالیا تو بادشاہ نے ان کو ایک طرف کھڑا کرکے ان کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں پر دہشت طاری ہوگئی۔ پھر بادشاہ نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے کہ پہلا بادشاہ اچھا تھا تو اپنے ہاتھ اُٹھادیں۔ کچھ لوگوں نے ہاتھ اُٹھادئیے تو ان کو بھی لائن میں کھڑا کرکے سرقلم کرنے کا حکم دیا۔ یہ دیکھ کر لوگ انتہائی خوفزدہ ہوگئے کہ کس مصیبت سے واسطہ پڑگیا ؟۔ پھر بادشاہ نے کہاکہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پہلا بادشاہ اچھا بھی تھا اوربرا بھی تھا تو وہ اپنے ہاتھ اُٹھادیں۔ ایک شخص نے کہا کہ میں اس کا جواب دوں گا لیکن میں کان کا بھاری ہوں، سننے کی صلاحیت کم ہے۔ مجھے میرے کان میں بادشاہ سوال پوچھے۔ جب بادشاہ نے اس کو اپنے قریب کرلیا تو اس نے گلے سے پکڑ کر نیچے گرادیا اور کہا کہ اُلو کے پٹھے تم تو وہی بکری والے ظالم ہو۔ لوگوں نے اس کو انجام تک پہنچادیا اور اپنی جان اس ظالم سے چھڑالی۔ اب یہ طالبان دہشتگرد بھی اسی بکری والے ظالم بادشاہ کی طرح ہیں ۔ ان کو گلے سے پکڑنے کی دیر ہے”۔
ہم پر مسلط عمران خان اور اسکے کھلاڑی و دیگر سیاستدان، ریاستی عہدوں پر موجودمنصب دار اور مذہبی طبقے سب کے سب اس بکری والے ظالم بادشاہ کی طرح مسلط ہوگئے ہیں۔ جس دن عوام ان کی گردن پکڑیں تو ان کا حشر بنوامیہ و بنوعباس اور شاہ ایران اورانقلابِ فرانس سے بھی بدتر ہوگا۔
اہلبیت، بنوامیہ ،بنوعباس کی گروہ بندی سے مسلمان تقسیم اور تباہ ہوگئے ۔ اگروہ قرآنی آیت کو سامنے رکھ اپنی اپنی قیادتوں کے بھینٹ نہ چڑھتے تو قرآن چھوڑنے کی شکایت بھی نبی ۖنہ کرتے۔ اسلام نے انسانیت کی فلاح وبہبود کا فریضہ سونپ دیا اور مسلمان گروہی تعصبات میں پھنس کر رہ گئے ۔
(4:) ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس نبیۖ کیلئے اللہ نے فرمایا کہ ” آپ کو انسانیت کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے”۔ اور ” آپ کی سیرت و کرداردنیا کیلئے اعلیٰ نمونہ ہے” تو اس آیت میں کیا پیغام ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب بدری قیدیوں کو مدینہ لایا گیا تو کئی دن لگ گئے۔ نبیۖ نے اللہ کے حکم پر مشاورت سے فیصلہ فرمایا تھا، آپۖ یہ سوال بھی اٹھاسکتے تھے کہ اے اللہ! ہم نے تیری خاطر اپنوں سے لڑائی لڑی۔ بہت سوں کو خاک وخون میں نہلادیا۔ بہت سوں کو قیدی بنالیا۔ اگر میدان جنگ میں فرشتے اُترسکتے تھے تو پھر ایک وحی بھی نازل ہوسکتی تھی کہ پکڑنے اور قید کرنے کے بجائے ان لوگوں کو تہہ تیغ کرکے آخری فرد تک کو نہ چھوڑو۔ قرآن میں دیگر انبیاء کرام کی طرف سے بڑی فرمائشیں ہیں۔ عرضداشت ہیں ۔گزارشات ہیں مگر نبیۖ نے جائزعذربھی پیش نہ کیا اسلئے کہ اخلاق و کردار کے اعلیٰ ترین منصب پر فائزتھے۔
قرآن کی اس آیت میں تزکیہ نفس اور احسان و سلوک کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر کے غیر معقول معاملات پر صبر سے کام نہیں لیا لیکن نبیۖ نے ان غیبی آیات پر سرتسلیم خم کرکے بتادیا کہ غرور نفس کا بانکپن زندگی میں ہی ہم نے بھلادیا۔ فیض احمد فیض چھپکلی سے بھی ڈرتے مگر غارِ ثور میں سانپوں اور تعاقب کرنے والے دشمنوں کے خوف سے آزاد نبیۖ کی سیرت میں بڑاکمال تھا ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نزول وحی کا ایک بہت اہم مقصد تزکیۂ نفس بھی بتایا ہے اور اس آیت کا بڑا بنیادی مقصد تزکیہ بھی تھا۔ نزولِ وحی کا دوسرا مقصد حکمت کی تعلیم بھی ہے۔ اس آیت میں نبیۖ اور صحابہ کے ذریعے حکمت کی تعلیم دنیا کو دی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ تنبیہ در اصل مشرکینِ مکہ کے ان قیدیوں ہی کو کرنی تھی جو فدیہ کے بدلے آزادی کے بعد جنگ کے میدان پھر اُترسکتے تھے۔ بعد کی آیات میں یہ تفصیل ہے کہ اگر انہوں نے اسکا غلط فائدہ اٹھالیا تو اللہ پھر موجود ہے اور اگراپنے دلوں میں خیر رکھی تو فدیہ سے زیادہ بہتربدلہ اللہ دے گا۔ یہ وہ حکمت کا کلام ہے جس میں ہرزبان کے اندر یہ کہا جاتا ہے کہ بیٹی آپ سے کچھ کہتا ہوں مگر بہو سنو آپ بھی۔ جس میں مقصد بہو ہی کو اس گھرکے اصول سمجھانا ہوتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں ہے کہ ایک پہلو لیکر کثیرالجہت مقاصد کو سبوتاژ کردیا جائے۔ اگر اس وقت رسول ۖ کے چچا حضرت عباس کفر کی حالت میں ماردئیے جاتے تو پھر ان کی اولاد کو خلافت پر قبضہ کرکے مظالم یا اسلام کو مسخ کرنے کا موقع بھی نہیں مل سکتا تھا۔ کسی بات کے قریب ودور کے اپنے اپنے نتائج ہوتے ہیں ۔
یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطاء کی ہے صدیوں نے سزا پائی
(5:) اللہ تعالیٰ اس آیت میں وقتی سرزنش سے انسانیت کی فلاح کا راستہ ہمیشہ کیلئے کھولنا تھا۔ جس نے غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے اکھڑ بازی کو اپنا شیوہ بنالیا تو وہ ابلیس لعین کے راستے پر چلتے بنا۔ جب غزوہ اُحد میں صحابہ نے شکست کھالی اور امیر حمزہ سیدالشہداء کے کلیجے کو نکال کر چبا ڈالا گیا تو پھر مسلمانوں کو احساس ہواکہ بدری قیدیوں سے فدیہ لیکر ہم نے واقعی بڑا غلط کیا کہ معاف کیاتھا اور ایک کے بدلے ستر ستر کا ایسا حشر نشر کرنے کی قسمیں بھی کھالیں۔ لیکن اللہ نے اس کے برعکس فرمایا کہ
” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تمہیں اس حدتک نہ لے جائے کہ اعتدال اور انصاف کے دامن کو بھی چھوڑ دو”۔ (القرآن) نبیۖ اور صحابہ کرام کیلئے خوشی میں غم منانے اور غم منانے میں اعتدال کا سبق دیا اور دشمن سے بھی زیادتی کرنے کو ناروا قرار دیا۔ اللہ نے اس پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ یہ بھی واضح فرمادیا کہ ” جتنا انہوں نے تمہارے ساتھ کیا ،ا تنا ہی تم بھی کرسکتے ہو۔ اگر ان کو معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے بلکہ ان کو معاف ہی کردواور یہ معاف کرنا بھی ہماری توفیق کے بغیر ممکن نہیں ”۔( القرآن)
اللہ نے صحابہ کے نفوس قدسیہ کیلئے جس تربیت کا اہتمام فرمایا تو یہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ یہ تعلیم وتربیت نہیں دی کہ جب دشمن میدان جنگ یا کسی ماحول میں مضبوط ہوں تو تم معافی پر اتر آؤ اور جب تمہارے ہاتھ مضبوط ہوں تو انتقام کی راہ چلو۔ ایک دفعہ ہمارے ایک عزیز سے محسودوں کے ایک گروہ نے اپنی غلطی پر معافی مانگ لی تو اس نے یہ مشورہ میرے والد صاحب سے کیا کہ اب میں کیا کروں؟۔ والد صاحب نے کہا کہ وہ معافی مانگ رہے ہیں تو معاف کردواور بات ختم کردولیکن اس نے بات نہیں مانی اور معاف کرنے سے انکار کردیا اور پھر ان مخالفین نے اپنی طاقت کا دھونس دکھادیا تو ہمارے عزیز نے میرے والد صاحب سے مشورہ کیا کہ اب کیا کروں؟۔ والد صاحب نے کہا کہ اب تو ان کو ہرگز معاف نہ کرو کیونکہ دھونس سے معافی کے مقاصد بدمعاشی ہوتے ہیں۔ اس عزیز نے کہا کہ آپ کیسے انسان ہو کہ جب مجھے جان کا کوئی خطرہ نہیں تھا تو مشورہ دے رہے تھے کہ معاف کردو اور اب جب جان کو خطرہ ہوگیا ہے تو مجھے معاف نہیں کرنے کا مشورہ دے رہے ہو؟۔
طاقتور کو معاف کرنا در اصل اپنی جان کی امان مانگنا ہے۔جب طالبان نے ہمارے گھر پر حملہ کیا تو محسود قوم کے مشران کو اپنے ساتھ لائے اور کانیگرم وزیرستان میں جس تاریخ کو طالبان نے فیصلہ کرنا تھا تو محسود قوم کو آنے نہیں دیا گیا اسلئے کہ انکویہ پتہ تھا کہ اگر یہ خاندان ظالموں کے سامنے ڈٹ گیا توپھر بکری والے ظالم بادشاہ کی طرح ہماری گردن بھی دبوچ لی جائیگی اور انکو شاید کسی نے اطلاع بھی دی ہوگی کہ وقت کے سفاک یزید کے سامنے ڈٹ جانے والے حسن و حسین کی اولاد میں کچھ افراد ابھی زندہ ہیں جن کا سرکٹ سکتا ہے مگر جھک نہیں سکتا۔
علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں انہی فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کرنے والے خانزادگان کبیر کا تذکرہ کیا ہے۔ جہاں سے طلوع اسلام کیلئے اس ہاشمی خاندان سے پھر برگ وبار پیدا ہوں گے۔ ہم یہ کہہ نہیں سکتے ہیں کہ ہمارے اندر کمی ،کوتاہی ، غلطی، گناہ اور ڈر وخوف کا کوئی تصور نہیں ہے اور لالچ بھی نہیں رکھتے ہیں۔ نہیں بھئی نہیں ہم بہت کمزور ہیں اور ہم اپنے سے زیادہ کسی کو کمزور نہیں سمجھتے ہیں لیکن کوئی غرور اور تکبر کرتا ہے تو ہم ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی ذات کو یہ زیب دیتا ہے۔ اگر کسی انسان میں اللہ نے کوئی خوبی رکھی ہے یا اس نے کسی اعزاز سے اس کو نوازا ہے تو یہ اللہ ہی کا اپنا کمال واحسان ہے۔
(6:) اس آیت میں ایک طرف اللہ نے قانون کا بھی واضح تصور دیا کہ فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر ہوسکتا ہے اور یہ بتادیا کہ اقلیت کافیصلہ ٹھیک اور اکثریت کا غلط بھی ہوسکتا ہے۔ حکومت واپوزیشن کے وجود کا اس سے زیادہ بہتر تصور کسی کتاب میں نہیں ہے۔
رسول اللہ ۖ کے دور اورخلافتِ راشدہ میں جمہوریت کی زبردست روح موجود تھی لیکن ووٹ کا مغربی طرزِ عمل وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ اسلام میں ووٹ کے ذریعے حکومت منتخب کرنے کی گنجائش ہے یا نہیںہے؟۔
عن سعد بن ابی وقاص قال قال رسول اللہۖ لایزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتی تقوم الساعة نبیۖ نے فرمایا کہ ”اہل مغرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے ” ۔ (صحیح مسلم)
اہل مغرب کیلئے حق پر قائم رہنے کی یہ پیش گوئی کس بنیاد پرہے؟۔ کیا ان کی خواتین کا عریاں لباس حق پر قائم رہنے کی نشانی ہے؟یا جدید سائنس میں ترقی اہل حق ہونے کی نشانی ہے؟یا چاہتے ہیں تو ملکوں اور قوموں کو تباہ کردیتے ہیں اسلئے وہ حق پر قائم ہیں؟یا ان کا تعلق بنی اسرائیل کیساتھ ہے؟۔ آخر کس وجہ سے اہل مغرب کو حق پر قائم رہنے کی خوشخبری دی گئی ہے؟۔حالانکہ مشرقی تہذیب وتمدن اور اقدار پر اہل مشرق فخر کرتے ہیں اور ہم ان کو فطرت کے قریب سمجھتے ہیں۔
اہل مغرب کی بڑی خوبی حکومت کو ووٹوں کے ذریعے بدلنا ہے۔ جہاں حکومت ووٹ کے ذریعے بدل سکتی ہو وہاں انسانوں پر ظالمانہ نظام قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا۔ اللہ نے دین اور نظام میں جبر کو مسلط نہیں کیا بلکہ ابلیس کو اطاعت کی بجائے نافرمافی کرنے کا اختیار دیا ۔
(7:) اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ قیدیوں کو قتل نہ کرنے کا قانون اسلام نے اولین اصولوں میں رکھ دیا تھا۔ آیت میں قافلے کا مال لینے سے فدیہ لینے تک مجموعی صورتحال ہے۔ قرابتداروں پر تلوار چلانا بہت مشکل کام ہے۔ میدانِ بدر میں بھی جو فضاء تھی وہ بہت خطرناک تھی۔ رسول اللہۖ کی صاحبزادی حضرت زینب کیلئے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا کہ مسلمان لشکر میں آپ کے والدنبیۖ تھے جبکہ دشمنوں میں آپ کے شوہر تھے۔ ایک عورت شوہر کی موت پر بھی خوش نہیں ہوسکتی تھی۔ مسلمانوں کو اللہ نے اتنی بڑی آزمائشوں سے گزار کر دنیا کی امامت عطاء کردی۔ ہم خطابت کے جوہر سے لوگوں کو بھی ورغلانے کا فن جانتے ہیں اور اپنا تن من پالتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ تن،من اور دھن سب کچھ اسلام اور وطن پر قربان کردیں گے۔
(8:) اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ فیصلہ ٹھیک ہو یا غلط مگر ایک دفعہ کرلیا جائے تو اس معاہدے کی پاسداری ضروری ہے۔ آیت میں قیدیوں کو قتل کے مشورے کی تصدیق نہیں بلکہ اس جذبے کی توثیق تھی جس کا لحاظ بدر کے میدان میں رکھا جاتا تو پھر قرابتداری کے ناجائزجذبات مستقبل میں بھی نہیں منڈلاسکتے تھے۔ انصاف یہ ہے کہ دیر نہ کی جائے۔ اگر ایک مرتبہ دیر کردی تو پھر معاملہ اُلٹ بھی سکتا ہے اور اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ بدر میں سب کو قتل کردیا جاتا تو بہتر تھا لیکن جب ایک دفعہ قیدی بنالیا گیا تو پھر ان کو قتل نہ کرنا ہی منشاء الٰہی کے عین مطابق تھا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے ہی وحی بھی نازل کرسکتا تھا۔ میدانِ جنگ میں وحی کے سننے اور سمجھنے کا موقع بھی نہیں تھا۔ ہماری عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں جتنی دیر لگادیتی ہیں تو اس میں بھی ظالم کو اپنے انجام تک پہنچانے سے زیادہ بہتر ان کو معاف کردینا ہے۔ مظلوموں کے اندر اس وقت تو انتقام کا وہ جذبہ بھی ماند پڑجاتا ہے۔
آج اسلام اور مسلمانوں کو عالمگیر خطرات کے سامنے اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوگی۔ اسلام نے جو عقائدونظریات اور تربیت وایمانیات کا سبق چودہ سو سال پہلے پڑھایا تھا ،اس کو دیکھنے، سمجھنے ، اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
غلامی کا نظام امریکہ نے( 1864 عیسوی) میں ختم کیا جبکہ اسلام نے غلامی کا نظام بنانے والے ادارے جاگیرداری اورمزارعت کو چودہ سو سال پہلے ہی سود قرار دیکر ختم کردیا تھا۔ فقہ کے ائمہ اس پر متفق تھے مگر درباری ملاؤں نے بادشاہوں کے کرتوت کو ختم کرنے کے بجائے مذہب ومسلک کے نام پر جواز بخشنا شروع کردیا تھا اگر اسلام کے نام پر خاندانی اور موروثی بادشاہتوں کی جگہ قرآن وسنت کا نظام ہوتا تو دنیا سے جاگیردارنہ نظام کے خاتمے میں اسلام کا سب سے بڑا کردار ہوتا اور غلام ولونڈی کا نظام بھی بہت پہلے مٹ چکا ہوتا۔ حضرت سیدنا بلال حبشی اور دیگر غلامی کے نظام میں جکڑے ہوئے افراد نے اسلام کی آغوش میں پناہ لی تو وہ کسی جنگی قیدی سے غلام بن کر نہیں آئے تھے بلکہ جاگیردارانہ نظام نے ہی انکو غلام اور لونڈی بناکر مارکیٹ میں بیچا تھا۔
جب دور دراز سے کوئی غلام یا لونڈی مؤمنوں کی آغوش میں آتے تو انکو بڑی عزت اور بہت راحت بھی ملتی، حضرت زید بردہ فروشوں کے ہاتھوں غلام بن گئے تھے مگر نبیۖ کی آغوش سے وہ اپنے چچا اور خاندان میں جانے کیلئے تیار نہ تھے۔ محمود غزنوی کے غلام ایاز اپنے آقا کیلئے سب سے بڑا سرمایہ بن گئے۔ قرآن میں ان غلاموں کا بھی واضح ذکر ہے جو تیز دھوپ اور گرم ہواؤں سے خلاصی پاکر مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوں تو وہ اپنی مشکل کی زندگی سے بہت آسانی کی زندگی پانے پر اپنے رب کاشکر ادا کرینگے۔ جو ایک دوسروں پر تحائف کی طرح پیش کئے جائینگے۔ مسلمانوں نے وہ دور دیکھ ہی لئے ہیں لیکن ان کا قرآن سے اتنا تعلق مضبوط نہیں ہے کہ وہ قرآن کی واضح آیات کے واضح پیغامات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے۔ جو بڑی غلطی ہے۔
جب مسلمان حکمرانوں میں خلیفہ عبدالحمید جیسے عثمانی خلفاء نے ساڑھے چار ہزار لونڈیا ں اپنی ملکیت میں رکھیں اور محمد شاہ رنگیلا نے عیاشیوں کے بازار گرم کئے تو امامت کا منصب ان سے چھن گیا۔ قرآن میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے اَمة کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسلام نے عبدیت صرف اللہ ہی کیلئے جائز رکھی ہے اور انسانوں کو انسانوں کیلئے اللہ نے عبدیت کی جگہ حریت عطاء کردی ہے۔ ہماری بڑی مشکل یہ ہے کہ عربی اور اردو کو مکس کرلیتے ہیں اور پھر معانی بھی بدل لیتے ہیں۔ ہمارے جدامجد شیخ الطریقت سیدعبدالقادر جیلانی نے اپنے خطبات میں سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یا غلام جو عربی میں لڑکے کو کہتے ہیں ۔ اردو میں غلام عبد کو کہتے ہیں۔ پیرانِ طریقت نے غوث اعظم کے نام پر یہ خوئے طریقت ایجاد کرلی کہ مریدوں کو اپنا غلام سمجھ لیاحالانکہ اسلام میں غلامی جائزہی نہیں ہے۔
دورِ جاہلیت میں غلاموں اور لونڈیوں کو جانور کی طرح ملکیت کا درجہ حاصل تھا۔ اس کو قتل کرناہو یا آنکھ پھوڑ دینی ہو یا کان کاٹ دینے ہوں یا اسکے دانت توڑ دینے ہوں یا ہاتھ کاٹ دینے ہوں یا پھر مار کٹائی کرنی ہو ،سب کی اجازت تھی اسلئے کہ مملوک کیساتھ مالک کو سب کچھ کرنے کا حق تھا۔ اسلام کی تعلیمات نے غلام ولونڈی کا نکاح کرانے کا حکم دیا اور جب نکاح کے حقوق ملتے ہیں تو معاشرے میں تمام انسانی حقوق خود بخود مل جاتے ہیں۔
غلاموں اور لونڈیوںکو ذاتی ملکیت کے درجہ پر نہیں رکھا گیا بلکہ ان کو ایک معاہدے کا درجہ دیدیا۔ ملکت ایمانکم اور غلام ولونڈی میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک معاہدہ کسی آزاد فرد سے بھی ایسا ہوسکتا ہے جیسے کسی لونڈی اور غلام سے ہوتا ہے۔ معاہدہ کیا ہے؟۔ ایک لونڈی یا غلام کو جتنے میں خریدا ہے اس کا وہ فرد مالک نہیں ہے بلکہ یہ انسان اسکے گروی ہیں۔ اسلام نے دنیا کو بدل دیا تھا مگر ہمارے مذہبی طبقے نے اسلام کی فطری تعلیم کو بھی بالکل غیر فطری بناکر رکھ دیا۔ الحمد للہ علماء و مفتیان کا ذہن کھل رہاہے اور کامریڈوں نے بھی اسلام کی افادیت کو اچھی طرح سمجھنا اب شروع کردیا ہے۔
سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار
پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے نے جدت کردار
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ
شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار
دنیا کو ہے اس مہدیٔ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگاہ زلزلۂ عالم افکار

قرآن کریم کا درست ترجمہ وتفسیر تمام مشکل مسائل کا بہترین حل ہے لیکن افسوس کہ غلطیوں پر غلطیاں ہیں!

Hamid Meer, Ghulam Ahmed Perwez, PDM, Molana Fazl ur Rehman, Surah Nissa

قرآن کریم کا درست ترجمہ وتفسیر تمام مشکل مسائل کا بہترین حل ہے لیکن افسوس کہ غلطیوں پر غلطیاں ہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ النساء کی آیت اُنیس (19)کا ترجمہ وتفسیر بہت واضح ہے لیکن علماء نے اس میں خیانت کی

پھر غلام احمد پرویز کی فکر سے متأثر ہونے والوں نے مزید موشگافی سے معاملہ خراب کیا!

اب انصار عباسی جیسے لوگوں نے اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر قرآن و فطرت پر حملہ کردیا!

ےٰایھا الذین اٰمنوالا ترثوا النسآء کرھًا ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض مآ اتیتموھن الا ان یأتین بفاحشةٍ مبےّنةٍوعاشروھن بمعروفٍ فان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شیئًاویجعل اللہ فیہ خیرًا کثیرًاO
ترجمہ ” اے ایمان والو! عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو۔ اور نہ اسلئے ان کو جانے سے روکو کہ جو کچھ بھی تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے بعض واپس لے لو مگر جب وہ کھلی فحاشی کے مرتکب ہوں۔ اور ان سے حسن سلوک کا برتاؤ کرو۔ اگر وہ آپ کو بری لگتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز بری لگے اور اس میں اللہ بہت سار ا خیر بنا دے”۔ (سورہ ٔ النساء آیت19)
سورۂ النساء (آیت19) میں عورتوں کے خلع کا حق اور آیات (20) اور (21) میںطلاق کے بعد عورتوں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت(229)میں طلاق کے بعد عورتوں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں مگر وہاں ناممکن انتہائی غلط طور پر خلع مراد لیا گیا۔ اگر قرآن کا ترجمہ وتفسیر درست طور پر سامنے رکھا جائے تو پوری دنیا سمیت تمام فرقے اورمسلک اس کو قبول کرنے میں لمحہ بھر دیر نہیں لگائیں گے۔
سورۂ النساء کی آیت(19)میں مردوں پر عورتوں کے خلع کا حق واضح کرکے فرمایا گیا ہے کہ ” اے ایمان والو! تم عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں بعض ان سے واپس لے لو مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں”۔ شوہر زبردستی سے بیوی کا مالک نہ بنے اور وہ ان چیزوں کو بھی اپنے ساتھ لے جانے کا حق رکھے جو شوہر نے دی ہیں اور شوہر بعض چیزوں کو بھی واپس نہ لے سکے مگر یہ کہ جب عورت کھلی فحاشی کرے تو اس سے زیادہ عورت کو حق اور کیا چاہیے؟۔
جب کوئی عورت شوہر اور اپنے بچوں کا گھر اُجاڑ ے توپھر خدشہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکے ساتھ بدسلوکی کا برتاؤ کیا جائے۔ لیکن اللہ نے واضح حکم دیا کہ ” ان کیساتھ حسنِ سلوک کا برتاؤ رکھو، اگر وہ تمہیں بری لگتی ہوں توہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اس میں اللہ بہت سارا خیر بنادے”۔ جب عورت کو زبردستی سے گھر میں روکا جائے تو وہ اپنی عزت اور شوہر کے ناموس کا ستیاناس کرسکتی ہے۔ خود کشی اور خود سوزی کرسکتی ہے۔ بچوں وگھر کے افراد کو زہر کھلا کر مار سکتی ہے ۔ کئی واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ عورت جانور نہیں ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر شوہر خود کو اس کا مالک تصور کرنے لگ جائے اور اس کی وجہ سے معاشرے کو بہت سنگین واقعات اور لڑائی جھگڑوں اور قتل وغارتگری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسلئے اللہ کے اس حکم میں بہت سارا خیر یقینی طور پر اللہ نے رکھا ہے۔ عورت خلع لے یا اس کو طلاق ہو ،بہرحال حسنِ سلوک کے ساتھ اس کی رخصتی کا عمل معاشرے کے بہترین مفاد میں ہے۔ قرآن کی اس آیت میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔
آیت پر پہلا حملہ مفسرین نے کیا ہے کہ قرآن کے جملوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے مسل کر رکھ دیا ہے اور وہ اس طرح سے کہ ” عورتوں کے زبردستی سے مالک بن بیٹھو اور نہ ان کو اسلئے روکو کہ بعض چیزوں کو ان سے واپس لے لو”۔ میں دو الگ الگ طرح کی عورتیں مراد لیں۔ دوسرا حملہ پرویزیوں نے کیا کہ فحاشی کے باوجود بھی عورت کو حسنِ سلوک کیساتھ اپنے ساتھ رکھو ہوسکتا ہے کہ تمہارے لئے اس میں اللہ خیر بنادے۔علماء نے اپنی خود ساختہ شریعت میں قرآن وسنت کے بالکل برعکس عورتوں کے حقوق بالکل اتنے سلب کرلئے ہیں کہ کوئی انسانی اور فطری معاشرہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے اسلئے اللہ نے بعض انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا مگر جنہوں نے جہالت سے ایسا کیااوراس پر اصرار نہ کریں اور توبہ کریں تو پھر وہ اچھے لوگ ہیں۔

شیعہ عالمِ دین علامہ امین شہیدی کا اُم المؤمنین حضرت عائشہ کی ناموس کو سب سے زیادہ مقدس قرار دینا اور قرآن میں بہتان کے واقعہ پر اپنوں کیلئے دلیل پکڑنا!

Shia Sunni, Karbala, Hazrat Ayesha, Mufti Tariq Masood

شیعہ عالمِ دین علامہ امین شہیدی کا اُم المؤمنین حضرت عائشہ کی ناموس کو سب سے زیادہ مقدس قرار دینا اور قرآن میں بہتان کے واقعہ پر اپنوں کیلئے دلیل پکڑنا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امین شہیدی نے واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ” یہ سب قرآن میں ہے” حالانکہ قرآن میںواقعہ کا اجمالی تذکرہ ہے!

اگر واقعہ میں اللہ کی حکمت یہی تھی کہ بہتان لگانے والوں کو کافر نہیں کہا گیا تاکہ برا بھلا کہنے والوں کو کافر نہ کہا جائے تو

پھر یہ حکمت بھی ہوگی کہ حضرت علی کے بارے میں غلو کرنے والے اہل تشیع بھی اپنے عقائد میں کچھ اعتدال پیدا کریں!

اہل تشیع کے معروف و معتدل عالمِ دین علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ ”حضرت عائشہ کے جوتوں پر لگنے والی گرد کو بھی ہم اپنی آنکھوں کیلئے بڑا اعزاز سمجھتے ہیںاسلئے کہ ام المؤمنین کا شرف آپ کو حاصل تھامگر آپ پر بہتان لگایا گیا تو ایک ماہ تک یہ ایک زبان سے دوسری زبان تک گردش کرتا رہا، نبیۖ نے قطع تعلق رکھا، حضرت عائشہ نے کہا کہ مجھ پر زمین تنگ تھی اور جن صحابہ نے یہ بہتان لگایا تو ان میں بدری شامل تھے۔ یہ سب واقعہ قرآن میں ہے۔اس سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ ام المؤمنین کو برا کہنے سے کوئی کافر نہیں بنتا، ورنہ ان سب صحابہ پر کفر کا فتویٰ لگتا۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ حضرت عائشہ کو برا بھلا کہنا جائز ہے۔ان کا احترام ہم پر ضروری ہے کیونکہ آپ مؤمنوں کی ماں ہیںلیکن قرآن کے اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اتنا بڑا بہتان لگانے والوں کو بھی کافر نہیں قرار دیا گیا، جس کی حکمت یہ تھی کہ آئندہ بھی کوئی برا بھلا کہے گا تو کافر نہیں ہوگا”۔
ہم علامہ امین شہیدی کے بیان پر تبصرہ ضروری سمجھتے ہیں۔ پہلی بات یہی ہے کہ قرآن میں وہ تمام تفصیلات نہیں ہیں جن کو علامہ نے قرآن کی طرف اپنی لاعلمی کی وجہ سے منسوب کیا ہے۔ غلام احمد پرویز نے یہ لکھا کہ ” اہل سنت کی احادیث کی کتابوں میں اہل تشیع نے سازش سے حضرت عائشہ کانام ڈال دیا ہے، قرآن میں حضرت عائشہ کے نام کی کوئی بات نہیں ہے”۔
تاہم جن قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ میں واقعہ کی تفصیلات ہیں وہ بھی اسلام کیلئے بہت بڑا اعزاز اور انسانیت کیلئے نجات کا ذریعہ ہیں۔ قرآن میں یہ بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ ” اگر تم یہ بات سنتے ہی کہتے کہ یہ بہتان عظیم ہے تو یہی تمہارے لئے بہتر تھا”۔ (سورۂ نور) احادیث و تفسیر کی کتابوں میں بعض صحابہ کے نام موجود ہیں جنہوں نے اس کو بہتان ہی قرار دیا تھا۔یہ اعزاز ام المؤمنین حضرت زینبنے بھی حاصل کیا تھا جس کی حضرت عائشہ سے سوکن ہونے کی وجہ سے بنتی بھی نہیں تھی اور اس دشمنی کی وجہ سے آپ کی بہن حضرت حمنا نے بھی اس بہتان میں حصہ لیا تھا اور اس کی وجہ سے اسّی (80)کوڑوں کی سزا بھی کھانی پڑی تھی۔ اہل تشیع اپنی کتابوں میں دیکھیں کہ حضرت علی اس میں شامل تھے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تھے تو دوسرے کئی صحابہ کی طرح ان کی شان پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑتا ہے ۔ البتہ جب ایک مہینے تک وحی نازل نہیں ہوئی تو علی مولائے کائنات نے اس مشکل میں رسول اللہۖ کی مدد کیوں نہیں کی؟۔ شاید اس کی وجہ یہی تھی کہ آنے والے مخلص شیعہ حضرت علی کی امامت کو نبیۖ سے بھی زیادہ اہمیت اور عقیدت سے دیکھیںگے۔ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ کی برأت کیلئے بھی حضرت نبیۖ اور حضرت علی کی موجودگی سے کوئی فائدہ نہیں تھا تو پھر بارہ امام اور آخری امام کی امیدوں پر اُمت کو ورغلانے کی بجائے قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت پر زور دیناتھا مگر افسوس کہ سنی شیعہ کسی نے بھی یہ نہیں کیا۔
اہل تشیع کے امام خمینی نے انقلاب برپا کرکے کمال کردیا اور ملاعمر نے بھی حکومت قائم کرکے کمال کردیا لیکن اسلام کے درست خدو خال اجاگر کیے بغیر کام نہیں چلے گا۔ تعصبات کی فضاؤں سے نکلنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت علی کے قد کاٹھ بہت اونچے تھے اسلئے شیعہ سنی کے بونے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں کہ کس کا مقام بلند ہے اور کس کا درجہ کم ہے۔ کسی کو بڑا یا چھوٹا درجہ دینا ہمارا کام بھی نہیں ہے۔ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے درباری علماء ومفتیان کو کھلایا پلایا تو اس کو بھائیوں کے قتل اور باپ کو قید کرنے کی سزا بھی معاف کردی گئی۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد شیخ الاسلام ابویوسف قاضی القضاة چیف جسٹس تھے لیکن امام ابوحنیفہ کو جیل کے اندر تنہائی کی قید میں زہر دے کر شہید کردیا گیا تھا۔
مفتی محمود کو وفاق المدارس کے صدر اورمفتی اعظم پاکستان کا مقام ملا تھا۔ جنرل ضیاء الحق پر مفتی محمود کے علم وعمل کو قربان کیا گیا اور پھراسلام کے نام پر بھی ریفرینڈم میں جنرل ضیاء کو مجسمہ اسلام قرار دیا گیا۔ اکبر بادشاہ مغل اعظم کو بھی سجدہ تعظیمی کا مستحق قرار دیا گیا۔ ہردور کے یزیدکو اپنے وقت کے قاضی شریح بھی حسین کے قتل کیلئے میسر آگئے۔ ان کی بصیرت پر اعتماد کرکے خلفاء راشدین کے درجات بھی حکومت میں نمبروار کے حساب سے دئیے گئے۔ خلافت عباسیہ میں حضرت علی کی اولاد کو اقتدار سے محروم کرنے کیلئے حضرت علی کے باپ کو ہی دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی روایتیں گھڑی گئیں۔ حالانکہ ابوبکر،عمر ، عثمان کے باپوں سے زیادہ حضرت علی کے باپ نے اسلام کی خدمت کی تھی۔ قرآن کا واضح پیغام ہے کہ جنہوں نے نبیۖ اور مؤمنوں کو ٹھکانہ دیا اور مدد کی تو وہی سچے مؤمن ہیں۔ الذین آؤواونصروااولئک مؤمنوں حقًا حنفی مسلک والوں کا یہ فرض ہے کہ ابوطالب کے بارے ان روایات کو رد کریں جو قرآن کے منافی ہیں۔ یہ کس قدر بیکار بات ہے کہ حضرت علی سے زیادہ حضرت عباس کی اولاد خلافت کی مستحق تھی اسلئے کہ علی کے والد نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور چچاکے مقابلے میں چچازاد کی اولاد خلافت کی مستحق نہیں ۔ پھر خلفاء راشدیناور بنوامیہ کے خلفاء کا کیا بنے گا ؟ جو نہ چچاکی اولاد تھے اور نہ چچازادکی اولاد تھے۔
امام بخاری نے اہل بیت کیساتھ علیہ السلام لکھ دیا مگر ان کی روایات کو نقل کرنے سے گریز کیا اور پھر حضرت عائشہ پر ایسا بہتان باندھ دیا کہ اپنی بہن کے ذریعے دودھ پلاکر بڑوں کو محرم بناتی تھی۔ حنفی مسلک نے کئی روایات کو قرآن کے منافی قرار دیکر ٹھکرانے کا درست فیصلہ کیا۔امام بخاری نے اپنے خلوص اور حالات کے مطابق نیک نیتی سے جو کچھ کیا وہ حرفِ آخر بالکل بھی نہیں ہے۔

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، اہلحدیث حنفی اور مسلمان عیسائی میں غلط فہمیوں کا ازالہ بہت ضروری ہے

شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی، اہلحدیث حنفی اور مسلمان عیسائی میں غلط فہمیوں کا ازالہ بہت ضروری ہے،جب ہم اپنے علم اور عمل کو درست کرلیںگے تو دنیا بھر کے عیسائی یہود کے مقابلے میں مسلمانوں کو سپورٹ کریںگے، انشاء اللہ!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امریکہ میں بارک حسین اوبامہ نے بھی حکومت کی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جیل سے رہائی کے بعد سو فیصد ووٹوں کیساتھ پہلی خاتون امریکی صدر کا اعزاز بہت آسانی کیساتھ مل سکتا ہے!

اہلیان پاکستان سے نظام بدلنے کی درخواست ہے لیکن ہماری حکومت، ریاست اور سیاستدانوں کی اب مجبوری بن چکی ہے کہ اس فرسودہ نظام کو بدلنے میں دیر نہ لگائیں ورنہ خیر نہ ہوگی

یسئلک اھل الکتٰب ان تنزِّل علیھم کتٰبًا من السماء فقد سالوا موسیٰ اکبر من ذٰلک فقالوا ارنا اللہ جھرةً فاخذتھم الصّٰعقة بظلمھم ثم اتخذوا العجل من بعد ماجآء تھم البےّنٰت فعفونا عن ذٰلک واتینا موسٰی سلطٰنًا مبینًاOو رفعنا فوقھم الطّور بمیثاقھم وقلنا لھم ادخلوا الباب سجدًا وقلنا لھم لاتعدوا فی السّبت و اخذنا منھم میثاقًا غیلظًاOفبما نقضھم میثاقھم و کفرھم باٰےٰت اللہ وقتلھم الانبیآء بغیر حق وقلولھم غلف بل طبع اللہُ علیھا بکفرھم فلایؤمنون الاقلیلًاOوبکفرھم وقولھم علی مریم بھتانًا عظیمًاOوقولھم انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ وماقتلوہ وماصلبوہ ولٰکن شبّہ لھم وانّ الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظنّ وماقتلوہ یقینًاOبل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزًا حکیمًاOوان من اہل الکتٰب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ ویوم القیٰمة یکون علیھم شھیدًاOفبظلمٍ من الذین ھادوا حرّمنا علیھم طےّبٰت اُحلت لھم وبصدّ ھم عن سبیل اللہ کثیرًاOواخذھم الربٰواوقد نھوا عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل واعتدنا للکٰفرین منھم عذابًا الیمًاOلٰکن الرّٰ سخون فی العلم منھم والمؤمنون یؤمنون بماانزل الیک ومآانزل من قبلک و المقیمین الصلوٰة والمؤتون الزکٰوة والمؤمنون باللہ والیوم الآخر اُولئک سنؤتیھم اجرًا عظیمًاO(سورہ النساء آیات153سے162تک)
ترجمہ ” اہل کتاب آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے کوئی تحریر نازل کراؤ۔ پس یہ موسیٰ سے بڑا سوال کرچکے ہیں اس سے پہلے۔ تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اللہ کو ظاہری طور پر دکھادو۔ پھر بجلی نے ان کو پکڑلیا انکے ظلم کی وجہ سے۔ پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا۔ پھر ہم نے ان سے درگزر کیا اور موسیٰ کو کھلا غلبہ دیا۔ اور ان پر کوہ طور اٹھایا ان کے عہد کی وجہ سے اور ان سے کہا کہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوجاؤ۔ اور ان سے کہا کہ سبت میں داخل مت ہو۔ اور ان سے بہت پختہ عہد لے لیا۔ پس ان کی عہد شکنی کے سبب اور اللہ کی آیات سے انکار کے سبب اور انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرنے کے سبب اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں۔بلکہ اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّا لگادیا ہے ان کے کفر کے سبب ۔پس وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر ان میں کم لوگ۔ اور انکے کفر کے سبب اور انکے اس قول کے سبب جو مریم پر بڑا بہتان لگادیا ہے۔ اور انکے اس قول کے سبب کہ ہم نے مسیح ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کردیا ہے۔ اور انہوں نے نہ اس کو قتل کیا ہے اور نہ سولی دی ہے بلکہ ان پر معاملہ ان کیلئے مشتبہ کردیا ہے۔ اور جو لوگ اس میں اختلاف کررہے ہیں تو اس میں شک میں پڑے ہیں۔ ان کو اس حوالے سے علم نہیں ہے مگر اپنے گمان کا اتباع کرتے ہیں۔ اور انہوں نے یقینی طور پر اس کو قتل نہیں کیا ہے۔ بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اُوپر اُٹھالیا ہے۔اور اللہ تو تھا ہی زبردست حکمت والا۔ اور اہل کتاب میں سے بعض لوگ ان پر ان کی موت سے پہلے ایمان لائیں گے۔ اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔ پس ظلم کے سبب ان لوگوں میں سے جو یہود ہیں ہم نے ان پر حرام کردیاپاک چیزوں کو جو ان کیلئے حلال تھیں، اور بسبب اس کے کہ انہوں نے اللہ کی راہ میں بہت رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اور بسبب انکے سود لینے کے اور تحقیق کہ ان کو اس سے منع کیا گیا تھا اور بسبب انکا لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھانے کے۔ اور کافروں کیلئے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے جو ان میں سے ہیں۔ لیکن جو علم میں راسخ ہیں ان میں سے اور جو مؤمنین ہیں ایمان لاتے ہیں اس پرجو تیری طرف نازل کیا گیااور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور جو نماز کو قائم کرتے ہیںاور زکوٰة دیتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں اللہ وآخرت کے دن پر ، یہ وہ ہیں جن کو عنقریب بہت بڑا اجر ملے گا”۔
سورۂ النساء کے اس رکوع کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بہت کھلی کھلی باتیں کی ہیں۔ یہود کے جرائم کی فہرست گنوائی ہے اور اہل کتاب کے مطالبات اور حضرت مریم پر بہتان عظیم کے جرم کا ذکر کیا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل اور اس پر شبہات کا ذکر ہے ۔ اللہ نے اس حوالے سے واضح کردیا کہ اس پر اختلاف کرنے والے ظن کا اتباع کرتے ہیں۔ یہود کے مقابلے میں نصاریٰ کا مؤقف قرآن نے درست قرار دیا ہے۔ قادیانی اوریہود ایک مؤقف رکھتے ہیں اور اس وجہ سے مل جل کر دنیا پر اپنے باطل غلبے کی توقع رکھتے ہیں۔ اللہ نے ہفتہ کے دن پاک مچھلیوں کے شکار کو یہود پر ان کی عہد شکنی ، ظلم اور کفر کی وجہ سے حرام کردیا تھا وہ اللہ کی راہ سے کثرت سے روکتے تھے۔ سودلینے سے منع کرنے کے باوجود بھی نہیں رُکتے تھے اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے تھے۔ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ انکے دل محفوظ ہیں لیکن اللہ نے ان پر ٹھپے لگادئیے تھے۔
آج مفتی محمد تقی عثمانی اور جامعة الرشید والے سودی کاروبار کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ لوگوں کے اموال کو باطل طریقے سے کھارہے ہیں لیکن اپنے دلوں کے محفوظ ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ یہی یہود کی اتباع نہیں تو کیا ہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے سارے یہود نہیں بلکہ یہودی کافروں میں سے بعض کیلئے عذاب کی خبر دی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے سود خوری اور باطل طریقے سے ساری دنیا کے اموال واسباب کو ہتھیانے اور فسادات کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ان میں کچھ لوگ علم میں راسخ ہیں۔ ان کو عذاب دینے کی اللہ نے بات نہیں کی ہے اور ان میں جو بڑے جرائم میں ملوث نہیں ہیں وہ بھی دردناک عذاب کے مستحق نہیں قرار پائے ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں بہت زبردست طریقے سے اس کی وضاحت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد ان مؤمنوں کا ذکر کیا ہے جن کو دنیا اور قرآن کی زبان میں امت مسلمہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ بھی دردناک عذاب کے مستحق نہیں ہیں۔جن کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ نبیۖ پر نازل کردہ کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور آپ سے پہلے کی نازل کردہ کتابوں پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ اور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ و آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو عنقریب بڑا اجر مل جائے گا۔
اسلام کی نشاة اول میں بھی دنیا نے خلافت راشدہ کی فتوحات سے قرآن میں موجود اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اب بھی بعید نہیں کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ شاندار فتوحات سے نوازدے ۔ لیکن ہمیں اپنی غلطیوں کی اصلاح کیلئے قرآن کریم اور سنت رسول ۖ کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ نبیۖ نے عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی خصوصی تعلیم فرمائی تھی اور قرآن میں انکے حقوق کی زبردست وضاحت ہے لیکن شیطانی القا نے معاملہ خراب کردیا ہے۔
جب یہود کی مذہبی کتابوں میں (12)سال سے پہلے لڑکی سے نکاح جائز نہیں ہو اور ہماری مذہبی کتابوں میں( 9)سال اور اس سے کم عمر بچیوں کا نکاح بھی جائز ہو۔ انگریزی نظام کی جمہوریت ، سیاست اور عدالت نے نابالغ بچیوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہو لیکن ہماری فقہ میں بچی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر زبردستی سے بھی جائز ہو۔ مغربی نظام نے اس میں قانونی رکاوٹ ڈالی ہو مگر پاکستان میں عملی طور پر ڈارک ویب کیلئے کام کرنے والے اور جنسی خواہشات کی تسکین کیلئے کم عمر بچیوں کو ریپ کرکے قتل بھی کیا جاتا ہو۔ اگر مذہبی لوگوں میں علم کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں تو پھر سب سے زیادہ اچھے لوگ یہی نکلیں گے۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیںگے ”۔ مغرب میں قبولیتِ حق کا جذبہ ہے ، وہ اپنی طاقت سے فائدہ اٹھاکر ہمیں اور ہمارے مذہبی مقامات کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے کو خلافِ حق سمجھتے ہیںجبکہ ہمارے دہشتگردوں کا بس چلے تو حرمین شریفین اور اچھے لوگوں کی قبروں کو بھی معاف نہ کریں۔
جب فرشتے قوم لوط کو عذاب دینے کیلئے آگئے تو حضرت لوط علیہ السلام کو اپنے مہمانوں کی بے حرمتی کا خوف ہوا،کیونکہ فرشتے لڑکوں کی صورت میں آئے تھے۔حضرت لوط نے کہا کہ ” یہ میری بیٹیاں ہیں،اگر تم کرنا چاہتے ہو تو”۔ وہ کہنے لگے کہ ہمیں ان سے کوئی غرض نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قوم کی بیٹیاں اور ان لوگوں کی بیویاں بھی حضرت لوط کی بیٹیوں کی طرح تھیں اسلئے ان کو جائز طریقے سے اپنی خواہشات پوری کرنے کی تلقین فرمائی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس بات کی بہت سختی کیساتھ مخالفت کی ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے۔ اہل تشیع نے جماع فی الدبر پر احتیاط سے کام لیکر سخت ترین مکروہ قرار دیا ہے لیکن اہل سنت کے فقہ حنفی نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور امام مالک نے حلال قرار دیا ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اس پر صحابہ کے درمیان بھی حلال اور حرام کا اختلاف تھا۔ اگر عورت کے حقوق کا اصل مسئلہ ذہن نشین بلکہ دل نشین ہوجائے تو اختلاف کا مسئلہ بھی نہیں رہے گا۔ جب مسئلے کو بنیاد سے ہی خراب کردیا جائے تو پھر الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں۔
جہاں اللہ تعالیٰ نے عورت کے تحفظ کیلئے آیات محکمات نازل کی ہیں لیکن آیات محکمات کا بھی فقہی مسالک کے ذریعے سے بیڑہ غرق کیا جائے تو پھر اور کیا ایسی چیز ہوسکتی ہے کہ عورتوں کا تحفظ کرنے کا باعث بن سکتی ہوں سوائے اس کے کہ عورت مارچ میں خواتین اپنے حقوق کا نعرہ لگائیں؟۔القائے شیطانی نے پہلے بھی مذاہب کو مسخ کردیا تھا ۔ دنیا بھر کے مذاہب سے خواتین نے اسلئے اپنی بغاوت کا اعلان کیا ہے کہ وہ انکے حقوق میں رکاوٹ بنے تھے۔ پچھلے سال بھی عورت مارچ کو روکنے کی ہرممکن کوشش ناکام ہوئی تھی اور اس دفعہ مشکلات کھڑی کرنے والوں نے اپنی ہمت بھی نہیں دکھائی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت رک سکتا ہے کہ جب مذہبی طبقات مساجد، مدارس، مذہبی اجتماعات اور سیاسی پلیٹ فارم سے گلی کوچوں اور میڈیا پر ان حقوق کی بات کریں جو قرآن نے ان کودئیے ہیں اور مذہبی طبقات اس پر متفق ہوکر ایک زبردست لائحۂ عمل بناکر پیش کریں۔
جب مذہب نے جھوٹ اور منکر قول سے عورت کو اس اذیت میں مبتلاء کیا تھا کہ” اگر شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ آپ کی پیٹھ مجھ پر اپنی ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ تو بیوی اپنے شوہر پر اپنی حقیقی ماں کی طرح حرام ہوجاتی ہے”۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ۖ کی سیرت کو نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ عالم ِ انسانیت کیلئے اعلیٰ نمونہ بنایا ہے۔ ایک خاتون حضرت خولہ بنت ثعلبہ سے اسکے شوہر نے ظہار کیا تو رسول اللہ ۖ نے مذہبی ماحول کے مطابق سمجھ لیا کہ وہ اب اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہے۔ وہ عورت اپنے حق کیلئے بارگاہِ رسالت ۖ میں مجادلہ کرنے بیٹھ گئی۔ آج کا مولوی ہوتا تو سیرت رسول سمجھ کر عورت کی ہڈیاں طالب علموں سے تڑوادیتا کہ شریعت کے خلاف اپنے حق کی بات کیسے کررہی ہے؟۔ اسلام کو اسلئے اللہ نے لازوال دین بنادیا کہ سورۂ مجادلہ میں اس واقعہ کو محفوظ کردیا ہے۔
امریکن ایرانی نژاد خاتون نے واقعہ لکھ دیا کہ عورت کیساتھ جماع فی الدبر کا ارتکاب ہورہاتھا۔ حق مہر سے زیادہ قیمت دے کرخلع لینے پر مجبور ہوگئی لیکن کسی مولانا، مولوی ، مفتی، علامہ ، ڈاکٹر، ذاکر اور نائیک کے کان پر جوں تک بھی نہیں رینگی کہ کیا یہ ظلم ہے؟ اسلئے کہ اس سے زیادہ تباہ کن فقہی مسائل ہیں لیکن مذہبی طبقات خراب انڈوں پر کڑک مرغی کی طرح تشریف فرماہے۔
اگر جماع فی الدبر میں شیعہ سنی علماء متفق ہوکر حلال حرام اور مکروہ کی بحث سے نکل جائیں اور نکاح کے بعد شوہروں کو عورتوںکے نعرے کے عین مطابق ”میرا جسم میری مرضی ”کاپابند بنائیں تو دنیا بھر کی خواتین اسلام کو دل سے سلام پیش کریںگی۔ جس سے اسلام نے شوہر کو اپنی بیگمات کیساتھ جماع فی القبل پر بھی عورت کی مرضی کا پابند بنایا ہے ۔اگر فقہی مسائل میں یہاں تک ہو کہ عورت حرام ہوچکی ہے لیکن شرعی نکاح بحال ہے۔ عورت خلع لینا چاہتی ہو مگر شوہرنہیں دے تب بھی فقہاء کی وہ شریعت زندہ باد ہوگی؟ جو القائے شیطانی کا شاخسانہ ہے؟۔ بالکل بھی اچھا نہیں لگتا لیکن شریعت کے نام پر القائے شیطانی نے ڈیرہ ڈال رکھاہے اسلئے اپنی جان خطرات میں ڈال کر کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

رسول اللہۖ کی تمنامیں شیطان کے القا کی مداخلت اور اللہ کی طرف سے آیات کی حفاظت

پچھلے شمارے میں قرآن میں سورۂ حج (کی آیت52) میں رسول اللہۖ کی تمنامیں شیطان کے القا کی مداخلت مگر اللہ کی طرف سے آیات کی حفاظت پر کچھ وضاحت کی جو ایک مقدمہ تھا ،اب مزیداور بنیادی وضاحت ملاحظہ فرمائیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق کا تحفظ فرمایا اور نبیۖ نے عورتوں کے حقوق کیلئے اپنی آخری وصیت فرمائی لیکن شیطان نے اپنے القا سے امت مسلمہ کا کیسے بیڑہ غرق کیا؟

رسول اللہۖ اپنی خوشی سے رفیق اعلیٰ کی طرف گئے۔شیعہ حدیثِ قرطاس کا گلہ کریںمگر علی کے بعد امام حسن کی امامت کو بھی مانیں ،اپنا کلمہ وآذان بھی عراق وایران کیمطابق کریں!

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” اور (اے نبی مکرمۖ) ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں القا کردیا۔ پس اللہ مٹاتا ہے جو شیطان القا کرتا ہے پھر اپنی آیات کو محکم کردیتا ہے۔ اوربہت جاننے والا حکمت والا ہے۔Oتاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی بات کو فتنہ بنادے، ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل سخت ہیں۔ اور بیشک ظالم بہت دور کی شقاوت(بدبختی) میں ہیںOاور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے کہ بیشک حق تیرے ربّ کی طرف سے ہے۔ پھر اس پر ایمان لائیں اور اس کیلئے ان کے دل جھک جائیں۔اور بیشک اللہ ہدایت دیتا ہے ان لوگوں کو جنہوں نے ایمان لایا ہے صراط مستقیم کی طرف”۔ سورہ ٔ حج
سورہ حج کی مندرجہ بالا آیات (52،53،54)میں پہلی آیت(52)ہے۔ جس میں رسول اور نبی کی تمنا میں شیطانی القا کی بات واضح ہے۔ اب یہ شیطانی القا کیا ہے؟۔ اس پر مفسرین نے آپس میں بہت اختلاف کیا ہے۔
مولانا سید ابولاعلی مودودی نے اسکے حاشیہ نمبر(97)اور(98)میں لکھا ہے کہ تمنٰیکا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کیلئے استعمال ہوا ہے۔ ایک معنیٰ تو وہی ہے جو اردو میں لفظ تمنا کے ہیں ، یعنی کسی چیز کی خواہش اور آرزو کرنا۔ دوسر ے معنیٰ تلاوت کے ہیں، یعنی کسی چیز کو پڑھنا۔ ”تمنا کا لفظ اگر پہلے معنیٰ میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ شیطان نے اس کی آرزو پوری ہونے میں رخنے ڈالے اور رکاوٹیں پیدا کیں۔ دوسرے معنیٰ میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ جب اس کلام الٰہی کو لوگوں کو سنایا ،شیطان نے اس کے بارے میں شبہے اور اعتراضات پیدا کیے، عجیب عجیب معنیٰ اس کو پہنائے اور ایک صحیح مطلب کے سوا ہر طرح کے الٹے سیدھے مطالب لوگوں کو سمجھائے۔ (تفہیم القرآن جلدسوم)
مولانا مودودی نے اس (آیت 52)کی یہ تفسیر لکھ کرکوئی حوالہ نہیں دیا ہے مگر ایک لفظ کے دو معانی نکال کر دونوں کی الگ الگ تفسیریں لکھ دی ہیں، اس میں بدنیتی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن اس تفسیر میں تضاد بھی ہے اور تضاد ہی اس بات کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ ایک صحیح مطلب کی نشاندہی نہیں ہے۔
مولانا مودودی نے تمنا اور تلاوت دونوں مفہوم اسلئے مراد لئے ہیں کہ جن تفاسیر کی انہوں نے تردید کی ہے تو ان میں دوچیزیں تھیں۔ جبکہ تمنا کے معنی تمنا ہی کے ہیں،تلاوت کے ہرگز نہیں ہیں۔ سورہ نجم کے حوالے سے جس تلاوت کا غلط بہتان مشرکینِ مکہ نے لگایا تھا وہ تو آیت کے ظاہری مفہوم سے بھی مراد نہیں ہوسکتا ہے اور سورۂ نجم کا اپنا مفہوم بھی اس بہتان کی تردید کیلئے کافی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے انبیاء اور رسولوں کیلئے ایسی کونسی تمنائیں تھیں جن میں شیطان نے مداخلت کی تھی؟۔ حقیقت جاننے کیلئے ہمیں قرآن وسنت سے ایسی تمناؤں کا نمونہ پیش کرنا ہوگا جس میں شیطان نے مداخلت کی ہو۔ اسی طرح پہلے انبیاء کرام کے حوالے سے بھی ایسی تمنا کا واضح مفہوم پیش کرکے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ان کی تمنا تھی اور یہ اس میں شیطان کی مداخلت تھی۔
حضرت آدم کا شجرہ ممنوعہ کے قریب نہ جانے کی تمنا میں شیطان کا القا تھا۔ جب رسول اللہۖ سے حضرت خولہ نے ظہار کے حوالے سے عرض کیا تو ایک خود ساختہ شریعت کے گھمبیر ماحول میںرسول اللہۖ کی تمنا یہ تھی کہ خواتین کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملے لیکن ساتھ ساتھ خود ساختہ شریعت میں شیطان کے سخت ترین القا کا بھی مسئلہ تھا۔ جب عورت نے اپنے حق کیلئے مجادلہ کیا تو انسانی فطرت اور شریعت مقدسہ کا تقاضہ یہی تھا کہ عورت کو اس مصیبت سے چھٹکارا مل جائے ، دوسری طرف خود ساختہ شریعت اور اس میں شیطانی القا کا تقاضہ یہ تھا کہ عورت اس مصیبت سے نجات نہ پائے۔
جب رسول اللہ ۖ کی تمنااور شیطانی القا کی کشمکش جاری تھی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورۂ مجادلہ کی آیات نازل کرکے القائے شیطانی کا خاتمہ کیا اور اپنی آیات کو محکم کردیا۔ رسول ۖ کی تمنا اور شیطان کے القا کی اس مثال سے یہ ثابت ہوگیا کہ رسول اللہۖ کی تمنا میں شیطانی القا سے کیا مراد ہے اور اللہ نے اپنی آیات کو کس طرح سے محکم کردیا تھا۔ یہ آیت(52)کی تفسیر ہے اور پھر آیت (53)میں جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے یا جو منافق ہیں اور جو کافر ہیں انہوں نے اس حکم سے فتنے میں پڑکر کیا کردار ادا کیا۔ تو اس کی واضح مثال سورۂ احزاب میں ہے کہ اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی اتباع مت کرو۔ جو اللہ نے نازل کیا ہے اسی پر فیصلہ کرو۔کافی ہے اللہ کی وکالت ۔ اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیں کہ ایک دل سے ایک عورت کیلئے بیوی کا جذبہ رکھتا ہو اور دوسرے دل سے اسی عورت کیلئے ماں کا جذبہ رکھتا ہو۔ جن بیویوںسے تم نے ظہار کیا ہے ،اللہ نے ان کو تمہارے لئے ماں نہیں بنایا ہے اور نہ منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹے بنایا ہے۔
رسول اللہ ۖ کے دل میں تمنا تھی کہ اگر زید طلاق دینے سے نہیں رُک سکا تو اس کی دلجوئی کیلئے خود شادی کرلیں مگر ساتھ ساتھ یہ ماحول بھی تھا کہ اس وقت لے پالک یا منہ بولے بیٹے کو بھی حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور اس کی طلاق شدہ بیوی کو بھی حقیقی بہو کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہۖ کے دل میں یہ تمنا خود ہی پیدا کی تھی لیکن شیطان نے اپنے القا کے ذریعے سے خوف پیدا کردیا تھا کہ لوگ کیا بولیں گے؟۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر آسانی پیدا کرنے کی سبیل نکالی اور اس ماحول کو ختم کردیا اور جس تمنا کو نبیۖ چھپارہے تھے تو اللہ نے اس کو ظاہر کردیا۔ اس واقعہ کو اللہ نے اہل علم کیلئے دلیل بنایا کہ بیشک حق نبیۖ کے رب کی طرف سے ہے اور مؤمنوں کے دل اس حقیقت کیلئے جھک گئے اور اللہ ہدایت دینے والا ہے ایمان والوں کو صراط مستقیم کی طرف۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے طوعاً وکرھاً نبیۖ کی سیرت اور قرآن کو مان لیا ؟۔ حالانکہ کفار اور معاندین کا اعتراض آج تک ختم نہیں ہوا کہ حضرت زید کی بیوی سے طلاق کے بعد کیسے شادی کرلی؟۔
اس کا جواب بہت کرارا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے حقیقی باپ کی بیگمات سے شادی کرنے کو جائز بلکہ اپنا حق سمجھتے تھے لیکن منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کرنے کو حرام سمجھتے تھے۔ مؤمنوں کی تو دل وجان سے اصلاح ہوگئی۔ انہوں سورۂ حج کی آیت54کے عین مطابق حق بات کو دل سے قبول کرلیا اور صراط مستقیم کی ہدایت بھی مل گئی ۔ اگررسول اللہۖ چاہتے تو پھر حضرت زنیب کو حضرت زید کے نکاح میں دینے کے بجائے خود بھی نکاح میں لے سکتے تھے اور ایک طرف حضرت زینب نے یہ قربانی دیدی کہ جس پر غلامی کا دھبہ تھا تو اس کے نکاح میں جانا قبول کیا۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ام المؤمنین کے شرف سے نواز دیا اور ان کی یہ قربانی بہت کام آئی۔ دوسری طرف مؤمنین کیلئے شریعت کا روشن راستہ واضح ہوگیا کہ باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا غلط اور منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ سے نکاح درست ہے۔ تیسری طرف رسول اللہۖ کی تمنا میں جس طرح شیطان نے اپنا القا کیا تھا کہ لوگ کیا کہیںگے؟ ۔اور اللہ نے فرمایا کہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشٰہ ” اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے اور اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے”۔ (سورہ الاحزاب)
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہۖ کیلئے سب سے زیادہ سخت یہ آیت تھی اگر آپ کسی آیت کو چھپانا چاہتے تو اسی کو چھپاتے”۔ حضرت عائشہنے اس تناظر میں کہا کہ اللہ نے قرآن میں رسول اللہ ۖ سے فرمایا کہ بلغ مانزل الیک ان لم تبلغ فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ”تبلیغ کریں جو اللہ نے آپ پر نازل کیا ہے ،اگر آپ نے (اللہ کی نازل کردہ آیات کی) تبلیغ نہیں کی تو آپ نے اس کی رسالت کو نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کی لوگوں سے حفاظت کر یگا”۔ اہل تشیع کا دعویٰ ہے کہ ”یہ آیت حضرت علی کی ولایت پرنازل ہوئی ، رسول ۖ کی یہ تمنا یہ تھی کہ علی ہی کو خلیفہ بنایا جائے مگر شیطان نے حدیث قرطاس میںمزاحمت کی۔ قریش میں اہل بیت کی خلافت مأمور من اللہ تھی”۔ رسول اللہ ۖ کے بیٹے کو اللہ نے بچپن میں اٹھالیا تھا اور آپۖ نے فرمایا کہ ہر نسب باپ کی جانب منسوب ہوتا ہے لیکن فاطمہ کی اولاد میری جانب منسوب ہوگی۔ حضرت علی اور حضرت ابوطالب کی دوسری اولاد سادات نہیں کہلاتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے منصب امامت سے سرفراز فرمایا تو آپ علیہ السلام نے بھی دعا فرمائی کہ ”اور میری اولاد میں سے بھی”۔ اللہ نے فرمایاکہ ” میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا”۔ حضرت ابراہیم کیساتھ بڑا مشروط وعدہ کیا گیا اور پورا ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کہا کہ اللہ آپ نے مجھ سے میرے بچوں کو بچانے کا وعدہ کیا تھا؟۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے ،وہ عمل غیر صالح ہے۔ جس پر حضرت نوح نے معافی مانگ لی اور حضرت داؤد کے دل میں اوریا مجاہد کی بیگم سے شادی کی تمنا شیطان نے ڈال دی تھی اور اللہ نے (99) دنبیاں اور ایک دنبی سے تنبیہ فرمائی تو آپ نے اللہ سے معافی مانگی اور اللہ نے معاف کردیا۔ شیعہ سنی اپنے پرانے جھگڑوں کو اب چھوڑ دیں اور اپنے اپنے مکاتبِ فکر کی شریعت کو قرآن کی آیات اور سنت کے مطابق درست بنائیں تو جس کی بات فطری اور درست ہوگی وہ قبول کرنے میں عوام کو کوئی عذر نہیں ہوگا۔اگر حنفی علماء صحیح راہ پر آگئے توپھر بازی لے جائیںگے۔
عورت کے حقوق طلاق وخلع اور ماملکت ایمانکم کی تفسیر میں حنفی مسلک کی درست تعبیراسلام کو دنیا بھر میں مقبول بنادے گا۔ عراق میں یزیدی فرقہ اپنے منفردعقائد رکھتا ہے۔جوقرآن ،عیسائی اور ہندومذہب کاملغوبہ ہیں۔ دین میں زبردستی نہیں۔ ایک پرامن فضا کی ضرورت ہے۔قرآن میں اہلبیت یا قریش کے امام بننے کی وضاحت حضرت ابراہیم کی دعا تک ہے اور احادیث میں بھی اس کی وضاحت ہے ۔ابوجہل اورحضرت ابوبکر میں واضح فرق تھا، یزید و حسین میں فرق تھا اور خلافت عثمانیہ کے خلفاء قریش نہ تھے اور سعودیہ اور ایران کی حکوت میں بھی قریش واہلبیت کا خلیفہ ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگرخلافت کی اہلیت ہوگی تو دنیا میں اللہ موقع دیگااور اہلیت ہو لیکن اللہ نے موقع نہیں دیا تو اس کا گلہ عوام سے اس وقت بنتا ہے کہ جب معاملہ انسانوں کے ہاتھ میں ہو۔ اگرمعاملہ انسانوں کے ہاتھ میں ہو تو پھر اللہ کی طرف سے اہلیت کو انسانوں میںبھی ثابت کرنا ہوگا۔ اہل تشیع کا ائمہ اہلبیت کو چھوڑ کر علیولی اللہ کہنا عراق اورایران کے شیعہ سے بھی مختلف ہے۔امام حسن کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

رسول اللہۖ نے آخری وصیت میں نماز اور عورت کے حقوق کی تلقین فرمائی تھی۔

مہاجرمکی کے نا نوتوی اور گنگوہی میں اختلاف تھا، شیخ الہند اورمولانا حسین علی اور انکے شاگردوں کے شاگرد مولانا غلام اللہ خان،سرفراز صفدراورمولاناطاہرپنج پیری میں اور مولانا طیب اور مفتی منیر شاکرمیں بھی اختلاف ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانامحمد طیب طاہری کی طرف سے قرآن کے ترجمے میں گالیاں یوٹیوب پر دی گئی ہیں جو مفتی منیر شاکر اور انکے اختلاف کا شاخسانہ ہے۔ مذہبی طبقات میں نفرت بہت بڑھ رہی ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ قرآن کی تجلیوں سے رہنمائی ہو اب ایسی کہ پیوندِ خاک قوم بھی عروجِ ثریا پر جا پہنچے

رسول اللہۖ نے آخری وصیت میں نماز اور عورت کے حقوق کی تلقین فرما دی اور پھر کچھ فرمایا جس کی سمجھ کسی کو نہیں آئی لیکن حضرت ابوبکر نے بات سمجھ لی اور حضرت ابوبکر بہت پھوٹ پھوٹ کر روئے اسلئے کہ نبیۖ نے اپنی رخصتی کی خبر اس میں دی تھی کہ اللہ نے اختیار دیا اپنے بندے کو کہ بندوں کیساتھ رہے یا اپنے ربّ کے پاس جائے تو بندے نے اپنے رب کو ترجیح دی۔ رسولۖ کو جب طائف میں بہت اذیت پہنچائی گئی توفرشتوں نے عرض کیا کہا آپۖ جس قسم کے عذاب کا حکم فرمائیں،ہمیں اللہ نے ہرقسم کیلئے بھیج دیا ہے لیکن رسولۖ نے اہل طائف کے حق میں ہدایت کی دعا فرمائی اور فرمایا کہ اگر ان کی تقدیر میں ہدایت نہیں تو لکھ دینا اور اگر قطعی منظور نہیں تو ان کی اولاد کو ہدایت عطاء فرما۔
ہمارے ہاں مذہبی طبقات تہہ در تہہ گمراہی کا شکار ہیں۔ تبلیغی جماعت پہلے مسلمانوں کا مشترکہ اثاثہ تھی۔ پنجاب کے دیہاتوں میں ہم نے بریلوی مسلک کی مساجد میں خود بھی پڑاؤ ڈلا ہے۔ دیہات کے ائمہ مساجد تبلیغی جماعت کو غیر جانبدار اور مسلکوں سے بالاتر سمجھتے تھے۔ فضائل درود شریف بھی اس وقت تبلیغی نصاب میں شامل تھی جس سے متأثر ہوکر بہت سے بریلویوں کے ہاں اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجاتا تھا کہ ”یہ وہابی ہیں اوریہ رسول ۖ سے بغض رکھتے ہیں”۔ پنجاب میںبریلوی دیوبندیوں کو وہابی کہتے ہیں۔ تبلیغی جماعت نے نصاب سے فضائل درود شریف کو نکال کر اس کا نام فضائل اعمال رکھ دیا۔ شیخ الحدیث مولانازکریا نے اپنی آپ بیتی میں لکھا کہ رسول اللہۖ نے خواب یا مشاہدے میں فرمایاکہ شیخ زکریا اپنے معاصرین میں فضائل درود کی وجہ سے سبقت لے گئے ہیں۔ یہ کتابچہ اتحاد امت کیلئے بڑا کردار ادا کرتا تھا۔ جسکے اندر ایک واقعہ ہے کہ ایک بزرگ غالباً عبدالوہاب شیرانی نے لکھا کہ میں حج کے سفر میں والدہ کیساتھ جارہاتھا راستے میں میری والدہ کا انتقال ہوگیا، اسکا پیٹ سوجھ گیا اور منہ کالا ہوا میں بہت سخت پریشان تھا کہ میں نے حجازسے ابر آتا ہوا دیکھا جس میں ایک شخص تھے اور آپ نے میری والدہ کے چہرے اور پیٹ پر ہاتھ پھیر ا۔ جس کی وجہ سے اس کا منہ چمکدار سفید نورانی بن گیا اور پیٹ بھی درست ہوگیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کون ہیں جس نے اس مصیبت میں میرا ساتھ دیا۔ فرمایا کہ میں تیرا نبی محمد(ۖ) ہوں۔(فضائل درود)
دیوبندی میں دو گروہ ہیں ایک توحیدی ہیں جو دوسروں کو مشرک سمجھتے ہیں۔ توحیدیوں کی بنیاد میانوالی کے مولانا حسین علی تھے جو شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا طاہر پنج پیری کے استاذ تھے۔ مولانا حسین علی اور شیخ الہند دونوں مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد تھے۔ مولانا شیخ الہند کے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی مولانا الیاس، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا شبیراحمد عثمانی،مفتی کفایت اللہ اور مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ تھے۔ مولانا نانوتوی اور مولانا گنگوہی دونوں کے شیخ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی تھے۔ مولانا قاسم ناناتوی کہتے تھے کہ میں نے حاجی صاحب کے علم کی وجہ سے بیعت کی ہے اور مولانا گنگوہی کہتے تھے کہ میں ان سے زیادہ بڑا عالم ہوں ،ان کے علم کو نہیں مانتا ہوں۔ مولانا گنگوہی اور مولانا نانوتویکے درمیان جو فکری اختلاف تھا شیخ الہند اور مولانا حسین علی کے شاگردوں میں وہ اختلاف کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے۔مولانا طاہر پنج پیری مولانا سندھی کے بھی شاگرد تھے۔
شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ہمارے مرشد حاجی عثمان کو عبدالرحمن بن عوف کہتے تھے۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کے آخری دور میں مولانا طاہر پنج پیری سے اختلافات بڑھ گئے تھے اور وہ شیخ الہند کے شاگردوں کے قریب تھے۔ حاجی عثمان سے مولانا فضل محمد استاذ حدیث جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بیعت تھے اور خلیفہ تھے۔ میرے استاذ ہیں۔جب حاجی عثمان پر آزمائش آئی تو کہنے لگے کہ میں چندے کیلئے سعودیہ گیا ، چندہ نہیںملا،مقروض ہوگیا۔ میں نے حاجی عثمان کیخلاف بغاوت کی خبر سنی تو کئی دنوں تک کھانا نہیں کھایا اور الائنس موٹرز والوں کو حرمین میں بہت سخت جھاڑ دیا ۔ اب مقروض ہوں ، الائنس موٹرز یا آپ لوگ جو بھی میرا قرضہ ادا کرے ، اسکے ساتھ ہوں۔ میں نے بتادیا کہ جن علماء ومفتیان نے حاجی عثمان پر فتوے لگائے ۔وہ شاہ ولی اللہ ، مولانا محمد یوسف بنوری ، شیخ زکریا اور شیخ عبدالقادر جیلانی پر فتویٰ لگاکر پھنس گئے تو مولانا فضل محمد نے کہا کہ مفتی رشید احمد لدھیانوی نے مولانا یوسف بنوری کو بھی بڑا ستایا تھا ،جو اللہ کے ولی کو ستاتا ہے تو اللہ کا اسکے ساتھ اعلان جنگ کی حدیث ہے۔ پھر بتایا کہ میرے پاس الائنس والے آئے تھے(قرضہ دیدیا) اور میں تو پیری مریدی کو نہیں مانتاہوں، پہلے سے پنج پیری تھا۔ مولانا فضل محمد بنوری ٹاؤن کے شیخ الحدیث ہوتے مگر مرشد کی بیوفائی نے اس منصب تک پہنچنے نہ دیا۔ مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق حاجی عثمان کے خلیفہ تھے۔ خواجہ ضیاء الدین جس کو چند لمحات کے بعد آرمی چیف کے عہدے سے ہٹادیا گیا اور جنرل نصیر اختر بھی حاجی عثمان کے مرید تھے۔
خطیب العصر مولانا عبدالمجید ندیم نے فتوؤں کے بعد حاجی عثمان سے کہا تھا کہ شہیدحضرت عثمان کے نام کی وجہ سے آپ بھی مظلوم بن گئے ۔ مولانا طیب پنج پیری کی آڈیو کسی نے یوٹیوب پر شیئر کی ہے جس میں وہ دیگر دیوبندی یا باغی پنج پیری مفتی منیر شاکر کے ساتھیوں سے متعلق کہتا ہے کہ” ان کو یہ شکایت ہے کہ ہمیں مسجد میں نہیں چھوڑتے ہیںجبکہ اللہ نے مشرکوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ان کا مسلمانوں سے مقابلہ ہو تو لیولون الادبار ” یہ اپنی پشت پھیر دینگے”۔ اسکا مطلب ہے کہ مشرکوں سے مقابلہ ہو تو مساجد میں …مارنے کے عادی ہیں اور یہ اپنی …. دینے کیلئے آمادہ ہوجاتے ہیں کہ ہمیں نہ مارو”۔
آج علماء میں نظریاتی ہم آہنگی اور کردار سازی کی بہت ضرورت ہے۔اگر مذہبی طبقے ایکدوسرے کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے رہے اور یہ سلسلہ بڑھ گیا تو پھر ریاست اور عوام کیلئے کنٹرول مشکل ہوگا۔ رسول اللہۖ نے اپنی چاچی حضرت فاطمہ بنت اسد کی میت کو لحد میں اُتارتے ہوئے فرمایا کہ یہ میری ماں ہیں۔ فقہاء نے جس طرح محرم کے مسائل بنائے ہیں ان پر غور کرنا ہوگا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سورۂ النجم کے حوالے سے شیطانی القا کی طرح بخاری وابن ماجہ وغیرہ میں قرآن کی حفاظت کے منافی احادیث کو بھی مسترد کرنا ہوگا

سورۂ النجم کے حوالے سے شیطانی القاکی طرح بخاری وابن ماجہ وغیرہ میںقرآن کی حفاظت کے منافی احادیث کو بھی مسترد کرنا ہوگا،اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ پورا کیا ہے مگر شیعہ سنی ایکدوسرے پر تحریف قرآن کا الزام لگاتے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سنی شیعہ کتب میں تحریف کا عقیدہ موجود ہے اور ایکدوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے ان من گھڑت روایات کو بہت کھلے انداز میں اپنے دل اوردماغ سے نکالنے کی ضرورت ہے

امام جعفر صادق،امام ابوحنیفہ ،امام مالک ،امام شافعی اورامام احمد بن حنبل سب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں کسی اور قرآن کو رواج نہیں دیا،سب اسی قرآن پر متفق ہیں

مدینہ منورہ میں ایک کتب خانے والے سے میں نے کہا کہ میں شیعہ ہوں تو انہوں نے کہا کہ الحمد للہ ہم سنی ہیں۔ میں نے کہا کہ الحمدللہ میں شیعہ ہوںالحمدللہ کہنے سے تو کچھ فرق نہیں پڑتا ہے ،شیعہ سنی میں فرق کیا ہے؟۔ اس نے کہاکہ سنی شیعہ میں بہت فرق ہے، شیعہ قرآن کو نہیں مانتے۔ میں نے کہا کہ آپ قرآن کو مانتے ہیں؟۔ اس نے کہا کہ الحمدللہ ہم مانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ابن ماجہ اٹھانا اور ابن ماجہ میں رضاعت کبیر کی روایات دکھائی کہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ” جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو آپۖ کی چار پائی کے نیچے دس آیات پڑی تھیں۔ جن میںرجم کرنے کا اور بڑے شخص کو دودھ پلانے کا ذکر تھا تو بکری نے کھاکر ضائع کردیں”۔یہ دیکھ کر اس کا رنگ اُڑگیا۔ میں نے کہا کہ ہم نہ سنی ہیں اور نہ شیعہ،بلکہ مسلمان ہیں۔ اس نے کہا ہم بھی بس مسلمان ہیں۔
سنیوں نے اپنے لوگوں کے دل ودماغ میں یہ بھردیا ہے کہ شیعہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں اور شیعہ اب لوگوں کے دل ودماغ میں یہ بھر رہے ہیں کہ سنی قرآن کی تحریف کے قائل ہیں۔ حقائق کے بجائے مذہبی وسیاسی اتحاد کی بات کرنا اسلام اور ملت کا تقاضہ نہیں بلکہ منافقت کا شاخسانہ ہے۔ ابن ماجہ اور صحیح مسلم میں کس کا درجہ اونچا ہے؟۔ ظاہر ہے کہ صحیح مسلم کا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ”اگر مجھے لوگوں کا خوف نہ ہوتا کہ وہ کہیں گے کہ اللہ کی کتاب پر اضافہ کیا ہے تو رجم کی آیات کو قرآن میں لکھ دیتا”۔ ابن ماجہ میں ہے کہ بکری کے کھا جانے کی وجہ سے رجم کی آیت و رضاعت کبیر کی آیات ضائع ہوگئیں اور صحیح مسلم میں ہے کہ اگر رجم کا حکم قرآن میں درج کیا جائے تو پھر لوگ اسکو قرآن میں اضافہ سمجھ لیں گے۔ حالانکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئی ہیں تو قرآن میں درج کرنے پر کیوں اعتراض ہوتا؟۔
سوال یہ ہے کہ رجم ورضاعت کبیر کا حکم قرآن میں تھا یا پھرحدیث میں؟۔ اگر قرآن میں تھا تو پھر جس کا حکم موجود تھاتو اس کی تلاوت منسوخ کیسے ہوگئی؟۔ اہلحدیث حضرات امام ابوحنیفہ اور ائمہ فقہ کے سخت مخالف ہیں لیکن وہ یہ مسائل کبھی حل نہیں کرسکتے ۔ اہلحدیث کایہ مسلک ہے کہ” بڑا آدمی کسی عورت کا دودھ پی لے تو پھر ان کا آپس میں پردہ نہیں رہتا ہے لیکن اگر نکاح کرنا چاہیں تو پھر آپس میں نکاح کرسکتے ہیں”۔ جسطرح مدینہ منورہ میں کتب خانے والے نے ابن ماجہ میں قرآن کی تحریف کی آیت دیکھ کر سنی ہونے سے بھی برأت کا اعلان کردیا،اسی طرح اہلحدیث اپنے مسلک کی تقلید سے بھی پکی توبہ کرلیںگے۔
قرآن کے بارے میں حدیث ہے کہ سات حروف پر نازل کیا گیا ہے اور ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرطاس میں کتابت کی شکل میں نازل نہیں کیا تھا اور ایک حرف کو پڑھنے کا لہجہ مختلف تھا۔ جس طرح پختون اور بلوچ ف پر پ کا تلفظ کرتے ہیں۔ فعل کو پعل کہتے ہیں۔ انگریزوں ، عربوں اور ہندوستانیوں کا لہجہ بھی حروف میں مختلف ہے۔ فون کو اسلئے (Fone)کے بجائے(Phone) لکھا جاتا ہے۔ تاکہ پ اور ف دونوں سے پڑھنے کا آپشن باقی رہے۔ ہماری پشتو زبان کے بعض حروف میں دونوں طرح کے لہجے کی گنجائش ہے۔پشتو اور پختو پڑھ سکتے ہیں۔ جئی اور زئی،لژ اور لگ ، سہ اور چہ وغیرہ لکھنے میں ایک ہیں لیکن پڑھنے میں تلفظ بالکل مختلف ہے۔ بعض عرب ق کو ج اور غ بھی پڑھتے ہیں۔ امارات میں شارجہ لکھنے میں شارقہ ہے اور لیبیا کے صدر قذافی کسی افریقی عرب کا قرآن سن رہے تھے تو اناانزلنٰہ فی الیلة القدر کو لیلة الغدر پڑھا جارہا تھا۔ مصری ج کو گ پڑھتے ہیں۔ انگریزی میں بھی (G)گ اور ج کی آواز دیتا ہے۔
صحابہ کرام نے قرآن کے مصاحف پر کوئی اختلاف نہیں کیا تھا ۔ جہاں کسی کے مصحف میں کوئی اضافہ ہے تو یہ اس کی تفسیر ہے۔ جس طرح جلالین اور کسی اور تفسیر میں اضافہ قرآن کا اختلاف نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تورات، زبور اور انجیل کے علاوہ افلاطون کی کتاب کیلئے کاغذ اور محفوظ راستہ تھا مگر ہماری روایات میں قرآن ہڈیوں ، پتھروں، درخت کے پتوں پر لکھا جاتا تھا اسلئے اپنے قرآن کی حفاظت کے بارے میں اپنی روایات سے شکوک ڈال دئیے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ نبیۖ نے قرطاس ایک وصیت لکھنے کیلئے مانگا تھا لیکن قرآن کیلئے قرطاس نہیں تھا جس کا ذکر قرآن کی آیت میں بھی ہے؟۔
قرآن کی حفاظت کیلئے قرآن کی داخلی آیات بھی کافی ہیں لیکن احادیث کی کتب میں قرآن کی حفاظت کیلئے بخاری کی ایک ہی سب سے مضبوط روایت ہے کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول اللہۖ نے ہمارے پاس مابین الدفتین ”دو جلد کے درمیان قرآن” کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا تھا۔ صحیح بخاری کی اس روایت پر وفاق المدارس کے صدر مولاناسلیم اللہ خان نے اپنی شرح ”کشف الباری” میں لکھ دیا ہے کہ ” امام اسماعیل بخاری نے یہ روایت شیعوں کے رد میں لکھ دی کہ تمہارا عقیدہ غلط ہے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے ، حالانکہ صحیح بخاری کا اپنا عقیدہ اور سنیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن ایک نہیں ہے ۔جب حضرت عثمان نے قرآن جمع کیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود کی رائے شامل نہیں کی ۔ جس کی وجہ سے ابن مسعود ناراض تھے اور حضرت عثمان کی طرف سے کسی کنواری لڑکی سے شادی کی پیشکش بھی اسلئے قبول نہیں کی تھی”۔
مولانا مودودی کی تفسیرتفہیم القرآن، علامہ غلام رسول سعیدیکی تفسیر تبیان القرآن اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی تفسیر عثمانی میں لکھا ہے کہ ” عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں آخری دو سورتیں نہیں تھیں اسلئے کہ وہ اس کو قرآن نہ سمجھتے تھے”۔ روایات میں آخری دو سورتوں کے علاوہ یہ بھی ہے کہ سورۂ فاتحہ کو بھی مصحف میں نہیں لکھا تھا۔ جس طرح سورۂ نجم کے حوالے سے شیطانی القا کی آیات پر بہت بڑا اختلاف ہے، یہی اختلاف حضرت ابن مسعود کی طرف سورتوں سے انکار پر بھی موجود ہے۔ مولانا مودودی نے اس کی تردید بھی نہیں کی ہے۔ حالانکہ جب کسی آیت سے انکار کفر کا موجب ہے تو سورتوں سے انکار کفر کا موجب کیوں نہیں ہوگا؟ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف کو جن لوگوں نے دیکھا تھا تو اس کا پہلا اور آخری صفحہ پھٹ چکا تھا جس کی وجہ سے سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتیں اس میں موجود نہیں تھیں۔ حضرت مولانا حافظ مفتی محمدحسام اللہ شریفی کے پاس اورنگزیب عالمگیر بادشاہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن موجود ہے، اس میں فاتحہ اور آخری پانچ سورتیں نہیں ہیں اسلئے پہلا اور آخری دو صفحے پھٹ چکے تھے لیکن اس کا یہ مطلب لینا ہرگز درست نہیں کہ وہ قرآن کی آخری سورتوں کے منکر تھے۔
دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، جماعت اسلامی اور اہل تشیع مل بیٹھ کر اپنے اپنے پیروکاروں کے ذہنوں سے غلط فہمیاں دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور تفاسیر میں قرآن کے نص اور سورتوں سے متعلق اپنی غلطی کی بھرپور نشاندہی کرکے عقیدے کی صحت کیلئے ایک پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں۔ اگر عوام کی طرف سے مذہبی طبقات کے خلاف رد عمل آنا شروع ہوگیا تو نہ صرف ان کے مدارس بند ہوں گے بلکہ ان کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں گے۔
ہم بہت تسلسل کیساتھ ان ڈھیٹ قسم کے لوگوں کو سمجھا رہے ہیں لیکن انکی بھلے ٹیٹ نکل جائے مگر راہِ راست پر آنے کیلئے تیار نہیں ہورہے ہیں۔ چھوٹے علماء کرام اور مسلمان عوام کے نزدیک قرآن محفوظ ہے لیکن بڑے بڑے ڈھیٹ بنے پھرتے ہیں۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنے دانت بدل دئیے ہیں اور اپنے شاگرد مفتی زبیر صاحب کے ہاں فارغ التحصیل علماء سے خطاب کیا ہے کہ ”آج بعض افراد سے بہت لوگ متأثر ہورہے ہیں لیکن معتزلہ وغیرہ فرقے آج کہاں ہیں؟۔ غلام احمد پرویز کی باتوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے۔ آج پرویز کہاں ہے، اسی طرح یہ نئے لوگ بھی تاریخ کا حصہ بن جائیںگے”۔
دارالعلوم دیوبند کے سب سے بڑے مدرس شیخ الحدیث مولانا سیدانورشاہ کشمیری نے آخر ی عمر میں فرمایا تھا کہ ” میں نے فقہ کی الجھنوں میں اپنی ساری زندگی تباہ وبرباد اور ضائع کردی۔ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی”۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے الائنس موٹرز میں حیلہ کرکے زکوٰة کے پیسے تجارت کیلئے دئیے۔ وقف مال شریعت میں بیچنے اور خریدنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے لیکن اس نے مدرسے میں اپنے لئے گھر بیچا اور خریدا۔ اسکے استاذ مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ وقف مال بیچنے اور خریدنے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے ۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ بیچنے والا اور خریدنے والا ایک ہی شخص ہو۔ مفتی محمد شفیع اپنے بچوں کیلئے دارالعلوم کی وقف زمین بیچنے والا بھی خود ہو اور خریدنے والا بھی خود ہو توپھر اپنی اصلاح کرنے کے بجائے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے اپنے استاذ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کی تاریخی پٹائی لگائی تھی۔ ہمارے استاذ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیر محمد صاحب اور ان کے ساتھ دوسرے طلباء نے اپنے استاذمفتی رشید احمد لدھیانوی کی مارپٹائی سے سوجھے ہوئے چہرے کو دیکھا تو بدلہ لینے کی پیشکش کردی تھی لیکن مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے اجازت نہیں دی اسلئے کہ اس کو جان کا خطرہ بھی ہوسکتا تھا۔ یزید نے صحابیوں کے بیٹوں سے حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کو اقتدار کیلئے شہید کروایا تھا۔ بینکوں کی سودی زکوٰة، بینکوں کو اسلامی قرار دینے کے معاوضے، وقف مال پر اپنا ذاتی کاروبار اور حلالہ کی لعنت میں گرفتار لوگ ہی تاریخ کا حصہ بنیں گے ۔ انشاء اللہ
قارئین کرام! بہت مجبوری کے تحت اصل موضوع پر تفصیل سے بات کرنا ادھوری رہ جاتی ہے۔ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری نے قرآن کی لفظی تحریف کا اعتراف نہیں کیا ہے بلکہ اس کی نشاندہی فرمائی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی جس طرح بھی گزاری لیکن خاتمہ بالخیر ہوگیا تھا۔ ہماری جوانی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی فضل سے قبول فرمائی اور ہم سے دین کے تحفظ کی خدمت لے لی ہے۔ حضرت مولانا انورشاہ کشمیری نے قرآن میں بہت زیادہ معنوی تحریف کا انکشاف کیا تھا تو یہ معنوی تحریف ہی دراصل وہ شیطانی القا ہے جس کا ذکر سورۂ حج کی آیت(52) میں موجود ہے۔ اصل موضوع کیلئے جگہ کم ہے لیکن قارئین سمجھ جائیںگے کیونکہ اس معنوی تحریف پر ہم نے کتابوں اور اخبار میں بہت وضاحتیں لکھ دی ہیں۔
یہ شکر ہے کہ کراچی کے اکابر علماء ومفتیان نے حضرت حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگادیا تھا ۔ ورنہ مخالفت کی فضاؤں میںشاہین کو اونچی اُڑان کا موقع نہ ملتا ۔ تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اڑانے کیلئے
سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے صرف اہلحدیث ہی مخالف تھے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے شرح صحیح مسلم میں فتاویٰ شامیہ کیخلاف لکھ دیاتھا تو انہوں نے مجھے خود بتایا کہ بریلوی مسلک کے علماء نے اس کو گردن سے پکڑلیا تھا کہ وہ کون ہوتا ہے ،علامہ شامی کے خلاف لکھنے والا۔ اگر میں بھی باطل کی ہاں میں ہاں ملاتا اور سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز پر اہلحدیث کا منہ بند کرنے کیلئے کہتا کہ اہلحدیث کے نزدیک دودھ پیتے بچے کا پیشاب پاک ہے تو پھر اس پاک پیشاب پر سورۂ فاتحہ لکھنے میں کیا حرج ہے؟۔ اگر میں باطل کا دفاع کرتا تو مدارس اور مساجد کے علماء مجھے اپنے سرکا تاج بنادیتے لیکن میں نے کسی فرقے اور مسلک سے نہیں بلکہ اللہ اور اسکے رسول ۖ اور قرآن وسنت سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح اور مفتی تقی عثمانی کو شکست سے دوچار کردیا۔ ایم کیوایم کے بعض لوگوں کو پہلے استعمال کرکے ہمارے ساتھیوں کو خانقاہ چشتیہ ،مدرسہ محمدیہ ،یتیم خانہ سیدنا اصغر بن حسین اور مسجد الٰہیہ سے نکال دیا تھا لیکن جب ایم کیوایم کے رہنماؤں اور کارکنوں نے مفتی محمد تقی عثمانی کی طرف سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی جسارت دیکھ لی تو ہمارا ساتھ دیا۔
لبنا ن کے مشہور دانشور خلیل جبران نے کیا خوب کہا ہے کہ ”اگرمذہب محض جنت کی بشارت کا نام ہے، حب الوطنی ذاتی مفاد کیلئے ہے اور علم کا مقصد دولت اور آسائش کا حصول ہے تو میں کافر، غدار اور جاہل کہلانا پسند کروں گا”۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

القائے شیطانی کا وسیع پس منظر ہے جس نے اُمت مسلمہ کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا کر قرآنی آیات کے تحفظ کے باوجود مدارس کو گمراہی میں ڈال دیا!

امام ابوحنیفہ عالمِ حق لیکن فقہاء احناف نے تقلید کیلئے علمی قابلیت کا حق ادا نہیں کیا۔ القائے شیطانی کا وسیع پس منظر ہے جس نے اُمت مسلمہ کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا کر قرآنی آیات کے تحفظ کے باوجود مدارس کو گمراہی میں ڈال دیا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

آئیے جانِ من!بڑا حقیقت پسندانہ تحقیقاتی علمی جائزہ لیکر سورۂ جمعہ، بخاری ومسلم اور مولانا عبیداللہ سندھی کی تفسیر المقام المحمود کی روشنی میں پاکستان سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کریں

آج درسِ نظامی ، مولانا انورشاہ کشمیریکی فیض الباری، قاضی عبدالکریم کلاچی کے سوال اور مفتی فرید کے جواب ”فتویٰ دیوبند پاکستان” میں گھمبیر مسائل کا بھرپور انداز میںحل تلاش کریں

مجھے بریلوی مکتبۂ فکر کے بانی امام احمد رضا خان بریلوی کے خلوص اور ایک اچھے قابل فقیہ ہونے میں شک نہیں ہے لیکن ان کی باتوں کو مان لینا بہت بڑے درجے کی حماقت اسلئے ہے کہ قادیانی، دیوبندی، وہابی ،اہلحدیث اور شیعہ سب میں کوئی فرق کرنارضاخانیت اور بریلویت کی نفی ہے۔ جس بریلوی نے پہلے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے دور میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا تھا ،اسے بریلوی مکتبۂ فکر کے بعض زعماء نے بریلویت سے خارج کردیا تھا۔ دیوبندی اور بریلوی حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیاور پیر سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف شدت پسند طبقہ سے مبرا بہت اچھے مسلمان تھے اور بہت سوں کیلئے اصل امام کی حیثیت یہی لوگ رکھتے تھے۔ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک دونوں مکتبۂ فکر کا سلسلہ ایک ہی مسلک سے تھا۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک قرآن کریم کے تحفظ پر ایمان بہت ہی ضروری تھا اور قرآن کے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث بھی آجائے تو سراسر غلط ہی ہے۔ یہی عقیدہ اہلسنت کے چار اماموں اور اہل تشیع کے بارہ اماموں کا بھی تھا۔ جب پاکستان میں اہل تشیع کا ایرانی لٹریچر پہنچنا شروع ہوا تو مدارس کے علماء نے بڑے پیمانے پر اہل تشیع کواسلئے کافر قرار دیا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں لیکن مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی ایک تقریر شائع ہوئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ” شیعہ سے ہمارا صحابہ پر اختلاف نہیں ہے، ہمارا قرآن پر اختلاف نہیںہے، شیعہ سے ہمارا اصل اختلاف عقیدۂ امامت کی وجہ سے ہے۔ عقیدۂ امامت سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے”۔ شاہ ولی اللہ نے لکھ دیا ہے کہ رسول اللہۖ نے مشاہدے یا خواب میں فرمایا کہ” شیعہ کی گمراہی کی وجہ عقیدۂ امامت ہے” ۔ جب میں نے اس پر غور کیا تو یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے،اسلئے نبیۖ نے ان کو گمراہ قرار دیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنے مشاہدے یا خواب کی تعبیر بہت غلط کی ہے کیونکہ گمراہ اور کافر میں فرق ہے۔ ختم نبوت کے انکار سے گمراہی نہیں کفر کا فتویٰ لگتا ہے لیکن اہل تشیع کے عقیدۂ امامت کو گمراہی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ جب ملت جعفریہ کے قائد علامہ ساجد علی نقوی بہت کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ مجھے پتہ نہیں ہے کہ اہل تشیع نے برصغیر پاک وہند میںآذان اور کلمہ میں شہادت ثالثہ کا اضافہ کیوں کیا ہے؟۔ جبکہ عراق وایران اورکربلا میں شیعہ جو نسل در نسل اپنے کلمہ وآذان میں صرف توحید اور رسالت کی دو شہادتوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔
پاکستان میں ایران و عراق سے اہل تشیع کے جید علماء ومجتہدین اور حضرت علامہ ساجد علی نقوی قائدملت جعفریہ و علامہ جواد نقوی ، علامہ شہنشاہ نقوی ، علامہ شہریار رضا عابدی ، علامہ حیدر نقوی وغیرہ کو بٹھاکر آذان وکلمہ میں شہادت ثالثہ کا مسئلہ حل کردیا جائے تو شیعہ ملت کے آپس کا بھی جھگڑا ختم ہوجائے گا اور بہت بڑی تبدیلی سنی مکتبۂ فکر کے ہاں آنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ شیعہ نے برصغیر میں کلمہ وآذان میں اضافہ کیا تو وہی حال بریلوی مکتبۂ فکر نے اختیار کیا ہے۔
قندھار سے بریلی اور مردان سے کراچی تک پٹھان علماء سخت گیرتھے اور اگر مولانا احمد رضا خان بریلوی نے بڑے سخت فتوے دئیے ہیں جو قندھار کے پٹھان تھے تو شیخ الحدیث مفتی زرولی خان نے بھی اپنا حساب برابر کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانامفتی ڈاکٹر منظور مینگل پر علامہ خادم حسین رضوی کیلئے مغفرت کی دعا مانگنے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے پر تجدیدِ نکاح کا فتوی دیا ہے۔
پٹھان ناراض نہ ہوں ، ہندوستانی علماء خدائے کریم وجلیل کی قسم ان سے زیادہ جاہل ، چھوٹی کھوپڑی کے مالک ،مفاد پرست ، ہٹ دھرم اور ہڈ حرام تھے اسلئے کہ فتاویٰ عالمگیریہ پر (500)معتبر علماء نے دستخط کئے تھے جس میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری ، ڈکیتی اور ہرقسم کی حد وسزا معاف تھی اسلئے کہ اورنگ زیب بادشاہ نے اپنے بھائیوں کو قتل کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔ جس اسلام میں کسی خلیفۂ راشد کیلئے استثناء کی کوئی گنجائش نہیں تھی تو اس میں بادشاہ کیلئے کیسی ہوسکتی تھی؟۔ جب مسجد نبویۖ کے قریب حضرت عباس کے گھر کا پرنالہ نمازیوں کے لباس کو متاثر کررہا تھا تو لوگوں کی شکایت پر حضرت عمر نے اس پرنالے کی جگہ تبدیل کر دی، حضرت عباس نے اس کی شکایت سرکاری قاضی کے رجسٹر میں درج کردی اورقاضی انصاری صحابی تھے۔ انہوں نے حضرت عمر کیلئے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ دونوں کی بات سن کر حضرت عباس سے کہا کہ اگر خلیفۂ وقت اپنے ہاتھ سے اس پرنالے کی مٹی تیار کرکے اہل مدینہ کے سامنے آپ کو اپنے کاندھے پر چڑھاکر اسی جگہ پر لگادے تو آپ معاف کردیںگے ؟۔ حضرت عباس نے کہا کہ مجھے یہ منظور ہے۔ حضرت عمر نے اپنے ہاتھ سے مٹی تیار کی اور سب کے سامنے اپنے کاندھے پرحضرت عباس کو چڑھایا اور پرنالہ لگادیا۔ حضرت عباس نے بتایا کہ میں نے گھر بنایا تو رسول ۖ کو اپنے کاندھے پر چڑھایا کہ وہ پرنالہ لگادیں لیکن مجھ سے بوجھ برداشت نہیں ہوسکتا تھا تو رسول اللہۖ نے مجھے اپنے کاندھے پر چڑھایا اور میں نے یہ پرنالہ لگادیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ خلیفہ انصاف کرتا ہے یا نہیں؟۔ اب میں اپنے مکان کو مسجد نبویۖ کیلئے وقف کرتا ہوں۔
ایک مولوی صاحب نے یوٹیوب پر موجودہ ریاستی نظام کو اس واقعہ کی بنیاد پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن مذہبی لوگوں کو جنونی شدت پسند بنانے سے بہتر یہ ہے کہ اسلام کی اجنبیت کے پل کے نیچے جتنا پانی بہہ چکاہے اس کو بھی دیکھ لیا جائے۔ اہل تشیع تو عقیدۂ امامت میں بہت غلوکی وجہ سے یہاں تک پہنچ گئے کہ اگر شہنشاہ حسین نقوی اتحادامت کانفرنس میں شرکت کرکے علامہ جواد نقوی کے جامعہ عروة الوثقیٰ کی مسجد البیت العتیق لاہور میں شیعہ سنی علماء کے سامنے خطاب میں کہہ دیں کہ ” بسم اللہ کے بعد میں الحمد للہ رب العالمین کہنے کی بجائے الحمد لعلی ابن ابی طالب کہنے میں فخر محسوس کرتا ہوں ” تو شیعہ شرکاء بڑی گرم جوشی سے نعرہ بھی لگادیںگے۔ اگر علامہ جواد حسین نقوی کو اس کی مخالفت میں کچھ کہنا ہو تب بھی وہ پہلے سے ہوشیار نہ کریں کہ میں ان غلط اقدار کی مذمت کرنے کی بات کررہا ہوں تو بات سننے سے پہلے مجمع سے وہی پرجوش آواز آئے گی۔
درسِ نظامی میں پڑھایا جاتا تھا کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک عربی پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی فارسی زبان میں نماز پڑھنا نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے مگر جب حضرت شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کردیا تو شاہی خانوادے کے قابلِ اعتماد شہزادے شاہ ولی اللہ نے قرآن کا ترجمہ کرنے کے جرم کی پاداش میں دو سال تک روپوشی کی زندگی اختیار کرلی۔ شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی فتاویٰ عالمگیریہ پردستخط کرنے والے علماء میں شامل بلکہ سہولت کار تھے۔ یہ ہندوستانی علماء کی ہٹ دھرمی اور ہڈ حرامی تھی جن کی آل واولاد ہم پر مسلط ہیں۔ ملاجیون جیسے لوگ سادہ لوح مگر متقی وپرہیزگار تھے لیکن آج چالاک وعیار لوگوں نے پتہ نہیں کونسے قاعدہ کلیہ کے تحت شیخ الاسلامی ومفتی اعظمی کا درجہ پایا ہے؟۔
فقیہ العصر قاضی عبدالکریم کلاچی ڈیرہ اسماعیل خان نے مفتی اعظم پاکستان مفتی فرید صاحب کے پاس خط لکھاکہ ” مولانا انور شاہ کشمیری کی فیض الباری شرح صحیح بخاری میں یہ عبارت پڑھ کر پاؤں سے زمین نکل گئی جس میں لکھا ہے کہ ”قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہے لیکن لفظی تحریف بھی ہے ،یہ انہوں نے غلطی سے کیا ہے یا عمداً کیا ہے”۔اس عبارت میں لفظی تحریف کی نسبت صحابہ کی طرف ہے کیونکہ کفار کی طرف اس جرم کی نسبت نہیں ہوسکتی ہے”۔
مفتی فرید صاحب نے اسکا بالکل غیر تسلی بخش جواب دیا تھا جو فتاویٰ دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہوچکا ہے۔ بریلوی مکتب کے مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن سابق چیئرمین ہلال کمیٹی کے ساتھی علامہ غلام رسول سعیدی نے کئی جلدوں میں تفسیر تبیان القرآن لکھی ہے، صحیح مسلم کی شرح اور صحیح بخاری کی شرح بھی لکھی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ”شیخ انورشاہ کشمیری کی فیض الباری کا حوالہ دئیے بغیر دارالعلوم کراچی سے عبارت پر فتویٰ لیا تو مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی کے ہاں سے اس پر کفر کا فتویٰ بھی لگادیا گیا ہے ، جس کا ریکارڈموجود ہے ”۔جب ہم نے دارالعلوم کراچی سے قرآن کی اس تعریف پر فتویٰ لینا چاہاتھا جس کو درسِ نظامی کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے تو فتویٰ دینے سے انہوں نے انکار کردیا۔
ہمارا اصل موضوع یہی ہے کہ قرآن میں جو معنوی تحریف ہوئی ہے جس کی نشاندہی امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے بخاری کی اپنی شرح میں کی ہے ۔ سورۂ حج کی آیت(52) میں جس القائے شیطانی کی مداخلت کی وضاحت ہے وہ قرآن کی معنوی تحریف ہے۔ جہاں تک سورۂ نجم کے حوالے سے کفارِ مکہ کے غلط پروپیگنڈے پر شیطانی آیات کی تائید یا تردید کا تعلق ہے تو اس پر مولانا مودودی کی تفسیر تھوڑی بہت عقل مگر علم سے عاری ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ وہ اتنا گھمبیر مسئلہ نہیں ہے جتنا اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی تعریف میں بہت بڑی تحریف کا مسئلہ گھمبیر ہے۔ جب اصولِ فقہ میں کتاب سے مراد قرآن میں احکام سے متعلق (500) آیات ہیں اورباقی قصے کہانیاں ہیں تو حق یہ بنتا تھا کہ وہ آیات مختلف عنوانات کے تحت درج کردی جاتیں اور پھر اس کیساتھ احادیث اور فقہ کے اجتہادی مسائل پر بحث ہوتی مگر یہ تو نہ ہوا ،البتہ قرآن کی تعریف میں تحریف کاارتکاب ہے۔ قرآن کی تعریف کا پہلا جملہ یہ ہے کہ المکتوب فی المصاحف ”جو مصحاف میں لکھا ہوا ہے”۔ پھر اس کی تشریح ہے کہ لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ہے ۔کیونکہ لکھائی تو محض نقشِ کلام ہے۔ اللہ کا کلام صرف زبانی الفاظ میں ہے۔ حالانکہ قرآن کی ڈھیر ساری آیات اس احمقانہ نصاب کی نفی کیلئے کافی ہیں۔ اللہ نے یہاں تک فرمایا کہ ”اگر میں اس کو قرطاس میں نازل کرتا اور یہ مشرک اس کو چھولیتے تب بھی انہوں نے نہیں ماننا تھا”۔ مشرکینِ مکہ بھی اس کتاب کی نسبت پرانی کہانیاں صبح شام لکھوانے کی تہمت لگاتے تھے۔ فتاویٰ قاضی خان سے فتاویٰ شامیہ تک اور مفتی تقی عثمانی کی کتاب تکملہ فتح الملہم اور فقہی مقالات سے وزیراعظم عمران کے نکاح خواں مفتی سعید خان کی ریزہ الماس تک سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا جواز فقہ حنفی کا شاخسانہ موجود ہے۔
قرآن کی تعریف کا دوسرا جملہ المنقول عنہ نقلًا متواترًابلاشبہہے جس سے غیرمتواتر قرآنی آیات نکل گئیں اور بسم اللہ کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ جب قرآن کے علاوہ دیگر آیات کا عقیدہ رکھا جائے تو قرآن کے تحفظ پر کتنا بڑا حملہ ہے۔ اگر سید مودودی نے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی ہوتی تو اس بات پر برہم ہوتے کہ صحیح سند کیساتھ ایسی قرآنی آیات کا تصور ماننا بہت بڑا کفر ہے کہ جس سے قرآن کی صحت مشکوک ہوجائے۔ جس طرح امام شافعی نے انکا وجود کفر سمجھاتھا ،اسی طرح امام ابوحنیفہ قرآن پر اضافی آیات کو کفر سمجھتے تھے مگر جس طرح مفتی تقی عثمانی نے اپنے باپ ، اکابراور ہم عصر لوگوں جن میں انکے استاذ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان بھی شامل تھے اور بینک کے سودی نظام کو دیگر مدارس والے بھی سود قرار دے رہے تھے لیکن مفتی تقی عثمانی کا فتویٰ چل گیا اور ہم جیسوں پر ان کی مخالفت کرنے کی وجہ سے رافضی کا فتوی بھی لگادیا ہے۔ یہی فتویٰ امام ابوحنیفہ کی درباری پود نے امام شافعی پر بھی لگایا تھا۔
اگر امام ابوحنیفہ نے اپنے فقہ میں حلف توڑنے کے کفارے میں روزوں کا تسلسل ضروری قرار دیا تھا تو اس کی وجہ نعوذ باللہ من ذٰلک یہ نہیں تھی کہ قرآن کی کسی اضافی آیت کے قائل تھے بلکہ سورۂ مجادلہ میں کفارے کے روزوں میں تسلسل کی وضاحت ہے اور کسی صحابی نے اپنے مصحف کی تفسیر میں تفسیری اضافہ کیا تھا۔ جس طرح تفسیرجلالین میں تفسیری اضافے کا مطلب آیات کا اضافہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں عبداللہ بن مسعود نے اپنے مصحف میں عورت سے خاص فائدہ اُٹھانے کیساتھ الی اجل مسمٰی ”ایک مقررہ وقت کا اضافہ کیا ہے”۔ تو یہ بھی قرآن کے متن میں اضافہ نہیں ہے بلکہ قرآن کی تفسیر ہے جو بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود سے نبیۖ کی حدیث میں بھی موجود ہے۔ اگر احناف کا مذہب تفسیری اضافہ قرآن کے متن میں اضافہ ہوتا تووہ متعہ کے قائل ہوتے۔ امام ابوحنیفہ نے علم الکلام سے توبہ کی تھی اسلئے قرآن کی تعریف میں المکتوب فی المصاحفکی غلط تشریح پڑھانا اور مسائل کی تخریج کرنا بہت بڑی گمراہی ہے اور اس گمراہی سے نکلنے کیلئے کسی مہدی کا انتظار کرنا زیادہ بڑی گمراہی ہے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سورۂ حج کی آیت (52) کی تفسیر پر یہ پورا شمارہ ہے مگر اس رکوع اور پہلے و بعد کے رکوع میں بھی معاملہ واضح ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جس رکوع میں سورۂ حج کی آیت(52)ہے وہ بھی اس آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے ۔ اسی رکوع میں آیات(49، 50اور51)ہیں۔ فرمایا:
” کہہ دیجئے کہ اے لوگو! بیشک میں تمہارے لئے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ پس جن لوگوں نے ایمان لایا اور اچھے عمل کئے تو ان کیلئے مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ اور جن لوگوں نے کوشش کی کہ ہماری آیات کو مغلوب کریں تو یہی لوگ جحیم والے ہیں”۔ ان تینوں آیات میں جو مقدمہ ہے وہ اللہ کی طرف سے نبیۖ کو کھلم کھلا ڈرانے والا ہونا ہے۔ پھر ایمان و عمل صالح والوں کو مغفرت اور عزت کی روزی کا وعدہ ہے۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کو شکست دینے کے درپے ہیں کہ یہ اصحاب جیحم ہیں۔
سورۂ نجم کی آیات اور القائے شیطانی کی یہاں کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے مگر اس کو زیرِ بحث لایا جائے تو جن کفارِ مکہ نے القائے شیطانی کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا تھا ،ان کا انجام بھی سامنے ہے اور جن لوگوں نے ایمان و صالح عمل کی راہ اپنائی تھی وہ تاریخ میں ایک روشن باب بن گئے۔ بے آب وگیاہ حجاز کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سپر طاقت بناکر کہاں سے کہاں پہنچادیا تھا؟۔
اس مذکورہ رکوع سے پہلے والے رکوع میں اپنے علاقوں سے ظلم کیساتھ نکالے جانے والے مظلوموں کا ذکر ہے اور پھر مختلف قوموں میں ایکدوسرے کے خلاف مدافعت کا جذبہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوموں کی تقدیریں بدلنے کا ذکر ہے۔جس کی وجہ سے مختلف مذاہب کی عبادتگاہوں کی اللہ نے حفاظت کی ہے۔ پھر ان اچھے لوگوں کا ذکر ہے کہ اگر ان کو ٹھکانہ مل جائے تو نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے کا فریضہ ادا کریں اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض پورا کریں۔ پھر اللہ نے فرمایا ہے کہ”( اے نبی!) اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلارہے ہیں تو آپ سے پہلے قوم نوح ، عاد اور ثمود نے بھی ایسا کیا۔ اور قوم ابراھیم وقوم لوط اور اصحاب مدین نے بھی ایسا کیا۔ اور موسیٰ کو بھی جھٹلایاگیا لیکن پہلے میں نے کفار کو مہلت دی اوران کو پکڑ لیا۔تو پھرکیسی تھی عقوبت؟۔ پھر کتنی بستیاں تھیں جن کو ہم نے ہلاک کر ڈالا، پھر وہ اپنے تختوں پرتلپٹ پڑی ہوئی تھیں اور ویران کنویں اور عالی شان بنگلے ۔ کیا وہ زمین میں سیر نہیں کرتے؟۔ تاکہ ان کے دل ہوں جس سے وہ سمجھ پائیں اور انکے کان ہوں جس سے وہ سن سکیں۔ لیکن بیشک آنکھوں کی بصارت اندھی نہیں ہوتی مگر وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں اور یہ آپ سے عذاب کی جلدی چاہتے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ اور بیشک ایک دن تیرے رب کے پاس ہزار دنوں کے برابر ہے جو تمہارے شمار کے برابر ہیں اور کتنی بستیاں تھیں جن کو میں نے مہلت دی اور وہ ظالمہ تھی پھر میں نے اس کو پکڑ لیا اور میری طرف ٹھکانہ ہے ”۔
انبیاء کرام کی قوموں نے بہت جلدعذاب کا مشاہدہ دیکھ لیا اور مشرکین مکہ نے بھی بہت جلد اپنے انجام کی خبر پالی۔ رسول اللہۖ رحمت للعالمین تھے اس لئے آپ کے خلفاء عظام نے بہت جلد دنیا کی سپر طاقتوں کو بھی شکست دی تھی۔ سورۂ حج کی آیت(52)سے پہلے والے رکوع کے بعد جس پسِ منظر میں یہ آیت نازل ہوئی ہے وہ ایک ہزار سال بعد دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نبیۖ کی تمنا کیا تھی اور آپ سے پہلے کے انبیاء ورسولوں کی تمناؤں کیساتھ بعد کے ناخلفوں نے کیا سلوک کیا؟۔ اس میں القائے شیطانی کے تصورات کیا تھے اور ہمارے قرآن کیساتھ کیا ہوا؟۔ اور ہم اس القائے شیطانی کے کیسے شکارہوئے اور اللہ نے ہمارے لئے بچاؤ کے کیسے راستے پیدا کئے ہیں؟۔نبیۖ کی یہ بھی تمنا تھی کہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ البیت العتیق کی طرف نماز میں رخ کیا جائے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا تھا۔ نبیۖ کی ایک تمنا یہ بھی تھی کہ لوگ ایک ساتھ تین طلاق میں حلالہ کی لعنت سے بچ جائیں اور اللہ نے اس کا بھی بندوبست کیا تھا۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام کی قوموں نے اپنی اپنی شریعتوں کو مسخ کرکے رکھ دیا اور اس میں القائے شیطانی کا بڑا عمل دخل تھا تو ہمارے ساتھ بھی وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔
ہم قرآن کی محکم آیات کی روشنی میں ان لوگوں کو شکست دے سکتے ہیں جن کے دل ودماغ پر القائے شیطانی نے دین کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ مؤمن القائے شیطانی کے مقابلے میں محکم آیات کو مان لیں گے۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سیدابوالاعلیٰ مودودی نے سورۂ حج کی آیت 52 میں معتبر مفسرین کی متضادرائے سے اختلاف کرکے جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔

سیدابوالاعلیٰ مودودی نے سورۂ حج کی آیت (52) میں معتبر مفسرین کی متضادرائے سے اختلاف کرکے عالمانہ کردار ادا نہیں کیا ہے بلکہ انتہائی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر آیت کی اصل تفہیم وتفسیر کا مسئلہ بھی جوں کا توں چھوڑ دیا ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

بظاہر سیدمودودی کی تفسیر میں بڑا وزن ،سمجھ وفہم لگتا ہے لیکن قرآن وسنت کے وسیع ذخیرے سے کم علمی اور جہالت کا اتنا بڑا مظاہرہ پہلے علماء مفسرین نے بھی نہیں کیاجو انہوں نے کیا ہے!

اگر آیت کے مفہوم کی وضاحت میں بہت بڑی ٹھوکر نہیں کھائی جاتی اور اس ٹھوکر سے اُمت مسلمہ کا بیڑہ غرق نہ ہوتا تو ہم صرف نفسِ مسئلہ کو واضح کرکے مولانامودودی پر تنقید نہ کرتے۔

ایک عام جدید تعلیم یافتہ قاری جب مولانا مودودی کی تفسیر دیکھ لیتا ہے تو یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے تمام بڑے بڑے مفسرین سے اختلاف کرکے سب کو زبردست مات دی ہے مگر جن علماء کرام نے سید مودودی پر سخت اعتراض کیا تھا تو یہ مولانا مودودی سے حسد نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ رویہ تھا۔ ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ تفہیم القرآن میں شیطانی آیات کا کتنا زبردست قلع قمع کیا گیا ہے کہ الفاظ میں بھی بہت فرق ہے اور مفہوم میں بھی بہت فرق ہے؟
حالانکہ الفاظ اور مفہوم کا فرق قرآنی آیات کے حوالے سے احادیث کے بہت ہی مستند ذخیرے میں بھی موجود ہے لیکن احادیث صحیحہ کے ذخیرے میں اجماعی قرآن کے مقابلے میں خبر احاد اور خبر مشہور کے قرآن کو رد کردیا جاتا ہے۔ اس طرح احادیث صحیحہ کے الفاظ اور مفہوم میں بہت سارے اختلافات ہیں۔ لیکن الفاظ اور مفہوم میں اختلافات کے باجود بھی وہ احادیث قابلِ قبول ہیں۔
جدید تعلیم یافتہ طبقے کا مولانا مودودی کی وجہ سے اسلاف پر اعتماد متزلزل ہوا ہے لیکن مولانا مودودی خودہی جاہل اور جاہلوں کے سرغنہ ثابت ہوئے ہیں۔ مولانا مودودی کی تفسیر کا آخری حصہ ہم نے نقل نہیں کیا ہے۔ بہت اچھے انداز میں انہوں نے بنی اسرائیل ، سورۂ نجم اور سورۂ حج کے زمانہ نزول کے حوالے سے اس کی تردید کردی ہے لیکن اس تردید میں دو اہم باتیں ہیں ۔پہلی بات یہ ہے کہ نفس مسئلہ اور آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کی بجائے سورۂ نجم کا معاملہ ہی واضح کیا ہے، حالانکہ سورۂ نجم کی آیات میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو سورۂ حج کی اس آیت کی وجہ سے الجھا ہوا ہے۔ جس کے بارے میں سید مودودی نے” تمنا” کے دو معانی اور دو تفسیریں لکھ کر معاملہ مزید الجھا دیا ہے کہ اگر تمنا کے معنی عربی میں اردو کی طرح تمنا کے ہیں تو پھر آیت کی تفسیر یہ ہے اور اگر اسکے معانی تلاوت اور پڑھوانے کے ہیں تو پھر اسکے معانی یہ ہیں۔
حالانکہ مولانا مودودی نے غلط لکھا ہے کہ تمنا کے معانی تلاوت کے بھی ہیں۔ جن تفسیروں میں شیطانی آیت کی نبیۖ کی طرف تلاوت کی نسبت کی تھی تو اس وجہ سے مولانا مودودی نے ”تمنا” کے ایک معانی پڑھنے کے کئے ہیں۔ حالانکہ عربی لغت میں یہ معنی نہیں ہے۔ چونکہ سورۂ نجم کی تلاوت پر کفار مکہ نے نبیۖ کیساتھ سجدہ کیا تھا اسلئے اپنی خفت مٹانے کیلئے یہ جھوٹا دعویٰ کردیا تھا کہ نبیۖ نے شیطانی آیات کی تلاوت فرمائی۔ جب مشرکینِ مکہ کی بڑی تعداد فتحِ مکہ کے بعد مسلمان ہوئی تو ان میں حضرت عباس بھی تھے اور انہی مشر کینِ مکہ کی گھڑی ہوئی کہانی بھی اس وقت لوگوں کے دل میں آگئی جب انہوں نے نسل در نسل اس واقعہ کے کچھ مندرجات اپنے گھروں میں سن رکھے تھے۔ محقق مفسر کا یہ کہنا بالکل بنتا تھا کہ اس واقعہ کی کوئی اصل نہیں ہے۔ یہ زنادقہ کی طرف سے اسلام کے خلاف کوئی من گھڑت سازش ہے۔ جن مشہور مفسرین نے اس واقعہ کو ردّ کردیا تھا تو یہ انہوں نے بالکل زبردست اور صحیح کام کیا تھا۔
جن مفسرین نے اس روایت کو قبول کرلیا تھا تو یہ ان کی انتہائی دیانتداری تھی کہ ایک واقع بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق نقل ہوا ہے تو اصل کے ہوتے ہوئے جزیات میں اختلافات کی وجہ سے اس کی تردید نہیں کی جاسکتی ہے۔ ان کی رائے بھی بہت زبردست ہے اوران کے نزدیک بظاہر آیت کی تفسیر میں بھی زبردست مدد مل رہی تھی اس وجہ سے اس کو قبول بھی کرلیا۔ یہ خیانت اور کم عقلی نہیں تھی لیکن جہاں تک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی طرف آیت کی تفسیر میں خلوص کی بات ہے تو ان کے خلوص پر بھی بالکل شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے مگر جس طریقۂ استدلال کا سید مودودی نے سہارا لیا ہے ،یہ انتہائی جاہلانہ اور علم کے ابجد سے بالکل ہی انوکھی اور نری جہالت کا شاخسانہ ہے۔
قرآن کی سورتوں میں آیات کی ترتیب نزول اور آیات کی تدوین میں بڑا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی جمع وترتیب کا کام بھی قرآن ہی میں اپنے ذمے لیا ہے کہ اے نبی ! جلدی سے کام نہ لیں۔ان علینا جمعہ وقرآنہ (بیشک ہم پرذمہ داری ہے اس کی جمع وترتیب اورتدوین کی ) ۔ کئی جگہوں پر ایسا ہوا ہے کہ ایک سورة کے شانِ نزول کا زمانہ کچھ ہوتا ہے لیکن اس میں آیات کے نزول کا حوالہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ علماء ومفسرین نے اپنی اپنی کوشش بہت دیانتدارانہ انداز میں کی۔ آیات سے دوسری آیات کی تفسیر کو جوڑ دیا لیکن جب کہیں اس کے مفہوم کو واضح کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کہیں روایات کا سہارا لینا پڑا تو بھرپور دیانتداری سے اپنی قیمتی آراء کو پیش کردیا۔ سید مودودی نے بھی اپنے طور پر بہت اچھے انداز میں ان کی رائے کو درج کیا ۔جہاں اتفاق تھا تو اتفاق کیا اور جہاں اختلاف تھا وہاں اختلاف کیا اور اپنی طرف سے بھرپور توجیہات بھی پیش کیں۔ البتہ جن علماء کرام نے مولانا مودودی سے اختلاف کیا تو اس کی وجہ بھی بغض وحسد نہیں بلکہ ان کی طرف سے جہالت کا کھلا مظاہرہ تھا۔
اگر آیت کی تفسیر کا مسئلہ حل ہوجاتا تو پھر کوئی وجہ نہیں تھی کہ علماء وفقہاء میں کسی قسم کا کوئی اختلاف باقی رہتا ۔ اساتذہ کرام کا سینہ بہ سینہ ایک دوسرے کو علم منتقل کرنے سے ایک فائدہ یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی نیا کارنامہ انجام نہیں بھی دیاجائے تو کم ازکم بڑی بڑی ٹھوکریں کھانے سے انسان بچ جاتا ہے۔ دیوبند یا بریلوی علماء کے ہاں درسِ نظامی کی تعلیم کا سلسلہ مکمل کرنے سے تقلید کی بیماری لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے نئی تحقیق کا مادہ بھی دماغ سے نکل جاتا ہے مگر تجدید کا ایسا بھوت بھی سوار نہیں ہوجاتا ہے کہ بڑی بڑی کھائیوں میں بڑی بڑی ٹھوکریں کھانے والا سمجھے کہ وہ براق پر معراج کا سفر کررہاہے۔ علم کو ثریا سے کھینچ لارہاہے۔ ایسی غلط فہمیاں بھی اس کو لاحق نہیں ہوتی ہیں۔ ان کے نالائق شاگرد البتہ تفسیر، احادیث کے ابجد سے بھی ناواقف ہونے کی وجہ سے تجدیدی کارنامہ انجام دینے والے کی دُم پر لٹک کر کچھ فوائد بھی حاصل کرتے ہیں اور کہیں ان کو نئی نوکری بھی مل جاتی ہے۔
آئیے کسی بھی مفادات کے چکر سے ہٹ کرقرآن کی طرف امت کو متوجہ کریں اور ڈوبتی اور ڈولتی ہوئی امت کی کشتی کو زبردست سہارا فراہم کریں۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat