پوسٹ تلاش کریں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!

درسِ نظامی میں دیوبندی بریلوی حدیث صحیحہ کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیںمگر جب یہ ثابت ہوکہ حدیث قرآن کے خلاف نہیںتھی تو فقہ حنفی کی بلند وبالا نئی بلڈنگ کھڑی ہوجائے گی ؟

پاکستان کی اکثریت دیوبندی بریلوی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پہلے اپنی بوسیدہ بلڈنگ گراکر ایک شاندار نئی عمارت کھڑی کردیں جس سے مساجدو مدارس کی رونق اور اعتماد بحال ہو

علماء نے اصول فقہ میں قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کو پچھاڑ دیا ہے اور پھر کمال کی نالائقی یہ کی ہے کہ فقہ کے مقابلے میں قرآن کو پچھاڑ دیا ہے اس سے بڑھ کر گمراہی کیا ہوسکتی ہے؟

شریعت کے چار اصول ہیں ۔ پہلا اصل قرآن ہے اور قرآن سے مراد صرف وہ500آیات ہیں جو فقہی احکام سے متعلق ہیں۔ باقی قرآن قصے ، مواعظ اور دیگر امور ہیں۔ پھر اصل معاملہ چھوڑ کر قرآن کو کیوں متنازعہ بنانا شروع کردیا ؟۔ کہ قرآن” المکتوب فی المصاحف ( قرآنی نسخوں میں لکھا ہوا ) ہے اور مکتوب سے مراد کلام اللہ نہیں کیونکہ یہ محض نقش ہے ”۔حالانکہ یہ قرآن سے پوچھنا چاہیے کہ مکتوب کیا ہے؟۔ ولوانزلنا ہذا القراٰن فی قرطاس لمسوہ ”اور اگر ہم اس قرآن کو کاپی میں لکھا ہوااتار دیتے اور یہ لوگ اس کو چھوتے”۔ پھر بھی انہوں نے اس کو جادو قرار دینا تھا۔ جوکہتے تھے کہ ھٰذا اساطیر الاولین اکتبھا بکرة ًواصیلاً( یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جو صبح شام لکھوائی جاتی ہیں)۔کتابت کا لفظ عربی میں لکھائی ہے جس کا بہت زیادہ مرتبہ قرآن میں استعمال بھی ہواہے اسلئے کتابت اور وہ بھی قرآن کی کتابت کو محض نقش قرار دینا بہت بڑی نالائقی اور گستاخی ہے۔ جس کو کم عقل فقہاء نے یہاں تک پہنچایا ہے کہ سورۂ فاتحہ کو نکسیر اور پیشاب سے لکھنے کو علاج کیلئے نعوذ باللہ جائز قرار دیا ہے۔ قرآن کی تعریف میں یہ پہلا جملہ انتہائی خطرناک اور احمقانہ ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے جس علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کی تھی اور فقہ کی طرف توجہ فرمائی تھی ، ہمارا یہ المیہ ہے کہ قرآن کی تعریف میں پھر اسی گمراہانہ تصور کو بنیاد بنادیا ہے۔
اہل حدیث کو لاجواب کرنا ہوتا تو ان کے نزدیک چھوٹے شیر خوار بچے کا پیشاب پاک ہے اور ہم ان کو جواب دے سکتے تھے کہ سورۂ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنے کا جواز تمہاری وجہ سے لکھ دیا گیاہے۔
قرآن کی مزیدتعریف کہ” المنقول عنہ نقلًا متواترًا بلاشبہ (جو آپۖ سے نقل کیا گیا ہے تواتر کیساتھ کسی شبہ کے بغیر)۔ متواتر سے غیر متواترآیات نکل گئیں جیسے خبر احاد اور مشہور ۔بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی۔ اگر چہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے اور شک اتنا قوی ہے کہ اس کی وجہ سے اس کا انکار کرنے سے مسلمان کافر نہیں بنتا ہے۔ باقی کسی آیت سے انکار کرے گا تو کافر ہوجائے گا”۔
امام شافعی کے نزدیک موجودہ قرآن کے علاوہ دیگر آیات کا وجود ماننا قرآن کی تحریف کا عقیدہ ہے اور بسم اللہ میں شک کرنا کفریہ عقیدہ ہے۔ امام ابوحنیفہ نے یہی عقیدہ اپنے شاگردوں کو سکھایا تھا اور امام شافعی اصل میں امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد کے شاگرد تھے۔ امام ابویوسف اپنے استاذ امام ابوحنیفہ سے منحرف ہوگئے۔ امام ابوحنیفہ اسلئے جیل میں شہید اور امام ابویوسف قاضی القضاة چیف جسٹس بن گئے۔ مفتی محمود نے بھی آخر میں کسی کے ہاتھ پان اور دورہ قلب کی خاص گولی کھاکر شہادت کی منزل پائی اور مفتی محمد تقی عثمانی نے شریعت کورٹ کے جسٹس کا حلف اٹھالیا تھا۔ جب مفتی محمود نے پان کو بدتر قرار دیا تھا تو کھلانے کا کوئی تُک نہیں بنتا تھا اور اس پر یہ جھوٹ کہ بے تکلفی تھی اور بھیا کہہ کر پان مانگ کر کھالیتے تھے۔ امام شافعی پر درباری علماء ومفتیان اور وقت کے قاضیوں نے رافضی ہونے کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ وہ سراسر بہتان تھا۔
اگر قرآن کی500آیات لکھ دی جاتیں اور اس کا سادہ وسلیس مفہوم طلبہ اور عوام کو پڑھایا جاتا تو آج ساری دنیا مسلک حنفی کے مطابق چلتی۔ آیت کی ریاضی سے تشریح بھی غلط ہے اور جس آیت کے مقابلے میں حدیث صحیحہ کو ناقابلِ عمل قرار دیا،وہ آیت سے متصادم بھی نہیں ہے۔آیت228البقرہ میں ہے کہ المطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء ” طلاق والی عورتیں3ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں”۔ عورت کاایک دورحیض و پاکی کے دنوں کو ملاکر بنتاہے۔ حیض کی حالت میں مقاربت منع ہے اور جیسے روزہ رات کو نہیں دن کو ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت کی عدت کا پہلا دور بھی حیض کے بعد طہر ہے۔ جس طہر میں عورت کو طلاق دی جاتی ہے اس سے پہلے وہ ایک حیض مقاربت کے بغیر گزار چکی ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ تین قروء یعنی3ادوار سے3اطہار مراد ہیں۔ جب ایک عورت کو طلاق مل گئی تو اس نے تیسرے طہر کے بعد عدت کو مکمل سمجھ لیا اور شوہرسے علیحدگی اختیار کرلی۔ جس پر کسی نے اعتراض کیا اور حضرت عائشہ نے وضاحت کی کہ اس نے ٹھیک کیا۔عبداللہ بن عمرنے حیض میں بیوی کو طلاق دی تونبیۖ نے شدید غصے کا اظہار فرمایا اور پھر سمجھایا کہ ” طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھو، یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں چاہو تو معروف طریقے سے رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر اس کو چھوڑ دو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم کیا ہے”۔ جب آخری طہر کے بعد حیض آگیا تو جس طرح رمضان کا چاند تیسرے عشرے کے اعتکاف میں نظر آنے کے بعد اعتکاف والے گھروں کی طرف بھاگتے ہیں اس طرح عورت کی عدت بھی تیسرے طہر کے بعد حیض آتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ حیض نہ آتا ہو تو تین ماہ کی عدت قائم مقام ہے۔
درس نظامی کی کتاب ”نورلانوار” میں ہے کہ ”3کا عدد خاص ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ہے۔ طہر میں طلاق دینا مشروع ہے۔ جس طہر میں طلاق دی جائے تو اس کو شمار کرنا ادھورا ہوجائے گا اسلئے3حیض کی عدت ہے۔ اگر تین طہر مراد لئے جائیں تو پھر یہ ڈھائی بن جائیں گے۔ حالانکہ اگر تین حیض مراد لیں تو پھر جس طہر میں طلاق دی ہے وہ بھی عدت میں شمار ہوگی اور ساڑھے تین بن جائیں گے؟۔ اگر دن کو روزے کی نیت کی جائے تو جب کچھ کھایا پیا نہیں ہوگا پھر روزہ پورا ہوگا نہ کہ ادھورا؟۔ کچھ بڑے درجہ کے علماء ومحدثین کہتے ہیں کہ ”حیض میں طلاق نہیں ہوتی ہے”۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ طلاق روزے کی طرح عمل ہے۔
نورالانوار میں قرآن اور حدیث صحیحہ کو یوں متصادم قرار دیا کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ (یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے )کے مقابلے میں حدیث لائی گئی کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔
نمبر1:قرآن میں عورت کو ولی سے آزادی دلانے کیلئے اللہ نے نہیں فرمایا کہ ”اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کرلے” بلکہ سابق شوہر سے آزادی دلانے کیلئے یہ فرمایا ہے اسلئے قرآن کے مقابلے میں اس حدیث کو لانا بھی موقع محل کے بالکل منافی ہے۔ قرآن سے حدیث صحیحہ کو پچھاڑ دیا۔
نمبر2:احناف کا قاعدہ یہ ہے کہ جب قرآن وحدیث میں تطبیق ممکن نہ ہو تو حدیث کو متصادم قرار دیا جائے۔یہاں تطبیق ممکن تھی اسلئے کہ قرآن میں طلاق شدہ کا ذکرہے اور حدیث سے کنواری مراد ہے۔جمہور فقہاء نے غلط کیا کہ حدیث کی وجہ سے طلاق شدہ وبیوہ کا اختیار سلب کرلیا۔ طلاق شدہ وبیوہ کے احکام مختلف ہیں ۔ قرآن میں طلاق شدہ سے زیادہ بیوہ کیلئے خود مختار ہونے کی واضح الفاظ میں وضاحت ہے۔ ایک طرف حدیث کو ناقابلِ عمل قرار نہ دیا جائے تو دوسری طرف ہم جمہور کو قرآن کے واضح احکام پر متفق کرسکتے ہیں۔
جب کنواری لڑکی کا گھر سے بھاگ کرنکاح معتبر قرار دیا تو اس کی وجہ سے دوسری احادیث کابھی بیڑہ غرق کردیا ۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ نکاح پر دوعادل گواہ بنالو۔ حنفی فقہاء نے دو فاسق گواہ بھی کافی قرار دیدئیے اور حدیث میں ہے کہ دف بجاکر نکاح کا اعلان کردو،یہ کہتے ہیں کہ دو خفیہ فاسق گواہ بھی اعلان ہے۔ حدیث میں مساجد میں نکاح کرنے کا اعلانیہ حکم ہے اور یہ عدالت میں خفیہ دستاویز پیش کرنے کو بھی ٹھیک کہتے ہیں۔ جس سے خاندانوں میں دشمنی ، جنگ وجدل اور قتل وغارت کا ماحول بنتاہے۔ حالانکہ قرآن نے اس رشتے کو بھی دوسرے خونی رشتے کی طرح آپس میں محبت والفت اور احسان قرار دے دیا ہے۔ان نام نہاد غلط حنفی فقہی مسائل کی وجہ سے چھپ کر یاری دوستی کا ماحول قائم ہوتا ہے اور کورٹ میرج کا راستہ بنتا ہے۔
حدیث قرآن سے نہ ٹکرائے پھر بھی ناقابلِ عمل ہو لیکن فقہی مسئلہ سے قرآن کو ناقابلِ عمل قرار دیا جائے تو اس سے بڑی گمراہی کیا ہے؟۔ مہاجرعثمانی عاقلہ بالغہ لڑکی ایک مہاجر لڑکے سے نکاح کرے تو یہ فتویٰ دیا جائے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوا اسلئے کہ لڑکی کا لڑکا کفوء نہیں۔ کیا حدیث قرآن کے مقابلے میں ناقابل عمل ہے ؟۔ مگر فتویٰ کے مقابلے میں قرآن کو پچھاڑ دیا ہے ؟۔ کچھ تو شرم بھی ہوتی ہے ، کچھ تو حیاء اور غیرت بھی ہوتی ہے۔ حالانکہ قرآن میں سب بنی آدم کو برابر اور مٹی سے پیدا کرنے کا تصور دیا گیا ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ ” عرب کو عجم پر ، عجم کو عرب پر، کالے کو گورے پر ،گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ،فضلیت کی بنیاد تقویٰ (کردار)ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایک کیس کے ریمارکس میںلڑکی، لڑکا کا بھاگ کر شادی کرنا لبرل کا کارنامہ قرار دیا کہ پاکستان یورپ کے طرز پر پہنچ جائے گا۔ بھلے مجھے کوئی مولوی کہے ۔حالانکہ یہ مولوی کے ہی کرتوت ہیں۔ جسٹس صدیقیISIکے خلاف بول سکتا تھا لیکن مولوی کے خلاف نہیں۔حالانکہ مولوی کے پاس دلیل نہ ہو تو طاقت کے لحاظ سے یہ بہت ہی کمزور طبقہ ہے۔ بس اس کا ایک فائدہ ہے کہ جب جسٹس صدیقی مرے گا تو عرفان صدیقی اس کے حق میں لچھے دار لکھے گا۔
مفتی تقی عثمانی ایک طرف تقلید کی شرعی حیثیت میں لکھتا ہے کہ ” اجتہاد کا دروازہ ائمہ مجتہدین کے بعد بند ہے، اس کے بعد کوئی اجتہاد کرے گا تو گمراہ ہوگا اور دوسری طرف عالمی بینکاری کے سودی نظام کو اپنے اجتہاد سے جائز قرار دیا کہ دونیکیاں ملیں گی اور اگر غلطی کی تو ایک نیکی ملے گی۔ حالانکہ سود کو جواز بخشنے کا کیا اجتہاد ہوسکتا ہے؟۔ اجتہاد تو ان چیزوں میں ہوتا ہے جو قرآن وحدیث میں موجود نہ ہوں۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: کنواری اور الایم یعنی طلاق شدہ وبیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور کنواری شرمیلی ہوتی ہے اسلئے اس سے نکاح کی اجازت مانگی جائے تو اس کی خاموشی رضامندی واجازت ہے اور الایم کیلئے زبان سے اظہار ضروری ہے۔( صحیح بخاری)۔ حدیث سے ثابت ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ مفتی تقی عثمانی نے فتوی لکھا کہ” عجمی نسل میں کفاء ت نہیں ۔ اگر لڑکی کو اغواء کرکے ڈرادھمکا کر نکاح کرلیا تو یہ رضامندی واجازت ہے اور اب لڑکی یا اسکا رشتہ دار نکاح کو ختم کرنا چاہے تو اسکے سواء راستہ نہیں کہ اس آدمی سے طلاق حاصل کی جائے ۔ (فتاویٰ عثمانی جلددوم :288)
جب سیاسی قائدین جبرکے سامنے سرنڈر کرسکتے ہیں تو کیا اغواء ہونے والی بالغ و نابالغ بچیوں کا نکاح باہمی رضامندی اور دلال کے ذریعے جائز ہوگا؟۔ فتاویٰ عثمانی میں اسلام کو کتنا غلط استعمال کیا جارہاہے؟۔
چھوٹی بچی کو نکاح کیا پتہ ؟۔ اس کی رضامندی بھی معتبر نہیں لیکن اس کے ساتھ زبردستی تو انتہائی درجے کی انسانیت سوز اور ناقابلِ قبول معاملہ ہے۔ ایک بچی کہتی ہے کہ میرا نکاح میری مرضی کے بغیرمیری لاعلمی میں کردیا گیا۔ اب لڑکا بالغ ہوچکا ہے اور میں اس سے آزاد ہونا چاہتی ہوں اور وجہ یہ ہے کہ نابالغ کا نکاح معتبر ہے لیکن طلاق معتبر نہیں ہے۔ اس بے چاری کو جواب ملتا ہے کہ اس سے اب بھی طلاق نہیں لے سکتی ہو اور آپ بالغ ہوجاؤ تو بھی اگر تیرے باپ یا دادا نے یہ نکاح کیا ہے تو اس سے خلاصی نہیں پاسکتی ہو۔ موجودہ دور میں عورت جو کہتی ہے کہ ”میرا جسم میری مرضی ” تو اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ صابرشاہ کا جسم مفتی عزیز الرحمن کی مرضی اور مدرسہ کے طلباء کا جسم اور شیخ الحدیث مفتی نذیراحمد فیصل آبادی کی مرضی۔ ان لوگوں کا ضمیر غارت ہوچکا ہے اور جب تک اس جعلی اسلام کے خلاف مدارس، مساجد ، خانقاہوں اور امام بارگاہوں سے ایک مؤثر آواز نہیں اٹھے گی جو عوام کے ووٹوں سے اقتدار کی دہلیز تک پہنچے اور ڈنڈے والی سرکار کے زور ان سب کو سیدھا کردے تاقیامت بھی مؤمن اسی غلامی اور ذکر صبح گاہی سے جان نہیں چھڑ اسکتا ہے۔
بچی کا نکاح9،10سال کی عمر میں اسکے باپ نے شیرمحمد سے کردیا۔ لڑکی نے بالغ ہونیکے بعد کئی سال تک رخصتی کا انتظار کیا۔ لڑکا بیرون ملک گیا اور5سال تک مفقود الخبر ہوا۔ عدالت میں شادی یا فسخ نکاح کا کیس دائر کیا۔7ماہ تک عدالت کے مطالبے پراسکے رشتہ دار نہیں لاسکے اور پھر جج نے نکاح فسخ کردیا۔ لڑکی نے عدت کے بعد والد کی مرضی سے محمد شفیع سے نکاح کیا ۔اسکے کئی مہینے بعد شیرمحمد نے واپس آکرلڑکی کا مطالبہ کیا تو لڑکی کے باپ نے انکارکردیا۔ مفتی تقی نے فتویٰ دیا کہ لڑکی شیرمحمد کے نکاح میں اب بھی ہے۔
دعا زہرہ کیس میں کیا کیا مشکلات حکومت ، ریاست ، صحافت اور معاشرت کو بھگتنے پڑے تھے؟۔ لیکن وہ کیس تو ہائی پروفائل بن گیا تھا۔ مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد دوم” بدترین نمونے ہیں۔ اگر عوام کے سامنے آگئے تو برمی بنگالی عورتوں اور بچیوںکو دلال کے ذریعے بیچنے سے لیکر دنیا میں اسلام کے نام پر عورتوں اور بچیوں کے حقوق کی ایسی خلاف ورزی کاوہ شاخسانہ نظر آئے گا کہ الحفیظ والامان کی صدائیں بلند ہوں گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف

رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف

ہندوپنڈت کا ہندوستان میں ایمان افروز بیان:حضرت محمد ۖ دنیا کے ایسے عظیم انسان تھے جو سب سے پہلے احکامات پر خود عمل کرتے تھے تب بتاتے تھے۔ قرآن مجید کی آیتوں کے ،اللہ کے احکامات کے ساتھ ہی آپ کا جیون تھا۔ قرآن مجید کی سورہ21آیت نمبر107میں اللہ کا حکم آیا کہ اے محمد ۖ ہم نے تمہیں ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ کی ایک صحابیہ نے کہا اے اللہ کے رسول اپنے مخالفین پر لعنت بھیجئے ان کیلئے بد دعا کیجئے۔ حضرت محمد ۖ نے کہا مجھے اللہ نے بدعا اور لعنت بھیجنے کیلئے نہیں بلکہ رحمت اور دیا کیلئے بھیجا ہے۔ بدر کی لڑائی میں73قیدی لائے گئے اور مسجد نبوی کے کھمبے میں باندھ دئیے گئے۔ آپ کے ایک صحابی آدھی رات میں اٹھے انہوں نے دیکھا کہ حضرت محمد ۖ مسجد نبوی میں بڑی بے چینی سے ٹہل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ نے آرام نہیں فرمایا؟۔ آپ نے کہا کہ مجھے ان قیدیوں کی تکلیف دیکھی نہیں جارہی۔ یہ نہیں سو پارہے تو میں کیسے سو سکتا ہوں؟۔ ایسے تھے رحمت۔ جو دشمن کی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتا ہو دنیا میں حضرت محمد ۖ کے سوا ایسا کوئی انسان نہیں تھا۔ قرآن مجید کی سورہ7آیت199میں اللہ کا حکم ہے کہ اے محمد! معافی کا طریقہ اپناؤ۔ اور بھلائی کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو۔ جبھی تو حضرت محمد ۖ ایک ہی لفظ جانتے تھے معافی معافی اور معافی۔ اور پوری زندگی اپنے ساتھیوں کو بھلائی کی نصیحت کرتے رہے اور جاہلوں سے کنارہ کرلیا۔ میں نے کیا کہا کہ مکہ کے اگنانیوں (جاہلوں) سے آپ کنارہ کرکے مدینہ چلے گئے۔ آپ کے خلاف جتنی بھی لڑائیاں ہوئی ابوسفیان اس کا سینہ پتی (سپہ سالار) رہتے تھے۔ ابوسفیان کی سربراہی میں ہی احد کی لڑائی ہوئی تھی۔ جس میں آپ بہت بری طرح زخمی ہوئے۔ آپ ۖ کے بڑے بڑے صحابی شہید ہوئے۔ اس کے باوجود فتح مکہ والے دن آپ نے کہا کہ ابوسفیان کو معافی اور اس کے گھر میں جو داخل ہوجائے اسے بھی معافی۔ جو اپنے گھر کے دروازے بند کرلے اسے معافی اور جو عبادت گاہ میں داخل ہوجائے اسے بھی معافی۔ یعنی کسی نہ کسی بہانے سب کو معافی، معافی دینے کا بہانہ چاہیے تھا حضرت محمد ۖ کو، یعنی اس مکہ میں معافی دیا جہاں قدم قدم پر آپ کیلئے کانٹے بچھائے گئے۔ اس مکہ کے ایک ایک انسان کو آپ نے معاف کردیا۔ ایسے تھے حضرت محمد ۖ۔ لیکن ہر سال ہر جگہ سیرت کے جلسے ہوتے ہیں مجھ کو بھی بلایا جاتا ہے تو میں ایک ہی بات کہتا ہوں سیرت پر میں بول رہا ہوں مجھے اپنے دل پر ہاتھ رکھنا چاہیے کہ حضرت محمد ۖ کے جن احکامات کو جن سنتوں کو میں بتارہا ہوں کیا میں اس پر عمل کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو مجھ کو دیکھنا چاہیے اس کے بعد جو سننے والے ہیں ان کو دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ عمل کرتے ہیں؟۔ اگر نہیں کرتے ہیں تو اگر10فیصد بھی ان کو مان لیں تو سمجھ لیجئے کہ جلسہ کامیاب۔ اور سننے کے بعد تالی بجاکر چلے گئے وہ عملی طور پر کہیں بھی نہیں ہے تو جلسہ ناکام اور آپ بھی ناکام۔ حضرت محمد ۖ نے ہمیشہ لوگوں کو بھلائی سے جیتا جنگ سے نہیں جیتا۔ حضرت محمد ۖ کا نام جہاد سے جوڑ دیا جاتا ہے جنگ سے جوڑ دیا جاتا ہے یہ سب سے بڑاظلم اور نا انصافی ہوئی ہے آپ کے ساتھ۔
ہندو پنڈت کے بیان پر ایک مختصر تبصرہ اور تجزیہ
مسلمان شیعہ سنی کو چاہیے کہ اس بیان کو بالکل عام کریں اور اپنا یہ کریڈت نہیں قرار دیں کہ ہماری بہت وسیع القلبی ہے بلکہ ہندو پنڈت کے ایمان ، سچائی اور انسانیت کا اس کو زبردست نمونہ قرار دیں اور ان کو خراج تحسین پیش کریں۔ یقین جانو کہ ہندو ، یہودی اور عیسائیوں نے بھی اپنے اصلی مذہب میں تحریف کا ارتکاب کیا ہے لیکن اس سے بڑھ کر مسلمانوں کی حالت زیادہ خراب اسلئے ہے کہ ان کے پاس قرآن بالکل محفوظ ہے اور نبیۖ کی سنت کافی حد تک مگر کتابوں میں محفوظ ہے اور اس کے باوجود بھی مسلمان فطرت سے اس قدر ہٹ گئے ہیں کہ دوسرے مذاہب کے اچھے لوگ بھی اپنی انسانی اور ایمانی فطرت سے اتنے نہیں ہٹے ہیں۔
8عورت مارچ کے دن کو اگر عورتیں قرآن وسنت کے مقابلے میں من گھڑت فقہی مسائل کو اجاگر کریں تو پوری دنیا عورت کے حقوق کیلئے اسلام اور مسلمانوں کیساتھ کھڑی ہوگی۔ قرآن نے اسلئے مسلمانوں کیساتھ یہود، عیسائی اور صائبین کے ایمان اور عمل صالح کو مقبول قرار دیا ہے۔ آیت62البقرہ۔ آخرِ الذکر ہندو ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ

جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کی 1970ء میں دورہ ٔ مصر کے موقع پر ایک نایاب اور یادگار ویڈیو۔ اللہ رحمتوں کا نزول فرمائے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کی بنیاد کاروبار پر نہیں تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔

علامہ سید محمد یوسف بنوری عالمِ ربانی تھے۔ کبھی کبھی ایسے تقویٰ دار علماء پیدا ہوتے ہیں۔ انکے شرف و فضیلت کے بڑے واقعات ہیں ۔ یہ کم نہیں کہ مجھ جیسا ناقد آپکے سحر تقویٰ میں گرفتار ہے اور میری نسبت بھی اس عظیم ادارے سے ادنیٰ طالب علم، عقیدتمند اورمادرعلمیہ جامعہ کے روحانی فرزند کی طرح وابستہ ہے۔
مولانا بنوری شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اتحاد کے حامی اور قادیانی ومودوی کے مخالف تھے۔ مولانا بنوری مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔ علماء کی دستار فضیلت کے بعدعلم تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر علوم میں مہارت کیلئے اضافی نصاب رکھنے کی بنیاد ڈالی۔ مولانا بدیع الزمان ، مفتی ولی حسن ٹونکی و دیگر اساتذہ نے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کے دارالعلوم کراچی کو چھوڑ کر جامعہ بنوری ٹاؤن میں تدریس شروع کی ۔ مولانا بنوری کی وجاہت بہت زیادہ تھی۔
مرشدی حاجی عثمان کا علامہ بنوری سے دوستانہ تعلق تھا۔ قاری شیر افضل خان نے بتایا کہ” مفتی محمود بنوری کی خدمت میں نمازِعصر کو گئے، بنوری نے رُخ پھیرا۔ مغرب میں بھی یہی ہوا، پھر عشاء میں توجہ دیکر صبح ناشتہ کی دعوت دی۔ پھر میں نے خواب دیکھا کہ نبی کریم ۖ قرآن کا درس دیتے ہیں اور مولانا بنوری شریک ہیں اور مفتی محمود اس میں نہیں جاسکتے تو خواب کا ذکر کردیا۔ مفتی محمود نے کہا:” مولانا بنوری بہت بڑے آدمی ہیں، ہم انکے مقام کو نہیں پہنچ سکتے ہیں”۔
سیلاب زدگان کیلئے نقد رقوم کا اشتہار جامعہ بنوری ٹاؤن کا آیا۔ اکاؤنٹ کھولنا مشکل نہیں۔ بنوری کا کمال تقویٰ تھا۔ زاغوں کے تصرف میں ہے شاہیں کا نشمن۔مفتی احمد الرحمن، ڈاکٹر مختار، ڈاکٹر سکندر کے بعدمولانا بدخشانی کو مہتمم ہونا چاہیے تھا۔ بنوری کی نابینا بیٹی سے شادی کی قربانی دی۔ حلالہ کیخلاف جامعہ بنوری ٹاؤن کو پہل کرنی چاہیے۔ اگر علامہ بنوری حیات ہوتے تو اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز بن چکا ہوتالیکن اسلام کی نشاة ثانیہ پر اسلاف یاد آتے ہیں ۔
ڈاکٹر سکندر نے سواداعظم والوں کو فسادی قرار دیا۔ مولانا منظور نعمانی کے استفتاء پر شیعہ کوکافرقرار دیا۔ حاجی عثمان پر فتویٰ لگا تو پتہ چلا کہ علماء کس طرح استعمال ہوتے ہیں؟۔ ڈاکٹر سکندر کی طرف طلاق کے مسئلے پر تائید ہوتی لیکن انکے فرزندنے رکاوٹ ڈالی۔ شیعہ کو اتحاد تنظیمات المدارس اور متحدہ مجلس عمل میں شامل کیا تو کفر کا فتویٰ واپس لیا؟۔ قاضی حسین احمدمیں جرأت نہ تھی۔ شیعہ کے متعلق سوال پر بھی بہت برا منایا تھا۔بنوری ٹاؤن کو میدان عمل میں آنا ہوگا۔
مولانا بنوری نے زکوٰة کا سالانہ فنڈ مقرر کیا، جب پورا ہوتا تو مزید زکوٰة لینے کی گنجائش ختم ہوجاتی۔ مولانا بنوری سربراہ مملکت نہ تھے کہ تحائف سرکاری خزانہ میں جمع کرتے لیکن اپنے اوپرہدیہ حرام کیا تھا۔ آپ کی چاہت تھی کہ زکوٰة نہیں قربانی کی کھالوں سے انتظام چلے مگر طلبہ کو بھیجتے اور نہ ہی کھالوں کا اشتہار چھپواتے ۔ آپ کے بعد پہلی بار کھالیں جمع کرنے کی ترغیب اور دوسرے سال عید کی چھٹیاں ختم کرکے عید کے بعد چھٹیاں دی گئیں ۔میں نے عیدکی چھٹیاں ختم کرنے پر نکلنے سے لیکر جامعہ کے مردانی طلبہ واساتذہ کے راج کیساتھ ٹکر تک بہت کچھ دیکھا۔ مولانا محمد بنوری کی شہادت پررنج تھا۔ پھر پتہ لگا کہ مفتی نعیمجامعہ پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کا داماد مولانا امین مارا گیا۔ محمد بنوری شہید کا خون رنگ لایا۔ قاری حسین اور حکیم اللہ کو بیت اللہ محسود نے ہمارے واقعہ کے بدلے قتل کافیصلہ کیامگر انہوں نے کہا کہ ”تیرے حکم پر ہم نے ملک خاندان اور اسکی فیملی کو بے گناہ قتل کیا تو تم بھی قصاص کیلئے تیار ہوجاؤ”۔ جسکے بعد طالبان کا زوال آیا۔تاریخ میں بھی قاتلان حسین انجام کو پہنچے تھے اور طالبان بھی پہنچ گئے ہیں۔ سوات اور وزیرستان سے کراچی تک طالبان کی تائید میں علماء ومفتیان اور عوام اور کمیونسٹ سب ایک تھے لیکن آج سبھی ان سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ یہ اغواء جمہوری کفرکے نام پر کرتے تھے اورپھر کروڑوں کا بھتہ مانگا کرتے تھے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن کی تعلیم احادیث صحیحہ سے متصادم نہیں اور فقہ سمجھ کا نام ہے جو ہدایت دیتا ہے۔

قرآن کی تعلیم احادیث صحیحہ سے متصادم نہیں اور فقہ سمجھ کا نام ہے جو ہدایت دیتا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فقہ حنفی میں قدوری کے مصنف کا درجہ فقہی حساب سے کنزالدقائق، ہدایہ اور درسِ نظامی میں فقہ کی دوسری کتابوں کے مصنفین سے بڑا ہے۔ قدوری میں فرض نماز وں کا ذکر ہے اور جن نمازوں کو سنت سمجھا جاتاہے ان کو قدوری میں نوافل لکھا گیا ہے۔ فرض نماز پڑھنا اللہ کا حکم ہے اور فرض نمازوں کی رکعتوں اور طریقہ کار کی ادائیگی کا نام سنت ہے۔ اگر نبیۖ کی سنت نہ ہوتی تو پھر فرض نماز کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں تھا۔ اسلئے اللہ نے قرآن میں بار بار فرمایا ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول کی اطاعت کرو۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ” جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی”۔ اللہ کے احکام پر عمل کرنا سنت رسول ۖ ہے۔ نبیۖ نے نمازوں میں کبھی رفع یدین کیا ہوگا اور کبھی نہیں کیا ہوگا لیکن نمازوں کی رکعتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

فقہ وسمجھ کے اعتبار سے صحابہ کرام میں بھی اختلاف تھا۔ تیمم سے نماز پڑھنے کے اختلاف کا ذکر صحیح بخاری میں حضرت ابن مسعود اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کے حوالے سے موجود ہے۔رسول اللہ ۖ نے ایک سفر سے واپسی پر حضرت عمر سے فرمایا کہ ” غسل واجب ہوا تھااور نماز پڑھنا چھوڑ دی تو بہت اچھا کیا ”۔ اور حضرت عمار سے فرمایا کہ ” غسل میں تیمم کیلئے سارے جسم کو مٹی میں لوٹ پوٹ کرنے کے بجائے وضو کی طرح دو ضرب کافی تھے کہ صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرلیتے”۔ ابن مسعود نے حضرت عمر کے مؤقف کو ہی درست سمجھ رکھا تھا اور ابوموسیٰ اشعری نے حضرت عمار کی بات کو صحیح سمجھ رکھا تھا۔

مولانا مناظر احسن گیلانی نے ‘تدوین فقہ” میں شاہ ولی اللہ کے حوالے سے اس اشکال کا ذکر کیا کہ ” جب نبی کریم ۖ نے حضرت عمار سے فرمایا کہ تجھے وضو کی طرح تیمم کرکے نماز پڑھنا کافی تھا ‘تو پھر حضرت عمر نے کیوں اس بات کو تسلیم نہیں کیا بلکہ یہ واضح طور پر کہا کہ عمار کی حدیث اس کے منہ پر پڑے۔ یہ بات بہت قابلِ تعجب ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عمار کی بات تسلیم کرنے سے کیوں انکار کیا؟۔ اور اس سے زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ نبیۖ نے حضرت عمارکی طرح حضرت عمر پر یہ معاملہ کیوں واضح نہیں فرمادیاتھا؟”۔

شاہ ولی اللہ نے برصغیرپاک وہند میں عوام وخواص کو فقہ کی جگہ قرآن وسنت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اہم کردار ادا کیا ہے اور فقہاء کے بارے میں لکھا ہے کہ ” بہت سارے بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی جگہ پر ایک ایسے قول کو گدھوں کی طرح مضبوطی سے جبڑوں میں پکڑلیتے ہیں جس کی کوئی بھی اہمیت نہیں ہوتی ہے”۔ پھر دوسرے علماء ومفتیان کے کیا حالات ہوں گے؟۔

حالانکہ قرآن وسنت میں کوئی تضاد نہیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم سمجھوجو تم کہہ رہے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں مگر جو مسافر ہو یہاں تک کہ نہالو”۔ اس آیت میں واضح ہے کہ جنابت میں نماز پڑھنامنع ہے مگر مسافر کو اجازت ہے یہاں تک کہ نہالیا جائے۔ اللہ نے نماز پڑھنے سے نہائے بغیر روکا ہے مگر مسافر کو نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔

حضرت عمر نے اپنی فطرت کے مطابق گنجائش کا فائدہ اٹھایا اور سفر میں نماز نہیں پڑھی اور حضرت عمار نے اپنی فطرت کے مطابق اس گنجائش کا فائدہ اٹھایا اور نماز پڑھ لی۔ آیت میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ نماز پڑھنے کی مسافر کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے۔ دونوں صحابہ کرام نے اپنے اپنے طبائع کے اختلاف سے اللہ کے حکم پر درست عمل کیا۔ نبیۖ نے بھی توثیق فرمائی۔ قرآن وسنت، صحابہ کرام کے عمل میں تضاد نہیں بلکہ تطبیق ہے۔ آج بھی بعض لوگ سفر کی حالت میں جنابت کی وجہ سے نماز نہ پڑھیں تو مسئلہ نہیں اور اگر کوئی تیمم کرکے پڑھ لیتے ہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ بعید نہیں کہ دعوت اسلامی و تبلیغی جماعت کے افراد حضرت عمارکی طرح نماز پڑھیں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکن حضرت عمر کی طرح نماز نہ پڑھیں۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو چوتھی صدی ہجری کی بدعت قرار دیا۔ جس پر دیوبندی بریلوی اکابرتقسیم ہوگئے۔ اگر پیٹ پوجا نہ ہوتو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یوٹیوب پر شیخ ابوحسان اسحاق سواتی صحابہ پر بھی انکار حدیث و قرآن کا فتویٰ نہ لگادیں۔ جاہلوں سے ایک طرف حضرت عمر وابن مسعود اور دوسری طرف حضرت عمار وابوموسیٰ اشعری پر منکر حدیث وقرآن کا فتویٰ لگانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

بریلوی مولانا نے ” بہارشریعت ” میں لکھ دیا کہ غسل اور وضو وغیرہ کے فرائض ظنی ہیں۔ دلیل کیساتھ ان کا انکار کرنا درست ہے لیکن دلیل کے بغیر ان سے انکار کرنا گمراہی ہے۔احناف کے نزدیک غسل کے 3 فرائض ہیں۔ منہ بھر کر کلی کرنا۔ ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا اور ایک مرتبہ بدن پر پانی بہانا۔ شافعی مسلک میںپہلے 2فرائض سے اتفاق نہیں۔ انکے نزدیک وضو کی طرح غسل میں بھی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے۔ امام مالک کے نزدیک جب تک مل مل کر جسم نہیں دھویا جائے تو پانی بہانے سے غسل ادا نہ ہوگا۔

کسی ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس آیت میں اللہ نے وضو کا حکم دیا ہے تو اسکے بعد فرمایا کہ وان کنتم جنباً فطھروا ” اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہوتو خوب پاکی حاصل کرو”۔ قرآن میں اللہ نے واضح کیا تھا کہ جنابت سے غسل کرنا ہوگا اور وضو کے مقابلے میں نہانا اچھی طرح سے پاکی حاصل کرنا ہے۔ قرآن کے احکام میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ وضو اور غسل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ وضو میں چند اعضاء دھوئے جاتے ہیں، سر پر مسح کرنا ہے اور غسل یا نہانا پورے جسم کا ہوتا ہے۔ یہ مبالغہ بہت ہے۔ صحابہ کرام دورِ جاہلیت میں نہانا جانتے تھے، تمام اقوام اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے نہانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ چرندے ، پرندے اور وحشی درندے بھی نہانا جانتے ہیں۔ حضرت عمر نے اسلام قبول کرنے سے پہلے قرآن کے اوراق مانگے تو آپ کی بہن نے نہانے کا کہہ دیا۔ حضرت عمر کیلئے نہانا کوئی نئی بات نہیں تھی۔

نبیۖ اور صحابہ نے غسل اور وضووغیرہ کے فرائض ایجاد نہیں کئے تھے۔ فرائض کی ایجاد وبدعت صحابہ ، تابعین، تبع تابعین کے بعد کی کہانی ہے۔ فقہ کے ائمہ کی طرف بعد والوں نے مسائل منسوب کئے۔ جب پچکاری لگانے کا مسئلہ آیاتو سوال پیدا ہوا کہ معدے تک پانی پہنچا تو روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟۔ پھر بگڑتے بگڑتے بات یہاں تک پہنچی کہ بریلوی علامہ شاہ تراب الحق قادری نے نماز جمعہ کی تقریر میں کہا کہ ” روزے میں پاخانہ کیا تو اسکے ساتھ ایک آنت کا سرا نکلتاہے جو پھول نما ہوتا ہے۔ پھول کو دھونے کے بعد کپڑے سے سکھایا جائے اور اگر کپڑے سے سکھائے بغیر یہ پھول اندر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ پورا زور لگاکر اس کو مقعد کے اندر جانے سے روکا جائے۔ورنہ روزہ ٹوٹے گا”۔پھر بعد میںدعوت اسلامی کے مفتیوں نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی کہ” استنجا ء کرتے وقت سانس روکی جائے ورنہ پانی اندر جائے گا اور روزہ ٹوٹ جائیگا”۔

مولوی خوش ہوتے ہیں کہ کوئی انوکھی بات بتائیں لیکن پھر عوام کو عملی طورپر بھگتنا پڑتا ہے۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری کے مرید نے پوچھا کہ پہلے روزوں کا کیاہوگا؟۔اور اس پر عمل بس سے باہر ہے اسلئے کہ آنت کو کنٹرول رکھنا ممکن نہیں۔ علامہ شاہ تراب الحق نے بھگادیا کہ میرا کام مسئلہ بتانا تھا باقی تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ پھر ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں اس کا پوسٹ مارٹم کیا اور بریلوی مکتب کے علماء کرام نے بھی ہماری تائید اور اس مسئلے کی تردید کردی تھی۔ طلاق کے حوالے سے اس سے زیادہ عجیب وغریب مسائل گھڑے گئے ہیں۔

میرے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پرنسپل جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری کراچی وصدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ہماری تحریک کی تائید میں لکھا کہ” اس امت کی اصلاح اس چیز سے ہوگی جس سے اس امت کی پہلے دور میں اصلاح ہوئی تھی”۔اور امام مالک کے قول کا حوالہ دیا ۔ جب تک ہماری تعلیم کی اصلاح نہ ہوگی تو علماء ومفتیان ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے۔ سر کے مسح پر اختلاف ہے۔ مسلک حنفی میں سر کا ایک چوتھائی مسح وضو میں فرض ہے۔ مسلک شافعی میں ایک بال کے مسح سے فرض ادا ہوگا۔ مسلک مالکی میں ایک بال رہ جائے تب بھی فرض ادا نہیں ہوگا۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا : وامسحوا برء وسکم ” اور مسح کرو اپنے سروں کا”۔ حنفی مسلک کے نزدیک حرف ”باء ” الصاق کیلئے ہے۔ ہاتھ سر پر رکھ دیا تو مسح ہوجائیگا اور یہ ایک چوتھائی ہے۔شافعی مسلک میں باء سے مراد بعض ہے ۔ مالکی مسلک میں باء زایدہ ہے۔ عوام وخواص ان بکھیڑوں میں پڑنے کے بجائے تقلید کرنے لگے لیکن اگر ذرا غور کرتے تو تیمم میں یہی جملہ ہے لیکن اس میں سروں کی جگہ چہروںکا ذکر ہے۔ وامسحوا بوجوھکم باء کے حوالے سے اگر یہ خود ساختہ اختلافات درست ہوتے تو پھر تیمم میں چہروں پر مسح کرنے میںبھی فرائض کایہ اختلاف ہوتا؟۔

اگر اللہ چہرے کیساتھ ہاتھوں کو کہنیوں تک وضو میں دھونے کا حکم دیتے تب بھی سروں کا مسح کرنے کیلئے لوگوں کے ہاتھ خود بخود جاتے۔ علماء و فقہاء نے اپنی طرف سے فقہی مسائل کے بکھیڑے بناکر مسلمانوں کا بیڑا غرق کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تسخیر غسل، تسخیر وضو اور تسخیر استنجاء کا حکم نہیں دیا تھا۔ نبی ۖ اور صحابہ نے امت کو اس راہ پر نہیں لگایا تھا۔ خلفاء راشدین نے دنیا کی سپر طاقتوں کو مسخر کردیا اور ہم سردی گرمی میں استنجے کے ڈھیلوں کو آگے پیچھے سے گھمانے کی تعلیم دیکر عوام کو ذہنی مریض بنانے کی تسخیر پر لگ گئے حالانکہ قرآن کی کئی آیات میں تسخیر کائنات، تسخیر شمس وقمر، تسخیر بادل اور دیگر چیزوں کی تسخیر کی وضاحت ہے جس پر اغیار نے عمل کرکے دنیا کو اپنے سامنے مسلمانوں سمیت رام کرلیا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے تو وہ زمین میں اپنا ٹھکانا بنالیتی ہے اور جو نفع بخش نہیں ہوتی تو جھاگ کی طرح خشک ہوکر اڑ جاتی ہے”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائیں”۔ فقہ میں فرائض اور واجبات کی بدعات ایجاد کی گئی ہیں لیکن وہ جھاگ کی طرح ناپید ہیں اور اغیار نے سائنسی ایجادات کرکے ہمیں بھی سہولیات پہنچائی ہیں۔ علماء منبر ومحراب سے اپنارویہ بدلیں۔ زکوٰة و خیرات ،ہدیات سے حالات کا بدلنا معراج نہیں استدراج ہے۔ اسلام عالم انسانیت کے مسائل حل کرنے کا پہلا اور آخری آپشن ہے۔

قرآن ہدی للمتقین ”پرہیزگاروں کیلئے ہدایت ہے”۔ ہدی للناس ”عوام کیلئے ہدایت ہے”۔فرقوں کے خواص کی مخصوص تراش خراش ہے اور ایک دوسرے کیلئے گمراہ اور ناقابل قبول ہیں جو بالکل درست ہے اسلئے کہ ان میں آج تک قرآن کی رہنمائی سے امام ہدایت پیدا نہ ہوسکا۔ جبکہ قرآن عوام و خواص کیلئے ہدایت ہے۔ جو قرآن کی واضح آیات سے انقلاب لائے وہی امام ہدایت ہے۔ قرون اولیٰ میں خلفاء راشدین قرآن کی وجہ سے سب کے سب امام ہدایت تھے۔ جب یہ اُمت قرآن کو چھوڑ کر روایات اور خرافات میں کھوگئی ہے تو نماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم کی ہدایت کیلئے دعا مانگتے ہوئے بھی اُمت مسلمہ کے عوام و خواص نشے کے بغیر بھی نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اسلئے وہ کسی امام مہدی کا انتظار کررہے ہیں۔ کوئی ان کو اس نشے کی حالت سے نکالنے میں کامیاب ہوجائے تو پوری اُمت صاحب ہدایت و مہدی بن سکتی ہے۔ اللہ کرے کچھ تو سمجھے کوئی۔

حنفی مسلک کی کتب میں حرمت مصاہرت کے عجیب و غریب مسائل ہیں۔ درسِ نظامی میں مُلا جیون کی کتاب”نور الانوار” میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اگر اپنے بچوں یا ساس کو نیند میں یا غلطی سے شہوت کا ہاتھ لگ گیا تو بیوی بیٹی کی طرح حرام ہوجائے گی۔ اگر ساس کی شرمگاہ کو اوپر سے دیکھا تو شہوت میں عذر ہے لیکن اندر سے دیکھا تو بیوی حرام ہوگی۔حنفی اصولِ فقہ میں یہاں تک ہے کہ اپنی بیوی سے ایک اولاد پیدا ہوجائے تو اصولی طور پر وہ بیوی بھی شوہر پر اسکے بعض کا جزء ہونے کے سبب سے حرام ہوجاتی ہے لیکن ضرورت کے تحت حلال قرار دیا گیا ہے۔

ایک طرف عجیب و غریب قسم کے شرمناک اور بھیانک حرمت مصاہرت کے مسائل لکھے تو دوسری طرف وفاق المدارس پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری” میں لکھا ہے کہ ”ایک شخص نے حضرت علی سے کہا کہ میری بیوی فوت ہوگئی اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت علی نے کہا کہ مرحومہ بیوی کی بیٹی ہے؟۔ اس نے کہا کہ ہاں! ۔ علی نے پوچھا کہ وہ بیٹی آپ سے ہے یا کسی اور شوہر سے؟۔ اس نے کہا کہ کسی اور سے!۔ علی نے کہا کہ وہ آپ کے حجرے میں پلی ہے یا دوسری جگہ ؟۔ اس نے کہا کہ دوسری جگہ!۔ حضرت علی نے کہا کہ پھر اسی سے شادی کرلو۔ کیونکہ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ جو تمہارے حجروں میں پلی ہوں ۔ مصنف عبد الرزاق۔ مولانا سلیم اللہ خان نے علامہ ابن حجر کے حوالے سے لکھا کہ اس میں اتنا وزن ہے کہ اگر دوسرا مسلک معروف نہ ہوتا تو اسی پر فتویٰ دیتے۔ جس میں بڑا وزن ہے”۔ قرآن کی آیات کی من گھڑت تفسیری روایات اور اُصول فقہ سے انکے تضادات کا تجزیہ اگر پیش کیا جائے تو مولوی صاحبان میں ذرا بھی شرم ہو تو بیہوش ہوجائیں گے۔

نبیۖ نے فرمایاکہ ” بنی قریظہ میں عصر کی نماز پڑھ لو” صحابہ دیرسے پہنچے تو کسی نے وقت پر نماز پڑھی ،کسی نے قضاء کرلی”۔ بے نمازی کیلئے سزا نہ تھی، پھر بعد میں قتل اور زد وکوب کی سزائیں گھڑی گئیں۔طا.لبان آج پریشان حال ہیں۔
پڑھیں ہم نے نمازیں بہت
مگرہم میں روح محمدی نہ رہی

 

سورہ نور سے طاغوتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کا ”عظمت قرآن کانفرنس” جامعہ شہید پشاور سے خطاب۔

سورہ نور سے طاغوتی نظام کا خاتمہ ہوگا۔ عتیق گیلانی کا ”عظمت قرآن کانفرنس” جامعہ شہید پشاور سے خطاب۔

جب حضرت اماںعائشہ پر بہتان عظیم لگا تو مسلمانوں کا وہ ردِ عمل نہیں تھا جو آج عمر پر عالم اسلام میں اٹھایا جارہاہے۔بہتان زیادہ بڑا مسئلہ تھا

ام المؤمنین اور عام جھاڑو کش عورت پر بہتان کی سزا ایک تھی جس کی وجہ سے پہلے بھی طبقاتی طاغوتی نظام کا خاتمہ ہواتھااور آج بھی ہوسکتاہے

سید عتیق الرحمن گیلانی نے عظمت قرآن و حج کانفرنس ، مدرسہ جامعہ الشہید سید عارف حسین الحسینی پشاور میں خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ جو مین مسائل ہیں ان کی طرف ہمارے جو بڑے اکابر بیٹھے ہیں ان کی توجہ مبذول کراؤں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں؟۔ علامہ عابد حسین شاکری نے تحریف قرآن کے حوالے سے گفتگو فرمائی ہے عام طور پر لوگ اس کو بہت ہلکا لیتے ہیں۔ جب عوام کا اجتماع ہوتا ہے تو عوام کے اندر کہتے ہیں کہ زیر زبر اور پیش کی بھی تحریف نہیں ہوئی۔ لیکن جب مدارس کے اندر پڑھاتے ہیں۔ میں اپنے مکتبہ فکر کی بات کروں گا۔ اگرچہ میرا کوئی خاص مکتب نہیں۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان محدث العصر کہلاتے تھے۔ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے ان کی بخاری کی شرح ہے کشف الباری ۔جسکے اندر بخاری کی ایک روایت ہے حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ نے دو گتوں کے درمیان دو جلدوں کے درمیان ہمارے پاس جو قرآن چھوڑا ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اب یہ بخاری کی حدیث ہے اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے کشف الباری کے اندر نقل کی ہے۔ اور اس کی وضاحت اور تشریح میں یہ لکھا ہے کہ امام بخاری نے یہ روایت کیوں نقل کی ہے؟۔ یہ اسلئے نقل کی ہے کہ چونکہ اہل تشیع تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ تاکہ اس روایت سے ثابت کیا جاسکے کہ علی بھی تحریف قرآن کے قائل نہیں تھے۔ ابن عباس بھی نہیں تھے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ حضرت عثمان جب قرآن جمع کررہے تھے تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود ناراض تھے کہ مجھے جمع قرآن میں شریک نہیں کیا۔ وہ عبد اللہ ابن مسعود جس کے بارے میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اگر قرآن سیکھنا ہو تو عبد اللہ ابن مسعود سے سیکھو۔ ہمارے جو بڑے بڑے مفسرین ہیں مولانا مودودی ، علامہ شبیر احمد عثمانی ، علامہ غلام رسول سعیدی، انہوں نے اپنی اپنی تفاسیر کے اندر معوذتین کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود معوذتین کی قرآنیت کے قائل نہیں تھے نماز میں بھی پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ پھر دلیل دی ہے کہ چونکہ اس وقت اجماع نہیں تھا اسلئے وہ کا.فر بھی نہیں تھے۔ آج اجماع ہوچکا ہے اگر آج کوئی انکار کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ تو اس کا مطلب کیا ہے کہ اجماع کو ہم نے قرآن کے اوپر مقدم کردیا ہے۔ یہ جو میں بات کررہا ہوں یہ ایسے ہی نہیں کررہا۔ اس کیلئے میں نے بڑی تحریک چلائی ہے ماشاء اللہ بڑا کام کیا ہے اس کیلئے۔ اور بڑے بڑے لوگوں کیساتھ اس کو ڈسکس کیا ہے لیکن وہ اندرون خانہ اس کو غائب کردیتے ہیں۔

آج ایک مسئلہ ہے ایک ہندو خاتون نے کسی ٹاک شو کے اندر غصے ہوکر کہا کہ میرا منہ نہ کھلواؤ۔6سال کی عمر میں نکاح اور9سال کی عمر میں رخصتی۔ جس پر عالم اسلام میں ایک کہرام برپاہے۔ لیکن کیا یہ کوئی ایسی راز کی بات ہے کہ جس سے ہندو عورت نے پردہ اٹھادیا ہے؟۔ یہ مسلمانوں کے اندر عام بات ہے اور اگرچہ بات بھی بالکل غلط ہے اسلئے کہ حضرت عائشہ کا نکاح16سال کی عمر میں اور رخصتی19سال کی عمر میں ہوئی ۔ بعثت سے5سال قبل پیدا ہوئیں،5سال دارارقم کی خفیہ تبلیغ میں موجود تھیں۔11نبوی میں آپ کی عمر16سال تھی۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ11نبوی میں آپ کی عمرچھ سال تھی تو5نبوی سے11نبوی تک آپ کی عمر چھ سال بنتی ہے اور اس دوران یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی بیٹی ایک مشرک دشمن کو دی تھی؟۔ حالانکہ حضرت ابوبکر صف اول میں نبیۖ کے رائٹ ہینڈ تھے۔ اس کٹھن مرحلے میں دشمن کس طرح اتنی چھوٹی عمر میں حضرت ابوبکر کی بیٹی سے رشتہ کرسکتا تھا؟۔اگر ہم یہ مان لیں کہ اس وقت کے دستور کے مطابق باہمی رضامندی سے نکاح کا معاملہ اس عمر میں ہوا تھا تو پھر بھی اس بات پر کہرام مچانا زیادہ مناسب ہے جو سب کو معلوم ہے لیکن جب حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان عظیم لگایا گیا تو اس وقت اتنا کہرام مچایا گیا تھا ، جو مچایا جارہاہے؟۔ میں یہ پوچھتا ہوں کہ نکاح زیادہ بڑی بات ہے یا حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کا مسئلہ بڑا تھا؟۔

اس بات کو سمجھنا ہوگاکہ اسلام سے پہلے آزادی اور غلامی کا تصور تھا۔ اللہ نے طبقاتی نظام کو ختم کرکے حضرت عائشہ پر بہتان لگانے والوں کیلئے وہی سزا دینے کا حکم نازل کیا جو کسی عام جھاڑو کش عورت پر بہتان لگانے کا ہو۔ مساوات کے نظام سے دنیامتاثر ہوئی تومسلمانوں نے خلافت راشدہ ، بنوامیہ و بنوعباس کے ادوار امارت اور سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت کے دور میں فتوحات حاصل کیں۔ دنیا میں اسلامی سلطنت کی توسیع کا معاملہ جاری رہاہے۔ پھر جب انگریز نے یہاں قبضہ کیا تو وہ پھر دورِ غلامی اور طبقاتی تقسیم کو رواج دے گئے۔ جرنیل، جج اور بیوروکریٹ کے بڑے عہدے انگریز کے پاس ہوتے تھے اور کلرک ،چوکیدار، چپڑاسی اور نچلے درجے کی ملازمت غلام عوام کے پاس ہوتی تھی۔ جج، جرنیل اور سول بیوروکریٹ افسروں کی عزت ہوتی ہے اور غلاموں کی کوئی عزت نہیں تھی۔ آج بھی انگریز کا طاغوتی نظام ہمارے ہاں موجود ہے اور اس طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کیلئے حضرت عائشہ پر بہتان عظیم کا واقعہ قرآن اور سنت میں موجود ہے اور سورۂ نور کی روشنی سے آج بھی ہم اس طبقاتی نظام کو ختم کرکے دنیاکو غلامی سے نجات دلاسکتے ہیں۔

علامہ عابد حسین شاکری نے کہا کہ زکوٰة کا منکر کافر اور زکوٰة نہ دینے والوں سے جہاد ہے لیکن میں وضاحت کرتا ہوں کہ لا اکراہ فی الدین (دین میں زبردستی نہیں ہے) ایک شخص سے نبیۖ نے دعا کی درخواست کی کہ اس کو مال ملے اور پھر اس کو بہت سارا مال مل گیا لیکن اس نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا۔ نبیۖ نے اس کے خلاف قتا.ل نہیں کیا۔ نماز، حج اور روزہ وغیرہ کسی چیز میں زبردستی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبیۖ کی رہنمائی فرمائی۔ غزوہ بدر میں دشمنوں کو معاف کردیا تو اللہ نے فرمایا کہ” ان کا خون کیوں نہیں بہایا؟۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ پھر جب غزوہ احد میں شدید زخم لگے تو انتقام کا پروگرام بن گیا۔ اللہ نے منع فرمایا کہ ” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ لے جائے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ”۔ جب ایک نابینا کی آمد پر پیشانی کے بل نمودار ہوئے تو اللہ نے فرمایا عبس وتولیٰ ان جاء ہ الاعمیٰ ” چیں بہ جبیں ہوا ایک شخص کہ اسکے پاس نابینا آیا”۔ قرآن نے لمحہ بہ لمحہ نبیۖ کی رہنمائی فرمائی تھی۔

قرآن کے ذریعے سورۂ نور کی ان آیات کے ذریعے ہم طاغوتی نظام سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ وآخر دعوٰنا ان الحمد للہ رب العالمین۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار ہونا یہ چاہیے تھا کہ عظمت قرآن کے منتظم اور تمام مہمانان گرامی اس تقریر پر خوش آمدید کرتے اور سورۂ نور کی روشنی میں طاغوتی نظام کے خلاف راستہ ہموار کرنے کا عہد کرتے لیکن بعض لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑتی دیکھی گئیں۔ درویش مسجد کے عالم دین نے کہا کہ ” تحریف قرآن کے حوالے کسی کی تحقیق کا ذکرکرنا مناسب نہیں تھا” لیکن یہ تحقیق کی بات نہیں ہے بلکہ اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ صحیح بخاری میں جو ایک ہی روایت قرآن کے محفوظ ہونے کے حوالے سے مل رہی ہے اس کا بھی انکار کرکے دوسرے کھاتے میں اس کو ڈالا جائے۔ یہ انفرادی مسئلہ بھی نہیں ہے بلکہ درسِ نظامی میں قرآن کی جس طرح کی تعریف پڑھائی جاتی ہے تو اس میں کھلم کھلا تحریف کا بھی عقیدہ پڑھایا جارہاہے۔ امام شافعی کے نزدیک قرآن کی کوئی ایسی آیت معتبر نہیں ہے جو خبر واحد یا مشہور ہو کیونکہ قرآن سے باہر کی آیت پر ایمان لانا کفر ہے۔ ان کے نزدیک بسم اللہ میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ وہ جہری نمازوں میںجہری بسم اللہ بھی پڑھتے تھے ، جس کی وجہ سے ان پر رافضی ہونے کا فتویٰ بھی لگایا گیا تھا۔ امام شافعی کے دور میں حکمرانوں کا رویہ تبدیل ہوا تھا لیکن امام ابوحنیفہ قاضی القضاة (چیف جسٹس)کاعہدہ قبول نہ کرنے کی پاداش میں جیل میں بند کرکے شہید کئے گئے تھے۔ مسلک حنفی میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ”خبر واحد کی بھی آیت قرآن کے حکم میں ہے”۔ جب قرآن سے باہر کی آیات کو قرآن مانا جائے تو پھر قرآن کی حفاظت کا عقیدہ نہیں رہتا۔ جب بسم اللہ کو مشکوک کہا جائے تو ذٰلک الکتٰب لاریب فیہ ” یہ وہ کتا ب ہے کہ جس میں کوئی شبہ نہیں ”۔ کا عقیدہ نہیں رہتا ہے اسلئے قرآن کی غلط تعریف اصولِ فقہ میں پڑھانا چھوڑ دیا جائے۔ قرآن کی بہت ساری آیات سے المکتوب فی المصاحف سے لکھاہوا قرآن ثابت ہوتا ہے۔ پہلی وحی میں تعلیم بالقلم کا ذکر ہے۔ والقلم ومایسطرون ” قسم ہے قلم کی اور جو سطروں میں موجود ہے اس کی قسم ”سے بھی ثابت ہوتاہے کہ قلم سے سطروں میں لکھا ہواقرآن اللہ کا کلام ہے۔ اصولِ فقہ کے گمراہانہ عقائد مدارس والے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں مگر سمجھتے اور سمجھاتے نہیں ہیں۔ ورنہ کب کی توبہ کرچکے ہوتے۔

ابن مسعود کے مصحف میں سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتوں کے صفحات پڑھنے پڑھانے کی وجہ سے پھٹ کرضائع ہوگئے اور جس نے کافی عرصہ بعد ابن مسعود کے مصحف کی زیارت کی تو اس نے بتایا کہ اس حالت میں مصحف کو دیکھا ہے اور اس پر کہانی گھڑنے والوں نے اپنا اپنا زوالِ علم وعرفاں دکھادیاتھا۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ابن مسعود سے متعہ کے حق میں ایک حدیث نقل ہے اور قرآن کی آیت پر اس حدیث کی وجہ سے اپنی تفسیر لکھ دی ہے ، جس طرح جلالین میں تفسیری نکات قرآن کے بین السطور میں درج ہیں لیکن بدقسمت لوگوں نے اس کو ابن مسعود کے مصحف کا حصہ بناڈالا۔ حالانکہ اگر متعہ کی آیات میں مقررہ وقت کا اضافہ ہوتا تو پھر احناف کو اپنے مسلک کے مطابق متعہ کا قائل ہونا چاہیے تھا۔ اسلئے کہ خبر واحد کی آیت بھی ان کے نزدیک قابلِ اعتبار بلکہ حدیث سے زیادہ معتبر ہے۔

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

لغت میں خراسان مشرق کو کہتے ہیںاور عرب سے افغانستان،ایران،پاکستان مشرق کی جانب ہیں۔احادیث صحیحہ میںخراسان سے مہدی نکلنے کا بھی ذکر ہے اور دجال کے نکلنے کا بھی ذکر ہے!

جب دہشتگردوں نے ہمارے گھر پر حملہ کرکے13افراد کو شہید کیا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے تعزیت کیلئے آمد کے موقع پر طالبان کو خراسان کادجال قرار دیا لیکن میڈیا نے خبرسنسر کردی تھی

امریکی صدر جوبائیڈن نے اسلام اور مہدی مخفی کا عید الفطر کی مناسبت سے ایک تقریب میں ذکر کیا تو انگریزی، عربی ، اردو سوشل میڈیا میں پذیرائی مل گئی۔ شیعہ عالم دین علامہ یاسر نقوی نے کہا کہ ”امریکی صدر تک نے مہدیٔ غائب کا ذکر کیا۔ جوبائیڈن نے کہا کہ گھرمیں تقابلِ ادیان کی کتابیں ہیں۔ ایک پروفیسر نے اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا اور خفیہ مہدی کا زیادہ معلوم نہیں ۔ کافر نے فطری امام کا نام لیا اور سنی تعصب سے مہدی غائب کا ذکر نہیں کرتے ۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن غیر متعصبانہ علمی حقائق کا تذکرہ کرنا چاہیے”۔ عربی عالم نے کہا کہ” خفی مہدی سے غیرفطری غائب امام مراد نہیں بلکہ سنی امام مہدی مراد ہیں جوانسانوں اور جنات شیاطین کی نظروں سے مخفی ہیں”۔ شیخ محی الدین ابن عربی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے عربی عالم نے کہا کہ ” مہدی کا عوام کی نظروں سے اوجھل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ”لوگ واضح اسلامی احکام کو نہیں سمجھیں گے”۔
میرا عزیز پیر سید زبیرشاہ امریکیوں کا گائیڈ تھا۔ اسامہ بن لادن کیلئے کانیگرم جنوبی وزیرستان بھی امریکی ٹیم لایا تھا۔ سوات میں اس کی طالبان کے ہاتھوں گرفتار ی کی خبر آئی اور ساتھ میں ایک سومرو صحافی بھی تھا جو تاجر کے بھیس میں امریکہ کیلئے جاسوسی کررہے تھے۔ میڈیا پر گرفتاری کی خبر چلتے ہی تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان حاجی عمر نے کہا کہ فوری طور پر چھوڑ دیں گے۔ جس سے امریکہ اورTTPکے تعلق کی مضبوطی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میرے ایک اور عزیز نے بتایا کہ وہ زبیرشاہ کیساتھ اسلام آباد میں امریکہ کے کسی بنگلے نما آفس میں گیا اور وہاں اس نے ہمارے نقش انقلاب کو دیکھا تھا جس میں گیارہ افراد کی تصاویر تھیں اور بارویں کا چہرہ مخفی تھا۔ شیعہ نے بارہ اماموں کا نقشہ بنایا ہوگا۔ صدر جوبائیڈن نے مخفی امام کا ذکر شاید اسی حوالے سے کیاہوگا۔
پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک حضرت عیسیٰ اور حضرت خضر کی زندگی کا تصور ہے تو کیا حرج ہے کہ شیعہ کے امام کو ہزارسال سے غائب مانا جائے؟ ۔ میں نے اپنی کتابوں میں سنی وشیعہ کتابوں سے بہت واضح دلائل دئیے کہ مہدی آخری امیر سے پہلے گیارہ ائمہ اہل بیت حکومت کریں گے اور ان پر امت متفق بھی ہو گی۔ عیسیٰ کا نزول ، مہدی کی آمداوردجال کا خروج ہوگاتو پتہ چل جائیگا کہ شیعہ یاسنی مؤقف درست ہے؟۔ پہلے اتحادو اتفاق اور وحدت کی راہ ہموار کرنا ضروری ہے ۔ایک دوسرے کے دلائل سننا ،سمجھنا اور ان کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ فرقہ وارانہ انتشار، قتل وغارتگری اور ایکدوسرے کیلئے عدم برداشت کا رویہ کسی کیلئے بھی کوئی فائدہ مند نہیں۔شیعہ کہتے ہیں کہ” خلافت راشدہ کے دور میں حضرت علی کی مظلومیت کا یہ عالم تھا کہ آخرکا ر مدینہ چھوڑ کر کوفہ منتقل ہونا پڑا۔ امام حسن نے مجبوری میں امیرمعاویہ کیلئے منصب چھوڑ دیا اور امام حسین کوشہیدکیا گیا اور باقی ائمہ اہل بیت نے خاموشی اختیار کرلی اور آخری غائب ہوگئے ”تو جب پہلے گیارہ نے کچھ نہ کیا تو بارویں امام سے امید کون لگائے گا؟۔اسلئے امام خمینی نے انتظار کی گھڑیاں ختم کرکے انقلاب برپا کردیا۔ حالانکہ شیعہ حدیث میں تھا کہ ”ہمارے قائم سے پہلے جس نے خروج کیا وہ ایسے طاہر کا بچہ ہوگا جو دوسروں کے ہاتھ میں کھیل رہا ہوگا”۔ فاطمی خلافت بھی آغاخانیوں اور بوہریوں کے آباء واجداد نے قائم کی تھی لیکن شیعہ امامیہ ان کے خلاف تھے۔ امامیہ شیعہ امام کا لفظ بارہ ائمہ کے علاوہ کسی کیلئے جائز نہیں سمجھتے تھے۔ مسجد کے امام کو پیش نماز کہتے ہیں۔ایرانی انقلاب شیعہ مسلک سے بہت بڑاانحراف بھی تھا ۔بقیہ صفحہ3نمبر2

بقیہ… علامہ طالب جوہری اورکئی دجال و امام مہدی
علامہ طالب جوہری کی کتاب ” ظہور مہدی” میں قیام قائم سے پہلے کئی قیام قائم کا ذکر ہے۔ ایک روایت ہے کہ مشرق سے دجال کے مقابلے میں قائم قیام کریگا جو حسن کی اولاد سے ہوگا۔ کسی روایت میں حسین کی اولادہے لیکن زیادہ روایات میں حسن کی اولاد کا ذکر ہے ،جس سے” سید گیلانی” مراد ہیں۔ علماء کرام علامہ طالب جوہری کی1987ء میں لکھی ہوئی کتاب میں مشرق کے دجال ، حسن کی اولاد میں سیدگیلانی کے حوالے سے معلومات مسلمانوں کے سامنے کھل کر بتادیں۔ بنو امیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ میں موروثی خلافت کا تصور تھا تو فاطمی خلافت اور بارہ ائمہ اہلبیت کا جواز بھی تھا۔ ا
امام ابوحنیفہ کے نزدیک غسل کے تین فرائض تھے ۔ کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، پورے جسم پر پانی بہانا۔ امام شافعی کے نزدیک کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنافرض نہیں۔ جبکہ امام مالک کے نزدیک مل مل کر دھونا بھی فرض ہے۔ الغرض کسی بھی فرض پر تینوں کا اتفاق نہیں ہے۔ امام جعفر صادق فرائض کا یہ اجتہاد اور اختلافات کو نہیں مانتے تھے لیکن کسی تسلی بخش جواب سے ان لوگوں کو قائل بھی نہیں کرسکے تھے ۔ جب اہلبیت کے ائمہ کا سلسلہ نہیں رہا تو شیعہ نے بھی اجتہادکا سلسلہ شروع کیا جو اہل تشیع میں آپس کے بھی اختلاف کا باعث بن گیا۔
قرآن میں اللہ نے جنابت سے غسل کا حکم دیا ۔دوسری جگہ پر وضو کے بعد فرمایا کہ ”اگر تم جنبی ہو تو پھر اچھی طرح سے طہارت حاصل کرلو”۔ وضو کے مقابلے میںنہانا یا غسل کرنا ہی اچھی طرح سے طہارت حاصل کرنا ہے۔ قرآن کو نظر انداز کیا گیا تو لایعنی فرائض کے اجتہادی اختلافات پیداکئے گئے۔
حنفی شافعی اختلاف اجتہاد تک محدود نہیں بلکہ احناف کے نزدیک قرآن سے نام نہادمتصادم خبر واحد کی صحیح حدیث معتبر نہیں اور خبر واحد کی قرآنی آیت معتبر ہے۔ جبکہ شافعی کے نزدیک قرآن سے باہر کی آیات پر اعتقاد رکھنا کفر ہے جو معتبر نہیں۔ خبر واحد کی حدیث معتبر ہے اور اس کو قرآن سے متصادم قرار دینا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اساتذہ کرام کی تعلیم اور مرشد کی تربیت سے اللہ نے یہ قابلیت دی ہے کہ امت مسلمہ کو تضادات سے نکال سکتا ہوں۔ اگر علماء کرام اور مشائخ عظام نے موقع دیا تو بے دین طبقہ بھی مذہب کے بنیادی اور معاشرتی مسائل کو عالم انسانیت کیلئے بڑا پیکیج سمجھ کر قبول کریں گے اور اسی سے اسلام کی نشاة ثانیہ بھی ہوگی۔
قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون لایستون ”کہہ دیجئے کہ کیا برابر ہوسکتے ہیں علم والے اور جو علم نہیں رکھتے؟۔ وہ برابر نہیںہیں”۔
بعض شیعہ دوٹوک کہتے ہیں کہ علی سے لڑنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا، حضرت حسن کو جس نے صلح پر مجبور کیا وہ مسلمان نہیں تھا اور حضرت حسین کو جنہوں نے شہید کردیا وہ مسلمان نہیں تھے۔ اہل بیت کے مخالف دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ جو لوگ شیعہ سنی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بات کرتے ہیں تو ان پر وہ برستے ہیں کہ تم بھی حق چھپانے کے مرتکب ہورہے ہو اور بقول عمران خان کے نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔
شیعہ گمراہی کی وجہ حفظ مراتب کا لحاظ نہ رکھنا ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے ایک شیعہ سے کہا کہ تم نے غلط کہا کہ نبی کریم ۖ عرش پر گئے تو علی سے ملاقات ہوگئی ۔ یہ شرک ہے اور ہم مشرک نہیں۔ یہ کہو کہ عرش پر رسول سے اللہ نے علی کے لہجے میں بات کی۔ جس پر اہل محفل نے خوب داد بھی دیدی۔ اگر مان گئے کہ حدود کو پامال کررہے ہیں تو یہ خوش آئند ہے۔ سنیوں کا خطیب کہتا ہے ”جب نبیۖ معراج پر گئے ، جبریل نے کہا کہ اسکے بعد میں نہیں جاسکتا ، میرے پر جل جائیں گے۔ براق آگے جانے کو تیار نہ تھا تو سید عبدالقادر جیلانی غوث پاک نے حضورۖ کو اپنا کندھا پیش کردیا اور نبیۖ غوث پاک کے کندھے پر اللہ سے ملنے عرش پر گئے تھے”۔
جب قرآن میں اتنی بڑی رعایت لکھ دی گئی کہ ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والنصٰرٰی والصّٰبئین من امن باللہ والیوم الاٰخر وعمل صالحًافلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنونO
”بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، جو لوگ یہودی ہیں اور نصاریٰ ہیں اور الصابئین ہیں جو بھی اللہ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور اچھے عمل کئے تو ان کیلئے اجر ہے اور ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔ (البقرہ آیت62)
یہ آیت اور اس طرح کی دوسری آیات اسلامی نظام کو دنیا میں غلبہ دلانے اور قابلِ قبول بنانے کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔صائبین حضرت نوح کی امت ہندو ہیںجو مشرکین مکہ سے زیادہ گئے گزرے تھے جو خود کو دین ابراہیمی پر سمجھتے تھے۔
صحابہ کرام ، تابعیناور تبع تابعین میں تیسری صدی ہجری تک تقلید کی کوئی روایت نہیں تھی۔ چوتھی صدی ہجری میں تقلید ایک شرعی فریضہ بن گیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو چوتھی صدی ہجری کی بدعت قرار دیا۔ ان کی کتاب کے اردو ترجمہ ”بدعت کی حقیقت” پر علامہ سید محمد یوسف بنوری نے تائیدی تقریظ لکھ دی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید نے بدعت کی دوقسمیں اعتقادی بدعت اور عملی بدعت لکھیں کہ اعتقادی منافق کافر اور عملی منافق مسلمان ہے جس میں منافق کی علامات ہوں۔ حدیث میں مذمت اعتقادی بدعتی کی ہے۔ عملی بدعتی کی اس طرح مذمت نہیں اور تقلید عملی بدعت ہے۔
اکابر دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید کی تائید کی لیکن جب مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حرمین کے علماء کا فتویٰ لگوا دیا کہ ”یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں ” تو علماء دیوبند نے اس کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کتاب لکھ ڈالی کہ وہ حنفی مسلک کے مقلد اور چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور چاروں تصوف کے سلسلوں کو مانتے ہیں اور خود چشتی مشرب والے ہیں۔
تقلید کی ضرورت اسلئے پیش آئی کہ جب غسل وغیرہ کے فرائض میں اختلا ف ہوا تو پھر کسی ایک کی تقلید کرنی تھی۔ اجتہاد کی صلاحیت سے محروم طبقے پر تقلید فرض کردی گئی ۔ بریلوی عالم دین مولانا امجد علی نے اپنی کتاب ”بہار شریعت” میں لکھا ہے کہ ”یہ اجتہادی فرائض ہیں۔ دلیل کیساتھ اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دلیل کے بغیر ان کو تسلیم نہ کرنا گمراہی ہے”۔ دلیل کے ساتھ ان فرائض کو ختم کرنے کا فرض کس نے ادا کرنا ہے؟۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ ” ہمارے پاس اتنا علم نہیں کہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ کس کی بات درست اور کس کی غلط ہے۔ امام مہدی آئیں گے تو صائب رائے کو بتائیں گے ، ان کی بات حق ہوگی اور ان کے مخالف کی بات باطل ہوگی”۔ اہل تشیع بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت کی بات ٹھیک اور ان کے مخالفین کی بات غلط تھی۔ اہل تشیع اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی بات میں عقیدے کا اختلاف نہیں شخصیات کا اختلاف ہے لیکن دونوں میں زمینی حقائق کا بڑا فرق ہے۔
حقائق سے مفتی رفیع عثمانی کی بات درست ہے۔ مہدی کے دور میں دین اجنبی ہوگا اور مہدی اجنبیت کا پردہ اٹھائے گا جبکہ صحابہ کرام کے دور میں دین اجنبی نہیں تھا بلکہ اولی الامر کے امور کے اختلاف کا مسئلہ تھا۔ حضرت یوسف کو بھائیوں نے غائب کردیا تو یہ اعتقاد واقتدار کا نہیں بلکہ حسد کا مسئلہ تھا۔
اولی الامر سے قرآن میں اختلاف کی گنجائش ہے اور اولی الامر کی حیثیت سے نبی ۖ نے اپنے ساتھ اختلاف کا جواز رکھا تھا ،اللہ نے قرآن میں اس گنجائش کی تائید فرمائی ہے۔
ایک عورت نے نبی ۖ سے اپنے شوہر کے بارے میں مجادلہ کیا تو اللہ نے سورہ مجادلہ میں عورت کی تائید فرمائی۔ شیعہ نبیۖ سے اختلاف کی گنجائش کا اعتقاد رکھتے ہیںمگر حضرت علی کیلئے اس اختلاف کی گنجائش نہیں رکھتے اور یہ چھوٹی موٹی گمراہی نہیں بلکہ فقد ضل ضلالا بعیدًاہے۔ نبیۖ سے اختلاف کی قرآن نے گنجائش دی ہو اور حضرت علی سے شیعہ اختلاف کی گنجائش نہ رکھتے ہوں تو شیعہ کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ اس پر وہ کیا زورِ خطابت اور داد تحسین اپنے گمراہ لوگوں سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں یا حق کی بات کہہ کر جوتے کھانے سے ڈرتے ہیں؟۔ یہ ان پر چھوڑدیتے ہیں۔
غزوہ بدر کے قیدیوں پر عمر و سعد نے مشورہ دیا کہ ہر ایک اپنے قریبی رشتہ دار کو تہہ تیغ کردے تو علی ، ابوبکر، عثمان اور دیگر کا مشورہ تھا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ نبی ۖ نے اکثریت کی رائے پر فیصلہ کیا تواللہ نے فرمایا کہ ” نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہادیتے اور تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ اس شیعہ خطیبوں کو اپنی عوام کے سامنے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اگر عمر کی جگہ علی نے مشورہ دیا ہوتا تو کتوں کی طرح لمبی لمبی زبانیں نکال کر صحابہ کرام کے خلاف بھونکنا شروع کرتے کہ تمہاری بات نبی ۖ نے مان لی تو اللہ نے مسترد کردیا۔ تم دنیا کے طلبار گار اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ جیب گرم ہونے کی توقع نہیں تو پھر آیات کی وضاحت بھی اپنے عوام کے سامنے نہیں کرتے ہیں۔
شیعہ افغانستان اور پاکستان میں مسلم اقلیت ہیں لیکن کچھ لوگ ان کو کافر بنانے کے پیچھے پڑگئے ۔ ان کی قتل و غارتگری پر ہمیں رحم آتا ہے لیکن فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والے شیعہ خطیبوں کو ان مظلوموں پر کوئی رحم نہیں آتا ہے ،اسلئے تسلسل کیساتھ اہل سنت کے جذبات بھڑکاتے ہوئے اپنامفاد حاصل کرتے ہیں اور شیعوں کو قتل کروانے میں مدد دیتے ہیں۔
علامہ مجلسی کی کتاب ”بحار الانوار” کے حوالے سے ایک ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جس کا خلاصہ ہے کہ ” انگریز نے بحرین کا بادشاہ ایک متعصب ناصبی کو بنایا تھا جو اہل بیت اور شیعوں کا سخت دشمن تھا اور اس کا وزیر اس سے بھی زیادہ سخت دشمن تھا۔ ایک انار لایا گیا جس پر کلمہ اور ابوبکر وعمر اور عثمان خلیفہ رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ بادشاہ حیران ہوگیا اور وزیر نے کہا کہ شیعہ بڑے گمراہ ہیں ، یہ بھی نہیں مانیں گے۔ ان کا علاج یہ ہے کہ اس کا کوئی معقول جواب دیں ۔ یا پھر تین باتوں میں سے ایک پر عمل کا اختیار ہمیں دیں۔ 1: اپنا مسلک چھوڑ کر سنی بن جائیں۔ 2: کافر بن کر جزیہ دیں۔ 3: انکے مردوں کو قتل، عورتوں کو لونڈی بنائیں گے اور ان کے اموال غنیمت جان کر تقسیم کریں گے۔
جب شیعہ کے سامنے یہ تجاویز پیش کی گئیں تو انہوں نے چند دنوں کی مہلت مانگ لی۔ شیعوں نے نیک وتقویٰ داروں کو جمع کیا اور10افراد کا انتخاب کیا۔ ان میں سے پھر 3افراد چن لئے۔ پہلے ایک کو صحراء میں بھیجا کہ رات کو امام مہدی سے مدد طلب کرو۔ اس نے پوری رات عبادت اور آہ وزاری میں گزاردی مگرمایوس لوٹ آیا۔ پھر دوسرے نے بھی رات گزار دی مگر نتیجہ نہیں نکلا۔ پھر تیسرے نے امام کو اپنی مشکل میں پکارا تو امام نے جواب دیا اور کہا کہ بادشاہ سے کہو کہ وزیر کے گھر پر اس سوال کا جواب دیں گے۔ وزیر کے گھر میں فلاں کمرے کو دیکھو، وہاں اس جگہ چھپا ہوا ایک سانچہ مل جائے گا جو انار کو اس کے ابتدائی دنوں میں پہنایا جاتا ہے اور جب انار بڑا ہوتا ہے تو اس کی یہ شکل نکل آتی ہے۔ جب بادشاہ نے موقع دیا اور یہ راز کھل گیا تو اس نے شیعوں کا کلمہ پڑھ لیا اور شیعہ بن گیا۔
کوئٹہ میں ہزارہ برداری اور افغانستان وپاکستان میں آج بھی شیعہ حضرات کیلئے بڑے خطرات ہیں اور متفقہ لائحہ عمل کی سب کو ضرورت ہے۔ مختلف مواقع پر حضرت خضر کی بات سے بھی استفادہ لیا جاتا ہے۔ ہمارے کلاس فیلو مفتی منیر احمد اخون مفتی اعظم امریکہ نے بھی خضر سے چند سکے پانے کا ویڈیو میں ذکر کیا ہے اور مفتی زرولی خان سے بھی کوئی تذکرہ فرمایاہے۔
جب قرآن میں اللہ نے ایک شرعی مسئلے پر نبیۖ کے مقابلے میں ایک عورت کی تائید فرمائی ۔ قیدیوں سے فدیہ لینے پر نبیۖ اور صحابہ کی اکثریت کے مقابلے میں عمر و سعد کی تائید فرمائی تو کیا علی نبیۖ سے زیادہ تھے؟۔ حضرت ہارون نے بنی اسرائیل کو شرک کرتے دیکھ کر نہیں روکا تو حضرت موسیٰ نے ان کو سر اور داڑھی سے پکڑلیا کہ منع کیوں نہ کیا؟۔ حضرت ہارون نے عرض کیا کہ میری وجاہت نہیں کہ منع کرنے سے منع ہوتے۔ بلکہ یہ دوگروہ میں تقسیم ہوکر لڑنے لگ جاتے ۔ایک گروہ بات مان لیتا اور دوسرے کو بھی زبردستی سے منواتا۔ پھر آپ کہتے کہ بنی اسرائیل میں تفریق کیوں ڈالی ؟۔ حضرت موسیٰ نے شرک کو بڑی نافرمانی سمجھ لیا اور حضرت ہارون نے ان میں تفریق وانتشار کو شرک سے زیادہ بڑی برائی سمجھا تھا۔
امت مسلمہ کی بدقسمتی یہی ہے کہ ایک طرف شرک کا مسئلہ بنتا ہے تو دوسری طرف تفریق وانتشار کا۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے اپنے ساتھی کو شرک سے منع کیا لیکن اگر کوئی ایسا شخص یہی کام کرتا جس کی اتنی وجاہت نہ ہوتی تو انتشار پھیل جاتا۔ یہودی نے علی سے پوچھا کہ نبیۖ کے وصال کے بعد تمہارا خلافت پر جھگڑا ہوا؟۔ حضرت علی نے فرمایا کہ ”خلافت فروعی مسئلہ تھا، دریائے نیل سے پیر خشک نہ تھے تو تم نے حضرت موسیٰ کے ہوتے ہوئے سامری کے بچھڑے کواپنا معبود بنالیا”۔
شیعہ آپس کے مسائل خوش اسلوبی سے حل کرتے ہیں تو علی نے زیادہ خوش اسلوبی کیساتھ مسائل حل کئے تھے۔ امام بارگاہوں پر قبضے اور خطابت پر پیسے بٹورنے میں ایکدوسرے سے بغض و عناد رکھنے والے صحابہ کو اپنے او پر قیاس کرتے ہیں۔ حضرت علی کی اولادمیں بارہ ائمہ اہل بیت کو اقتدار ملے گا۔ پہلے بارہ ائمہ اہل بیت کسی درجے کسی سے کم نہ تھے۔ بنی فاطمہ کو اقتدار ملا تو حجراسود خانہ کعبہ سے اٹھالے گئے تھے۔ اگر ان بارہ افراد کو اقتدار ملتا تو بعض معاملات میں ان سے اختلاف کی گنجائش ہوتی اسلئے کہ قرآن میں رسول اللہۖ کے بھی واقعات ہیں۔ سورۂ مجادلہ کا واقعہ، قیدیوں پر فدیہ لینے کا واقعہ، ایک نابینا ابن مکتوم کی آمد پر چین بہ جبیں ہونے کا واقعہ، غزوہ احد میں سخت انتقام لینے کا واقعہ، کل کسی بات کا وعدہ کرنے پر انشاء اللہ نہ کہنے کا واقعہ۔ اس طرح حضرت علی اور ائمہ اہلبیت کے بھی واقعات ہوتے لیکن اقتدار کا موقع نہ ملا۔ جنت ملتی ہے تو بنی آدم کیلئے کوئی نہ کوئی واقعہ جنت سے نکلنے کا ذریعہ بنتا ہے اوریہ عبودیت کا تقاضہ ہے جو الٰہ نہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔
اماں عائشہ صدیقہ پر بہتان لگا تو کم صحابہ نے قرآن کے مطابق کہا کہ ”یہ بہتان عظیم ہے”۔ حضرت علی کا کردار شیعہ نے اس پر واضح نہ کیا۔ کیا آیات کا انکار ہے؟۔ اتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض الکتاب ”کیا تم بعض کتاب کو مانتے ہواور بعض کو نہیں مانتے ہو؟”۔ اتلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق انتم تعلمون ”کیا تم حق کو باطل کیساتھ خلط ملط کرتے ہواور حق کو چھپاتے ہو اور تم جانتے بھی ہو”۔( القرآن)
حضرت عثمان کی شہادت کی جھوٹی خبر پر صلح حدیبیہ سے پہلے آیات نازل ہوئیں۔ نبیۖ نے بدلہ کیلئے بیعت لی، اس وقت لڑنا نہیں تھا بلکہ لڑنا اس وقت تھا جب حضرت عثمان کو باغیوں نے مسندِ خلافت پر شہید کردینا تھا۔ اس بیعت سے پیچھے ہٹنے کے لوازمات بھی اللہ نے بیان فرمائے۔ حضرت حسن و حسین نے دوازے پر پہرہ دیا اور سوتیلے بھائی محمد بن ابی ابکر نے گھر میں کود کر حضرت عثمان کو داڑھی سے پکڑا۔ پالا علی نے اور بیٹا ابوبکر کا تھا۔اس تضاد کا حل کس کے پاس ہے؟۔
ہارون کی داڑھی میںہاتھ ڈالنے پر موسیٰ کو تبرا ، گالی گلوچ اور سب وشتم کا نشانہ نہیں بناتے تو محمد بن ابی بکرکی تربیت پر حضرت علی پر بھی سب وشتم نہیں ہونا چاہیے تھا اور شیعہ خود بھی تشریح نہیں کرسکتے کہ یہ کیا ماجراء تھا کہ حضرت حسن وحسین نے پہرہ دیاتو سوتیلے بھائی نے کاروائی ڈالی تھی؟۔ جس طرح سگے اور سوتیلے بھائی بٹ گئے اسی طرح علی کے قریبی پرانے اور نئے ساتھیوں نے حضرت علی کے خلاف جنگ کا محاذ کھول دیا۔ خوارج پہلے شیعانِ علی تھے۔ امام حسن کے ساتھی ورشتہ داروں نے دھوکہ دیکر صلح پر مجبور کیا تو حضرت حسین کہاں تھے؟۔ تاریخ کی سچی جھوٹی باتوں کو اس طرح نہیں لیا جائے کہ قرآن وسنت اور مسلمانوں کا اجماعی معاملہ اور اجتماعی کردار ختم ہوجائے۔
مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمدرضا خان بریلوی نے لکھاکہ” اگر شوہر کہے کہ تجھے3طلاق تو3طلاقیں واقع ہوگئیں۔ دوگواہ نہ ہوں تب بھی بیوی حرام ہے۔ شوہر اپنی بات سے مکر جائے تب بھی بیوی حرام ہے لیکن اگرمکرگیا تو عورت کو2گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر عورت کے پاس2گواہ نہ ہوئے تو بیوی اسکے نکاح میں رہے گی اور بیوی کو چاہیے کہ ہر قیمت پر خلع لے لیکن اگر شوہر خلع دینے پر راضی نہیں تو بیوی نکاح میں حرام کاری پر مجبور ہوگی اور مباشرت میں لذت نہیں اٹھائے ورنہ تو گناہگار ہوگی”۔ اس بکواس کا کون دفاع کرسکتا ہے؟۔ مجھے یقین ہے کہ بریلوی دیوبندی فقہ کی بنیاد اس سے دھڑام سے گر جائے گی اور وہ اس پر بہت خوش بھی ہوں گے۔ کیونکہ وہ اختلاف کی گنجائش اور غلطی کااصولی عقیدہ رکھتے ہیں۔
شیعہ کے نزدیک طہر میں طلاق کے صیغے ادا کرنے پر2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر دوسرے طہر میں طلاق کے صیغے اور2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر تیسرے طہر میں طلاق کے صیغے اور2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر یہ طلاق ایسی ہوگی کہ اسکے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرلے۔ بظاہر شیعہ کا مسئلہ فطرت ،اسلام اور انسانیت کے قریب لگتا ہے لیکن اگر مدلل انداز میں ثابت کیا جائے کہ انسانیت، اسلام اور فطرت کے یہ خلاف ہے تو شیعہ دلائل سمجھ کر مشکل سے اپنا مسلک چھوڑ نے کا اعلان کرینگے۔ کیونکہ تقلید کی روش نے اجتہادی غلطیو ں پر یقین کا سبق نہیں دیا اور انہوں نے اس کو اپنے عقیدے کیساتھ منسلک کردیا ہے۔
سورۂ طلاق کی پہلی آیت میں عدت کے مطابق تین مراحل میں عملی طلاق دینے کاحکم ہے۔ جہاں الفاظ اور صیغوں پر گواہ مقرر کرنے کی بات نہیں۔دوسری آیت میں عدت کی تکمیل پر معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے الگ کرنے اور اپنے میں سے2عادل گواہ بنانے کا حکم ہے۔ شیعہ نے سنی کے مقابلے میں طلاق کا مسئلہ زیادہ سخت کیا لیکن اس کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ قرآن میں فیصلہ کن مرحلے کے بعد بالکل آخر میں گواہوں کی بات ہے ۔شیعہ کے کسی امام معصوم کی طرف مسلک کی نسبت ہوئی تو ان کیلئے یہ اس سے انحراف اور قرآن وسنت وفطرت کی طرف آنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی مگرپھر وہ آئیں گے ضرور،انشاء اللہ۔
حضرت عمر نے اکٹھی3طلاق پر رجوع نہ کرنے کا حکم اسلئے جاری کیا کہ جب بیوی راضی نہ ہو تو ایک طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں سورۂ بقرہ کی آیت228اوردیگر آیات میں رجوع کیلئے صلح، معروف طریقہ اور باہمی رضامندی کی بار بار وضاحت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عورت راضی ہوتو عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعدبھی رجوع کی گنجائش کھلے الفاظ میں واضح ہے اور جب عورت راضی نہ ہو تو کسی طلاق کے بعد بھی اللہ نے کسی آیت میں بھی رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ۔ قرآن کے فطری مؤقف کے مطابق حضرت عمر نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا اور ائمہ اربعہ نے ٹھیک فتویٰ دیا تھا کہ عورت کی طرف سے صلح نہ ہونے کی شرط پر اکٹھی تین طلاق پر رجوع کی گنجائش نہیں۔
اجتہاد خلفاء راشدین میں اختلاف کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت علینے ”حرام ”کا لفظ کہنے پرتین طلاق کا فتویٰ دیا تھا اور حضرت عمر نے ایک طلاق کا ۔ قرآن کے منافی یہ لوگ اپنی طرف سے حلال وحرام کے فتوے کیسے دیتے؟۔ صحابہ کرام اور خاص طور پر خلفاء راشدین کی طرف اتنے بڑے اختلاف کی نسبت گمراہ کن ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق ضعیف روایات کی بھی تطبیق ہونی چاہیے ، اس اختلاف میں تطبیق ہے۔ حضرت عمر سے فتویٰ پوچھا گیا تو بیوی رجوع کیلئے راضی تھی اسلئے قرآن کے مطابق رجوع کا فتویٰ دیااور حضرت علی نے دیکھا کہ بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تو قرآن کے مطابق فتویٰ دیا تھا۔
خلع اور طلاق میں عورت کے حقوق میں کمی وبیشی کا مسئلہ ہے اسلئے جب عورت طلاق کا دعویٰ کرے اور شوہر اس کا انکار کردے تو فیصلہ حلف اور گواہی پر ہوگا۔ عورت گواہ پیش کرے تو طلاق کے حقوق ملیں گے اور عورت کے پاس گواہ نہ ہوں اور شوہر حلف اٹھالے تو عورت کو خلع کے حقوق ملیں گے۔
اگر شوہر تین طلاق دے اور پھر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو اور ایک طلاق رجعی قرار دیا جائے تو یہ قرآن کی واضح آیات کے بالکل منافی اور خواتین کے حقوق پر بہت بڑا ڈاکا ہوگا اسلئے کہ اس نے اپنے شوہر سے جان چھڑانی ہے اور قرآن نے اسکو صلح نہ کرنے کا اختیار دیا ہوا ہے اور مولوی اس کو ایک طلاق رجعی کہہ کر عورت کے بالکل واضح حق کو غصب کررہاہے۔
دو مرتبہ طلاق رجعی کا حق بھی قرآن نے نہیں دیا ہے اسلئے کہ شوہر ایک طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا اور پھر طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے گااور پھر تیسری طلاق دے گا تو عورت کو تین عدتوں تک انتظار پر مجبور کرنے کا قانونی حق رکھے گا۔ اللہ نے عورت کو ایک عدت کا پابند بنایا ہے اور مولوی نے اپنے مذہب سے اس کو تین عدتوں پر مجبور کرنے کا شوہروں کو ناجائز حق دے رکھاہے۔ اگر اکٹھی تین طلاق کو ایک رجعی طلاق قرار دیا جائے تو اس سے نہ صرف عورت کے حقوق کی زبردستی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ دوسرے بھی لامحدود اور ناقابل حل مسائل کے انبار کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہم نے اپنی کتابوں1:” ابر رحمت”۔2:”تین طلاق کی درست تعبیر”۔3:” تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ”۔4:”عورت کے حق” میں بہت تفصیل کیساتھ بہترین انداز میں یہ مسائل تشفی بخش طریقے سے سمجھائے ہیں اور اپنے ماہنامہ اخبار کے بہت مضامین میں بار بار امت مسلمہ کی جان ان غلط کہانیوں سے چھڑانے کی کوشش کی ہے جس کی تائید دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث کے علاوہ شیعہ علماء نے بھی کی ہے۔
یہاں پر اہل تشیع اور اہل سنت کے اتحاد واتفاق اور وحدت کی غرض سے کچھ احادیث وروایات کا تذکرہ کردیتا ہوں اسلئے کہ کافی عرصہ سے اس موضوع پر دلائل نہیں دئیے ہیں جس کی وجہ سے اہل تشیع کے بعض علامہ صاحبان امت کو لڑارہے ہیں۔
اہل تشیع نے اپنی کتاب میں لکھا: ” یہ روایت مشہور ہے کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کی ابتداء میں ،مَیں ہوں اور بیچ میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ”۔ قحطانی نے کہا ہے کہ ہم کلام کو اس بات پر محمول کرسکتے ہیں بایں طور پر کہ اس مہدی سے مراد مہدی عباسی مراد لیں نہ کہ اسے مہدی آخر زمان ” ۔ (الصراط السوی فی احوال المہدی ص357) مہدی عباسی کی وجہ سے یہ امت ہلاکت سے نہیں بچی تھی اسلئے کوئی ایسا فرد مراد لینا ہوگا جو امت کو ہلاکت سے بچانے کا ذریعہ ہو۔ امت کی ہلاکت جب درمیانہ زمانے سے شروع ہو تو اہل بیت کو نبیۖ نے کشتی نوح قرار دیا ہے۔ درمیانہ زمانے کے مہدی کا تعلق اہل بیت سے ہی ہوگا۔ علامہ طالب جوہری نے مشرق کے دجال کے مقابلے پر امام حسن کی اولاد سے سید گیلانی مراد لیا ہے تو عباسی مہدی سے سید گیلانی اہل تشیع کیلئے زیادہ قابل قبول ہونا چاہیے ۔درمیانہ زمانے کے امام مہدی کے مقابلے میں کج رو جماعت ہوگی۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: خوشخبری سناؤ۔ خوشخبری سناؤ۔ میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے یہ پتہ نہیں کہ آخری دور والے زیادہ کامیاب ہونگے یا پہلے دور والے؟۔ یا اس کی مثال ایک باغ کی طرح ہے کہ ایک سال اس کا پھل ایک جماعت والے کھائیں اور دوسرے سال اس کا پھل دوسری جماعت کے افراد کھائیں۔ شاید کہ آخری جماعت کی چوڑائی اور گہرائی زیادہ ہو ۔ اور حسن انتظام زیادہ اچھا ہو۔ پس وہ کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جسکا اول میں ہوں، اسکا درمیان مہدی اور مسیح اسکا آخر ہے؟ لیکن درمیانہ زمانے میں ایک کج رو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں اور مَیں اس کے طریقے پر نہیں ہوں۔ ( مشکوٰة باب ثواب ہذہ الامة ) مولانا فضل الرحمن نے خراسانی دجال کا لشکرTTPکو قرار دیا تھا ۔جسکے سرپرست تبلیغی جماعت والے تھے اوران کی روپ میں چھپ کاروائی بھی کرتے تھے۔
اہل تشیع نے لکھا ہے کہ ” جس روایت میں مہدی کے بعد چھ افراد اولاد حسن اور پانچ افراد اولاد حسین کا ذکر ہے کہ مہدی کے بعد وہ مالک زمین اور بادشاہ ہوں گے ۔ یہ غلط واہیات ہے اور احادیث صحیحہ کا مخالف ہے ۔ مہدی آخر میں آئیں گے اور عیسیٰ ان کی اقتداء کرینگے ۔ لہٰذا ان کے بعد کسی اور بادشاہ کا آنا خلاف فرض ہے”۔( الصراط السوی فی احوال المہدی357)
اگر درمیانہ زمانے کے مہدی کے بعد گیارہ افراد اہل بیت کی حکومت مان لی جائے جس پر امت کا اتفاق ہو تو پھر شیعہ سنی کیلئے ان کو اور اپنی مستند کتابوں کو قبول کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے واضح احکام سے علم حاصل ہوتا ہے اور علم گمراہی اور ہٹ دھرمی سے بچنے کا زبردست ذریعہ ہے اور شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہل حدیث پہلے اس کی طرف توجہ کریں اور معاشرے کو اس جہالت سے نکالنے میں اپنا بہترین کردار ادا کریں تو طالوت کی طرح اقتداربھی مل جائیگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان

مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

یورپ عورت کے حقوق کامطالبہ کرتا ہے لیکن ہمارا اشرافیہ عورت مارچ سے خوف زدہ ہے، پدر شاہی نظام کے خلاف باشعورعورت بھی آواز اٹھارہی ہے۔ افغان طالبان نے مؤقف پیش کیا ہے کہ عورت آزاد جنس اور انسان ہیں ان پر کوئی اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا ۔ اقبال نے شیطان کی مجلس شوریٰ میں کہا کہ
الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر حافظِ ناموسِ زن ،مرد آزما ، مرد آفریں
پاکستان کا معاشرتی دارالخلافہ تختِ لاہور ہے ۔ جہاں ہیرہ منڈی ہے۔ مغرب میںعورت پرجبری جنسی تشددہوتا ہے اور وہ بھی حقوق سے محروم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو سورۂ النساء آیت19میں خلع کا حق دیا ہے اوراسکے بعد کی آیات20،21سورۂ النساء میں مردوں کو طلاق کا حق دیا ہے۔ اس سے زیادہ بڑی بے غیرتی کیا ہوسکتی ہے کہ جب عورت اپنے شوہر کے پاس رہنا نہیں چاہتی ہو اور بے غیرت مرد پھر بھی اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرتا ہو؟۔
عورت کواسکا شوہر اپنی جاگیر سمجھتا ہے ۔ اسکے نام پربینک بیلنسن، زمین، اپنا گھر کرتاہے۔ عورت خلع لے تو قرآن نے فرمایا : لاترثوالنساء کرھًا و لا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیموھن شئےًا الا ان یأتین بفاحشة مبینة وعاشروھن بمعروف وان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شیئًا ویجعل اللہ فیہ خیرًا کثیرًاO(سورہ ٔ النساء آیت19)” عورتوں کے زبردستی مالک مت بن بیٹھواور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو تم نے ان کو مال دیا ہے کہ ان میں سے بعض واپس لے لو مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریںاور ان کیساتھ (خلع کے باوجود) اچھا برتاؤ کرو۔اگر وہ تمہیں بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اللہ تمہارے لئے اس میں خیر کثیر بنادے”۔
عورت اپنے شوہر کو اپنا مجازی خدا کہے تویہ بھی رسم ہے لیکن شوہر اپنی بیوی کا زبردستی سے مالک نہیں بن سکتا۔ اگر وہ خلع لینا چاہتی ہو اور شوہر کو چھوڑنا چاہتی ہو تو اللہ نے اجازت دی ہے اور مردوں کو تلقین کردی کہ ان کو اسلئے مت روکو کہ تم نے جو کچھ بھی ان کو دیا بعض چیزیں واپس لے لو۔ البتہ اگر وہ کھلی فحاشی کریں تو بعض چیزیں واپس لی جاسکتی ہیں لیکن کپڑے ، جوتے اور سب کچھ پھر بھی نہیں۔
عورت خلع لیکر جارہی ہو تو اسکے ساتھ بدسلوکی کے بڑے خدشہ کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اچھے انداز کیساتھ پیش آنے کی تلقین قرآن کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ اس وقت عورت بری لگ سکتی ہے لیکن اللہ نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اس میں تمہارے لئے بہت ساراخیر بنادے۔ پہلا خیر یہ ہوسکتا ہے کہ عورت کچھ دنوں یا عرصہ کے بعد خودواپس آجائے اور اس میں زندگی گزارنے کا زیادہ اچھا سلیقہ آجائے۔ دوسرا خیر یہ کہ وہ بد دلی سے خود کو اور شوہر، بچوں اور گھروالوں سے انتقام لینے کی کاروائی نہ کر ڈالے۔ تیسرا خیر یہ کہ اس کی جگہ ایسی عورت ملے جس کیساتھ زیادہ بہتر انداز میں زندگی گزرے۔ چوتھا خیر یہ کہ اس کی وجہ سے عزت برباد ہونے سے بچ جائے۔ کئی خیر ہوسکتے ہیں اور ممکن ہے کہ بدلے میں بیکار عورت سے بھی واسطہ پڑسکتا ہے اسلئے اللہ نے امکان کا ذکر کیا تاکہ رشتہ جوڑنے کا کرداراداکرنے کی کوشش حتی الامکان ہوتی رہے۔
مولوی نے عورت سے خلع کا حق چھین لیا تو یہ کم علمی ،جہالت ، بدنیتی اور بد تہذیبی ہے۔ کرتوت خراب ہوں تو چہرے پر بدصورتی کے علاوہ نحوست ٹپکتی ہے پھر اس خیال میں گھر کی بھیدی عورت لنکا ڈھا سکتی ہے۔ ظاہر و باطن میں فرق ہوتووہ اپنی بیگمات سے خلع کا خوف رکھتے ہیں پھر وہ قرآنی آیات کی وضاحتوں کو بھی نہیں مانتے ۔ خلع میں عورت کو حق مہر کے علاوہ شوہر کی دی ہوئی منقولہ اشیاء ساتھ لیجانے کا حق حاصل ہو اور غیرمنقولہ دی ہوئی جائیداد سے وہ دستبردار ہوجائیں تو مسلم معاشرے میں نہیں مغرب میں بھی انقلاب برپا ہوجائیگا۔ خواتین وحضرات سب کیلئے یہ قانون قابلِ قبول ہوگا جو فطرت کا تقاضہ ہے۔ طلاق میں شوہر کو تمام دی ہوئی اشیاء منقولہ وغیر منقولہ جائیداد میں سے کچھ بھی واپس لینے کا حق نہیں۔ سورۂ النساء آیت20،21میں بھرپور وضاحت ہے۔
مغرب نے عورت اور مرد کی جائیدادوں کو برابر برابر تقسیم کرنے کا غلط اور غلیظ قانون دیا ہے ۔ جمائمانے عمران خان پر اعتماد کیا اور عمران خان نے بقول یوٹیوبر کے12ہزار کروڑ پاونڈ جمائما کی جائیداد سے لینے کو قبول نہ کیا کیونکہ یہ غیرفطری قانون ہے ۔اگر عمران خان ریحام خان کو طلاق کے بعد بنی گالا کاگھر حوالے کردیتا تو ریحام خان کبھی اسکے خلاف کتاب لکھ کر اس کا تیاپانچہ نہ کرتی۔ جس سے ساکھ کو نقصان پہنچا اور قادر پٹیل کی تقریر کا اسمبلی میں سامنا کرنا پڑا۔
عورت کو خلع کا حق اور مالی تحفظ حاصل ہوتا تو ن لیگ کی حکومت پنجاب کو ضرورت نہ پڑتی کہ خواتین کوگھریلو تشدد سے بچاؤ کیلئے کوئی ایسا بل منظور کرتی جو مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کی وجہ سے واپس لینا پڑتی۔ خلع کا حق رکھنے والی خاتون پر شوہر اور اسکے گھر والے کوئی ستم نہیں ڈھاسکتے ہیں ۔علاوہ ازیں خلع کا حق نہ دینے کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا علماء ومفتیان کو کرنا پڑتا ہے اور جن کا حل بھی انکے بس کی بات نہیں ۔ اگر ان کا مدلل حل نکل آئیگا تو سب سے زیادہ خوشی علماء ومفتیان اور مذہبی طبقے کو ہوگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ العزیزالرحمن الرحیم
یہودی علماء کاکرداریہ تھا: یحرفون الکلم عن مواضعہ ” یہ لوگ جملوں کو اپنی جگہوں سے بدلتے ہیں”۔قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا۔ علامہ انورشاہ کشمیرینے کہاکہ ”بہت معنوی تحریف ہمارے علماء نے کی ہے”۔ سورۂ النساء آیت19میںعورت کاخلع واضح ہے مگر علماء اور مذہبی اسکالروں نے جگہ بدل ڈالی ہے ۔الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان و لا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیتموھن شیئًا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھاومن یتعد حدود اللہ فاؤلئک ھم الظٰلمونOفان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ …(.البقرہ آیت229،230)
ترجمہ :” طلاق دومرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر حرج نہیں عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں ،یہ اللہ کے حدود ہیں پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔پس اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اسکے بعد اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے…..”۔ (البقرہ::229،230)
طلاق کے بعد عورت کے مالی حق کی حفاظت ہے کہ جو شوہر نے چیزیں دی ہیں ان میں سے کچھ واپس لینا حلال نہیں ۔ مگر جب دونوں اور تم خوف محسوس کرو کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ وہ کونسی صورت ہے کہ جس میں وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے خوف کھائیں کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ؟۔ اگر یہ چیزواپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود کو پامال کریں۔ بدکاری کے مرتکب ہوجائیں ۔ قرآن کے الفاظ میں قطعی کوئی ابہام نہیں ہے۔بقیہ صفحہ 2نمبر1پر

بقیہ…… مسلمانوں کا نام نہاد اسلامی نظام اور مملکت خداداد پاکستان
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور جاوید احمد غامدی جیسے لوگوں کا اس آیت کے ترجمے میں معاوضہ دیکر خلع کی بات کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ”اس آیت کا ترجمہ ومفہوم انتہائی مشکل ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمے وتفسیر سے اسکا حل نکالنے میں تھوڑی بہت مدد ملی ہے”۔
حالانکہ قرآن میں جہاں عورت کامالی حق محفوظ ہو ،وہاں عورت کو خلع کے نام پر بلیک میل کرنا بھونڈی حرکت ہے جو یحرفون الکلم عن مواضعہ کی بڑی مثال ہے۔ اس آیت کے واضح ترجمہ میں ان مشکلات کا حل بھی ہے جن کی وجہ سے فقہاء و محدثین نے امت کوگمراہی کے دلدل میں ڈبودیا ہے۔
آیات229،230البقرہ سے پہلے اور بعد کی آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح ، رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش ہے اور تمام آگے پیچھے کی آیات میں واضح کیاگیا ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں ۔ایک طلاق یا اشارہ کنایہ کی طلاق اور حتی کہ ایلاء جہاں طلاق کے الفاظ کا اظہار بھی نہ ہو، تب بھی شوہر کیلئے عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں ۔ جب نبیۖ نے ایلاء کیا تھا تو اللہ نے واضح طور پراپنی ازواج کو اختیار دینے کا بھی حکم فرمایا تھا۔
مشکلات کا شکار علماء اسلئے ہیں کہ اگر خلع سے پیدا ہونے والے مسائل کا چرچا عوام میںہواتو ان کو داڑھیاں منڈواکر شناخت بھی تبدیل کرنی پڑے گی۔ دیوبندی بریلوی مدارس کا فتویٰ ہے کہ ”اگر شوہر نے بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق اور پھر اپنی بات سے مکر گیا تو عورت پھر بھی اس پر حرام ہوجائے گی لیکن عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیں گے اور اگر اسکے پاس دو گواہ نہیں تھے تو ہر قیمت پر خلع لے گی۔ اگر شوہر کسی صورت اور قیمت پر بھی خلع دینے پر راضی نہ ہو تو عورت اسکے نکاح میں حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ پھر جماع کے وقت عورت لذت نہیں اٹھائے ورنہ گنہگار ہوگی”۔توبہ العیاذ باللہ تعالیٰ
حکیم الامة مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ” حیلۂ ناجزہ ” میں بھی یہ مسئلہ لکھ دیا۔ دیوبندی بریلوی مدارس کا یہ فتویٰ ہے۔ کیا یہود، نصاریٰ، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ مت اور کسی کیلئے ایسے گھناؤنے مسائل قابلِ قبول ہیں؟۔ اگر پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہو تو جان چھوٹ جائے گی ،جس طرح قادیانیت سے جان چھڑائی گئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھ دیا کہ ”اگر شوہر بیوی سے کہے کہ طلاق طلاق طلاق تو تین طلاق واقع ہوجائیںگی اور بیوی اس پر حرام ہوجائے گی لیکن اگر اس کی نیت ایک طلاق کی ہو تو پھر ایک ہی طلاق واقع ہوگی لیکن بیوی پھر بھی اس کو تین طلاق ہی سمجھے”۔ (بہشتی زیور: مولانا تھانوی)
ایک طرف عورت شوہر کے نکاح میں ہو گی اور دوسری طرف عورت سمجھے گی کہ وہ اس پر حرام ہے۔ عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرے توپھر نکاح پر نکاح ہوگا اور شرعی لحاظ سے حرام ہوگا اور مر د نے اس کو اپنے پاس رکھنا ہو تو اس کیلئے جائز ہوگی لیکن عورت اس کو حرام سمجھے گی۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ اور اسکے قرآن اور اسکے رسول رحمت للعالمین ۖ کی شریعت ہوسکتی ہے؟۔ اگر یہی اسلام ہے تو اس سے کفر ، یہودیت، ہندومت، نصرانیت وغیرہ بہتر نہیں ؟۔ یہ اسلام نہیں بلکہ مولوی کے پیٹ کی ہوا ہے۔ جب حقائق کا سامنا کرنا پڑئے تو ٹیٹیں مارتا ہوا گدھے کی طرح بھاگے گا اور اعتراف کرے گا کہ واقعی نبی ۖ نے سچ فرمایا کہ” یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلے گی” اور جس طرح قرآن میں یہود کے علماء کی مثال گدھے کی ہے جن پر کتابیں لادی گئی ہوں۔ ہٹ دھرم اورہڈ حرام لوگوں کا وقت قریب لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ علماء حق کی حفاظت فرمائے اور حق کی آواز بلند کرنے کی بھی جلد از جلد توفیق عطاء فرمائے۔
بریلوی دیوبندی درسِ نظامی کے نصاب میں فقہ حنفی کا یہ مسلک ہے کہ عربی میں ف تعقیب بلا مہلت کیلئے ہے اور آیت230میں جس طلاق کا ذکر ہے اس کا تعلق عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ یعنی ایک تو پہلے دومرتبہ طلاق دی ہو اور پھر تیسری طلاق سے پہلے فدیہ عورت نے دیا ہو۔ پھر اس سے مربوط طلاق دی جائے تو اسکے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ اس کی تائید علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ”زاد المعاد” میں حضرت ابن عباس کے قول سے کی ہے ۔ معروف حنفی عالم علامہ تمنا عمادی نے اس پرکتاب ” الطلاق مرتان ” لکھی ہے۔جسکے لاجواب ہونے کی تعریف مدرسے کے اپنے ایک استاذ سے بھی سنی تھی۔ علامہ تمنا عمادی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان ہجرت کی۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان نے طلبہ کو تلقین فرمائی تھی کہ روزانہ بلاناغہ قرآن کا ایک ایک رکوع عربی متن و ترجمہ کے ساتھ غور وتدبر سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ سورۂ بقرہ میں آیت229سے231تک ایک رکوع ہے۔ اس ایک رکوع کے غور وتدبر سے چودہ طبق روشن ہوسکتے ہیں۔ اپنے اساتذہ کرام اور علماء حق کا دل وروح سے بہت قدردان ہوں۔
قرآن میں رکوع کا رکوع سے ربط ہے۔ آیت228البقرہ میں یہ واضح ہے کہ ”طلاق کے تین ادوار ہیں،عدت کے آخر تک باہمی اصلاح کی شرط پر طلاق شدہ عورتوں کو انکے شوہروں کو لوٹانے کا حق ہے”۔ قرآن میںیہ تضاد نہیں ہے کہ پہلے اصلاح کی شرط پرعدت کے آخر تک رجوع کی گنجائش رکھے پھر اسکے برعکس دومرتبہ طلاق کے بعد غیرمشروط رجوع کی گنجائش رکھے اور تیسری طلاق کے بعد عدت کے اندر باہمی اصلاح کی شرط کے باوجود رجوع کا راستہ روکے۔ اتنا بڑا تضاد کسی عقلمندانسان کی کتاب میں بھی نہیں ہوسکتا۔چنانچہ اللہ نے فرمایا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ (آیت229) معروف طریقے سے روکنے کا مطلب اصلاح کی شرط پر روکنا ہے لیکن معروف کی شرط کو حنفی وشافعی فقہاء نے منکر بنادیا ۔ حنفی کے نزدیک نیت کے بغیر شہوت کی نظرسے بھی رجوع ہوگا اور شافعی کے نزدیک نیت کے بغیر جماع سے بھی نہیں ہوگا۔ یہ مسائل اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد نے بھی کتاب ” طلاق ثلاثہ :مصنف حبیب الرحمن” میں شائع کردی ہیں۔
نبیۖ نے غضبناک ہوکر ابن عمر کے سامنے واضح فرمایا تھا کہ ” اپنی بیوی سے طلاق کے بعد رجوع کرلو۔ طہر میں اپنے پاس رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے، پھر طہر میں رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر طہر آئے تواگر روکنا چاہتے ہو تو روک لو اور چھوڑنا چاہتے ہو توچھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ہے”۔( بخاری کتاب التفیسرسورۂ طلاق)۔
عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا فعل ایکدوسرے سے جدانہیں۔ فقہاء نے قرآن اوراحادیث صحیحہ کے بالکل برعکس بہت سارے مسائل گھڑ لئے ہیں۔یہ بھی لکھاہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تو پہلا پھر بھی دوطلاق کا مالک ہو گا۔یہ بھی لکھا کہ حرام کے لفظ سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی۔یہ بھی لکھاہے کہ پہلی اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی ، دوسری طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ بھی لکھاہے کہ دوسری طلاق واقع ہوجائے گی تیسری طلاق واقع نہ ہوگی۔ علماء ومفتیان کی اکثریت مخلص ہے لیکن سمجھ نہیں رکھتے۔
نبیۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ فرمایا : ”الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان حسان کیساتھ چھوڑنا تیسری طلاق ہے”۔ حنفی اصول کے مطابق ف تعقیب بلامہلت کے حوالے سے بھی تیسری طلاق کا تعلق تسریح باحسان ہی سے بنتا ہے۔
آیت229کے بعد230البقرہ میں اس صورت کی وضاحت ہے کہ جب میاں بیوی اس طرح سے جدا ہونا چاہتے ہوں کہ آئندہ آپس میں رابطے کی بھی کوئی صورت نہ رکھیں ۔ ان آیات میں جو تحفظ عورتوں کو جن الفاظ میں دیا گیا ہے اگر لوگوں پر کھل جائے تو دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمان سرخرو ہوجائیں۔ مرد اپنی معشوقہ اور منگیترکوغیرت کی وجہ سے مقدور بھر نہیں چھوڑتا کہ دوسرا شخص اس سے نکاح کرلے تو طلاق شدہ بیوی کوکہاں اجازت دے گا کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں اور جس سے چاہے نکاح کرلے؟۔ برطانوی شہزادہ چارلس پر پیرس فرانس میں لیڈی ڈیانا کو طلاق کے بعد غیرت کے قتل کا مقدمہ ہوا۔ جس طلاق کے بعد بھی عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے قرآن کی تمام آیات میں رجوع کی گنجائش نہیں لیکن یہود کی توراة کی طرح قرآن کو ترک کرنے والوں نے آیات کے واضح الفاظ میں اصلاح، معروف طریقے، باہمی رضا مندی کے تمام واضح الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے دومرتبہ طلاق رجعی کا تصور دیا۔ جس سے جاہلیت میں مسلمانوں کو دھکیل دیا گیا۔ اگر دومرتبہ غیرمشروط طلاق رجعی کا تصورہو تو شوہر کو عورت پر تین عدتیں گزارنے کا حق ہوگا۔ ایک طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع ، پھر طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع اور پھر تیسری مرتبہ طلاق کے بعد سے تیسری عدت گزارنے پر مجبور کرسکے گا۔
سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں سورۂ بقرہ کی ان آیات کا خلاصہ ہے۔ جب ام رکانہ کے شوہر نے تین طلاقیں دی اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع نہیں کیا اور ایک اور عورت سے نکاح کیا تواس نے کہا کہ وہ نامرد ہیں۔ نبیۖ نے اس کو چھوڑنے کا فرمایا اور ام رکانہ سے رجوع کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات کوتلاوت فرمایا۔ یہ حدیث ابوداؤد شریف میں موجود ہے۔ جہاں تک صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ حضرت رفاعة نے جس عورت کو طلاق دیدی تھی اور نبیۖ نے اس کو دوسرے شوہر کی لذت اٹھانے کا حکم دیا تھا تو پہلی بات یہ ہے کہ عورت کو نبیۖ نے یہ حکم تو نہیں دیا کہ ایک دم تین طلاقیں واقع ہوگئیں ، رجوع نہیں ہوسکتا ۔ عدت گزارو۔ پھر دوسرے شوہر سے حلالہ کراؤ۔ پھر شوہر کے پاس آجاؤ۔ بلکہ وہ پہلے سے دوسرے شخص کے نکاح میں تھی۔ شکایت یہ تھی کہ وہ نامرد ہے اسلئے پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے۔ کیا نبیۖ اس عورت کو نامرد کے پاس رہنے پر مجبور کرسکتے تھے؟۔جب نامرد میں حلالہ کی صلاحیت نہیں تھی تو نبیۖ اس کو کیسے یہ حکم دے سکتے تھے؟۔
اصل بات یہ تھی کہ بخاری شریف میں یہ وضاحت بھی ہے کہ رفاعة نے اس عورت کو مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دی تھی اسلئے اس سے یکمشت تین طلاق کا حکم نکالنا بہت بڑی بددیانتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت فرمائی ہے تو نبیۖ اس کی کیسے خلاف ورزی کا تصور بھی فرماسکتے تھے؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس عورت کو اپنے شوہر نے بری طرح مارا پیٹا تھا اور بخاری کی دوسری روایت میں تفصیل کا ذکر ہے اور اس شخص نے اپنے نامرد ہونے کی بہت سخت الفاظ میں تردید کی تھی۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ نبیۖ نے ان میںصلح صفائی کروائی ہوگی۔ ضروری نہ تھا کہ جب رفاعة نے ایک مرتبہ اس کو چھوڑ دیا تو اس کو دوبارہ قبول بھی کرلیتا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے اپنی کتاب ” کشف الباری شرح صحیح البخاری” میں لکھا ہے کہ ”یہ حدیث خبر واحد ہے اور اس میں اتنی جان نہیں کہ حنفی مسلک کے نزدیک قرآن کے الفاظ نکاح پر جماع کا اضافہ کیا جائے۔ ہم قرآن میں نکاح سے جماع مراد لیتے ہیں حدیث سے استدلال نہیں پکڑتے ”۔ یہ ساری باتیں حلالے کا شکار کھیلنے والوں کی تردید کرتی ہیں اور اسلام قرآن وسنت کا نام ہے اور فقہاء کے پیٹ کے مسائل کانام نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب تیسری طلاق کو حلالے کیلئے بنیاد قرار دیا جائے ،جب لونڈی اور غلام کی دو طلاقوں میں تیسری طلاق ممکن بھی نہیں ہے تو پھرلونڈی اور غلام کی طلاق کیلئے حلالے کاراستہ دو طلاقوں سے کیوں ہموار کیا گیا ہے؟۔ حلالہ کیلئے ہرقیمت پر راستے ہموار کرنے کا فتویٰ؟۔ جب کہا جائے کہ نبیۖ کی صحیح حدیث ہے کہ ”خلع کی عدت ایک حیض ہے”۔ تو اس پر کہا جائے کہ ”قرآن میں عدت تین حیض ہے ،حدیث سے قرآن پراضافہ نہیں جاسکتا ہے”۔ حالانکہ قرآن میں بیوہ کی عدت4 ماہ10دن ہے اور حمل میں بچے کی پیدائش سے یہ مدت کم کی گئی ۔ جب ہاتھ لگائے بغیر طلاق دی جائے تو عورت پر شوہر کی عدت کاکوئی حق نہیں جس کو شمار کیا جائے تو پھر خلع میں بھی حدیث صحیحہ کے مطابق ایک حیض کی عدت کافی ہے۔ جس پر سعودیہ کی حکومت عمل بھی کررہی ہے۔
محمود بن لبید کی روایت میں کسی شخص کی تین طلاق پر نبیۖ کے غضبناک ہونے کا ذکر ہے جس پر کسی شخص نے عرض کیا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ یہ نامعلوم اکٹھی تین طلاق دینے والے ابن عمرتھے اور قتل کرنے کی پیشکش والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم میں حسن بصری کی روایت ہے کہ بڑے مستند شخص نے کہا کہ ”عبداللہ بن عمر نے بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں۔پھرزیادہ معتبر شخص نے20سال بعد بتایا کہ ایک طلاق دی تھی”۔ صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف اور من گھڑت احادیث نے قرآن وسنت کا رخ تبدیل کردیا ۔ حضرت ابوبکر و عمر نے احادیث پر پابندی لگادی تھی۔ حضرت عمر نے تین طلاق پر رجوع کا حکم ٹھیک جاری کیااسلئے کہ عورت صلح پر آمادہ نہ تھی۔اگر ایک طلاق کے بعد عورت صلح پر آمادہ نہ ہو توقرآن میں رجوع نہیں ہوسکتاہے۔ طلاق اور خلع کے حقوق میں فرق ہے اسلئے اگر بیوی دعویٰ کرے کہ اس کو طلاق دی گئی اور شوہر حلفیہ انکار کردے تو پھر اس کو طلاق نہیں خلع تصور کیا جائے گا اور عورت کو طلاق نہیں خلع کے مالی حقوق ملیںگے۔ اسلام کو کم عقلوں نے بگاڑ دیاہے۔
جب ایک شخص حاضرہو اور دوسرا غائب ہوتو حاضر کے عیب کی اصلاح کرنا شریعت، فطرت اور انسانیت کا تقاضہ ہے اور غائب کے عیب کا تذکرہ کرنا غلط ہے۔ قرآن نے اس کو اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے اور حدیث میںغیبت کو زنا بھی زیادہ سخت قرار دیا گیا۔ عورت کے حقوق کی علمبردار ہدی بھرگھڑی نے اپنی ایک تقریر میں کیا خوب نکتہ اٹھایا ہے کہ نبیۖ کے دور میں مساجد کے اندر عورت بھی موجود ہوتی تھی اور آج بھی حرم مکہ میں عورت مرد کیساتھ نماز، طواف، صفا ومروہ کے سعی اور منی ومزدلفہ کے قیام میں ساتھ ہوتی ہے۔ لیکن جب عام مساجد کے اندرجمعہ کے اجتماعات میں خطیبوں کے سامعین صرف مرد ہوںگے تو خطیب حضرات مردوں کے حقوق بیان کریںگے۔
اگر فیملی پارک، شاپنگ مال، سکول،کالج اور یونیورسٹی میں مخلوط ہوسکتا ہے تو مساجد میں بھی مخلوط ماحول سے صالح معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ فیملی مساجد کا قیام یا چھڑوں پر مساجد کے اندر خاص اوقات میں پابندی سے یہ مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ مغربی تہذیب کا مقابلہ ،فحاشی وعریانی کا خاتمہ اپنی عورتوں کو گھروں میں بٹھانے اوردوسری خواتین کا تماشہ دیکھنے سے نہیں ہوتا۔ مسجد کے امام پراپنی فیملی مسجد میںلانے کی پابندی لگے اور امام کو گھر کی بھی سہولت ملے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اپریل 2022
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے!

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگایا اور پھر کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق کے مخالفین نے تحریک شروع کردی تو لاہور میں دیوبندی مکتبۂ فکر کے بہت بڑے عالم دین مولانا محمد مالک کاندھلوی نے کہا تھا کہ ” پہلا مارشل لاء حضرت ابوبکر صدیق نے لگایا تھا”۔ موصوف کے والد مولانا ادریس کاندھلوی بڑے درجے کے عالم تھے لیکن اتنے سادہ لوح تھے کہ بیٹا محمد مالک اپنے باپ مولانا ادریس سے سائیکل چلانے کیلئے پیٹرول کے نام پر پیسے لیتا تھا۔ ملاجیون سے لیکر بہت بڑے بڑے علماء کی سادہ لوحی کے قصے زبان زد عام ہیں، اسلئے ملادوپیازہ کے نام سے بھی لطیفوں کی کتابیں مارکیٹ کی زینت بنتی رہی ہیں۔
اسلام کا بنیادی کردار یہی تھا کہ اولی الامر سے قرآن نے اختلاف کی گنجائش رکھی ہے جس سے جمہوری ذہن کا راستہ ہموار ہواہے۔ قرآن میں حضرت موسیٰ کا بہت زیادہ ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر سے اختلاف کیا تھا۔ حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون کی داڑھی اور سر کے بال پکڑے تھے اور فرشتوں نے آدم کو زمین کا خلیفہ بنانے پر اعتراض اٹھایا کہ زمین میںخون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا۔ جب اسلام نے اختلاف کے تقدس کا دنیا میں ڈنکا بجادیا تو اختلاف کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جانے لگا۔ رسول اللہ ۖ کی سیرت طیبہ اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ جب نبی ۖ نے بدر کے قیدیوں پر مشاورت فرمائی تو اکثریت کی رائے فدیہ لیکر چھوڑ دینے کی تھی اور حضرت عمر اور حضرت سعد نے مشورہ دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے۔ نبیۖ نے اکثریت کا مشورہ مان کر فدیہ لیکر چھوڑ دینے کا فیصلہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس فیصلے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کی تدبیر فرمائی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن میں اقلیت کے مشورے کی زبردست الفاظ میں تائید بھی فرمادی تھی، جس کی درست تفسیر کرنے سے ہمارے علماء بالکل قاصر نظر آتے ہیں اور اول فول باتیں بکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک طرف ان آیات کے ذریعے سے اکثریت کی رائے کو صائب اختلاف کے باوجود بھی قابلِ عمل ٹھہرا دیا تھا تاکہ قیامت تک ایک طرف کثرت رائے اور جمہوریت کی بنیاد پڑ جائے اور دوسری طرف افراد کے اختلاف کو اقلیت کے باوجود بھی بالکل کم اہمیت کا حامل نہ سمجھا جائے۔ بلکہ اس بات کا سوفیصد امکان رہے کہ اقلیت کی بات درست اور اکثریت کی بات غلط بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن میں سیرت النبیۖ کے ذریعے بہترین جمہوریت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ شیعوں کے اسلام اور نظریۂ امامت میں جمہورکی گنجائش نہیں ہے اسلئے اپنے بارہ اماموں کے مثبت کردار کو بھی منفی پروپیگنڈے سے بڑا بدنام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ائمہ اہل بیت کے مثبت اور صائب کردار نے اُمت کو جمہوری مزاج پرقائم رکھنے کا کردار اداکیا۔ اگر حضرت علی چاہتے تو ابوسفیان کی پیشکش قبول کرکے حضرت ابوبکر کی خلافت کو ناکام بناتے۔ پھر حضرت عمر کی نامزدگی اور حضرت عثمان کی مختصر شوریٰ میں کثرت رائے کے ذریعے انتخاب بھی ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت علی کے کردار پر ماتم کرکے سینہ کوبی اور زنجیر زنی کی جگہ فخر کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ سیدجوادحسین نقوی ایک کٹر شیعہ ہیں اور اس طرح کے دیگر بہت سارے شیعہ علماء بھی ہیں جو ائمہ اہل بیت کے درست تشخص کو اجاگر کرکے ان اہل تشیع کی اصلاح کررہے ہیں جن کو جہالتوں نے بگاڑ دیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں سے شیعہ اور خوارج کا ایک دوسرے کے خلاف استدلال پکڑنے میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا ایک دوسرے کے خلاف نقصان ہے۔ ہمارے ایک دوست کے دوست فرمان ایک کٹر شیعہ ہیں۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ حضرت خدیجہ بالکل کنواری اور جوان تھیں جب نبیۖ نے شادی کی تھی اورچاروں بیٹیاں حضرت خدیجہ سے تھیں،کیونکہ یہ نبیۖ کی شان کے خلاف ہے کہ خود کنوارے ہوں اور کسی بیوہ سے شادی کریں۔ دوسری طرف اس کو جب بتایا کہ شیعوں کا یہ مؤقف ہے کہ حضرت فاطمہ کے علاوہ نبیۖ کی اور کوئی حقیقی صاحبزادی نہیں تھی تواس نے کہا کہ یہ شیعوں کا مؤقف نہیں ہے۔
اہل سنت اور اہل تشیع دونوں اپنے بادام اور اخروٹ کے مغز کو چھوڑ کرچھلکوں کیساتھ کھیل رہے ہیں۔ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام دین کے مغز پر قائم تھے اور لوگ فرقہ فرقہ اور چھلکا چھلکا کھیل رہے ہیں اور فرقہ واریت کی آگ کوانہی چھلکوں سے بھڑکارہے ہیں۔ میں جاہل خطیبوں کی جہالت بھری خطابت پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا لیکن ساہیوال کے ایک گاؤں میں گیا تھا اور وہاں میرے ساتھ مولانا منظور احمد نے بھی خطاب کیا تھا۔ان کا یوٹیوب پر نام دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ وہی صاحب ہیں یا کوئی اور ہیں؟۔ اس نے تقریر میں صحابہ کرام کے متعلق قرآنی آیات سے زبردست استدلال پیش کیا اور پھر ان کے اتباع پر اپنے لئے بھی خوشخبری کی بات قرآن سے سنائی اور ساتھ میں قرآن کے الفاظ کو بھی بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا کہ ” اے اللہ ! جو ہم سے پہلے ایمان کے ساتھ گزر چکے ہیں۔ ان کیلئے ہمارے دل میں کھوٹ پیدا نہ فرما”۔ پھر آخر میں عبادت گزار لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے چوہدریوں کی بھی تعریف کی جن کی مدد سے مساجد اور مدارس میں علماء وطلبہ کی روزی روٹی چل رہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ”ان چوہدری کی مخالفت کرکے نمک حرام مت بنو”۔
پھر علامہ جعفر حسین قریشی پر نظر پڑی تو اس کی تقریر بھی سن لی جو بہت زیادہ پیاری لگی۔ جب میں نے اوکاڑہ میں تقریر کی تھی تو نعت خوانوں کی نعتوں میں اہل سنت کا رنگ نظر نہیں آرہا تھا۔ علامہ جعفر حسین قریشی نے اپنوں کا یہ رنگ دیکھ کر فرمایا ہے کہ یہ ہماری کمزوری ہے۔ جس کی تقریر کے ایک حصے کو سنیوںاور دوسرے حصے کو شیعوں نے کاٹ پیٹ کر لگایا ہے۔ میری تقریر کے بعد سامعین میں سے کسی نے پوچھا تھا کہ یہ شیعہ تو نہیں؟۔ جبکہ مجھے ان میں سنیت کا احساس اجاگر ہونے پر خوشی ہوئی۔ کسی محلہ دار اہل تشیع نے میری تقریر سن کر کہا تھا کہ پہلی مرتبہ کسی اچھے علمی شعور والے بندے کو لائے ہو۔ اقبال نے پنجابی مسلمان کے نام سے خوب لکھا ہے کہ ”تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا” ۔
مولانا منظور احمد نے میری تقریر کے بعد جلسہ عام سے خطاب میں کہا تھا کہ ”میں نے آج تک ایسے علمی نکات نہیں سنے ہیں لیکن عوام کو یہ باتیں سمجھ میں مشکل سے آتی ہیںاسلئے کہ وہ خطیبوں کی سریلی آوازوں کی زبان سمجھتے ہیں”۔
علامہ عابد رضاعابدی کینیڈا سے سوشل میڈیا پر اہل سنت کی کتابوں سے بڑا مواد پیش کررہے ہیں اور اگر وہ ایک مہربانی کریں کہ حضرت علی کی بہن حضرت ام ہانی کی پوری کہانی بھی اہل تشیع کی کتب سے پیش کردیں ۔ جس نے ہجرت نہیں کی تھی اور حضرت علی فتح مکہ کے بعد اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہتے تھے ۔ پھر اس نے نبیۖ سے اپنے شوہر کیلئے پناہ لی تھی۔ جو اولین مسلمانوں میں سے تھیں۔ جب نبیۖ نے ان کے شوہر کے جانے کے بعد نکاح کی دعوت دی تو اس نے اپنے مشرک شوہر سے محبت اور اپنے بچوں کی خاطر انکار کردیا۔ نبیۖ نے اس پر ان کی تعریف کی۔حضرت ام ہانی کا رشتہ حضرت ابوطالب سے پہلے بھی نبیۖ نے مانگا تھا لیکن حضرت ابوطالب نے اپنی لڑکی کا رشتہ نہیں دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” اے نبی! ہم نے آپ کیلئے حلال کیا ہے ان چچا اور خالہ کی بیٹیوں کو جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے”۔ حضرت ام ہانی کا نام علامہ بدرالدین عینی نے نبیۖ کی ازواج میں داخل کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے قرآن میں نبیۖ کو ام ہانی سے رشتے کو منع کرنے کے بعد دوسری بھی تمام خواتین سے رشتہ کرنے کو منع کردیا اور پھر ایگریمنٹ کی اجازت دیدی۔ قرآن کی ان آیات اور حضرت علی اور آپ کی بہن حضرت ام ہانی کے واقعہ سے اہل تشیع کی کتابیں ساقط نہیں ہوں گی اور اس سے اہل تشیع کے لوگوں میں بہت شعوروآگہی اور علم وفہم پھیلے گا۔ ان کے آپس کے جھگڑے بھی اس سے ختم ہوجائیں گے۔ اماموں نے اپنی ساری زندگی جمہوری طرز پر گزاردی لیکن کاروباری چالاک لوگوں نے مذہب کو دھندہ بناکر اپنا اُلو بھی سیدھا کرنا تھا۔
جمہوریت کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو منع کردیا کہ مشرکات سے نکاح نہ کریں ،ان سے مؤمنہ لونڈیاں اچھی ہیں اگرچہ وہ مشرکات تمہیں بھلی لگیں اور مؤمنات کا مشرکوں سے نکاح نہ کریں،ان سے غلام مؤمن اچھے ہیں اگرچہ وہ مشرک تمہیں بھلے لگیں۔ پھر اللہ نے ہجرت کا حکم دیا۔ حضرت ام ہانی نے اپنے مشرک شوہر سے اپنا نکاح برقرار رکھا اور دین کے حکم پر ہجرت بھی نہیں کی لیکن اس کے باوجود ان کی عزت وتوقیر کرنا ایک فرض ہے اور قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی درست توجیہات کو توہین و بے توقیری سے مشہور کرنا انتہائی غلط اور بددیانتی ہے۔ ایک شیعہ شاید یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ حضرت علی نے اپنے مشرک بہنونی کو قتل کرنے کا کوئی پروگرام بنایا ہو اور پھر نبیۖ نے حضرت ام ہانی کی سفارش پر منع کیا ہو۔ یہ ان کو امام کی عصمت کے خلاف لگتا ہے۔ وہ اپنے مؤقف کو اپنی کتابوں سے پیش کریں تو ہم وہ شائع کر دیں گے۔ قرآن میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش ہے۔ نبیۖ کی سیرت اور قرآن کا یہ معجزہ تھا کہ اولی الامر کی حیثیت سے نبیۖ سے صحابہ کرام نے اختلاف کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ سورۂ مجادلہ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور دیگر مسائل پر قرآنی سورتوں میں واضح آیات ہیں۔ جب نبیۖ سے بھی قرآن میں اختلاف کی گنجائش کا واضح ذکر ہے تو کوئی اولی الامر کیسے ایسا ہوسکتا ہے کہ جس سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہو؟۔ حالانکہ قرآنی آیت میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش بالکل زبردست طریقے سے واضح کی گئی ہے۔
نبیۖ سے حدیث قرطاس کے معاملے پر حضرت عمر کے اختلاف کا واقعہ قرآن اور سیرت النبی میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ قرآن وسنت نے قیامت تک جمہوریت کی روح عالم انسانیت کو سکھادی ہے۔ جمہوریت میں سب سے بڑا فائدہ رائے کی آزادی اور ووٹ کے حق کا آزادانہ استعمال یقینی بنانا ہے۔
آج نام نہاد اور بے روح کاروباری جمہوریت کا یہ حال بن چکاہے کہ قوم ، حکومت، ریاست اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان بدترین تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ ایک حدیث ہے کہ اتبعوا السواد الاعظم ” اعظم جماعت کا اتباع کرو” جس سے اکثریت کے پیچھے چلنے کیلئے سمجھا جاتا ہے۔ اچھے علماء نے لکھا ہے کہ ”اس سے مراد اکثریت نہیں کیونکہ عربی میں اقل کے مقابل اکثر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد زیادہ عظمت والی جماعت ہے”۔ وزیروں کی اکثریت ہوتی ہے لیکن وزیراعظم ایک ہی ہوتا ہے اور ایک ہی کی بات مانی جاتی ہے۔
جب مختلف پارٹیوں اور جماعتوں میں ہر ایک کو اپنے اپنے ذہن کے مطابق عظمت والی جماعت کو ووٹ دینے اور اس کے پیچھے چلنے کی آزادی ہو تو یہی اس جمہوری نظام کو کہتے ہیں جو موجودہ دور میں رائج ہے۔ اسلام میں جمہوریت نہیں ہوتی تو مختلف فرقے بھی نہیں بن سکتے تھے اور فرقوں پر پابندی لگائی جاتی تو اس کو مذہبی آزادی اور جمہوریت کی روح کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کاروبار ی شکل نہ اختیار کرتی اور مذہب وسیاست کے نام پر کاروبار نہ ہوتا تو پاکستان سے انسانیت کیلئے عالمی انقلاب کا آغاز ہونے میں دیر نہ لگتی۔
شیعہ سنی افکار اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن جب تک ایک مضبوط بیانیہ حکومت، اپوزیشن، ریاست اور عوام کے سامنے نہیں آتا ہے تو یہ ملک وقوم تباہی کی طرف بہت تیزی سے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر کا بیانیہ شروع سے یہ تھا کہ ہماری35سیٹیں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں ہروائی ہیں اسلئے کہ اگر ہم اتحادی بیساکھیوں کے بغیرحکومت بناتے تو پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہماری محتاجی ختم ہوجاتی۔ جن میں ایک سیٹ وہ فیصل جاوید کے مقابلے میں خواجہ آصف کی بتاتے ہیں۔35پنچر سے بڑا معاملہ یہی ہے۔ دنیا دیکھ رہی تھی کہ اتحادیوں کے سہارے کھڑی تحریک انصاف کی حکومت ایک اشارے سے گر سکتی ہے اور PDMنے اسٹیبلشمنٹ میں آرمی چیف اورDG آئی ایس آئی کا نام لے لے کر عوام میں تقریریں کیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ ہم غیرجانبدار ہیں۔ پھرDGISIپر حکومت اور فوج میں ناراضگی کا معاملہ آیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے اندورنی اختلافات کی وجہ سے مرکز اور پنجاب میں تبدیلی ممکن نہیں ہوسکی تھی اور الزام پیپلزپارٹی پر لگایا گیا کہ استعفے ، لانگ مارچ کے بعد اس کا دھرنے دینے پر اتفاق نہیں ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی قابل اعتبار نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کا فارمولہ تھا کہ پہلے تحریک عدم ِ اعتماد کا آئینی فارمولہ آزماتے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب اور شہبازشریف کو مرکز سپرد کریں گے۔ پھرجب PDMنے ایک لمبی مدت 23مارچ کی دیدی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے لانگ مارچ کرسکتے تھے اور نہ اپنی بات سے پھر سکتے تھے اسلئے تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑ کر جھوٹے دعوے شروع کردئیے۔ خرید وفروخت کے ذریعے یہ ممکن بھی تھا اور مشکل بھی تھا لیکن PDMکی قیادت سنجیدہ نہیں لگ رہی تھی۔ اسلئے کہ پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ارکان کو بغاوت پر اکسانے اور یقین دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جبکہ ن لیگ پنجاب میں وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کو دینے میں گومگو کا شکار تھی۔ اب سندھ ہاؤس اسلام آباد سے بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔
عمران خان نے 10لاکھ کا اجتماع D چوک پر کرنے کا اعلان کیا تو PDM نے بھی23مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کیا۔ جس پرکور کمانڈر کانفرنس میں تلخ پیغام دیا گیا اور شیخ رشید نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن ماؤزے تنگ نہیں ایک عالم دین ہیں ، مولا جٹ بننے کی کوشش کاسودا مہنگا پڑسکتا ہے۔ مریم نواز اور شہباز کی قیادت میں لاہور سے نکلنے والے جلوس اورPDMنے23مارچ کی جگہ25 مارچ کا اعلان کردیا کہ غیرملکی مہمانوں کا ہمیں بھی احترام ہے لیکن اصل خوف ریاست کے میزبانوں سے ہے۔ دیکھئے سیاسی دنگل کا آخری نتیجہ کچھ تو نکلے گا۔
ہڑتال و احتجاج کی کال سے عوام کو باخبر رکھا جائے تو عوام اپنے مفاد میں اس کو کامیاب بناتے ہیں۔ سیاسی حکمت اور غیرت کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ عوام کو ان کی مرضی کے بغیر مشکلات میں ڈالنا انتہائی درجے کی بے غیرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے جب سے پیشگی کال کے بغیر کارکنوں کے ذریعے عوام کو تکلیف دینا شروع کی ہے توعوام کو ان جماعتوں اور قائدین سے نفرت ہونے لگی ۔ اچانک روڈ اور تجارتی مراکز بند کرانے سے بچے اور خواتین بھی پھنستے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ریاست عوام کے حقوق کی حفاظت نہ کرسکتی ہو تو تنگ آمد بجنگ آمد لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں کو بند کرنیوالے سیاسی کارکنوںکو مارنے کیلئے اپنی گاڑیوں میں سرئیے ، ڈنڈے اور اسلحے رکھنے شروع کردیں۔ ایک مرتبہ نوشہرہ اور دوسری مرتبہ کراچی میں لوگوں کو جمعیت علماء اسلام کے احتجاج پر بہت گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے سنا ۔ عاقل کو اشارہ کافی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مسلمانوں کی مصیبت یہ ہے کہ تیتر بھی ہیں اور بٹیر بھی!

مسلمانوں کی مصیبت یہ ہے کہ تیتر بھی ہیں اور بٹیر بھی!

کالاتیتر بہت خوبصورت ہوتا ہے اور اس کی آواز کو ”سبحان تیری قدرت“ کہا جاتا ہے۔ اردو بہت بعد کی ایجاد ہے۔ عربی، انگریزی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، پنجابی اور سندھی وغیرہ کسی پرندے کی قدرتی آواز کو اللہ کے ذکر سے تعبیر کیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں اسلئے کہ جانوروں اور پرندوں کے علاوہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ درخت، پہاڑ اور پتھر بھی اللہ کا ذکر اور عبادت کرتے ہیں۔ النجم والشجر یسجدان فبای آلاء ربکما تکذبان ”بیل اور درخت دونوں سجدہ کرتے ہیں تو تم دونوں اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤگے“۔ نجم تارے اور بیل کو کہتے ہیں۔ درخت کا جوڑی دار بیل ہے، اسلام کے درخت کو مولوی کا آکاس بیل کھاگیا۔
آدھے تیتر اور آدھے بٹیر کی کہاوت مشہور ہے۔ مسلمانوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ تیتروں کی طرح اپنا ذکر کرتے ہیں لیکن دوسروں کے ہاتھ میں بٹیروں کی طرح اپنی قوم سے بھی لڑتے ہیں۔ ایک طرف مساجد و مدارس، خانقاہوں، امام بارگاہوں اور مذہبی طبقات کی وجہ سے اسلام اور اللہ کا نام لیتے ہیں تو دوسری طرف عالمی قوتوں کے اقتصادی غلام بن گئے ہیں اور ان کے اشاروں پر اپنوں سے لڑنے مرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن تباہ ہوگئے اور ہم نیٹو اور ظالموں کے فرنٹ لائن اتحادی تھے اور اب روس نے یوکرین پر حملہ کرنا تھا تو وزیراعظم عمران خان روس پہنچ گئے۔ جب امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ہڈی پھینکنا چھوڑ دی تو ہماری حالت دھوبی کے کتے کی بن گئی جو گھر کا ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔
ہماری سیاست کا محور جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یہی لوگ اسمبلیوں میں آکر قانون سازی بھی اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کرتے ہیں۔ عدالت کا نظام انصاف بھی غریب اور کمزور طبقے کے بجائے زیادہ تر امیروں اور طاقتوروں کے تحفظ کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے سے بڑے تک تمام اداروں میں قانون کی حکمرانی کی جگہ طاقتور وں کے دسترس میں سب کچھ ہے۔ جس کی وجہ سے انقلاب انقلاب کی آواز ہر جگہ سے اُٹھ رہی ہے۔ معروف قانون دان اور پیپلزپارٹی کے رہنماچوہدری اعتزاز احسن نے بھی انقلاب ہی تمام مسائل کا نہ صرف حل قرار دیا ہے بلکہ اپنا تجزیہ پیش کردیا ہے کہ انقلاب کے دھانے پر کھڑے ہیں۔
جب عورت کے حقوق کا معاملہ سمجھ میں آئے گا تو پھر گھر گھر، گلی کوچوں، قریہ قریہ، شہر شہر اور ملک ملک صدائے انقلاب کو خوش آئند قرار دیا جائے گا۔ عورت غلام تو سماج غلام اور عورت آزاد تو پھر سماج آزاد ہے۔ مفت کی مزارعت اور سودی نظام سے پاک معیشت سے غریب اور محنت کش طبقات کا استحصال ختم ہوجائیگا۔
آؤمری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امرا کے در ودیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعًا سجدًا.

محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعًا سجدًا.

محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو آپ کے صحابہ ہیں کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔آپ دیکھوگے رکوع
اور سجدہ میں ان کوڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی۔نشانی ہے انکے چہروں پر سجدوں کے اثر سے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ نے قرآن میں صحابہ کرام کی جو تعریف فرمائی۔ اس سے روگردانی بڑی بدبختی ہے۔احادیث و تاریخ میں صحابہ کے ادوار ہیں۔ نبیۖ کیساتھ کا دور، خلافت راشدہ کادور، امارت کادور ۔حضرت حذیفہ نے نبی ۖ سے پوچھاکہ اس خیر (اسلام )کے بعدشر ہوگا؟۔ فرمایا کہ ہاں!۔پوچھا:اس شر کے بعد خیر ہوگی؟۔ فرمایا: ہاں مگر اس میں دھواں ہوگا۔ اچھے لوگ ہونگے اور برے بھی۔ پوچھا :اس خیر کے بعد شر ہوگا؟۔ فرمایا: داعی ہونگے ،ہمارے لبادہ وزبان میں جہنم کے دروازوں پر،جو ان کی دعوت قبول کریگا وہ اس کو جہنم میں جھونک دیں گے۔ اس وقت مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام سے مل جاؤ، اگر مسلمانوں کی جماعت اور امام نہ ہو توان سب فرقوں سے الگ ہوجاؤ۔ (بخاری)
احادیث وتاریخ کی کتابوں میں نبوت ورحمت اور خلافت راشدہ وزحمت کے دورمیں فرق ہے۔ بدر واحد میں اتنے کفار مارے گئے اور نہ اتنے مسلمان شہید، جتنے جنگ جمل وصفین میں مسلمان ایکدوسرے نے ماردئیے۔ نبیۖ کو زکوٰة دینے والے خلافت کو زکوٰة دینے سے انکاری تھے۔ہنگامی صورت میں انصار و مہاجریننے ابوبکر کو خلیفہ نامزد کیاتھاتوابوسفیان نے علی سے کہا کہ اگر آپ چاہو تو میں پیادہ اور سواروں سے مدینہ کو بھردوں؟۔ ابوسفیان کے تعصب اور حرص کوعلینے مسترد کردیا۔شیعہ اگر علی کے پیروکار ہیں تو حرص وتعصب اور فرض کی ذمہ داری کا فرق سمجھیں۔ خالدبن ولید نے مالک بن نویرہ کو قتل کیا اور اس کی بیگم سے عدت میں شادی کی تو عمر نے کہا کہ اس کو سنگسار کرنا چاہیے۔ ابوبکر نے تنبیہ کرکے درگزر کیا۔ خطبۂ جمعہ کی حدیث :ارحم امتی بامتی ابوبکر واشدھم فی امراللہ عمر”ابوبکر میری امت میں میری اُمت پر سب سے زیادہ رحم والے اور عمر ان میں اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ سخت ہیں”۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ”خبردار ! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو”۔ نبیۖ نے ازواج مطہرات سے فرمایا کہ آئندہ میرے بعد حج نہیں کرنا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا کہ جب حواب کے کتے آپ پر بھونکیں گے اور وہ قوم کامیاب نہیں ہوسکتی جس کی قیادت عورت کررہی ہو۔ بخاری کی احادیث میں آئندہ کے واقعات کا نبیۖ نے واضح نقشہ بتایاتھا۔
حضرت علی ودیگر صحابہ کے دل میں اقتدار کی حرص نہیں فرائض کی ذمہ داری پوری کرنے کا احساس تھا۔ مشکل میں ضرورت پڑی تو علی نے لیت لعل سے کام نہ لیا اور حسن نے محسوس کیا تو معاویہ کیلئے اقتدار چھوڑدیا۔ شیعہ کہتے ہیں کہ حسین نے کربلا میں قربانی دی ،ائمہ ومہدی آپ کی اولاد سے ہیں۔ سنی کہتے ہیں کہ حسن نے اقتدار کیلئے حرص نہیں کی اسلئے مہدی کا تعلق حسن کی اولاد سے ہوگا۔روایات میں اہل بیت اور سفیانیوں کا ذکر ہے ۔ اقتدار کی حرص اور فر ض کی ادائیگی میں فرق ہے۔ مذہبی طبقہ، سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ ، صحافی، سیاستدان اور ملک وقوم کے تمام طبقات نظریاتی ہیں یا مفاد پرست تجارتی ؟۔ حق کی آواز بلند کرنے اور پوری قوم کی اصلاح کے عوض کچھ نہیں چاہیے مگر پاکستانی ، انسان اور مسلمان ہونے میں مودة فی القربیٰ چاہیے۔ قاری محمدطیب نے بیٹا جانشین بنایا اور شوریٰ نے بات نہ مانی تو زبردست فریاد کر ڈالی۔ نبی ۖ نے حدیث قرطاس پرکوئی شکوہ نہ فرمایا ۔ اگر حضرت عمر حدیث قرطاس کیلئے رکاوٹ نہ بنتے تو مذہبی جماعتوں ، مدارس اور خانقاہوں میں وصیتوں کو شرعی درجہ حاصل ہوجاتا۔
جوفقر ہوا تلخیٔ دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی

دارالعلوم دیوبند کے قاری طیب کی یہ فریادی نعت
قاری محمد طیب نے اپنے بیٹے کودار العلوم دیوبند کا مہتمم بنانا چاہا اور شوریٰ نے نہیں بننے دیاتویہ نعت پڑھی

نبی اکرم شفیع اعظم ۖدُکھے دِلوں کا پیام لے لو!
تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہوئے ہیں سلام لے لو!
شکستہ کشتی ہے تیز دھارا، نظر سے روپوش ہے کنارہ
نہیں کوئی نا خدا ہمارا ، خبر تو عالی مقامۖ لے لو!
یہ کیسی منزل پہ آگئے ہیں نہ کوئی اپنا نہ ہم کسی کے
تم اپنے دامن میں آج آقا ۖ تمام اپنے غلام لے لو!
عجب مشکل میں کارواں ہے نہ کوئی جأ نہ پاسباں ہے
بہ شکل رہبر چھپے ہیں رہزن ، اٹھو ذرا انتقام لے لو!
کبھی تقاضہ وفا کا ہم سے کبھی مذاق جفا ہے ہم سے
تمام دنیا خفا ہے ہم سے تمہی محبت سے کام لے لو!
قدم قدم پہ ہے خوف رہزن زمیں بھی دشمن فلک بھی دشمن
زمانہ ہم سے ہوا ہے بدظن خبر تو خیرالانام لے لو!
یہ دل میں ارماں ہے اپنے طیب مزار اقدس پہ جاکے اک دن
سناؤں ان کو میں حال دل کا کہوں میں ان سے سلام لے لو!

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv