پوسٹ تلاش کریں

ہمارا مذہبی اور ریاستی نظام کوئی تیتر ہے اور نہ بٹیر بلکہ سراسر ہے اس میں ہیر پھیر العیاذ باللہ۔

ہمارا مذہبی اور ریاستی نظام کوئی تیتر ہے اور نہ بٹیر بلکہ سراسر ہے اس میں ہیر پھیر العیاذ باللہ۔

پشاور عظمت قرآن کانفرنس میں اہل تشیع کے علامہ عابد حسین شاکری کی دعوت پر آئے ہوئے دیوبندی ، بریلوی،اہلحدیث،جماعت المسلمین کے نمائندے ایک بار پھر آئیں!

قرآن کی عظمت اور اس کے تحفظ اور احکام پر چند نشستوں میں بات کریں،ہمارے ہاں ہر برائی کو ا.مریکہ اور خفیہ ا.یجنسیوں کی ٹوپی پہنائی جاتی ہے مگر مسئلہ ہمارے اندرہی ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مذہب ایسی بلا ہے جس کی وجہ سے قا.دیانی، یہود.ی، عیسائی،ہندو، بدھ مت،دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، شیعہ، جماعت المسلمین، پرویزی اور اسلام کے مقابلے میں انواع واقسام کے مذاہب، فرقے ،مسالک، مکاتبِ فکر اور مذہبی شخصیات کے گرد تقلیدی افراد پیدا ہوئے جن میں مولانا مودودی ، ڈاکٹرا سرار،ڈاکٹر ذاکر نائیک، جاویداحمد غامدی، علی مرزا جہلمی، فرحت ہاشمی وغیرہ لاتعدادشامل ہیں۔فرقہ پرستی اور شخصیت پرستی کے بت نظر آئیں گے۔

جس طرح اسلام کے مقابلے میں مستقل ادیان یہودیت، نصرانیت اور ہندو مت ہیں اسی طرح اسلام کے اندر مستقل فرقوں اور مسالک نے مذاہب کی شکل اختیار کرلی ہے۔ سنی اور شیعہ فرقوں میں بڑی تعداد کے اندر ایسے لوگ ہیں جو دوسروں سے زیادہ آپس میں ایک دوسرے سے نفرت رکھتے ہیںاور پھراغیار اور دشمنانِ اسلام اس نفرت کا بھرپور فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ اگر دُشمن ہمیں نہیں لڑائے تب بھی ہمارے اندر کے تضادات اور گمراہانہ عقائد وماحولیات لڑانے کیلئے کافی ہیں اس سے نکلنے کیلئے اُمت مسلمہ امام مہدی کا انتظار کررہی ہے۔ دوسری طرف مسلم ممالک کاسیاسی و انتظامی ڈھانچہ خدشات کے سیلاب کے سامنے ریت کی دیوار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ ا.فغا.نستان، عراق، لیبیا،شام اور یمن کی تباہ حالی کے بعد پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑانظر آرہاہے۔ ایک مضبوط فوج اور ایٹمی قوت نے امریکہ ونیٹو کی افواج کے مقابلے میں افغا.ن طا.لبان کی طرح مقابلے کرنے کے بجائے سرنڈر بننے کو ترجیح دیتے ہوئے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگادیا۔ امریکہ کے ڈھائی ہزار فوجی و سول لوگ اس جنگ میں لقمۂ اجل بن گئے ۔1لاکھ سے زائد پاکستانی فوج اورعوام کو قربانی دینی پڑی۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے شرائط بھی ہمارے منہ پر کالک ملنے کیلئے کافی ہیں لیکن ہم کریڈٹ لیتے ہوئے بھی ہرگز نہیں شرماتے۔

ہمارے مذہبی ، ریاستی ، سیاسی ،صحافتی اور سماجی حالات بہت خراب ہیں لیکن ہم نے ڈھیٹ پن کو اپنی پیشہ ورانہ خدمات کا نام دے رکھا ہے۔ اسلام کے نام پر پاکستان کو ہندوستان سے جدا ہوا، پھر دولخت ہوگیا۔ بنگلہ دیش نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنی حالت بہتر بنادی۔ بلوچستان وسندھ، کراچی کے مہاجر اور پشتون قوم بھی باغیانہ روش پر قائم ہیں۔ آج الطاف حسین پر پابندی ہٹ جائے تو کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں سے بڑی تعداد میں اتنے لوگ امنڈ آئیںگے کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب نظر آئیگا۔ کینیڈا سے لائی گئی ایک بلوچ خاتون کی لاش سے بھی ہماری ریاست خوفزدہ تھی، میڈیا پر تشہیر نہ ہونے کے باوجود بھی جگہ جگہ استقبال کرنے والوں سے منہ چھپائے اس کو دفن کیا گیا۔ بھٹو اور اکبر بگٹی کی لاش سے خطرات تھے۔ علی وزیر کی رہائی سے خوف ہے ۔ خڑ کمر کے واقعہ میں جتنے مجرم ریاستی اہلکار تھے اتنے ہی مجرم موقع سے فرار ہونے والے محسن داوڑ اور علی وزیر تھے جن کی پارٹیاں اب الگ الگ ہیں۔PTMنے قوم پرستوں سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تو الیکشن لڑتے ہی علی وزیر اور محسن داوڑ کو خلاف ورزی پر الگ کرنا تھا۔

تحریک لبیک اور طا.لبان سے ماورائے آئین بات ہو تو قوم پرستوں کا گلہ بنتا ہے۔MQM،TTPاور لیاری امن کمیٹی کو ختم کرنے کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال ہوئے وہ ریاست کا نہتے یرغمال عوام پر احسان تھا لیکن شاعرکہتاہے کہ

گھر کی اک دیوار سے مجھ کو خطرہ ہے
اندر کے کردار سے مجھ کو خطرہ ہے
گھر محفوظ ہے لیکن میں محفوط نہیں
گھر کے پہریدار سے مجھ کو خطرہ ہے
میں ٹیپو سلطان ہوں عہدِ حاضر کا
اپنے ہی سالار سے مجھ کو خطرہ ہے
سوچ کو آنکھیں دینے کا میں مجرم ہوں
ایک اندھی سرکار سے مجھ کو خطرہ ہے
دل کی بات کہوں تو سب مجھ کو سمجھاتے ہیں
میرے ان افکار سے مجھ کو خطرہ ہے

ترقیاتی کام کیلئے پانی اور بجلی بنیادہے ۔ وجعلنا من الماء کل شیء حی

ترقیاتی کام کیلئے پانی اور بجلی بنیادہے ۔ وجعلنا من الماء کل شیء حی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہر ملک وقوم کی کوئی نعمت ہوتی ہے اور پاکستان کی نعمت ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہاڑوں سے سمندر میں پانی کا بہاؤ ہے جس سے بہت سستی بجلی پیدا کرکے خوشحالی آسکتی ہے!
اللہ نے فرمایا: اللہ کے پاس خاص وقت( انقلاب) کا علم ہے،وہ بارش برساتاہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میںکیا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کمائے گا اور کس زمین پر وہ مرے گا۔ (القرآن)
پاکستان کے پاس پانی کا بہاؤ ایک کنارے کے پہاڑوں سے لیکر دوسرے کنارے کے سمندر تک قدرت کا عظیم تحفہ ہے ، اگر زراعت اور سستی بجلی پیدا کرنے کا وسیلہ بنایا توانقلاب آجائیگا!

مشہور ہے کہ قرآن حجاز میں نازل ہوا۔ مصر والوں نے اس کو پڑھا اور ہند والوں نے اس کو سمجھا۔ علامہ اقبال نے بھی طلوع اسلام میں شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی اور نطق اعرابی کی بات کی ہے۔ سعودی عرب کے مشہور عالم دین ڈاکٹر عائض قرنی کی کتابیں سعودی عرب، دوبئی اور دنیا کے ائیرپورٹ اور بک سٹالوں میں موجود ہیں۔ عربی میں کمال حاصل کرنے کیلئے ان کی کچھ کتابیں میں خرید ی تھیں ۔ جس میں ان کی تفسیر بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر عائض قرنی امریکہ سمیت دنیا بھر میں گھومے ہیں اور ایک عالم دین،عربی ادیب کے علاوہ جہاندیدہ شخصیت بھی ہیں۔پہلے عربی کی تفاسیر میں لکھا تھا کہ ” اللہ ہی کو معلوم ہے کہ بارش کب ہوگی”۔ اب جب دنیا نے ترقی کرلی ہے اور ڈاکٹر عائض قرنی کو معلومات ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں بارش کب ہوگی ،اس کا پتہ چلتا ہے تو اس نے تفسیر میں تبدیلی کرلی اور لکھ دیا کہ ” اللہ ہی قدرتی بادلوں سے بارش برسا سکتا ہے”۔ لیکن جب دنیا کچھ مزید ترقی کرلے اور قدرتی بادلوں سے بارش برسانے اور بادلوں کو ہنکاکر بھگانے کی صلاحیت بھی پیدا کرلے تو پھر تفسیر بدلنی پڑے گی؟۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”دجال اکبر میں یہ صلاحیت ہوگی کہ جہاں بھی چاہے گا تو بارش برسے گی اور جہاں چاہے گا تو بارش نہیں برسے گی”۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کا مطلب ڈاکٹر عائض قرنی غلط لے رہے ہیں۔ حدیث میں دجال کے اندر ایسی صلاحیت کا ذکر ہے تو دوسرے لوگوں سے بھی صلاحیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کو خدا کے ساتھ قرار دینا بھی قرآن کا مفہوم نہیں ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا میں دوسرے لوگوں اور ممالک میں بھی بارش سے پانی نچوڑنے کی صلاحیت ہو لیکن دجال زیادہ طاقتور ہو اسلئے اس کا خاص طور پر نبی ۖ نے ذکرکیا ہو۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ سورج ، چاند ، ستاروں، بادل اور دنیا کی ہر چیز کیلئے فرمایا ہے کہ انسانوں کیلئے سب چیزیں مسخرات ہیں۔
قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ ” بیشک اللہ کے پاس الساعة کاعلم ہے۔ وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ کل وہ کیا کمائے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔ پہلی بات یہ ہے کہ الساعة سے مراد قیامت بھی ہے اور انقلاب کا وقت بھی ۔ قرآن نے دونوں کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جب فتح مکہ کا انقلاب آیا تو مشرکین ِ مکہ اور یہود ومنافقین کے وہم وگمان میں بھی نہیںتھا کہ حجاز کے حالات اتنے جلد تبدیل ہوجائیں گے اور مسلمانوں کو اتنی بڑی فتح اور برتری حاصل ہوگی اور وہ پھر قیصرروم اور کسریٰ ایران کو بھی شکست دیں گے جو مشرق ومغرب کی دو سپر طاقتیں تھیں۔ مدینہ سے مکہ تک حجاز میں پانی کا کوئی چھوٹا نالہ بھی نہیں تھا لیکن پھر وہ شام وعراق ، اسپین و ہندوستان اور ترکی کے پانی وباغات کے دنیا میں مالک بن گئے۔ دنیا میں انکے ساتھ حور وقصور اور جنت کے باغات کے وعدے پورے ہوگئے تھے۔ قرآن کی آیات میں باغات سے مراد صرف جنت مراد نہیں ہے بلکہ دنیا کے باغات بھی مراد ہیں اور جہنم سے مراد صرف قیامت نہیں بلکہ دنیا میں جہنم کی زندگی بھی ہے۔
پاکستان میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے دنیا میں یتیموں، اسیروں اور غریبوں کی مدد اسلئے نہیںکی کہ پھر وہ ووٹ دیں گے یا انکے حق میں زندہ باد کے نعرے لگائیںگے۔ کورونا کی طویل بیماری میں رضاکاروں کی ٹیمیں گھر گھر تک پہنچ رہی تھیں اور بہت لوگوں نے کھل کر اور چھپ کر امداد کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ادیب رضوی کی SIUT،انڈس ہسپتال ، ایدھی، چھیپا، امن اور سیلانی کے علاوہ چھوٹے بڑے لاتعداد اداروں نے غریبوں کی ایسی خدمت کی جو ریاست سے بھی زیادہ عوام کیلئے سکون واطمینان کا باعث بن گئے۔ سورۂ الدھر میں بسہولت پانی کی نہریں نکالنا اور اللہ کیلئے قوم کی خدمت کے علاوہ زبردست انقلاب کے بہترین تذکرے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مصداق پاکستانی قوم بن سکتی ہے اور پوری قوم کو اس کا درس دینے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے الساعة میں اس بڑے انقلاب کا بھی ذکر کیا ہے جو ہمارے سر پرتیار کھڑا ہے۔ پہلے حجاز کے لوگوں نے انقلاب کے مناظر دیکھے ۔خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ تک ایک طویل دورانیہ تک مسلمانوں نے دنیا کے مزے اُڑائے ہیں۔ پھر پاکستان سے برپا ہونے والا دوسرا انقلاب دنیا کی تاریخ پھر بدلے گا۔ قرآن کی تفسیر کے نکات کبھی ختم ہونے نہیں ہیں اور اگر الساعة کی تفسیر کی جائے تو اس میں عام طور سے وقت کی بات ہے۔ دن رات سے زمین کا اپنے گرد چکر لگانا اور ماہ وسال سے زمین کا سورج کے گرد چکر لگانا ثابت ہے اور یہ بھی ایک علم ہے۔ پھر سورۂ معارج میں روح و ملائکہ کے چڑھنے کی ایک دن کو یہاں کے 50ہزار سال کے برابر قرار دیا گیاہے۔ جس کا مشاہدہ نبیۖ نے معراج میں کیا تھا اور البرٹ آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت کوریاضی اور سائنس کی بنیاد پر بھی دنیا میں ثابت کردیا جس سے علوم کے دروازے کھلے ہیں۔ نبی ۖ نے ان پانچ چیزوں کو علم غیب کی چابیاں قرار دیا۔ آسمان جب سر کے اوپر ہو تو اس کانام آسمان ہے اور جب پیروں کے نیچے آجائے تو یہی زمین ہے۔ جب تک علم پردہ غیب میں ہو تو وہ غیب ہے مگر جب دسترس میں آجائے تو پھر وہ غیب نہیں رہتا ہے۔ پہلے معراج پر مسلمانوں کا ایمان بالغیب تھا اور جب وہ نظریہ اضافیت تک پہنچ جائیں تو پھر وہ غیب بھی نہیں رہتا ہے۔ نبیۖ نے بہت کچھ دیکھ کرپانچوں چیزوں کو غیب کی چابیاں قرار دیا تھا۔ قرآن میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ اللہ کے علاوہ کے کسی پاس ساعة کا علم نہیں ہے اور نہ بارش نازل کرنا ایسی بات ہے کہ جس میں کسی اور کی نفی ہو اسلئے مصنوعی بارش پر کسی کو تعجب نہیں ہوتا ہے۔ بارش میں بجلی کی چمک اور بجلی کی تسخیر غیب کی چابی ہے۔ جس کی وجہ سے کائنات کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ گیا۔ افسوس کہ ہم نے سستی بجلی پیدا کرکے اپنی غریب عوام کو اتنی چھوٹی سی سہولت سے بھی محروم رکھا ہواہے اورپاکستان میں پانی کے بہاؤ سے سستی بجلی پیدا کرکے ایک انقلاب برپا کرسکتے ہیں لیکن ہمارا مفاد پرست حکمران طبقہ اور اشرافیہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتا ہے۔ لوگوں کو سستی بجلی اور پانی کی سہولت مل جاتی تو وہ اپنا روزگار خود پیدا کرلیتے ۔
اللہ تعالیٰ نے تیسری چیز کا فرمایا ہے ” وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے”۔
ہمارا مذہبی طبقہ آنکھیں بند کرتا ہے کہ الٹراساؤنڈ میں بچے یا بچی کا پتہ چلنا قرآن وسنت کے خلاف ہے اور اس سے عقیدہ خراب ہوجاتا ہے۔ اگر عقیدے کا واقعی مسئلہ ہے تو عقیدہ تو خراب ہوہی گیا ہے۔ آنکھیں بند کرنے سے عقیدہ سلامت نہیں رہ سکتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہی نہیں ہے کہ بچے بچی کا ماں کے پیٹ میں پتہ نہیں چلتا۔ اگر بدبخت ونیک بخت کی تفسیر ہوتی تو بھی بھلا ہوتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے تو کسی دوسرے کے علم کی نفی نہیں فرمائی ہے۔ حدیث میں ٹھیک بات ہے کہ یہ غیب کی چابی ہے۔ رحم حیوانات میں ہیں، نباتا ت میں بھی ہیں اور جمادات میں بھی۔ فارمی گائے ، مرغیاں اور پرندوں نے حدیث کی تصدیق کردی ہے۔ فارمی پھل اور اناج نے نباتا ت کی تصدیق کردی ہے اور ایٹم کے ذرے ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیا نے جمادات کی بھی تصدیق کی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ زمانے کی طرف سے علم الساعة ، بارش برسنے اور علم ارحام کی تفسیر ہوگئی ہے۔ چوتھی چیز اللہ نے فرمایا کہ ” تم میں سے کوئی نہیں جانتا ہے کہ وہ کل کیا حاصل کرے گا”۔ تیز رفتار تبدیلیوں نے آنے والے کل کی ترقی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ واقعی ہر آنے والا کل نت نئے انکشافات اور خبر نامہ لیکرآتا ہے اور یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کون کس زمین پر مرے گا؟۔ آنے والے وقت میں ان کا غیب کی چابیاں ہونے کی بات بھی کسی نئے طرز پر آسکتی ہے اور فی الحال بھی آیت کی پوری تصدیق ہے۔
اگر مساجد ومدارس میں جمود کو توڑا جائے تو لوگ جوق درجوق اسلام سے محبت کا اظہار کریں گے۔ پس مردہ دلوں میں ایک ولولہ اٹھے گا اور زندگی کی نئی راہیں کھل جائیں گی، زمانہ کروٹ بدلے گا تو پاکستانیوں کے چودہ طبق روشن ہوجائیںگے۔ سیاسی قیادتوں کاتمسخر اور مقتدر طبقے کا مذاق اڑانے سے بہتر یہ ہے کہ قوم کا رُخ مثبت سر گرمیوں کی طرف پھیر دیا جائے۔
پورے دریائے سندھ کو ڈیم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جسکے دونوں طرف بڑی بڑی نہریں ہوں اور تمام شہروں کے گندے نالوں سے جنگلات آباد کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ گندے پانی کو صاف کرنے کے بہت سستے طریقے ہیں۔ اور صاف پانی کو محفوظ کرنے کے بھی بہت اچھے طریقے ہیں۔ ریاست کو اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہماری سیاسی لیڈر شپ نالائق اور موروثی طبقے سے تعلق رکھے تو وہ کیا کیا گل کھلائیں گے؟۔
آنے والے طوفانوں سے پہلے مختلف جگہوں پر پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔ سندھ میں دادو ڈیم اور دوسرے ڈیموں کو بارشوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے مصنوعی نہروں کے ذریعے پانی پہنچانے کا طریقہ بنایا جائے تاکہ جب پانی کاطوفان آجائے تو بہت سار ا ذخیرہ کیا جاسکے۔ لوگ قدرت کی نعمتوں سے فائدے اٹھاتے ہیں اور حکمرانوں نے نعمتوں کو ضائع کرنا تھوڑے سے مفاد کیلئے وطیرہ بنایا ہے۔ سیلاب زدگان کا پیسہ کھا جاتے ہیں۔
جب پاکستان میں پانی کے وافر مقدار میں ذخائر ہوںگے اور نہروں سے زراعت اور باغات کیلئے وافر مقدار میں آسانی سے پانی پہنچے گا تو افغانستان اور ملحقہ علاقوں کی طرف سمگلنگ کرنے سے اناج کو نہیں روکا جائیگا بلکہ تاجر سپلائی کرکے اچھی مقدار میں زرمبادلہ کمائیں گے۔ اگر پاکستان کے لوگوں کیلئے اناج اور پھل سستے ہوں گے اور پانی پر بجلی کے پلانٹ لگاکر سستی بجلی فراہم کریںگے تو پھر دنیا میں پاکستان سے بڑی جنت کوئی نہیں ہوگی۔ پھر لوگ آئیں گے اور سیر و تفریح کیلئے عرب ممالک کی جگہ ہمارے ہاں تشریف لائیں گے۔ یہاں امن و امان کا مسئلہ بے روز گاری کی وجہ سے ہے اور جب بھوک وافلاس کا راستہ رُک جائیگا تو امن وامان بھی قائم ہوجائے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ جون 2022

موجودہ سسٹم میں پاکستان قرضوں کی دلدل سے نہیں نکل سکتا بلکہ مزید دھنسے گا۔ نمائندہ نوشتہ دیوار شاہد علی، ماہر معاشیات ۔

موجودہ سسٹم میں پاکستان قرضوں کی دلدل سے نہیں نکل سکتا بلکہ مزید دھنسے گا۔ نمائندہ نوشتہ دیوار شاہد علی، ماہر معاشیات ۔

پچھلے سال کی کل آمدنی کا تخمینہ 7909ارب تھا ۔ چاروں صوبوں کا حصہ 3412ارب۔ وفاق کے پاس 4497ارب بچ گئے ۔ وفاق کو 4497ارب میں درج ذیل کام کرنے ہوتے ہیں۔
(1)قرضوں کی قسط اور سُود 3060 (2) دفاعی بجٹ1370 (3) پنشن 480 ۔ ( فوجی 360اور سویلین 120) (4) حکومت چلانے کے اخراجات479ارب (5)سبسڈیز682ارب (6)صوبوں کو گرانٹ 1168ارب (7) متفرق اخراجات284ارب ۔وفاقی کل اخراجات8487ارب ۔آمدنی4497 ارب اورخسارہ3990 ارب ۔ خسارے کیلئے سودی قرضہ لیاجاتاہے۔

وفاق 3990 کا خسارہ پورا کرنے کیلئے IMFاور دیگر ممالک اور مقامی پرائیویٹ بینکوں سے قرضہ لیتا ہے تو سودی رقم مزید بڑھ جاتی ہے!

شاہد علی نے کہا کہ ہم سودی قرضوں کے دلدل سے نکل نہیں رہے بلکہ مزید دھنس رہے ہیں۔( شاہد کی سیاسی ہمدردیاں تحریک انصاف سے تھیں اور ہیں۔) اسٹیٹ بینک سے سستے سود پر قرضہ ملتا تھا، IMFنے اسٹیٹ بینک کوروک دیا۔ اب حکومت کو کمرشل بینکوں سے مہنگے شرح سود پر قرضہ لینا پڑتا ہے۔ جو ہردفعہ شرح سود کو بڑھاتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک سے کم شرح سود اور پرائیویٹ بینکوں سے 13سے ساڑھے 15فیصد تک شرح سود پر قرضہ ملا ہے۔ پہلے جس طرح امریکہ ڈالر چھاپتا تھا اسی طرح ہم اسٹیٹ بینک سے نوٹ بھی چھپوالیتے تھے۔
یہ اعداد و شمار پچھلے سال بجٹ کے ہیں اورجون میں نیا بجٹ آئیگا تو اگلے شمارے میں تفصیل دیں گے۔ ہمارے ہاں احتساب کا کوئی درست نظام نہیں۔ بجٹ کا وفاق، دفاع ،چاروں صوبے اور تمام اخراجات کا حساب نہیں دیا جاتا۔ پہلے نیب تھا اس کے بھی پر کاٹ دئیے۔سیاستدان، جج، جرنیل ، سول افسر کے بیٹے اور بیگمات بیرون ملک کے شہری ہیں اور منی لانڈرنگ کے ذریعے سے پیسے اپنے خاندانوں کو منتقل کئے جاتے ہیں لیکن ان سے حساب نہیں لے سکتے ہیں۔
بینظیر بھٹو نے امریکہ کے کہنے پر کالاباغ ڈیم اور چھوٹے بڑے ڈیموں سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے فرنس آئل ، ڈیزل اور گیس سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ لگادئیے۔ اب ہمارے پاس پانی کے ذخائر بھی نہیں اور بجلی بھی مہنگی پڑتی ہے اور گیس کے ذخائر بھی تقریباً ختم ہیں۔ یوریاکھاد گیس سے بنتا ہے اور گیس نہ ہونے کی وجہ سے یوریا کھاد کی پیداوار کم ہوگئی۔ امپورٹڈ گیس سے یوریا بنائیں گے تو لاگت دوگنی ہوجائیگی۔ پرویز مشرف نے گاڑیوں کو گیس پر کنورٹ کردیا جو گیس پچاس ساٹھ سال چل سکتی تھی وہ چند سال میں ختم ہوگئی۔ سعودی عرب میں گیس اور تیل کے بڑے ذخائر ہیں جو دنیا کو دیتا ہے لیکن اسکے باوجود گھروں میں گیس کے کنکشن نہیں لگائے اور لوگوں کو گیس سلینڈر استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ لوگ گیس کو ضائع نہیں کرتے ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں بھی گیس کے کنکشن گھروں میں نہیں لگائے جاتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ جون 2022

حقیقی جمہوریت اور نظام خلافت بحال کرنے کی پاکستان سے اہم تجویز

حقیقی جمہوریت اور نظام خلافت بحال کرنے کی پاکستان سے اہم تجویز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اہلسنت کے نزدیک امام کا تقرر مسلمانوں پر فرض ہے ، اگر امام مقرر نہیں کیا تو ساری امت گناہ گار اور جاہلیت کی موت مرے گی۔پاکستان صدر مملکت کی جگہ ایک امام مقرر کرکے یہ مشکل حل کرے
نبی ۖنے صرف توحید کی تعلیم نہیںدی بلکہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنے کیلئے غیرسودی نظام بھی دیاتھا۔ پاکستان کی ریاستIMFکی لونڈی اور مزارعین جاگیرداروں کے غلام ہیں
منشور کا بنیادی نکتہ مقامی اور بین الاقوامی سودی نظام سے مملکتِ خداد پاکستان کی ریاست اور پوری قوم کی جان چھڑانا اور غلامانہ عدالتی قوانین سے چھٹکار اہو تاکہ بغاوت کا نام نشان نہ ہو
پاکستان اسلام کے نام بنا اور آئین کی بنیاد قرآن وسنت ہے۔ سود کی آیت نازل ہوئی تونبیۖ نے مزارعت کوسود قرار دیا۔ امام ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور ابن حنبل کے نزدیک زمین کو مزارعت پر دینا سود ہے۔ اسلام بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کا غلام بناتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے مسلمانوں اور بنی آدم کو غلامی سے چھٹکارے کیلئے محض عقیدۂ توحید نہیں سکھایا بلکہ غلامانہ نظام سے نکالنے کیلئے صالح نظام دیا۔ عقیدہ و نظام میںجبر مسلط نہ کیا۔ کسی نے مال کی دعا کرائی اور مالدار بن گیا۔ نبیۖ کو زکوٰة دینے سے انکار کیاتوپھر نبیۖ نے زکوٰة کیلئے قتال نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر نے زکوٰة پر قتال کا فیصلہ کیا توحضرت عمر نے اتفاق نہ کیا لیکن خلیفہ کی اطاعت کرنی پڑی ۔ خالد بن ولید نے مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد اس کی بیوہ سے عدت میں شادی کی۔ عمر نے کہا کہ” اس کوسنگسار کیا جائے”۔ ابوبکرنے تنبیہ پر اکتفاء کیا۔ چاروں فقہی امام متفق ہیں کہ ” زکوٰة نہ دینے پر قتال نہیں ”۔افغان طالبان نے نماز کا جبر چھوڑ کر قرآن وسنت پر عمل کیا ۔فقہ اور ملا عمر کے غلط طرزِ عمل سے رجوع بھی اسلامی انقلاب ہے۔
مسلم اُمہ کیلئے حضرت ابوبکر کی سیرت حجت ہے اور نہ ہی حضرت علی کی بلکہ رسول اللہ ۖ کی سیرت حجت ہے۔ قرآن میں اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کا حکم ہے اور رسول ۖ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا۔ اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ رسول اللہ ۖ اولی الامر تھے اور ایسی وصیت لکھوانا چاہ رہے تھے کہ جسکے بعد امت گمراہ نہ ہو تو حدیث قرطاس کی حضرت عمر نے مخالفت کی کہ ” ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے”۔ نبی کریم ۖ نے اپنی بات مسلط نہ فرمائی اور یہی قیامت تک سب مسلمانوںکیلئے بہترین نمونہ ہے۔
قرآن کے احکام کی عملی شکل نبیۖ کی سنت ہے۔ نماز اللہ کا حکم اور اس کو عملی جامہ پہنانا سنت ہے۔ حدیث قرطاس میںاولی الامر سے اختلاف تھا اور قرآن سے انحراف جائز نہیں۔ ”جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی ”۔ حدیث قرطاس قرآن اور نہ ہی اس پر عمل کرنا سنت تھا۔
بدر ی قیدیوں پر حضرت عمر و سعد کی رائے خون بہانے کی تھی۔ ابوبکر و دیگر صحابہ کی رائے فدیہ لیکر معافی کی تھی۔ نبیۖ نے عمر کی رائے کو نوح اور ابوبکر کی رائے کو ابراہیم کی رائے سے تشبیہ دی فرمایاکہ مجھے ابراہیم کی رائے پسند ہے اور اسی پر فیصلہ دیا۔ اللہ نے ابراہیم کو رحم کی دعا سے منع کیا اور نوح کی کافروں کیخلاف دعا کو قبول کیا۔ نوح کی دعا کا مظہر قرآن میں آیا کہ ” نبیۖ کیلئے مناسب نہ تھا کہ جب آپکے پاس قیدی ہوں حتیٰ کہ خوب خون بہالیتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اگر اللہ پہلے سے تمہارے لئے لکھ نہ چکا ہوتا تو تمہیں سخت عذاب دیتا” (القرآن)۔ نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے وہ عذاب دکھادیا جس سے عمر وسعد کے علاوہ کوئی نہ بچتا۔ نبیۖ نے علی کی بہن ام ہانی کے مشرک شوہر کوفتح مکہ میں پناہ دی ،علی نے قتل کرنا چاہا تھا۔ اسکا مشرک شوہر چھوڑ کر گیا تونبیۖ نے ام ہانی کو نکاح کاپیغام دیا۔انکار ہوا تواللہ نے وحی نازل کی کہ ”ہم نے تمہارے لئے ان چچا وماموں کی بیٹیوں کو آپ کیلئے حلال کیا جنہوں آپ کیساتھ ہجرت کی”۔ جس سے واضح ہے کہ نبی ۖ کا ہر قول اور فعل اللہ کی وحی ہرگز بھی نہ تھا۔اُم ہانی اولین مسلمانوں میں تھیں۔ معراج کا واقعہ انکے گھر میں ہوا۔اگریہ ابوبکر، عمر یا عثمان کی بہن ہوتی توشیعہ منطقی نتائج نکال نعوذ باللہ زانیہ، مشرکہ اور خبیثہ کی آیات کاثبوت دیتے۔
آئین میں قرآن وسنت سے عوام ، مقتدر اور مذہبی طبقے بہرہ مندنہیں۔ بدری صحابہ کے بڑے فضائل ہیں۔ ابوبکر ، عثمان اور علی و صحابہ کے بھی بڑے فضائل ہیں۔ رحمت للعالمین ۖ کی ہستی ہیں۔ جمہور کی رائے میں نیت کا کتنا خلوص اور ایمان کی کیسی چاشنی ہوگی؟ مگر قرآن وسنت میں عجیب وغریب قسم کی وضاحت ہے کہ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور پھر دنیا کی چاہت پر المناک عذاب کی خبر آیت میں موجود ہے اور دوسری طرف عمر اور سعد کی رائے صائب قرار پائی۔
ان آیات کے بعد قیامت تک کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن اللہ کی کتاب نہیں، نبیۖ کی تصنیف ہے۔ ان آیات اور سیرت رسول ۖ میں قیامت تک کیلئے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر چہ فیصلہ جمہوری بنیاد پر کیا جائے مگریہ ملحوظِ خاطر رہے کہ بڑی ہستیوں اور اکثریت کے باوجود اقلیت کی رائے کو حقیر نہیں سمجھاجائے۔ اسلامی جمہوریت کی یہی روح ہے ۔
جب فرد واحد یا اکثریت دوسروں کی نیت پر شک کرے اور خود کو ناگزیر قرار دے تویہ نمرودیت اورفرعونیت ہے۔ صحابہ نے تعلیم و تربیت اللہ سے وحی کی روشنی میں رسولِ خدا ۖ کی ذات اقدس سے پائی تھی۔ فتنوں کا دور ہے ۔ہماری کیا اوقات ہے؟۔ قرآن وسنت سے رہنمائی لیکر ہر نماز کی ہر رکعت میں حمد وثناء کے بعداللہ کی عبدیت اورمحتاجی کا اظہار کریں اور صراط مستقیم کی ہدایت مانگیں، ایسے لوگوں کا رستہ جن پر اللہ نے انعام فرمایا جس کے بعد ان پر نہ غضب ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔ الفاتحہ کی سات آیات بار بار دھرائی جاتی ہیں۔
سود کی حرمت کے بعد نبیۖ نے زمین کو مزارعت کے بجائے مفت میں دینے کی تقلین فرمائی تو کسی پر جبرو زبردستی نہیں تھی، صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا۔ محنت کشوں کی جان میں جان آگئی اور ان میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینہ شہر تجارت کا بہت مشہور بڑا مرکز بن گیا۔ مہاجر صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا کہ ”مٹی میں ہاتھ ڈالتا تو سونا بن جاتا”۔ اس نظام کی برکت سے غیر آباد زمینیں آباد ہونا شروع ہوگئیںاور غلہ واناج کی فراوانی سے حجاز ِپاک کی زمین مالا مال ہوگئی۔
انگریز قابض تھا تو نوابوں، خانوں اور بے غیرت پیروں کومقبوضہ زمینیں دیدیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے صحافی مہر بخاری سے پہلے کہا تھا کہ ”کرپشن کو تین اداروں سول بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ نے اپنے لئے لیگل کردیا اورانسٹیٹیوٹ کا حصہ بنادیا۔ جب2کروڑ کا پلاٹ 10لاکھ میں لیا جائے تو یہ ایک کروڑ 90لاکھ سیدھی کرپشن ہے اور اس میں بھی شہید ہونے والے فوجی سپاہیوں،سول جج اور سیکشن افسر اور اس سے نیچے لیول والوں کو کچھ نہیں ملتا ہے بلکہ جرنیلوں، بڑے گریڈ کے افسروں اور بڑے درجے کے ججوں کو سب کچھ ملتا ہے۔ اور اب جب میڈیا تو تھوڑا مضبوط ہوگیا ہے تو اس کو بھی حصہ دار بنادیا ہے لیکن اس میں شہید ہونے والے کیمرہ مینوں، رپوٹروں کوبھی کچھ نہیں ملتا ہے”۔
جاگیردارانہ نظام لونڈی وغلام بنانے کا بنیادی ادارہ تھا۔ جاگیرداروں کے نسل در نسل مزارعین غلام اور لونڈیاں بنتے تھے اور جن مزارعین کے بچوں اور بچیوں کو مزارعت سے اُٹھاکر منڈی میں فروخت کیا جاتا تھا تو اس پر ان کو ایسی خوشی ہوتی تھی جیسے پسماندہ ممالک سے افراد جب ترقی یافتہ ممالک میں محنت مزدوری کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ آج مزارعین جاگیرداروں کے غلام اور ہماری ریاستIMFکی لونڈی بن چکی ہے۔ عوام کی حیثیت خرکار کیمپوں میں اغواء مزدوروں کی طرح رہ گئی ہے۔
قرآن میں اللہ نے مسلمانوں سے وہ غلمان ایکدوسرے کو ہدیہ میں دینے کی پیش گوئی فرمائی کہ جو خوش ہونگے اور اس بات کا اظہار کرینگے کہ سخت گرم ہواؤں کی مشکلات سے زندگی کی سہولیات ملنے پر اللہ کا شکرادا کرتے ہیں اور صحابہ کرام سے لیکر محمود غزنوی کے غلام ایاز تک مسلمانوں کا کردار دنیا کیلئے باعثِ افتخار ہے۔ ہم نے مرکزیت کو چھوڑ کر گروہ بندی، فرقہ واریت اورفقہی مسالک میں مکڑی کے جالوں کی طرح بھول بھلیاں بنالی ہیں۔ جن کو قرآن وسنت کے واضح احکامات سے ملیامیٹ کرکے صاف کرنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔
جب حکمران طبقے نے خلافت کو اپنی لونڈی اور اسلام کے احکامات کو مسخ کرنا شروع کیا تو مذہبی طبقات نے جواز بخش دیا اور اسلام اجنبیت کے اندھے کنویں میں گرنا شروع ہوگیاتھا۔ اور اس حال پر پہنچادیاگیا کہ دین، علم اور ایمان تک رسائی عوام وخواص کیلئے ثریا کی حدکو چھونے کے مترادف ہے۔ نبیۖ نے سورۂ جمعہ کی آیت واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم ”اور ان میں سے آخر والے جو ابھی ان پہلوں تک نہیں پہنچے ہیں”کی تفسیر میں فرمایا کہ اگر دین، علم اور ایمان ثریا پر پہنچ جائے تو پھربھی فارس میں سے ایک شخص یا چند افراد اس تک پہنچ جائیںگے ”۔ ( بخاری ومسلم )کسی روایت میں دین کا ذکر آیا ہے ، کسی میں علم اور کسی میں ایمان کا ذکرہے۔ دین ، ایمان ، علم ایک ہی چیز کے تین نام ہیں۔ علم کے نہ ہونے سے دین بگڑ جاتا ہے اور دین کے بگڑنے سے ایمان بگڑجاتا ہے۔
قرآن واحادیث میں امت مسلمہ کے دو حصے ہیں ۔ پہلا حصہ اول سے لیکر درمیان تک کا زمانہ ہے ۔دوسرا حصہ درمیان سے لیکر آخر تک کا زمانہ ہے۔ سورة الحدید میں کفلین دو حصے واضح ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں میں ہوں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ لیکن درمیانے زمانے میں ایک کج رو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں اور میں اس کے طریقے پر نہیں۔
پہلے حصے میں اول سے خلافت راشدہ ، بنوامیہ، بنوعباس کی امارت ، سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت اور 1924ء سے لیکر موجودہ دور تک جبری حکومتوں کا دور ہے۔ جب تک یہاں سے دوبارہ خلافت علی منہاج النبوة کی پیش گوئی پوری نہ ہوجائے اس وقت تک پہلا حصہ رہے گا۔ جب خلافت علی منہاج النبوة قائم ہوجائے تو پھر مہدی اول امیر امت سے یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ تک رہے گا۔ صحابہ کرام کیلئے قرآن واحادیث میں بڑی خوشخبریاں ہیں اور دوجماعتوں کیلئے بھی خوشخبری ہے۔ ایک جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری جو حضرت عیسیٰ کیساتھ ہوگی۔ ہندوستان سے جہاد کرنے والی جماعت منہاج النبوة کی خلافت قائم کرے گی اور یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ تک چلے گا۔ جس کی حدیث کے اندر خوشخبریاں اور نشاندہی موجود ہے۔
دوسرے حصے میں بارہ اہل بیت کے امام ہیں جن پر منتشر اُمت متفق ہوجائے گی۔ امام خمینی نے اسلامی انقلاب برپا کیا مگر امت کا انتشار بڑھ گیا۔ پھر افغانستان سے ملاعمر کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا کیا گیا لیکن امت مسلمہ متفق نہ ہوسکی۔
امام کی تقرری کا فریضہ
شیعہ معتبر عالم دین علامہ طالب جوہری نے کہا کہ ” شیعہ مہدی کے انتظار میں ہیں، ہمارا عقیدہ ہے کہ پہلے گیارہ امام بھی ہم نے مقرر نہیں کئے، اللہ کی طرف سے آئے تھے۔ شیعہ کا انتظار میں بیٹھنا بنتا ہے لیکن ہمارے بھائی سنی کیوں انتظار میں بیٹھ گئے؟ ان کا عقیدہ ہے کہ امام کا مقرر کرنا مخلوق کا کام ہے۔ جب اتنے سارے امام پہلے بنالئے اور ان پر اتفاق رائے بنالی تو ایک اور مہدی پر بھی اتفاق رائے بنالو۔ ہم تو اپنے عقیدے کی وجہ سے منتظر ہیں لیکن تمہارا انتظار تو بنتا ہی نہیں ہے”۔
شیعہ مسجد کے امام کو پیش نماز کہتے ہیں۔ انکے نزدیک بارہ ائمہ اہل بیت کے سوا کوئی امام نہیں لیکن خمینی نے انقلاب برپا کردیا تو اپنے عقیدے کے منافی ان کوایک امام تسلیم کرلیا۔
جنرل ضیاء الحق دور میں بریلوی مکتب کے مولانا سید محمد جمال الدین کاظمی نے تمام مشہور مدارس سے فتویٰ پوچھاتھا کہ ”اہل سنت کے نزدیک امت پر ایک امام کا مقرر کرنا فرض ہے تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے”۔ دیوبندی اور دیگر معروف مدارس نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا تھا لیکن بریلوی مکتب کے معروف عالم دین علامہ عطاء محمد بندیالوی نے تفصیل سے فتویٰ دیا تھا کہ ” امام کا تقرر ایک شرعی فریضہ ہے۔ ایک قریشی امام کے بغیر جنرل ضیاء الحق کی موت بھی اسی طرح جاہلیت کی موت ہوگی جیسے مسلم امہ کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔ احادیث کے الفاظ ایسے ہیں اسلئے مجبوری میں یہ فتویٰ دے رہاہوں اور احادیث سے کوئی بھی ناراض نہ ہوگا”۔
جو احادیث خلافت اور جماعت کے حوالے سے ہیں ان کو مولانا فضل الرحمن نے اپنی جمعیت علماء اسلام پر فٹ کیا تھا۔ جب مولانا فضل الرحمن نے میرے سکول کبیر پبلک اکیڈمی کا افتتاح کیا اورکہا کہ ” اس خاندان کے بزرگوں کی خدمات ہیں اور اس میں عتیق جیسا اہل علم ہے ”اور ساتھ میں فتویٰ بھی جڑ دیا کہ جمعیت علماء اسلام جماعت ہے۔ من شَذ شُذ( جو پھسل گیا وہ آگ میں گیا)۔ میں نے جواب میں ” اسلام اور اقتدار” نامی کتاب لکھ دی۔ جس میں ثابت کیا کہ احادیث کی وعید کسی گروہ سے الگ ہونے کیلئے نہیں بلکہ اس سے خلافت کو قائم رکھنے والی جماعت مراد ہے۔ عاقل کیلئے اشارہ کافی ہے۔ پھر مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے انقلابی جہدوجد کا آغاز اور انتخابی سیاست چھوڑنے کا اعلان کردیا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اس راستے پر ان کو چلنے سے ڈرا دھمکا کربالکل روک دیا تھا۔
تحریک انصاف حکومت کو گرانے کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمن کو جاتا ہے اسلئے کہ تسلسل کیساتھ محنت کی۔ اپوزیشن نے PDMکا مشترکہ سربراہ بنالیا تھا۔ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن اور سبھی اس کو صدر مملکت بنانے پرمتفق ہوتے تو بھی اسٹیبلشمنٹ نے اجازت نہیں دینی تھی اسلئے کہ مولانا فضل الرحمن کی جڑیں اس سے پختہ ہوجاتیں۔ جنرل ضیاء الحق سے لیکر جنرل قمر جاوید باجوہ تک جتنے آرمی چیف آئے ہیں ان کو مضبوط ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ کمزور ہونے کی وجہ سے یہ منصب سپردکیا گیا ہے۔جب طاقتور عہدہ اور طاقتور شخصیت اکٹھے ہوجائیں توپھر اس سے مشکلات کے اندیشے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
مدینہ کے انصار طاقتور تھے اسلئے ان کو خلافت کا منصب سپرد کرنے کی کھل کرمخالفت ہوئی۔ حضرت ابوبکرنے خلافت کا منصب سنبھالا تو کمزور قبیلے سے تعلق تھا۔ حضرت ابوسفیان نے حضرت علی کو پیشکش کی کہ” اگر آپ کہو تو مدینہ کو پیدل اور سوار جوانوں سے بھردوں۔ ابوبکر سے منصب چھین کر آپ کو بٹھا دیں۔ کیا بنی ہاشم مرگئے کہ ان کے ہوتے ہوئے بنی تمیم کا ایک شخص اس منصب پر بیٹھ گیا؟ ”۔ علی نے پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا اسلام قبول کرنے سے پہلے کم دشمنی کی کہ پھر ان باتوں میں لگ گئے”۔ یہ قدرت کی حکمت تھی کہ سب سے مضبوط اور شریف خاندان کے فرد کو خلافت راشدہ کے آخر میں خلافت مل گئی ۔ ابوبکر، عمر ، عثمان کے بعد علی نے خلافت کا منصب سنبھالا تو علی کے بعد حسن اور حسین کی فضیلت کے مقابلے میں کس میں ہمت تھی ؟۔ لیکن پھر دست قدرت نے حسن سے صلح اور حسین سے شہادت کا کام لیا۔ پہلے بنوامیہ آئے اور پھر بنوعباس آئے۔ بنی امیہ سے زیادہ بنو عباس نے اہل بیت پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ بنی فاطمہ نے بھی ایک حصے پر خلافت قائم کی تھی لیکن لاڈلے حجراسود کو بھی خانہ کعبہ سے نکال کر لے اُڑے تھے۔آغا خانی اور بوہری اس سلسلے کی کڑیاں ہیں جن سے اہل تشیع کے فرقہ امامیہ والے اہل سنت کے مقابلے میں بہت زیادہ نفرت بھی کرتے ہیں۔
بریلوی مکتب میں حسینی اور یزیدی کی جنگ چھڑ گئی ۔ ایک طرف بے گناہ بے خطاء معاویہ معاویہ کے نعرے لگانے والے مولانا الیاس قادری ہیں جن کو شاید مدینہ میں شاہی خاندان نے مرکز بنانے کی اجازت دی۔ دوسری طرف حسینی بریلوی ہیں۔ مفتی فضل احمد چشتی اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان بھی جنگ چھڑ گئی ۔ علامہ فضل چشتی نے بریلوی مکتب کے مفتی احمد یار خان کی کتاب کا حوالہ دیاہے کہ ” جب امیرمعاویہ نے قسطنطنیہ کا لشکر یزید کی قیادت میں بھیجا تو حضرت حسین نے یزید کی قیادت میں جہاد کیا اورنمازیں بھی پڑھی ہیں”۔
اس سے پہلے کہ تفرقہ بازی اور مسلک پرستی سے فرقے آخری حدتک لڑجائیں، ایکدوسرے کیخلاف آگ بھڑکانے کا سلسلہ جاری رکھ کر مسلم امہ کا وجود ہی جھلس جائے۔ ایسے علمی نکات کی طرف آئیں کہ مسلم اُمہ شیروشکر ہوجائے۔ جب یزید سمیت جسکے دور میں کربلا کا سانحہ ہوا، مختلف ادوار میں حضرت ابوبکر سے لیکر سلطان عبدالحمید تک مسلم امہ میں مختلف خلفاء رہے ہیں تو آج ایک خلیفہ مقرر کرنا زیادہ اچھنبے کی بات نہیں ۔ داعش نے دولت اسلامیہ عراق وشام قائم کی تو مغربی ممالک سے بھی بہت سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے شمولیت اختیار کی تھی۔ عراق وشام کے علاوہ پوری دنیا میں بھی اس نے کھلبلی مچا دی تھی۔داعش خراسان اور داعش برصغیروپاک وہند سے آج بھی اس خطے کو بڑے خطرات کا سامنا ہے۔
ایک مرتبہ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو خلیفہ بنانے کیلئے ”خلافت آپریشن” کا منصوبہ بنایا گیامگر اتفاق سے پکڑکر ناکام بنادیاگیا۔ تحریک خلافت کی وجہ سے پاکستان بنامگر سول و ملٹری بیوروکریسی والے کہتے ہیں کہ ہم نسلوں سے ملکی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اب لوگوں میں ایک دوسرے کیخلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے اور اسکا سب سے زیادہ ذمہ دارہمارا سب سے بڑاطاقتور طبقہ ہے۔ غریب غربت کی آخری حد تک پہنچ گیا ہے اور ہرخوشہ گندم کو جلانے میں دیر نہیں لگائے گا۔
اگر پاکستان کے اصحاب حل وعقد اور مقتدر طبقات متفق ہوجائیں کہ دنیا کیلئے امام کا تقرر کرنا ہے اور صدر مملکت کی جگہ امام کا تقرر کردیں تو پاکستان کا نظام بدلنے میں بہت جلد مدد ملے گی۔ ہماری پارلیمنٹ نے عدالت کے وہ قوانین بھی نہیں بدلے جو انگریز نے ہمیں قابو کرنے کیلئے بنائے۔ حکمران جب مخالف پربغاوت کا مقدمہ بنانا چاہے تو اسکے الفاظ اور نیت کو بہانہ بناکر اس کی آزادی کو سلب کرتا ہے۔ حکمران اپنے مخالف پر ان دفعات کے تحت مقدمات قائم کرکے جیل میں بھیج دیتے ہیں۔ اس سے ریاست مستحکم نہیں ہوتی بلکہ مزید کمزور بنتی ہے۔
قائداعظم نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس سے کیا اور مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی عوام کو انگریز نے غلام رکھنے کیلئے ان انسانی حقوق سے محروم رکھا ہے جو برطانوی شہریو ں کو حاصل ہیں۔ پھر انہوں نے اپنی سیاست کا میدان مسلم لیگ کو بنادیا لیکن افسوس ہے کہ پاکستان بننے کے 75سال بعد مسلمانوں کی جان ان غلامانہ قوانین سے آج تک نہیں چھوٹ سکی ہے۔
جب متحدہ مجلس عمل کی بھاری اکثریت سے خیبر پختونخواہ میں حکومت تھی تو مولانا فضل الرحمن اور ہماری ریاست طالبان کے سامنے سرنڈر تھے۔ اسلام آباد میں افسر سرکاری نمبر پلیٹ لگانے سے ڈرتا تھا۔ جب ANP اور پیپلزپارٹی کی پختونخواہ اور مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تب بھی تحریک طالبان سوات کی شرعی عدالتوں کو قبول کرنا پڑا۔ جب وزیرستان اور سوات آپریشن ہوئے تو بھی طالبان نے ریاست کا ناک میں دَم کررکھا تھا۔ پھر پختونخواہ میں تحریک انصاف اور مرکز میں ن لیگ کی حکومت تھی اور ضرب عضب آپریشن تھا توآرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ ہوگیا۔ آج قبائل اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ پہلے افغانستان میں امریکہ تھا اور قبائل میں ڈرون حملے جاری تھے اور آج امریکہ ونیٹو بھی نہیں اور ڈرون کا مسئلہ بھی نہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے اور عوام میں ایک مضبوط بیانیہ چل رہاہے کہ ہماری فوج نے ہمیشہ پیسوں کی خاطر اس خطے کو تباہ کیا ہے اور طالبان دہشت گردوں کو بھی اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا ہے۔
اسلام آباد میں PTMکے دھرنے سے شروع ہونے والے نعرے ” یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے۔”نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو بھی خیبر پختونخواہ کیساتھ لپیٹ میں لے لیا۔ ن لیگ اور وکلاء کے جلسوں میں بھی ان نعروں کی گونج رہی ہے۔ قوم پرستوں سے لیکر ریاست پرست عمران خان تک ایک ہی بیانیہ ہے کہ یہاں فوج نے ڈالروں کیلئے روس کے خلاف امریکی جہاد کی افغان جنگ لڑی۔ پھر طالبان کے خلاف امریکہ سے ڈالر لیکر اس خطے کو تباہ کیا۔ افغان سفیر ملا ضعیف اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو حوالے کرنے سے بھی شرم نہیں آئی۔ نیوٹرل وہ مالخورجانورہے جو ڈالر کے شوق میں ہر طرح کے اخلاقی ، قانونی اور شرعی اقدار کو پامال کرنے میں دیر نہیں لگاتا ہے۔نہ صرف غلام ہے بلکہ دوسروں کو بھی غلام بناتاہے۔
یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے کا نعرہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزاراحمد خان کے بینچ میں بھی گونجا تھا اسلئے کہ وزیراعظم عمران خان کو حکم دیا تھا کہ آرمی پبلک سکول پشاور کا اتنا بڑا سانحہ ہوگیا تو اس میں اندر کے لوگ جب تک ملوث نہ ہوں اتنا بڑا واقعہ نہیں ہوسکتا۔ سپاہیوں اور چوکیداروں کو سزا ئیں دی گئیں۔ دفاع پر اتنازیادہ بجٹ خرچ ہوتا ہے۔ اس وقت کے آرمی چیف اور ISIچیف کو بھی پیش کیا جائے۔ ذمہ داری کی تھی تو کیس میں شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا؟۔
پہلے PDMسے فوج کی قیادت کے خلاف آوازیں آتی تھیں تو عمران خان ڈھال بنتا تھا اور اب عمران خان بول رہا ہے تو حکومت ڈھال بنتی ہے۔ یہ سب جھوٹ کا سیاسی عمل ہے اور سچ وہی ہے کہ جب خراسان کی طرف سے ایک لشکر تشکیل دیا جائے اور امام کے تقرر تک جہاد کا نعرہ بلند کیا جائے۔ پھر سیاسی جماعتیں دُم دبا کر بھاگ جائیں گی اور ریاست میں بھی دم خم نہیں ہوگا اسلئے کہ امریکی ڈالر بھی نہیں ملیں گے تو جنگ کس طرح سے لڑی جاسکے گی؟۔کیا ہم اس وقت کا انتظار کریں؟۔
اگر وہاں تک معاملہ پہنچنے سے پہلے پاکستانی قیادت امام کی تقرری کا فیصلہ کرلے تو اس خطے میں افغانستان اور ایران کو اس سے بہت ریلیف مل جائیگا۔ شرعی امیر کا تقرر دہشتگردی کی راہ میں رکاوٹ بن جائیگا۔ جس طرح لوگ شریعت کا حکم سمجھ کر جب بیوی کو تین طلاق دیتے ہیں تو عدت تک انتظار ہوتا ہے۔ پھر حلالہ کی لعنت کرواتے ہیں اور پھرازدواجی تعلق قائم کرتے ہیں۔ جو شریعت انسان کو بے غیرتی کی اس انتہاء پر مجبور کرسکتی ہے اس کیلئے دہشتگردی میں قربانی دینا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ امام کا تقر ر ہوگا تو پھر شریعت کے نام پر حلالہ کی جہالت سمیت دہشتگردی کی جہالت سے بھی نکالنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔
ریاست ، حکومت ، معاشرت کی سطح پر جتنا گند بھرا ہوا ہے ، اس میں مذہبی جہالت کسی سے کم نہیں ۔ اگر سب مل کر صرف اور صرف پاک فوج کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے تو یہ غلط ہے۔ جب تک آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ نہ ہواتھا تو دہشتگردوں کے خلاف فوجی عدالتیں بھی ہم نے قائم نہیں کی تھیں اور موجودہ عدالتوں کا حال یہ ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کو ISI پیسہ دیکر اقتدار میں لائی ۔ بینظیر بھٹو کا اقتدار اسلئے چلتا کردیا تھا کہ IMFسے پاکستان میں پہلی مرتبہ قرضہ 1989ء میں لیا گیا۔ زرداری کے گھوڑے مربے کھاتے ۔ پھر نوازشریف کی حکومت کرپشن کی بنیاد پر ختم کی گئی۔ پھر بینظیر بھٹو اقتدار میں آئی تو نوازشریف پر لندن A.1فیلڈ کے فلیٹ کی خریداری FIA کے تمام ریکارڈ کیساتھ ثابت کردی۔ IMFسے قرضہ لینے کا سلسلہ دونوں نے جاری رکھا ہوا تھا۔ پھر مرتضیٰ بھٹو اپنے گھر کے سامنے پولیس مقابلہ میں ماراگیا اور بینظیر بھٹو کی حکومت بھی ختم کی گئی۔ زرداری کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا اور نوازشریف کو دوتہائی اکثریت سے لایا گیا۔ پھر زرداری پرسوئس اکاؤنٹ اور سرے محل کے مقدمات چلائے گئے۔ دونوں نے IMF سے خوب قرضے لئے اور بیرون ملک خوب پیسہ منتقل کیا تھا۔ حبیب جالب نے جب اشعار میں کہا تھا کہ ” ہربلاول ہے ہزاروں کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے” تو بینظیر بھٹو کو بڑا غصہ آیا لیکن بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن نے جھوٹی وکالت کی کہ ”محترمہ جالب نے تو آپ کی تعریف کی ہے”۔
پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اسکے ریفرینڈم کی حمایت عمران خان کر رہا تھا۔ پرویزمشرف نے 2004ء سے 2008ء تک IMFکا قرضہ واپس کردیا تھا لیکن پھر 6ارب ڈالر IMFسے قرضہ لیا تھا۔ پرویزمشرف کے دور میں لندن A,1فیلڈ کے فلیٹ پر عدالت نے نوازشریف کو قید اور 14 کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ پھر سعودی عرب جلاوطنی سے معاملات ختم ہوگئے۔ براڈ شیٹ کے کیس سے پتہ چلتا ہے کہ پرویزمشرف نے آفتاب شیرپاؤ اور فیصل صالح حیات کے کیس کس طرح معاف کرکے پیٹریاٹ گروپ بنوایا؟۔ اور براڈ شیٹ میں میجر جنرل R امجد شعیب دفاعی تجزیہ نگار نے کس طرح قوم کا پیسہ ضائع کیا؟۔اگر پیپلزپارٹی چاہتی تو ق لیگ کو موقع دینے کے بجائے مولانافضل الرحمن کو وزیراعظم بنانے میں کردار ادا کرتی اسلئے کہ نوازشریف اور عمران خان نے بھی مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیا تھا اور ظفراللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم بن گئے تھے ۔ اگر MQMچاہتی تو بھی جمالی اور ق لیگ کو اقتدار سے محروم کیا جاسکتا تھا۔ لیکن مولانا فضل الرحمن کو اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار کی دہلیز تک نہیں چھوڑا اور سیاسی جماعتوں نے بھی اس کیلئے راستہ ہموار ہونے کے باوجود معاف نہیں کیا ہے۔
جب پرویزمشرف کے بعد پھر پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے باری باری اقتدار حاصل کیا تو یوسف رضاگیلانی کو اسلئے نااہل کردیا گیا کہ اس نے زرداری کیخلاف خط لکھنے سے انکار کیا۔ پھر نوازشریف دور میں پانامہ کا معاملہ سامنے آیا تو پارلیمنٹ میں نوازشریف نے تحریری بیان پڑھ کر سنایا کہ ”اللہ کے فضل و کرم سے 2005ء میں میں نے سعودی عرب کی وسیع اراضی اور دوبئی مل بیچ کر 2006ء میں لندنA,1فیلڈ کے فلیٹ خریدے۔ جسکے تمام دستاویزی ثبوت بھی میرے پاس موجود ہیں اور عدالت میں طلب کے وقت دکھا سکتا ہوں”۔
سوال اٹھائے گئے کہ اونٹوں سے اتنے پیسے منتقل کئے گئے یا کونسا طریقہ تھا ؟۔ منی ٹریل بتاؤ۔ عدالت نے طلب کیا توپھر قطری خط سامنے آیا اور پھر اس میں نقائص کی وجہ سے اس کا بھی انکار کردیا۔ عدالت جھوٹ کے ان پلندوں کو نہیں پکڑ سکتی تھی اسلئے کہ پہلے بھی اپیل کی ڈیٹ گزرنے کے باوجودعدالت کی طرف سے نہ صرف نوازشریف کیلئے دروازے کھولے گئے تھے بلکہ گزشتہ کیس، جرمانہ اور قید کی سزا میں کلیئر کردیا گیا تھا۔
جس عدالت میں کھلی کرپشن کے کیس نہ پکڑے جائیں تو وہ دہشت گردوں کو پکڑنے اور سزائیں سنانے کیلئے کہاں سے اپنے اندر اتنی صلاحیت پیدا کرتے؟۔ جب آرمی پبلک سکول پشاور کے واقعہ کے بعد فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو پھر دہشت گردی سے اس ملک کی جان چھوٹ گئی تھی اور اس سے پہلے GHQپر قبضہ سے لیکر مہران ایئربیس پر حملہ تک کیا کیا نہیں ہوا تھا؟۔ جس شخص جنرل راحیل شریف کو یہ کریڈٹ جانا چاہیے تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جرأت مندانہ اقدامات اٹھائے،اسی کو عدالت میں طلب کرنے کا کیا فائدہ تھا؟۔ اور جس نے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ،اسی آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ کیخلاف دہشت گردی کی ترویج کے نعرے لگنا بہت بری بات ہے۔ دہشت گردی کی کاروکاری میں پوری قوم کا منہ بھی کالا تھا اور جہاں ہر گھر میں دہشتگردی کی خوف وہراس سے حمایت کی جاتی تھی وہ تو جانتے تھے کہ دہشتگرد کس قماش کے لوگ ہیں؟۔ حکیم اللہ محسود کے گاؤں کوٹ کائی جنوبی وزیرستان میں انتہائی شریف انسان ملک خاندان اور اس کی فیملی کو شہید کیا گیا۔ جس میں ایک حافظہ قرآن بچی بھی تھی۔ قاری حسین اور حکیم اللہ بدقماش قسم کے افراد تھے۔ جب ان کو بیت اللہ محسود نے ہمارے واقعہ کے قصاص میں قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا تو انہوں نے کہا کہ ”ہم نے تیرے حکم سے بے گناہ خاندان ملک اور اس کی فیملی کو قتل کیا تھا اسکے بدلے میں تم بھی پھر قتل کیلئے تیار ہوجاؤ”۔ فوج کا اس وقت وزیرستان میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اگر محسود قوم چاہتی تو دہشتگردوں کو ٹھکانے لگانا مشکل نہیں تھا لیکن اس وقت لوگوں کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں اور ان پر خوف طاری تھا۔
میں قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گیا تو میرے گھر والوں اور عزیز واقارب نے طالبان کو سپورٹ کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ہمارا واقعہ ہوا تب بھی میرے ماموں کے گھر سے پاک فوج نے دہشتگردوں کی پک اپ پکڑ کر بارود سے اڑادی تھی ۔ جب مساجد، گھروں اور مذہبی جماعتوں سے لیکر سیکولر سیاسی لیڈروں تک سب طالبان کی حمایت کرتے تھے تو صرف فوج کو نشانہ بنانا زیادتی ہے۔ عدل و انصاف کا معاشرہ قائم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ امام کے تقرر سے مرکزی خیال ایک ہوگا۔ قوم اتحاد واتفاق اور وحدت کے راستے پر گامزن ہوگی اور جس میں کوئی برائی ہوگی تو اس کو دور کرنے کیلئے باقاعدہ حکم جاری کیا جائے گا اور امر بامعروف اور نہی عن المنکر کا حق ادا ہوگا۔
داعش کا مطلب دولت اسلامیہ عراق وشام سے امامت کی تقرری کا فریضہ ادا نہیں ہوتا اور افغانستان کا امیرالمؤمنین بھی اپنے ملک تک محدود ہے ۔ پاکستان کا امیر المؤمنین دنیا کیلئے ہوگا، فلسطین وشام ، عراق وسعودیہ ، بھارت وامریکہ اور دنیا بھر کے مسلم وغیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کیلئے تاکہ پوری دنیا کے مسلمان اس گناہ سے بچ جائیں جس میں وہ امام زمانہ کا تقرر نہ کرنے کی وجہ سے مبتلاء ہیں۔ جب شیعوں کا امام مہدی غائب یا سنیوں کا مہدی موعود تشریف لائے توعیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور دجال اکبر کا خروج بھی ہوگا۔ مسلمانوں کا امام ان کی آمد سے پہلے اتحادواتفاق اور وحدت کا کارنامہ انجام دے چکا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی آمد سے پہلے گیارہ اور ایسے افراد بھی آئیں جن پر امت مسلمہ متحدو متفق ہوجائے۔
اگرقرآن وسنت کے احکام کی ایسی تشریح امام کریں جس پر بریلوی، دیوبندی ، اہلحدیث ، جماعت اسلامی، اہل تشیع اور جماعة المسلمین وغیرہ دنیا کے سب فرقے اور مسالک متحدومتفق ہوجائیں اور غیر مسلم بھی دینِ فطرت اسلام کی طرف راغب ہوجائیں تو مسلمانوں کی تمام مساجد میں اسلام کی فطری تعلیم کو بھی عام کیا جائے گا۔ پاکستان کے تمام ادارے فوج، عدالت، پولیس، سول بیورکریسی اور پارلیمنٹ فعال اور اپنے دائرۂ کار میں کردار ادا کریں گے تو دنیا بھر کیلئے پاکستان بہترین نمونہ بن جائے گا اور دیگر ممالک میں بھی اصلاح کا معاملہ شروع ہوگا۔
پاکستان مسلم قومیت کی بنیاد پر بنا۔ نبیۖ کو اللہ کی بارگاہ میں مسلمانوں سے شکایت ہوگی وقال الرسول یاربی ان قومی اتخذوا ہذا لقراٰن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ ہندوستان کے مسلمان آزادی سے پہلے اس بات پر لڑرہے تھے کہ قوم مذہب سے بنتی ہے یا وطن سے؟۔ علامہ اقبال نے دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کے بارے میں کہا کہ ” وہ کہتاہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے یہ کیا بولہبیہے؟” پھر ڈاکٹرا سرار احمد نے کہا کہ ” مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کہا کہ مسلمان پہلے ایک قوم نہیں تھے لیکن اب قوم بن گئے ہیں”۔
امام کا تقرر کرکے جمہوری خلافت کا نظام بڑا ناگزیرہوچکا ہے ورنہ خطرات اور فتنہ وفساد کی لپیٹ میں سب آجائیں گے۔
حقیقی جمہوریت کے قیام کا تصور
جماعت اسلامی کے امیر سیدمنور حسن سے سلیم صافی نے اگلوایا کہ ” طالبان کے مقابلے میں امریکی فوجی شہید نہیں تو پھر امریکہ کے اتحادی پاکستانی شہید ہیں؟”۔ سید منور حسن نے کہا کہ ” یہ سوال تو آپ سے پوچھتا ہوں کہ پھر وہ شہید ہوسکتے ہیں لیکن آخر کہہ دیا کہ ظاہر ہے کہ امریکہ کے اتحادی ہمارے فوجی بھی شہید نہیں ہیں”۔ اس پر جماعت اسلامی والوں نے ایک طرف سلیم صافی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دوسری طرف منورحسن کو امارت سے اتار دیا۔ جب اسلامی جمہوری اتحاد ISIنے ہی بنوائی تھی جس کے صدر غلام مصطفی جتوئی تھے جو پیپلزپارٹی کے بھگوڑے اورIJI کی دیگر جماعتوں مسلم لیگ جونیجو یا مسلم نواز سمیت سب کیلئے گھوڑے تھے۔ اس وقت نوازشریف کی حیثیت پنجاب کے کھوتے سے زیادہ نہیں تھی۔ یہ ساری پود جماعتیں اور شخصیات عوام پر تھوپی گئی ہیں۔ فوج کے پیچھے ہٹنے اور سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا خیرمقدم کرنا چاہیے لیکن جب وزیراعظم کی سکیورٹی فوجی اہلکار کے ذمہ ہوگی جو جلاد کی طرح پشت پر کھڑا رہے گا تو فوج کی اس سے زیادہ مداخلت کیا ہوسکتی ہے؟۔ نوازشریف کو111بریگیڈ نے غائب کردیا تھا۔ عمران خان استعفیٰ نہ دینے کیلئے ڈٹا ہوا تھا کہ BBCنے خبر بریک کردی کہ عمران خان کو چھترمارکر جانے پر مجبور کیا گیا۔
وزیراعظم اور ملک کی تمام اندرونی سکیورٹی سول پولیس کو دینی چاہیے اور جس طرح ARYکے اینکروں پر نامعلوم لوگ FIRکا اندراج کرچکے ہیں، یہ سول سپرمیسی کی دلیل نہیں ہے اور دوسری طرف جب تک پاک فوج سے مدد نہیں لی جائے تو فوج کی پالی ہوئی پارٹیاںاور مذہب وسیاست کے نام پرایسی شخصیات ہیں جن کو پولیس قابو نہیں کرسکتی ہے اور جب تک ہم حقیقی جمہوریت کا قیام عمل میں نہ لائیں توفوج ضرورت ہوگی۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے سب سے پہلے ان اپنی موروثی پارٹیوں اور شخصیت پرستی سے جان چھڑانی ہوگی۔ جن خاندانوں کی بنیاد پر پارٹیاں چلتی ہیں ان پر پابندی لگانی چاہیے کہ وہ کسی طاقتور عہدے کیلئے پرائیوٹ اور سرکاری سطح پر اہل نہیں ہوں گے۔ سزایافتہ مریم نواز اور نوازشریف کو سرکاری پروٹوکول مل رہاہے اور وزیراعظم شہباز کے عدالت کو مطلوب صاحبزادے ترکی کے سرکاری دورے کا لطف اٹھارہے ہیں۔
عدالتی فیصلے نے لوٹا کریسی ختم کردی یا پارٹی کے ارکان پر اعتماد نہیں ہوسکتاہے؟۔ جب نوازشریف نے حکم دیا تو قمر باجوہ کی توسیع پر بھی ن لیگ مجبور ہوگئی۔ اور پھر نام لیکر ساری خرابی کا بھی جنرل قمر جاویدباجوہ کوہی ذمہ دار قرار دیتا رہا۔ایسی پارٹی شلوار ہے یا پاجامہ ؟۔ اس کا تعین کرنا بھی بہت مشکل ہے۔
بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام اکثریتی جماعت بن کر بلدیاتی انتخابات میں سامنے آئی ہے اور ا س سے پہلے پختونخواہ میں بھی آئی تھی۔ حامد میر کے پروگرام میں ڈاکٹرخالدسومرو کے بیٹے کے سامنے انصار عباسی نے مولانا فضل الرحمن کو GHQ کی طرف سے زمینیں الاٹ کرنے کا صرف الزام نہیں لگایا بلکہ دستاویزی ثبوت اور زمینوں کے الاٹ نمبر بھی دئیے تھے۔ مردان کے سپین جماعت کے خطیب بریلوی ہیں اور کس کے کہنے پر جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوئے ہیں؟۔ جس طرح بلوچستان میں اتنی تعداد میں آزاد ارکان پاس ہوئے ہیں کہ اگر تمام پارٹیوں کو ملایا جائے تب بھی آزاد ارکان کی تعداد ان سے زیادہ ہے۔ اسی طرح آئندہ انتخابات میں پارٹیوں سے زیادہ آزاد ارکان پارلیمنٹ پر راج کرسکتے ہیں جس کی پیشگی اطلاع کا سیاسی تجریہ آصف علی زرداری نے چند ماہ پہلے دیا ہے۔
آزاد ارکان ایک منشور کے تحت ایک انتخابی نشان سے حصہ لیں اور منشور میں تمام سرکاری جائیداد پر سیاسی پارٹیوں و دیگر اداروں کے ناجائز قبضوں اور اپنے نام پر الاٹ کرنے کو ختم کیا جائے اور جائز زمینوں کو مالکان خود کاشت کریں یا پھر مزارعین کو مفت فراہم کریں۔ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ”کیا ہم عمران خان کے کوئی مزارع ہیں”۔ جب جاوید ہاشمی نے ن لیگ چھوڑی تھی تو بھی یہ کہا تھا کہ ”ہم نوازشریف کے مزارع نہیں ہیں”۔ مزارع کا لفظ سندھ وپنجاب اور پاکستان میں غلام کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ جب مزارع کو مفت میں زمین ملے گی تو کاشتکار سب سے معزز لفظ بن جائیگا ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔اناج امپورٹ نہیں ایکسپورٹ ہوگی تویہ ملک فوری طور پر اتنی ترقی کرے گا کہ IMFکے قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ جب اسلامی قوانین کا نفاذ ہوگا تو پھر مریم نواز اور پنجاب کے ایک مزارع کی بیٹی کی عزت قانون کی نظر میں ایک ہوگی۔ مذہبی اور سیاسی طبقات سورۂ نور کے ذکر سے بھی مرتے ہیں جہاں نبیۖ کی زوجہ پاک حضرت اماں عائشہ صدیقہ پر بہتا ن لگانے کی سزا80کوڑے ہے اور عام عورت پر بہتان لگانے کی بھی 80کوڑے کی سزا ہے۔ جبکہ یہاں کسی کی عزت اربوں میں ہے اور کسی کی کوڑی برابر نہیں۔ کسی کیلئے10کروڑ بھی مشکل سزا نہیں اور کسی کیلئے دس ہزار بھی بڑی سزا ہے اسلئے کہ امیر وغریب کے پیسے برابر نہیںہیں۔ لیکن 80، 80کوڑوں کی سزا میر وغریب کیلئے برابر ہے۔
جب مزارع آزاد ہوگا تو اس کا ووٹ بھی آزادہوگا ، اس کی عزت بھی آزاد ہوگی ، وہ تعلیم ، صحت اور معاشرے کی تمام سرگرمیوں میں برابر حصہ لے گا وہ کسی کی خیرات زکوٰة سے نہیں پلے گا بلکہ دوسرے لوگ اسکے عشر سے پلیں گے۔اسکا ہاتھ نیچے والا نہیں اوپر والا ہوگا۔ اس سے مزدور کی دیہاڑی بھی جاندار بن جائے گی اور دکاندار بھی اس محنت کشوں میں دنیاوی طاقتور ہونے سے خوشحال بن جائیگا۔ روس وچین اور دنیا میں مزدور ومحنت کش لوگوں سے ہمدردیاں رکھنے اورکارل مارکس کے نظریات والے اسلام کے شیدائی بن جائیں گے۔ قدر زائدکی درست تعبیر اسلامی نظام میں نظر آئے گی۔ جن لوگوں نے امام ابوحنیفہ اور دیگر فقہ کے تمام ائمہ سے انحراف کرکے مزارعت کا سودی نظام جائز قرار دیا ہے وہ دوسرے مسائل میں بھی حقیقی اسلام کی طرف متوجہ ہوں گے۔ جب محنت مزدروی میں کچھ ملنا شروع ہوگا تو مذہبی طبقات بھی محنت کش بن جائیں گے۔ جس کی وجہ سے سیاستدانوں اور اشرافیہ کی نالائق اولاد بھی گدھے گاڑیاں چلانے میں شرم محسوس نہیں کریںگی۔ ذہنی استعداد رکھنے والے افراد ڈاکٹر، استاذ ، سائنسدان اور تمام شعبوں میں کمال حاصل کریں گے اور ہاتھ پیر کی استعداد رکھنے والے بھی اپنے اپنے فن میں کمال حاصل کریںگے۔ آزادارکان جیت جائیں تو لابنگ کے بغیر کسی ایک کو منتخب کرلیں جس میں زیادہ استعداد نظر آتی ہو اور آزاد حیثیت میں منشور کو عملی جامہ پہنائیں اور حقیقی جمہوریت کو پاکستان میں قیامت تک جاری رکھیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ جون 2022

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اس مرتبہ دنیا میں تین عیدیں تھیں۔ پہلے دن افغانستان اور بعض ممالک میں عیدالفطر تھی۔ دوسرے دن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ اور سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں عید تھی اور تیسرے دن پاکستان کے باقی صوبوں میں عید تھی ۔
شاید کوئی یہ بات نہیں مانے کہ ٹانک ملازئی میں بھی اسی شام کو بعض لوگوں نے چانددیکھ لیا تھا جس دن پھر افغانستان میں شہادت کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ ایک ہندوستانی عالم دین نے ویڈیو جاری کی تھی کہ امارات اسلامی افغانستان میں اس دن چاند آسمان پر نہیں تھا لیکن شہادتوں کو قبول کرنے کی بنیاد پر عید ہوگئی ہے لیکن غلطی یہ ہوئی کہ جب مطلع صاف ہو تو کثیر تعداد میں شہادتوں کی بنیاد پر عید الفطر کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ جس کا جواب بھی افغانستان کی امارت اسلامی کے ایک ذمہ دار شخص کی طرف سے دیا گیا ہے کہ ہندوستان کے عالم کو غلط فہمیاں ہوگئیں ہیںکہ چاند آسمان پر نہیں تھا۔ حالانکہ ہم نے29روزے رکھے تھے اور وہ اس کو28روزے سمجھ رہا تھا۔ کتابوں کے حوالہ جات بھی درست نقل نہیں کئے ہیں بلکہ بعض ادھوری باتیں نقل کرکے عبارت کی آخری فیصلہ کن بات چھوڑ دی ہے۔
ہم نے بچپن سے دیکھا ہے کہ چاند عوام کو نظر آجاتا تھا لیکن پاکستان سے ہلال کمیٹی کا فیصلہ روزے اور عیدالفطر کے حوالے سے ایک دن بعد میں ہوتا تھا۔ پھر کراچی میں ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان نے فرمایا تھا کہ ”ہلال کمیٹی نے چاند کو نہیں دیکھا لیکن چاند نے ان کو ضرور دیکھا ہوگا”۔ ملازئی میں جن لوگوں نے چاند افغانستان کے حساب سے دیکھا تھا اور انہوں نے اس دن روزہ بھی نہیں رکھا توایک ذمہ دار ٹیم تشکیل دی جائے جس کے دو مقاصد ہوں ایک چاند کے حوالے سے تاریخ درست کرنے اور دوسرا یہ کہ وہاں ایک پہاڑی علاقے میں تیل وگیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ کافی عرصہ سے آگ خود بخود جل رہی ہے اور معمولی کھدائی سے بھی آگ بھڑک جاتی ہے۔ تاکہ گیس کے اس ذخیرے کو بھی عوام کیلئے کارآمد بنایا جاسکے۔ شہباز شریف نے چینیوٹ میں جن ذخائر کی بات کی تھی تو اس کی سچ اور جھوٹ کی حقیقت بھی عوام کے سامنے لائی جائے۔
ہلال کا فیصلہ کن معاملہ حل کرنا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ۔ جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ دیا تھا کہ لوگ ایک دن روزے کی قضاء رکھ لیں اسلئے کہ مرکز میں مفتی منیب الرحمن ہلال کمیٹی کے چیئرمین تھے اور یہ مسلکی جھگڑا بنایا جارہاتھا۔ ہم نے ماہنامہ ضرب حق کراچی میں مفتی تقی عثمانی کو اس وقت چیلنج کیا تھا کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر فتویٰ دینے والو ؟ تمہارے ایمان کا اس وقت پتہ چلے گا کہ جب مرکز میں عیدالفطر ایک دن بعد میں ہوگی اور متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد میں ایک دن پہلے عیدالفطر منانے کا اعلان کرے گی۔ عید کے دن شیطان کا روزہ ہوتا ہے اور پھر متحدہ مجلس عمل کیساتھ عید نہیں منائی تو سراپا شیطان بننے کا اعزا ز بھی حاصل ہوگا۔ وہ مہینہ تھا اور آج کا دن ہے کہ مفتی محمدتقی عثمانی کے دانت تک تبدیل ہوگئے مگر پھر لب کشائی کی جرأت بھی نہیں ہوئی۔
مفتی منیب الرحمن سے ہمارے ساتھ اشرف میمن کا مکالمہ بھی ہم نے نقل کیا تھا کہ جب سعودی عرب اور امریکہ ولندن میں وقت کا دس بارہ گھنٹے کا فرق ہے اور پاکستان وسعودیہ میں دو ، ڈھائی گھنٹے کا فرق ہے۔ اگر یہاں عید کا چاند ایک دن بعد ہوسکتا ہے توپھر وہاں اتنے فرق پر پانچ چھ دن کا فرق ہونا چاہیے تھا؟۔ اور جب محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ اسلام آباد میں فضاء غبار آلود رہے گی اور کراچی میں مطلع صاف رہے گا اسلئے کراچی کے ساحل سمندر سے چاند نظر آنے کا امکان ہے اور اسلام آباد سے چاندنظر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تو کراچی سے اسلام آباد چاند دیکھنے کے لئے آنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ جس کا مفتی منیب الرحمن نے تاریخی جواب دیا تھا کہ ” میاںیہ پا کستان ہے اس میں انجوائے کرو، انجوائے”۔ جہاز کے ٹکٹ، ہوٹل کے خرچے اور آنے جانے کے ٹی اے ڈی اے۔ پاکستان کا قرضوں سے بیڑہ اسلئے غرق ہوا ہے کہ جب بھی کسی چمتکار کو موقع مل جاتا ہے تو وہ چپت کار بننے میں دیر نہیں لگاتا ہے۔ جب آزادی ہوگی اور قانون سے پکڑکا خوف نہیں ہوگا تو جنت میں شجرممنوعہ کے پاس جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور بندہ نافرمانی بھی ضرور کرے گا۔
کراچی کی آلودہ فضاؤں میں پہلے دن نہیں دوسرے دن کا چاند بھی نظر نہیں آتا ہے۔ سندھ میں سندھیوں کورمضان کا بھی پتہ نہیں چلتا ہے۔ بلوچستان کے شہر اتنے دور دور ہیں کہ ان کا آپس میں بھی رابطہ نہیں ہوتا ہے تو دوسروں سے کیا رابطہ ہوگا؟۔ پنجاب کے لوگ کہتے ہیں کہ پٹھان جانے رمضان جانے۔ پٹھان کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی ہے۔ تو پھر دو،دو اور تین تین عیدوں کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر دنیا میں ایک خلافت کا نظام ہوگا تو ایک دن میں روزہ اور عیدالفطر کی تاریخ اور شرعی فریضہ ادا کیا جائے گا۔ ملک کا بندر بانٹ اور تقسیم کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے لیکن جب غیراسلامی تقسیم کو علماء ومفتیان ایک درجہ بھی دیتے ہیں اور ان کی شرعی حیثیت بھی قبول کرتے ہیں تو خلافت اسلامیہ کی بات بھی مان جائیں گے۔ اپنا روزہ اور عید درست کرنے کیلئے بھی عالمی خلافت کیلئے اپنا بھرپور زور لگائیں۔ قرآنی آیات کی بھی درست تشریحات کرنی ہوگی۔
رمضان کے بعد عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگردوسرے دن بھی پتہ چل جائے کہ عید کا چاند نظر آیا تھا تو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور اگرعید کی نماز کا وقت نکل گیا ہو تو پھر دوسرے دن عید کی نماز ادا کی جائے گی۔ یہ مسئلہ واضح ہے لیکن ہمارے رات9بجے تک چاند نظر نہ آنے کے بعد اس مرتبہ اعلان کردیا گیا۔ حالانکہ پچھلے سال رات12بجے کے بعد چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس مرتبہ ہلال کمیٹی کے چیئرمین صحافی مجیدنظامی وغیرہ سے کہا کہ9بجے ہم نے اعلان کردیا تھا،اس کے بعد پختونخواہ کی ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ لگتا ہے کہ پچھلے سال پنجاب اور مرکز میں بھی عمران خان کی حکومت تھی اور پختونخواہ میں بھی عمران خان کی حکومت تھی تو ہلال کمیٹی کے چیئرمین کو اپنی نوکری کا ڈر نہیں تھا لیکن اس مرتبہ پنجاب اور مرکز میں عمران خان کی حکومت نہیں تھی اور اگر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کی بات مان لیتے تو نوکری جانے کا خطرہ تھا۔ مریم نواز اپنے خاندان کے دورِ حکومت میں ان صحافیوں کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے جن کو سرکاری اشہارات دئیے جاتے ہیں۔ جیو نیوز اور جنگ گروپ اپنے مقاصد کیلئے معاملات کو اٹھاتے ہیں۔ باقی میڈیا کے صحافی حضرات ان کی اتباع یا مخالفت میں اقدامات کررہے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” روزوں کو تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے جیسا کہ آپ سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ یہ گنتی کے دن ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہو تم میں سے یا سفر میں ہو تو پھر دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلے۔ اور تم میں سے جو استطاعت رکھتے ہیں تو وہ مسکین کوکھانے کا فدیہ دیدے۔اگر کوئی زیادہ نیکی کرنا چاہے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ زیادہ بہتر ہے تمہارے لئے ”۔
اس آیت میں روزوں کے دن اور بیماری وسفر کی حالت میں ان کی قضاء فرض کی گئی ہے۔ مریض اورمسافر میں دوقسم کے لوگ ہوتے ہیں ،ایک غریب اور دوسرے امیر۔ غریب تو خود فدیہ کا مستحق ہوتا ہے اور امیر کو روزہ چھوڑنے کی صورت میں ایک مسکین کو کھانے کا فدیہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس سے زیادہ دے تو زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ اللہ نے ایک سہولت دی ہے اور اگر مال بھی عطاء کیا ہے تو پھر روزہ چھوڑنے کی صورت میں فدیہ دینے کی ترغیب ایک فطری بات ہے۔ البتہ چونکہ انسان کا نفس مشکلات سے فرار اختیار کرتا ہے اسلئے اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ سفر اور مرض کی حالت میں روزہ رکھ لو یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ حیلے بہانے سے روزے چھوڑنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جائیں کہ معمولی مرض اور آسان سفر میں بھی روزہ چھوڑ دیا جائے ۔ جس طرح گدھے کا روزہ چھوڑنے سے انسانوں کو تکلیف نہیں ہے اسی طرح انسانوں کا روزہ چھوڑنے سے اللہ کا بھی کچھ نہیں بگڑتا ہے لیکن بندے کے مفاد میں ہے۔
اس آیت سے علماء ومشائخ نے اپنے مالدار مریدوں، نوابوں، خانون اور بڑے لوگوں کیلئے یہ سہولت نکالی ہے کہ اللہ نے روزہ رکھنے اور فدیہ دینے میں سے ایک کا اختیار دیا ہے۔ حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور مرض وسفر کی حالت میں چھوڑنے پر قضا ادا کرنے کا حکم دیا ہے تو پھر فدیہ اور روزے میں سے ایک کا اختیار کیسے دیا جاسکتا تھا؟۔ اگر غریب غرباء کو بھی مساجد میں یہ حیلہ بتادیا جاتا تو ہزار پانچ سو روپے کمانے والا دیہاڑی دار طبقہ بھی کسی کو فدیہ دیکر اپنی مزدوری بہت آسانی سے کرسکتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں اعتدال پیدا کرنے کیلئے قرآنی آیات کو نازل فرمایا ہے۔ اس آیت میں مسافر ومریض کو بھی ترغیب دی ہے کہ روزہ رکھنا بہتر ہے تمہارے لئے۔ لیکن بعض لوگ اتنے نادان اور شدت پسند ہوتے ہیں کہ وہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے کہ جب سفر ومرض میں بھی روزہ رکھنا اللہ نے بہتر قرار دیا ہے تو پھر بہرصورت اللہ کی بات کو ترجیح دینی چاہیے اگرچہ مرض وسفر میں مرنے جیسی کیفیت تک بات پہنچ جائے اسلئے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں پھر روزے کو سفر ومرض میں چھوڑنے کی گنجائش کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اسلئے کہ تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کوئی مشکل نہیں ڈالنا چاہتا ہے بلکہ آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دونوں آیات میں اعتدال کا راستہ بتایا گیا ہے۔ ایک طرف حیلہ سازوں نے آیت میں اصل حکم سے ہٹ کر روزے کو عام حالت میں بھی فدیہ کے بدلے میں معاف کرنے کی بات کرڈالی اور دوسری طرف شدت پسندوں نے سفر و مرض میں سہولت کو بھی نظر انداز کرنے کا رویہ اختیار کرلیا ہے۔
طالبان کی افغانستان میں ایک ویڈیو جاری ہوئی جس میں مسافروں کوان کی سواریوں سے اتارکر روزہ نہ رکھنے پر سخت تذلیل کی سزا دی جارہی ہے۔ اگر اللہ نے نماز وروزے پر کسی سزا کا حکم نہیں دیا تو طالبان کو اپنی روش پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے۔ تصویر اور بے نمازی کیلئے حکم بدل گیا ہے یا حقیقت سمجھ آگئی ہے تو روزے پر بھی ترغیب کی حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ خواتین برقعے کی روایت پنجاب سے منتقل ہوئی ہے۔ بوڑھے افغانیوں سے پوچھا جائے تو وہ بتائیں گے کہ پہلے افغانستان میں کہیں پر بھی برقعے کا کوئی رواج نہیں تھا۔
میری طالبان سے ہمدردی ہے اور انہوں نے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور پھر آزادی حاصل کی ہے۔ افغان قوم انگریز کے دور سے جن مشکلات کا شکار رہی ہے اس میں بیرونی مداخلت سے زیادہ اندرونی معاملات بھی اہم عنصر رہے ہیں۔ جاندار کی تصویر کی ہم نے طالبان سے زیادہ پہلے مخالفت کی تھی لیکن جب علمی حقائق کا پتہ چل گیا تو ”جوہری دھماکہ ” نامی کتاب میں اس غلط مؤقف کی دھجیاں اڑا دیں۔ طلاق وخلع اور حلالہ کے حوالے سے بھی ہم نے بہت ہی واضح حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ اگر طالبان نے اس کی طرف دھیان دیا اور پاکستان سے مقتدر علماء کو بھی مجھ سمیت اس پر بحث کیلئے طلب کیا تو افغانستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کے آغاز میں دیر نہیں لگے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار تسخیر کائنات کی بات کی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں فرائض کی تسخیر اور اختلافات نے اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں کردار ادا کیا ہے اور تسخیرکائنات کے علوم میں خواتین وحضرات کے اندر برابر کی صلاحیت ہوسکتی ہے۔ دنیا نے اس تسخیر کے ذریعے اتنی ترقی حاصل کرلی ہے کہ مسلمان دنیاہر چیز میں ان کا محتاج بن کر رہ گئی ہے۔ قرآن میں جتنے فقہی احکام ومسائل ہیں ان کا احادیث صحیحہ سے کوئی تصادم نہیں ہے لیکن فقہ کی کتابوں میں اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ افغانستان میں پوری دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں کو اپنی اپنی شاخیں کھولنے کی اجازت ،ترغیب اور مکمل تحفظ کی ضمانت دی جائے تو جس طرح چین نے ترقی کرلی ہے اس سے زیادہ افغانستان تعلیمی اداروں کے ذریعے سے دنیا میں ترقی کرے گا۔ افغانستان میں غربت ، بچیوں کی فروخت اور تمام مشکلات کا خاتمہ ہوجائے تو طالبان دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔
میرے دادا سیدمحمدامیر شاہ کی قیادت میں1972ء میں ایک محسود قوم کا تین رکنی وفدافغانستان اسلئے گیا تھا کہ انگریز کے خلاف باہمی تعاون کریں گے اور پھر بیٹنی قبائل کا وفد میرے دادا کے بڑے بھائی سیداحمد شاہ کی قیادت میں گیا تھا۔جن کے بیٹے سید ایوب شاہ پڑھے لکھے تھے اور انہوں نے افغانستان میں ایک اخبار بھی نکالا تھا۔ پھر کچھ غلط حاسدین کی شکایت پر ان کو ظاہر شاہ کے والد نادر خان شاہ کے دورِ حکومت میں توپ سے اڑانے کی سزا سنائی گئی لیکن پھر ان کو جلاوطن کردیا گیا تھا۔ ہماری بیٹھک میں افغانستان کے ایک بادشاہ نے تین دن تک قیام بھی کیا تھا۔ امیرامان اللہ خان کیلئے لشکر تشکیل دینے والے پیر سعدی گیلانی عرف شامی پیر کی پہلی مرتبہ میزبانی میرے دادا نے کی تھی ۔ دوسری مرتبہ سیدایوب شاہ نے کی تھی۔ محراب گل افغان کے تخیلاتی نام سے علامہ اقبال نے جو اشعار بنائے ہیں ان میں وزیرومحسود اور دیگر قبائل کے نام بھی ہیں۔ قیامت کے دن تو مجرمین الگ کردئیے جائیں گے لیکن اس دنیا میں بھی مجرموں کو الگ کیا جاسکتا ہے۔ نبیۖ کی فتح مکہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ عزتدار لوگوں میں کوئی دشمن ہو تو بھی اس کو عزت سے نوازا جائے جب وہ دسترس میں آجائے تب۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہمارے ملک کا مین سٹریم میڈیا چنداشخاص کے گرد گھومتا ہے۔ نوازشریف، مریم نواز، شہبازشریف، حمزہ شہباز، آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ۔ مستونگ میں دو،ڈھائی سو بلوچ سراج رئیسانی کیساتھ مارے گئے لیکن میڈیا دکھا رہاتھا کہ نوازشریف اور مریم نواز لاہور ائرپورٹ پہنچ رہے ہیں اور شہبازشریف لاہور کی گلیوں میں جلوس گھمارہے ہیں لیکن اپنے اس ہدف تک نہیں پہنچ پارہے ہیں یا جان بوجھ کر ایک وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود ایک ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ پھر قوم نے انتخابات اور اسکے نتائج دیکھے اور عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ پھرPDMبن گئی، پرویزالٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی بات سامنے آئی لیکن مریم نواز کیلئے قابل قبول نہیں تھا اسلئے اس نے کھل کر کہا کہ ” عمران خان کو ہم شہید نہیں ہونے دیں گے”۔ پھر اب عمران خان کو بھی شہید کردیا گیا ہے اور پرویز الٰہی کی ساکھ بھی ختم ہوگئی ہے اور حمزہ شہباز بھی بہت تذلیل کیساتھ وزیراعلیٰ کے منصب پر بیٹھ گئے ہیں۔ ان لوگوں کا ماٹو یہ ہے کہ عزت آنی جانی چیز ہے کوئی عہدہ ومنصب ملنا چاہیے۔ اب پیپلزپارٹی، ن لیگ، جمعیت علماء اسلام ، ایم کیوایم اور بلوچستان کی قوم پرست و باپ پارٹی میں وزارتیں تقسیم ہوگئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اپنے بیٹے کیلئے جو وزارت چاہیے تھی اس پر اکرم خان درانی پہلے بھی اپنی کاروائی دکھا چکے ہیں اور اس میں لین دین ، کھانچوں ، مال کمانے اور مفادات اٹھانے کے سارے سربستہ حقائق معلوم ہیں۔ یہ سیاست اور مذہب نہیں بلکہ منافع بخش کاروبارہے۔اس سلسلے کو چلتا اسلئے رہنا چاہیے کہ اب یہ خانوادے اسکے بغیر جی نہیں سکتے ہیں۔

پرویزمشرف نےIMGسے6ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔ آصف زرداری نے16ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ نوازشریف نے30ارب ڈالر تک پہنچادیا اور عمران خان48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ جس کا گردشی سود بھی قریب قریب اپنے ملک کے کل آمدنی ٹیکس کے برابر ہے۔ یہ سارے قرضے ملک کی اشرافیہ کے نذر ہوجاتے ہیں ۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے روپیہ کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ سودی قرضوں پر سودی قرضے لینے کے نتائج عوام بھگت رہی ہے لیکن ہماری اشرافیہ اور مقتدر طبقہ ٹس سے مس نہیں ہورہاہے۔ دلّوں اور دلّالوں کو بدلتا ہے لیکن نظام کی تبدیلی کی طرف کوئی توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔
پدو مارنے سے نظام کی تبدیلی ممکن ہوتی تو سب کو بے عزت ہوکر اقتدار سے نکلنا نہ پڑتا۔ جو بھی آئے گا اس کی خیر نہیں ہوگی۔ جب تک کہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہے۔ شہبازشریف آٹا سستا کرنے کیلئے اپنے کپڑے بیچنے کی بات کرکے جو ڈرامہ بازی کررہاہے تو اس سے اہل بصیرت کو اندازہ لگانا چاہیے۔
رسول اللہ ۖ نے سود کی حرمت والی آیات کے نازل ہونے کے بعد سب سے پہلے زمینوں کو کاشتکاروں کیلئے فری کردیا ۔ جس سے دنیا میں غلامی کا نظام دنیا میں قائم تھا۔ جنگ بدر میں70قیدی بنائے گئے مگر کسی ایک کوبھی غلام نہیں بنایا اور نہ غلام بنانے کا سوچا جاسکتا تھا اسلئے جنگی قیدی کو غلام بنانے کا مفروضہ قطعی طورپر غلط ہے۔جنگی قیدی کو قتل کیا جاسکتا ہے، رہاکیاجاسکتا ہے یاپھر قید میں رکھا جاسکتا ہے۔قرآن نے یہ اجازت دی کہ جنگی قیدی کو فدیہ لیکر یا بغیر فدیہ کے احسان کرکے آزاد کیاجاسکتا ہے۔ابھی نندن کو قرآن کے حکم کے مطابق ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہمارا کوئی قیدی ہوتا تو تبادلے کی گنجائش بھی موجود ہوتی۔
اسلام دنیا اور مسلمانوں کیلئے قابلِ قبول نظام ہے لیکن اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ بیس سال بعد شریعت کورٹ نے سود کے خلاف فیصلہ دیا اور وہ بھی صرف انٹرسٹ (سود) کے لفظ کی جگہ کوئی اور لفظ لکھنے کیلئے۔ کیس لڑنے اور جیتنے والے جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کو شرم بھی نہیں آتی ہے جو اسلامی بینکاری کے ایجنٹ بن کر کام کررہے ہیں۔ سود کے عملی کام سے زیادہ خطرناک اسکو جواز فراہم کرنا ہے۔ آج ہمارا عدالتی، ریاستی اور معاشرتی نظام تنزل وانحطاط کا شکار ہے اور سب سے عوام کا اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے غلام سرور اور شہر یار آفریدی نے پارلیمنٹ پر خود کش حملے کی بات کردی تھی۔ شاری بلوچ نے خود کش حملہ کردیا۔ مین سٹریم میڈیا چنداشخاص اور مفادات کے گرد گھومتا ہے لیکن وائس آف امریکہ،BBCاور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی تعداد میں عوام کے ذہنوں کو بتدریج بالکل اُلٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ اگرچہ منظور پشتین جیسے لوگ بھی بیرونی میڈیا کی کوریج سے خوش ہوکر طلسماتی دنیا کے شکار ہوگئے ہیں اور عوام کا اصل اعتماد وہ کھوچکے ہیں۔ اگر بلوچستان اور دیگر سیاسی جماعتوں سے معاہدہ کیا تھا کہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو علی وزیر اور محسن داوڑ کو الیکشن میں حصہ لینے پر فارغ کردینا چاہیے تھا۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کی راہیں بھی جدا کردی گئیں اور جب ارمان لونی کے جنازے سے واپسی پر وزیروں کا جلسہ ہوا تھا تو علی وزیر اور محسن داوڑ اس میں جاسکے تھے لیکن منظور پشتین کو اجازت نہیں ملی تھی۔
اسٹیبلشمنٹ کے حامی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف باقی سب کو امریکہ کے ایجنٹ قرار دیتے تھے۔ANPکے بشیر بلور شہید سمیت کتنے رہنما و کارکن شہید کئے گئے۔آصف علی زرداری،MQM، محمود خان اچکزئی،PTM، مولانا فضل الرحمن ، بلوچ قوم پرست اور فوج کی سیاسی مداخلت پر غدار اور امریکہ اور بھارت کا ایجنٹ قرار دئیے جاتے تھے اور اب وہی صحافی عمران خان کو دوبارہ لانے کیلئے پاک فوج کو امریکہ ایجنٹ قرار دیتی ہے۔ کلاچی کے گنڈہ پوروں نے ایک لطیفہ بنایا تھا کہ ایک خاندان کے لوگ تھانیدار سے کسی بات پر نالاں تھے اور انہوں نے اس کی بے عزتی کا فیصلہ کیا۔ دوافراد تھانے میں گئے اور تھانیدار سے ایک نے کہا کہ اس نے میرا گدھا چوری کیا ہے۔ تھانیدار نے دوسرے سے پوچھا کہ سچ ۔ دوسرے نے کہا کہ یہ جھوٹ بول رہاہے۔ تھانیدار نے پہلے سے کہا کہ تمہارے گدھے کو کیسے چوری کیا ہے؟۔ اس نے کہا صاحب ! بطور مثال یہ سمجھو کہ آپ میرے گدھے ہو اور گند کی ڈھیر پر گوہ کھارہے تھے۔ اس نے تجھے کان سے یوںپکڑا اور چوتڑ پر لاتیں مارتے ہوئے تجھے ہنکاتا ہوا لے گیا۔ دوسرا شخص تھانیدار کے پیچھے کی طرف چلا گیا۔ تو پہلے نے کہا کہ اب تھانیدار کی ….. میں مت گھسو۔ دوسرے نے جواب دیا کہ تھانیدار کی ……میں میرا…… گھس رہا ہے۔ تھانیدار نے یہ دیکھ کر دونوں کو بھگادیا۔ امپورٹ حکومت اور کورٹڈاپوزیشن بھی سوچی سمجھے منصوبے کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی بے عزتی میں لگے ہوئے ہیں۔
پرویزمشرف سے زیادہ ملک کو قرضوں اور مہنگائی کا شکار پیپلزپارٹی نے کردیا تھا اور پیپلزپارٹی کو چوکوں پرلٹکانے ، پیٹ چاک کرنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے والی مسلم لیگ ن کی باری آگئی تو زرداری سے زیادہ سودی قرضے کے تحت ملک وقوم کو پھنسادیا اور پھر عمران خان کی حکومت آئی تو اس سے زیادہ قرضے لے لئے۔ عوام بیوقوف ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہمارا معاشی نظام سود ی قرضوں پر چل رہا ہے تو بھلائی کے دن ہم کب دیکھ سکتے ہیں؟۔ جو حکومت سے باہر ہوتا ہے تو اس کو دانت نکال کر فوج کو گالیاں دینی پڑتی ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ یہ انقلابی بن گیا ہے اور جو حکومت میں ہوتا ہے وہ فوج کے دفاع کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ جب عمران خان حکومت میں تھا تو نوازشریف اورPDMوالے فوج کو سب سے بڑی خطرناک بیماری کہہ کر جان چھڑانے کی بات کررہے تھے۔ لندن سے راشد مراد کا تعلق ن لیگ سے تھا اور کھریاں کھریاں کے نام سے فوج کی درگت بناتا تھا اور اب عمران خان والے دوسرے پیج پر آگئے ہیں۔ جب گھر میں تنگی ہوتی ہے تو بھائیوں میں بھی لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔ جب تک ہمارے ملک کا اپنا معاشی نظام درست نہیں ہوگا تو یہ لڑائیاں، بدتمیزیاں اور بدتہذیباں چلتی رہیں گی۔کوئی بھی کسی اورکا خیر خواہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں اور فوج کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ اور بگاڑ پیدا ہوتا رہے گا لیکن اب معاملہ لگتا ہے کہ بہت خطرناک موڑ پر پہنچ گیا ہے اور بنے گی اور بگڑے گی دنیا یہی رہے گی کا کھیل ختم ہوا چاہتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے۔
ریاست مدینہ نے سودکے خلاف آیات نازل ہونے کے بعد کاشتکاروں کو مفت میں زمینیں دیں تو محنت کش طبقہ خوش حال ہوگیا اور ان میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینے کا تاجر بھی خوشحال ہوگیا۔ مزارعین کی محنت کا صلہ دوگنا ہوگیا توپھر مزدور کی دیہاڑی بھی ڈبل ہوگئی۔ مدینہ عربی میں شہر کو کہتے ہیں ۔ یثرت تجارت کا مرکز بن گیا تو دنیا میں مدینہ کے نام سے مشہور ہوگیا اور اس ترقی کا سبب جب نبی کریم ۖ ہی تھے تو پیار سے لوگوں نے مدینة النبی کہنا شروع کردیا تھا۔ آج ہندوستان سے الگ ہوئے ہمیں75سال ہوگئے ہیں لیکن ان کے اور ہمارے نظام حکومت کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پختونوں اور بلوچوں سے بڑا برا حال پنجاب اور سندھ کا ہے ، اب ابھی دادو میں زمین کے پانی کے مسئلے پر ایک گاؤں جلایا گیا ، جس میں بہت سارے بچے جھلس کر شہید ہوگئے۔ سندھ کی انقلابی خاتون ام رباب کے پاس باقاعدہ گاؤں کے افراد نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ فلاں فلاں افراد نے پہلے دھمکی دی تھی اور پھر گاؤں کو جلا ڈالا ہے۔ جام عبدالکریم کے ہاتھوں ناظم جوکھیو کا بہیمانہ قتل اور مصطفی کانجو کے ہاتھوں ایک بیوہ کے اکلوتے بیٹے کا قصہ ایک مثال ہیں ورنہ سارے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ہیں اور یہی حال ہندوستان کے بہت سے علاقوں کا ہے۔
ہمارے ہاں لسانیت ، فرقہ واریت اور طبقاتی کشمکش نے سر اٹھالیا ہے اور ہماری قومی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ہے۔ مہاجر، سندھی، بلوچ، پختون اور پنجابی کے علاوہ بریلوی، دیوبندی ، شیعہ اور اہلحدیث کے علاوہ پرویزی ، غامدی اور تبلیغی جماعت، سپاہ صحابہ، جمعیت علماء اسلام اور ایک ایک فرقے میں کئی کئی جماعتیں اور ایک ایک جماعت میں کئی کئی گروہ بندیوں کا تصور عام ہے۔ سیاسی جماعتوں کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ریاستی اداروں کا حال بھی ویساہی ہے۔
اس مرتبہ ایک منشور کے تحت آزاد ارکان الیکشن لڑیں اور اس منشور میں واضح معاشی اور اسلامی دفعات ہوں۔ جو آزاد ارکان بھی اس منشور پر منتخب ہوں تو وہ ایک آزاد حکومت بنائیں۔ اس منشور کے دفعات بطور مثال یہ ہوں۔
(1:) پورے پاکستان میں مزارعین کو کاشت کیلئے مفت میں زمینیں دی جائیں اور جہاں جہاں بھی فارغ زمین ہو ،اس پر کھیتی باڑی، باغات اور جنگلی درخت لگائے جائیں جس سے محنت کشوں کو معقول آمدنی ملے گی اورباہمت لوگوں کو بہت بڑا روز گار ملے گا اور کم ازکم اگر دنیا نے امداد روک دی تو لوگ بھوکے نہیں مریں گے۔ بدحال لوگ خوشحال ہوجائیں گے تو پاکستان بننا شروع ہوجائے گا۔
(2:) جہاں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے وہاں ہمارا اتفاق نہیں ہورہاہے اور جس چیز میں اختلاف کی گنجائش ہے وہاں گنجائش کو ختم کرنے میں لگے ہیں۔ جب قرآن میں حضرت آدم سے لیکر خاتم الانبیاء ۖ تک انبیاء میں اختلاف کی گنجائش رکھی گئی ہے تو اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش کیوں نہیں ہے؟۔ جب اللہ نے اپنی آیات سے سورہ مجادلہ میں ایک عورت اور نبیۖ کا مجادلہ ختم کردیا تو ان آیات سے امت مسلمہ کے مسالک کا اتفاق کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ فرقہ واریت اور سیاسی معاملات میں اتفاق رائے کی طرف لے جانے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ سیاسی اختلافات بھی جلد ازجلد سمندر کی جھاگ کی طرح اُڑیں گے۔
(3:) قرآن میں کسی شادی شدہ عورت پربہتان لگانے کی سزا80کوڑے ہیں اور جب نبیۖ کی حرم ام المؤمنین پر بہتان لگایا گیا تو بہتان لگانے پر ان صحابہ کرام کو80،80کوڑے لگائے گئے جن میں نعت خواں حضرت حسان، حضرت مسطح اورحضرت حمنا بن جحش تھے۔ ہمارے ہاں کسی کی عزت کھربوں اور اربوں میں ہے اور کسی کی عزت کوڑیوں کے دام بھی نہیں ہے۔ اسٹیٹس کو توڑنے کیلئے ٹانگ اٹھاکر پدو مارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہماری اشرافیہ کو قربانی بھی دینی پڑے گی ورنہ تو ایسا وقت آئے گا کہ وہ کہیں گے کہ کاش ہم اشرافیہ نہ ہوتے اور غریب لوگوں کی قسمت پر فخر کریں گے۔ محسود قوم اور وزیرستان کے لوگ بڑا خود پر فخر کرتے تھے اور طالبان کے مظالم نے ان کو مزید خراب کردیا تھا مگر جب آزمائش کے دروازے کھل گئے تو کہتے تھے کہ کاش ہم بھاگڑی ہوتے۔
(4:)نکاح وطلاق اور ایگریمنٹ کے مسائل میں اسلام کی تبلیغ اور اس پر عمل کریں گے۔ حلالے کی لعنت کا اسلام نے تصور بھی ختم کردیا تھا لیکن پھر جاہل طبقات کی بدولت یہ رسم رائج ہوگئی۔ ہماری تعلیم یافتہ قوم میں قرآن کے واضح مفاہیم کو سمجھنے کی بڑی صلاحیت ہے اور عورتوں کی عصمت دری کاقرآن نے حکم نہیں دیا ہے۔ اسلام کو غیر فطری بنانے اور سمجھنے والوں کا راستہ روکنا ہوگا۔
(5:) ماں باپ کی جدائی کے بعد بچوں کے مفاد میں قانونی اور معاشرتی بنیاد پر قرآن کے احکام پر عمل در آمد کرائیں گے۔ بچوں کی وجہ سے ماں باپ میں سے کسی کو بھی قرآن کے مطابق تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(6:)عدالت کے نظام کو ظالموں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑیں گے اور عدالت کیلئے تاخیری حربوں کا استعمال بالکل ختم کردیں گے۔ آزاد عدلیہ کا اعلیٰ ترین تصور قائم کریں گے جس میں مداخلت کا کسی طرح سے بھی تصور نہیں رہے گا۔
(7:) پاک فوج کو سرحدات کی حفاظت اور جدید اسلحے کی ٹریننگ تک محدود کرنا ہوگا۔ شہروں میںپرتعیش ماحول میں رہنے والے جنگ کے قابل نہیں رہتے ہیں اور تجارتی مقاصد کیلئے فوج کی چھتری استعمال ہونے پر پابندی لگادیں گے۔ ٹول پلازے، روڈ کے ٹھیکے اور رہائشی کالونیاں اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازم بن کران کو فائدے دلانے کے معاملات پر پابند ی لگادیں گے۔
(8:) کسی بھی مجرمانہ سرگرمی میں عدلیہ، فوج ، پولیس اور سول بیوروکریسی کا کوئی ملازم ملوث پایا جائے تو اس کو سرِ عام زیادہ سے زیادہ سخت سزا ملے گی۔
(9:) فوج کو پہلے مرحلے میں ڈسپلن قائم کرنے کیلئے ٹریفک پولیس سے لیکر سوشل میڈیا پر جھوٹی افواہیں پھیلانے والوں کیخلاف استعمال کیا جائے گااور علاقائی بدمعاشوں سے لیکر لینڈمافیا کے خاتمے تک سب معاملات درست کرنے کی کوشش ہوگی۔ ریاستی اداروں کی عزت و توقیر میں کارکردگی کو بنیاد بنایا جائیگا۔
(10:) مساجد کے ذریعے سے معاشرتی مسائل کے حل میں بنیادی کردار ادا کیا جائے گا۔ منشیات فروشی کے اڈوں اوران کے سرپرستوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ قوم ، ملک اور سلطنت کو زندہ باد پائندہ باد کی منزل مراد پر پہنچایا جائیگا۔
منشور کے نکات سوچ سمجھ کرباہمی مشاور ت سے طے کئے جائیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امریکہ نے پاکستان کے سفیر کو دھمکی دے کر اپنی سازش کی تکمیل کا کوئی منصوبہ تو نہیں بنایا؟۔ مذہبی اور لسانی انتہاء پسند و دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیوں سے ملک و قوم کو اتنا نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں تھا جتنا ایک خط نے اپنا کرشمہ دکھایا ہے۔ اگر اس کی وجہ سے افرا تفری کی فضاء پھیل جاتی ہے اور ملک کا استحکام خطرے میں پڑ جاتا ہے تو یہ بڑی کامیاب سازش ہوگی۔ شہبا ز شریف اور عمران خان دونوں اسٹیبلشمنٹ کے سگے ہیں اور دوسروں کو سیکورٹی رسک کہنے والے اب خود سیکورٹی رسک بن چکے ہیں۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

سندھ کی معروف شخصیت نورالہدیٰ شاہ کی ٹوئٹ میں پاکستان کی زبردست عکاسی ہے جس میں فرح خان گوگی احتساب کے خوف سے بھاگی ہوئی ہے اور دوسری طرف خود کش بمبار شاری بلوچ نے وکٹری کانشان بنایا ہوا ہے۔
دوسری سائیڈ پر عیدالفطر کے دن کراچی میں بلوچ مسنگ پرسن کیلئے ایک بلوچ خاتون کی وائرل ویڈیو کی تصویر ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ” بلاول بھٹو زرداری کیا جانتے ہیں کہ پرامن جدوجہد، مذمت اور مزاحمت کیا ہوتی ہے اور کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا ہوتا ہے؟۔ جب ماما قدیر اور فرزانہ مجید کیساتھ ہماری خواتین، مردوں اور بچوں نے پہلے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا تو کن کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ پرتعیش کنٹینر میں شراب پی کر بلاول بھٹو زرداری کراچی سے اسلام آباد مارچ کرتا ہے تو اس کو مذمت اور مزاحمت کا کیا پتہ چلتا ہے۔ پنجاب میں ہماری بیٹیوں ،ماماقدیر اور فرزانہ مجید پر ٹرک چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری میں اگر بلوچ نسل اوپر سے کہیں ملتی ہے تو بلوچیت کا اظہار کرنے کیلئے ہمارے ساتھ یہاں سڑک پر بیٹھ جائیں”۔
جب اتنے بڑے لانگ مارچ کو بھی میڈیا میں کوئی اہمیت نہیں ملی کہ پہلے ماما قدیر کی قیادت میں کوئٹہ سے کراچی پیدل مارچ ہوا اور پھر جب ان کے مطالبے کو نہیں مانا گیا تو کراچی سے براستہ لاہور اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا تھا لیکن نہ مطالبات مانے گئے اور نہ ہی میڈیا میں کوریج مل سکی تھی۔ شاری بلوچ کا تعلق پڑھے لکھے خاندان سے ہے اور وہ خود بھی ایک انتہائی پڑھی لکھی خاتون تھی اور ایک خوشحال گھرانے سے اس کا تعلق تھا اور تربت مکران میں سرداری نظام نہیں ہے۔ عوام کی توجہ لکھنے پڑھنے پر ہے۔ جہاں کا ہر لکھا پڑھا بندہ خود ہی سردار ہے۔ غوث بخش بزنجو، میرحاصل بزنجو اورڈاکٹر عبدالمالک کا تعلق بھی تربت سے ہے اور غوث بخش بزنجو کو بابائے جمہوریت کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچ سٹودنٹ آرگنائزیشنBSOمیں اپنی جوانی گزاری۔ انقلابی سوچ کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کیا اور پھر ڈھائی سال کیلئے وزیراعلیٰ بھی بن گئے لیکن انقلابی جوانوں میں اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ پنجاب وسندھ ،خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں یہ فرق ہے کہ بے نظیر بھٹو، زرداری، نوازشریف اور عمران خان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اسٹیبلیشمنٹ کیلئے بدترین کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن جونہی اقتدار سے باہر آتے ہیں تو انقلابی بن جاتے ہیں اور ان پر عوام کو بھی انقلابی ہونے کا یقین آجاتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کی ایم آر ڈی میں مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں جنرل ضیاء الحق کے دستِ راست غلام اسحاق خان کو اس وقت صدر بنایا تھا کہ جب صدر کے پاس حکومت کو ختم کرنے کے اختیارات تھے۔ نوازشریف نے اقتدار کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ پر حملہ کرکے سپریم کورٹ کے پچھلے دروازے سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکس ٹینشن دینے میں اپنا کردار ادا کرنے کے بعد جونہیPDMکے پلیٹ فارم سے موقع ملا تو آرمی چیف اور ڈی جیISIکو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ مسلم لیگ کے کارکنوں اور پنجاب کی عوام نے مان لیا کہ نوازشریف اب انقلابی بن گیا ہے۔ پھر عمران خان تسلسل کیساتھ فوج کیساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتا رہالیکن اب فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے علاوہ ہر بات کی ذمہ داری فوج پر ڈال رہاہے اور فرح گوگی کی وکالت کررہا ہے تو پھر اس کی اپنی لیڈر شپ کہاں کھو گئی تھی؟۔ عمران خان نے اعتراف کیا کہ جنرل باجوہ اور فوج اگر نوازشریف کے خلاف عدالت کی مانیٹرنگ نہ کرتے تویہ سزا بھی نہیں ہوسکتی تھی جو اقامہ پر دی گئی ہے۔ جب پارلیمنٹ، میڈیا اور قطری خط کے علاوہ ناقابل تردید شواہد سے لندن کے ایون فیلڈ فلیٹ پر عدالت نے کوئی سزا دینے کے بجائے اقامہ پر سزا دی اور اس میں فوج کی پشت پناہی بھی تھی تو ایسے عدالتی نظام سے فرح گوگی کو کیا سزا مل سکتی ہے؟۔
عمران خان نے آخری بال تک مزاحمت کی جگہ آخر میں گورنر پنجاب کو ہٹادیا اور وزیراعلیٰ بزادر کو ہٹادیا اور اسد قیصر سے استعفیٰ دلواکر ایاز صادق کے ذریعے ووٹنگ کروائی۔ اب اس کے سوشل میڈیا کے جانثار عمران ریاض خان گوگی کہتا ہے کہ اب تک نام نہیں لیا نوازشریف تو نام بھی لیتا رہا لیکن جب ضرورت پڑی تو نام لیکر بھی بتائے گا کہ میرجعفر اور میر صادق سے مراد کون ہے ؟۔ اور وقار ملک بتارہاہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ………..یہ سب کچھ کیاہے اور ان کو ڈیلیٹ کا بٹن دبا کر واپس اس پوزیشن پر جانا پڑے گا۔ حامد میر نے بھی جنرل رانی کے بزدل بچوں کی بات کی تھی ، مولانا فضل الرحمن نے بھی امریکہ کا حشر کرنے کی دھمکی دی تھی اور عمران خان بھی حقیقی آزادی کی بات کررہاہے۔
چہرے بدل رہے ہیں لیکن نظام نہیں بدل رہاہے۔ قرآن نے مردوں کیلئے الرجال قوامون علی النسائ” مرد عورتوں کے محافظ ہیں”کی بات فرمائی ہے۔ ایک دوسرے پر فضیلت کی وجہ تحفظ فراہم اور مال خرچ کرنا قرار دیا ہے۔ اس میں حکمرانی کی بات نہیں ہے۔ ملکہ سبا بلقیس اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے دور کی حکمران تھی جس نے حضرت سلیمان کے خوف سے اطاعت اسلئے قبول کی تھی کہ جب ملوک شہروں میں داخل ہوتے ہیں تو عزتدار لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ یہ امر واقع بیان کیا تھا۔ مرد وں کو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے تحفظ اور مال خرچ کرنے کی جو ذمہ داری ڈالی ہے یہ امر واقع ہے۔ عورت کو بچے جننے ، دودھ پلانے اور پرورش کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا پڑتا ہے اور نازک اندام کی مالک ہوتی ہے اسلئے اس کی حفاظت کی ذمہ داری کی غیرت اللہ نے مردوں میں ودیعت فرمائی ہے۔ عورت فطری طور پر عاجز، صالحات اور اپنی عزتوں کی غیب میں بھی حفاظت کرنے والی ہوتی ہے اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں حساس قسم کی فطرت رکھی ہوئی ہوتی ہے اور یہ بھی امر واقع ہے جو اللہ نے قرآن کی ایک ہی آیت میں بیان کی ہے۔ نظام کا بنیادی تعلق گھر کے ماحول اور قوانین سے چلتا ہے۔ میاں بیوی اور والدین اور بچوں میں ایک گھر کا ماحول ہوتا ہے تو نظام کیلئے اس سے ملک وقوم کا آئینہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے مگر جب ریاست ڈائن بن جائے تو لوگوں کو ڈراؤنے خواب کے علاوہ کیا دیکھنے کو مل سکتا ہے؟۔ حکمران کا کردار باپ کی طرح ہونے کے بجائے ڈائن کی زن مرید والا بن جائے تو قوم وملک کی اس میں کس طرح بھلائی ہوسکتی ہے؟۔
پاکستان دنیا کا وہ عظیم ملک ہے کہ جس سے پوری دنیا کو بدلنے میں دیر نہیں لگے گی لیکن ہمارا ماحول عمران خان کیساتھ سیتا وائٹ، جمائما، ریحام، پنکی پیرنی اور ان کے بچوں والا بن گیا ہے اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور اس کی بیگمات والا بھی سمجھا جائے تو ٹھیک ہے بلکہ مفتی عبدالقوی اور اسکے سیکنڈلز بنانے والیوں کا سمجھا جائے تو برا نہیں ہے اور یہی حال حمزہ شہباز اور عائشہ احد کے علاوہ تہمینہ اور شہبازشریف کا تھا۔ اس سے زیادہ کہو تو نعیم بخاری کی اہلیہ طاہرہ سید اور نواز شریف کو چھپاکر مولانا سمیع الحق اور میڈم طاہرہ کا جو سیکنڈل دکھایا گیا تھا۔
حال ہی میں افغان طالبان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ جس میں ایک مجاہد کہتا ہے کہ دنیا بھر سے کافروں کا خاتمہ ہمارا مشن ہے، جہاد جس سر زمین پر فرض ہوگا وہاں ہم پہنچیں گے اور جہاد کریں گے۔ ہم نے جہاد سے غیرملکی طاقتوں کو افغانستان سے مار بھگایا ہے لیکن پھر ویڈیو کی آواز میں خلل آگیا اور یہ اس وقت کی ویڈیو ہے کہ جب پاکستان سے افغانستان کو بہت بڑی تعداد میں اناج وغیرہ کا امدادی سامان پہنچایا گیا ۔ حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کو افغانیوں کی مدد کیلئے بڑی رقم جاری کی تھی۔ افغانستان میں داعش کا وجود طالبان اورپاکستان کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے لیکن افغان طالبان اور داعش کی سوچ یہی ہوسکتی ہے جو ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ایک امیرالمؤمنین کو پوری دنیا کیلئے خود ہی نامزد کردیں۔ اگر عیسائیوں کا ایک پوپ ہوسکتا ہے تو مسلمانوں کا خلیفہ کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں شیخ الاسلام اور مفتی اعظم نہیں ہوتا تھا لیکن اچھا یا برا کوئی نہ کوئی خلیفہ ہوتا تھا۔
جب پاکستان کی طرف سے دنیا کیلئے خلیفة المسلمین کا اعلان ہوجائے تویہ ایک اسلامی فریضہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ افغانستان، ایران، سعودی عرب، ترکی اور تمام اسلامی ممالک کو جمہوری اور اسلامی بنیاد پر اس کو تسلیم کرنے کی بھی دعوت دی جائے۔ جو نامعلوم لوگ اپنی طرف سے کوئی خلیفہ مقرر کرکے دہشت مچائے ہوئے ہیں ان سے اس خطے اور مسلم دنیا کی اس فریضے سے جان چھوٹ جائے گی۔ جس طرح خلافت عثمانیہ کے دور میں ہندوستان کی مغلیہ سلطنت اور ایران ومصر اور حجازوغیرہ آزاد وخود مختار ریاستیں موجود تھیں اسی طرح سے پاکستان سے خلیفہ المسلمین کے تقرری کے بعد تمام ممالک کی خود مختاری کا وجود برقرار رہیگا۔ پھر جمہوری بنیادوں پر نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کے سارے انسانوں کو جمہوری بنیادوں پر تابع فرمان بنانے کی کوشش کی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام کے فطری نظام کو مسلمانوں سے پہلے مغرب کی حکومتیں قبول کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیں گی۔ ہماری افواج، سیاسی اشرافیہ اور انقلابی اور باغی لوگوں میں ڈھیر ساری خوبیاں بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ۔ جب خوبیاں ہم اجاگر کریں گے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں گے تو بہترین اور عزتدار انسان بن جائیں گے۔ ہم ایکدوسرے کی مخالفت اور دشمنی میں بہت کچھ کھو رہے ہیں لیکن تنزلی کی شکار قوم کو دلّوں اور دلّالوں سے عروج کی منزل پر نہیں پہنچاسکتے ہیں۔ اصحاب حل وعقد کو مل بیٹھ کر اسلام کے فطری نظام کے ذریعے سے قوم کی حالت بدلنے کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی توتب ہی ہمیںکوئی چھٹکارا مل سکے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

سود سے ملک غلام بنتے ہیں اورمزارعت سے خاندان

سود سے ملک غلام بنتے ہیں اورمزارعت سے خاندان

آج پاکستان50کھرب کے سودی قرضے میں جکڑا ہوا ہے جس میں 30کھرب تک نوازشریف اور اس سے پہلے پریزومشرف نے پہنچایا تھا۔ پرویزمشرف نے جتنا سودی گردشی قرضہ لیا تھا زرداری نے اس کو ڈبل کردیا تھا۔ یعنیIMFکے آٹھ کھرب کو16کھرب تک پہنچادیا اور نوازشریف نے پرویزمشرف اور زرداری سے دگنا قرضہ لیکر30کھرب تک پہنچادیا تھا۔ عمران خان نے ساڑھے تین سال میں نوازشریف سے بھی ڈبل قرضہ لیکر50کھرب تک پہنچادیا ہے۔ نوازشریف اور زرداری نے1990کی دہائی میں ہی ایکدوسرے کیخلاف سوئس اکاونٹ، سرے محل اور ایون فیلڈ لندن کے فلیٹوں کا بھانڈہ پھوڑ دیا تھا۔ پانامہ لیکس نے نوازشریف سمیت دوسرے بہت لوگوں کے بھانڈے پھوڑ دئیے اور پھر اس طرح براڈشیٹ نے بہت سے لوگوں کے چہروں سے نقاب اتار دیا تھا اور پھر ایک اور لیک نے بہت ساری حکومتی شخصیات اور دیگر کے بھانڈے پھوڑ دئیے تھے اور اب جنرل اختر عبدالرحمن کے سوئس اکاونٹ اور مفتی محمد نعیم کے پانچ ارب 34 کروڑ اور لاکھوں کے بینک اکاونٹ میڈیا پر زیرگردش ہیں۔ سیاستدان، جج، جرنیل، صحافی، سول بیوروکریسی اور ان کے ساتھی کرپٹ بلڈروں کے مال ومتاع اور ظالمانہ کرپشن کے معاملات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
گورنر پنجاب نے بتادیا ہے کہIMFکے کہنے پرپاکستان کے اسٹیٹ بینک نے پاکستان کی ریاست کو قرضہ دینا بھی بند کردیا ہے اور اب مالی معاملات پاکستان کی حکومت وریاست کی دسترس سے باہر ہیں اور جس سودی نظام سے2004سے2008تک پرویزمشرف نے ملک کا نظریہ بیچ کر چھٹکارا حاصل کیا تھا لیکن پھر خودہی اس میں کود گئے۔ زرداری، نوازشریف اور عمران خان نے نہلے پر دہلے کردئیے ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے سودی غلامی کو اسلامی غلامی کا نام دے دیا تو کیا اس کا کوئی فائدہ ہے؟۔
پہلے مزارعت سے افراد اور خاندان غلام بنتے تھے اوراب سودی نظام سے ملک غلام بنتے ہیں۔ ریاستِ مدینہ نے مزارعت کو سود قرار دیکر مزارعین کو مفت زمینیں کاشت کیلئے دی تھیں جسے اگر برقرار رکھا جاتا تو دنیا سے غلامی اور لونڈی کا نظام ختم کرنے کا سہرا امریکہ کے ابراہم لنکن اور اقوام متحدہ کی جگہ اسلام کے سر لگ جاتا۔ نبیﷺ نے آخری خطبے میں کالے گورے، عرب و عجم کے تعصبات کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور اپنے چچا کاخون اور سود معاف کرنے سے قتل وغارت گری اور سرمایہ دارانہ نظام کی بیخ کنی کردی تھی۔ اگر ہم پاکستان سے عورت کے حقوق اور اسلام کے معاشی نظام کی ابتداء کردیں گے تو پوری دنیا کے نظام کو قتل وغارت گری اور معاشی استحصال سے بچانے میں ایک زبردست کردار ادا ہوسکتا ہے۔ ایک اچھے نظام کا پہلے کہیں نمونہ پیش کرنا ہوتا ہے اور پھر دنیا بدلتی ہے۔ ریاست مدینہ نے قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتوں کو شکست اسی لئے دی تھی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جب مولانا فضل الرحمن، مذہبی طبقات اور سیاسی رہنماؤں کی طرف سے2020میں عورت مارچ کودھمکیاں دی گئی تھیں تو ہم نے طاقتوروں کے مقابلے میں کمزوروں کی مدد کی تھی۔

جب مولانا فضل الرحمن، مذہبی طبقات اور سیاسی رہنماؤں کی طرف سے2020میں عورت مارچ کودھمکیاں دی گئی تھیں تو ہم نے طاقتوروں کے مقابلے میں کمزوروں کی مدد کی تھی۔

جب2020میں 8عورت آزادی مارچ والوں کو مولانا فضل الرحمن، مذہبی طبقات اور سیاستدانوں کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا تھا تو ہم نے ماہنامہ نوشتہئ دیوار کراچی میں مظلوم عورتوں کی حمایت میں بہت کچھ لکھا تھا۔ کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد، سکھر، نواب شاہ،میرپور خاص، حیدر آباد اور کراچی میں ہنگامی بنیادوں پر عورت کے حقوق کے حق میں اپنا اخبار پھیلایا۔ لاہور میں پنجاب اور کراچی کے ساتھیوں نے کام کیا تھا اور7مارچ کی رات ہم لاہور پہنچے تھے۔6مارچ کو اسلام آباد میں ٹیم کی حوصلہ افزائی کی تھی۔8مارچ کی صبح عورت مارچ لاہور میں شمولیت کیلئے گئے۔TVچینل آپ نیوز کو ایک بھرپور انٹرویو بھی دیا لیکن وہ جرأت کرکے نشر نہ کرسکا۔ اسی طرح ایک معروف سوشل میڈیا کو زبردست انٹرویو دیا مگر اس نے بھی منافقت کرکے نشر نہیں کیا۔ اگر آپ نیوز اور سوشل میڈیا کے وہ انٹرویوز نشرہوجاتے تو مخالفت کا رُخ تبدیل ہوجاتا۔ اسلام نے جو تحفظ عورت کو دیا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے لیکن فقہاء نے جس طرح کاا ستحصا ل عورت کا اسلام کے نام پر کیا ہے اس کی مثال پوری دنیا کے کسی بھی مذہب اور قانون میں نہیں۔
ہم عورت مارچ کے شرکاء کو تحفظ دینے کیلئے قائداعظم یونیورسٹی کے طلباء سے تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کرنے گئے لیکن وہاں معلوم ہوا کہ پہلے سے عورت مارچ کی انتظامیہ نے اپنے کارکنوں کوبھیجا تھا۔ جب اسلام آباد سے اطلاع ملی کہ عورت مارچ کی خواتین بہت دباؤ میں ہیں اور مذہبی طبقے نے بالکل ساتھ ہی اپنا ڈیرہ جما رکھا ہے تو ہم نے لاہور سے بائی روڈ اسلام آباد بروقت پہنچنے کی بھرپور کوشش کی لیکن جب ہم پہنچے تو اس سے قبل ہی عورت مارچ والوں پر ڈنڈوں، جوتوں، پتھروں اور اینٹوں کی برسات کی گئی تھی اور پروگرام ختم ہوچکا تھا لیکن مارچ والوں کوDچوک سے پریس کلب جانا تھاکیونکہ خواتین کی گاڑیاں وہاں پارک تھیں۔ ہم نے پھر اس مرحلے میں ساتھ رہنے کی سعادت حاصل کی۔ ساتھیوں نے پہلے بھی شرکت کی تھی اور مشکل وقت میں ساتھ نہیں چھوڑا تھا جو تصاویر میں نمایاں ہیں۔ پرویزمشرف کے دور میں ایک بہت ظالم قسم کا فوجی افسر تھا جو سول بیوروکریسی کے افسران کیساتھ بہت ناجائز کررہاتھا لیکن پھر اس نے نیب کی وجہ سے خود کشی کی تھی۔ ظالم طالبان ہوں، سیاستدان ہوں، ریاستدان ہوں یا کوئی بھی ہو جلد یا بدیر اپنے انجام کو ضرور پہنچتا ہے۔ جب افغانستان کے طالبان اہل تشیع کے جلوسوں کو سیکورٹی فراہم کررہے تھے تو جامعہ حفصہ کے مولانا عبدالعزیز کہہ رہاتھا کہ شیعہ جلوسوں کو سکیورٹی فراہم کرنے والی پاکستانی ریاست طاغوت ہے لیکن اس غریب کو یہ پتہ نہ تھا کہ طالبان بھی یہی کام افغانستان میں کررہے ہیں جن کی وہ اسی وقت حمایت بھی کررہاتھا۔ طالبان کو چاہیے کہ کابل میں 8عورت آزادی مارچ کو اپنی خواتین کے ذریعے ایک اعلامیہ پیش کریں جس میں قرآن وسنت کے عین مطابق عورت کو آزادی اور وہ حقوق مل جائیں جس سے دنیا میں ایک اسلامی انقلاب کی راہ ہموار ہوجائے۔ کابل سے عورت کے اسلامی حقوق کا ڈنکا بجے گا تو امریکہ واسرائیل بھی حیران ہونگے کہ یہودونصاریٰ کے مذہبی طبقے کے نقشِ قدم پر چل کر مسلمانوں کے مذہبی طبقے نے بھی مذہب کے نام پر انتہائی غیر اخلاقی اور غیرانسانی قوانین بناکر عورت کو ظلم وجبر اور جانوروں سے بھی بدتر حالت پر پہنچادیا تھا۔ اگر عورت کواسلامی حقوق مل جائیں تو دنیا بھر میں پرامن اسلامی انقلاب کا راستہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

امت کے زوال کی دو وجوہات ہیں، ایک قرآن سے دوری اور دوسری امت کا فرقہ واریت میں بٹ جانا۔

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

پاکستان، بھارت، امریکہ، برطانیہ اور دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں، بادشاہتوں اور فوجی ڈکٹیٹروں نے اپنے اپنے طرز پر حکومت کرکے انسانیت کو تباہی وبربادی کے دہانے پر پہنچادیا۔ روس نے یوکرین پر قبضہ کیا تو اس میں امریکہ ونیٹو کا بھی زبردست کردار ہے۔ انسانی آبادی پر گرائے گئے بموں کے جلتے شعلوں سے آسمان لرز رہاہے۔ زمین دہک رہی ہے اور انسانیت جل رہی ہے۔ اب دنیا کو تباہی وبربادی سے بچانے کی صلاحیت صرف اسلامی نظام میں ہے مگر اسلامی نظام عام مسلمانوں کو تو بہت دور کی بات ہے علماء ومفتیان کے علم وفکر سے بھی بالاتر نظر آتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مولانا رشیداحمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنا ایک ہونہار شاگرد شیخ الہند مولانا محمود الحسن پیدا کیا۔ شیخ الہندؒ نے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ، مولاناشبیر احمد عثمانی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد الیاس، مولانا سیدانورشاہ کشمیری، مولانا عبیداللہ سندھی اورمولانا عزیر گل جیسے نامور شاگرد پیدا کئے تھے۔ پھر جب شیخ الہند مالٹا میں قید ہوئے تو جیل میں قرآن کریم کی طرف توجہ کرنے کا موقع مل گیا۔ جب1920ء میں آزاد ہوکر ہندوستان آگئے تو شیخ الہند کی رائے بالکل بدل چکی تھی۔ امت کے زوال کے دو اسباب بتائے۔ایک قرآن سے دوری اور دوسری فرقہ واریت میں امت کی تقسیم۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ ”فرقہ واریت کی لعنت بھی قرآن سے دوری کے سبب ہے“۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے شیخ الہندکے مشن کیلئے کام کیا مگرشیخ الہند کے دیگر شاگردوں نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔ پھر مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی آخر میں کہا کہ ”میں نے اپنی زندگی ضائع کر دی ہے اسلئے کہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی وکالت میں اپنی زندگی ضائع کردی ہے“۔
پاک وہندکے معروف علماء ومفتیان مولانا سیدمحمدیوسف بنوری،مفتی محمد شفیع،مولانا شمس الحق افغانی، مولاناسیدمحمدمیاں، مولاناادریس کاندہلوی، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک،مولانا قاری محمد طیب، مولانا محمد طاہر پنج پیری،مفتی محمود شیخ الہند ؒ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔ جن میں مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی حیات ہیں۔ شیخ الہند ؒ اور مولانا کشمیری ؒ نے اپنی آخری عمر میں فرمایا کہ ”قرآن وسنت کی خدمت کرنے کے بجائے فقہ کی وکالت میں زندگی ضائع کرد ی۔ مفتی اعظم مفتی محمد شفیع نے فرمایا کہ ”مدارس بانجھ ہوگئے ہیں۔ شیخ الہند مولوی کہلاتے تھے لیکن ان کے پاس علم تھا اور آج مولانا، علامہ اور بڑے بڑے القاب والے ہیں لیکن ان کے پاس علم نہیں ہے“۔ آج مفتی محمد شفیع کاایک بیٹا شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور دوسرابیٹا مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی ہے۔پہلے اندھوں میں کانا راجہ ہوتے تھے اوراب آندھیوں کی طرح ہر چیز جاہل طبقوں کی طرف سے ملیامیٹ ہورہی ہے۔ سودی بینکاری میں اصل رقم سلامت اور اضافی سود ملنے کے بعد بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کا فتویٰ دیدیا گیا۔ مثلاً بینک میں 10لاکھ پرایک لاکھ سالانہ سود بن گیا۔ اس میں 25ہزار روپیہ زکوٰۃ کے نام پر کٹ گئے اور10لاکھ اصل رقم بھی محفوظ رہی اور مزید75ہزار سود بھی مل گیا۔ مفتی محمودؒ نے زندگی کے آخری لمحے مفتی تقی اور مفتی رفیع عثمانی کو جامعہ نیوٹاؤن کراچی میں طلب کیا کہ بینکوں کے سودسے زکوٰۃ کی کٹوتی کا فتویٰ غلط ہے اور اس میں نہ سمجھ میں آنے والی راکٹ سائنس نہیں تھی۔
جب مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن نے پہلے عمران خان کی حکومت کو گرانے سے انحراف کیا تھا توہم نے نشاندہی کی تھی۔PDMنے23مارچ تک اسلام آباد پہنچنے کیلئے ایک لمبی تاریخ دی تھی،اب جب اس کا وقت قریب آگیا ہے تو عدمِ اعتماد کا شوشہ صرف اسلئے چھوڑ دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ڈر سے ن لیگ اور جمعیت علماء اسلام اصل میں لانگ مارچ سے بھاگ رہی ہیں۔ جن صحافیوں نے جھوٹ بول بول کر فضاء بنانے کی کوشش کی تھی کہ ن لیگ کا حلالہ ہوچکا ہے اور اب وہ خاتون اول بن کر امید سے ہے تو یہ کرائے کے صحافی کا اصل کردار بہت خطرناک ہے۔ میڈیا کو مکمل آزادی ہونی چاہیے لیکن کرائے کے صحافیوں کو آئینہ دکھانے کی بھی بہت سخت ضرورت ہے۔ شاہد خاقان عباسی، مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز متحرک ہوجاتے تو سیاست میں ہلچل مچ سکتی تھی لیکن یہ صرف اور صرف23مارچ کے لانگ مارچ سے جان چھڑانے میں لگے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv