پوسٹ تلاش کریں

حامد میر کا پروگرام ماند پڑا تو آقاؤں نے سوات ،وزیرستان اور افغانستان سے فلسطین تک کے مسافرکو نئی ذمہ داری تو نہیں سونپ دی ؟۔ لوگ معمولی گروپوں سے جان کی بازی ہار گئے اور یہ آئی ایس آئی (ISI) ،اسرائیل اورسی آئی اے (CIA) سے بھڑگئے؟؟

حامد میر کا پروگرام ماند پڑا تو آقاؤں نے سوات ،وزیرستان اور افغانستان سے فلسطین تک کے مسافرکو نئی ذمہ داری تو نہیں سونپ دی ؟۔ لوگ معمولی گروپوں سے جان کی بازی ہار گئے اور یہ آئی ایس آئی (ISI) ،اسرائیل اورسی آئی اے (CIA) سے بھڑگئے؟؟ اخبار: نوشتہ دیوار

hamid meer, journalists in Pakistan, ISI, geo tv, osama billadin, mulla umer

حامد میر کا پروگرام ماند پڑا تو آقاؤں نے سوات ،وزیرستان اور افغانستان سے فلسطین تک کے مسافرکو نئی ذمہ داری تو نہیں سونپ دی ؟۔ لوگ معمولی گروپوں سے جان کی بازی ہار گئے اور یہ آئی ایس آئی (ISI) ،اسرائیل اورسی آئی اے (CIA) سے بھڑگئے؟؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

یہی وہ حامد میرہے کہ جس نے القاعدہ اور طالبان کے نام صحافت کی دنیا میں نام پیدا کیا اور آخر کار کہا کہ یہ سب امریکہ کی سازش تھی جس کی پہلی مجرمہ بینظیر بھٹو تھی،آئی ایس آئی (ISI) بعد میں آئی!

موسی خانخیل کو سوات میں شہید کیا گیا مگر جب حامد میر کو بہت بعد میں گولیاں ماری گئیں تو اس نے کہا کہ طالبان نے مجھے نہیں مارا بلکہ آئی ایس آئی (ISI)نے مارا ہے۔ کیاآئی ایس آئی (ISI) واقعی اتنی ہی کمزور ہے؟

قائداعظم محمد علی جناح کا مشہور جملہ ہے کہ ” مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے”۔ علامہ اقبال نے باغی مرید کی بغاوت کو بہت اچھا پیش کیا تھا کہ
ہم کو تومیسر نہیں مٹی کا دیا بھی گھر پیر کا چراغوں سے ہے روشن
ہندوستان سے گدھا گاڑیوں اور پیدل آنے والے لٹے پٹے اور بچے کچے مسلمانوں پر قاتلانہ حملے ہورہے تھے۔ کچھ نے جانیں اور عزتیں بھی گنوادیں اور گھر بار، خاندان ، زمینیں اور وطن کی قربانیاں دیدیں تو ایسے مہاجرین کیلئے بانی پاکستان کا مشہور جملہ ایک سہارا بنتا تھا۔ انگریز نے جب مغربی اور مشرقی بنگال کو الگ الگ انتظامی صوبہ بنایا تو ہندوؤں نے اسکے خلاف تحریک شروع کردی تاکہ مسلمان انکے چنگل سے آزاد نہ ہوسکیں۔ حالانکہ پنجاب سے سرحد الگ انتظامی صوبہ بنایا گیا۔ مسلم لیگ اور پاکستان کی بنیاد بنگال سے شروع ہوئی۔ پھر پاکستان کو بنگالیوں کے ہاتھوں انتہائی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان دو بنیادوں پر بنا تھا ،ایک مسلم اقلیت کو ہندو اکثریت سے تحفظ دینا اوردوسرا اسلام کے عملی نفاذ ۔ جب بنگلہ دیش ہم سے جدا ہوا تو یہ بنیاد ختم ہوگئی کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے۔ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر۔ بنگالی آزادی کے بعد زیادہ خوشحال ہوگئے۔ جب پاکستان نے افغانستان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیاتو اپنے نظرئیے کی تابوت میں آخری بھی ٹھونک دی۔
امریکہ کے جس جہادی نظرئیے سے روس کاخاتمہ کردیاتو ان مجاہدین کو پھر دہشت گردی کے نام سے ختم کرنے کیلئے امریکی پٹھو کا کردار ادا کیا گیا۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آخر کار پاک فوج نے خطرناک محاذِ جنگوں پر ان دہشتگردوں کا مقابلہ کیا جن کے آگے ہماری قوم اپنی ہمت ہار چکی تھی۔ طویل مدت کی جدوجہد کے بعدامن وامان کی فضاء بحال ہوگئی تو نوازشریف نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے پارلیمنٹ ، عدالت اور میڈیا کا انتہائی غلط سہارا لینے کی کوشش کی اور پاک فوج کو بدنام کرنے کیلئے زبردست مہم جوئی کا آغاز کردیا ہے۔
سورۂ کہف قرآن میں چند جوانوں کا قصہ ہے جن کی چھوٹی سی جماعت نے اپنے وقت کے ظالم اور باطل حکمرانوں کے سامنے حق کی آواز بلند کردی تھی اور پھر ان کو اللہ نے غار میں سلادیا تھا جن کا کتا غار کے کنارے ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ جب وہ نیند سے بیدار ہوگئے تو بڑی مدت گزر چکی تھی اور سارا نظام بھی بدل چکا تھا۔ جب کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسکے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ پہلے وقتوں میںآواز کو دبادیا جاتاتھا لیکن یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ حامدمیر نے وائس آف امریکہ کو جو انٹرویو دیا ہے جو سوشل میڈیا پر بہت بڑا معاملہ بناکر پیش کیا جارہا ہے جس میں پاک فوج پر بندے مارنے ، اغواء کرنے اور گھروں میں گھس کرمارنے کا معاملہ اٹھایا ہے اور کہاہے کہ ہم بھی بتائیںگے کہ کس کی بیوی نے کس کو گھر میں گولی ماری تھی اور جنرل رانی کون تھا؟۔ جب مجھے گولیاں ماری گئیں تو ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا تھا کہ پیناڈول کی گولیاں کھائی ہیں۔
حامدمیر بڑے صحافی ہیں لیکن یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ حق کی آواز اُٹھ رہی ہے یا پھر ملی بھگت ہے۔ کسی جنرل کی بیگم نے کسی کو گولی ماری ہے تو ایسے رومانس سے ہر طبقے کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ جنرل ایوب، یحییٰ اور ضیاء الحق سے پرویز مشرف اور قمر جاوید باجوہ تک سب کا اپنا اپنا کردار ہے ،البتہ سیاست اور صحافت کو بھی اپنی تاریخ پر نظر کرنی چاہیے۔ جنگ گروپ کا بڑا صحافی جسکے کالم ریاست اور حکومت کی پالیسی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ افغانستان کیخلاف امریکہ کو پاکستان میںاڈوں کی ضرورت تھی تو ارشاد احمد حقانی نے لکھا تھا کہ ” پاکستان اپنے مالی مفاد کیلئے امریکہ کو اڈے دے،ورنہ تو بھارت بھی اڈے دیدے گا”۔ میںنے اپنے اخبار ضرب حق میں لکھا کہ ”اگر ہندو اپنی بیوی کی عزت لٹوانے کیلئے کرائے پر دے تو کیا مسلمان کو بھی بے غیرتی کا اقدام اٹھانا چاہیے؟”۔ پھر ہوا کیا کہ ”میرا گھر تباہ کیا گیااور 13بندے دہشتگردوں نے شہید کردئیے۔ استاذ العلماء مولانا فتح خان نے فرمایا کہ یہ وہ شہداء ہیں جن کو نہلانے کی ضرورت تو دور کی بات اگر چہروں پر گرد وغبار بھی پڑا تو وہ بھی نہیں ہٹایا جائے”۔ جنگ فورم میں ” مذہبی انتہائی پسندی اور پاکستان کا مستقبل” کے عنوان سے میں (2003عیسوی) میں مہمان تھا اور پروگرام چھپا ۔ (2004عیسوی) میں جیو کیلئے میراپروگرام ریکارڈ کیا گیا تھا مگر نشر نہیں کیا گیا تھا۔ اسکے باوجود روزنامہ جنگ میں خبر لگی تھی کہ پولیٹیکل ایجنٹ سیدامیر الدین شاہ کے گھر پر طالبان کا حملہ (14)فراد ہلاک۔ طالبان مخالف قبائلی رہنما پیر عتیق کا طالبان نے پوچھا اور پھر حملہ کردیا۔ خبر
حامد میر اس وقت ٹوپی ڈرامہ پہن کر القاعدہ اور طالبان کا خاص بندے کا کردار ادا کرتا تھا۔ پرویزمشرف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیپلزپارٹی کے دور میں اے ٹی وی (ATV) نیوز پر جو پی ٹی وی (PTV)کا چینل ہے حامد میر نے کہا کہ طالبان امریکہ کے کہنے پر بینظیر بھٹو نے بنائے اورآئی ایس آئی (ISI) اسکے بعد کھیل کا حصہ بن گئی تھی۔ کیا یہ پاک فوج اور آئی ایس آئی کے مفاد کی بات نہیں تھی؟۔ پھر نوازشریف کے دور میں حامد میر پر حملہ ہوا تو آئی ایس آئی (ISI) چیف جنرل ظہیر الاسلام کی بڑی بھیانک تصاویر جیو چینل پر چلائی گئیں کہ یہ حامد میر کا قاتل ہے۔ حالانکہ آئی ایس آئی (ISI)کو حامد میر کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ امریکہ کا سارا کھیل بینظیر بھٹو کے کھاتے میں ڈال دیا۔
جب بلیک واٹر نے یہاں بندے بھرتی کئے تھے تو طارق اسماعیل ساگر نے کافی عرصے بعد بتایا کہ روات راولپنڈی میں اس کا مرکز تھا۔اربوں ڈالر سے بدمعاش رکھ لئے تھے جن میں جرائم پیشہ پولیس اور فوج کے بھگوڑے بھی شامل تھے۔ ایسے افراد اپنے ملکی اور غیرملکی ایجنسیوں کیلئے کام کرتے ہیں۔ حامد میر نے گولیوں کا الزام آئی ایس آئی (ISI) پر لگایا اور جنرل باجوہ نے اس گروپ کا نام بھی بتادیا اور حامد میر سے کہا کہ آپ رپورٹ درج کریں۔ میں تحقیقات کرواتا ہوں اور ہمیں ان سامنے بیٹھے ہوئے صحافیوں کا بھی پتہ ہے کہ کس ملک کے سفارت خانے میں کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔ رسول اللہ ۖ کے دور میں منافقین نے وہ کردار ادا کیا تھا جس کی تاریخ اس گئے گزرے دور میں بھی دہرائی جارہی ہے۔
قارئین ! اس بات کو یاد رکھیں کہ میڈیا کی خبر اور مہم جوئی میں بڑا فرق ہے۔ جب پیپلزپارٹی اقتدار میں تھی تو جیو اور جنگ مہم جوئی کے ذریعے پیپلزپارٹی کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑی تھی۔رونامہ جنگ میں بڑی لیڈ چھپ گئی کہ وزیرمذہبی امور مولانا حامد سعید کاظمی نے حج اسکینڈل میں کرپشن کا اعتراف کرلیا۔ اسی روز شام کو حامد کاظمی نے حلفیہ بیان میڈیا پردیا تھا کہ ایک پائی کی بھی کرپشن نہیں کی۔ پھر نوازشریف نے ان جرائم کا اعتراف پارلیمنٹ اور میڈیا پر کیا جس سے دنیا واقف ہے مگر جیو اور جنگ نے ن لیگ کو بچانے کیلئے مہم جوئی کی انتہاء کردی۔
میڈیا کی یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک وکیل کی طرح بھاڑہ لیکر کسی ایک سیاسی پارٹی کی وکالت اور ریاست کی مخالفت کرنے میں مہم جوئی کا کردار ادا نہیں کرسکتا ہے۔ اگر جنگ و جیو یہ کام نہ کرتے تو پاک فوج کی حمایت کیلئے کسی صحافی اور چینل کو دلالی کی ضرورت نہیں تھی، جو لوگ ضرورت سے زیادہ اپنی اوقات دکھاتے ہیں تو عوام کے اندر کی کوئی اوقات نہیں رہتی ہے۔ خوف یہ ہے کہ حامد میر کو بہادری کے نام پر مشہور کرکے نئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی ہو۔ مولانا فضل الرحمن کو اسامہ بن لادن سے حامد میر نے دھمکانے کی کوشش کی تھی اور مولانا عطاء الرحمن سے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کو میں جی ایچ کیو (GHQ) لیکر گیا تھا۔ اس وقت حامد میر روزنامہ اوصاف اسلام آباد کا ایڈیٹر تھا۔ جیو اور جنگ صحافت کے امام ہیں۔ جس ایشو کو جس طرح مرضی ہو عوام میں گھمادیتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ماہنامہ ضرب حق نے بھی اصحاب کہف کا کردار ادا کیا ہے۔
حامد میر نے جنگ میں لکھنا شروع کیا تو پہلے ایک آنٹی کا لکھ دیا کہ اس نے بھارت سے مجھے پیغام دیا ہے کہ میری کوکھ سے ہندوؤں نے اپنے بچے جنوالئے ہیں۔ خدا را! میرا بدلہ لینا۔ ماہنامہ ضرب حق میں جواب لکھا تھاکہ حامدصاحب ! خدا کا نام مانو۔ پھر جیو اور جنگ نے ترقی کرلی اور امریکی سی آئی اے سے شاید بڑا لنک ہوگیا۔ امریکہ کے اس بیان کو مہم جوئی کے طور پر پیش کیا کہ اگر” اسامہ کا پاکستان کو پتہ تھا توآئی ایس آئی (ISI)کی سازش تھی اور پتہ نہیں تھا تو یہ اس کی نااہلی ہے”۔ ہم اس وقت اصحاب کہف کی طرح غار میں تھے تو مسیج کے ذریعے میڈیا کو یہ پیغام دیا کہ ”نائن الیون (9/11) کا واقعہ امریکی سی آئی اے کی سازش تھی یا نالائقی؟۔ اگر سازش تھی تو اسامہ کو چھپانے سے یہ بڑی سازش تھی اور اگر نالائقی تھی تو پھر آئی ایس آئی (ISI)سے یہ زیادہ بڑی نالائقی تھی”۔ صرف جیو نیوز نے ہمارے مسیج کو اہمیت نہ دی ۔ بہت سارے چینل نے اس کو مہم جوئی کے طور پر چلایا۔ سوال اُٹھتا ہے کہ جیو کو پاکستان کی آئی ایس آئی (ISI)سے زیادہ امریکی سی آئی اے (CIA) سے پیار ہے یا پھر اس کا تنخواہ دارہے؟۔
کس جنرل کو کس رانی نے گھرمیں گولی ماری؟۔ حامدمیر بہت قریب تھے اسلئے رومانوی معاملات کا پتہ ہوگا لیکن کیا انگریز کے وقت سے متحدہ ہندوستان کی فوج کی باقیات سے آج تک اس ادارے کے افراد نے جو کچھ کیا ہے اسکا ذمہ دار پورا ادارہ ہے؟۔ یزید کا طعنہ مسلمانوں اور چنگیز خان و ہلاکو خان کا طعنہ ارتغرل غازی سے لیکر طیب اردگان کو دیا جاسکتا ہے؟۔ ہاں بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈالنے سے اپنے ملک میں کرپشن کرنے تک کے معاملات پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ کوئی نیا ٹوپی ڈرامہ ہوسکتا ہے۔ جب ریمنڈ ڈیوس کی طرح اپنابھاؤ بڑھانے کے بعد پاکستان امریکہ کو اڈے استعمال کرنے کی اجازت دیگا اور پھر حامد میر جیسا اسٹیبلیشمنٹ مخالف بھی ان اڈوں کی فراہمی کو مجبوری قرار دے گا اور اسکے خلادف جہاد کی بھرپور حمایت بھی کرے گاتو یہ امریکہ اور آئی ایس آئی (ISI) کے مشترکہ کھلاڑی کیلئے میڈیا کی دنیا میں مقبولیت کا ایک گھناؤنا کھیل بھی ہوسکتا ہے۔
حامد میر نے کہا کہ اسٹیبلیشمنٹ نے پیپلزپارٹی کو ان ہاؤس تبدیلی میں لگایا اور ن لیگ کو پارلیمنٹ سے باہر تبدیلی کے جھانسے میں رکھا اور مولانا فضل الرحمن کو کہیں اور لگادیا ۔ حکومت کو بچانے میں سب کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔
حامدمیر کا یہ بیان ن لیگ کی سیاست کو سیف راستہ دینے کی کوشش ہے۔ پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم (PDM) سے اسلئے نکالا گیا کہ عمران خان کی حکومت کو گرانے کی تحریک ن لیگ کا مقصد نہیں رہاہے۔ پنجاب اور مرکز میں مریم نواز نے عمران خان کو وقت دینے کا کھل کر اظہار کیا اور لانگ مارچ میں بھی کارکنوں سے پی ڈی ایم (PDM) نے ہاتھ کرلیا۔ جس میں کوئی ابہام نہیں ہے تو پیپلزپارٹی کو رکھنے یا ساتھ نہ رکھنے کی بات کا کوئی سینس نہیں بنتا ہے۔ ن لیگی دسترخوان پر مولانااور نام نہاد اتحادی جماعتیں اپوزیشن کے نام پر بسکٹ توڑنے کا کام کریں گی۔
پاکستان کے کسی حصے میں بھی انصاف کا نظام ، پولیس کا نظام، فوجی کاروبار کا نظام ، سیاست کا نظام ، مذہبی جماعتوں کا نظام ، سول انتظامیہ کا نظام ، تجارت کا نظام اور تمام سرکاری و پرائیوٹ اداروں کا نظام بہت خراب حالت میں ہے۔ مولانا عطاء الرحمن نے سینٹ میں کہا کہ عورتوں کو حقوق مل گئے تو مردوں کو اب کون حقوق دے گا؟۔ مریم نواز اگر کیپٹن صفدر کو اپنے حق سے محروم کررہی ہو اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑ رہا ہو۔ مولانا صاحبان کو بھی اپنی بیگمات سے حقوق مانگنے کی شکایت ہورہی ہو تو کیپٹن صفدر کی قیادت میں مردوں کے حقوق کی بحالی کیلئے ایک تحریک کا آغاز کردیں۔ جس میں پختونوں کے اندر کم قیمت پر رشتہ ملے۔ پنجاب میں زیادہ سے زیادہ جہیز ملنے کی مہم چلائی جائے اور شریعت کے نام پراپنی طرف سے علماء ومفتیان نے جو عورتوں کے حقوق غصب کرکے رکھے ہیں تو مردوںکو مزید حقوق دئیے جائیں۔ وفا ق المدارس کے قاری محمدحنیف جالندھری نے عدالتوں سے عورتوں کو خلع ملنے کیخلاف احتجاجی تحریک کا اعلان مولانا عبدالغفور حیدری کی موجودگی میں کیاتھا لیکن ہمت نہیں کرسکے۔
مولانا فضل الرحمن کی قوم کوچوں میں منگیتر کیساتھ رخصتی سے پہلے تعلقات قائم کئے جاتے تھے، جب عورت کو حمل ٹھہر جاتا تھا تو رخصتی اور شادی کی تاریخ طے ہوجاتی تھی اور جب منگیتر سے تعلقات کی کوشش میں مرد پکڑا جاتا تھا تواس کی لکڑیوں سے بہت بری طرح پٹائی کی جاتی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ اب کیمرے لگائے گئے ہوں اور مولانا عطاء الرحمن کی قوم کے مرد مصیبت میں ہوں اسلئے وہ حقوق دلانے کے مستحق ہیں۔ جب اسلامی تعلیمات کے شعور کا معاملہ اجاگر ہوگا تو سبھی کو اپنے اپنے فرائض وحقوق چاردیواری کے اندر اور باہر ضرور ملیں گے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں