پوسٹ تلاش کریں

حضرت مولانامفتی ریاض حسین صاحب کی دوسری تحریرکا جواب: از سید عتیق الرحمن گیلانی

حضرت مولانامفتی ریاض حسین صاحب کی دوسری تحریرکا جواب: از سید عتیق الرحمن گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

dar-ul-uloom-qadria-rizvia-malir-saudabad- mufti-riaz-hussain- usool-us-shashi- noor-ul-anwaar-meethe-islami-bhaiyon-teen-talaq-kya-hai-dajjal-ka-lashkar-book

حضرت مولانا مفتی ریاض حسین صاحب مدظلہ العالی

کا جواب الجواب دارالعلوم قادریہ رضویہ سعودآباد ملیر

محترم جناب سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے اس ناچیز کے سوالات کا ’’الجواب‘‘ تحریر کیا۔میں نے بغور پڑھا۔میں یہ بات واضح کردوں کہ میری یہ تحریر حلالہ کے متعلق نہیں تھی ۔جیسا کہ آپ نے لکھا بلکہ قرآن مجید کی آیت230کی وضاحت کے متعلق ہے اور آپ جو اس آیت مقدسہ کی غلط تشریح پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں، اس کے رد میں ہے۔ اب آپ غور سے پڑھیں کہ آپ سے بڑے علماء کرام نے اس آیت کی کیا وضاحت کی ہے۔ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کا ترجمہ کیا ’’ پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت حلال نہ ہوگی جب تک کہ دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے‘‘۔
حضرت آپ نے غور کیا کہ تیسری طلاق کے بعد عورت اپنے خاوند کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔ اگر آپ اس ترجمہ سے مطمئن نہ ہوں تو جناب کی خدمت میں شاہ فہدآل سعودکی طرف سے حاجیوں کو پیش کیا جانے والا بطور ہدیہ قرآن پاک ہی کا ترجمہ اور تشریح ملاحظہ فرمائیں!
’’ پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے،تو اب اس کیلئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کے میل جول کرلینے میں کوئی گناہ نہیں بشرط کہ یہ جان لیں کہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے۔یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں جنہیں وہ جاننے والوں کیلئے بیان فرمارہا ہے۔ البقرہ آیت230
اب ذرا اس کی تشریح بھی پڑھ لیجئے،جو کہ اسی قرآن میں لکھی گئی اور جس کو آپ کے علاوہ عرب وعجم کا کوئی بھی عالم غلط نہیں کہتاہے: ’’ اس طلاق سے مراد تیسری طلاق مراد ہے۔ یعنی تیسری طلاق کے بعد خاوند اب نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح، البتہ یہ عورت کسی اور جگہ نکاح کرلے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو اس کے بعد زوجِ اوّل سے اس کا نکاح جائز ہوگا‘‘ ۔
دیکھا حضرت ! آل سعود کے ھدیہ کردہ قرآن میں بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ تیسری طلاق کے بعد عورت حرام ہو جاتی ہے جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے، پہلے کیلئے حلال نہ ہوگی۔
اس تشریح میں شارح عدت کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں اسلئے آپ کی خدمت میں سید نعیم الدین کی تشریح پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ آپ لکھتے ہیں:
’’ تین طلاقوں کے بعد عورت شوہر پر بحرمت مغلظہ حرام ہوجاتی ہے۔ اب نہ اس سے رجوع ہوسکتا ہے نہ نکاح جب تک کہ حلالہ ہو۔ یعنی بعدِ عدت عورت دوسرے سے نکاح کرے اور بعدِ صحبت طلاق دے، پھر عدت گزرے‘‘۔ نورالعرفان تشریح متعلقہ آیت230البقرہ
اب قبلہ سید عتیق الرحمن صاحب ، آپ کی خدمت میں مولانا شیخ الہند محمود الحسن صاحب کا ترجمہ و شیخ الاسلام مولانا شبیر عثمانی کی تشریح پیش کر رہا ہوں۔
’’ پھر اگر اس عورت کو طلاق دی یعنی تیسری بارتو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت اس کے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا، پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند توکچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاویں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے ،اللہ کا حکم ، یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں، اللہ بیان فرماتا ہے،ان کو واسطے جاننے والوں کے‘‘۔ مولانا شبیر عثمانی صاحب اس کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ’’ یعنی اگر زوج اپنی عورت کو تیسری بار طلاق دے گا تو پھر وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی تاوقت یہ کہ وہ عورت دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔ اور دوسرا خاوند اس سے صحبت کرکے اپنی خوشی سے طلاق دیوے۔ اس کی عدت پوری کرکے پھر زوج اول سے نکاح جدید ہوسکتا ہے۔ اس کو حلالہ کہتے ہیں اور حلالہ کے بعد زوج اول سے نکاح ہونا جب ہی ہے کہ ان کو حکم خداوندی کے قائم رکھنے یعنی کہ ایکدوسرے کے حقوق ادا کرنے کا خیال اور اس پر اعتماد ہو۔ ورنہ ضرور نزاع باہمی اور اتلافِ حقوق کی نوبت آئے گی۔ اور گناہ میں مبتلا ہوں گے۔ تفسیر عثمانی تفسیرالبقرہ: آیت230
اب اس آیت کا ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا بھی دیکھ لیجئے۔ ’’ پھر اگر اس نے ( تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کرلے، پھر وہ دوسرا شوہر بھی اس کو طلاق دیدے تو اب دونوں( یعنی پہلے شوہراور اس عورت پر) کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ ( دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں۔ بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ اب وہ حدود الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کیلئے بیان فرماتا ہے‘‘۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ تمام مکاتبِ فکر کے علماء اہلحدیث،دیوبندی اور بریلوی سب اس نکتے پر یکجا ہیں، بڑے منظم اور متحدہیں کہ آیت230 کا ترجمہ اور تفسیر سب نے ایک جیسی کی ہے۔کیونکہ وہ اہل علم ہیں،قرآن پاک کو سمجھتے ہیں،انہوں نے آیت نمبر230کا ایک ہی مطلب بیان کیا ہے کہ تیسری طلاق کے بعد عورت شوہر پر حرام ہوجاتی ہے اور اس قت تک اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک اس کے علاوہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ پھر وہ بعد صحبت طلاق دیدے پھر عدت کے بعد پہلے شوہر کیلئے نکاح کرنا جائز ہوگا۔

حضرت مولانامفتی ریاض حسین صاحب کی دوسری تحریرکا جواب: از سید عتیق الرحمن گیلانی

محترم مفتی ریاض حسین دامت برکاتکم العالیہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ، اللہ حق ہی کا بول بالا کردے۔
آیت230البقرہ کے ترجمہ میں ابہام نہیں، لیکن تیسری بار و تیسری طلاق میں فرق ہے۔امام ابوبکر جصاص حنفی رازیؒ نے لکھا: ’’2درہم اثنتان ہیں مرتان نہیں، 3طلاق اور3مرتبہ طلاق میں فرق ہے‘‘۔ احکام القرآن
اصولِ الشاشی میں ہے’’ حتی تنکح زوجا غیرہ ( حتی کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرے)آیۃ میں عورت خود مختار اورحدیث جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے ۔خبرواحد قرآنی آیت سے متصادم ہے ‘‘۔ امام مالکؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ،امام شافعی،ؒ جمہور فقہاء ؒ و محدثین ؒ واہل حدیث کے ہاں عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا۔ جبکہ امام ابوحنیفہؒ نے اس حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیکر ٹھکرادیا اور یہی تعلیم پڑھ کر مولانا احمد رضا خان ؒ ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ علماء بنے ۔ کیا علماء شرمندہ ہیں کہ رسول اللہﷺ کی حدیث اور جمہور فقہاء ومحدثین کو ٹھکرادیا ؟۔ اگریہ تعلیم ہی غلط ہے تو بتادیجئے گا۔
امام ابوحنیفہؒ پر سید عبدالقادر جیلانیؒ نے فتویٰ لگایا۔ آیت230میں طلاق شدہ کا ذکر ہے۔ بیوہ کو بھی قرآن میں اذابلغن اجلھن مافعلن فی انفسھنخودمختار قرار دیا گیا۔ آیت سے حدیث کی ٹکرہو تو غلط ہے ۔ نالائق مقلد مسلک کو صحیح پیش نہ کرسکے۔ کنواری کا ولی ہوتا ہے، شادی کے بعد اسکا سرپرست اسکا شوہر ہے، بیوہ اور طلاق شدہ خود مختار ہیں، آیات واضح ہیں اسلئے امام ابوحنیفہؒ کا مسلک درست ہے ۔حدیث کا تعلق کنواری سے ہے۔ قرآن وحدیث اور جمہور و احناف کے تضادات ختم کئے گئے توکورٹ میرج کی غلط راہ کا دروازہ بھی بند ہوجائیگا۔
آیت230 میں طلاق کے بعدیہ ہے کہ’’اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے‘‘۔ آیت سے ولی کی اجازت یا رکاوٹ کا تعلق نہیں بلکہ جس نے طلاق دی ،وہ شوہر رکاوٹ بنتاہے۔ اسلئے واضح الفاظ میں عورت کو پہلے شوہر کی دسترس سے باہر کرنے کی انتہاء کردی۔ یہ آیت پوری دنیا کیلئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔
شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو طلاق دی تو فرانس حادثے پر قتل کا مقدمہ عدالت میں چلا ۔ بڑا مشکل ہے کہ کوئی بیوی کو طلاق دے اور پھر گلی محلے اور اقارب میں کسی اورسے اسکا ازدواجی تعلق برداشت کرے۔ غیرت گوارا نہیں کرتی۔ حیوان بھی یہ غیرت رکھتے ہیں۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے عورت کو جو تحفظ دیا ،وہ پوری دنیا کیلئے سرچشمہ ہدایت ہے۔ اگر شوہر طلاق دے، عورت رجوع نہ چاہتی ہو اور فتویٰ دیا جائے کہ ’’ طلاق کے بعد اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے‘‘۔ تو بھی درست ہے۔لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ظالم اور طاقتور شوہر اس فتویٰ کے باوجود یہ قدم اٹھالے کہ زبردستی سے حلالہ اور طلاق پر مجبور کرکے عورت دوبارہ اپنے پاس رکھ لے۔ ایساہوا ہے کہ حلالہ کے بعد عورت دوبارہ پہلے شوہر کے پاس نہیں جانا چاہتی تھی مگر پہلے شوہر نے مولوی کی ہڈی پسلیاں توڑ کر زبردستی طلاق لی اور پھر نکاح کیا۔
انکے شوہر عدت میں اصلاح کی شرط پران کولوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں۔ البقرہ:228۔ اوریہ کہ ’’اگر تم کو دونوں کی جدائی کا ڈر ہو تو ایک رشتہ دار شوہر اور ایک بیوی کے خاندان سے فیصل تشکیل دو، اگر دونوں اصلاح چا ہیں تو اللہ ان دونوں میں موافقت پیدا کردیگا‘‘ ۔النساء: 35
صحابہؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ اور اسلافؒ نے قرآن کو سمجھا۔ میاں بیوی صلح کرلیتے تھے اور دونوں جانب کے رشتہ دار بھی فیصلہ کن کردار اد کرتے ۔ تنازع کیلئے قاضی، مفتی اور عالم کے پاس نہ جانا پڑتا تھا۔ اور قرآنی آیات پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا تھا۔ یہ بہترین قرآنی تعلیم دنیا تک پہنچی تو ایک اسلامی معاشرتی انقلاب برپا ہوگیا ۔
طلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہو تورجوع پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔قرآن، سنت ،حضرت عمرؓ نے بنیاد رکھ دی تھی۔ پھر مولفۃ القلوب کی زکوٰۃ ، زکوٰۃ پر قتال، حجِ قران یاتمتع سے روکنے اور اکٹھی 3طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے کی بحث چھڑ گئی تو ائمہ اربعہؒ اور محدثینؒ کا مؤقف تھا کہ اکٹھی 3طلاقیں پڑ تی ہیں۔ اگر تنازع پر یہ فتویٰ نہ دیا جاتا اور شوہر کو رجوع کا حق رہتا تویہ قرآن کیخلاف ہوتا۔ عورت زندگی بھر عذاب کا سامنا کرتی، صلح نہ ہوتی تو شوہر کے نکاح میں رہتی۔ اسلئے یہ فتویٰ دینا حق بجانب تھا کہ اکٹھی تین طلاق بدعی واقع ہوجاتی ہیں ۔ اس فتویٰ کی وجہ سے خواتین کو بہت تحفظ مل گیا جو تاریخ کا حصہ ہے اور یہ عظیم الشان فتاوے اور فیصلے یقینی طورپر قابل فخر ہیں۔
یہ فتویٰ تین مرتبہ یا تین طلاق تک محدود نہیں تھا بلکہ طلاق صریح وکنایہ کے الفاظ کا ذخیرہ اور گھمبیر صورت میں طلاق کے جملے خواتین کی خلاصی کا ذریعہ تھے۔ مثلاً حرام کا لفظ کہہ دیا تویہ بھی بعض کی رائے میں تیسری طلاق تھی جس کے بعد شوہر پر عورت کے حرام ہونے کا فتوی دیا جاتا ۔
حالانکہ نبیﷺ نے حضرت ماریہ قبطیہؓ کیلئے حرام کا لفظ استعمال کیا جس پر سورۂ تحریم نازل ہوئی۔ واضح تھا کہ نہ تیسری طلاق ہے، نہ اس پر 3 بار طلاق کا اطلاق ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود بخاری نے بھی بعض علماء کا اجتہاد نقل کیا کہ یہ تیسری طلاق ہے، حضرت علیؓ کی طرف بھی اس پر 3 طلاق کی نسبت کی گئی۔ پسِ منظر متازع صورتحال تھی اور عورت رجوع پر آمادہ نہ ہوتو سخت سے سخت فتویٰ قرآن کی روح کو زندہ کرنے کے مترادف تھا اسلئے کہ آیت کا یہ تقاضہ ہے کہ عورت کی طلاق سے جان چھڑائی جائے۔
متأخرین نے معاملہ بالکل اُلٹ دیا ۔ سلف صالحینؒ کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ایسے حالات پیدا ہونگے کہ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہونگے اور گدھے فتوے دینگے کہ صلح کیلئے حلالہ کرنا ضروری ہے۔ اللہ نے واضح کیا کہ عدت میں صلح کی شرط پر رجوع کا شوہر حقدار ہے اور یہ کہیں گے کہ حلالے کا بکرا یہ حق رکھتا ہے۔ طلاق کے بعد عدت شروع ہوتی ہے طلاق بدعی واقع ہونے کافتویٰ درست ہے مگر جہاں تک معروف رجوع کا تعلق ہے تو اللہ نے سورۂ بقرہ کی آیات 224 سے232اور سورۂ طلاق کی پہلی 2آیات میں عدت کے اندر اور عدت تکمیل پر معروف رجوع کی وضا حت ہے۔اللہ نے منکر رجوع کا راستہ روکا تھا مگر فقہاء نے منکرات کی بھرمار کرکے رکھی۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے حیض کی حالت میں طلاق دی تو نبی ﷺ غضبناک ہوگئے ، رجوع کا حکم فرمایا، پہلے طہروحیض، دوسرے طہروحیض کے بعد تیسرے طہر میں یہ فیصلہ کرنے کا فرمایا کہ معروف طریقے سے روکو یا چھوڑ دو، یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا امر کیا‘‘۔
حضرت ابراہیم ؑ ،امام ابوحنیفہؒ ،سید عبدالقادرجیلانی ؒ ، صحابی سلمان فارسیؓکردتھے۔ نبی ﷺ نے جسکے کاندھے پرہاتھ رکھ کر فرمایا کہ واٰخرین منھم لما یلحقوبھم سے اس کی قوم مراد ہے اگر دین، علم اور ایمان ثریا پر جائے توبھی ان میں ایک فرد یا چند افراد اسے لوٹادینگے۔ مولانا احمد رضا بریلویؒ قندھاری کے آباء توسیدشاہ محمد کبیرالاولیاءؒ اور پیرروشان بایزید انصاریؒ کانیگرم وزیرستان کے شاگرد اور مرید ہونگے۔ جس نے شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ کے پیرو کار اکابر دیوبند ؒ کو تقلید پر مجبور کیا ۔ رسولﷺ کو شکایت ہوگی کہ ’’ میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ شکایت اسلاف نہیں ناخلف جانشینوں کیخلاف ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان بھی کردبرکی ننھیال پر فخر کرتا ہے جو کانیگرم سے جالندھرگیا۔
میٹھے اسلامی بھائی مفتی ریاض حسین صاحب!ایک آیت پر سوئی اٹک گئی اور مجھے اس کا انکار کب ہے؟۔ اگر بحث حلالہ نہیں تو آیت کو اس دائرہ تک محدودکرنا ہوگا کہ اللہ کی واضح آیات کا انکار نہ کرنا پڑے۔ اللہ نے طلاق کی ایک عدت رکھی مگر مولوی نے شوہر کو تین عدتوں کا حق دیا۔ اسلئے کہ طلاق کے بعد آخر میں رجوع، پھر طلاق کے بعد آخر میں رجوع پھر طلاق تویہ مکمل تین عدتوں کا حق ہے۔ اللہ نے عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دیا تویہ حق چھین لیا۔ اللہ نے مرحلہ وار طلاقوں اور عدت کی تکمیل پر معروف رجوع کو واضح کیا اور فقہ کی کتابوں کو نالائق گدھوں نے منکررجوع سے بھر دیا۔ جو حلالہ کا سامنا کرتا ہے تو اسکا دین و ایمان ثریا پر پہنچتا ہے مگر اس کو قرآنی آیات میں باہمی صلح کیساتھ عدت میں عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی حقیقت بتائی جائے تو اسکا دین و ایمان ثریا سے زمین پر لوٹ آئیگا۔ اسلام کی نشاۃ اول کا آغاز ہوا تو ظہار پر عورت نے نبیﷺ سے مجادلہ کیاتھا۔ اللہ نے عورت کے حق میں فیصلہ دیا کہ ماں وہی ہے جس نے جنا، منہ سے بیوی ماں نہیں بن سکتی، یہ جھوٹ اور منکر قول ہے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں اسلام پھر اجنبی ہوچکا ہے، غلط فہمی سے مقام پر اثر نہیں پڑتامگر ہٹ دھرمی غلط ہے۔ اگر قرآن کی واضح آیات میں رجوع کی گنجائش کا پتہ نہیں لگتااور ضعیف احادیث کی مدد سے ڈھانچہ بدلنا ہو توسلام!
نبیﷺ نے نبوت، خلافت، امارت، بادشاہت، پھر طرزنبوت کی خلافت کے ادوار کا ذکر فرمایاہے۔ جب دوبارہ خلافت قائم ہوگی تو اسلام کا معاشرتی ڈھانچہ بالکل بدل جائیگا۔ طلاق کے مسائل پر فقہ کی حقیقت سے آگاہ کیا تو علماء ومفتیان کو منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ قیامت تک قائم کے واقعات مجھے اللہ نے دکھائے جیسے میں اپنی اس ہتھیلی کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ میرے لئے اس جیلان کو اللہ نے روشن کیا جیسے گزشتہ انبیاء کیلئے روشن کیا تھا‘‘۔ جیل سے دور مراد ہو تو جیلان اس کی جمع ہے اور ادوار مراد ہیں۔ اور اگر جیلان سے گیلان کی بستی مراد ہو تو یہ بھی ممکن ہے۔طالب جوہری نے اپنی کتاب’’ علامات ظہور مہدی‘‘ میں مہدی آخری زماں سے قبل کئی شخصیات کا ذکر کیا۔ خرسان سے دجال کے مقابلے میں حسنی سید کا ذکر کیا ہے ، بڑے دجال اور مہدی آخرزمان سے قبل اس حسنی سید کے بارے میں وضاحت کی ہے کہ ’’ سید گیلانی ‘‘ بھی مراد ہوسکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے طالبان دہشتگردوں کو خرسان کے اس دجال کا لشکر قرار دیا جسکا حدیث میں ذکرہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ میرے پاس اس اجنبی کو حاضر کیا گیا، میں نے دائیں اور بائیں جانب سے اس کی طرف التفات کیا تو نہیں نظر آرہا تھا مگر اجنبی۔ قرآن اس پر اپنی پوری عظمت کیساتھ روشن ہوا۔ اس کو ہزاروں نیکیاں ملیں اور ہزاروں خطائیں اس کی مٹادی گئیں، اس کی موت شہادت(اتمام حجت) کی موت ہوگی‘‘۔
ہونا یہ چاہیے کہ پاکستان کی حکومت عالم اسلام کے علماء ومفتیان اور تمام ممالک کے اصحاب اقتدار کو دعوت دے اور تبدیلی کا آ غاز اسلامی معاشرے سے شروع کردیا جائے۔ میری زندگی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے وقف ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ اگر اپنادین، ایمان اور علم چھوڑ کروہ راستہ اپنالوں جس سے علماء ومفتیان خوش ہوں اور دنیاوی مفادات اٹھاؤں تو میرا شمار بھی بلعم باعوراء کی طرح دنیا کو ترجیح دینے والے علماء میں ہوگا۔ پھر میری مثال بھی کتے کی ہوگی جو ہوشیار جانور ہے، ہیروئن، بارود اور چوری بھی دریافت کرتا ہے مگر کتا تو کتا ہی ہوتا ہے۔ جس کی قرآن نے مثال دی ہے۔ اللہ مجھے اور تمام سمجھدار علماء ومفتیان کو اس وعید سے اپنی امان میں رکھے۔ دین کیلئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے مگر ہمارے ہاں خود قربانی دینے کے بجائے خواتین کی عزتوں کو ناجائز حلالہ کے نام پر قربان کیا جارہا ہے۔ گھر تباہ اور خاندان برباد کئے جارہے ہیں۔
قرآن نے یہود کے علماء کی مثال گدھوں کی بھی دی ہے۔ گدھا کم عقل جانور ہوتا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقشِ قدم پر چلے گی‘‘۔ اگر گدھا اپنی خواہش پوری کرنے کیلئے کسی گدھی کو شکار کرنا چاہتا ہو تو پھر اس کے سامنے دلائل اور براہین کی بات غلط ہے۔ زانی اور زانیہ کوڑے کی زبان سمجھے ہیں، حلالے کے رسیا لوگ بھی کوڑوں کی سزا سے ہی بعض آسکتے ہیں۔میرا منصب بات پہنچانے تک محدود ہے۔ باقی اللہ ہی حافظ۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز