پوسٹ تلاش کریں

دار العلوم مذکر اور جامعہ مؤنث ہے، بڑی جہالت ہے کہ ایک ہی مدرسہ کو دار العلوم اور جامعہ دونوں کہا جائے

دار العلوم مذکر اور جامعہ مؤنث ہے، بڑی جہالت ہے کہ ایک ہی مدرسہ کو دار العلوم اور جامعہ دونوں کہا جائے اخبار: نوشتہ دیوار

darul-uloom-karachi-korangi-hamla-aurat-ko-talaq-per-halala-ka-fatwaأ2

دارالعلوم کراچی کا نام دارالعلوم دیوبند کی طرح رکھا گیا۔ جامعہ اور دارالعلوم ایک چیزجیسے مسجد اورمسیت، البتہ دارلعلوم مذکر اور جامعہ مؤنث ہے۔ یہ بڑی جہالت ہے کہ ایک ہی مدرسہ کو دارلعلوم اور جامعہ دونوں کہا جائے ۔ یہ مشکل خنثیٰ یعنی کھدڑے کا تصور ہے۔ جیسے کسی فرد کو صاحب صاحبہ لکھ دیا جائے۔ اردو، عربی دونوں لغات جاننے والوں کیلئے یہ جہالت اور کم عقلی عبرتناک ہے۔ اردو میں مسجد مؤنث اور عربی میں مذکر ہے۔ اللہ والی مسجد،مسجد عثمانیہ وغیرہ اردو کے اعتبار سے درست ہیں مگرعربی میں مسجد مذکر ہے۔ ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ کوئی عالم نہ تھے۔ اردو کے روایتی معاملے کو لیکر مسجد الٰہیہ نام رکھ دیا۔ مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی کے استاذ اور عربی کے ماہر دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولانا عبدالحق استاذ دارالعلوم کراچی سمیت بڑے مدارس کے بڑے علماء ومفتیان بیعت بھی تھے اور آتے جاتے بھی رہے ،کبھی کسی نے مسجد کے نام پر اعتراض نہ کیا لیکن جب الائنس موٹرز کے ایجنٹوں نے فتویٰ لگایا تو مسجد کے نام میں جہالت دکھائی دینی لگی۔ میں نے اسی وقت بتادیا کہ اردو کے لحاظ سے یہ نام روایتی معاملے کے مطابق ہے اور اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
اصول فقہ کی کتاب ’’نوالانوار‘‘ میں ہے کہ’’ ثلاثۃ قروء کا لفظ 3عدد کیلئے خاص ہے جو کم اور زیادہ نہیں ہوسکتاہے۔ اورشرع میں طلاق کا حکم عورت کو پاکی کی حالت میں طلاق دینے کا ہے۔ پاکی کے دنوں میں طلاق دی جائے تو عدت کی مدت میں اس وقت کمی واقع ہوگی کہ اگر 3عدتوں میں اس طہر کو بھی شمار کیا جائے جس میں طلاق دی جائے۔ لہٰذا لازم ہوا کہ عدت سے مراد 3حیض لئے جائیں ۔ اگر وہ طہر مراد لیا جائے تو عدت کی مدتیں 3نہیں ڈھائی بن جائیں گی‘‘۔
حالانکہ یہ ریاضی کا مسئلہ ہے اور مولوی سے ایک ریاضی دان اس حساب کو بہتر سمجھتا ہے۔ جس طہر میں طلاق دی جاتی ہے اگر اس کے علاوہ کئی دنوں بعد 3حیض کو شمار کیا جائے تو قیاسی نہیں بلکہ عملی طور سے 3کے عدد پراچھا خاصہ اضافہ ہوگا۔ یہ بہت بڑی بیوقوفی ہوگی کہ عورت کو عملی طور سے عدت پر مجبور کیا جائے مگر کہا جائے کہ یہ مدت شمار نہ ہوگی۔ جیسے کسی کو تھپڑ مارا جائے اور پھر کہا جائے کہ اس کو شمار نہ کرو۔ علماء و مفسرین اور فقہاء ومحدثین نے اس مخمصہ سے نکلنے کیلئے بہت ہاتھ پیر مارے ہیں لیکن ناکام رہے ہیں۔ چنانچہ لکھ دیا گیا ہے کہ ’’ ایک عدت رجال ہے، جو عورت کی پاکی کے دن ہیں جس میں شوہر کو طلاق دینے کا حکم ہے اور دوسری عدت النساء ہے، جو حیض ہے، جس میں عورت کو انتظار کا حکم دیا گیاہے ‘‘۔ حالانکہ قرآن میں فطلقوھن لعدتھن ’’ عورتوں کی عدت میں طلاق کا حکم ہے‘‘۔ پھر تویہ ہونا چاہیے کہ تم اپنی عدت میں طلاق دو مگرعلماء سے سورۂ طلاق کا درست ترجمہ اور تفسیر بھی نہیں کرسکتے۔ لوگ نبیﷺ کے نواسہ شہید کربلا کا رونا روتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ مفتی محمد شفیع ؒ کا نالائق نواسہ حسان سکھروی قرآن وسنت اور خواتین کی عزت کا ستیاناس کررہاہے اور پھر یہ کربلا والا حق کی آواز اپنی ذات نہیں حق کیلئے بلند کررہاہے۔ اللہ نے فرمایا : انہم یکیدون کیدا واکید کیدا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ طلاق شدہ خواتین انتظار کریں 3مراحل تک‘‘۔ طہرو حیض ایک مرحلہ ہے۔ حیض میں قربت سے روک دیا گیا ہے تو مباشرت کا دور پاکی کا مرحلہ ہے۔ جب عورت کو حیض نہ آتا ہو یا اس میں بیماری کی وجہ سے کمی بیشی ہو تو 3مراحل کی جگہ 3ماہ کی وضاحت ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ قروء سے تین طہر مراد ہیں یا تین حیض؟ کیونکہ اسکی حقیقت قرآن میں بھی واضح اور عقل وفطرت میں بھی کہ مہینہ طہرو حیض دونوں کا قائم مقام ہوتاہے۔ جب حضرت ابن عمرؓ نے حیض کی حالت میں طلاق دی تو نبیﷺ غضبناک ہوئے اور پھر سمجھایا کہ پاکی کے دنوں میں رکھ لو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں رکھ لو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو معروف طریقے سے رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو، یہ وہ عدت وطلاق ہے جس کا اس طرح اللہ نے حکم دیا ہے‘‘۔ بخاری کتاب التتفسیر، سورۂ طلاق، کتاب الاحکام، کتاب الطلاق، کتاب العدت۔ متواتر حدیث کو چھوڑ کر غلط قیاس کا سہارا لیا گیا اور نام اسے قرآن کے خاص کادیا۔جامعہ بنوری والے گھبرائے اور دارالعلوم کراچی والے شرمائے نہیں۔ اللہ نے بار بار عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر باہمی صلح سے رجوع کی اجازت دی ۔ تین مرتبہ طلاق کا تعلق حیض سے ہی خاص ہے، حمل میں عدت بچے کی پیدائش ہے۔ معروف رجوع باہمی صلح ہے۔ اگر عورت طلاق کے بعد صلح پر آمادہ نہ ہو تو ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا مطلب شوہر کیلئے رجوع کی اجازت نہیں تاکہ عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکے اور صلح پر آمادہ ہوتو متعددقرآنی آیات سے رجوع کی اجازت ہے۔ حاملہ کو حلالہ کا فتویٰ اللہ کی حدودسے تجاوز اور بڑا ظلم ہے۔
سُود کو جواز فراہم کرنیوالے دنیا میں مخبوط الحواس نہ ہوگئے ہوں تو اپنے فتوؤں کو قرآن و سنت کے ترازو میں تولیں۔

دار العلوم کراچی کورنگی کا جہالت پر مبنی فتوے کا عکس

darul-uloom-karachi-korangi-hamla-aurat-ko-talaq-per-halala-ka-fatwa-3

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز