پوسٹ تلاش کریں

اشرف میمن پبلشر نوشتہ دیوار کا تبصرہ

اشرف میمن پبلشر نوشتہ دیوار کا تبصرہ اخبار: نوشتہ دیوار

حکومت نے پہلے فوج کوناجائز دبایا کہ ’’ہم تیر آزمائیں تم جگر آزماؤ‘‘ مگر جب فوج کا دباؤ بڑھا تو پسپائی اختیار کی کہ ’’تم تیر آزماؤ ، ہم چوتڑ آزمائیں‘‘۔فرقہ واریت کا حل دیکھئے (اداریہ)
قوم حقائق کو دیکھ لے، اگر منتخب حکومت مظلوم ہو تو اس کا بھرپور ساتھ دیا جائے لیکن اگر حکومت نے واقعی کوئی انتہائی غلط حرکت، کمینگی، منافقت، بے غیرتی اوربد دیانیتی کابھرپور مظاہرہ کیا ہوتوعبرت آموزسبق ہی سکھایاجائے

potitcs-in-pakistan
جب ڈی جی آئی ایس آئی نے پنجاب میں شہبازشریف کی شکایت کا مثبت جواب دیا اورنوازشریف رکاوٹ بنے تو حقیقت کے برعکس خبر کے تین انتہائی مضرو خطرناک مقاصد ہوسکتے ہیں
1:بین الاقوامی، علاقائی، مقامی سطح پر فوج کو حقائق کے برعکس رگڑنا،2:حکومت کیلئے فوج کو ذاتی نوکر بنانے کی بدترین سازش،3: دہشت گردوں کوتحفظ فراہم کرنے کی بہت ہی غلیظ، ناپاک اور بدترین کوشش کاایک خفیہ راستہ

پبلشرنوشتۂ دیوار اشرف میمن نے کہا: ڈان نیوز کی خبر کو وزیرداخلہ نے دشمن کا وار قرار دیا اور حکومت نے آدھا سچ کہا، وزیر اطلاعات پرویز رشید کو فارغ کیا ۔ صحافی نسیم زہرا مصدقہ خبردی کہ’’ شہباز شریف نے ڈی جی آئی ائس آئی سے کہاکہ حافظ سعید اور مولانا اظہر کے بندوں کو پولیس پکڑتی ہے، تمہارے لوگ رکاوٹ بنتے ہیں۔رضوان اختر نے کہا کہ میں ساتھ جاتاہوں، کوئی بھی رکاوٹ نہ ڈالے گا۔ نواز شریف نے کہا :پہلے دیگر تین صوبے میں جاؤ،پنجاب میں اب نہیں پہلے یہ شکایت تھی ۔ خوشگوار موڈ میں ہی بات ہوئی۔ جھوٹ لکھا گیا کہ رضوان اخترو شہباز شریف کی تلخی ہوئی‘‘۔ جس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ جب تردید ہوئی تو بات ختم ، فوج کی کیا تذلیل ہوگئی؟۔ نسیم زہرا نے کہا کہ حکومت خود کہہ رہی ہے، وزیرداخلہ کا بیان آیا، پرویزرشید کو ہٹا دیا اور حکومت بچہ ہے کہ رات کو بھآؤ کرکے فوج ڈرائے۔ عاصمہ نے کہا: بالکل یہی بات ہے، میں وزیراعظم ہوتی تو استفعا دیتی کہ خود ہی سنبھالو۔ محترمہ عاصمہ جمہوریت کی حامی اور مارشل لاء کی مخالف ہیں مگر رضوان اختر پنجاب میں دہشت گرووں کیخلاف تعاون کیلئے تیار تھے تو کہانی شائع کرانے کا مقصد کیا تھا؟آدھا سچ کہنے کے اثرات کیا تھے؟۔ 1:پہلے عالمی قوتین دہشت گردوں کو پال رہی تھیں اور اب دنیا اس سے تنگ آچکی ہے، جنرل راحیل کی قیادت میں فوج نے دہشت گردی کا خاتمہ کیا، اپنی عوام، پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی سطح پر حقیقی نیک نامی حاصل کی مگر کہانی نے قربانیوں کا بیڑہ غرق کرکے صرف فوج کے امیج کونہیں پاکستان کو بھی بڑا نقصان پہنچایا، اسلئے کہ کٹھ پتلی سیاستدان اور فوج نے مل کر امریکہ کی ایماء پر شدت پسندوں اور دہشتگردوں کو فروغ دیاتھا، راحیل شریف نہ ہوتے تو یہ کھیل جاری رہتا اور غلط فہمی کی فضاء باقی رہتی، مشرف کشمیری مجاہدین کو بار بار ضرورت کہہ چکے تھے، سب کو آدھے سچ کے نام پر جھوٹی کہانی کا یقین ہوچکا تھا۔ حکومت کے حلیف مولانا فضل الرحمن، مولانا شیرانی، محمود اچکزئی نے پہلے ہی کھل کر دہشت گردوں کو پالنے کا الزام فوج پر ہی لگایاتھا، پولیس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایاگیا تو بلوچستان میں پولیس سینٹر پر حملہ کی سازش پر خاموشی کیوں ہے؟۔ جبکہ صوبائی حکومت ن لیگ اور محمود خان اچکزئی کی ہے۔ میڈیا پر بڑے زور وشور سے لواحقین نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ چند دن پہلے ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد پھر خوامخواہ بلوایا گیا؟۔ وکیلوں کو فوج کے کھاتے میں ڈالنے والے قوم کے سامنے اپنا احتساب کیوں نہیں دکھاتے؟۔ دوسری مرتبہ واقعہ سے تو مزید لوگوں کا غصہ بڑھنا چاہیے تھا۔ جب رضوان اختر نے پنجاب میں دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے پورا تعاون دینے کی بات کردی تو شریف برادران پیچھے کیوں ہٹے؟۔ حلیف جماعتوں کو چاہیے کہ پوری قوم کے سامنے ان کو کھڑا کردیں ، اگر فوج کی طرف سے جھوٹ بناکر ان کو دیوار سے لگانے اور جمہوریت کیخلاف سازش ہورہی ہے تو پوری قوم کو کھڑا کردیں اور حلیفوں سے کہہ دیں کہ پسپاہی پر پسپاہی اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر معاملہ اسکے بالکل برعکس ہو تو پھر فوج کیساتھ اس طرح سے کھڑے ہوجائیں کہ ڈکٹیٹر کی اولادوں کو بھی یاد رہے۔ حکومت نے اگر غلط کہانی گھڑکر کمینگی، بے غیرتی اور ذلالت کا بھرپور مظاہرہ کیاہے تو ان کو معاف کرنا قوم، ملک اور ملت کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ دہشتگردوں کے یارو ں کو ایک دھکااور دو۔
2: شریف برادران کی طرف سے اس کہانی کا دوسرا خطرناک مقصد یہ ہوسکتاہے کہ مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر اچھی شہرت یافتہ فوجی قیادت کو جھوٹی کہانی سے بھیگی بلی بناکر خود کو حقیقی شیر ثابت کیا جائے ، انسانی روپ میں جنگلی بادشاہ بن کر پاکستان میں جنگلی شہنائیت کا خواب پورا کیا جائے۔ پہلے بہادری سے حکومتیں قائم ہورہی تھی، اب پیسوں کا کھیل بن گیاہے۔ جب جنرل راحیل جیسے بے لالچ، دبنگ اور نڈر کے سامنے آئی ایس آئی کے ڈی جی کی ایسی تیسی کی جاسکے تو آنیوالی فوجی قیادت بالکل ذاتی غلام بن کر رہے۔ جب فوج کا ڈر بھی نہ رہے گا تو لوگوں کو ڈرانے کیلئے ذاتی بیئریر ہٹانے کے بہانے ماڈل ٹاؤن کی طرح قتل و غارت کا بازار گرم کرنے اور گلوبٹوں کو استعمال کرنے سے بھی شرم نہ آئے گی اور کورٹ کے آرڈر پر بھی ایف آئی آر کو درج نہیں کیا جائیگا، جبتک دھرنے کے ذریعہ ہوا نہ نکالی جائے آرمی چیف مداخلت نہ کرے۔ دوسری طرف اتنے بزدل کہ ایس ایس پی اسلام آباد کو سرِ عام پیٹنے پر بھی کوئی غیرت نہ کھائیں۔حکومت کے حلیف اُٹھ کھڑے ہوں اور موجودہ فوجی قیادت کو نہ صرف سپورٹ کریں بلکہ جنرل راحیل کو 7فیڈ مارشل کی حیثیت سے 3سال کی توسیع کا اہتمام کریں، تاکہ پاکستان کو دنیائے اسلام اور انسانیت کا بہترین ملک بنایا جاسکے۔ وزیراعظم کا دومرتبہ منتخب ہونے پر دس سال کا عرصہ پورا ہوتا ہے مگر اس پر بھی ان بادشاہوں کا جی نہیں بھرتا۔ پھر موروثی سلسلے بھی چلتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کی طلب ہوتوقانون کی حکمرانی ضروری ہے۔عدالت گیلانی کی طرح نواز وشہباز کو ناہل قرار دے تو لیگی خود ہی راہ ہموار کردینگے۔
3: من گھڑت کہانی کا آخری اور تیر بہدف مقصد یہ تھا کہ آدھا سچ سے کالعدم تنظیموں اوردہشت گردوں کے سامنے یہ بات رکھی جائے کہ جنرل راحیل شریف اور میجر جنرل رضوان اختر پنجاب میں تمہارا خاتمہ چاہتے تھے، ہم نے تمہارے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کام کیا اور ان کو تمہارے خلاف اقدام کرنے سے روک دیا۔ جس طرح لیاری گینگ وارکے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران عذیر بلوچ کی وفاداری کا حلف اٹھاتے تھے، پنجاب میں مقامی سطح پر مسلم لیگ ن کے رویہ کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کیلئے اسکی نوبت بھی آسکتی تھی۔ یوسف رضاگیلانی پر بھی اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر میں الیکشن کے دوران دہشت گرد ساتھ گمانے کا میڈیا پر ن لیگ والوں نے درست الزام لگایا ہوگا۔ جس طرح ایم کیوایم کے رہنماؤں کی الطاف حسین کا پٹائی لگوانے کے بعد یہ طرزِ عمل بناکہ بعض پارٹی چھوڑ کر چلے گئے اور بعض نے تہیہ کرلیا کہ کراچی سے جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ گورنر سندھ کو اسلئے پارٹی سے نکال دیا گیا۔ مصطفی کمال کی پارٹی بنی اور ڈاکٹر فاورق ستار کی قیادت میں ایم کیوایم نے بالآخر اپنے قائد سے ناطہ توڑ ا، اسی طرح پنجاب کی کالعدم تنظیمیں بھی اپنے شدت پسند وں سے جان چھڑانے کے چکر میں ہونگی مگر مسلم لیگ ن میں اتنی ہمت نہیں ۔ جیسے ضرب عضب سے پہلے فوج سے موقع مانگا تھا جسکے بعد دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، اس سے زیادہ ن لیگ کو پنجاب کاشدت پسند طبقہ پیارا نہیں لیکن ڈر ضرور لگتاہے۔ اگر فوج کو دبانے میں یہ کامیاب ہوگئے تو پھر یہ دہشت گردوں کا فرار طبقہ بھی واپس آئیگا اور جمہوریت ، سیکولرازم ، فوج مخالف ، انسانیت کا علبردار طبقہ ہی نتائج بھگتے گا۔پھر مصلحت پسند مجاہدقیادت اور فرقہ پرستوں کی بھی خیر نہ ہوگی۔دہشت گردوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے پالتو سیاستدانوں کا محاسبہ بھی پاک فوج ہی کو کرنے دو، ورنہ افتخار چوہدری کی حمایت پر جیسے پچھتاوا کام نہ آیا، پھروہی حشر ہوگا۔عاصمہ جہانگیر، مولانا فضل الرحمن، مولانا شیرانی، محمود اچکزئی وغیرہ اب تو بالکل ریٹائرڈ ہونے کی عمر کو پہنچ گئے ہیں۔ فوج اور عدلیہ کو درست سمت اپنے قبلہ کا تعین کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ ایم کیوایم، دہشت گردوں اور بلوچ شدت پسندوں کے یاروں اور سہولت کاروں کو بھی جانے دیں۔ پھر عمران خان سے علیم خان اور جہانگیر ترین کی دولت ہٹ جائے اور ن لیگ سے کرپشن کا پیسہ واپس لیا جائے تو قوم خود ہی درست قیادت کا انتخاب کرلے گی، کھلے دشمنوں سے منافقت کرنے والے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ نوازشریف خفیہ طور سے 22اگست سے پہلے ایم کیوایم کے ساتھ تھے، ضربِ عضب سے پہلے طالبان کو بھی سپورٹ کیااور بلوچ شدت پسندوں کے بھی ساتھ تھے۔
نواز شریف اور عمران خان کو ذبح کیا جاتا یا بچوں کو اڑادیا جاتا تو یہ کیا پھرحمایت کرتے؟ ، جان کی امان کیلئے ہی انہوں نے طالبان کی حمایت کی تھی۔دہشت گردوں کے اصل سہولت کاروں کو پکڑا جائے تو عمران خان اور نوازشریف سے بڑے سہولت کار کون تھے؟۔ ایم کیوایم سے زیادہ تحریک انصاف کے دور میں بھتہ وصول کیا گیا، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل توڑے گئے۔جمہوری حکومتوں کے پاس اختیار نہ تھا تو اقتدار کو لات کیوں نہ ماری؟۔ پہلے سارے پٹھان طالبان یا طالبان کے حامی تھے، فوج سب کو تو نہ مارسکتی تھی؟، پھرضرب عضب سے پہلے پٹھان بھی طالبان سے تنگ آچکے تھے مگرعمران خان گلوبٹوں کو طالبان کے حوالہ کرنے کی دھائی دیتا تھا، سی پیک پر عمران خان اور خٹک نے کیا پاؤڈر اور افیون کا نشہ کیاتھا۔اشرف میمن

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟