پوسٹ تلاش کریں

نوشتہ دیوار کی طرف سے جنرل باجوہ ، عمران خان اور منظور پشتین کے نام اہم پیغام جس سے مثبت انقلاب کا آغاز ہوسکتا ہے

نوشتہ دیوار کی طرف سے جنرل باجوہ ، عمران خان اور منظور پشتین کے نام اہم پیغام جس سے مثبت انقلاب کا آغاز ہوسکتا ہے اخبار: نوشتہ دیوار

جب طالبان ریاست پر حملے کررہے تھے،مساجد، مدارس اور بازاروں، مہران ائربیس کراچی، جی ایچ کیو پنڈی اور آئی ایس آئی ملتان کے دفتر پر حملے اور ہرچند روز بعد بڑا دھماکہ ہوتا تو اس وقت پختون کیلئے طالبان قابلِ فخر تھے ۔ طالبان کی حمایت پر متحدہ مجلس عمل کو بڑے پیمانے پر پختونوں نے جتوایا۔ یہ الگ بات تھی کہ پختونخواہ کا وزیراعلیٰ بننے کے لائق کوئی مولوی نہ تھااسلئے اکرم خان درانی کو داڑھی رکھ کر وزیراعلیٰ بنوایا گیا۔ ہنگو میں خود کش حملہ ہوا تو وزیراعلیٰ درانی نے الزام لگایا کہ ’’یہ امریکہ نے کروایا ہے‘‘۔ بس پھر کیا تھا ؟۔ اکرم خان درانی کے چچا و فیملی کے دیگر افراد پر طالبان نے حملہ کرکے شہید کردیا ۔ اکرم خان درانی نے کہا کہ میں اس میڈیا پر ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا جو یہ کہے کہ ان کو طالبان نے ہلاک کیا، اسلئے کہ مزید نقصان کا خدشہ تھا۔ پختون قوم طالبان کے سامنے اسلئے لیٹی ہوئی تھی کہ ہرقوم ، ہرقبیلے، ہر خاندان اور ہرجگہ سے یہ نعرہ لگتا تھا کہ ’’ ہر گھر سے طالب نکلے گا اور کوئی نہ بچے گا ہر ایک کو ماریگا‘‘۔ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں جن کو ختم نہیں کرسکے اور پاک فوج نے امن کی فضاء بنائی ہے تو اس کی بنیاد یہی ہے کہ وہ گودیں بھی اجاڑ دی ہیں جہاں سے طالبان کی پرورش ہورہی تھی۔ طالبان کا خوف نکل گیا تو یہ نعرہ لگانا شروع کردیا ہے کہ
یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے
پختون طالبان نے جس طرح ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور پختون طالبان کی بہادری پر فخر کرتے تھے ۔ خاص طور پران مسنگ پرسن کے لواحقین جنہوں نے پی ٹی ایم کی محفلوں کو رونقیں بخشی ہیں۔ کل یہ فوج پر خود کش کرتے تھے اور آج نعروں کی شکل میں اپنا بغض نکال رہے ہیں۔کل مذہبی لبادے انکی پشت پناہی کررہے تھے آج لسانی تعصبات والوں کے وارے نیارے ہیں۔ کل امریکہ مذہب کے نام پر پختونوں اور فوج کو لڑا رہا تھا اور آج لسانیت کے نام پر پشت پناہی ہے۔کل بھی پختونوں کی بربادی کے منصوبے تھے اور آج بھی پختونوں کی بربادی کے منصوبے ہیں۔ کل کم عقل نوجوان طالبان تھے اور آج کم عقل پی ٹی ایم کے کارکنان ہیں جن کو تھوڑی سی خوشگوار فضاء بھی ہضم نہیں ہورہی ہے۔
کل طالبان کے جنازے میں مائیں بہنیں اعلان کرتی تھیں کہ مجھے بھی خود کش کرنا ہے ، آج پی ٹی ایم کی ریلیوں میں مائیں بہنیں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے رونق افروز ہوتی ہیں۔ پختونوں نے طالبان کی شکل اپنائی تو وہ امریکہ سے پاکستان تک سب کچھ ہلاکے رہ گئے۔ پاکستانی ریاست کو یہ اسوقت بھی پیارے تھے جب ملک کا چپہ چپہ دھماکوں سے لرزتا تھا اور آج بھی ان لاڈلوں کو وہ نعرہ لگانے کی اجازت ہے جو کسی اور کو نہیں ہے۔
بلوچوں نے لسانیت کے نام پر زیادہ سے زیادہ کبھی ویران بلوچستان میں کوئی ریلوے کی ٹریک اڑادی یا کوئی اکا دکا واقعات کرلئے تو ریاست نے ان پر جبرومظالم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ مسخ شدہ لاشوں سے مسنگ پرسن کی کہانیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ عرصہ سے چل رہاہے۔ فرقہ پرست اور جہادی تنظیموں نے بلوچوں کو لپیٹ میں لیاہوا ہے۔ اگر پختونوں کیساتھ یہ شروع ہوا تو طالبان دور کو بھول جائیں گے۔ بلوچ، پنجابی اور سند ھیوں کو ایسی رعایت حاصل نہیں ہے جو پختونوں کو پاک فوج دیتی ہے۔ دوسری قوم کے لوگ دھرنے میں کھلے عام آزادی اور فوج کے خلاف نعرے لگائیں گے تو ان کو برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا مگر یہ پختون لاڈلے ہیں لاڈلے۔
بلوچ سرما چار آزادی کیلئے جانوں کی قربانیوں کے علاوہ پردہ دار خواتین کو روڈوں پر لانگ مارچ سے بازاروں میں دھرنوں تک کیلئے نکالنے پر بھی غیرت نہیں کھا رہے ہیں۔ حالانکہ بلوچ دوسری قوموں کی فلم کو اپنی زبان میں ترجمہ کرنے پر بھی ہنگامے کرتے اور سینماؤں کو جلادیتے تھے۔ اگر بلوچی روایات کی حفاظت نہ ہوسکے تو بلوچستان آزاد ہوجائے تو اس بلوچستان کو بلوچوں نے کیا کرنا ہے؟۔ پ بلوچوں اور پختونوں سے گزارش ہے کہ ریاست سے گلے شکوے کا انداز بدل دو، خود کو ایسا مت قرار دو جیسے منکوحہ بیگم شوہر سے یا اغواء شدہ عورت اغواء کار سے شکایت کرتی ہے۔ عالمی قوتیں تمہیں استعمال کرکے پاکستان کو بخرے کرنے میں کامیاب ہوں تو تمہاری بھی خیر نہیں ہوگی۔
گھر میں بچوں کو ماں باپ سے اور بیگم کو شوہر سے شکایت ہوتی ہے لیکن گھر کا ماحول خوش اسلوبی سے درست کیا جاتا ہے تو اسکے اچھے نتائج نکلتے ہیں لیکن جو لوگ اپنے گھر کو برباد کرتے ہیں تووہ کبھی سکون کی زندگی نہیں پاتے۔
پی ٹی ایم نے نعرہ لگایا کہ ’’ہمیں زندگی چاہیے۔ ہمارے گھر ویران، جوان قتل ہورہے ہیں یہ کیسی آزادی ہے‘‘۔ جی ایچ کیو سے کہا گیا کہ شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔ منظور پشتین نے کہا کہ کافی ریلیف مل گئی لیکن راؤ انوار کی گرفتاری اور سزا باقی ہے۔ منظور پشتین نے کہا کہ ’’ کافی مسنگ پرسن رہاہوئے مگر ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ گناہگار ہو یا بے گناہ عدالت کے سامنے پیش کرو‘‘۔ فوج نے یہ جواب نہ دیا کہ جو عدالت راؤ انوار کو سزا نہیں دے سکتی وہ تمہارے گناہگاروں کو بھی سزا نہیں دیگی۔ راؤ انوار کیلئے جوعدالت قبول نہیں تو اپنے گناہگاروں کیلئے کیسے ہے؟ ۔ اسلئے کہ فوج کے پاس چھڑی ہے دلیل نہیں۔ اگر عدالت نے دہشتگردوں کو سزائیں دیتیں تو فوجی عدالت کی کیا ضرورت تھی؟۔ احسان اللہ احسان کو عدالت میں پیش کیا جائے تو بھی وہ عدم ثبوت سے رہا ہوجائیگا۔ جو لوگ احسان اللہ احسان کی طرح ہیں مگر ان کی شہرت نہیں ہے انہیں ہم تمہارے مطالبے پر رہا کررہے ہیں نا؟۔
پی ٹی ایم دلیل کیساتھ اپنے تضادات بھی ختم کرے۔ راؤ انوار نے طالبان سے پہلے مہاجروں کی دہشت ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ، ملک اسحاق کے علاوہ پنجاب پولیس نے اب بے گناہ کو ساہیوال میں قتل کیا تو پنجابی ریاست کیخلاف تحریک نہیں چلارہے ہیں۔ رحیم شاہ نے سندھی کو قتل کیا تو سندھ میں پختونوں کیخلاف نفرت پھیل گئی۔ پنجابیوں کیخلاف نفرت انگیز نعرے لگانے سے پختونوں کا چہرہ خوشنما نہیں بنے گا۔ فوج کیخلاف نعرہ لگانا ہے تو ان شہداء کو بھی دماغ میں رکھو ، جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور پختون قوم کو دہشت کی بدترین فضاء سے نکالا۔ افغانی پختون طالبان ہیں اور پی ٹی ایم والوں کی اکثریت لسان پرست کمیونسٹ ہیں، اگردونوں ساتھ ہوگئے تو پنجابی فوج دوبارہ بچانے بھی نہ آئے گی اور عالمی طاقتوں کو خوشی ہوگی کہ پختون آپس میں مرکھپ کر ختم ہورہے ہیں۔ یورپ میں بیٹھے پختون آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے پختون بھائیوں کو پھر سے مشکلات کا شکار کرنا چاہتے ہیں تو دوسروں کو قربان نہ کریں۔
ریاستِ پاکستان پختونوں پر اعتماد کرکے اچھا کرتی ہے۔ سخت نعروں کے باوجود برداشت کرتی ہے تو جانتی ہے کہ یہ قوم ہر مشکل میں ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ اتنی قربانی کسی نے پاکستان کیلئے نہیں دی جو پختونوں کی طرف سے دی گئی ۔حیات کی والدہ پر پختونوں کا گرینڈ جرگہ ہوا تو اس میں پہلی تقریر ملک جلال وزیر نے کی تھی۔ جذبات کے ماحول میں بھی کہا کہ ’’ہم پہلے تحقیقات کرینگے، پھر اگر فوج کا افسر یا سپاہی مجرم ثابت ہوئے تو ان کو سرِ عام قرارِ واقعی سزا دی جائے۔ ہم آج بھی فوج کیساتھ کھڑے ہیں اور ہندوستانی فوج سے انکے ساتھ شانہ بشانہ لڑیں گے‘‘۔
بقول صحافی حسن نثار کے ’’لونڈے لپاڑوں نے جمہوریت کے نام پر حکومت میں آکر اودھم مچایا ہوا ہے۔ ان کی شکلیں دیکھ لو۔ فیاض الحسن چوہانا، شیخ رشیدا، مراد سعیدا، چوہدری فوادا، یہ تبدیلی لائیں گے؟۔خاک تبدیلی آئیگی ، میں نے زندگی میں پہلی غلطی کی کہ ان کو سپورٹ کیا ہے، مجھے کیا پتہ تھا کہ عمران خان بھی لونڈے لپاڑوں کا امام تھا لیکن فوج نے اچھا کہ ان لونڈے لپاڑوں سے وزیراعظم اور وزیروں کے منصب کو اپنے گھٹیا مقام تک پہنچایا ہے۔
حسن نثار کے چھوکرے ارشاد بھٹی اپنی لکھی ہوئی یا کہیں سے لکھوائی ہوئی تحریر پڑھ کر واضح کرسکتا ہے کہ ’’ ریاست ، اس شیخ رشید پر کوئی اعتماد کریگی جو غیرت مند برملا کہتا ہے کہ ایٹم بم کے دھماکے ہم نے کروائے۔ نواز شریف بھی ڈر رہا تھا، فوج بھی ڈررہی تھی، بس میں تھا، راجہ ظفرالحق اور گوہر ایوب تھے۔ ہم تینوں نے ہمت تھی اور یہ کریڈٹ کسی اور کو نہیں جاتا۔ تمہیں کیا پتہ ہے کہ جب دھماکے کا وقت آیا تو میں نے دستر خوان پر رکھا ہوا کھانا چھوڑ دیا اور فلائٹ پکڑ لی تو پہلا کام یہ کیا، بیرون ملک میڈیا دیکھا کہ خیریت ہے؟۔ کیونکہ ایٹم بم سے خطرہ تھا کہ کہیں بھی اسکے ریزے بکھر سکتے ہیں، کہیں پٹاخے پھٹے تو میری بھی پھٹ جائے گی‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیخ رشید کو جان اتنی پیاری ہے کہ پورے پاکستان کی تباہی کیلئے ایٹمی دھماکے کردئیے لیکن جان بچا کر گئے۔ افواج پاکستان کی سلامتی کا بھی خیال نہیں رکھا؟۔ شیخ رشید منہ پھٹ ہے لیکن شیخ رشید سے پختون باغی زیادہ بھروسہ کے قابل ہیں!!! سننیے جناب سننیے!۔ فواد چوہدری کو دیکھ لیجئے، جس نے بچکانہ سیاست کا آغاز پرویز مشرف کی گودمیں چھاتیوں سے لگ کر دودھ پینے سے کیااور پرویز مشرف نے اس کی انگلیاں پکڑ کر چلنا سکھایا۔ پرویزمشرف کا سایہ اُٹھ گیا تو لڑکپن زرداری کے گود میں گزاردی اور جوان ہوکر تحریک انصاف میں شامل ہوا اور اب میرے استاذ محترم اس کو لنڈا لپاڑا کہہ رہاہے ، خدا کا بھی کچھ خوف کرو۔
یہ سنہرے ادوار تو استاذ محترم حسن نثار نے بھی گزارے ۔ زیادہ دور نہیں جائیے۔ جب الطاف حسین کا طوطی بول رہا تھا اور روزانہ کی بنیاد پر فوج کے کور کمانڈروں کو دعوت دیتا تھا کہ اللہ ، رسول کا واسطہ ٹیک اور کرلو، ان سیاستدانوں سے ہماری جان چھڑا دو، تو حسن نثار کہتا تھا کہ الطاف حسین ٹیچر ہے، لیڈر ایسا ہونا چاہیے جو کراچی کی عوام کواپنی تقاریر کے سحر کی گرفت میں رکھے۔ حالانکہ کراچی والے الطاف حسین کی تقریر کو سن کر مارے شرم کے پسینہ پسینہ ہوجاتے تھے۔ ریاست نے حسن نثار کی آواز میں وزن دیکھا اور الطاف حسین کے لیکچرز پر پابندی لگادی۔ جب آصف علی زرداری کو اقتدار مل گیا تو حسن نثار کہتا تھا کہ ’’ یہ بلوچ ہے، بینظیر بھٹو سادہ سندھی تھی یہ بلوچ بڑا سخت جان ہے ،سب کو چنے چبوادے گا‘‘۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ استاذ محترم نے عمران خان پر اعتماد کرکے قلابازی کھائی بلکہ حسن نثار اسلئے تو علامہ اقبال کو بھی گالیاں دیتا ہے کہ حسن نثار ، لقمان ، حامد میر اور لاہوریوں کا پول کھول دیا کہ تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا ، یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد‘‘۔
ٹھہرئیے ابھی مزید کچھ سنیے اور حوصلہ رکھیں۔ ڈاکٹر عامر لیاقت جو جعلی ڈاکٹر بھی نہیں، اس نے الطاف کا ساتھ دیا لیکن مشکل پڑی تو سیاست سے توبہ کرلی۔ پھر تحریک انصاف میں شمولیت کیلئے مکمل پر تول لئے۔ عمران خان نے مجبوری کے تحت لفٹ نہ دی تو اس پر عدت میں شادی کے الزام سے لیکر کیا الزام تھا جو نہیں لگایا؟۔ تاہم پھر فضاء بدلی اور عمران خان نے قبول کیا اور عامر لیاقت نے اس سیاسی سفر کو آخری قرار دیدیا۔ جب ٹکٹ کیلئے خطرہ پیدا ہوا تو ڈاکٹر عامر کے ضمیر نے عمران خان کیخلاف محاذ کھولنے کی انگڑائی لے لی لیکن ٹکٹ سے طبل جنگ بجنے سے بچت ہوگئی۔ اس ڈاکٹر عامر لیاقت پر بھروسہ کرنے کیلئے پاک فوج کو پاگل کتے نے کاٹا ہے کیا؟۔ یہ تو دیسی کارتوس ہے جو شکار سے زیادہ شکاری کی آنکھ پھوڑ سکتاہے۔
چلیں چھوڑئیے ، اب آئیے ذرا، پی ٹی ایم کے نعرے کی طرف کہ جو دہشت گردی ہے ، اسکے پیچھے وردی ہے، اس میں بھی لاجک ہے اور میں بتاتاہوں کہ کیا لاجک ہے؟۔ پرویزمشرف کی حکومت ، ق لیگ اور اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمن سب کے سب ایک پیج پر تھے تو یہ طالبان کے حامی تھے،اسلئے یہ نعرہ لگانا درست ہے کہ یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے۔کوئی شک نہیں کہ پرویز مشرف و شوکت عزیز پر بھی حملے ہوئے مگر یہ حقیقت ہے کہ پورے ملک میں وردی والوں کی حمایت سے طالبان کھلے عام دندناتے پھرتے تھے، سرِ عام بھتہ وصول کرتے اور یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کو ملتان اور لاہور سے افغانستان اغواء کیا تھا تو یہ نعرے لگانا اس وجہ سے بنتے ہیں اور برداشت کئے جاتے ہیں۔انکے نشانات مٹانے کے خوف سے ساہیوال کا واقعہ ہواہے۔ جن کے ثبوت منظرِ عام پر کوئی نہیں لاسکتا ہے۔
حوصلہ کرو،ابھی مزید سنو۔ نصیراللہ بابر اور رحمن ملک نے امریکہ کے کہنے پر طالبان بناے۔بینظیر بھٹو تو طالبان کا شکار ہوگئی لیکن پیپلزپارٹی کی عظیم خدمات کے صلے میں پہلا حق ان کا بنتا تھا کہ جمہوریت کی بحالی کے بعد اس کو حکومت بھی دی جاتی۔ پھر نوازشریف ، شہازشریف اور عمران خان پر طالبان سب سے زیادہ بھروسہ کرتے تھے۔ اسٹیبلیشمنٹ نے شہباز کو حکومت دی جو کہتے تھے کہ ہم طالبان کے ساتھی ہیں، طالبان پنجاب میں دھماکے نہ کریں۔ اے این پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کا صفایا ہواتھا اور عمران خان کو اگلی صوبائی حکومت انعام میں دی گئی تھی۔ پھر عمران خان کو پتہ چلا کہ مرکز میں بھی مجھے حکومت مل سکتی تھی اور نواز حکومت کیخلاف دھرنے شروع کردئیے۔خطاب کے دوران پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالے کرنے کی عمران خاں دھمکیاں دیتا۔ پھر طالبان کی حمایت کرنے والے عمران خان کو ہی میڈیا چینلوں اور خلائی مخلوق کے ذریعے کھلے عام اقتدار میں لایا گیا۔ حقائق واضح ہیں کہ دہشتگردی کے پیچھے وردی ہے اسلئے کہ دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کو باری باری اقتدار میں لایا گیا ہے۔
ُپی ٹی ایم والے کہہ سکتے ہیں کہ ارشاد بھٹی نے یہ سارا نقشہ درست پیش کیا مگر دنیا جانتی ہے کہ اگر طالبان کے آگے یہ ہماری باصلاحیت ریاست بے بس بھی تھی، مل جل کر بھتے وصول کرنے پر مجبور سہی لیکن پارلیمنٹ کا دروازہ توڑنے والے اور پی ٹی وی پر قبضہ کرنے والے طاہرالقادری اور عمران خان کے پیچھے کونسی طاقت تھی؟۔ بجلی کے بل جلانے اور سول نافرمانی کا اعلان کرنیوالے عمران خان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ لوگ پشاور سے پنجاب پولیس کے تشدد کو برداشت کرتے کرتے شہد کی بوتل سمیت بنی گالہ پہنچ گئے لیکن عمران خان شیخ رشید کی کوشش سے بھی اپنے گھر سے نیچے نہیں اترسکا۔ ریاست عمران اور اس کی ٹیم پر کیا اعتماد کریگی؟۔ وہ چوہان جس پر ٹکٹ بیچنے کا الزام لگا تو قرآن کھول کر ویڈیو بنائی اور شیخ رشید سمیت پوری ٹیم کو غیرت ، حمیت سے عاری اور گندی ذہنیت کا حامل قرار دیکر دنیا بھر کی مروجہ گالیوں سے نوازا۔ اگر فیاض الحسن چوہان میں غیرت ہوتی تو اس ٹیم کا حصہ نہ بنتا۔ مراد سعید سے لیکر فیاض الحسن چوہان اور ڈاکٹر عامر لیاقت تک نہ صرف خود لونڈے لپاڑے ہیں بلکہ اپنے جیسے بڑے بڑے کھیپ کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ ہم نے جو نعرہ لگایا ہے تو اس کی گواہی اس پاک دھرتی کا بوٹا بوٹا، پتہ پتہ دے رہاہے، فیض آباد دھرنے پر تو عدالت نے وہی نعرہ اپنی دبی زبان میں لگایا ہے جس کا ہم سخت لہجے میں اظہار کررہے ہیں۔
خاتون اول کا ویڈیو پیغام قوم نے سن لیا ہوگاکہ
’’میرا پہلا شوہر شریعت کا بہت پابند ہے۔ طلاق دیتے ہوئے عدت بھی گھر پر گزارنے کا کہا تھا، جب گھر چھوڑ دیا تو میری عدت پوری ہوگئی۔ عمران خان کی زندگی میں آنے کے بعد میرے اندر تبدیلی آئی اور عمران خان میں بھی تبدیلی۔ عمران خان نے ریحام کو لندن جاتے ہوئے مسیج پر شریعت کیخلاف طلاق دی تھی۔ عمران کی روح سعید تھی اور اس نے جمائما کو شریعت کے مطابق طلاق دی اور پھر اس کی روح بھٹک گئی ۔میری طرف غلط منسوب کیا گیا کہ خواب میں رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ عمران خان سے شادی کرلوں۔ اگر چاہتی تو عدت کے فوراً بعد بھی شادی کرتی مگر میں نے سات مہینے تک مزید صبر کیا۔ تبدیلی عمران خان کے ذریعے سے آئیگی لیکن اس میں دیر لگ سکتی ہے‘‘۔ خاتون اول کے بیان سے پتہ چلتاہے کہ ریاست مدینہ بننے والی ہے، یہ شادی لو میرج ہو یا ارینج میرج دونوں کی تقدیر میں شریعت تھی۔ عمران خان میں یہ تبدیلی آگئی ہے کہ پردہ دار خاتون سے شادی کرلی، اس سے زیادہ تبدیلی کیا ہوگی؟ اور خاتون اول میں یہ تبدیلی آئی کہ باشرع شوہر کے باوجودعمران سے شادی کیلئے بات طے ہوگئی، شریعت کے مطابق پردے کا اہتمام شروع ہوگیا، دونوں کی تبدیلی حیرت انگیز تبدیلی ہے۔
البتہ اگر یہ لوگ قرآن کریم کی آیات نکاح، طلاق اور خلع کے حوالہ سے سمجھ لیں اور معاشرے کو حلالہ کی لعنت سے نجات دلادیں تو مدینہ کی ریاست کا بڑا زبردست آغاز ہوسکتا ہے۔ روز روز مدارس کے فتوؤں سے لوگوں کی عزتیں برباد ہورہی ہیں۔ گھر برباد ہورہے ہیں۔ اگر ریاست اور پی ٹی ایم کے لوگ گھروں کو تباہی اور عزتوں کا تحفظ چاہتے ہیں تو قرآن کریم کی طرف علماء کو متوجہ کرکے حلالہ سے بچانے کیلئے ایک زبردست کردار ادا کریں۔
اے شام بتا تو کتنی دُور ہے
آنسو نہیں جہاں وہ نگر کتنا دور ہے

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟