پوسٹ تلاش کریں

مفتی ریاض حسین صاحب، مفتی دارالعلوم قادریہ رضویہ ملیر سعود آباد کراچی،کی طرف حلالہ سے متعلق یہ جواب طلب تحریر

مفتی ریاض حسین صاحب، مفتی دارالعلوم قادریہ رضویہ ملیر سعود آباد کراچی،کی طرف حلالہ سے متعلق یہ جواب طلب تحریر اخبار: نوشتہ دیوار

halala-teen-talaq-fatawa-mujaddidiyah-naeemia-talaq-e-salasa-jamia-binori-town-dars-e-nizami-noor-ul-anwar-allama-tamanna-imadi-khula-reham-khan-imran-khan-usool-us-shashi-saleem-ullah-khan-mufti-akmal

فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ البقرہ 230
اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیدی تو وہ اس شوہر کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک کہ اس کے علاوہ دوسرے شوہر سے نکاح( وطی یعنی جماع) نہ کرے۔سید صاحب سے گزارش ہے کہ اس کی وضاحت کریں۔ جب تین طلاق کے بعد بھی انکے نزدیک رجوع ہوسکتا ہے تو اس آیت کا معنی کیا ہے؟۔یہ آیت قرآن کا حصہ ہے یا نہیں ہے؟۔ الطلاق مرتان طلاق دوبار ہے، جب شوہر نے دوبار طلاق دے دی تو رجوع کرسکتا ہے، عدت کے اندر بغیر تجدیدِ نکاح اور عدت کے بعد تجدیدِ نکاح کیساتھ۔چودہ صدیوں سے علماء کرام قرآن کی ان آیات مقدسہ کی اسی طرح وضاحت کرتے آئے ہیں آپ نے یہ کونسا اچھا کام کیا ہے کہ اللہ کے حرام کردہ کو حلال قرار دے رہے ہیں۔تین طلاق کے بعد رجوع حرام ہے اس کو جائز کہتے ہیں، آپ اللہ سے زیادہ حقوق نسواں کے خواہاں ہیں۔قرآن پاک میں جہاں جہاں آپ نے رجوع ثابت کیا ہے، اس میں کوئی ایک آیت بتائیں جس میں تین طلاق کے بعد رجوع ثابت ہو۔ آیت230میں جہاں رجوع سے منع کیا گیا اس کی وضاحت کرنے سے آپ نے گریز کیا، کیوں؟ ۔اگر آپ اس کی وضاحت کردیتے تو آپ کی ساری تحقیق (ریت کی دیوار) پر پانی پھر جاتا کیونکہ اس آیت میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر شوہر نے تیسری طلاق دیدی تو وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک کہ اسکے علاوہ دوسرے شوہر سے وطی(جماع) نہ کرے، تین طلاق کے بعد رجوع حرام ہے۔ اس موضوع پر احادیث مبارکہ غوث وقت مفتی اعظم سندھ مفتی عبداللہ کے فتویٰ فتاویٰ مجددیہ نعیمیہ میں ملاحظہ فرمائیں اور اپنے غلط فتویٰ سے رجوع کریں۔ ورنہ جتنے لوگ آپ کی وجہ سے گمراہ ہونگے انکا گناہ بھی آپکے سر ہوگا۔حدیث رکانہؓ جسکا ذکر سید عتیق الرحمن نے کیا ہے، اسکا جواب مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ نے دیا ہے کہ حضرت رکانہؓ کے والد نے طلاق البتہ دی تھی، طلاق البتہ ایک کو بھی کہتے ہیں اور تین طلاق کو بھی کہتے ہیں،راوی نے روایت بالمعنی کردی اور البتہ کو طلاق ثلاثہ کہہ دیا، اپنا مدعی ثابت کرنے کیلئے آپ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ایک حدیث ڈھونڈ لائے لیکن آپ کا باطل مدعی ثابت نہ ہوسکا۔جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا’’حق آگیا اور باطل ختم ہوگیا، بے شک باطل ختم ہونے والا ہے‘‘۔مفتی ریاض حسین صاحب
جناب مفتی محمد یوسف سابق ناظم مدرسہ دارالخیر گلشن اقبال کراچی نے کہا ہے کہ آپ کے رسالہ کا مطالعہ کیا ہے جس میں تین طلاق کے متعلق جو کچھ بھی آ پ نے لکھا ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب اور احمد جمال صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جزاکم اللہ خیراً کثیرا واحسن الجزاء

الجواب
ازسید عتیق گیلانی

محترم جناب حضرت مولانا مفتی ریاض حسین صاحب دامت برکاتکم العالیہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے دو ٹوک انداز میں آیات وسوالات کا انتخاب کیا۔اس شمارہ میں شامل جامعہ بنوری ٹاؤن کے فاضل کا بیان بھی ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
اللہ بذات خود اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وانزلنا الکتاب تبیانا لکل شئی ’’ہم نے کتاب کو ہر چیز کے واضح کرنے کیلئے نازل کیا ہے‘‘۔ علماء نے قرآنی وضاحتوں کی طرف ایک بار بھی دیکھا تو ان کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ جس آیت کو پیش کیا ہے تو سیاق وسباق دیکھنے کی اجازت ہے؟۔ کیا نبیﷺ نے تیسری طلاق مراد لیاتھا؟۔ کیا درسِ نظامی میں جو آپ پڑھاتے ہیں کہ اس کا تعلق اپنے متصل سے ہے وہ غلط ہے؟۔کیا آپ بتائیں گے کہ جواب سے مطمئن ہیں یا کونسی بات آپ کو دلیل کیساتھ ٹھیک نہ لگی؟۔
آیت230البقرہ میں بالکل واضح ہے کہ اس طلاق کے بعد عورت اس شوہر کیلئے حلال نہیں، جب تک کہ کسی دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے۔ آیت کا منکر کافر ہے۔ آیت229میں یہی ہے کہ الطلاق مرتٰن طلاق دو مرتبہ ہے۔ کوئی مسلمان یہ سمجھنے میں عار محسوس نہیں کرسکتاکہ قرآن کی آیت 229اور230کے جن الفاظ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ انکے درمیان کو زیرِ بحث لانے کی ضرورت ہے ۔ یہ بہت بڑی خیانت ہوگی کہ ضرورت موجود ہو لیکن اس سے آنکھیں چرائی جائیں۔ جاہل کے سامنے قرآنی آیات مقدسہ کی اہم ترین درمیانی کڑی کو چھوڑ کر فتویٰ دیا جائے تو وہ مفتی صاحب کا فتویٰ قابلِ اعتماد سمجھ کر سوچے سمجھے بغیر اپنی بیگم کا حلالہ کروانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
قرآن کے جو الفاظ جناب نے نقل کئے ہیں ،اگر اجازت ہو تو انکے درمیان کا معاملہ بھی قارئین کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ مسئلے میں بالکل بھی کوئی ابہام نہ رہے۔!
الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان فلایحل لکم ان تأخذوا مما اتیتموھن شئیا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم ان لا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاؤلٰئک ھم الظٰلمونOفان طقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ
’’طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روک لینا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو، مگر یہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے، اور اگر تمہیں یہ خوف ہو تو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر حرج نہیں کہ جو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں،پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیںOپھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ۔۔۔‘‘۔ البقرہ آیات 229اور230
جناب بتائیے کہ درمیان کی کڑی چھوڑ کر قرآن کے الفاظ سے مفہوم نکالنا درست ہے؟ جبکہ درسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی کتاب ’’ نورالانوار: ملاجیون‘‘ کے اندر یہ حنفی مسلک کا مؤقف ہے کہ آیت 230میں فان طلقہا کا تعلق اپنے متصل عورت کی طرف سے فدیہ کی صورت سے ہے اسلئے کہ ف تعقیبِ بلامہلت کیلئے آتا ہے اور اس وجہ سے اس کو الطلاق مرتان کیساتھ جوڑناغلط ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ فدیہ کی جو صورتحال بیان کی گئی ہے وہ کیاہے؟۔ تحقیق اور اجتہاد کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب قرآن و سنت میں کوئی مسئلہ یا صورتحال واضح نہ ہو، جبکہ قرآن میں صورتحال واضح ہے۔
آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد ایک صورت یہ ہے کہ معروف طریقے سے رجوع کرلیا جائے ۔ معروف رجوع میں میاں بیوی صلح کرلیتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تسریح باحسان اچھے طریقے سے چھوڑ دیا جائے۔ ایک صحابیؓ نے نبیﷺ سے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ تسریح باحسان تیسری طلاق ہے۔ اگردومرتبہ طلاق کے بعد عدت کے تیسرے مرحلے میں عورت کو چھوڑنے (طلاق ) کا فیصلہ کیا جائے تو اسی صورت کی اللہ تعالیٰ نے مزید وضاحت فرمائی ہے کہ ’’تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ،اس میں سے کچھ بھی واپس لومگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ (اس دی ہوئی چیز کے واپس کئے بغیر) دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور (اے فیصلہ کرنے والو!) اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے رشتہ دار سمجھ لیتے ہیں کہ اگرچہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی کسی چیزکا واپس کرنا حلال نہیں مگر جب یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز شوہر کو واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ، پھر اس چیزکو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں۔ مثلاً مکان میں شوہر نے بیوی کو ایک کمرہ دیا ، طلاق کے بعد عورت سے وہ کمرہ لینا جائز نہیں لیکن جب اتفاقِ رائے سے یہ خوف ہو کہ شوہر کے پاس مکان کے اس کمرے کو خریدنے کی صلاحیت نہیں۔ عورت نے کسی دوسرے سے شادی کرنی ہے،یہ کمرہ رابطے کا ذریعہ ہے اور دونوں پہلے سے ایکدوسرے سے لذت آشنا ہیں، اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف رکھتے ہیں تو اس کمرے کا عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں اللہ کی طرف سے دونوں پر حرج نہیں۔
اب مفتی ریاض حسین صاحب کو بتادینا چاہیے کہ کیاقرآن میں صورتحال واضح نہیں، کیا یہ قرآن کا حصہ نہیں، کیا عقل مانتی ہے کہ اس کو چھوڑ کر آیت230میں حلال نہ ہونے کا تصور لیا جائے؟ کیا اصولِ فقہ میںیہ حنفی مسلک درسِ نظامی کے نصاب میں نہیں پڑھایا جاتا ہے؟ کیا جو پڑھایا جاتا ہے یہ غلط ہے؟ اور کیا نصاب کو سمجھے بغیر مفتی باکمال سمجھا جائیگا؟۔بات میری بات نہیں ،بات ہے اللہ کی کتاب اور تیرے نصاب کی۔ میٹھے بھائی!
علامہ تمنا عمادی حنفی عالمِ دین تھے، اس نے اپنی کتاب ’’الطلاق مرتان‘‘ میں بہت تفصیل سے لکھ دیا کہ اصولی طور پر یہی صورت ہے جسے ’’خلع‘‘ کہتے ہیں کہ اسکے بعداگر طلاق دی جائے تو طلاق لینے کا قصور عورت کا ہوتا ہے اسلئے حلالہ کی صورت میں اس کو سزا دی جائے گی۔ یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے۔ غلام پرویز و دیگر لوگوں کیلئے یہ احادیث سے انکار کی بنیاد بن گئی حالانکہ مسئلہ طلاق پر کسی صحیح حدیث کے انکار کی ضرورت نہیں ۔
فقہ حنفی کے نصاب تعلیم میں جو موقف پڑھایا جاتا ہے کہ اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے تو یہی موقف علامہ ابن قیمؒ نے حضرت ابن عباسؓ کے حوالے سے بھی لکھا ہے کہ آیت230میں فان طلقہا فلاتحل لہ کا تعلق اس سے متصل فدیہ کی صورت سے ہے جب شوہر دومرتبہ طلاق دے اور پھر فدیہ ہی کی صورت بھی بن جائے۔ قرآن کو سیاق وسباق اور اصل مقام کے تقاضوں سے نہیں ہٹایا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ وہ شخصیت ہیں جسے رسول اللہﷺ نے قرآن کی تفسیر سمجھنے کی دعا کی اور لامحالہ آپﷺ کی یہ دعاقبول ہوئی ہے۔ (زادالمعاد: باب الخلع، جلد چہارم)
حنفی مسلک اور جمہور کا اس پر اختلاف ہے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد فدیہ کی صورتحال جملہ معترضہ ہے یاایک تسلسل کا کلام ہے۔ احناف کے نزدیک یہ تسلسل ہے فان طلقھا کی ف کا تقاضہ ہے کہ فدیہ سے یہ متصل ہو۔ اور جمہور کے نزدیک یہ جملہ معترضہ ہے اسلئے کہ اگر دومرتبہ طلاق دی جائے پھر خلع دیا جائے تو آیت230کی طلاق چوتھی طلاق بن جائے گی۔ اسکے جواب میں حنفی کہتے ہیں کہ خلع کوئی مستقل طلاق نہیں بلکہ دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق کیلئے ایک ضمنی چیز ہے۔ عورت فدیہ دے تو شوہر خلع دیتا ہے اسلئے قرآن میں چوتھی طلاق کا تصور لازم نہیں آئیگا۔( دیکھئے درسِ نظامی کی نورالانوار وغیرہ )
درسِ نظامی اور فقہ وتفسیر کی کتابوں میں فدیہ سے جو خلع مراد لیا گیا تو کیا دومرتبہ طلاق کے بعد بھی خلع کا تصور ہوسکتا ہے؟، یہ کتنا احمقانہ بحث مباحثہ ہے؟ ۔ یہ خلع ہوہی نہیں سکتا بلکہ عدت کے دومراحل میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کا فیصلہ کرنے کے بعد باہوش وحواس اس صورتحال کا ذکر ہے کہ شوہر نے جو چیزیں دی ہیں ان میں سے کوئی چیز واپس کرنا حلال نہیں البتہ جب دونوں کو اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو اس چیز کو فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں۔
جہاں تک خلع کا تعلق ہے تو اس کا واضح الفاظ میں ذکر سورۂ النساء کی آیت19 میں ہے۔ اگر امت مسلمہ کے زعما نے اقتدار اور دنیاوی معاملات ذہین لوگوں کے سپرد کردئیے اور سیدھے سادے اللہ والوں کو دین کا معاملہ سونپ دیا تو قصور سادہ خیلوں کا نہیں بلکہ امت کا ہے قرآن نے واضح کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قیامت کے دن امت سے یہ شکایت ہوگی ، جن میں عوام ،خواص، علماء ، مشائخ ، فقہاء، محدثین سب شامل ہیں۔
وقال رسول یا ربی ان قومی اتخذوا ھٰذالقرآن مھجوراً ’’ اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
طلاق وہ معاملہ ہے کہ جدائی کیلئے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف میاں بیوی بلکہ معاشرے کے افراد خاص طور پر رشتہ داروں کو بھی ایک واضح کردار دیا ۔ اسلئے یہ واضح کردیا ہے کہ جدائی کے بعد نہ صرف میاں بیوی بلکہ فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ دونوں اسکے بعد وہ دی ہوئی چیز واپس کئے بغیراللہ کے حدودپر قائم نہیں رہ سکیں گے تو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ یہ صورتحال حضرت ابن عباسؓ نے بھی واضح کی تھی اور فقہ حنفی کے اصول میں بھی اس کی وضاحت ہے، حضرت ابن عباسؓکا قول اورہمارا نصابِ تعلیم غلط ہے؟۔
اس صورتحال میں میاں بیوی کی طرف سے رجوع کا سوال پیدا نہیں ہوتا اسلئے کہ آئندہ بھی وہ رابطے کے خوف سے حلال نہ ہونے کے باوجود اس چیز کو فدیہ کررہے ہیں جس کے بغیر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو اور اللہ نے اس وجہ سے دونوں پر اس لین دین میں حرج نہ ہونے کی بھی وضاحت فرمادی لیکن ہوتا یہی تھا کہ ایسی طلاق کے بعد بھی پہلا شوہر عورت کو دوسرے شوہر سے اس کی مرضی پر نکاح نہ کرنے دیتا تھا۔ آج بھی معاشرے میں یہ صورتحال رائج ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ کوئی طلاق دے اور عورت اڑوس پڑوس اور قریب میں کسی اور سے نکاح کرلے مگر پہلا شوہر اس میں رکاوٹ اور بدمزگی پیدا کرنے سے گریز کرے۔ عمران خان نے ریحام خان کو طلاق دی اور وہ رجوع بھی نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اسکے باوجود میڈیا میں ریکارڈ پر ہے کہ ریحام خان کہہ رہی تھی کہ اپنی جان پر کھیل کر پاکستان آئی ہوں اسلئے کہ عمران خان کے جیالے پاکستان واپس آنے پر قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو طلاق دی لیکن دوسرے کیساتھ گھومنے کے بعد حادثہ ہوا تو آج تک اس پر قتل کا مقدمہ چل رہاہے کہ طلاق شدہ بیوی سے دوسرے شوہر کیساتھ گھومنا برداشت نہ ہوا ۔
قرآن میں نبیﷺ کی ازواج مطہرات امہات المؤمنینؓ کیلئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ کبھی ان سے نکاح نہ کرو، اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے‘‘۔ انسان ہی نہیں حیوانات اور پرندوں میں بھی یہ غیرت موجود ہوتی ہے کہ اپنی بیوی سے کسی دوسرے کا تعلق برداشت نہیں کرسکتے۔ اسی انسانی فطرت کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے ایک خاص صورتحال کی اچھی وضاحت کرنے کے بعدواضح کردیا کہ ’’پھراگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ قرآن وسنت کے سیاق و سباق سے ہٹ کر فتویٰ دینا غلط ہے۔تیسری طلاق تو تسریح باحسان ہے ۔نبیﷺ نے واضح فرمایا اور سمجھایا کہ پہلے طہر وحیض، دوسرے طہر وحیض اور طہرمیں تیسری طلاق ہے۔
پوری دنیا کیلئے یہ آیت ہدایت کا ذریعہ بن سکتی ہے کہ اسلام نے معاشرے پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ جہاں مرد کو طلاق کا حق دیا، وہاں عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کی اجازت بھی دیدی ۔ آیت کا اصل مدعی عورت کا اپنی مرضی سے دوسرے شوہر کیساتھ نکاح کرنے کی اجازت ہے تاکہ پہلے شوہر کی دسترس سے طلاق شدہ عورت باہر نکل جائے۔ حنفی مسلک میں یہ مفہوم پڑھایا جاتاہے مگرافسوس کہ استاذ اور شاگرد سمجھ نہیں رکھتے۔
درسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی پہلی کتاب ’’ اصول الشاشی‘‘ میں پہلا سبق یہ ہے کہ فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ میں عورت کو اللہ تعالیٰ نے نکاح کیلئے آزاد کردیا ہے جبکہ حدیث ہے کہ ’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے‘‘۔ اسلئے حنفی مسلک میں قرآن پر عمل کیا جاتا ہے اور حدیث قرآن سے متصادم ہو تو اس کو رد کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کے نکاح کو جائز قرار دیا جائے جبکہ جمہور کے نزدیک عورت کا نکاح جائز نہیں ہوگا۔
ایمانداری سے بتائیے کہ آیت میں یہ ہے کہ کنواری لڑکی بھاگ کر شادی کرلے تو اس کا نکاح جائز ہے، ولی اگر اس کو اجازت نہ دے، تب بھی نکاح ہوجائیگا اور نبی کریم ﷺ نے باطل، باطل اور باطل تین مرتبہ تاکید سے فرمایا ہو تو یہ آیت سے متصادم ہے؟۔ یا آیت میں واضح ہے کہ اگر شوہر نے باہوش وحواس طلاق دیدی ہو ، رجوع کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر اگر کسی اور شوہر سے شادی کرنا چاہتی تو پہلا شوہر رکاوٹ نہ ڈالے؟۔ اگر آیت میں ولی کا ذکر ہوتا تو پھر حدیث کو متصادم قرار دینا درست ہے لیکن آیت میں پہلے شوہر کا ذکر ہے تاکہ وہ اسکے دوسرے شوہر سے نکاح میں رکاوٹ نہ بن جائے۔
اس معاشرتی مسئلے کو قرآن نے جس طرح سلجھایا ، اس میں حلالہ کی لعنت کارستہ نہیں کھولا بلکہ یہ واضح کیا کہ پہلے بھی اس لعنت کا تصور غلط لیا گیا تھا اور قرآن نے ان آیات سے پہلے اور ان آیات کے بعد علی الاطلاق عدت کے اندر اور عدت کے بعد بہر صورت باہمی رضا اور معروف طریقے سے رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہے ۔
رفاعۃ القرظیؓ کی بیوی کے حوالے سے ہے کہ جب اس کو طلاق ہوئی ، طلاق بتہ ہوئی تو کسی اور سے نکاح کیا اور نبیﷺ سے عرض کیا کہ دوسرے شوہرکے پاس دوپٹہ کے پلو کی طرح چیز ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ کیا تو اسکے پاس لوٹنا چاہتی ہے؟ نہیں جب تک تو اس کا ذائقہ چکھ نہ لے اور وہ تیرا ذائقہ نہ چکھ لے‘‘۔ محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان ؒ صدروفاق المدارس پاکستان نے اپنی ’’ کشف الباری شرح صحیح بخاری‘‘ میں حنفی مسلک کے دالائل میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے لکھ دیا کہ ’’ یہ حدیث خبر واحدہے، اس سے قرآن کے الفاظ پر مباشرت ( وطی) کا اضافہ ہم نہیں کرسکتے، اسلئے کہ خبر واحد سے قرآنی آیت پر اضافہ کرنا جائز نہیں۔ البتہ حنفی مسلک میں نکاح کا معنی ہی مباشرت (وطی) ہے اسلئے ہم مباشرت مراد لیتے ہیں‘‘۔
اصولِ فقہ میں ہے کہ حنفی مسلک میں نکاح مباشرت کا نام ہے چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز ؟۔ جمہورکے نزدیک حلالہ کی لعنت سے عورت سابق شوہر کیلئے جائز نہ ہوگی لیکن 900سال کے بعد حنفی فقہاء نے یہ دریافت کرلیا کہ جب تک زبان سے حلالہ کی نیت نہ کی جائے تو نیت معتبر نہ ہوگی اور حلالہ لعنت نہ ہوگا۔ اور یہی نہیں بلکہ غیر معروف اور غیر معتبر مشائخ اور کتابوں کے حوالہ جات نقل کرکے لکھ دیا کہ ’’ اگر نیت دونوں خاندانوں کو ملانے کی ہو تو حلالہ سے ثواب بھی ملے گا‘‘۔ علامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ھمام حنفی کی وفات 950ھ اور 980ھ ہجری میں ہوئی ہے۔ اہلسنت والجماعت کی اشاعت نمبر100 میں ’’طلاق ثلاثہ اور حلالہ‘‘ کے عنوان سے جس ہرزہ سرائی کا ارتکاب کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ حلالہ کو بے غیرتی کہنا ان لوگوں کا وطیرہ ہے جنکے ایمان وایقان کی جگہ بے غیرتی نے لی ہو‘‘۔ کیا اسکا اثر حدیث پر نہیں پڑتا ،جس میں حلالہ کی لعنت کرنیوالے کو کرایہ کا بکرا کہا گیا ہے؟۔ اسی کتاب میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ غیرت کی قلت کی وجہ سے ہی حدیث اس کو شخص کو کرایہ کا بکرا قرار دیا گیا ہے۔
مفتی محمد اکمل صاحب کی ویڈیو نیٹ پر دستیاب ہے، جس میں حلالہ کو امام ابوحنیفہؒ کی طرف سے باعثِ ثواب قرار دیا ہے۔ حالانکہ کسی حدیث میں بھی یہ فتویٰ نہیں دیا گیا ہے کہ میاں بیوی کا رجوع نہیں ہوسکتا اور حلالہ کی بنیاد پر اتفاقِ رائے تھی کہ ناجائز ، لعنت اور حرام ہے۔ہاں جب فقہ حنفی کے فقہاء نے حرمتِ مصاہرت کے خود ساختہ مسائل گھڑنے شروع کئے تو نکاح کو جماع (وطی) قرار دیا گیا اور اس میں زنا، ناجائز اور جائز مباشرت کو نکاح قرار دیا گیا تو حلالہ کی لعنت کو بھی ناجائز ہونے کے باوجود اس کے ذریعے سے دوسرے شوہر کیلئے حلال ہونے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ کیونکہ حنفی مسلک میں ناجائز اور زنا پر نکاح کا اطلاق ہوتا ہے۔ باقی مسالک میں حلالہ سے عورت پہلے شوہر کیلئے جائز بھی نہیں۔امام ابوحنیفہؒ نے بھی جائز نہ کہا۔
حرمت مصاہرت کے غلط مسائل ہی بعد میں گھڑے گئے ۔ قرآن میں حرمت مصاہرت کی ایک صورت کیلئے بہت واضح الفاظ میں نکاح اور اسکے بعد دخول کا ذکر ہے۔ عوام کے سامنے مفتی صاحبان من گھڑت مسائل سے بھی گھبرا جائیں گے، طلاق کا معاملہ بھی بڑا بھیانک ہے۔
قرآن میں طلاق کا مقدمہ سورۃ البقرہ آیت224 سے شروع کیا گیا ۔ حنفی مسلک کی سب سے معتبر فتاویٰ کی کتاب ’’ قاضی خان ‘‘ میں ہے کہ ’’ ایک شخص نے بیوی سے کہا کہ اگر تیری ۔۔۔ میری ۔۔۔ سے خوبصورت نہیں تو تجھے طلاق، عورت نے کہا کہ اگرمیری ۔۔۔ تیری ۔۔۔ سے خوبصورت نہ ہو تومیری لونڈی آزاد۔ امام ابوبکر بن فضل نے کہا کہ کھڑے ہونے کی صورت میں مرد کی طلاق واقع ہوگی اور بیٹھنے کی صورت میں عورت کی لونڈی آزاد ہوگی ۔ اگر مرد کھڑا ہو، عورت بیٹھی ہو تو مجھے بھی پتہ نہیں مگر مناسب یہ ہے کہ دونوں حانث ہوں اسلئے کہ دونوں نے یمین سے شرط بریت رکھی ہے۔( فتاویٰ تاتارخانیہ سرکی روڈ کوئٹہ)
اس عبارت کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ طلاق سے بھی یمین مراد لیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت224میں فرمایا کہ ’’ اللہ کو اپنے یمین کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی کرو،تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘‘۔
اس آیت سے یہ ثابت ہے کہ میاں بیوی کیلئے اللہ نے کوئی بھی ایسی صورت نہیں رکھی کہ اللہ کے نام پر صلح کا دروازہ بند کیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایلاء کی صورت میں چار ماہ تک صلح کا دروازہ کھلا رکھا مگر اسکے بعد بھی صلح پر پابندی نہیں لگائی ہے۔ عدت کا تقرر نہ ہو تو طلاق کے بعد عورت کے انتظار کا بھی پتہ نہیں چلے گا۔ پھر اسکے بعد اللہ نے طلاق کی عدت تین قروء ( طہرو حیض ) بتائی ہے۔ پھر اس میں صلح کی شرط پر رجوع کی وضاحت کی ہے اور پھر اللہ نے عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کو واضح فرمایا۔ جس کی بخاری کی احادیث میں مزید وضاحت بھی ہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے کہ’’ عدت میں صلح کی شرط پر رجوع شوہر کا حق ہے‘‘ ، دوسری آیت میں کہے کہ نہیں عدت میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا؟ اور شوہر کے بجائے مفتی صاحب کو حلالہ کیلئے حوالہ کرنا ہوگا؟۔
قرآن کا دعویٰ ہے کہ اس میں تضاد نہیں ،اس کو اللہ نے ہر چیز کے واضح کرنے کیلئے نازل فرمایا تو کیا طلاق کا مسئلہ اللہ نے ان ساری آیات کے باوجود بھی واضح نہیں کیا ہے؟۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ خبر واحد سے جس حلالہ کو ثابت کیا جارہاہے، اس میں وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرچکی تھی۔ پہلے شوہر نے عدت میں مرحلہ وار تین طلاقیں دی تھیں، اس کی طلاق بتہ ہوچکی تھی یعنی وہ اپنے شوہر سے تعلق منقطع کرچکی تھی۔ بخاری میں ہے کہ فبتہ طلاقی ’’ پھر میری طلاق منقع ہوچکی تھی‘‘اسکے معنی یہ نہیں کہ ایک طلاق بھی مراد ہوسکتی ہے اور تین طلاق بھی ۔
ابوداؤد شریف کی روایت میں یہ وضاحت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے کہا گیا کہ وہ تین طلاق دے چکا ہے ، جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور آپ ﷺ نے سورۂ طلاق کی تلاوت فرمائی۔ سورۂ طلاق میں عدت کے اندر مرحلہ وار طلاق اور عدت گننے کا حکم ہے۔ عدت کے اندر بھی رجوع کی گنجائش کا ذکر ہے اور عدت کی تکمیل پر بھی اور عدت کی تکمیل کے بعد ہمیشہ کیلئے اللہ نے راستہ کھلا رکھا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیات 224سے 232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات کا متن دیکھ لیجئے گا۔
اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر جہاں صلح کی گنجائش کا ذکر کیا ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ صلح کے بعد یہ گنجائش ختم ہوجاتی ہے بلکہ عدت سے شوہربیوی کے درمیان صلح کیلئے لازمی پیریڈ رکھا گیا ہے۔ صلح کیلئے باہمی رضاضروری قرار دی ہے اور جہاں بھی رجوع کرنے کی اجازت ہے وہاں معروف طریقے سے رجوع کی وضاحت ہے۔ معروف طریقہ باہمی صلح اور رضامندی ہے۔ لیکن فقہاء نے جن منکر صورتوں کا ذکر کیا ہے انسان حیران وپریشان ہوجاتا ہے کہ قرآن کو چھوڑ کر کس اندھیر نگری میں دور کی گمراہی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔
نبی کریم ﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ ، ائمہ مجتہدین ؒ ، محدثینؒ اور پہلے کے فقہاء میں سے کسی نے بھی حلالہ کا فتویٰ نہیں دیا ۔ اب رہ گیا بہت بعد کے دور کا مسئلہ تو حلالہ کی لعنت سے انکے مقام ومرتبہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اسلئے کہ اگرچہ نبیﷺ نے اس کو لعنت اور کرائے کا بکرا بھی قرار دیا تھا۔ یہ بھی اس دور کی بات ہے جبکہ قرآن کی واضح آیات نازل نہیں ہوئی تھیں۔ سورۂ مجادلہ میں ظہار کی صورتحال بھی بعد میں واضح ہوئی، اسی طرح یہ بھی کہ سورۂ احزاب میں مزید تنبیہ کیساتھ ظہار و منہ بولے بیٹے کا مسئلہ واضح کیا گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے شجرہ ممنوعہ کے پاس جانے سے روکا۔ جب شیطان نے دونوں کو ورغلایا تو حضرت آدم علیہ السلام و حواء علیہا السلام نے عرض کیا کہ ہم نے اپنے ارادہ واختیار سے ایسا نہ کیا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کے مقام پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو بعد کے بزرگوں کے مقام ومرتبہ پر بھی اثر نہ پڑتا ہوگا۔ البتہ معاملہ واضح ہوجانے کے بعد اس عمل سے اجتناب نہ کرنا اور قرآنی آیات سے انحراف کرنا دنیا وآخرت کی پکڑ کا باعث ہوسکتا ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
اہلحدیث ، اہل تشیع، غلام احمد پرویز، جاوید غامدی، ڈاکٹر ذاکر نائیک ، علامہ تمنا عمادی اور دیگر تمام لوگوں کے مقابلے میں طلاق کے حوالے سے درسِ نظامی کے نصاب سے استفادہ کرنیوالا طالب عتیق گیلانی تمام اہل حق کیلئے اعزاز ہے۔ افسوس ہے کہ ہم نے قرآن کے احکام سے متعلق کبھی آیات پر غور ہی نہ کیا ۔ کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جو قرآن کے منافی اور میاں بیوی کیلئے رجوع سے رکاوٹ ہو۔ بخاری میں اہل فارس کے فرد یا چند افراد کا ذکر ہے جو علم، ایمان اور دین کو ثریا سے واپس لانے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔درسِ نظامی کے علماء کرام میرے محسن ہیں، بریلوی دیوبندی نصاب ایک ہے ، سب امت کو انقلاب کی طرف لایا جائے۔ خواتین کو عزتیں لٹانے پر مجبور کرنیوالا طبقہ انشاء اللہ جلد آنکھ کھلنے کی نوید سنادیگا۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں