پوسٹ تلاش کریں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا

نبی ۖ نے اپنے چچا عباس کے سود کو معاف کرنے کا اعلان فتح مکہ کے بعد کیا لیکن مزارعت کو بہت پہلے سے سود قرار دیکر مدینہ میں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے یثرب مدینہ بن گیا
اگر پاکستان کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں محنت کش عوام کو بنجر زمینیںمفت میں فصل ،باغات اور جنگل اُگانے کیلئے دی گئیں تو اناج ،پھل ،لکڑی سے غربت کا خاتمہ اور جنت کا منظر ہوگا

ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھاتو سندھ اور پنجاب میں مقبول ہوا، عوام کو پتہ نہ تھا کہ سوشلزم کیا ہے؟۔ آج تک پڑھے لکھے لوگوں کو ادراک نہیں۔جاہل لوگوں میں بھٹو کی مقبولیت اسلئے بڑھ گئی تھی کہ انڈسٹریوں کو سرکار کی تحویل میں لیا گیا تو مزدورطبقے کو یقین دہانی کرائی گئی کہ سرکار تمہاری ہے اور سرمایہ داروں سے انڈسڑیوں کو چھین لیا۔ پختونخواہ میں آج تک بہت سی زمینوں پر غریب مزارعین نے قبضہ کرلیا اور زمین مالکان ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بینظیر بھٹو نے باپ کے برعکس سرکاری اداروں کو پرائیوٹ کردیا۔ عوام کو کچھ سمجھ نہیں کہ باپ اور بیٹی میں کیا تضادتھا؟۔ روس امریکہ کی سرد جنگ کا ایندھن افغانستان اور پاکستان بن گئے۔اسرائیل نے فلسطین میں بچوں،خواتین اور انسانیت کا بہت برا حال کیا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عزام کا تعلق فلسطین سے تھا جس کو اپنی سرزمین کی فکر نہ تھی۔ سعودی عرب کے تنخواہ دار نے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کو افغان جنگ میں جھونک دیا۔ بینظیر بھٹو نوازشریف پر اسامہ اور اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگاتی تھی ۔ نوازشریف بینظیر بھٹو کوامریکی ایجنٹ کہتا تھا۔ بینظیر بھٹو نے نصیراللہ بابر کے ذریعے امریکہ کیلئے طالبان حکومت قائم کی ۔نوازشریف نے مولانا لاہوری کے پوتے مولانا اجمل قادری کو اسرائیل بھیجا ۔25فیصد سود کو اسلامی بینکاری قرار دیا۔ بیت المقدس کو چھوڑ کر ابھی مکہ مدینہ پر یہودی قبضہ کی بات ہے۔ اگر مزارعت سے سودی نظام کے خاتمے کی ابتداء ہوگئی تو بینکاری کے سودی نظام سے بھی چھٹکارا مل جائیگا۔ اقتصادی تباہی سے ہمارا دینی، ہمارا دفاعی اور سیاسی نظام سب کچھ اغیار کے حوالے ہوجائیگا۔ آج اگر مزارعت سے ابتداء کرلی تو عالمی سودی نظام سے بھی جلد چھٹکارا مل جائے گا۔ اللہ ہمارے اہل اقتدار کو عقل دے۔ جاگیردار اور سرمایہ دار کیلئے بھی مہنگائی ہے۔ غریب و محنت کش کو ریلیف دینے سے نہ صرف سب کو ریلیف مل جائے گا بلکہ لینڈ مافیا اور ظالموں کو بھی لگام مل جائے گی۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور اس کو اسلامی بنیاد پر جنت نظیر بننے میں دیر نہیں لگے گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا

اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا

الیوم احل لکم الطیبٰت وطعام الذین اوتواالکتٰب حل لکم وطعامکم حل لھم والمحصنٰت من المؤمنٰت والمحصنٰت من الذین اوتواالکتٰب من قبلکم اذا اٰ تیتموھن اجورھن محصنین غیر مسٰفحین و لامتخذی اخدانٍ ومن یکفربالایمان فقدحبط عملہ وھوفی الاٰخرة من الخٰسرین ” آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہیں اور ان لوگوں کا کھانا جن کو کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کیلئے حلال ہے اورپاکیزہ عورتیں مؤمنات میں اور پاکیزہ عورتیں ان لوگوں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی جاچکی ہے۔جب تم ان کا حق مہر ادا کرو،ان کو اپنے حصار میں لئے نہ فحاشی سے اور نہ چھپی یاری سے اور جس نے ایمان کیساتھ کفر کیاتو اس کا سارا عمل ضائع ہوگیااور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا”۔ ( المائدہ : آیت5)مذہبی طبقہ کتابیہ سے نکاح کو بے دینی سمجھے تویہ کفر ہے!۔

قل یااہل الکتٰب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم ألا نعبد اِلااللہ ولانشرک بہ شیئًا ولایتخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دون اللہ فان تولوافقولوااشھدوا بانا مسلمونO” کہہ دو! اے اہل کتاب آؤ،اس بات کی طرف جو ہمارے اور آپ کے درمیان برابر ہے کہ ہم عبادت نہیں کرتے مگر اللہ کی۔اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے اور نہ بناتے ہم اپنے بعض میں سے بعض کو اللہ کے علاوہ ارباب۔پس اگر یہ پھر جائیں تو کہو کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ”۔(آل عمران:آیت64)

اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیااور آخرت میں وہ خسار ہ پانے والوں میں سے ہوگا۔ بے دینی کا خاتمہ اہل فارس کرسکتے ہیں۔ بخاری و مسلم سورہ جمعہ آیت واٰخرین منھم لما یلحقوبھمکی تفسیر میں نبیۖ نے واضح فرمایا ہے۔
آل عمران آیت:64میںاہل کتاب کو مشترکات کی طرف بلانے کا حکم ہے۔ نمبر1:اللہ کی عبادت کریں ۔ نمبر2:اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ نمبر3:ہم اپنے بعض میں سے بعض کو اللہ کے علاوہ اپنے ارباب نہیں بنائیں۔ آج مسلمان یہودونصاریٰ کی طرح ہوگئے ۔نبیۖ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔
نمبر1:یہود ونصاریٰ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور ہندو بھی لیکن ہم ان کی عبادت کو عبادت نہیں سمجھتے ۔ یہ قرآن کی مخالفت اور انکے نقش قدم پر چلناہے۔
نمبر2:عیسائی عیسیٰ و مریم کو شریک ٹھہراتے ۔یہود عزیر کو خدا کا بیٹا کہتے۔ عیسائی گمراہ، یہود پر اللہ کا غضب تھا۔ یہود عیسائیوں کے بغض میں عزیر کو خدا کا بیٹا کہتے تھے حالانکہ موسیٰ، داؤد وسلیمان کو زیادہ مانتے تھے۔ جیسے بعض سنی طبقہ میلادالنبی ۖ کا دن منانا بدعت اور ناجائز سمجھتاہے لیکن شیعہ کے بغض میں یوم فاروق اعظم مناتا ہے۔ یہود اور سکھ توحید کے علمبردار بن گئے ۔ تعلیم یافتہ عیسائی و ہندو کی اکثریت مشرکانہ اعتقاد نہیں رکھتی مگر جاہل مسلمان کی حالت بدتر ہے۔
کریں غیر اگر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بحرسجدہ تو کافر
ستاروں میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مؤمنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
شہیدوں پہ جا جا کے مانگیں دعائیں
مزاروں پہ دن رات منتیں چڑھائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
رسول اللہۖ نے غزوہ خیبرکے موقع پر یہودیہ حضرت صفیہ سے خلوت کی خوشی میں کھانا کھلایا تو ایک صحابی نے دوسرے سے پوچھا کہ نکاح ہے یا ملک یمین کا تعلق ہے؟۔ دوسرے نے جواب دیا کہ اگر پردہ کروایا تو نکاح ہے ورنہ تو ملک یمین کا تعلق ہوگا۔ پھر اسلام قبول کیا تھا لیکن رسول اللہ ۖ نے قرآن کے حلال کے مطابق خود عمل کیا تھا۔ ہمارا منافق مذہبی طبقہ سمجھتا ہے کہ اگر کسی بڑے عالم یا پیر نے قرآن کے حلال پر عمل کیا تو اسلام زمین بوس ہوجائیگا۔ اسلام نہیں وہ منافقانہ کردار زمین بوس ہو گا جو پیر و ملا کیلئے عوام الناس سے الگ معیاربنایا۔ نبیۖ نے6سالہ بچی سے نکاح اور9سالہ بچی سے شادی نہیں کی۔ تم اپنی بچی کی کرواکے دکھا دو۔ نابالغ بچیوں کے جو فتوے مفتی تقی عثمانی نے شائع کئے،ان کی وجہ سے حکومت پر حیرت کہ دارالعلوم کراچی پر پابندی کیوں نہیں لگائی؟۔ چھوٹا مولوی نکاح پڑھادیتا ہے تو پھرحکومت فوری طور پر ایکشن لے لیتی ہے۔
نمبر3:آل عمران کی آیت64میں تیسری بات یہ ہے کہ ” ہم ایکدوسرے میں بعض کو بعض اللہ کے علاوہ ارباب نہیں بنائیںگے”۔ یہودی نے اسلام قبول کیا تو نبی ۖ سے سوال کیا: اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربا بًا من دون اللہ ہم اپنے علماء ومشائخ کورب نہیں بناتے تھے۔پوچھا کہ کیا تم انکے حلال کردہ کو حلال اور حرام کو حرام نہیں سمجھتے تھے؟”۔ نومسلم صحابی نے عرض کیا کہ” یہ تو ہم کرتے تھے”۔ نبی ۖنے فرمایا کہ” یہی تورب بنانا ہے”۔
دارالعلوم کراچی نے شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین کو سود قرار دیا مگرپھر اکلوتے مفتی تقی عثمانی نے سودی نظام کو حلال قرار دینے کی جسارت کی۔ آج پوری دنیا میں سب سے بڑا ظالمانہ نظام سودی بینکاری نظام ہے اور مزے کی بات ہے کہ آج کے یہودی علماء اور مذہبی طبقہ اپنے مذہب میں سود کو ناجائز اور حرام قرار دیتا ہے۔ عیسائی پادری اور مذہبی طبقہ بھی حرمت اور ناجائز ہونے کا فتویٰ دیتا ہے اسلئے کہ تورات اور انجیل میں سود کی حرمت بالکل واضح ہے۔ مسلمان علماء اور مذہبی طبقے کی اکثریت سودی بینکاری کو حرام و ناجائز کہتی ہے لیکن مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے اس کوحیلے سے حلال قرار دیا ۔ جس کی وجہ سے آج ہمارامذہبی طبقہ یہود کے مذہبی طبقہ سے بہت آگے نکل چکا۔ حافظ سید عاصم منیر آرمی چیف علماء و مفتیان کو اس مسئلے پر بھیGHQمیں طلب کریں اور حقائق معلوم کریں۔کیا اپنوں نے یہ ارباب کا درجہ نہیں دیا ہے؟۔
دھوکہ باز ، دین فروش، درباری علماء سوء تو مختلف ادوار میں موجود رہے ہیں اور ان کی وجہ سے اسلام اجنبیت کا شکار ہوتا چلا گیا اور انکے سامنے علماء حق نے مختلف ادوار میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔ ہم علماء سوء اور دین فروش طبقے کی بات نہیں کرتے بلکہ مجاہد ، سرفروشان اسلام اور علماء حق کی بات کرتے ہیں۔ جن میں اخلاص اور حق کیلئے جدوجہد کا بڑاجذبہ ہے لیکن وہ عین دین کو بے دینی اور بے دینی کو دین سمجھنے لگے ہیں۔ معروف انکے نزدیک منکر ، منکر معروف بن گیا۔ جو لاٹھی کو سانپ اور سانپ کو لاٹھی سمجھتے ہیں۔ ہمارے ساتھیوں نے زندگیاں وقف کرکے قربانیوں کی تاریخ رقم کردی۔شرافت علی ،عارف وارشاد بوجھانی، عبدالمالک،اصغر علی ونوشاد صدیقی،چاچا اسرار،عبدالقدوس بلوچ، غلام محمد ، کریم بخش و اشفاق صدیقی حنیف عباسی اور کئی سارے خلوص کے پروانے اور حوصلے کی چٹانیں دنیا سے چلے گئے اور کئی اس راہ میں منتظر بیٹھے ہیں۔
من المؤمنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلًا”مؤمنوں میں سے کچھ ایسے( ہمت والے ) مرد ہیں جنہوں نے اس عہد کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ سے کیا پس ان میں سے بعض اپنی نذر پوری کرکے اللہ کے ہاں پہنچ چکے اور بعض انتظار میں ہیں اور انہوں نے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی”۔ (الاحزاب:23)
کچھ ایسے علماء سوء ہیں جو عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کی کھلے عام رنگ رلیوں کو دین کا عین تقاضا قرار دیتے اور مخالف فضامیں مرتد اور واجب القتل کا فتویٰ جاری کرسکتے ہیں۔ ہمارا ہدف ایسے مفتی صاحبان نہیں بلکہ جب اللہ نے اہل کتاب کی عورت سے نکاح کی اجازت دی اور یہ دینداری کی وجہ سے انکار کرتے ہیں ایمان کے بعد اس کفر کا پردہ چاک کرنا ہمارا ہدف ہے۔ جس سے مسلمانوں میں مثالی اعتدال آسکتا ہے۔ اسلام سمجھ کر حلالہ کے مرتکب مفتیوں سے دنیا میں بڑی بے غیرتی نہیں ۔جس کا مسلسل ارتکاب ہورہاہے۔
اسلام کی درست تصویر کیلئے محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمن،لشکری رئیسانی شاہد خاقان عباسی، مصطفی نواز کھوکھر، آرمی چیف عاصم منیر ، عبدالمالک بلوچ، سراج الحق، بلاول بھٹو اور نوازشریف سب کو اپنی اپنی خدمات پیش کرنا ہوں گی ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے

یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے

شاعرہ : پروفیسر شبنم شکیل
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے
جو راہِ غم میں ہیں چپ چاپ سر جھکائے ہوئے
زمین شوق سے سو بار چومتی ہے جنہیں
سفید پوش ہیں جو خون میں نہائے ہوئے
وہ راز کیا ہے کہ جس کے امین ہیں یہ لوگ
کہ زخم کھاکے بھی زخموں کو ہیں چھپائے ہوئے
جو اِن کے ساتھ ہے ہرپل وہ روشنی کیا ہے
کہ موجِ خوںمیں بھی چہرے ہیں جگمگائے ہوئے
ملا ہے اِن کو یقینا کوئی مقام بلند
کہ گھر لٹاکے بھی چلتے ہیں سر اُٹھائے ہوئے
گِنو تو کم ہیں جو سمجھو تو انگنت ہیں یہ
کہ دو جہاں کی ہیں وسعتوں پے چھائے ہوئے
یہی تو لوگ ہیں مقبولِ بارگاہِ رسولۖ
یہی ہیں ربِ دو عالم کے آزمائے ہوئے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

وسائل سے مالامال پختونخواہ کے حالات کیوں ٹھیک نہیں ہوتے؟۔ جو پاکستان کی تقدیرکو بدل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اسد محمود

وسائل سے مالامال پختونخواہ کے حالات کیوں ٹھیک نہیں ہوتے؟۔ جو پاکستان کی تقدیرکو بدل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اسد محمود

ڈاکٹر اسد محمود نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی کچھ معلومات شیئر کروں گا۔ کرک سے گذشتہ سال85لاکھ43ہزار بیرل تیل نکالا گیا۔ سوات میں بہترین زمرد کے70ہزار قیراط ہیں۔220قیراط کی قیمت4ہزار سے6ہزار ڈالر تک۔ امسال خیبر سے40ٹن فلورائیٹ برآمد ہوا ۔11ماہ میں کرک سے65ہزار ملینMCFگیس برآمد ۔ مہمند میںامسال1935ٹن نیفرائٹ برآمد ۔ مالا کنڈ میں200ملین ٹن، صوابی بلاک میں100ملین ٹن ماربل ۔ مہمند ایجنسی سے13لاکھ60ہزار ٹن برآمد ۔ چترال، جنوبی وزیرستان میں سالانہ6لاکھ40ہزار کلو چلغوزہ فی کلو قیمت چین میں18ہزار روپیہ۔ کوہاٹ ٹنل سے روزانہ30سے35ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں اور ہر گاڑی کا ٹول ٹیکس80سے450روپے ہے جس کا کنٹرول فوجی کمپنیNLCکے پاس ہے۔ پختونخواہ ڈھاکا سے روزانہ5ہزار ٹن کوئلہ برآمد ۔ آدم خیل سے ہر سال3لاکھ50ہزار ٹن کوئلہ نکلتا ہے۔اس وقت پختوانخواہ میں33ہزار بارودی سرنگیں ہیں۔
بونیر اور مردان میں2ارب ٹن ماربل اور چترال میں1ارب ٹن ماربل ہے۔ صرف کورمہ میں20لاکھ ٹن کوئلہ ہے اور ساتھ گیس اور اچھا ماربل بھی ہے۔ بالائی وزیرستان کے پیرغر میں سونے اور تانبے کی بہت بڑی مقدار ہے۔ گومل کے پہاڑوں میں کوئلہ کا بڑا ذخیرہ ہے۔ باجوڑ میں ہر سال85ہزار ٹن ماربل اور15سو50ٹن کرومائیٹ برآمد ۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں7سو کروڑ کے جواہرات ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہیں۔ عرب ممالک میں ہر10میں سے تیل کا1کنواں کامیاب ہوتا ہے اور وزیرستان میں ہر تیسرا کنواں کامیاب ہوتا ہے ۔ میرانشاہ میں اتنا زیادہ تیل ہے جو پاکستان کی40سال کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں36ہزار ملین ٹن تانبہ ہے اور ایک ٹن تانبہ کی قیمت7ہزار ڈالر ہے۔ تربیلا ڈیم سے4ہزار سے لیکر5ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے جو250بڑی فیکٹریوں میں استعمال ہوتی ہے۔ تربیلا سے پختونخواہ اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔ بیٹنی کی آئل فیلڈ سے ایک ہزار سے3ہزار بیرل تیل اور1سے5ملین مکعب فٹ گیس برآمد کی جاتی ہے۔ مالاکنڈ کے دریاؤں سے30ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جس کی قیمت1سے2روپے بنتی ہے۔ وزیرستان میں شوہ سے ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کی گیس نکالی جاتی ہے کنٹرول فوجی کمپنی کے پاس ہے۔ سیاحت کے جنگلات اور بہت ساری دوسری چیزیں ہونے کے باوجود مظلوم کون ہے؟، پختونخواہ اور بلوچستان۔ سوال یہ بنتا ہے کہ یہ نا انصافی کہاں تک جائے گی؟۔ آخر کون ہے جو اتنے ذخائر اور معدنی وسائل کو لوٹ رہا ہے؟ یا کیئر نہیں کی جاتی؟۔ اگر ہم صحیح طریقے سے استعمال کرسکتے تو ہم دنیا کو بھیک دینے والے ہوتے نہ کہ کشکول لیکر ہم دنیا سے…

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سالانہ زکوٰة2.50%میں حیلہ؟ اور روپیہ میں4%فرق؟ ہمارا مشورہ مانو، ڈالر پھوٹی کوڑی کا ہوجائے گا انشاء اللہ تعالیٰ

سالانہ زکوٰة2.50%میں حیلہ؟ اور روپیہ میں4%فرق؟ ہمارا مشورہ مانو، ڈالر پھوٹی کوڑی کا ہوجائے گا انشاء اللہ تعالیٰ

مذہبی اور حکمران ٹولے کی چالاک یاںیا حماقتیں؟

مسئلہ نمبر1:” سال سے ایک دن پہلے مال بیوی کو ہبہ کر و، زکوٰة فرض نہ ہوگی”۔
مسئلہ نمبر2:” بادشاہ قتل، زنا اور چوری کرے تو سزا نہیں ہوگی”۔ فتاوی عالمگیری
سال میں2.5فیصد زکوٰة سے بچنے کا حیلہ مفتی کرتا تھا۔آج بھی مفتی زندہ ہے کل بھی مفتی زندہ تھا ۔ پھر روپیہ میں4فیصد کا فرق احمقوں نے کیسے رکھا تھا؟۔
اشرف میمن لوگ چونی اٹھنی کھلا کرکے چیز خریدتے۔ پیسہ دوپیسہ منافع بچاتے ۔
روپے کی قدر وقیمت اور تاریخ یکم جنوری سن1961سے قبل یوں تھی کہ
16آنے1روپیہ۔ روپیہ میں16آنے،32ٹکے،64پیسے،128دھیلے ،192پائیاں،264دمڑیاں،2640کوڑی،7920پھوٹی کوڑی تھے۔ پھوٹی کوڑی مغل دورکی کرنسی تھی۔ انگریز کی پالیسی خطرناک تھی۔وزیرستان کے تیل وگیس سے40سال پاکستان چلے گا۔ عوام کو مفت دینا شروع کردیا تو ڈالر پھوٹی کوڑی ہوگا ۔ مہنگے گیس ، پیٹرول ،بجلی نے ریاست، روپیہ ،عوام کو تباہ کردیا۔ نبیۖ نے مزارعت کیلئے مفت زمینیں دیں،تو خلفاء راشدیننے دنیا فتح کی۔ آنے والا دور جدید ٹیکنالوجی کا ہے جس میں پیٹرول وگیس اور بجلی کی ویسے کوئی قیمت نہیں ہوگی ۔انشاء اللہ۔ پاکستان نے آغاز کردیا تو دنیا کی امامت کرے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے مفتی تقی عثمانی کے اسلامی بینکاری کیپٹل ازم تک

ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے مفتی تقی عثمانی کے اسلامی بینکاری کیپٹل ازم تک

ذوالفقار علی بھٹو ایک جاگیردار تھا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے خلیفہ حضرت شاہ عنایت شہید نے سندھی جملے سے کہ ”جو فصل بوئے گا وہی کاٹے گا”تحریک کا آغاز کیا تھا ۔ اگر وہ تحریک کامیاب ہوجاتی تھی تو برصغیر پاک وہند سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز اس وقت سے ہوجاتا۔ پھر دنیا میں کارل مارکس کوایک نیا معاشی نظریہ سوشلزم اور کمیونزم ایجاد کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ جس کو لینن نے سویت یونین میں عملی جامہ پہنایا تھا اور جس سے پوری دنیا کے سودی نظام کو خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ برصغیر پاک وہند میں انگریز کے خلاف دیوبندی اور بریلوی علماء ومشائخ نے مالٹا اور کالا پانی میں جیلوں کی سزا کاٹی تھی۔ مولانا جعفر تھا نیسری اور مولانا فضل الحق خیرآبادی وغیرہ نے کالے پانی کی سزا بھگت لی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا عزیرگل، مولانا حسین احمد مدنی نے مالٹا کی قید کاٹی تھی۔1920میں اسیرانِ مالٹا آزاد ہوئے تو شیخ الہند کا اسی سال انتقال ہوا۔1921میں مولانا حسین احمد مدنی نے فتویٰ جاری کیا کہ انگریز کی فوج میں بھرتی ہونا جائز نہیں ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نے مولانا حسین احمد مدنی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ اشعار کہے تھے ۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے کہ
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
کیا غم ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
جب مولانا حسین احمد مدنی نے انگریز کی عدالت سے معافی مانگنے کے بجائے اپنے فتوے پر ڈٹ گئے تو ان اشعار کے واقعی وہ بڑے مستحق تھے۔ اس وقت انہوں نے ہندو مسلم فسادات کو روکنے کیلئے اور انگریز کو برصغیر پاک وہند سے بھگانے کیلئے فتویٰ دیا تھا کہ ”ہندوستانی ایک قوم ہیں”۔ سر علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ ”دیوبند سے حسین احمد کہتا ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے ،مذہب سے نہیں تو کیا بولہبی ہے؟”۔ علامہ اقبال نے بھی کیمونزم کو سپورٹ کرنے کیلئے اپنی غزل ” فرشتوں کا گیت” لکھ دیا تھا۔ جس میں کھل کر کمیونزم کی تائید تھی۔
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو!
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو!
محمد علی جوہر کے اخبار کا نام کامریڈ تھا اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار کانام زمیندار تھا۔تاج برطانیہ اور امریکہ ویورپ کے سودی نظام کو شکست دینے کیلئے دنیا بھر میں کمیونزم کا ولولہ موجود تھا۔ انگریز نے جب تقسیم ہند کا فیصلہ کیا تو روس کو روکنا اس کے پیشِ نظر تھا۔ افغانستان آزاد ملک تھا اور جرمنی اور روس کے مقابلہ میں انگریز سے نفرت رکھتا تھا۔ انگریز آئے روز افغانستان کے خلاف سازشوں کے جال بچھاتا تھا۔ امیر امان اللہ خان کی حکومت بھی انگریزی سازش کا شکار بنی اور اس کیلئے ملاشور بازار اور شیر آغا جیسے لوگوں نے علماء ومشائخ کی قیادت کی۔
پنجاب میں آزادی سے پہلے مسلم لیگ کی نہیںمخلوط حکومت تھی۔ سندھ میں مسلم لیگ کو پانچ ارکان میں3یعنی ایک ووٹ کی برتری حاصل تھی۔ بلوچستان ایک الگ ریاست تھی۔ سوات ، بہالپور اور جوناگڑھ وغیرہ بہت ساری ریاستیں خود مختار لیکن انگریز کی طفیلی تھیں۔ پختونخواہ میں کانگریس کے غفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان کی حکومت تھی۔ مغربی پاکستان سندھ کے ایک ووٹ کی برتری سے بن گیا۔ اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ کا یہی فیصلہ تھا ورنہ پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔ پختونخواہ کی حکومت کو توڑ کر زبردستی سے بدنام زمانہ ریفرینڈم کرایا گیا تھا۔
بنوامیہ کے ابوسفیان اور امیر معاویہ نے فتح مکہ سے پہلے اسلام کے خلاف جنگیں لڑی تھیں لیکن پھر خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ کا قبضہ ہوگیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جو مروان کے پوتے تھے ،پھر اسلام کی روح کو زندہ کردیا تھا۔
پاکستان کی آزادی سے پہلے جن عدالتوں، فوج، پولیس، سول بیوروکریسی اور انگریز کے ٹاؤٹ نوابوں ، خانوں، گدی نشین پیروں اور مدارس کے علماء کے خلاف آزادی کے مجاہدین جنگ لڑرہے تھے ، آزادی کے بعد وہی انگریز کے ملازم اقتدار میں آگئے۔ پہلے دو آرمی چیف بھی انگریز تھے۔ جنرل ایوب خان بھی ان کی باقیات تھے لیکن مقامی ملازم تھے۔ جنرل ایوب نے فیلڈ مارشل کی حیثیت سے ملک کے صدارتی نظام کا انتخاب لڑا تھا اور فاطمہ جناح کو مقابلے میں غدار قرار دیا تھا۔ جنرل ایوب کی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو نکل آیا۔ بھٹو نے کمیونزم اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا۔ مولانا احمد علی لاہوری کی امارت میں جس جمعیت علماء اسلام نے سیاست کا آغاز کیا تھا وہ مولانا حسین احمد مدنی کی فکر سے تعلق رکھتے تھے۔مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا مفتی محمود اور ملک بھر کے بڑے بڑے مفتیان کرام اور شیخ الحدیثوں پر جمعیت علماء اسلام کی وجہ سے1970میں مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع، مولانا احتشام الحق تھانوی، مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مفتی تقی عثمانی وغیرہ سینکڑوں علماء ومفتیان نے کفر کا فتویٰ اس بنیاد پر لگادیا کہ اسلامی سوشلزم پر فتویٰ لگائیں؟۔ جماعت اسلامی بھی اس میں پیش پیش تھی۔ البتہ ان کی حیثیت فتویٰ لگانے کی نہیں تھی۔
مولانا غلام غوث ہزاروی مرد درویش تھا،جب ا س نے بھانپ لیا کہ مفتی محمود اور جمعیت کو رجعت پسند طبقہ اپنے مفادات کیلئے بھٹو کے خلاف استعمال کر رہا ہے تو قومی اتحاد کی جگہ انہوں نے بھٹو کا ساتھ دیا۔ پھر مفتی محمود نے آخر میں محسوس کیا تو جنرل ضیاء الحق کے مقابلے میں نصرت بھٹو کیساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک چلانے کا عزم کیا لیکن ان کو پان میں زہر دیکر شہید کیا گیا۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے اپنے باپ کے مشن پرMRDکا ساتھ دیا اور نام نہاد زکوٰة کو آب زم زم کے لیبل میں شراب قرار دے دیا۔ اب مولانا فضل الرحمن، نوازشریف، جماعت اسلامی اور مفتی تقی عثمانی نے سودی نظام کو مشرف بہ اسلام قرار دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔ مفتی محمود قومی اتحاد میں تحریک نظام مصطفی ۖ کے نام پر استعمال ہوا تھا اور فرزند ارجمند مولانا فضل الرحمنPDMکے سربراہ کی حیثیت سے پھر استعمال ہورہاہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ نوازشریف کو جیل سے لندن بھجوانے میں اسٹیبلشمنٹ نے مدد کی ۔ ہم نے پہلے مولانا فضل الرحمن کو استعمال ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اب اللہ کرے کہ آرمی چیف بنوامیہ میں عمر بن عبدالعزیز کے کردار کو زندہ کریں۔ مفتی اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے سود کو اسلامی قرار دیا جو اللہ اور اسکے رسول ۖ سے اعلان جنگ ہے تو رہ کیا گیا؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی تقی عثمانی کا اسلامی معاشی نظام پر خودکش حملہ

مفتی تقی عثمانی کا اسلامی معاشی نظام پر خودکش حملہ

قرآن وسنت کے مقابلہ میںغلط اجتہاد سے بیڑہ غرق ہوا۔سودی بینکاری اسلام پر خود کش حملہ تھا۔
نبیۖ کے بعد صحابہ نے خود کو فتنے میں مبتلاء پایا۔ انصارصحابہ نے خلافت کیلئے محفل سجائی اور حضرت ابوبکر و عمر کے بعد عثمان کی شہادت پرحضرت علی وعائشہ کی جنگ پھر خلافت پر امارت کا قبضہ، یزیدکی بدمعاشی،پھر فقہاء کے مسائل پر تضادات کی بھرمار، قرآنی تفسیرمیں انتہائی گڑبڑاور احادیث کااختلاف ، من گھڑت فرائض ، بے دھڑک فرقے۔ قرآن وسنت سے دُوری۔اسلام اور اقتدار دونوں کا ستیا ناس
رسول اللہ ۖ پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ سورۂ مجادلہ میں عورت کے حق میں وحی نازل ہوئی۔ بدر ی قیدیوں پر اکثریت کے مشورے پر نبی ۖ نے فیصلہ کیاتھا اور حضرت عمر و حضرت سعد کے حق میں وحی نازل ہوئی۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ رسول اللہ ۖ نے اپنی صوابدید پر کیا ،اللہ نے فتح مبین قرار دیا اور جس بوجھ نے آپ کی کمر دہری کررکھی تھی ،اللہ نے اگلا پچھلا بوجھ ہلکا کردیا۔ انا فتحنا لک فتحًا مبینًالیغفراللہ ماتقدم من ذنبک وماتأخر منہ ” بیشک ہم نے آپ کو فتح عطاء کی ہے کھلی فتح۔تاکہ آپ سے آپ کا اگلااورپچھلا بوجھ ہلکا کردے”۔ الم نشرح لک صدرک ووضعنا عن وزرک الذی انقض ظھر ک ”کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھولا ؟اور آپ سے وہ بوجھ نہیں ہٹایا جس نے آپ کی کمر توڑ رکھی تھی؟”۔ مفتی تقی عثمانی و مفتی عبدالرحیم کے گناہ گنوائے جاسکتے ہیں جو انہوں نے ماضی میں کئے اور مستقبل میں جاری ہیں لیکن ان سے کوئی کہے کہ ” اللہ تمہارے اگلے پچھلے گناہ معاف کرے” تو ان کے معتقدین برا منائیں گے کہ یہ اللہ کے ولی محفوظ ہیں پھرمعصوم نبیۖ کی طرف گناہ کی نسبت قرآن کا ترجمہ قرار دینے سے بڑھ کر گمراہی کے دلدل میں یہ امت کیسے پھنس سکتی ہے؟۔
صحابی نے خواب دیکھا کہ آسمان سے ترازو اترتا ہے ۔ نبی ۖ اوردوسرا پلڑا برابر ہوتے ہیں۔ پھر حضرت ابوبکر کے مقابلے میں دوسرا پلڑا ہلکا ہوجاتا ہے۔ پھر حضرت عمر کے مقابلے دوسرا پلڑا مزید ہلکا ہوجاتا ہے۔ پھر ترازو آسمان پر اٹھالیا جاتا ہے۔نبیۖ نے یہ تعبیر فرمائی کہ آسمانی اقتدار ابوبکروعمر ہی تک رہے گا۔ نبیۖ کو رضا کارانہ عشرو زکوٰة ملتا تھا اور کسی نے انکار کیا تو اسکے خلاف قتال نہ کیا۔ حضرت ابوبکر نے زکوٰة دینے سے انکار پر قتال کیا۔سردارِ انصار سعد بن عبادہ کو حضرت عمر کے دور میںجنات نے قتل کیا؟۔ حضرت عمر کے قتل کے بعد قاتل نے خود کشی کی۔ عبیداللہ بن عمر نے قاتل کی بیٹی سمیت تین افراد کو قتل کیا۔ حضرت عثمان نے مشاورت کی تو حضرت علی نے کہا کہ قصاص میں قتل کرو۔ عمرو بن عاص کے کہنے پر حکومت نے دیت دی ،پھر حضرت عثمان گھر میںشہید کئے گئے پھر حضرت علی کی شہادت کے بعد حسننے امیرمعاویہ سے صلح اور یزید کے خلاف حسیننے قیام کیا۔ عمر بن عبدالعزیزاور حجاج کی طرح انفرادی اچھے برے آئے۔ اقتدار کی رسی آمریت اوربادشاہت کے بعد جبری دورِ حکومت تک جاپہنچی ہے۔اقتدار کی امانت البیعة للہ ” بکنا صرف اللہ کیلئے ہے”کے سپرد کرینگے تو مشکلات ختم ہوں گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

()

See more:
https://zarbehaq.com/islam-o-iqtidar-jurwa-bhai-hain//

کیا پاکستان، ایران اور افغانستان میں اسلامی نظام سے استحکام آئے گا؟

کیا پاکستان، ایران اور افغانستان میں اسلامی نظام سے استحکام آئے گا؟

رسول اللہ ۖ نے ریاست مدینہ میں معاشی، معاشرتی اور امن وامان کیلئے اعلیٰ ترین اقدار سے کام لیا اور اندرون وبیرون سے استحکام بخشا تھا

پاکستان، ایران اور افغانستان اس پر عمل کرکے پوری دنیا میں اسلامی نظام خلافت کے قیام کا راستہ ہی ہموار نہیں کرسکتے بلکہ عملی جامہ پہناسکتے ہیں!

مرد طاقتور اور عورت کمزور ہے۔ جائز اور ناجائز تعلق میں کمزوری کا نتیجہ عورت بھگتی ہے۔ جو عورت دنیا میں اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتی ہے یہ اسلام، فطرت اور انسانیت کا تقاضہ ہے۔ یہود ونصاریٰ افراط اور تفریط کا شکار تھے۔ یہود طلاق کو مرد کا کھیل سمجھتے تھے اور عیسائیوں میں طلاق کا تصور ختم تھا۔ مغرب نے مذہب کو خیرباد کہہ کر نکاح و طلاق کے اپنے قوانین ایجاد کرلئے۔ جن میں بہت ساری خامیاں ہیں۔ اسلام کا کمال ہے کہ مرد کو بالادست قراردیا اور عورت کو کمزور۔ لیکن شوہر کو طلاق اور بیوی کوخلع کا حق دیا۔ طلاق و خلع میں عورت کو مالی تحفظ دیا۔ علماء نے آیت229البقرہ اور230کا درست مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے سورۂ النساء آیت19اور20،21میں بھی خلع وطلاق کا مفہوم بگاڑ دیا ۔
آیت229البقرہ میں2یا3مرتبہ طلاق کے بعد خلع نہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے اسکو مشکل ترین قرار دیا مگر مولانا مودودی اور جاوید احمدغامدی نے بھی مغالطے کی وجہ سے اسکا مفہوم مزید سلیس انداز میں یونہی بگاڑ دیا۔ آیت229البقرہ میں عدت کے تین مراحل ، تین مرتبہ طلاق کے بعد عورت کامالی تحفظ ہے اور انہوں نے اس آیت میںخلع کے غلط تصور سے عورت کو بلیک میل کرنے کا شرعی حربہ شوہرکوہاتھ میں دے دیا۔ شیعہ سنی یہ معمہ حل کرنے پر رضامند ہوں تو اپنے چودہ سوسالہ تہہ در تہہ اختلافات کو ازسرنو حل کرنے پر زبردست توجہ دیں گے۔ قرآن سے فقہی مسالک ملیا میٹ ہوںگے تو بد دلی بھی نہیں پھیلے گی۔
عورت کو خلع اور مرد کو شرعی طلاق کا حق مل جائے اور عورت کومالی تحفظ بھی مل جائے تو ان گنت لایعنی فقہی مسائل پر ہنسی آئیگی۔ امام تفسیرصاحب کشاف جاراللہ زمحشرینے اپنی کتاب ”ربیع الابرار” میں لکھا کہ ” صحابہ مدینہ میں فارس سے خلافت عمر میں لوٹ آئے تو انکے پاس3 یزد گرد کی بیٹیاں تھیں۔ عمر نے انکے فروخت کا حکم دیا تو علی نے کہا :بادشاہوں کی بیٹیوں سے بازاری کی طرح معاملہ نہیں کیا جاتا۔عمر نے کہا : کیاکیا جائے؟۔ علی نے کہا: ایک عبداللہ بن عمر، دوسری حسین ، تیسری لے پالک محمد بن ابی بکر صدیق کو دیتے ہیں۔ایک لونڈی سے سالم بن عبداللہ بن عمر، دوسری سے زین العابدین بن حسین اور تیسری سے قاسم بن محمد پیدا ہوئے ،یہ تینوں خالہ زادتھے اور مائیں یزدگرد کی بیٹیاں تھیں”۔
دنیا خلافت سے اسلئے ڈرتی ہے کہ فتح کے بعد ایرانی بادشاہ کی بیٹیاں لونڈی بن کر ابوبکر، عمر اور علی کے بیٹوں کو ملیں۔پھر امریکہ و مغرب کبھی خلیفہ بننے دیںگے؟۔ رسول اللہ ۖ نے غزوہ بدر میں کسی کو غلام ولونڈی بنایا اور نہ فتح مکہ کے موقع پر کسی کو غلام اور لونڈیاں بنایااور نہ ہی جبر سے مدینہ میں اقتدار قائم کیا۔
قرآن میں قیدی کیلئے صرف دو حکم ہیں ۔ احسان سے چھوڑنا اورفدیہ لیکر چھوڑ نا۔ ابھی نندن کو قرآن کے حکم کے مطابق احسان کرکے چھوڑ دیا۔ فدیہ لیکر بھی چھوڑا جاسکتا تھا ۔ جنگی قیدی کو قتل کرنا، غلام یا لونڈی بنانا، اس کو کسی اور کے ہاتھ بیچ دینایا عمر بھر کیلئے قید کرنا قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے۔ آج کی مہذب دنیا بھی قرآنی تعلیمات کو ہی قبول کرے گی لیکن مسلمانوں نے خود اللہ کی کتاب کو چھوڑ رکھا ہے۔ مسلمان قرآن کی طرف رجوع نہ کرتے لیکن آخر کار سودی نظام کو بھی اسلامی قراردیا جا رہاہے۔جاہلیت میں جنگی قیدیوں کو غلام بنانا ممکن نہیں تھا اور بردہ فروشی اور ڈکیتی کے ذریعے بچوں اور عورتوں کو غلام و لونڈی بنانا غیر اخلاقی حرکت تھی۔ غلام ولونڈی بنانے کے تین طریقے تھے۔ مزارعت کے ذریعے۔ بردہ فروشی اور غنڈی گردی سے اور قوموں کو فتح کرنے کے بعد۔ قرآن میں ہے کہ آل فرعون بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل اور خواتین کی عزتیں لوٹتے تھے۔ قرآن نے سود اور مزارعت کا تصور ختم کردیا تھا۔ سود سے آج ملک غلام بنتے ہیں ۔ مزارعت خاندانی غلام اور لونڈیاں بنانے کا ذریعہ تھا۔ بلال خاندانی غلام تھے۔ زید بردہ فروشی سے غلام بنے اور خباببنی تمیم کوبچپن میںڈکیتوں نے غلام بنایا تھا۔ مردوں کو قتل، عورتوں اور بچوں کو بیچ ڈالا۔ خباب پر ظلم کی داستان دیکھ کر شیعہ زین العابدین کی طرح ان سے بھی محبت کریں گے اور یہ احساس بھی ہوجائیگا کہ صحابہ کرام سے اہلسنت کیوں محبت کرتے ہیں؟۔
پاکستان ، افغانستان اورایران عورت کے حقوق بحال کریں۔سودی نظام اور مزارعت کوختم کردیں ۔ زمینوں کو مفت کاشت اورپہاڑوں کوباغات کیلئے کئی سال لیز پر دیں تو ترقی ہوگی۔ اسلام کا معاشی اور معاشرتی نظام قائم ہوگا تو حکمرانوں کو استحکام ملے گا۔ قرآن میں زناپر100اور بہتان پر80کوڑے ہیں۔لعان میں عورت کی گواہی پر عذاب ٹلتا ہے اور زنا بالجبر پر قرآن میں قتل اور حدیث میںسنگساری کی سزا ہے۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے واقعہ پرفقہی قانون سازی اور اختلافات کو زیربحث لانے اور مشاورت کی ضرورت ہے۔ درسِ نظامی میں قرآن وسنت کا تحفظ ہے لیکن حماقت بھی انتہا ء کو پہنچی ہوئی ہے۔ مدارس کے علماء ومفتیان آنکھیں بند رکھیںگے تو آنے والے دنوں میں خود کش حملوں کا بھی شکار ہوسکتے ہیں اسلئے کہ جب حالات خراب سے خراب ہوںگے تو وہ بھی لپیٹ میں آسکتے ہیں ۔ قرآن وسنت اور اسلام کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ ریاست ، عدالت، سیاست اورصحافت کو ٹھیک راستے پر نہیں ڈالا تو پاکستان کے دن ختم اور یہاں بسنے والی قومیں بہت مشکل کا شکار ہو کر کہاں تک پہنچیں گی؟۔

مزید تفصیلات درج ذیل عنوان کے تحت دیکھیں۔
”ریاست، جمہوریت اور صحافت کے حقائق4+ارب ڈالر قرض ”
”جمہوریت کو بچانے کیلئے اپنے درمیان بدترین نفرتوں کا خاتمہ کرنا ہوگا! ”

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

واقعہ کربلا کو سمجھنے کیلئے آج کے شیعہ کوفی اور یزیدی سنی کا ایک آئینہ

واقعہ کربلا کو سمجھنے کیلئے آج کے شیعہ کوفی اور یزیدی سنی کا ایک آئینہ

جب قرآن کی حفاظت اور سورۂ نور کی روشنی کیخلاف آج کی مجلس میں شیعہ سنی بھیگی بلیاں بن جائیں تو کربلا کا واقعہ بھی سمجھ سکتے ہیں!

پنجابی خطیبوں پر پیسے نچھاور کرتے ہیں، اسلئے محفل لوٹنے کی کہاوت ہے، اگر پنجاب ہوتا تو مجلس لوٹنے کا قرعہ میرے ہی نام نکل آتا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
صحابہ کرام و اہل بیت عظام کے نام سے شیعہ سنی کے اختلافات مشہور ہیں، ان میں بنیادی اختلاف قرآن کے لفظی اور معنوی تحریف پرہے۔ دیوبندی مکتب کے قاضی عبدالکریم کلاچی نے اکوڑہ خٹک کے مفتی اعظم مفتی فرید کوخط لکھا کہ ”دارالعلوم دیوبند کے علامہ انور شاہ کشمیری کی ”فیض الباری شرح بخاری” میں ہے کہ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے مگر لفظی تحریف بھی ہوئی ہے یا تو جان بوجھ کر کی ہے یا مغالطے سے” ۔اس عبارت میں قرآن کی تحریف کی نسبت کفا.ر کی طرف نہیں ہوسکتی ۔ صحابہ کی طرف قرآن کی تحریف کی نسبت پر میرے پیروں سے زمین نکل گئی اور سر چکرا گیا ”۔ مفتی فرید نے جواب میں لکھا کہ ” فیض الباری علامہ انور شاہ کشمیری کی تقریر نقل کرنے والے نے لکھی ہے”۔

مفتی زر ولی خان نے مجھ سے بالمشافہہ ملاقات میں کہاتھا کہ علامہ انورشاہ کشمیری نے قرآن کی لفظی تحریف کی بات نہیں کہی۔ بیماری کی وجہ سے زیادہ بحث کرنامناسب نہیں تھااور آئندہ نشست کیلئے وقت مانگا تو فرمایا کہ ” چشم ما روشن دل ماشاد،علمی نکات پر بحث کیلئے جب چاہیں آئیں” ۔انکا چند دنوں بعد انتقال ہوا ۔ بریلوی علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں لکھا کہ ”دارالعلوم کراچی کورنگی سے شیخ انورشاہ کشمیری کا حوالہ دئیے بغیر فتویٰ لیا تو اس پر کفر. کا فتویٰ لگا دیا گیا ہے”۔ میں نے اپنی کتاب ”آتش فشاں” اور ” ابر رحمت ” وغیرہ کے علاوہ اپنے اخبار ضرب حق اور نوشتۂ دیوار میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھاہے اور علماء کرام سے اپنی گزارشات کی ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی جب اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے تو قصر ناز کراچی میں مولانا شیرانی، مولانا عطاء الرحمن اور قاری محمد عثمان سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی تھی۔

شیعہ پر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے بڑے مدارس نے کفر. کا فتویٰ لگایا ۔ مولانا محمد منظور نعمانی نے االاستفتاء میں تحریف قرآن کے عقیدے کا تفصیل سے ذکر کیا جس کا جواب جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نے دیا۔ جس پر بڑی تعداد میں مشہورمدارس کے تائیدی دستخط ہیں۔ سپاہ .صحابہ کے علماء اور جوانوں نے قربانیاں دیں۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید جمعیت علماء اسلام ف پنجاب کے نائب صوبائی امیر تھے۔جمعیت کے پلیٹ فارم سے شیعہ کا.فر کا نعرہ نہیں لگاتے تھے۔ متحدہ مجلس عمل کو شیعہ سنی اتحاد کی ضرورت پڑی تو جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اتحاد کا فتویٰ لکھنے والے مفتی شاہ فیصل برکی تھے جو ہمارے شہر کانیگرم شہر جنوبی وزیرستان کے ہیں۔ میں نے فتوے پراخبار میں تبصرہ کیا تھا اور اس پر مفتی شاہ فیصل برکی بات کرنے کیلئے میرے پاس کبیر پبلک اکیڈمی جٹہ قلعہ علاقہ گومل ضلع وتحصیل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تھے لیکن دو رنگی پر مجھے مطمئن کرنے کی کوشش میں وہ ناکام ہوئے تھے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارا سپاہ .صحابہ سے پھڈا ہواتھا تو انکے پیچھے دیگر علماء اور جماعتوں کا کردار تھا۔ سپاہ صحابہ والے نے پوچھا کہ شیعہ کا.فر ہیں یا نہیں؟۔ میں نے پوچھا، کیوں؟۔ اس نے کہا کہ وہ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں!۔ میں نے کہا کہ قرآن کی تحریف کا قائل سنی ہو تو وہ بھی کا.فر ہے۔ طے یہ ہوا کہ دیوبندی مکتب ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک کے اکابر علماء کی میٹنگ ہوگی ۔پھر ایسی فضاء بنادی گئی کہ حکومت نے مولانا عبدالرؤف امیر جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک اور سرپرست اعلیٰ مولانا فتح خان پر دوماہ تک ڈیرہ اسماعیل خان آمدپر پابندی لگادی اور16MPOکے تحت میری گرفتاری کا حکم جاری کردیا۔ یہ الگ داستان ہے اور پھر قاضی عبدالکریم کلاچی نے اپنے مولانا شیخ محمد شفیع کو خط لکھ دیا کہ ” جس شخص عتیق گیلانی کی آپ تحریری اور جلسۂ عام میں حمایت کرتے ہیں اسکے متعلق مہدی کی بات مسئلہ نہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امت کا اجماع ہے کہ شیعہ کا.فر ہیں اور اس اجماع کا یہ شخص قائل نہیں اور اجماع کا انکار گمراہی ہے۔ جمعیت علماء اسلام ف کے اکابر علماء اگر اس کی تائید کرتے ہیں تو یہ لوگ قادیانیوں کا بھی استقبال کریںگے۔ مجھے اپنے شاگرد ہونے کے ناطے آپ سے گلہ ہے۔ جس کے جواب میں شیخ مولانا محمدشفیع نے میری حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا لیکن جن پر قاد.یانیت کے استقبال کا فتویٰ لگایا وہ خط پر بھی فتوے کی طرح ”الجواب صحیح ” لکھ کر دستخط کرچکے تھے۔قاضی عبدالکریم کیخلاف میری حمایت میں مولانا عبدالرؤف نے لکھا کہ ” اپنی بھونڈی حرکتیں چھوڑ دو” اور پھر قاضی صاحب مولانا عبدالرؤف سے معافی مانگنے انکے پاس پہنچ گیاکہ ہمارایہ فتویٰ غلط تھا۔

میں نے جواب میں لکھ دیا تھا کہ ” آپ کے اپنے بھائی قاضی عبداللطیف ملی یکجہتی کونسل کے صوبائی امیر ہیں۔ جس کا شیعہ سے معاہدہ ہے کہ ایکدوسرے کی تکفیر نہیں کریںگے اسلئے پہلا نشانہ اپنا بھائی ہے اور حرم کے حدود میں کا.فر کا داخلہ ممنوع ہے اسلئے سعودی عرب کے حکمرانوں پر بھی یہ فتوی لگتاہے”۔

علامہ عابد حسین شاکری نے یہ وضاحت کی کہ ”ہم تحریف قرآن کے قائل نہیں اور جو تحریفِ قرآن کا قائل ہے وہ کا.فر ہے” ۔جب میں نے واضح کردیا کہ تم عام محفلوں میں کچھ مؤقف اور مدارس کے ماحول میں کچھ اور مؤقف پیش کرتے ہو۔مولانا سلیم اللہ خان کا حوالہ بھی دیااور درس نظامی میں اس سے زیادہ وضاحت کیساتھ قرآن کی تعریف میں تحریف کا عقیدہ پڑھایا جاتاہے جہاں ”المکتوب فی المصاحف سے مراد لکھی ہوئی کتاب نہیںبلکہ یہ نقش کلام ہے اور اس پر حلف بھی نہیں ہوتا المنقول عنہ نقلًا متواترًا سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جن میں خبراحاد اور خبر مشہور کی آیات ہیں اور بلاشبة سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ درست بات یہی ہے کہ بسم اللہ قرآن کا جزء ہے لیکن اس میں شبہ ہے”۔

ابن ماجہ میں ہے کہ رجم اور رضاعت کبیر کی دس آیات رسول اللہۖ کے وصال کے وقت بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔ بخاری میں ہے عبداللہ بن مسعود ناراض تھے کہ جمع قرآن میں ان کوکیوں شریک نہیں کیا گیا؟۔ حقائق کی روشنی میں جامع مسجد درویش صدر پشاور ، اہلحدیث ،قاری روح اللہ سابق صوبائی وزیر مذہبی اموراور مولانا نورالحق قادری سابق وفاقی وزیرمذہبی امور وغیرہ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ تحریف قرآن کے مسئلے پر اکٹھے ہوجائیں اور مجھے بھی دعوت دیںاور قرآن کے واضح احکام کی طرف رجوع کے مسئلے پر نشست رکھیں اور احکامِ قرآن کے واضح مسائل اور عظمت قرآن سے لوگوں کومتفقہ آگاہ کریں۔

شیعہ سنی اس پر الجھتے ہیں کہ کس نے امام حسین کیساتھ دھوکہ کیا اور کس نے امام حسین کو شہید کیا لیکن اس نشست سے شیعہ سنی نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کے حقائق کی روشنی میں طاغوت کے خلاف دونوں نے اکٹھا نہیں ہونا ہے بلکہ اپنے پیٹ اور اپنی جیب بھرنے سے ہی ان کا سروکار ہے اور بس!۔شیعہ سنی کے تمام شدت پسندوں کو یہ کھلا پیغام ہے کہ جذباتی پن کا نقصان دونوں طرف کے مخلص لوگوں اور بے گناہ عوام کو ہی پہنچتاہے۔ شیعہ اقلیت کی وجہ سے پاکستان کی سر زمین پر تقیہ اختیار کرتے ہیں اور سنی اکثریت کی وجہ سے بدمعاشی پر اترتے ہیں۔ بنوامیہ ، بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کے ادوار میں بھی یہ کھیل جاری رہاہے لیکن جب افہام وتفہیم سے مسائل حل ہوجائیںگے تو پاکستان کی سرزمین سے طرزِ نبوت کی خلافت کے قیام میں بالکل بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اور مجھے یقین ہے کہ شیعہ بھی دلائل کی بنیاد پر اپنے غلط عقائد سے دستبردار ہوں گے۔

اگر قرآن کانفرنس میں سنی شیعہ علماء میں تھوڑی سی بھی ایمانی غیرت ہوتی تو کھل کر میری حمایت کرتے لیکن جس طرح میڈیا میں میچ فکس ہوتے ہیں، اسی طرح علماء ومفتیان کی مجالس میں بھی میچ فکس ہوتے ہیں۔ قوم پرستوں پر قومی میڈیا میں غیر اعلانیہ پابندی ہے لیکن ان کوBBCاوروائس آف امریکہ پر بڑی کوریج ملتی ہے۔ ہم حقیقی اسلام اور انسانیت کے درست نظام کی بات کرتے ہیں اسلئے فیس بک بھی ہماری محنتوں پر پانی پھیرتا ہے ۔BBC، وائس آف امریکہ اور قومی میڈیا میں ہم پر غیراعلانیہ پابندی لگائی گئی ہے۔ یہی حال سبھی کا دِکھتاہے۔

شیعہ کوفی +یزیدی سنی
کوفے کا پشاور میں جب منظر دیکھا
کربلا کے آئینے میں تب شمر دیکھا
دربار میں حسین کا کٹا سر دیکھا
امام باڑے میں یزید کا خنجر دیکھا
ضربِ حق سے باطل کو کھنڈر دیکھا
رونق میں بھی فضا کو بنجر دیکھا
سورۂ نور سے شریروں کا ڈر دیکھا
خرقہ پوش ایک ایک گداگر دیکھا
بڑے بڑوں کو پسینے میں تر دیکھا
کھدڑوں کو اچھا نہ لگا کہ نر دیکھا
بھیڑ بھیڑئیے کا نکاح سرِمنبر دیکھا
لگڑ بھگوں میں دھاڑتا شیر ببر دیکھا
مردہ ضمیروں کا مندر دیکھا
سبطِ حسن کا بڑا جگر دیکھا
شیعہ سنی اکابر کا اللہ اکبر دیکھا
حسین سے عمرسعد کو معتبر دیکھا
قرآن اور راہِ حق سے مفر دیکھا
سنی شیعہ کو خلاف حق برابر دیکھا
قرآن سے کھلے عام ہجر دیکھا
پیٹ پوجا کا بس بڑا لنگر دیکھا
ایمان اسلام سے کھلا غدر دیکھا
فرقہ پرستوں کا پورا ٹبر دیکھا
رسول ۖ کو صادق مخبر دیکھا
آسماں تلے ائمہ مساجد کو بدتر دیکھا
فتنہ فروش خناس کا جبر دیکھا
مذہبی لباس میں زباں کا شر دیکھا
عوام کو حقائق سے بے خبر دیکھا
بھیس بدلے ابلیس کو مضطر دیکھا
ڈھینچو ڈھینچو کرتا ہوا خر دیکھا
دیوبند بریلی وہابی شیعہ لشکر دیکھا

اسلام کے نام پر مرغن کھانے اور لفافے وصول کرنے والے کچھ تو قربانی دے دیں۔

اسلام کے نام پر مرغن کھانے اور لفافے وصول کرنے والے کچھ تو قربانی دے دیں۔

جہادِ ہند کے خواہشمند قرآن کی واضح تعلیم کا ایک ائیرکنڈیشنل ہال میں ساتھ نہیں دے سکے تو کیا قتا.ل وجہا.د کیلئے اپنے آپ کو قربان کرنے کیلئے پیش کرنا اتنا آسان ہوگا؟۔ ذرا سوچئے تو سہی

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نازل کیا اور میزان کو بنایا۔ انسانیت میں میزان کی فطرت موجود ہے اور قرآن ومیزان کی باہمی مطابقت سے آج عالم انسانیت میں بہت بڑا اسلامی انقلاب برپا ہوسکتاہے!

پشاور کانفرنس میں شریک نہ ہوسکنے والے عالم دین پیر طریقت جے یوآئی کے رہنما نے شاہ وزیر کو بتایا کہ شاکری صاحب ایران کا پیسہ خود کھا جاتے ہیں اور ہمیںچند ہزار کا لفافہ تھماتے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
سنی وشیعہ مکاتبِ فکر حقیقت ہیں۔ محترم قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، مولانا نورالحق قادری ، علامہ عابد حسین شاکری و دیگرحضرات کی جرأت وہمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اس فورم پر شرکت شدت پسندی کے خلاف عدل واعتدال اور شرافت کی دلیل ہے ۔ یہ حضرات پشاوردارالخلافہ خیبرپختونخواہ کی مقدس زمین پر ہدایت کے ستارے ہیںاور انکے دَم سے امن وامان ہے لیکن
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

حسنات الابرار سیئات المقربین ”نیک لوگوں کی اچھائیاں مقربین کی برائیاں ہوتی ہیں”۔ مقرب لوگوں کو مخالفین کیساتھ شریکِ جرم تصورکیاجاتا ہے۔ اس مارا ماری کا علاج یہ نہیں ہے کہ اپنے اورپرائے عقائدونظریات کے جرائم پر پردہ ڈالا جائے بلکہ سب سے پہلے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا جائے اور دوسرے کو بھی اچھے انداز میں آئینہ دکھایا جائے۔ ان کمزوریوں کو اجاگر کرنے کے نتیجے میں نہ صرف اپنی اصلاح ہوگی بلکہ شدت پسندی کا خاتمہ بھی ہوسکے گا۔

میں نے اس کا نفرنس میں دو بنیادی نکات کو اٹھایا۔ ایک قرآن کی حفاظت اور دوسرا ہندو عورت کی گستاخی کے حوالے سے سورۂ نور کے ذریعے سے دنیا میں ازل سے ابد تک مساوات کا ایک اعلیٰ ترین اور سب کیلئے قابل قبول قانون۔ میں نے جو عرض کیا وہ اس شمارے میں وضاحت سے شامل ہے۔ میری تائید کی جگہ بھرپور مخالفت کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مقصود سلفی کو چاہیے تھا کہ اعلان کرتا کہ قرآن کی حفاظت کیخلاف اگر احادیث ہیں تو سب سے پہلے ہم اہلحدیث انکے انکار کرنے کااعلان کرتے ہیں۔ ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہیں تاکہ انکا پوسٹ مارٹم کیا جاتا۔منتظم احسان اللہ محسنی نے ہندو عورت کی مذمت کا اعلان کچھ اس انداز سے کیا کہ گویا میری وجہ سے یہ مجلس شریکِ جرم نہ بن جائے۔ دلیل کی بات کا جواب دلیل سے دینا چاہیے اور جب شیعہ پر اپنی مجالس میں غلط خوف قائم ہو تو وہ ائمہ اہل بیت پر کوئی درست مؤقف نہیں پیش کرسکتے ہیں۔ درویش مسجد کے مولانا نے قرآن کی حفاظت کے مسئلے کو کسی کی ذاتی تحقیق تک قابلِ گرفت نہیں سمجھا لیکن یہ ذاتی تحقیق کا مسئلہ نہیں۔ اس پر درسِ نظامی میں پڑھایا جانے والا قابلِ گرفت نصاب ہے۔ سورۂ نور کے ذریعے پہلے انقلاب آیا تھااور آج بھی طاغوتی نظام کا خاتمہ سورۂ نور کی مساوات کے نظام سے ہوگا لیکن اس کیلئے مردانہ جرأت وہمت اور پرزور انداز میں ابلاغِ عامہ ضروری ہے۔

اہل تشیع نے اپنے جامعہ شہید پشاور کی ویب سائٹ پر کانفرنس کی مجھ سمیت بہت سی تقاریر کو دینے میں عار محسوس کی۔ علامہ عابد حسین شاکری جرأت کا مظاہرہ کریں اور تمام تقاریر ویب سائٹ پر دیں۔ شیعہ سنی جراتمندانہ تقاریر یا تعصبات کا جائزہ لیںگے تو فرقہ واریت کی آکاس بیل سے اُمت مسلمہ کی جان چھوٹ جائے گی۔ کربلا کے واقعہ میں ویڈیو نہیں تھی لیکن آج ایک نعمت اللہ نے عطاء کی ہے اور اس کا فائدہ اٹھانے کیلئے ہم سب کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔

حضرت علی نے دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ منتقل کیا۔ کوفہ میں شیعان علی تھے۔ امام حسین مدینہ میں تھے۔ کوفیوں نے خطوط لکھ کر بلایا تھا، جب حالات بدل گئے توانہوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیٹا عمر سعد لشکرِیزید کا قائدتھا۔ امام حسین نے عمر سعد سے کہا تھا کہ انعام واکرام کے چکر میں شہید کردوگے تواپنی آخرت کیساتھ دنیا میں بھی انعام سے محروم ہوگے۔ جب حسین کو شہید کرکے یزید کے دربار میں امام حسین کے سر کو پیش کیا گیا تو یزید نے انعام کے بجائے ڈانٹا۔ حسین کے سرکویزید نے مخاطب کیا کہ ”اگر آپ میرے مقابل نہ نکلتے تو اس انجام کو نہ پہنچتے ”اور اپنی تلوار سے آپ کے دانت بھی کٹکٹائے۔

تاریخی واقعات پر اتفاق اور تضادات ہیں لیکن کوئی یہ بات سمجھنے کیلئے تیار نہیں کہ اس دور میں مسلمانوں نے اس طرح کھل کر حق کی مخالفت کیسے کی تھی؟۔ آج ایک طرف د.ہشتگردوں کے مظالم اور دوسری طرف شیعہ کی دعوت پر عظمتِ قرآن کانفرنس کے آئینے میں تاریخی حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے۔شاعرنے کہا:

جراحات السنان لہا التیام ولایلتام ما جرح اللسان
” تلواروں کے زخم کیلئے مرہم ہوتا ہے مگرزبان کے زخم کا مرہم نہیں ہوتا”۔ اس کانفرنس میں سامعین سے داد وتحسین لے سکتا تھا لیکن نرم ونازک لوگوں کو مشکلات کی گھاٹیوں میں دھکیلنے کیلئے جان بوجھ کراس موضوع کا انتخاب کیا جس سے خرقہ پوشوں میںایمان کا بجھتا دیا جلے۔ انقلابی انسان کو بلبل کے ترانے اور کوئل کے راگ سے زیادہ دلچسپی قومی مفادسے ہوتی ہے جس سے اجتماعی زندگی کا گہرا تعلق ہے۔ عالمی طاقتیں شیعہ سنی کو لڑانے اور نابود کرنے کے چکر میں ہیں اور اس حال میں ہمارے لئے مشکل فیصلے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔ قرآن مردہ ضمیرفرقہ فروشوں کی شجرہ خبیثہ پر اکاس بیل نہیں ڈالتاہے بلکہ دنیا میں شجرہ طیبہ کے پھلدار درخت کے ذریعے انسانوں کو حیاتِ نو فراہم کرتاہے۔

اسلام کو کفار نہیں مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ قرآن کہتاہے کہ دوسروں کے خداؤں کو برا بھلا مت کہو،پھر وہ تمہارے الٰہ برحق کو برا بھلا کہیں گے۔ جب ایک مسلمان نے ایک ہندو عورت کے سامنے اسکے مذہب کی توہین کی تو اس نے جواب میں کہا کہ ” میرا منہ مت کھلواؤ۔6سال کی عمر میں نکاح اور9سال کی عمر میں شادی کی بات جانتی ہوں”۔ جب میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے توہین رسالت کا جذبہ ابھارا گیا تو بھارت میں مسلمانوں نے احتجاج شروع کردیا۔ اس عورت کو حکمران جماعت نے اپنی پارٹی سے نکال دیا، اس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ عورت نے کہا کہ اگر اس بات کی سزا سرتن سے جدا ہو توپھر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی یہ بات کی اس کو بھی سزا دی جائے۔ مسلمانوں کا احتجاج جاری رہا تو حکومت نے ان کی سخت مار پیٹ کی۔ انکے گھر گرائے اور احتجاج پر قابو پالیا۔ مغرب اور دنیا بھر کے طاقتور ممالک مسلمانوں کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں اور اب حال ہی میں القاعدہ نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں خود .کش. حملوں کا اعلان بھی کردیا ہے اور امریکہ نے اپنے ذرائع سے اس کو کنفرم کیا ہے۔

پتہ نہیں القا.عدہ نے یہ اعلان کیا بھی ہے یا امریکہ اس خطے میں اسلام سے د.ہشت پھیلانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے چکر میں ہے؟۔ اگر سورۂ نور کی آیات کے احکام کا پیغام دنیا میں عام کردیا جائے تو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی جگہ دنیا میں محبت کا دم بھرا جائے گا۔ یہود ونصاریٰ کی ایکدوسرے سے شدید نفرت تھی۔ اسلام آیا تو یہودی خواتین سے نکاح کی اجازت دی گئی جو عیسیٰ پر ولدالزنا اور مریم پر بدکاری کی تہمت لگاتے تھے۔ عیسائی خواتین سے بھی نکاح کی اجازت دی گئی جو حضرت عیسیٰ کو خداکا بیٹا اور حضرت مریم کو خدا کی بیوی اور تین خداؤں کے قائل تھے۔ اسلام کا دنیا سے شدت پسندی ختم کرنے میں بنیادی کردار رہاہے لیکن مذہبی طبقات اپنی دکانیں چمکانے میں مصروف ہیں۔

رسول اللہۖ کو طائف میں پتھر کھاکر لہولہان ہونے سے اتنی اذیت نہ پہنچی جتنی حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان عظیم لگانے سے پہنچی لیکن اسکے باوجود قرآن نے بہتان لگانے والوں پر80،80کوڑے لگانے کی سزا کا حکم نازل کیا۔ اگر کسی عام جھاڑو کش عورت پر بہتان لگایا جائے تو اس کیلئے یہی سزا کا حکم ہے۔ بہتان سے عورت کو اذیت ملتی ہے ۔80کوڑوں کی سزا علاج ہے۔ کوڑے امیر غریب کیلئے یکساں سزا ہے۔ ہتک عزت کے قانون میں کروڑوں، ا ربوں کے جرمانے لگانا معقول سزا نہیں ہے اسلئے کہ امیر کیلئے زیادہ رقم بڑی سزا نہیں ہے اور غریب کیلئے کم رقم بھی بڑی سزا ہے۔ اگر پاکستان میں آئین کی پاسداری کی جاتی اور امیر غریب کیلئے قرآن کے مطابق اس سزا کو نافذ کردیا جاتا تو طاغوت کا نظام اپنے انجام کو پہنچ جاتا لیکن ہمارے ہاں جب تک عوامی مقبولیت یا ریاستی بیانیہ کی پشت پناہی حاصل نہ ہو تو روایات کے خلاف چلنا غیرضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں مجھے غلط روئیے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مجھے اس پر گلہ نہیں بلکہ خوشی ہے کہ تاریخی حقائق کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

کچھ اشعار احادیث صحیحہ کے آئینے اور فرقہ واریت کے ناسور کو واضح کرنے کیلئے لکھ دئیے۔ شیعہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امام حسین سے ہمارا اکابر طبقہ کیسے انحراف کرسکتا تھا؟۔ اس محفل میں شیعہ کے کردار سے ان کی مجبوری کو واضح کیا گیا ہے جو انکے اکابر سے بھی سرزد ہوئی تھی۔ جب کسی پر مشکل پڑتی ہے تو دوسرے کی مشکل کو سمجھنے میں دیر نہیں لگاتا۔ جبکہ سنی علماء کو بھی آئینہ دکھانا مقصد ہے کہ قرآن اور سورۂ نور کے احکام سے ان کی کتنی ہمدردیاں ہیں؟۔ ان کا ضمیر بتائے گا کہ کیا کرنا چاہیے تھا اور کیا انہوں نے کیا؟۔ مولانا نورالحق قادری نے تقریر شاید اس وجہ سے نہیں کی کہ اگر حق کا ساتھ نہیں دے سکتے تو مخالفین کی صفوں میں بھی شامل نہ ہوں، جن لوگوں نے تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ان کی ہمدردی ہمارے ساتھ تھیں تو وہ بھی لائق تحسین ہیں۔ رسول اللہۖ نے دین کو سمجھ کر اس کی کھل کر ہاتھ، زبان اور دل سے حمایت کرنیوالوں کو السابقون میں شامل فرمایا ہے اور دوسرا درجہ ان لوگوں کا رکھا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس کی زبان سے کھل کر حمایت بھی کی اور تیسرا درجہ ان لوگوں کا رکھا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور کسی سے دین کی خاطر محبت رکھی اور کسی سے نفرت رکھی لیکن یہ سارے معاملات چھپائے رکھے۔ ان کیلئے بھی خوشخبری ہے۔ محفل میں اکثریت ان لوگوں کی ہی معلوم ہورہی تھی جن میں صدر مجلس علامہ عابد شاکری ،ڈاکٹر قبلہ ایاز ، مولاناسیدالعارفین، مولانامحمد طیب قریشی اور حفیظ الرحمن بھی شامل تھے لیکن دوسری طرف جل بھن کر بیان دینے والے حق کی مخالفت پر کمر بستہ نظر آتے تھے جن میں منتطم مجلس علامہ احسان اللہ محسنی ، درویش مسجد کے مولانا اور علامہ مقصود سلفی کے علاوہ سنا ہے کہ قاری روح اللہ مدنی بھی شامل تھے اور ان لوگوں کو دلیل کیساتھ سامنے آنا چاہیے۔ ہمارا اخبارنوشتۂ دیواران کیلئے حاضر ہے۔

بعض قارئین یہ سمجھتے تھے کہ اخبار میں درسِ نظامی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جارہاہے لیکن قرآن کے خلاف یہ درست کیسے ہوسکتاہے؟۔ مولوی اکثر اپنی کتابوں کو سمجھ کر علماء نہیں بنتے۔ ہمارے دور کے اساتذہ اللہ والے تھے جو ہماری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ آج حالات بدل گئے۔ مدارس کے علماء وطلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد حقائق کو سمجھ چکی ہے۔ وہ وقت دور نہیں کہ مدارس و مساجد سے اسلامی انقلاب کا آغاز ہوگا۔ کالج و یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طلبہ بھی شانہ بشانہ ہوں گے۔ ہماری ریاست کا موجودہ ڈھانچہ مکمل ناکام ہوچکا۔ تاہم افراتفری سے ریاست کا موجودہ پسماندہ ڈھانچہ بھی بہت بہتر ہے۔ تمام ریاستی اداروں میں مخلص لوگ موجود ہیں لیکن وہ اندھیرے میں کھڑے ہیں۔ جب اسلام کی درست روشنی پھیل جائے گی تو اندھیرا خود بخود ختم ہوجائے گا۔ کانفرنس کے دن مجھے تھکاوٹ کی وجہ سے جلدی جانا پڑا تھا۔ کانفرنس کے آخر میں اس موضوع پر مزید وضاحت اور غیرت دلائی جاسکتی تھی لیکن تحریر دیکھ کر بھی فضا بدل سکتی ہے۔

اصل معاملہ فرقوں کا نہیں اسلام کی سربلندی کا ہے اور اس کیلئے فرقہ پرستی کو قربان کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ فرقہ پرستی سے فرقہ پرستوں کو روزی روٹی مل جاتی ہے لیکن دنیا کا نظام نہیں بدل سکتا ہے۔ جب اسلام کے ذریعے دنیا کا نظام بدل جائے گا تو عزت والی روزی فرقہ پرستی کے بغیر ہی ملے گی۔

ISI چیف جنرل ظہیرالاسلام نے ریٹائرڈ ہوکر کہا کہ”75سالوں سے ہماری پریکٹس جاری تھی لیکن اچھے حکمران نہیں لاسکے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد ہم نے تیسری پارٹی کو آزمایا اورPTIسب میں بہتر ین ہے”۔

قومی اسمبلی میں میاں ریاض حسین پیرزادہ نے2020کے بجٹ اجلاس میں جو تاریخی خطاب کیا تھا وہ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ انہوں نے شکایت کی کہ سیاستدانوں کو بدنام کیا جاتاہے کہ نوکریاں دی ہیں لیکن اگر ہم نوکریاں بھی نہیں دیںتو اور کیا کرینگے؟۔ دریاؤں کے بیچنے سے لیکر ملک وقوم کوخسارے میں ڈالنے والے فوجی جرنیل ہیں۔ میرے باپ کو گولی ماردی گئی مجھے بھی گولی ماردی جائے گی۔ زمینداروں کو بدنام کرکے ان کی سیاسی بساط لپیٹ دی گئی اور اب وہ جنرل ہیںجو فرنٹ لائن پر لڑکر ترقی کرگئے ہیں لیکن چولستان میں زمینوں اور اس کے پانی پر جنرلوں اور کرنلوں کا راج ہے۔ محافظ تھانیدار بن گئے اور زبردستی سے غریب لوگوں کے ٹریکٹر چھین رہے ہیں اور لوگوں کو ڈنڈے مارے جارہے ہیں، جس سے فوج عزت نہیں کمارہی ، ہمیں اپنے علاقے میں غلام بنا دیا گیا ۔ بجٹ عوام کو دھوکہ دینے کا ڈرامہ ہے۔ کاشتکاری تباہ ہو توملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔

;