پوسٹ تلاش کریں

قرآن وسنت کی تعلیم سے دنیا میں انقلابِ عظیم برپا ہوا: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 3 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

قرآن وسنت کی تعلیم سے دنیا میں انقلابِ عظیم برپا ہوا: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 3 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018 اخبار: نوشتہ دیوار

halala-ki-lanat-khawateen-ki-behurmati-fatwa-agreement-marriage-tehreef-e-quran-maulana-anwar-shah-kashmiri-

بڑی اہم بات ہے کہ مفسرین نے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں جسے علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے معنوی تحریف کا نام دیا ۔فقہ کی کتابوں میں مکاتبت سے مراد یہ ہے کہ کوئی غلام معاہدہ لکھ کر پیسوں سے خود کو آزاد کردے، مفسرین نے یہی مکاتبت مراد لی ہے، حالانکہ قرآن کی اس آیت میں غلام کو پیسے دینا واضح ہے جو اسی صورت میں ہوسکتاہے کہ کسی خاتون خاص طور سے بیوہ و طلاق شدہ کو آزاد شخص نکاح کیلئے میسر نہ ہو تو غلام کو پیسے دیکر بھی معاہدہ ہوسکتاہے۔ غلام کو آزاد کرنے میں خیر کا تصور لینا کتناغلط ہے۔ کیایہ کہا جاسکتا ہے کہ’’ اگر آزادی میں خیر ہوتو ہی آزادنہ کرو؟‘‘۔
آگے اللہ نے فرمایا:’’ اور ہم نے تمہاری طرف واضح آیات نازل کی ہیں جیسے تم سے پہلے گزرنے والوں کیلئے نازل کی تھیں۔ تقویٰ والوں کیلئے نصیحت ہیں ۔اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔ اسکے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے ۔چراغ ایک قندیل(شیشے) میں ہے،قندیل گویاموتی کی طرح کا ایک چمکتا ہوا تارا ہے۔اس میں مبارک درخت زیتون کا تیل جلایا جاتاہے نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی ہے۔ ………….. ‘‘ (سورۂ نور آیت32سے 35)۔ ان آیات کی روشنی انسانی فطرت کو ایسا متأثر کرسکتی ہے جو عظیم انقلاب کا ذریعہ ہے۔ مشرقی و مغربی تہذیب کا قرآنی آیات پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔اللہ نے واضح کردیا ہے۔
شوہر کی گمشدگی پر 80 اور 4سال کا بڑا تضاد غلط تھا۔ اللہ نے فرمایا: وانزلنا الکتاب تبیانا لکل شئی ’’اور ہم نے کتاب نازل کی ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے‘‘ تو کیا اللہ کی کتاب میں شوہر کی گمشدگی جیسے اہم مسئلے کا حل بھی موجودنہ تھا؟۔
عورت گمشدہ شوہر کیلئے خود انتظار کرنا چاہتی ہو تو مسئلہ نہیں۔ قیامت تک نکاح قائم رہتا ہے یوم یفر المرء من اخیہ وامہ وابیہ و صاحبتہ و بنیہ’’ اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے، ماں سے، باپ سے، بیوی سے، بچوں سے‘‘۔ ناراضگی میں انتظار 4ماہ ہے، طلاق میں 3ماہ یا تین مرحلے ( 3طہرو حیض)اور وفات میں 4ماہ 10 دن۔ شوہر کی گمشدگی پر لامحدود یا غیر فطری انتظار نہیں ہوسکتا ۔
اسلام کا بڑا کمال ہے کہ طاقتور سے زیادہ کمزور کیلئے رعایت ہے۔ سورۂ النساء آیت 19میں پہلے عورت کیلئے حق خلع پھر مرد کیلئے آیت20، 21میں خواتین کے حقوق کیساتھ طلاق کی وضاحت کی ۔ حدیث میں غلام کی دو طلاق، لونڈی کی عدت دو حیض اور خلع میں عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ جب شوہر کی موجودگی میں خلع کا حق عورت کو ہے تو شوہر کی گمشدگی میں خلع کا حق بدرجہ اولیٰ ہے۔ قرآن وسنت کے باوجود خاتون کو شوہر کی گمشدگی پر بڑے عرصہ تک مجبور کرنا بہت بڑا المیہ ہے۔
خلع و طلاق میں فرق معاملات کا ہے۔ خلع میں عورت کو شوہر کا گھر چھوڑنا ہے اور طلاق میں مرد کو ہر دی ہوئی چیز سے دستبردار ہونا ہے۔ اگر عورت شوہر کی گمشدگی پر خلع لینا نہ چاہتی ہو اور طلاق کی خواہش بھی نہ رکھتی ہو لیکن جنسی تسکین چاہتی ہو توپھر مسئلہ ہوگا مگر یہ مسئلہ بھی محرمات کی فہرست کا آخری جملہ حل کردیتا ہے۔ مملوکہ بننے کے بعد شوہر والی عورت کو جائز قرار دیا گیا ہے،تو اس سے زیادہ شوہر کی گمشدگی پر اس آیت سے عورت کیلئے دوسرا نکاح یا متعہ ومسیار کرنے کی گنجائش نکلتی ہے۔
اصولِ فقہ میں قرآن وسنت پر تفریعات ہیں۔ حقیقت ومجاز میں ’’ نکاح وطی کیلئے ہے عقد کیلئے نہیں ‘‘ کو پڑھا جائے تو دماغ کے شریانیں پھٹ جائیں گی۔ نکاح اور زناعرفِ عام، لغت اور شریعت میں ایکدوسرے کی ضد ہیں جو آدم ؑ و حواء ؑ ، ہابیل وقابیل سے لیکر موجودہ دور کے تمام انسانوں میں رائج ہے۔ لغت کا تصور معاشرے سے الگ نہیں ۔ معاشرے کی بنیادی اکائی میں میاں بیوی کے درمیان نکاح ہے۔حنفی مسلک نے بہت نامعقول انداز میں یہ تصور دیا کہ لغت میں نکاح کا معنیٰ ملاپ ہے ، عورت اور مرد کا یہ ملاپ جائز نکاح سے ہو یا زنا سے دونوں صورت میں نکاح ہے۔ جبکہ امام شافعیؒ شرعی نکاح مراد لیتے ہیں۔ (نورالانوار)حقیقت ومجاز کی یہ وضاحت ہے کہ باپ کیلئے باپ کا لفظ حقیقت اور دادا کیلئے مجاز ہے، باپ کیلئے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ باپ نہیں لیکن دادا کیلئے کہا جاسکتا کہ وہ باپ نہیں۔ شیر جنگل کے جانور کیلئے حقیقت اور بہادر آدمی کیلئے مجاز ہے۔ جب حقیقی معنیٰ مراد لیا جاسکے تو مجازی معنیٰ مراد نہیں ہوسکتا۔ لاتنکحوا مانکح آبائکم من النساء ( نکاح نہ کرو، جن سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہو) میں حقیقی معنیٰ لغت کے اعتبار سے ملاپ کا ہے جس میں نکاح و زنا شامل ہیں ۔سوال ہے کہ آباء سے مراد پھر صرف باپ مراد لیا جائیگامگر دادا نہیں تو جواب یہ ہے کہ دادی سے نکاح کی حرمت کو اجماع سے ہم حنفی ثابت کرتے ہیں ،قرآن سے نہیں۔( قوت الاخیار شرح نورالانوار)
اگر علماء اصولِ فقہ کو سمجھتے تو حلالہ کے نکاح میں حقیقی معنیٰ ملاپ قرار دیتے کہ زنا سے حلالہ ہوجاتاہے جس کیلئے عقدِنکاح اور عدت شرط نہیں ۔بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہوتا کہ حقیقی معنیٰ کے ہوتے ہوئے مجازی معنیٰ مراد ہوہی نہیں سکتا، اور حقیقی معنیٰ ملاپ اور زنا ہے اور مجازی معنیٰ عقدِ نکاح ہے۔تو اصولِ فقہ کے قاعدے کے مطابق حقیقت کے ہوتے ہوئے مجاز مراد نہیں ہوسکتا اسلئے عقدِ نکاح سے عورت حلال نہیں ہوسکتی بلکہ صرف اور صرف زنا سے ہی حلال ہوسکتی ہے۔ ملا جیونؒ کی انتہائی سادگی پر حضرت مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ العالی بہت لطیفے سنایا کرتے تھے۔
حلالہ کو نبیﷺ نے لعنت، جمہور فقہاء نے اسے زنا قرار دیا۔ جس سے عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوسکتی۔ احناف کی نظر میں حلالہ کا جواز نہ تھا اور نہ حلالہ سے عورت پہلے شوہر کیلئے حلال ہوسکتی تھی۔ بعض احناف نے حیلہ سے جائز کہا مگرانکے پاس کوئی مستند حوالہ نہ تھا ۔قرآن وسنت تو بہت دور کی بات ہے۔ علامہ ابن ھمام اور علامہ بدرالدین عینی نے غیر معروف بعض مشائخ اور لایعنی کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ یہ لوگ 900 ہجری میں آئے ہیں اور حنفی مسلک کے اصول وفروع سے کوئی حوالہ نہیں دے سکے ہیں۔انہوں نے حلالہ کو کارِ ثواب کہنے کا کارنامہ بھی انجام دیا ہے۔
مولانا سلیم اللہ خانؒ نے لکھا کہ ’’حلالہ کیلئے جس حدیث میں جماع کا ذکرہے، وہ خبر واحد ہے۔ احناف خبر واحد کی وجہ سے قرآن پر اضافہ نہیں کرتے ،پھرحلالہ کیلئے صرف نکاح کافی ہونا چاہیے تھا ؟ ،جواب یہ ہے کہ حنفی حدیث سے جماع کو ثابت نہیں کرتے بلکہ نکاح کا معنیٰ جماع ہے‘‘۔( کشف الباری فی شرح صحیح بخاری)
سعودیہ نے ابن تیمیہؒ کے تین طلاق سے رجوع کا فتویٰ ختم کیا ۔پھر گھمبیر صورتحال سے مسیار کے نام سے متعہ کی اجازت دی مگر گھمبیر مسائل حل نہ ہوئے۔ محرمات سے تعلقات کا مسئلہ در پیش تھا تو مغرب کی آزادی کیلئے کھلم کھلا اقدامات شروع کردئیے ہیں۔ قرآن وسنت مسائل کا حل ہیں۔ نبی ﷺ نے متعہ کی اجازت اور آیت کا حوالہ دیا: لاتحرموا مااحل اللہ لکم من الطیبات ’’ جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا، اسے حرام نہ کرو‘‘۔(بخاری) نبیﷺ نے حلت کو اللہ کی طرف منسوب کیا، اللہ نے قرآن میں منع کیا کہ اپنی طرف سے حلال اور حرام کی نسبت اللہ کی طرف نہ کرو۔ خیبر کے موقع پر پالتو گدھے اور متعہ کی حرمت حضرت علیؓ کی طرف غلط منسوب ہے۔ گدھا، گھوڑا اور خچرکوئی نہ کھاتا تھا۔دومرتبہ حرمت کا تصور غلط ہے ۔ حضرت عمرؓ کے ابتدائی دور تک متعہ جاری تھا۔( صحیح مسلم)

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز