پوسٹ تلاش کریں

Statements mentioned of Shaikh Ul Islam Mufti Taqi Usmani and Mufti Rafi Usmani, Study the opinion on Three Times Divorce (Teen Talaq)opinion given by Molana Dr. Abdul Razaq Sikandar principal of Jamia Binori Town and Maulana Anwar Badakhshani.

Keywords: Mufti Taqi Usmani, Teen Talaq, Divorce, Jamia Binori Town, Mufti Rafi Usmani


پاکستان میں مذہبی سیاسی عسکری اور سماجی شخصیات کا فرض بنتا ہے کہ بہت مشکل حالات پیدا ہونے سے پہلے پہلے افہام و تفہیم کے ذریعے سے معاملات کو سلجھایا جائے ۔

قرآن میں بہت آسان انداز میں جن مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے ان کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے بجائے لمبی چوڑی اور غیر فطری تفاسیر میں لوگوں کو الجھانے کا یہ نتیجہ ہے کہ آج امت مسلمہ قرآن کریم کی فطری تعلیمات سے بہت دور ہوگئی ہے۔
مفتی حسان عثمانی صاحب شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی (Mufti Taqi Usmani)کے صاحبزادے ہیں۔ ایک ہوشیار انسان سے کسی نے پوچھا کہ دنیا میں سب سے طاقتور آدمی کون ہے؟۔ اس نے بادشاہ کے صاحبزادے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ یہ سب سے طاقتور شخصیت ہیں۔ سائل نے حیرانگی سے پوچھا کہ ایک بے اختیار آدمی کس طرح سب سے طاقتور انسان ہوسکتا ہے؟۔ یہ بادشاہ کا بیٹا ہے لیکن اس کے پاس کسی قسم کی کوئی ذمہ داری اور اختیار نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے طاقتور ہوسکتا ہے؟۔ ہوشیار انسان نے بہت اعتماد کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس بیٹے نے اپنی بات اپنی ماں سے منوانی ہے اور ملکہ بادشاہ سے اپنی بات منواسکتی ہے۔ اسلئے سب سے زیادہ طاقتور یہی شخص ہے۔ گھروں میں صاحبزادوں کے ماحول کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔
ہمارے ایک ساتھی ڈاکٹر احمد جمال نے پورے اعتماد کیساتھ یہ توقع ظاہر کی تھی کہ جامعہ بنوری ٹان کے پرنسپل ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر تین طلاق کے مسئلے پر اور عورت کے حقوق پر اپنے تاثرات دیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے جب وہ تاثرات لینے کیلئے ڈاکٹر صاحب کے گھر پر حاضر ہوا تو ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے سے سامنا ہوا۔ پھر صاحبزادے کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھ کر ڈاکٹر احمد جمال بجا طور پر مایوس ہوگئے۔ جامعہ بنوری ٹان کے استاذ مولانا انور بدخشانی نے بھی فرمایا تھا کہ طلاق پر علم کے سلسلے میںہم کوئی رائے اپنی طرف سے نہیں دے سکتے ۔ دار العلوم کراچی میں یہ جرات ہے۔ دار العلوم کراچی کے ذیلی ادارہ اور مفتی تقی عثمانی (Mufti Taqi Usmani) صاحب کے شاگردوں کی طرف سے متعدد مرتبہ ہم سے کہا گیا ہے کہ بڑوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے ہمیں مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے لیکن جب تک بڑے کوئی قدم نہیں اٹھاتے تو ہم مجبور ہیں۔
ہماری طرف سے یہ استدعا ہے کہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی (Mufti Taqi Usmani) اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی (Mufti Rafi Usmani)اپنے مایہ ناز شاگرد مولانا عصمت اللہ شاہ اور دیگر حضرات سے ہماری ملاقاتوں کا اہتمام کرائیں انشا اللہ ہم کسی اچھے نتیجے پر پہنچ کر پوری امت کو بہت بڑے بحران سے نکالنے میں جلد از جلد کامیاب ہوں گے۔
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

وزیرستان میں غیرفعال و غیر حاضر اساتذہ پر”ماوا” خاموش کیوں؟

Waziristan, Corruption in Education, Education Policy in Pakistan, Mawa, Latest news about Education in Pakistan

وزیرستان میںغیرفعال و غیر حاضر اساتذہ پر”ماوا” خاموش کیوں؟
آزاد صحافت: تحریر شفقت علی محسود

نوٹ: کالم کے آخر میں نوشتہ دیوار کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ وہ جنہوں نے تعلیم پر توجہ دی وقت نے انہیں کامیاب کر کے دکھایا۔

تعلیم انسان کو شعور مہیا کرتی ہے ”شور” اور ”شعور” میں ”ع” حرف کا فرق ”علم”ہے۔

وزیرستان میں تعلیم کے حوالے سے سرکاری حکام کو دردِ دل کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے۔

(1:) تعلیم۔کی اہمت اور ماحول کا اثر:
تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ ممالک، شہر، قوم یا افراد جنہوں نے تعلیم پر توجہ دی وقت نے انہیں کامیاب کر کے دکھایا۔ تعلیم انسان کو شعور مہیا کرتی ہے اور ”شور” اور ”شعور” میں ”ع” حرف کا فرق ”علم”ہے۔اگر چہ تعلیم کے بعد انسان پر آسمان سے زر و دولت کی بوریا یا نوٹوں کے لفافے نہیں اترتے بلکہ علم سے حاصل شعور سے انسان دنیا کے خزانوں، مال و دولت، اور انسانی ذہن پر حکمرانی کا شرف حاصل کر لیتا ہے۔انسان پر ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے جو ماحول میسر ہوگا اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ ایک خانہ بدوش بچہ باقی دنیا سے کٹ کر صرف بھیڑ، بکریوں اور اپنے خیمے کی بات کریگا کیونکہ اسکے ماحول میں یہی چیزیں گردش کر تی ہیں ۔ اسی طرح اگر کسی تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانے کے بچے کو دیکھا جائے تو اسکے بول چال، عادات و اطوار گلی میں آوارہ بچے سے بالکل ہی مختلف ہونگی۔ یہ سب ماحول کی وجہ سے ہے۔نقل مکانی کے بعد وزیرستان کے لوگوں نے مختلف علاقوں میں رہائش کے دوران ماحول کا اثر لیتے ہوئے اپنے بچوں کو مختلف سکول اور مدرسوں میں داخل کرانا شروع کر دیا ہے۔
(2:)آپریشن کے بعد وزیرستان کا تعلیمی پس منظر اور رکاوٹیں:
میری تحریر کا مقصد وزیرستان کے موجودہ تعلیمی صورت حال پر روشنی ڈالنا ہے تو میں بات فوجی آپریشن کے بعد کے وزیرستان سے شروع کرنا چاہونگا۔فوجی آپریشن کے بعد اپنے آبائی علاقے میں واپسی شروع ہونے پر لوگ پاکستان کے دور دراز شہروں سے خاندان سمیت واپس وزیرستان میں آباد ہونا شروع ہوگئے ۔ جب دیکھا تو مکان، دکان، ہسپتال اور سکول مکمل طور پر منہدم ہو گئے تھے۔وزیرستان کا تعلیمی نظام مکمل طور پر غیر فعال تھا اب وزیرستان کو آباد کرنے کیلئے نئے سرے سے تعمیرات شروع کی گئیں ۔اکثر منہدم سکولوں کو دوبارہ تعمیر کر نے کا کام شروع کیا گیا اور جو سکول بچ چکے تھے وہ غیر فعال تھے۔پھر وقت کیساتھ ساتھ ان سکولوں کو فعال کرنا شروع کیا گیا۔پہلے سے موجود اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں تعلیم کی بہتری کیلئے ایجوکیشن مانیٹرنگ یونٹ بنائے گئے، نئے اساتذہ کو بھی بھرتی کیا گیا۔ خواندہ وزیرستان کے مقصد کیلئے مختلف ویلفئر بنائی گئیں۔ موجودہ تعلیمی سفر میں دو بڑے مسائل ہیں ۔غیر فعال سکول اور غیر حاضر اساتذہ ۔تعلیم یافتہ وزیرستان کے خواب کی تکمیل کیلئے ضروری تھا کہ موجودہ اساتذہ پوری ذمہ داری کیساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے لیکن ایسا نہیں ہو پا رہا ۔ اسکی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ فوجی آپریشن کے بعد اساتذہ کی تنخواہیں بدستور جاری رہیں اور (9) یا (10)سالوں تک بغیر ڈیوٹی انجام دئیے تنخواہیں وصول کرتے رہے تو شاید اس نے ان کو مفت خوری کا عادی بنا دیا ہو ۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپریشن کے دوران اساتذہ مختلف کاروبار پراپرٹی، ڈسپنسری، دکان اور زمیندارہ وغیرہ شروع کر چکے تھے اب بھلا انکو چھوڑ کر تنخواہ پر گزارہ کرنا آسان نہ تھا۔ دوسرا بڑا مسئلہ غیر فعال سکول ہیں۔یہ سکول فوجی آپریشن سے پہلے فعال تھے لیکن آپریشن کے بعد ان میں سے بعض کی عمارت منہدم ہونے کے بعد آج تک بنی نہیں یا عمارت تو موجود ہے لیکن ابھی تک سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئیں۔یا یہ وہ سکول ہو سکتے ہیں جنکو مالکان، مشران اور علاقے کے بااثر لوگوں نے ان کو بطور مہمان خانہ اور بیٹھک بنائے ہوئے ہیں ۔سکولوں کی دوبارہ بحالی اور اساتذہ کو سکولوں میں ڈیوٹی انجام دینے کیلئے مختلف علاقوں کے نوجوان اپنی جدو جہد کرتے رہے اور آئی ایم یو (IMU)تک اپنی فریاد پہنچاتے رہے مگر کچھ دنوں کی حاضری کے بعد پھر وہی غیر حاضری ۔یہ اساتذہ مختلف بہانے بنا کر ان نوجوانوں کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے کبھی علاقائی امن کا بہانہ بنا کر اپنے آپکو کو غیر محفوظ کہتے تو کبھی رہائش و سہولیات کی عدم دستیابی کا بہانہ کر کے خود کو بے قصور کہتے ۔لیکن ان اساتذہ کی غیر حاضری کسی بڑے سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں۔
(3:) ماوا کی غیر فعال سکولوں اور غیر حاضر اساتذہ پر خاموشی کیوں؟؟
ماوا کا قیام وزیرستان میں تعلیم کے فروغ اور خواندہ وزیرستان کے نعرے سے ہوا اور لوگوں نے بھر پور انداز میں خیرمقدم کیا۔ماوا وزیرستان میں تعلیمی فروغ کیلئے ایجوکیشن سٹی کا قیام عمل میں لایا اور توقع کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں اس سے کافی فوائد وابستہ ہیں،ماوا نے کچھ سکولوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا جس میں بچوں کو تعلیم فراہم کی جا رہی ہے ۔ اسکے ساتھ مختلف علاقوں کے غریب بچوں کو پاکستان کے مختلف سکولوں میں فری تعلیم دلوانے اور پہلے سے داخل شدہ بچوں کے اخراجات بھی ماوا برداشت کر رہا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ماوا خواندہ وزیرستان کے خواب کو پورا کرنے کیلئے نیا سیٹ اپ لانا چاہتا ہے ؟کیا ایجوکیشن سٹی اور دوسرے طرز کے سکول بنا کر پورے وزیرستان میں پھیلانا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اس سیٹ اپ کو پھیلانے میں وقت لگے گا، پانچ (5) سال کے بچے کو اگر آج ہی قلم کتاب نہ تھمائی گئی تو پانچ (5) سال کے بعد یہی بچہ کہیں پر مزدوری ، کلینڈری کرتا نظر آئیگا۔ ہماری وہاں مقیم ایک اور نسل جہالت کے اندھیرے میں ڈوب جائیگی۔چونکہ ہر علاقے میں سکول پہلے ہیں۔ ان سکولوں کا سٹاف بھی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں ہے۔ ان سکولوں کو فعال کرنے اور ان میں معیاری تعلیم کی کوشش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔اگر ماوا واقعی خواندہ وزیرستان دیکھنا چاہتا ہے تو پھر وزیرستان کے ہر علاقہ کے سکول کو فعال ، غیر حاضر اساتذہ کو ڈیوٹی انجام دینے کیلئے کوشش کرنی ہوگی ۔سرا روغہ گرلز مڈل سکول کے متعلق خبر چلی کہ سکول عرصہ سے بند ہے، آٹھ (8)فیمیل ٹیچرز کافی عرصہ سے غائب ہیں۔ کیا ضروری نہیں کہ اس طرف توجہ دی جائے۔ اکثر سکول غیر فعال ہیں یا اساتذہ غیر حاضر ہیں ۔کیا ماوا نے ان کی فعالی اور اساتذہ کی حاضری کیلئے آواز اٹھائی ہے اگر نہیں تو کیوں؟۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ متعدد سکول ماوا سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں یا انکے جان پہچان والوں کے زیر کنٹرول ہیں اور ان پر ڈیوٹی دینے والے اساتذہ انکے رشتہ دار ہیں؟۔وادی بدر کے غیر حاضر اساتذہ اور بند سکولوں کی بحالی کیلئے آواز اٹھائی گئی تو پہلے مختلف طریقوں سے ان نوجوانوں کو چپ کرانے کی کوشش کی لیکن جب نوجوانوں نے ایک نہ مانی اور مختلف ویڈیو رپورٹ سوشل میڈیا کمپیئن کے ذریعے انکے خلاف ڈٹے رہے تو ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران آئے اور علاقے کے مشران اور نوجوانوں کو دھمکیاں دیں کہ کیوں انہوں نے غیر حاضر اساتذہ کے خلاف ویڈیوز رپورٹ بنائیں۔اس واقعہ کی تفصیل مشران کی زبانی ایک ویڈیو میں موجود ہیں۔کیا ماوا اس سارے واقعہ سے با خبر ہے۔ اگر ہاں تو خاموشی کیسی؟ ۔اور اگر نہیں تو کیا خواندہ وزیرستان کا نعرہ صرف بروند اور مولے خان سرائے تک محدود ہے؟ ماوا کے ذمہ داروں کو لوگوں کے تحفظات دور کرنے ہونگے، اعتماد میں لینا ہوگا لیکن اگر ان کو نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں یہ تحفظات پوری جماعت کی ہونگی ،تب مطمئن کرنے میں کافی دیر ہو چکی ہوگی۔
جوابی تبصرہ : نور ولی محسود
محسود ویلفئیر ایسوسی ایشن اپنی بساط و دائرہ کار کے تحت مسئلے کو شروع دن سے ڈیل کررہی ہے۔ ماوا مشران نے ہر فورم پر اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ جب بھی متعلقہ محکموں کیساتھ بیٹھک ہوئی ہے، اس مسئلے کی جانب توجہ ضرور دلائی ہے۔ ابھی(5)مئی (2021) کو بھی ماوا کے مشران پر مشتمل ایک اعلی سطحی وفد نے سیکریٹری ایجوکیشن اور سیکریٹری ہیلتھ کے پی کے (KPK) کیساتھ خصوصی ملاقاتیں کیں۔ مقصد انہیں علاقے میں موجود غیر فعال تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کی نشاندہی اور ان کو از سر نو فعال کرنے کی جانب توجہ دلانا تھا۔ اگلی نشستیں عید کے بعد ہونگی۔
تبصرہ : ماہنامہ نوشتۂ دیوار کراچی
وزیرستان کی محسود قوم میں دونوں افراد کے جذبات کا مختصر خلاصہ پیش کردیا ہے۔ وزیروں نے اپنی ایک فلاحی تنظیم کے ذریعے سے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کا اہتمام کررکھا تھا اور یہ جذبات محسود قوم میں بھی جاگ اُٹھے ہیں۔ فوجی آپریشن سے پہلے بھی مسائل کا سامنا قبائل کے تعلیمی نظام کو تھا۔ البتہ فوجی آپریشن سے پہلے طالبان کی دہشت گردی اور پھر فوجی آپریشن کے بعد تعلیمی نظام کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ شفقت علی محسود نے بھی ایک تنظیم کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے اور اچھی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے۔ نور ولی محسود نے بھی معقول جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ بندوق اور بارود کی جگہ تعلیم اور شعور کی طرف متوجہ ہوں تو بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔
اسلام کی آفاقی تعلیم پر کامریڈ اور طالبان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ شعورکو اُجاگر نہ کیا گیا تو جاہلیت کا اندھیرا ماردے گا۔ علم کیساتھ نظام کا درست ہونا ضروری ہے ۔ یہ شعور کا خلاصہ ہے۔

The shameful role of smuggling coal from the heart of Waziristan, the forests of Badr Valley to Afghanistan continues with great shamelessness in Imran Khan’s government.

Plant for Pakistan, Plant for Pakistan Waziristan, Waziristan, Politics, Politics, Forests, Badr Valley, Badr Valley

وزیرستان کا دل وادیٔ بدر کے جنگلات(Forests) کوئلہ بناکر افغانستان because سمگلنگ کرنے کا شرمناک and کردار عمران خان کی حکومت میں بہت ہی بے شرمی و بے غیرتی کیساتھ جاری ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وزیراعظم عمران خان نے خیبر so پختونخواہ میں نئے درخت لگانے کا جوجھوٹا دعویٰ Badr Valley کیا تھا وہ تو اپنی جگہ لیکن وزیرستان کی بہار سرسبز وشاداب درختوں کے جنگل(Forest) بھی چوری کرکے کاٹ and دئیے گئے۔ وزیرستان میں گیس کا کوئی تصور نہیں ہے مگر لوگوں نے جنگلات(Forests) کی حفاظت پھر بھی کی ہے۔ وزیرستان کے دل and وادیٔ بدر کے درخت کاٹ کاٹ کر کوئلہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے جو افغانستان سمگل and ہورہے ہیں۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے؟۔ متعلقہ حکام کو اطلاع دی گئی مگر نوٹس نہیں لیا ۔
صدر. مملکت Badr Valley عارف. علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی. آئی ایس آئی and (ISI)، چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس

zarbehaq

پشاور ہائیکورٹ اسکا فوری نوٹس لے اور وزیرستان کی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے .and کے بعد کم ازکم جنگلات(Forests) . کو بچانے میں کردار ادا کریں۔ درخت اور جنگلات(Forests) توکوئی گناہگار نہیں ہیں؟۔ سوشل میڈیا پر اس کی مکمل ویڈیو اور تفصیلات موجود ہیں۔ ریاست کا کام عوام کو سہولت فراہم Badr Valley کرنا ہوتا ہے، معاشرتی برائیوں اور ماحولیاتی آلودگیوں سے ان کو بچانا ہوتا ہے لیکن ہماری because ریاست اپنی نااہلی اور مفادپرستی so کی وجہ سے اُلٹا. لٹکنے کو ہی so اپنا حق اور فرض but منصبی سمجھتی ہے۔ ایسے حکمرانوں پر بہت برا وقت جلد آسکتا ہے۔
پشاور کے میٹرو کوبرج Badr Valley کے ذریعے اٹھا کر. یونیورسٹی. روڈ پر رحم کیا جاسکتا. تھا مگر پرویز because خٹک اور عمران خان نے مہنگے ترین کاروباری مراکز کا بیڑہ غرق کردیا۔

عنقریب پاکستان بینک کرپٹ ہوجائے گا تو دنیا بدل جائے گی۔

عنقریب پاکستان بینک کرپٹ ہوجائیگا تو دنیا بدل جائیگی۔ ہم نے نوازشریف کے دور میں بھی لکھ دیا تھاکہ سود پر سود لینے کا سلسلہ جاری ہے۔دفاعی بجٹ سے گردشی سودی قرضہ زیادہ ہے ،پاکستان پر آئی ایم ایف قبضہ کرلے گا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عمران خان نے ٹھیک کہا تھا کہ آئی ایم ایف (IMF)میں جانے سے بہتر ہے کہ خود کشی کرلے لیکن نوازشریف کے سودی قرضوں کی وجہ سے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑگیا ، دلدل میں پھنس گئے !

مولانا فضل الرحمن اور مفتی محمد تقی عثمانی، تمام مذہبی طبقے اور سیاستدان ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے اسلام اور پاکستان کیلئے قربانی دیں،اللہ نے توبہ کا دروازہ تو کھلا رکھاہے !

ایک شیعہ مہمان نے کہاکہ حضرت علی نے فرمایا کہ ” جو انسان مسخ کردئیے گئے ان میں کچھ خشکی کے جانور میں بدل گئے بندر اورر خنزیر۔کچھ سمندری مخلوق میں بدل گئے۔ یہ مچھلیاں اصل میں انسان تھے جس کی شکل بدل گئی ہے۔ خرگوش بھی حرام ہے کیونکہ خرگوش واحد ایسا جانور ہے جس کو حیض بھی آتا ہے”۔ اس نے بتایا کہ امام جعفر صادق یا امام باقر سے کسی نے پوچھا کہ یزید توبہ کرسکتا ہے؟۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کادروازہ بند نہیں کیا لیکن یزید کو توبہ کی توفیق نہ ملے گی۔ کیونکہ اس نے بے انتہاء مظالم اہل بیت پر ڈھائے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی کم بخت اپنی آخرت سنوارنے کیلئے توبہ نہیں بھی کرتا ہے تو وہ اپنی دنیا سنوارنے کیلئے ضرور توبہ کرے۔ بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ہم نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے حالات دیکھنے کے علاوہ طالبان اور فوج کی طرف سے پٹھانوں پر بھی مظالم کے پہاڑ ٹوٹنے کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر جس طرح سے اپنے علاقے خالی کرنے کیلئے خالی ہاتھوں بھاگنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔فوج نے اس وقت پاکستان بھر میں خوب ترقیاتی کام بھی کئے اور اپنے ہاتھ بھی صاف کردئیے تھے۔ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے روڈ پر لاوارث محسودوں کا بہت بڑ اقبرستان بن گیا ہے۔ بہت خود دار لوگ مشکلات کا شکار ہوکر مرگئے ہیں۔ لاپتہ افراد میں پتہ نہیں کتنے لوگ اس قبرستان میں بھی دفن کئے گئے ہوں گے۔ محسود بہت بہادر، خود دار اور زبردست صفات رکھنے والی بہترین قوم ہے۔ کوئی دوسری قوم ہوتی تو اپنے پیاروں کیلئے ماتمی جلوس نکالتے ہوئے نظر آتی ۔ بادشاہی خان محسود نے مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور آفتاب شیرپاؤ وغیرہ سے اسلام آباد کی ایک کانفرنس میں گلہ کیا تھا کہ کراچی سے مہاجر نے آکر ہمارے لئے امدادی سامان کے کیمپ لگائے مگر پختون لیڈر نظر نہیں آئے۔
منظور احمد پشتین نے فوج کے خلاف بہت نعرے لگائے، اگر کوئی دوسرا یہ کام کرتا تو اس کے پرخچے اُڑادئیے جاتے لیکن پاک فوج نے سمجھداری کے علاوہ سنجیدگی کا بھی مظاہرہ کیا کہ اس قوم کیساتھ جتنی زیادتیاں ہوگئیں ہیں،اب چیخنے کا حق بھی ان سے چھین لیا جائے تو یہ بہت ناانصافی ہوگی۔ گلہ من پشتین کے انتہائی دردِ دل والے اور بہت مزاحیہ اشعاربھی فضاؤں میں گونجتے ہیں۔ بنی اسرائیل سے بھی کسی دور میں قربانی لی گئی تھی اوریہ ان کی اپنی شامت اعمال کا بھی نتیجہ تھا لیکن بہت بے گناہ لوگ امرود کے تول میں بھی آگئے تھے۔ یہ پشتو کا محاورہ ہے کہ جب گناہگاروں کیساتھ بے گناہ بھی مصیبت کا شکار ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے لئے امرود کے تول میں آنے کی بات کرتے ہیں۔پختون قوم کو جن آزمائش کا سامنا کرنا پڑا لیکن مزے دوسرے لوگوں نے اس پر اٹھائے تھے۔
اگرڈی این اے (DNA)ٹیسٹ کیا جائے تو جس مچھلی کو شیعہ انسان سمجھ کر نہیں کھاتے وہ شاید ایسی نکلے کہ شیعہ بھی کھالیں۔ جو لوگ سادات کا دعویٰ کرکے خمس کھارہے ہیں اگر انکا ڈی این اے (DNA) کیا جائے تو شاید ہندوؤں میں بھی اچھوت نسل کے نکل جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ خمس کھانے کیلئے اچھوت سے سید بننے والے امت میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہوں اور اپنے مفادات کی حفاظت بھی اسی میں ان لوگوں کو لگتی ہو۔ ٹیسٹ کرنے ہونگے۔ اللہ نے قرآن میں انسانوں کو کتوں اور گدھوں سے بھی تشبیہ دی اور جانوروں سے بدتر بھی قرار دیا ہے۔ جن انسان نما جانوروں میں جانوروں سے بدتر صفات ہوں تو پھر وہ مساجد کے ائمہ بن کر بھی بدترین ہوسکتے ہیں جنکے پیچھے بندروں کی طرح نقل و حرکت کرنے والے نمازی نہ صرف گمراہی کا شکار ہوں بلکہ انسانیت سے بھی بالکل عاری ہوں اور قرآنی آیات اور حدیث صحیحہ کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو دل ودماغ کھل سکتا ہے۔
ہم نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ شائع کیا جس میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کو بے دینی قرار دیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی کی کتاب سے سورہ ٔ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی سرخی شائع کردی۔ بریلوی مکتبۂ فکر نے پہلے تو اس کو خوب پھیلادیا مگر جب اگلے شمارے میں انکے اپنے کرتوت اورفتاویٰ کا پول کھل گیا تو پھرخاموش ہوگئے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے ان عبارات کو نکالنے کا اعلان کردیا اور علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی فتاویٰ شامیہ کی مخالفت کی تھی تو مدارس کے علماء اکھٹے ہوکر فتاویٰ شامیہ اور فتاویٰ قاضی خان وغیرہ سے یہ خرافات نکالنے کا اعلان کردیتے۔ لیکن اس کارِ خیر کیلئے بھی علماء ومفتیان نے اتفاق واتحاد کی جرأت نہیں کی تھی۔
مدارس کے نصاب میں قرآن کی تعریف میں قرآن کی تحریف کی گئی ہے لیکن علماء کی طرف سے ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نصاب کو تبدیل کرنے کا اعلان نہیں کیا جاتا ہے۔ شیعہ سنی ایکدوسرے پر قرآن کی تحریف کے الزامات لگاتے ہیں لیکن اپنی کتابوں سے یہ بکواسات نکالنے کیلئے آمادہ نہیں ہورہے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ ”رسول اللہ ۖ نے دو جلدکے درمیان قرآن کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا تھا”۔ یہ واحد ایسی حدیث ہے جس میں قرآن کی حفاظت کا پتہ چلتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے اپنی حفاظت کی خود گواہی دی ہے ،اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو تحفظ دینے کیلئے احادیث کا محتاج نہیں کیا۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے اہل تشیع کو جواب دینے کیلئے لکھا ہے کہ تمہارا عقیدہ غلط ہے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے جس کی دلیل حضرت ابن عباس سے حضرت علی کا قول ہے لیکن امام بخاری کا یہ جواب صرف شیعوں کو جواب دینے کیلئے ہے۔ باقی امام بخاری کے نزدیک ایسا نہیں تھا کہ واقعی رسول اللہۖ نے امت کیلئے جمع شدہ قرآن چھوڑا تھا۔ بلکہ یہ قرآن تو حضرت عثمان نے جمع ومرتب کیا ہے۔ جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود شامل نہیں کئے گئے تو ابن مسعود حضرت عثمان سے اس وجہ سے ناراض تھے ۔ کشف الباری میں مولانا سلیم اللہ خان کی طرف سے قرآن کے خلاف نظریہ دیکھا جاسکتا ہے۔
قرآن نے اپنی جمع وترتیب کی وضاحت آیت میں کردی۔ شیعہ سنی اپنی اپنی کتابوں سے خرافات نکالنے پر اتر آئیں تو ڈر یہ لگتا ہے کہ خرافات کو چھوڑ کر بہت اچھی اچھی چیزوں کو نکالنے پر متفق نہ ہوجائیں۔ اسلام مضبوط دین ہے مگر اسکا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا گیا۔ کتاب الطہارت کی ابتداء سے فقہی مسائل کی انتہاء تک ایک ایک مسئلہ پر بات کی جائے تو بہت سا خود ساختہ بوجھ علماء وطلبہ اور عوام کے ذہنوں سے اترجائیگا۔ نکاح وطلاق کے مسائل قرآن وسنت میں جس طرح سے حل کئے گئے ہیں وہ مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کیلئے قابلِ قبول ہی نہیں بلکہ فطرت کے عین مطابق ہیں لیکن ابھی تک جانتے بوجھتے حلالہ کی لعنت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اسلامی بینکاری کے نام پر ہمارے ائرپورٹس اور موٹروے کو گروی رکھ دیا گیا ہے اور جب ادائیگی کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا تو غیرملکی یہودی بینک اس کو قبضہ میں لے لیںگے۔
جب عالمی قوتوں کا پاکستان کے ائرپورٹس اور موٹروے وغیرہ پر قبضہ ہوجائے گا تو وہ ہماری پولیس اور فوج کو اپنی حفاظت پر لگادیں گے۔ دہشت گردوں میں اکثریت ان کے اپنے لوگ ہیں۔ مشکل وقت آنے سے پہلے ہوشیار ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ مولوی اور سیاستدان بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں۔ سیکولر اور کمیونسٹ بھی آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اسلئے قربانی نہیں دے سکتے ہیں۔ مذہبی لوگوں کوہواؤں کے دوش پر کھڑا کرنے کے بجائے بہت مضبوط اور بہترین دلائل کیساتھ میدان میںا تارنا ہوگا ورنہ تو یہ سب کیلئے دردِ سر بن جائیں گے۔پنجاب کی کیفیت مذہبی اعتبار سے بہت خطرناک ہے۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا: اے ایمان والو! کھاؤ جو زمین میں حلال پاک چیزیں ہیں اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں برائی اور فحاشی کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ کہ تم اللہ پر ایسی بات کرو جو تم نہیں جانتے ہو۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اتباع کرو اس کی جو اللہ نے نازل کیا ہے، کہتے ہیں کہ بلکہ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور اگرچہ ان کے آباء کسی چیز کو سمجھتے نہ ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں۔ ان لوگوں کی مثال جنہوں نے انکار کیا ہے بالکل ایسی ہے کہ جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے ۔ جس کو وہ نہیں سنتے مگرہانک پکار کی صدا ۔ بہرے ہیں، اندھے ہیں اورگونگے ہیں اور وہ سمجھ نہیں رکھتے ہیں۔(البقرہ آیت 168سے172)
نمازوں میں اللہ اکبر کی تکبیریں نمازیوں کیلئے تبدیلی کا ذریعہ نہیں ۔ اگر امام سری نماز پڑھارہاہے تو اسکے پیچھے سورہ ٔ فاتحہ پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ تیزی کیساتھ نماز کی عادت پوری کرنے کی بجائے عبادت ہوتی تو زندگیاں بدل جاتیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا” بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں جو اللہ نے کتاب میںسے نازل کیا ہے اور اس پر تھوڑا سا مول لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہیں کھاتے اپنے پیٹ میںمگر آگ۔ اور ان سے اللہ قیامت کے دن بات بھی نہیں کریگا اور نہ انہیں پاکیزہ ٹھہرائے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا اور عذاب کو مغفرت کے بدلے میں مول لیا۔پس کس چیز نے ان کو آگ کیلئے صبر پر مجبور کررکھا ہے؟۔ یہ اس لئے کہ اللہ نے کتاب کو حق کیساتھ نازل کیا اور جنہوں نے اختلاف کیا کتاب میں وہ بہت دور کی کم بختی میں نکل گئے۔ نیکی یہ نہیں ہے کہ اپنے چہروں کا رُخ مشرق یا مغرب کی طرف کردو۔ لیکن نیکی یہ ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور ملائکہ پراور کتاب پر اور انبیاء پر ۔ اور اس نے اپنا مال دیا اور اپنا مال اپنی محبت سے دیا اپنے قرابتداروں کو اور یتیموں کو اور مسافروں کو۔ اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میںاور نماز قائم کی اور زکوٰة دی۔اور اللہ سے وعدوں کو پورا کرنے والے جب وہ عہد کریں۔ اور صبر کرنے والے مشکلات میں اور مصائب میں اورلڑائی کے وقت میں۔ یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔ (البقرہ آیت 174سے 177)
اللہ نے جس طرح روزے کے وقت میں کھانے کو حرام کیا ہے ،اسی طرح سے کسی کا مال باطل طریقے سے کھانے اور حکومت کی طرف معاملہ گھسیٹ کر کھانے کو بھی حرام قرار دیا ہے لیکن مذہبی لوگ روزے میں اپنا مال کھانا حرام سمجھتے ہیں لیکن ویسے حرام مال سے وہ نہیں رُکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنا مال روزے میں حرام اور دوسروں کا حلال ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ ” اگر تم صدقات کو ظاہر کردو تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر تم اس کو چھپاؤ اور فقرآء کو دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اور اس طرح تمہاری برائیوں میں سے کچھ کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ اور جو تم کرتے ہو اللہ اسکی خبر رکھتا ہے۔ آپ پر انکو ہدایت دینا نہیں ہے مگر جس کو اللہ چاہے ہدایت دے۔ اور جو تم خیرات خرچ کرتے ہو تو یہ تمہارے اپنے نفسوںکیلئے بہتر ہے۔ اور تم خرچ نہیں کرتے مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ۔ اور جو تم خرچ کرتے ہو ،اللہ اسکا پورا بدلہ دیتا ہے اور تمہارے ساتھ ظلم نہیں ہوتا ہے۔اور جو لوگ اللہ کی راہ میں ایسے قید ہوگئے ہیں کہ وہ زمین میں بھاگ دوڑ کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ جاہل گمان کرتے ہیں کہ وہ دولتمند ہیں ان کی خود داری کی وجہ سے۔ آپ ان کو چہروں سے پہچان لوگے۔وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے ہیں۔ اور جو تم اچھا خرچ کروگے تو اللہ اس کو جانتا ہے۔ جو لوگ اپنے اموال رات اور دن کو خرچ کرتے ہیںچھپا کر اور اعلانیہ تو ان کیلئے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔ اور ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر جس طرح جنات نے اسکے حواس باختہ کردئیے ہوں چھونے سے ۔یہ اسلئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت سود کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اورسود کو حرام کردیا ہے۔ پس جس کے پاس اسکے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود کو چھوڑدے۔ پس جو پہلے ہوچکا اور اس کا امر اللہ کے سپردہے۔ اور جو پھر لوٹا تو یہ لوگ جہنم والے ہیں۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے”۔ (البقرہ آیت271سے275) ۔ علامہ پیر شکیل احمدمردان نے سورہ ٔ بقرہ کی طرف توجہ دلادی لیکن حقائق سننے کیلئے پتہ نہیں کیوں نہیں آمادہ ہوتے ہیں؟۔

NAWISHTA E DIWAR March Special Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اسلامی بینکاری ایسٹ انڈیا کمپنی سے بہت زیادہ خطرناک ہے : عتیق گیلانی

کراچی،لاہور، اسلام آبادائیرپورٹس اور موٹروے گروی رکھ دئیے پھر کیاوزیراعظم ، گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤسز، قومی اور صوبائی پارلیمنٹ، سینیٹ ،GHQاورایٹمی پروگرام اسلامی بینکنگ کے تحت عالمی اداروں کے سپرد ہونگے؟
ہمارا پورا نظام ناکام ہے۔ PDMکی روحِ رواں مریم نواز سے حکومت وریاست کو ڈر نہیں مگر کریمہ بلوچ کی لاش سے ڈر لگاتھا اسلئے بہت شرمناک جبری طور پر خفیہ دفن کرنا پڑگیا؟
نوازشریف کے لندن فلیٹ ،رائیونڈ محل اور مفتی تقی عثمانی کے دارالعلوم کراچی سمیت تمام اثاثے ضبط کرکے قومی اداروں کو بازیاب کیا جائے۔ وزیراعظم بنی گالہ گھرکو گروی رکھوا دیں

 

جس طرح برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل کی عظیم سلطنت کو شکست دیکر برصغیر پاک وہند کو فتح کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا ،اس سے زیادہ خطرناک اپنے پاکستان میں نام نہاداسلامی بینکاری ہے۔ براڈ شیٹ کے دھوکہ بازوں سے حکمران شکست کھارہے ہیںتو عالمی مالیاتی اداروں کی گرفت سے کیسے بچ سکیںگے؟ ۔

نوازشریف نے پاکستان کے ائیرپورٹس اور موٹروے کو بھاری سودی قرضوں کے تحت گروی رکھوادیا ہے اور اب وزیراعظم عمران F9پارک اسلام آباد یا کلب کو نام نہاد اسلامی بینکاری کے نام سے گروی رکھنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ پبلک پارک کے بجائے اسلام آباد کلب کو گروی رکھوانا چاہیے، سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔ اب عوام تالیاں بجائیں گے کہ اسلام آباد کلب افسروں کی تفریح گاہ ہے ،اچھا ہوا کہ پبلک پارک کو بچالیا گیا۔ پھر جس پارلیمنٹ پر لعنت کی گئی تھی اور جس وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس کو گرانے کی بات کی گئی تھی اس کیلئے اعلان کیا جائیگا اور لوگ اس کا خیرمقدم کریں گے۔ پھر فضاء ایسی بنائی جائے گی کہ جب پارلیمنٹ اور سول لیڈر شپ ہاؤسز گروی ہیں تو GHQکو بھی گروی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بہت بڑا کمال سمجھا جائیگا کہ فوج سے بھرپور بدلہ لے لیا گیا۔

پھر ہمارے تمام دفاعی مراکز بشمول ایٹمی ٹیکنالوجی کو بھی آخر کا ر ملک چلانے کیلئے گروی رکھ دیا جائیگا اور جب دینے کیلئے کچھ نہیں بچے گا تو امریکہ کی فوج ہمارے سرکاری مراکز پر قابو پالے گی۔ لوگ کہیں گے کہ انگریز نے ہمارا یہ سول وملٹری پورا اسٹرکچر بنایا تھا ،وہی ان کالی چمڑی والے بلیک انڈین سے بدرجہا بہتر ہیں۔ جب اپنے حریف ہندوستان کے سامنے جنرل نیازی کا ہتھیار ڈالنا مجبوری تھا تو انگریزی سرکار کے قدموں میں اپنی ناک کی نکیل ڈالنے میں کیا حرج ہوسکتا ہے؟۔

مفتی محمد تقی عثمانی کو عام معمولات کے مطابق درست فتویٰ لکھنا نہیں آتا ہے تو اس کو شیخ الاسلام کس قاعدے ،کلیے کے تحت کس اُلو کے پٹھے نے بنایا ہے؟۔کراچی کے تمام بڑے مدارس سمیت ملک بھر کے علماء ومفتیان نے نام نہاد اسلامی بینکاری کے غیر اسلامی اور سودی ہونے پر اتفاق کیا تھا لیکن عالمی قوتیں مفتی تقی عثمانی کو سپورٹ کررہی تھیں۔ دنیا کے چند طاقتور ترین انسانوں کی لسٹ میں اس کا نام ڈالا جاتا تھا۔ جب علماء ومفتیان نے دیکھ لیا کہ ہماری مخالفت کا اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے تو مایوس ہوکر بیٹھ گئے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے مفتی تقی عثمانی کو جتنا معاوضہ دیا ہے اور اس پر اسلامی بینکاری کے نام سے جو کچھ کمایا ہے وہ سب بحقِ سرکار ضبط کیا جائے اور اس رقم سے پاکستان کے قیمتی اثاثوں کی عالمی مالیاتی اداروں سے جلدجان چھڑائی جائے۔ نوازشریف کے پاکستان اور لندن سمیت دنیا بھر کے تمام اثاثوں کو ضبط کیا جائے اور ان سے بھی پاکستان کے قومی اداروں کو بازیاب کیا جائے۔

جب پرویزمشرف نے پاکستان کے ایک بینک کو اونے پونے فروخت کیا تو عبدالوہاب بلوچ کے بیان کو ہم نے شہہ سرخی بنادیا تھا۔ پھر اسٹیل مل کو بیچا جارہاتھا تو اس کے خلاف شہہ سرخی لگائی تھی جس کے بعد افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیکر معاملہ رکوادیا تھا۔ عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسٹیل مل کے ہزاروں ملازمین اور اسلام آباد میں زندگی کھپانے والی خواتین ٹیچرز سمیت کتنے لوگوں کا روز گار چھین لیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو احساس اسلئے نہیں ہے کہ دودھ پینے اور سکول جانے والے بچے سمیت اس کے سرپر کوئی بوجھ نہیں ہے اور وہ پھر بھی کہتا ہے کہ میں اپنی تنخواہ سے گزارہ کررہاہوں۔ سوچ لیں کہ جنکے پاس اپنا گھر نہیں ، کرایہ پر رہتے ہیں اور دودھ پینے والے بچے اور ڈلیوری والی بیگمات اور سکول جانے والے بچے بھی ہیں تو انکا چند ہزار میں گزارہ کیسے ہوگا جبکہ وزیراعظم کاتنہا بیگم کیساتھ مشکل سے گزارہ ہوتا ہے؟۔

پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں کہ جہاں کی فوج اور خفیہ ایجنسی عالم اسلام میں نمبر1ہے۔ واحد ایٹمی طاقت ہے۔ بہت کم تنخواہوں پر فوج، پولیس، ڈاکٹر، ٹیچر، ملا ، مجاہد، سیاسی ورکر اور کاشتکار وغیرہ کیلئے ملازم مل جاتے ہیں۔ مفت میں مذہبی گروہ پلتے ہیں، حلالہ بھی کرواتے ہیں ،پیسے بھی دیتے ہیں اور بلیک میل بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر اس ملکِ خداداد کا کنٹرول سنبھالا جائے تو عائشہ صدیقی کی کتاب نے دنیا کو یہ بتادیا ہے کہ سب سے منافع بخش ادارہ فوج ہے جو 7یا 10کروڑ روپے پر بھی روڈ کا ٹھیکہ لے لے تو ڈیڑھ کروڑ میں ٹھیکہ دار سے بنوالیتی ہے۔ بلڈنگ اینڈ روڈ کا ٹھیکہ بھی برا نہیں کہ 3کروڑ میں بمشکل فی کلومیٹر اسٹیمیٹ لگاتے ہیںاور ڈیڑھ کروڑ بھی نہیں لگتے ہیں۔ پولیس کے کرائم والے تھانے بھی بھاری قیمت پربکتے ہیں۔

محکمہ ہیلتھ ہو یا جنگلات ، تعلیم ہو یا عدالت بس لوگوں سے پیسہ ہی پیسہ بٹورنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہر محکمہ میں نوکری کیلئے رشوت، پولیو میں اربوں کا اسکینڈل اور ہر ادارہ عوام کا خون نچوڑ کر وصولی کرنے میں دمادم مست قلندر ہے۔سیاستدان کا تو کوئی مقابلہ بھی نہیں کرسکتا ہے۔ فوجی جرنیل ، عدلیہ کے جج اور اعلیٰ بیوروکریسی کے افسران بھی ملک وقوم کو چونا لگانے میں ماہر پیسہ خوری ہوتے ہیں۔ جعلی ادویات سے بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نام پر بہت کمائی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو کرونا سے بھی مرنے سے بچ جاتی ہے اسلئے کہ آلودہ پانی، جعلی ادویات اورزہریلی غذائی اشیاء نے ان کے معدے کا نظام لکڑ پتھر ہضم والا بنادیا ہے۔ ان کی آنتیں لوہے کی بھی نہیں جو زنگ کھا جائیں بلکہ اسٹیل اور پلاسٹک کی ہیں۔ اس قوم کے جاہلوں کو ہی نہیں پڑھے لکھوں کو بھی پیر ٹھگ لیتے ہیں۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف بھی تنکے والے ننگے بابا سے ڈنڈیاں کھا کھا کر حکومت لینے کی توقع پر پہنچتے تھے ۔ ایاک نعبد وایاک نستعین والا طالبان خان بھی پاک پتن کے مزار پر چوپائے کی طرح کھڑا ہوا، بس ایک دُم نہیں تھی جس کو ہلانا شروع کردیتا۔ پاکستان جیسی قوم پوری دنیا میں کوئی نہیں اللہ پاک کی قسم!

بس جن لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ڈور ہے یہ بہت کم عقل ہیں ۔ ان کو عقل ہوتی تو نوازشریف، بلاول بھٹو، عمران خان ، زرداری ، شہبازشریف، پرویز خٹک، امیر مقام، جام کمال……… رہنما ہوتے؟۔ ان زندوں سے کریمہ بلوچ کی لاش بھی زیادہ قابلِ رشک تھی جس سے مضبوط پاکستان نے خطرہ محسوس کیا اور لوگوں کو دکھائے بغیر دفن کردیا۔ حبیب جالب نے کہا کہ ”ڈرتے ہیں بندوق والے اک نہتی لڑکی سے”۔ مگر جب بینظیر اقتدار میں آئی تو جالب کا شعر پسند نہیںآیا کہ” ہربچہ ہے ہزاروں کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے”۔ اگرجالب زندہ ہوتے تو کریمہ بلوچ پراپنے اشعار سے بلوچوں کی نفرت کو پنجاب کی محبت میں بدل ڈالتے۔

سورۂ الدہر میں دنیا کے اندر ایک خوشحال انقلاب کا ذکر ہے۔ کرونا کی بیماری نے اس کو واضح کیا ہے۔

جنت میں بہ آسانی نہریں بنانے، نذریں پوری کرنے اور مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلانے کا تصور نہیں ہوگا۔ دنیا ہی میں چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے والے لڑکے ویٹرہونگے اور نعمت ہی نعمت، بڑے ملک کا زبردست تصور ہوگا!

سورۂ الدہر میں دنیا کے اندر ایک خوشحال انقلاب کا ذکر ہے ۔ پاکستان اور دنیا میں کرونا کی بیماری نے اس کو زبردست طریقے سے واضح کیا ہے۔ علماء اور دانشور حقائق ضرور بتائیں!

جب قرآن کی سورۂ جمعہ ، سورۂ واقعہ اور سورۂ محمد میں آخرین کا ذکر ہے جو دنیا میں طرزِ نبوت کی خلافت قائم کرینگے تو اس انقلاب کے حالات بھی زمانے کے اعتبار سے نقل کئے گئے ہیں۔

سورۂ جمعہ میں ایک صحابہ کرام کی جماعت کا ذکر ہے اور دوسری آخر ین کی جماعت کا ذکر ہے جو پہلوں والوں سے مل جائیںگے۔ سورہ ٔواقعہ میں السابقین کی دو جماعتوں کا ذکر ہے پہلے میں بہت اور آخر میں تھوڑے سے لوگ ہونگے۔ اور دائیں جانب والوں کی بڑی جماعت پہلوں میں سے بھی ہوگی اور آخر والوں میں سے بھی بڑی جماعت ہوگی۔

قرآن میں پہلی جماعت صحابہ کے ذریعے دنیا میں جو انقلاب آیااسکے اثرات (1924ئ) تک خلافت عثمانیہ کی صورت میں موجود تھے۔ اب ترکی وہ اسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ طیب اردگان نے فرانس کے سربراہ مملکت سے ہاتھ نہیں ملایالیکن فرانس کا سفیر اپنے ملک سے نہیں نکالا۔ پہلے اسرائیل کا سفیر ناراض تھا اور اب وہ بھی ترکی کے دارالخلافہ استنبول میں اسرائیلی سفارت خانے میں بیٹھ گیا ہے۔

ایران نے اپنی جمہوری حکومت قائم کررکھی ہے۔ ایران اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ طاقتور ملک بھی خود کو سمجھتا ہے جو امریکہ کے حملوں کا بھی جواب دیتا ہے۔ اگر انکے بارویں امام مہدی غائب نے ایران کو دنیا کا جنیوا بنادیا تو اسلامی دنیا خیرمقدم کریگی۔ امام اور انکے ماننے والا طبقہ دوسروں کے جبر اور دسترس سے آزاد ہیں۔ اہل تشیع امامیہ کا عقیدہ ہے کہ امام کی بعثت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب تک امام کا ظہور نہ ہو اپنے عقائد پر مضبوطی سے جمے رہیں۔ اگر انکا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی اور دیگر ائمہ سے خلافت کا حق چھین لیا گیا تھا تو ان کو یہ عقیدہ رکھنے کا بھرپور حق ہے۔ اگر بنوامیہ ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کی جگہ ائمہ اہلبیت کو امامت کا حقدار سمجھتے تھے تو اس میںکچھ براکیا ہے؟۔ اگر وہ خلافت راشدہ کیلئے بھی یہی تصور رکھتے ہیں کہ ان سے انکا حق چھین لیا گیا تھا تو یہ اہل تشیع کی طرح اہلسنت کیلئے بھی زیادہ مفید اسلئے ہے کہ سنی سمجھتے ہیں کہ شیعہ حضرت علی کے حوالے سے شرکیہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ جاہل شیعہ کے عقائد کو درست کرنا اہل تشیع کے علمی طبقے کی اپنی ذمہ داری ہے لیکن حضرت علی کیلئے مظلومیت کا عقیدہ رکھنا شرک کے برعکس صحتمند عقیدہ ہے۔ حضرت سعد بن عبادہ انصارکے سردار بھی خود کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے اور ابوبکرو عمر سے ناراض تھے ،یہاں تک کہ انکے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے تھے۔

سورۂ الدھر میں جس انقلاب کا ذکر ہے اس میں نظامِ شمسی کی تپش سے اور سردی کی سختی سے بچنے کی خوشخبری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت اور ریشم کا ذکر کیا ہے۔ پاکستان میں زراعت کی کتابوں میں ریشمی کیڑوں کا تعارف ہے اور جب پاکستان میں بڑے پیمانے پر زراعت کی ترقی کیلئے راہ ہموار ہوگی تو بڑے پیمانے پرباغات اور کیڑوں سے ریشمی انڈسٹریاں بھی کھلیں گی۔جس سے خوشحالی کا سفر شروع ہوگا۔ کانیگرم میں ماما پیر کے باغ میں سورج نظر نہیں آتا تھا۔ باغ میں ہوا کم لگنے کی وجہ سے سردی کی زیادہ سختی محسوس نہیں ہوتی ۔ پاکستان کے زیادہ تر لوگوں نے ویسے بھی ایسے باغ نہیں دیکھے ہیں۔ اگر ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوں تو پورے پاکستان میں باغات کے جال بچھاسکتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کی سرحد سے ہندوستان میں جنگلی نیل گائے، ہرن اور دیگر جانور نظر آتے ہیں۔ درندوں کو آسان شکار فارمی یا گھریلو گائے مل جائیں تو وہ تیز رفتار ہرن، نیل گائے اور مارخور کے پیچھے بھاگنے میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ جب قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے معبودوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ ہمارے معبودِ برحق کو برا نہ کہیں تو گائے ہندوؤں کی معبود ہے۔ ہم انکے جذبات کا خیال رکھ کر انکے دل جیت سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ گائے کو شہروں اور جنگلوں میں چھوڑ کر جنگلی درندوں سے قیمتی جنگلی جانوروں مارخور وغیرہ کی حفاظت کا سامان کرسکتے ہیں۔ شیروں کا پیٹ گائے وغیرہ کے گوشت سے بھرا ہوگا تو بکری اور شیر ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے اور انسانوں کے علاوہ جنگل کے جانوربھی اس نظام سے خوش ہونگے۔

جنگلی جانوروں کی حفاظت اورافزائش نسل کیلئے بڑے پیمانے پر حفاظتی تدابیر کا انتظام بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی مصنوعی خندقیں، سوراخ اور تعمیرات کا اہتمام ہوسکتا ہے جس میں ہر نوع کے جانوروں کی حفاظت کا اپنے دشمن سے ٹھیک طریقے سے انتظام ہو۔ جب پاکستان ایک امیر ملک بن جائیگا تو اس میں شیشوں اور چاندی کے برتنوں کا استعمال ایک معمول بن جائیگا۔ بادی بھی ایک انسانی کمزوری ہے ۔اللہ نے فرمایا کہ ” آپس میں لڑو مت ، ورنہ تمہاری ہوا خارج ہوجائے گی”۔ قرآن میں ایسے پیالوں کی بات جسکے زنجبیل والے مزاج سے بادی کم ہو یا اس کا اخراج کھلے عام تنگ کرنے کے خلاف مددگار ثابت ہو، اسکا تعلق بھی دنیا ہی کی زندگی سے ہوسکتا ہے۔ ایک ایسا چشمہ جس کا نام سلسبیل رکھا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ آب زم زم سے یا خاص نوعیت کا کوئی مصنوعی چشمہ بنایا جائے اور اس میں کوئی خصوصیت بھی ہو تاکہ عوام اور خواص کو مخصوص بیماری ، ہاضمے یا کسی صورت میں کام آئے۔

ویطوف علیھم ولدان مخلدون اذا رأیتھم حسبتھم لؤلؤًا منثورًا ” اور ان کے گرد لڑکے ہمہ وقت گھوم رہے ہوں گے اور جب آپ ان کو دیکھ لیں گے تو ان پر منتشر موتیوں کا گمان ہوگا”۔ انقلاب کے بعد پاکستان میں دنیا بھر سے لڑکی نہیں لڑکے ویٹروں کو نوکری ملے گی ۔ بھارت،عرب، یورپ ، امریکہ ، چین ، آسٹریلیا، روس ، کوریااور دنیا بھر سے غریبوں کو نہ صرف نوکریاں ملیںگی بلکہ انکی اعلیٰ تعلیم وتربیت اور آرام کا بھی مکمل خیال رکھا جائیگا۔ دنیا کو بتایا جائیگا کہ تہذیب وتمدن اور انسانیت کس چیز کا نا م ہے؟ اور پاکستان دنیا کی امامت کے قابل کیوں ہے؟۔ کچرے کے ڈھیر پر کام کرنے والے ہمارے افغانی بھائی بچوں کو صاف ستھرا کرکے ایک مثالی معاشرہ بنایا جائے گا۔ انشاء اللہ وتعالیٰ عزوجل ۔

جب پاکستان صحیح ٹریک پر چڑھ جائیگا تو تمام اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے غیراسلامی ممالک بھی انتظامی اعتبار سے جمہوری بنیادوں پر پاکستان سے الحاق کریںگے۔ ایران ، افغانستان کے علاوہ بھارت اور بنگلہ دیش بھی اس کا حصہ بننے کیلئے درخواست دیںگے۔ پاکستان وزیراعظم عمران اور ن لیگ وپیپلزپارٹی کا تجربہ کرچکا ہے۔ امریکہ نے ٹرمپ اور بھارت نے مودی کی بداخلاقی دیکھ لی ہے۔ پاکستان میں اچھی طرزِ حکمرانی سے دنیا میں بڑی خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ بھارت سے ہندوانہ رسم وراج کا خاتمہ وہاں کے ہندو خود ہی کردیںگے۔ اچھی نسلوں کے ہندو مسلمان بن جائیںگے تو اس کے زبردست اثرات مرتب ہونگے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” لوگوں کی مثال معدنیات کی طرح ہے۔ جو لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے سونا اور چاندی کی طرح تھے وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ایسی اچھی صفات کے مالک ہیں اور جو لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی خراب تھے تو وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ویسے ہی ہونگے”۔ نبیۖ نے حاتم طائی کی بیٹی کو عزت دی تھی اور مروان بن حکم کو اپنے باپ کیساتھ جلاوطن کیا تھا۔

جن لوگوں نے مسلمانوں کے خوف ، رعب ودبدبہ اور لالچ کی وجہ سے برصغیر پاک وہند میں اسلام قبول کیا تھا، ان کی اولادوں نے علماء ومشائخ اور مجاہدین بن کر بھی اعلیٰ اخلاقی معیارات قائم کرنے کی بجائے اسلام کو خیر نہیں پہنچائی۔ کم اصل ہندو بنیوں کی اولادوں نے غریبوں کی زکوٰة اور خیرات پر بھی اپنے اللے تللے اور بہت ساری دولت کا سامان کرلیا ۔ کراچی کے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری نے ان لوگوں کے کرتوت دیکھ کر اپنے اوپر ہدیہ کی رقم بھی حرام کی تھی۔ ایک سال سے زیادہ زکوٰة کی رقم مدرسے کیلئے نہیں لیتے تھے اور قربانی کی کھالوں کو سب سے اچھا مال سمجھتے تھے لیکن طالب علموں کو کھالوں کیلئے پھر بھی نہیں بھیجتے تھے۔ ہم نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھے ہیں لیکن اپنی ذات کو ان سے بھی کم تر اسلئے سمجھتے ہیں کہ ہر انسان اپنی خامیوں کو دوسروں سے زیادہ سمجھتا اور دیکھتا ہے۔ تعریف صرف اللہ ہی کیلئے ہے۔

ایسی عاجزی اور مروت بھی بیکار ہے کہ جب مخلوقِ خدا کیساتھ ظلم وستم کی انتہاء کی جاتی ہو اور ظالم اپنے کرتوت سے باز نہیں آتے ہوں اور ان کو اپنے سے بہتر قرار دے کر ایک درست سمت کی جدوجہد سے پہلو تہی برتی جائے۔ مدارس میں جانتے بوجھتے اسلام کے نام پر حلالہ کی لعنت کا کاروبار ہورہاہو۔ اللہ نے ایک جان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے تو ایک عورت کی عزت لوٹنے کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیاہے۔ اگر معلوم ہوجائے کہ قرآن و سنت سے حلالہ نہیں بنتا تب بھی اپنے معتقدین اور عوام الناس کی عزتوںکو لوٹا جائے تو اس سے بڑا جرم روئے زمین پر کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ہے۔

پاکستان کی ریاست اور حکومتوں کی نالائقی، نااہلی اور کرپشن کی داستان 73سالوں سے بلاشبہ اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے جس میں بہت لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن اسلام کے نام پر بہت کچھ ہورہاہے اور خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عثمان کی شہادت اور اس سے پہلے اور بعد کے ناسازگار حالات و واقعات سے موجودہ دور تک بتدریج مختلف ادوار میں جو کچھ ہوتا رہاہے وہ بھی بہت افسوسناک ہے۔ مسلکوں اور فرقوں کے نام پر جس طرح اسلام کو باقی رکھا گیا ہے اسی طرح پاکستان کے ساتھ بھی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ عالم اسلام میں ایٹم بم اور بہت سی خوبیوں کیساتھ پاکستان ممتاز ہے تو یہاں کے علماء ومشائخ کا بھی ممتاز مقام ہے۔

جس طرح بدترین جمہوریت بہترین امریت سے بہتر کہلاتی ہے اسی طرح اچھے سرکاری علماء سے چندوں پر گزارہ کرنے والے علماء ومشائخ کا اخلاق وکردار بہت بہترین ہے۔ ہمارا مقصد دل سے کسی کی برائی نہیں ہے۔ صرف جمود توڑنا چاہتے ہیں۔ علمائ، سیاستدان، فوجی اور مجاہدین سب میں ہم سے زیادہ اچھائیاں اور صلاحتیںہیں اور جب انقلاب آئے گا تو سب کو عزت ہی ملے گی۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۃ الدہر میں زمانے کا انقلاب، نہروں سے پانی کی ترسیل کا نظام اور پاکستان

سورة الدہر میں زمانے کا انقلاب ، سہولت کے ساتھ نہروںسے پانی کی ترسیل کا نظام اور پاکستان میں اس پر عمل سے عالمِ اسلام کی اخلاقیات اورپوری دنیا کی تقدیر بدلنے اور طرزنبوت کی خلافت کا زبردست انداز میں آغاز

پاکستان جیسی بہترین قوم پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ،جب اسکی اقتصادی حیثیت مستحکم ہوجائیگی تو انسانیت اور اسلام کی روح پر عمل کرنے میں ہم بہت بہترین رول ماڈل ہوں گے!

مولانا فضل الرحمن اور اس کی جماعت محترم محمود خان اچکزئی سے زیادہ جمہوری ہیں اور محترم محمود خان اچکزئی اور اس کی جماعت مولانا فضل الرحمن سے زیادہ انقلابی اور اسلامی ہیں!

اللہ تعالیٰ نے سورۂ دہر میں جن معاملات کا ذکر کیا ہے ان کو نہ صرف مؤمن مانیںگے بلکہ دہری بھی قبول کرلیںگے اور یہ اتفاق الرائے کی پہلی بڑی بنیاد ہے۔ پاکستان میں مؤمن تبلیغی، جہادی ،سیاسی مختلف حوالے سے بٹے ہوئے ہیں لیکن دہریوں کا الگ ٹولہ ہے جو مذہب سے نفرت کرتا ہے۔

ھل اتٰی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئًا مذکورًا ” کیا انسان پر ایسا لمحہ زمانے میں گزرا، جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا”۔ سورۂ دہر کی اس پہلی آیت میں ملحدین سے صرف سوال ہے۔ کیونکہ اللہ کو پتہ تھا کہ مذہبی لوگوں کی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے کبھی وہ دور بھی آئے گا کہ جب اچھے بھلے لوگ الحاد اختیار کرکے اس قدر ہٹ دھرم بن جائیں گے کہ قرآن کی ہر بات کو بالکل منفی طریقے سے لیں گے۔ اللہ نے یہاں سوال اٹھایا ہے کہ کبھی کوئی ایسالمحہ گزرا ہے جب انسان قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟۔پھرفرمایا کہ ”بیشک ہم نے انسان کو نطفۂ امشاج (ماں باپ) سے پیدا کیا ، ہم نے آزمائش میں ڈالااور اس کو سننے والا ، دیکھنے والا بنایا ۔بیشک ہم نے راستہ بتایا اس کی مرضی ہے کہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا بنے۔ بیشک ہم نے کافروں کیلئے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی آگ تیار کررکھی ہے ، بیشک نیک لوگ ایسے پیالوں سے پئیں گے جن کا مزاج کافوری ہوگا۔ ایسا چشمہ جس سے اللہ کے بندوں کو پانی پلایا جائیگا ، جہاں چاہیں گے اس کی شاخیں نکالیں گے۔ یہ لوگ اپنی نذریں پوری کرینگے اور اس دن سے ڈریں گے جس کا شر ہر جانب پھیلا ہوا ہوگا اور کھانا کھلائیں گے اپنی چاہت سے مسکین، یتیم اور قیدی کو ۔ (کہیں گے) کہ ہم تمہیں اللہ کی رضا کیلئے کھلاتے ہیں، ہم آپ سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ہیں۔ ہم اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو دن سخت مصیبت کا طویل ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا۔ اور ان کو بدلہ دے گا جو انہوں نے صبر کیا باغ اور ریشم۔ جس میں وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اُونچی مسندوں پر۔ اس میں ان کو سورج نظر آئے گا اور نہ سردی کی سختی اور ان پر اسکے سائے جھک رہے ہوں گے اور ان کے پھل انتہائی دسترس میں نیچے ہوں گے اور ان پر چاندی کے برتن اور شیشوں کے پیالے پھرائے جائیں گے۔ شیشوں کو بھی چاندی سے مرصع کرکے بہترین انداز میں بنایا ہوا ہوگا۔ جس میں ان کو ایسے مشروب پلائے جائیں گے جس کا مزاج ادرک کا ہوگا۔ ایک چشمے کا اس میںنام سلسبیل رکھا جائیگا۔اور ان پر ہمیشہ (چوبیس گھنٹہ فل ٹائم) ویٹرلڑکے خدمات انجام دینگے۔ جب آپ اس کو دیکھیں تو سمجھیں کہ موتی ہیں جو بکھیر دئیے گئے ہیں۔ جب آپ اسے دیکھ لیں اور پھر دیکھ لیں تو نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی اور بہت بڑا ملک ہوگا۔ ان پر باریک ریشم کے سبز اور موٹے ریشم کے کپڑے ہونگے اور زیبِ تن کرائی جائیں گی چاندی کی گھڑیاں اور ان کو انکا رب پاکیزہ مشروب پلائے گا۔ بیشک یہ تمہارا بدلہ ہے اور تمہاری محنت آخر کار رنگ لائی ۔ بیشک ہم نے نازل کیا آپ پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے۔ پس آپ صبر کریں اپنے رب کے حکم کیلئے اور ان میں کسی کی اطاعت نہ کریں گناہگار اور ناشکراہوکر اور اپنے رب کا نام یاد کریںسویرے اور شام کو۔ اور رات کو اس کو سجدہ کرو اور رات گئے تک لمبے وقت تک اس کی پاکی بیان کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جلدی حاصل ہونیوالی چیز سے محبت کرتے ہیں لیکن چھوڑ دیتے ہیں پیچھے لمبے دن کے انجام کار کو۔ ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اور ان کو استحکام بخش دیا ہے اور جب ہم چاہیں گے تو ان کو ان جیسوں کی طرح تبدیل کرکے رکھ دیں گے۔ بیشک یہ ایک نصیحت ہے۔ پس جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے والا رستہ اختیار کرے اور تم نہیں چاہتے ہو مگر جو اللہ چاہے۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ جس کو چاہتا ہے رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کیلئے اس نے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے”۔ (سورہ الدہر۔پارہ نمبر29)

سورہ ٔ دہر سے پہلے سورۂ قیامت کا ذکر ہے۔ سورۂ دہر میں قیامت نہیں دنیا اور زمانے کا ذکر ہے۔ آج دنیا نے اللہ سے بغاوت کرنے کے بعد اپنے لئے زنجیروں، طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ کا سامان کرلیا ہے۔ اسلامی ممالک کیساتھ جو کچھ ہوا اور جو ہورہاہے اور جو ہونے جارہاہے اور انسانیت کیساتھ جو کچھ ہورہاہے کیا اس سے بڑھ کر مزید تباہی وبربادی کے بعد انسانیت کے ہوش ٹھکانے آئیں گے؟۔ شاکر شجاع آبادی کہتا ہے کہ ” میری سخاوت بھی حاتم طائی سے کم نہیں جب صبح قلم کی خیرات چلاتا ہوں تو شام ہوجاتی ہے”۔

جب سعودیہ پاکستان کے کام نہ ّئے تو ہماری سوشل میڈیا کے کتے چوبیس گھنٹے عربوں کی برائی کرنے لگتے ہیں اور جب تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو چپ ہوجاتے ہیں۔ ہمارا قبلہ اور کعبہ تو اقتصادیات ہیں۔اگر ہماری اقتصادی حالت بہتر ہوتی تو بھونکنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ہمارا اسلام اور ہمارے اخلاقیات بھی بہتر ہوجاتے۔

سعودی عرب میں تیل کے چشمے ہیں اور پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے پانیوں کے پاک چشموں سے مالا مال کیا ہے لیکن ہمیں صاف اور پاک پانی پینے کو بھی نہیں ملتا ہے، جتنے منرل واٹر پر ہمارا اشرافیہ خرچ کرتا ہے ،اگر انہیں پینے کا صاف پانی ملتا اور منرل واٹر کے خرچے مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلانے پر صرف ہوتے تو پاکستان میں بدحالی نہیں خوشحالی کا زبردست طوفان آجاتا۔ جنت میں کافوری اور ادرکی مزاج کے پیالوں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ جراثیم کش کافوری مزاج کے پیالوں اور بادی وغیرہ کے علاج کیلئے ادرک کے مزاج کی مشروبات کی ضرورت اس دنیا میں ہے۔ با آسانی پانی پہنچانے کے طریقے اُخروی جنت نہیں بلکہ دنیا کی جنت کی ضرورت ہیں۔ مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ ”جنت میں پھاوڑے اور کدال نہیں ہونگے” لیکن اگر آپ زندہ رہتے اور سہراب گوٹھ میں میلوں کھڑی بھاری مشنری دیکھ لیتے اور پاکستان میں بہترین نہری نظام کا آغاز ہوجاتا تو اپنی تفسیر کی رائے بھی بدل لیتے۔ آسانی کیساتھ نہری نظام کے علاوہ نذریں پوری کرنے اور ایسے دن کے شر سے ڈرنا جس کا شر ہر جانب پھیلا ہوا ہے، اس کا تعلق بھی دنیا سے ہی ہے اور موجودہ کرونا کی بیماری اس کی زبردست مثال ہے۔ جب کبھی خوشحالی کا دور آئے گا تو لوگ نذریں پوری کرینگے کہ ہر اچھے انسان کے خیال میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ اگر میرا کاروبار چل گیا تو یہ یہ خدمت غریبوں کی ضرور کروں گا۔ پاکستان کی مثال لے لیجئے ،اگر آج کاروبار چل گیا تو لوگ اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیں گے۔ وہ لوگ کاروبار چلنے کے بعد اپنی ہی محبت سے مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلانا شروع کردیںگے اور کہیں گے کہ ہم اللہ کیلئے کھلاتے ہیں آپ سے کسی ووٹ اور زندہ باد کا نعرہ لگوانے سے ہماری کوئی غرض نہیں ہے۔ ہمیں تو اپنے رب سے ڈر لگتا ہے جو دن بہت سخت اور لمبا ہے اور یہ دنیا میں کرونا کی نئی لہریں ہوسکتی ہیں۔ پھر اللہ ان کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھے گا اور ان کو تازگی اور خوشی بخشے گا۔

پاکستان میں نہری نظام سے ایک تو کاروبار بہت بڑے پیمانے پر چمکے گا اور دوسراسستی بجلی پیدا کرنے سے سردی گرمی میں بجلی کی کھپت بہت زیادہ ہوگی۔ پاکستان زرعی ملک ہے، یہاں انواع واقسام کے باغات ہونگے اور نہری نظام سے سستی بجلی پیدا ہوگی تو کھانے پینے اور رہن سہن کی مشکلات کا خاتمہ ہوجائیگا۔ سردی گرمی میں درخت کام آئیںگے۔ پھلوں کی بہتات اور ترقی یافتہ ممالک کا پاکستان بہت ہی اعلیٰ نمونہ بن جائیگا۔

بنوں شہر میں انگریز کے دور سے پانی کی ایک ایسی ٹنکی ہے جو ڈیم سے بھرتی ہے۔ گڈوبیراج میں کتنی بجلی پیدا ہوتی ہے؟۔ حیدرآباد اور کراچی کے درمیان پانی کی نہریں بناکر ایک تو اتنی سستی بجلی پیدا کرسکتے ہیں کہ دونوں ہی شہروں کو بہت کم قیمت پر بڑے پیمانے پر بجلی پہنچ سکتی ہے۔ جہاں غریب اور فیکٹری مالکان چوری کے بغیر سستے بلوں کو ادا کرسکیںگے اور کراچی میں پانی کا نظام بھی بغیر بجلی کے نوری آباد میں ڈیم بناکر اونچی سے اونچی بلڈنگ تک پہنچ سکتا ہے۔ گھروں میں زیادہ بل پانی کی موٹر کیوجہ سے آتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگیوں سے پاکستان کو بچانے کیلئے بھی قدرتی نظام کا سہارااچھا رہے گا۔ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے کوئی پالیسی نہیں بناتا ہے۔

عمران خان نے الیکشن میں دو جھوٹ بولے۔ ایک یہ کہ پختونخواہ کی پولیس بہت بہتر کردی۔ حالانکہ پختونخواہ کی پولیس پہلے سے نسبتًا بہتر تھی اور دوسرا یہ جھوٹ بولا کہ تین سو (300)ڈیموں سے پختونخواہ کی تقدیر بدل ڈالی ۔ یہ بھی بالکل جھوٹ تھا۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ صدر، وزیراعظم کون ہو؟۔ ہم پاکستان کی تقدیر بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ اس کی تقدیر بدلنے میں اللہ تعالیٰ زیادہ وقت نہیں لگائے گا۔ وزیراعظم عمران خان، نوازشریف، شہبازشریف ، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن نے اپنی بساط کے مطابق ایکدوسرے سے انتقام لینا ہے یا قوم کی خدمت کرنی ہے؟۔ اگر قوم کی خدمت کرنی ہے تو اقتدار میں رہتے ہوئے اور اقتدار سے باہر انہوں نے اپنی اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ اپنی خوب تعریف اور مخالفین کوبہت ذلیل کر کے یہ کہنا نہیں بنتا کہ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین ”ہماری آخری بات یہ ہے کہ سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیںجو جہانوں کا پالنے والا ہے”۔ یہ تو اس وقت ہوگا کہ جب پاکستان کو جنت بنائیں گے اور آپس میں ایکدوسرے کا خیرمقدم سلام سے کرینگے۔محمود اچکزئی مولانا فضل الرحمن سے زیادہ اسلامی اور انقلابی اور مولانا ان سے زیادہ جمہوریت پسند ہیں۔لیکن بے بسی کے نتیجے میں محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن اپنی اپنی چال بھول گئے ہیں اور اگر افراتفری پھیل گئی تو پھر سنجیدہ لوگ بھی غیر سنجیدہ ہی بن جائیں گے۔بنیادی تبدیلیوں کی طرف آنا ہوگا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان میں چوراور چوروں کاتعاقب براڈشیٹ اور فارن فنڈنگ میں عیاں!

مشہور تھا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔اب پاکستان کی ریاست، سیاست اور صحافت سے پردہ اُٹھ چکا ہے۔ جو حال اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اصحاب حل وعقد نے کیا ہے،اس سے زیادہ بُرا حال علماء نے اسلام کا کیا ہے

تاہم جس طرح پاکستان واحد ایٹمی ریاست ہے جس کا کریڈٹ سیاست، ریاست اور صحافت کو جاتا ہے اور تمام نااہلیوں کے باوجود اہل پاکستان کی یہ سب سے بڑی خوش قسمتی ہے۔

اسی طرح پاکستان کے علماء ومشائخ نے قرآن وسنت اور اصولِ فقہ کے علاوہ دین اسلام کی روح کو زندہ رکھنے میں بہت زبردست اور بنیادی کردار ادا کیا ہے جو بہت خوش آئند ہے

اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان طلاق یعنی جدائی کا جواز رکھا ہے۔ جس انداز میں عورت کو تحفظ دیا ہے وہ بھی بہت مثالی ہے اور جس انداز میں صلح واصلاح اور باہمی رضامندی کی شرط پر رجوع کی وضاحت فرمائی ہے وہ بھی بہت مثالی ہے اور جس انداز میں باہمی رضا مندی کے بغیر صلح کی گنجائش کا خاتمہ اور یکطرفہ رجوع کو حرام قرار دیا ہے وہ بھی مثالی ہے اور جس تفصیل و ترتیب کیساتھ وضاحتیں کی ہیں وہ بھی بہت مثالی اور لاجواب ہیں لیکن اسکے باوجود جس کم عقلی، ڈھیٹ پن، ہڈحرامی کا مظاہرہ مذہبی طبقے کررہے ہیں ان کو بھی اس مستقل مزاجی اور استقامت پر بہت زبردست داد اور خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں جس طرح براڈ شیٹ اور فارن فنڈنگ کیس پر بہت زیادہ بے شرمی، بے حیائی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرنے میں اصحاب حل وعقد اپنی مثال آپ ہیں اسی طرح طلاق کے مسئلے میں علماء ومفتیان اور مذہبی طبقے کی حالت بھی ان سے بالکل مختلف نہیں ہے۔جس طرح براڈ شیٹ میں لندن کی حکومت ،عدالت اور وکالت نے پیسے بھی بٹور لئے ہیں، شرمندہ بھی کردیا اور لٹکتی ہوئی تلوار بھی سر پر رکھی ہوئی ہے اسی طرح سے علماء ومفتیان حلالے کی دنیا میں اپنے عقیدت مندوں سے ناجائز متعہ کرکے بیڑہ غرق کررہے ہیں۔

براڈ شیٹ کمپنی کے سکینڈل نے بڑے پیسے کماکر اس طرح سے سب کو بے نقاب کردیا جس طرح علماء ومفتیان نے حلالہ کی لعنت سے اسلام کی تعلیم پر مذہب میں جعل سازی کوبڑے طریقے سے بے نقاب کردیا ہے۔

میڈیا میں سیاستدانوں اور نیب دانوں کی وکالت کرنے والی صحافت کو بے نقاب کرنے کیلئے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ دنیا بھر کے میڈیا چینلوں کے سامنے کھڑا کرکے جھوٹ بولنے والے صحافیوں سے پہلے جھوٹ بولنے کی وضاحت مانگی جائے ،اگر وہ معقول وضاحت پیش نہ کرسکیں تو ان کو ایسے کوڑے مارے جائیں کہ پھر وہ بھول کر بھی جھوٹ بولنے کی کوئی ہمت نہ کرسکیں۔ اسی طرح جن سیاستدانوں نے کرپشن کی ہے ان کو بھی جرم کے اعتراف کیلئے میڈیا پر لایاجائے اور سچ نہ بولنے پر کوڑے مارے جائیں۔ اسی طرح نیب اور اسکے سرپرستوں کو غلط پالیسی اختیار کرنے پر سرِ عام کوڑے مارے جائیں۔ پاکستان کی عزت بننا شروع ہوجائے گی تو افغانستان اور ایران کو دعوت دی جائے کہ ہم ایک مشترکہ ریاستی نظام بناتے ہیں۔ پھر ترکی اور عرب ممالک سمیت پوری دنیا کے اسلامی ممالک کو ایک کیا جائے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

پاکستان میں بھی جتنے ریاستی ادارے ہیں، سب کی کارکردگی صفر ہے مگر عوام کی نظروں میں صرف سیاستدان و آرمی والے کرپٹ ہیں۔عدلیہ، محکمہ ٔ جنگلات، زراعت، ریلوے، پی آئی اے، تعلیم، صحت، تجارت،میڈیا، انکم ٹیکس، کسٹم،پبلک سروس کمیشن،واپڈا، سول وملٹری بیوروکریسی اور جتنے بھی حکومت ، ریاست اور عوام سے تعلق رکھنے والے ادارے اور افراد ہیں ،سب کی حالت ایکدوسرے سے بدتر ہے لیکن کیا یہ سب ٹھیک نہیں ہوسکتے ہیں؟۔

اللہ تعالیٰ دِ لوں کو پھیرنے والا ہے۔ مشرکینِ مکہ کی جہالت اور کفر کا کیا حال تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام اور ایمان کی دولت سے نواز کر دنیا میں خلافتِ راشدہ کو سپرطاقت بنادیا تھا۔جب وحی کا سلسلہ اور نبوت ورحمت کا دور تکمیل کو پہنچ گیا تو خلافت پر انصار و قریش اور قریش واہلبیت میں اختلاف تھا لیکن انہوں نے پھر بھی اتفاق سے اسلام کی شوکت کو دنیا میں ایسا دوام بخشاتھا کہ بنوامیہ ،بنوعباس،سلطنت عثمانیہ نے بھی بڑی سپرطاقت کی شکل اختیار کرلی تھی۔ رسول اللہ ۖ کی زندگی میں مختلف موقع پر صحابہ کرام نے اختلاف کیا تھا۔ غزوۂ بدر کے قیدی، سورۂ مجادلہ میں عورت کا مجادلہ اور حدیث قرطاس کے معاملات بہت واضح ہیں ۔آج ہمارا ایکدوسرے سے اختلاف بالکل بنتا ہے لیکن افہام وتفہیم کا راستہ اپنانا ہوگا۔

پاکستان کا دارالخلافہ کراچی تھا لیکن اس کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ پھر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اب ملتان اور ڈیرہ غازی خان پاکستان کے مراکز ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں جی ایچ کیو (GHQ) اور ملتان میںدارالخلافہ منتقل کیا جائے۔کرپشن کی رقم حق حلال کی کمائی ہوتی تب بھی اس پر اتنی زکوٰة بنتی تھی جتنی رقم پر براڈ شیٹ سے نیب کا معاہدہ ہوا ۔ پاکستان کمزور نہ ہوتا تو برطانیہ سے تاوان وصول کیا جاتا کہ فراڈ کرنے والوں کی کمپنی رجسٹرڈکیوں کی تھی؟۔ پھر فراڈ کرنے والے کو دوبارہ کیسے اس نام پر دوسری کمپنی رجسٹرڈ کرنے دی؟۔ اس وقت نیب کے چیئرمین جنرل ر امجد شعیب نے غلطی کی تو اس کی سزا بھی ملنی چاہیے لیکن اگر اس نے مغالطہ کھایا اور اسکا اعتراف کیا تو پھر دوسرے چیئرمینِ نیب نے یہ تسلسل کیوں جاری رکھا تھا؟۔ پھر پرویز مشرف نے کیوں رعایت دیدی تھی؟۔

جتنے فوج سے متعلقہ لوگوں نے کرپشن کرکے مال بیرونِ ملک منتقل کیا تھا وہ سب ایک سال کی زکوٰة یا براڈ شیٹ سے طے ہونے والی رقم کے مطابق اپنابیس فیصد ( 20%) رکھ کر باقی ساری رقم پاکستان کے حوالے کریں اور اس سے ڈیرہ غازی خان میں جدیدترین جی ایچ کیو (GHQ)بنایا جائے۔ سیاستدانوں اور سول بیوروکریٹوں کو بھی بیس فیصد ( 20%)دیکر ملتان میں ایک جدید ترین دارالخلافہ بنایا جائے۔

نہری سسٹم اور سستی بجلی پیدا کرنے سے پاکستان کی تعمیرِ نو کی جائے۔ پاکستان کا سقوط خدانخواستہ ہوگیا تو پھر افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام کو بھی دنیا بھول جائے گی کیونکہ یہاں فرقہ واریت، طبقاتی اور نظریاتی بنیادوں پر ایک دوسرے سے نفرت بھڑکائی جاسکتی ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

غلامی کے نظام کا سب سے بڑا انسٹیٹیوٹ مزارعت؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب سود کی حرمت کے بارے میں قرآنی آیات نازل ہوئیں تو رسولۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیکر اس پر پابندی لگادی۔ائمہ مجتہدین حضرت امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی سب متفق تھے کہ مزارعت سود اور ناجائز ہے لیکن بعد میں احناف کے کچھ فقہاء نے اس کو جواز بخش دیا اور رفتہ رفتہ یہ تصور بھی ختم ہوگیا کہ ”مزارعت ناجائز ہے”۔ جس طرح آج سودی بینکاری کو اسلام کے نام سے جواز بخشا گیا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ لوگوں کے ذہن میں یہ تصور بھی نہیں ہوگا کہ سود ناجائز تھا۔ مزارعت سے خاندان کے خاندان غلام بن رہے تھے اور سودی نظام سے ریاستوں کو غلام بنایا جارہاہے۔ پاکستان کے مصور علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
آج سندھ اور پنجاب کے مزارع غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جاگیردار ان پر بے تحاشا تشدد کریں، ان کے جسمانی اعضاء کاٹ ڈالیں۔ ان کی عزتیں بھی لوٹ لیں مگر ان میں مزاحمت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور ہمارا مزارع طبقہ بھوک وافلاس کی آخری حدوں تک پہنچ چکا ہے۔ جسکے پاس کاشت کی زمین ہو ، تو وہ اپنا پیٹ پال سکتا ہے۔ عشر سے کسی غریب کی مدد بھی کرسکتا ہے۔ اپنے بچوں کی تعلیم، خوراک ، پوشاک اور آسائش والی زندگی تک بھی اپنی محنت سے پہنچ سکتا ہے لیکن ہمارا محنت کش طبقہ سب سے زیادہ بری حالت سے دوچار ہے۔ اسلام کا معاشی نظام سود اور مزارعت سے پاک ہے ۔ ہماری ریاست بھی گروی ہے اور ہمارا کاشتکار طبقہ بھی گروی ہے تو خوشحالی کون کس کو دے سکتا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن نے جب سیاست میں قدم رکھا تھا تو مزارعت کا سودی نظام درست کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ سودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کے خلاف بیانات دیتا تھا لیکن شاید ا ب خود جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی صفوں میں شامل ہوگیا ہے۔
ہم نے دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ کسی کو غلام اور لونڈی بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہم مزارعت کا وہ نظام ختم کررہے ہیں جس کو اسلام نے اسلئے ختم کیا تھا کہ یہ غلامی کا سب سے بڑا انسٹیٹیوٹ ہے۔ آج سودی نظام نے ریاستوں کو بھی غلام بنانے کا نیا حربہ شروع کردیا ہے۔ جب ہم مزارع کو خاندانی غلامی اور ریاست کو عالمی غلامی سے نکالنے کا قصد رکھتے ہوں تو اس سے پہلے اسلام کا معاشرتی نظام بھی ہم نے ٹھیک کرنا ہوگا۔ جب نبیۖ نے آخری خطبہ پڑھا تو سود کے خاتمے کا اعلان کردیا اور سب سے پہلے اپنے چاچا عباس کا سود معاف کردیا اور جاہلیت کے قتل میں سب سے پہلے اپنے خاندان کے فرد کا خون معاف کردیا۔
آج مغرب نے عورت کو طلاق کے بعد زبردست حقوق دئیے ہیں لیکن ہم نے عورت سے بچے جنوانے کے بعد نہ صرف بچے چھین لینے ہیں بلکہ ان کو مالی حقوق سے بھی بالکل محروم کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے مغرب سے زیادہ حقوق عورت کو دئیے تھے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں بھی شوہر کی قدرت کے مطابق عورت کا معروف طریقے سے خرچہ دنیا فرض کیا تھا۔ غریب اور امیر دونوں اپنی اپنی طاقت کے مطابق خرچہ دینے کے پابند تھے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے نصف حق مہر دینے کی قرآن میں وضاحت ہے۔ اگر ایک ارب پتی شخص چند ہزار یا چند لاکھ حق مہر کے نام پر دیتا ہے تو یہ وسعت اور معروف طریقے کے منافی ہے۔ ہمارا مذہبی طبقہ جس کلچر سے وابستہ ہوتا ہے وہی کرتا ہے۔ پنجاب میں جہیز کی لعنت اورپختونخواہ میں حق مہر کھاجانے کی رسم ہے لیکن مولوی اپنی فیس کھری کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں واضح کیا کہ نصف حق مہر فرض ہے۔ لیکن عورتیں چاہیں تو معاف کرسکتی ہیں اور جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ بھی درگزر سے کام لے سکتے ہیں اور اگر مرد درگزر سے کام لیں تو یہ تقویٰ کے قریب ہے۔ یعنی مردوں کو ترغیب دی ہے کہ عورتوں سے معاف کرانے کی توقع یا لالچ رکھنے کے بجائے تم ہی درگزر سے کام لو اور پورا حق مہر دو۔ کیونکہ طلاق تم نے دی اسلئے جن کے ہاتھ میں”نکاح کا گرہ” سے ایک احساس دلادیا۔
مولوی نے اس لفظ کو پکڑ کر انسانی فطرت کے آخری کناروں کو بھی پار کردیا اور یہاں تک فتوؤں کی شریعت بناڈالی ہے کہ ” ایک آدمی نے بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق۔ پھر مکر گیا۔ طلاق ہوگئی اور بیوی حرام ہے لیکن بیوی کو دوگواہ عدالت میں لانے پڑیںگے ۔اگر نہیں تو وہ اس کی بیوی ہے اور بیوی کو چاہیے کہ ہر قیمت پر خلع لے لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو پھر وہ بدکاری اور حرامکاری پر مجبور ہے۔ یہ فقہ کی کتابوں کے خفیہ اور ناقابل عمل مسائل نہیں ہیں بلکہ آج بھی مدارس سے فتویٰ دیا جارہاہے اور اس پر عمل بھی ہورہاہے۔ حالانکہ جس آیت سے علماء خلع مراد لیتے ہیں آیت 229البقرہ ۔ اس سے خلع مراد نہیں ہوسکتاہے بلکہ آیت19النساء میں خلع کو واضح کردیا گیا ہے۔ آیت20، 21 النساء میں طلاق کی صورت میں عورت کے حق کی وضاحت ہے۔ قرآن نے نہ صرف خلع کی اجازت دی بلکہ عورت کو شوہر کی طرف سے دی ہوئی تمام منقولہ اثاثہ جات ساتھ لے جانے کی بھی اجازت دی اور بعض اشیاء بھی واپس لینے کی ممانعت کی ہے اسلئے کہ یہ اس کا اپنا حق ہے۔ اگر شوہر خوش نہیں رکھ سکا یا وہ خود خوش نہ رہ سکی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ قرآن نے پھر حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور اللہ کی طرف سے اس میں بہت ساراخیر بنانے کو بھی واضح کیا ہے۔
جبکہ طلاق کی صورت میں تمام منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء خواہ خزانے کیوں نہیں دئیے ہوں ،کسی ایک چیز کے بھی واپس لینے کی گنجائش نہیں دی ہے اور بہتان لگاکر حق سے محروم کرنے کی بھی عار دلائی ہے۔ جب ہمارے معاشرے میں عورت کے حقوق بحال ہونگے تو اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔ عورت کو آزادی بھی قرآن نے دی تھی۔ آج جاہلیت کے دور سے بھی عورت کا برا حال ہے۔ جبری جنسی زیادتیاں ہورہی ہیں اور اسلام نے جبری جنسی زیادتی پر گواہ کا مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ قرآن میں ان کو ملعون قرار دیکر جہاں پائے جائیں پکڑکر قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور حدیث میں نبیۖ نے عورت کی گواہی قبول کرتے ہوئے سنگساری کا حکم جاری کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نیب کے نوٹس پر ریاست کا حال امریکہ جیسا کرنے کی دھمکی دے سکتے ہیں لیکن عورتوں کی عصمت دری پر اسلامی قانون کی وضاحت نہیں کرسکتے ہیں تو اسکے ذریعے سے کونسا اسلامی انقلاب آسکتا ہے؟۔
ملکت ایمانکم کا مفہوم وسیع ہے۔عورت برابری کا معاہدہ کرسکتی ہے۔ ام ہانی نے ام المؤمنین بننا قبول نہ کیا تو ملکت ایمانکم کا استفادہ ملا۔ علامہ بدرالدین عینی نے ان کو 28ازواج مطہرات میں شمار کیا ۔ حضرت صفیہ جنگ کے نتیجے میں آئی مگر مجبوری نہیں خوشی سے ام المؤمنین کا شرف مل گیا۔ حضرت ہاشم کے بیٹے حضرت عبدالمطلب کو مکہ والے بڑے بھائی کا غلام سمجھتے تھے۔ حضرت اسماعیل کی شان کم نہیں تھی کہ اماں حاجرہ لونڈی تھیں۔ اسلام نے غلامی کا نظام ختم کیا۔ ابولعلاء معریٰ نے لکھاکہ ”عرب بادشاہوں نے یورپ کی سرخ وسفید عورتوں کو دیکھا تو لونڈی کو پھرجواز بخش دیا”۔ عورت کو اسلا م نے حقو ق دئیے مگر چراغ تلے اندھیرا ہے۔عورت کے حقوق پر کتاب اسلئے لکھ دی ہے ۔ جب لوگوں میںحقائق کا علم عام ہوجائے تو پھر معاشرے کا ہر جھول جلد بدل سکتا ہے ۔

ریاست مدینہ کرونا حقائق کے تناظرمیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” جہاں وبائی مرض ہو تو وہاں سے کوئی دوسری جگہ نہ جائے اور نہ کوئی وہاں جائے”۔ چین کو پتہ چلا کہ ”ووہان میں وبائی مرض کرونا پھیل گیا ہے تو وہاں سے نکلنے اور وہاں جانے پر پابندی لگادی”۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے ریاستِ مدینہ نے جس کی نشاندہی کی تھی چین نے موجودہ دور میں اس پر عمل کرکے نجأت حاصل کرلی۔ ایران نے اپنی زیارات کو شفاء کا ذریعہ سمجھا اور حدیث کو نظر انداز کردیا تو تباہی مول لے لی ۔ ٹرمپ کو مذاق سوجھا تو اس کی شلوار بقول عمران خان نیازی کے گیلی ہوگئی ہے۔ اٹلی،اسپین، فرانس اور جن ممالک نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا تو اس کی بہت بڑی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔
قرآن نے سود کو اللہ اور اسکے رسولۖ سے اعلانِ جنگ قرار دیا ۔ کافرممالک میںشرح سود بالکل زیرو ہورہی ہے اور مسلم ممالک میں شرح سود خاص طور پر پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ عمران خان مسلمان ہے جسے دیکھ کر شرمائے ریاستِ مدینہ کا یہود؟۔پاکستان میں جس طرح سیاست میں سرمایہ کاری کرکے بہت زیادہ شرحِ سود اٹھایا جاتا ہے اس کی مثال ہماری پیشہ وارانہ جمہوریت ہے۔ پہلے ہندو بنیے کا سود مشہور تھا۔ اسی طرح مشرکینِ مکہ بھی سودخوری میں مبتلا تھے۔ریاستِ مدینہ میں یہود کا سود اپنی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ آج ریاستِ مدینہ میں صادق وامین رسول اللہ ۖ کی نہیں بلکہ ریاستِ مدینہ کے یہودکی یاد تازہ کی جارہی ہے۔
اسلامی انقلاب عقائد نہیں نظام کیخلاف تھا۔ مدینہ میں رسول اللہۖ پر سود کی حرمت والی آیت نازل ہوئی تو آپۖ نے زمین کو مزارعت اور کرایہ پر دینا سود قرار دیا۔ مکہ فتح ہوا تو پہلے اپنے چچا عباس کا سود، جاہلیت کے خون میں پہلے چچا کا خون معاف کردیا۔پاکستان میں اسلامی انقلاب جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف آئیگا اور محنت کشوں کی چاندنی ہوگی۔

کورونا خودکش حملے کی طرح دہشتگردی ہے ؟

جب نبیۖ نے فرمایا کہ متعدی مرض وبا سے ایسے بھاگو جیسے جنگلی شیر سے بھاگتے ہو تو پھر کورونا وائرس میں غفلت کا مظاہرہ کرنا خود کش حملوں کی طرح دہشت گردی ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو امت مسلمہ کے جذبات طالبان کے حق میں اور امریکہ کے خلاف تھے۔جنرل پرویزمشرف نے مجبوری میں امریکہ کا ساتھ دیا تو پاک فوج کی اکثریت کا جذبہ عوام کی طرح امریکہ کے خلاف اور طالبان کی حمایت میں تھا۔ ریاست کا حکم امریکہ کیساتھ تھا اور ریاست کا جذبہ طالبان کیساتھ تھا۔ جس کی وجہ سے جی ایچ کیو پر قبضہ سمیت پورے ملک کو بہت نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ 70ہزار سے زیادہ پاکستانی لوگ جان سے گئے۔
آج پاک فوج کورونا وائرس کے خلاف دل وجان سے عوام کیساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ کورونا وائرس دہشتگردی سے زیادہ مہلک و خطرناک ہے۔ امریکہ نے افغانستان، عراق اور لیبیا کا بیڑہ غرق کیا تو دنیا کو دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ دہشت گردی ظلم وجبر کانتیجہ تھی اور کورونا وائرس کے خلاف دہشتگردی نہیں ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ عالمِ انسانیت کو اس زریںموقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شَر کی قوتوں کو شرمندہ کرنا چاہیے۔اگر پاکستان میں کوئی اچھا حکمران ہوتا تو سب سے پہلے تمام گھروں کو راشن اور علاج کی سہولت فراہم کرکے اپنی حدود میں رہنے کی تلقین کرتالیکن لگتاہے کہ پاکستان میں وائرس پھیلانے کی دانستہ کوشش ہورہی ہے اور خاندانی منصوبہ بندی کی جگہ کرونا وائرس سے آبادی کم کرنے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ چین سے طلبہ واپس لائے جاتے مگر چین نے خود واپس نہیں کئے۔ ایران میں زائرین کو رکھا جاسکتا تھا مگر زائرین کو واپس لایا گیا۔جب تک وائرس پھیل نہ جائے عمران خان اطمینان کا سانس نہ لے گا اسلئے قرضہ معاف کرانے اور چندہ بٹورنے کا یہ واحد ذریعہ ہے۔

 

علماء کے انوکھے اور نوکیلے فتوؤں کی یہ بھرمار؟
علامہ اشرف جلالی بریلوی بمقابلہ پیر ذوالفقاردیوبندی

جب کوروناوائرس کیوجہ سے تبلیغی جماعت مشکل میں آئی تو بریلوی مکتب کے مولانا اشرف جلالی کی ویڈیو سامنے آئی کہ علامہ ابن سرین نے بدعقیدہ افراد کی طرف سے روایت و آیت کو بھی سننے سے انکار کردیا تھا، ہم اہلسنت ٹھیک کرتے ہیں کہ تبلیغی جماعت اور دیوبندیوں سے قرآن وسنت کی تبلیغ نہیں سنتے۔ دیوبند مکتب کے پیرذوالفقار نے ایک حدیث تبلیغی جماعت پر چسپاں کردی کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ایسے لوگ ہونگے جو انبیاء اور شہداء نہیں ہونگے مگر ان پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کرینگے۔ یہ وہ ہونگے جو عوام کے دلوں میں اللہ کی محبت ڈالیںگے اور اللہ میں لوگوں کی محبت ڈالیںگے، ان کو معاصی ترک کرنے کی دعوت دیکر۔ یہ تبلیغ والے ہیں اور وہ سب علماء ومشائخ بھی اس میں داخل ہیں جو یہ کام کررہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کے ذریعے مسلمانوں کو ہٹ دھرمی کی تعلیم نہیں دی ۔ بدر کے قیدیوں پر مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا تو اللہ نے قرآن میں تنبیہ فرمائی، احد کے بعد جذباتیت کے مظاہرے پر اللہ نے برعکس فیصلہ دیا۔ سورۂ مجادلہ میں عام فتوے کے برعکس وحی نازل ہوئی ۔ صلح حدیبیہ میں نبیۖ نے زبردست حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اگر تبلیغی جماعت کی شوریٰ فیصلہ کرتی اور اپنے ترجمان کے ذریعے عوام کو مطلع کرتی کہ” ہم سے غلطی ہوئی ہے، دین اور دنیا سے ہم جاہل ہیں۔ حکومت کی بات مان کر ہمیں اجتماع نہیں کرنا چاہیے تھا اور پھر اجتماع کے بعد جماعتوں کی تشکیل ہماری غلطی اور ہٹ دھرمی تھی جس کا ہم نے خمیازہ بھگت لیا ”۔ تو سب لوگ تبلیغی جماعت کی تعریف کرتے لیکن مولانا نعیم بٹ نے ہٹ دھرمی سے ترجمانی کرتے ہوئے اپنی اصلیت واضح کردی۔ بریلوی، دیوبندی ،شیعہ،اہلحدیث اور جماعت اسلامی روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ کر قرآن وسنت کے واضح احکام پر عمل کریں۔

 

پاکستان کی ریاست شوگر مافیا کی لونڈی ہے؟
کیا ہم اپنی حالت بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟

پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے، کچھ لوگوں کو ن لیگ نے خرید لیا ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ اس حکومت کو چلتا کرکے ن لیگ، ق لیگ اور تحریک انصاف کے لوٹے مل کر ایک بار پھر مشترکہ حکومت قائم کریں۔ چاہے نئے انتخابات کے ذریعے ہو یا اسی سیٹ اپ میں تبدیلی کا تقاضہ پورا کیا جائے۔ جب جہانگیر ترین اور عمران خان کو نکال باہر کیا جائیگا تو تختِ لاہور ، پنجابی اور اسٹیبلشمنٹ کی تثلیث کو وہ لوگ صلیب کی طرح پوجنا شروع کردینگے جو فوج کی سخت مخالفت کرکے نوازشریف کیلئے کام کررہے ہیں مگر دوسری طرف پاکستان توڑنے کیلئے یہ سازش کافی ہوگی اسلئے کہ عمران خان نیازی اور جہانگیر ترین کوسائیڈ لگانے پر لسانی طاقتوں کو تقویت ملے گی۔ جب الیکشن کی سیاست کرنے والوں کی اکثریت مفادپرست ہے اور فوج کے کندھے پر چڑھ کر سب حکومت میں آتے ہیں تو ایک ایمرجنسی حکومت کے ذریعے سے مخلص عوام کو ہی اعتماد میں لیا جائے۔ قرآن وسنت کی طرف توجہ کی جائے، مساجد سے نیک لوگوں کو اسلام کی درست تعلیم سمجھائی جائے ، علماء ومفتیان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ سماجی کارکنوں کی زبردست سرپرستی کی جائے اور ملک کی تقدیر بدلی جائے۔
کسی کا کوئی ذاتی ایجنڈہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ سول وملٹری اور عدالتی بیوروکریسی کے علاوہ صحافت اور سیاست کے میدان سے اچھے لوگوں کو پاکستان میں نظام کی تبدیلی پر لگانے سے ہی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ کورونا وائرس ہمیں ایک قوم اور جماعت بن کر رہنے کیلئے ہی رحمت بن کر آیا ہے۔ وحی کا سلسلہ بند ہوچکا ہے، سب میں خوبیاں اور کمزوریاں ہیں اورسب کو ایک پلیٹ فارم سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان اپنی پارٹی کو خوش رکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا ہے تو نالائق قوم کو کس طرح متحد کرسکتا ہے؟۔