پوسٹ تلاش کریں

پاکستان میں سب سے اہم مسئلہ پانی کا ہے مگر ارباب اختیار کی توجہ نہیں۔ پبلشر نوشتۂ دیوار اشرف میمن

پاکستان میں سب سے اہم مسئلہ پانی کا ہے مگر ارباب اختیار کی توجہ نہیں۔ پبلشر نوشتۂ دیوار اشرف میمن اخبار: نوشتہ دیوار

pervez-musharraf-kala-bagh-dam-pakistan-kishanganga-dam-inauguration-by-India-violation-jam-kando-bhains-colony-karachi-establishment-of-pakistan
پنجاب میں فیکٹریوں کی آلودہ پانی سے موذی امراض پھیل رہے ہیں۔ پشاور میں کارخانو مارکیٹ کا متعفن پانی حیات آباد جیسے علاقے میں بدترین آلودگی پھیلارہا ہے۔ بلوچستان ، سندھ اور کراچی میں پانی کا بحران ہے ۔ جنوبی افریقہ کے ترقی یافتہ علاقہ کیپ ٹاؤن میں پانی کی قلت سے ایک بڑا بحران پیدا ہوا۔ پاکستان کے پاس ایک ماہ کا ذخیرہ کرنے سے زیادہ پانی نہیں ۔ سیاست اور حکومت پر قبضہ کرنے کے خواہشمند تاجر اور کھلاڑی قیادت کو احساس نہیں ہے کہ آنیوالے وقت میں پاکستان کھنڈر بن جائیگا۔
عبوری حکومت اپنی کابینہ میں ٹیکنوکریٹ شامل کرکے پانی کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ نے خواتین کی اضافی نشستیں رکھی ہیں تو آج مذہبی اور سیاسی جماعتیں خواتین کو ٹکٹیں دینے کی بات کر رہی ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں کالا باغ ڈیم بن جاتا تو آج پانی کا مسئلہ پیش نہ ہوتا۔ بھارت بار بار شرارت کی داستان رقم کررہا ہے مگر ہم اتنی ہمت نہیں کرسکتے کہ اسکے پانی کے ڈیم کو ایک میزائل ماردیں۔ پورا پنجاب بھارت نے بنجر کردیا ہے اور کشمیر پر مظالم و غاصبانہ قبضے کے باوجود امریکہ کے ساتھ ملکر پاکستان کیخلاف سازش کررہا ہے۔
ہماری ریاست اتنی کمزور ہے کہ اپنے ہاں بھی ہم ڈیم نہیں بناسکتے۔ کالاباغ ڈیم تمام چھوٹے بڑے ڈیموں کی ماں ہے۔ کالاباغ ڈیم کے بغیر سندھ کو آباد کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر اصحاب اقتدار کے پاس دل و دماغ ہوتا اور اس میں قوم و ملک کیلئے مثبت سوچ کی گنجائش ہوتی تو نہ صرف کالاباغ ڈیم بنتا بلکہ اٹک سے ٹھٹھہ تک پورے دریائے سندھ میں ڈیم کی شکل میں پانی جمع کیا جاسکتا تھا۔ سازشی عناصر بلیک میلنگ اور قومی خزانہ لوٹنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ملک و قوم اور عوام کیلئے کوئی کام نہیں کرتے۔
گاؤں دیہاتوں میں جہاں پانی ذخیرہ کرنے کی عوام کو ضرورت ہوتی ہے تو چھوٹے چھوٹے نالوں میں بھی پانی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ تحصیل ، ضلع اور ڈویژن کی سطح پر بھی دریائے سندھ کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا اہتمام ہوتا تو طوفانوں کا پانی ضائع ہونے کے بجائے غریب عوام کو کام آتا۔ بڑی حقیقت کو ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بھی ایک لائحہ عمل تیار کیا جاسکتا ہے۔
کراچی بھینس کالونی موڑ سے آگے نیشنل ہائی وے پر رینجرز کی چوکی سے جام کنڈو کی طرف ایک روڈ جاتا ہے ، جس پر صورتی کمپنی کے قریب ایک پل بنا ہوا ہے ، جسکے نیچے پانی کے بہاؤ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس پل کا مقصد بارش کے پانی کو روکنا تھا۔ اس ذخیرے سے آس پاس کے کنوؤں میں پانی بھر جاتا تھا۔ اب تو سندھ سرکار نے پتہ نہیں کس سے کیا کھایا اور کیا پیا کہ بارش کا پانی بند ہوا ۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے دریا خان تک میلوں کچا علاقہ ہے جس میں خشکی کے دور میں پانی کا بہت بڑا ذخیرہ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پنجاب اور سندھ کے تمام اضلاع میں پانی کے ذخائر بنائے جائیں تو بھی فی الفور اور بڑے پیمانے پرپانی کے بحران سے پاکستان کی بچت ہوسکتی ہے لیکن سیاستدان غل غپاڑے والے کام کرتے ہیں ۔ خود تو منرل واٹر پر گزارہ کرتے ہیں اور غریبوں کی کوئی فکر نہیں رکھتے۔ بال بچے ، گھر بار ، جائیداد اور بینک بیلنس سب ہی دیارِ غیر میں رکھے ہیں یہاں صرف لیڈری چمکانے ہی کی خواہش ہے۔ دھڑلے سے جھوٹ بول کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ آئین کے دفعہ 62، 63میں صادق و امین اوراچھے کردار کی شرط ہے۔ مریم نواز کو اپنے باپ نواز شریف کے سر کی قسم ہو کہ وہ عوام سے مخاطب ہو اور کہے کہ ’’پارلیمنٹ میں نواز شریف سے جھوٹ فرشتوں نے اگلوایا تھا ، نواز شریف کی روح پر خلائی مخلوق کا قبضہ تھا ورنہ اتنی بیوقوف اور پاگل تو میں بھی نہیں تھی کہ سرِ عام اس طرح اپنی جائیدادوں کا اعترافِ جرم کرتی‘‘ ۔
عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ عدالتوں سے اس نے نواز شریف کو نا اہل کروادیا۔ ساتھ ساتھ جہانگیر ترین بھی نا اہل ہوا ہے اور اگر کسی نے سیتا وائٹ کا کیس لاکر عمران خان کو چیلنج کردیا تو عمران خان بھی نا اہل ہوگا۔ یہ نا اہلی کی تلوار نواز شریف ، جہانگیر ترین کے بعد عمران خان اور پتہ نہیں کس کس کے اوپر چل سکتی ہے اور چلنی چاہیے۔ آنیوالے وقت میں عدلیہ نے سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر یکساں سلوک کرنا ہے۔ عمران خان نے پختونخواہ میں چیف منسٹر کیلئے منظور آفریدی کی منظوری اسلئے دی تھی کہ وہ ایوب آفریدی کے بھائی ہیں جس نے حال ہی میں سینٹ کے الیکشن میں تحریک انصاف کو خرید لیا تھا۔ جب عمران خان کو پتہ چلا کہ منظور آفریدی کی تصویر مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی ہے تو اسکو مسترد کردیا۔ یہ کونسا اخلاقی پیمانہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے عمران خان سے منظور آفریدی کی ملاقات کرانے میں شرم محسوس نہیں کی گئی؟۔
غیر جانبدار الیکشن کیلئے ایسے افراد کا انتخاب ضروری ہوتا ہے کہ ان کو پتہ بھی نہ ہو اور فریقین اس پر اعتماد کرلیں لیکن پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ جب آئین میں یہ لکھا ہے کہ اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ دونوں کا اتفاق ضروری ہے تو پھر پارٹی قیادت کا اس میں کردار بالکل آئین کے منافی ہے۔ انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ جس طرح الطاف حسین کی قیادت کو متحدہ قومی موومنٹ سے الگ کردیا گیا اسی طرح دیگر قیادتیں بھی پارٹیوں پر اختیار کھودیتیں ۔ جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ قائد کوئی ڈکٹیٹر نہ ہو ، جبکہ یہاں قیادتوں کی ڈکٹیٹر شپ ہی کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کی مذمت اسلئے کی کہ جس طرح شاہد خاقان عباسی نواز شریف کے حکم کا ایک ادنیٰ غلام ہے اسی طرح صادق سنجرانی کو بھی ہونا چاہیے۔
جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ پارٹی پر قیادت کا راج نہ ہو بلکہ کارکنوں اور رہنماؤں کا راج چلے۔ مغرب کی جمہوریت میں عوام اور پارٹی کے کارکنوں و رہنماؤں کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ یہاں ذو الفقار علی بھٹو کے لے پالک، جنرل ضیاء الحق کے گودی بچے اور ایمپائر کی تلاش میں اپنی دُم سر پر باندھ کر یہ دکھانے والے کہ خفیہ ہاتھ ہمارے ساتھ ہے اپنی کٹھ پتلی قیادت کا ایک تماشہ ہیں۔
پاکستان کی ریاست سول و ملٹری بیوروکریسی کا فرض بنتا ہے کہ پانی کے معاملے کو سنجیدہ لیں ۔ کشمیر کی آزادی کا تمغہ سیاسی بیانات سے حاصل نہ ہوگا۔ جب مذہبی بنیاد پر ہم اپنے ہاں ایک معاشرتی تبدیلی لائیں گے تو بھارت کو نہ صرف کشمیر سے دستبردار ہونا ہوگا بلکہ بھارت کے تمام مسلمانوں میں بھی بیداری کی لہر دوڑے گی اور ہندو اپنے مذہب کی صداقت کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگا۔
اسلام جبر و اکراہ کا مذہب نہیں بلکہ ایک فطری دین ہے۔ ذات پات ، قوم و نسل ، رنگ زبان اور ہرطرح کے تعصبات سے ماورا ہے۔ پاکستان کی بقاء اسلام میں ہے اور بھارت کی بقاء سیکولر ازم میں ہے ۔ ہمارا مثبت رویہ ہی ہماری بقاء کی ضمانت ہے۔ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ پاکستان کیلئے تباہی کا منصوبہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا فضل فرمائیگا۔ اسلام کے خدو خال خاندانی وموروثی سیاسی و مذہبی قیادتوں نے تباہ کئے ہیں۔ جہاں کہیں سے بھی روشنی کی کرنیں میسر ہوں ان کو جلد سے جلد عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب، بلوچستان پختونخواہ، سندھ ، کراچی ، کشمیر ، گلگت و بلتستان اور افغانستان کے عوام میں ایمان کی شمع روشن کرنے کی دیر ہے اور اس کیلئے سب سے بڑا ذریعہ قرآن و سنت ہے۔ علم کے ذریعے سے اپنا دین زندہ ہوگا اور دین زندہ ہونے سے ہمارے ایمان کی بھی آبیاری ہوگی۔ جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کے ذریعے ملک میں امن قائم کیا اور فوج نے پہلے سب سے بڑی غلطی یہ کی تھی کہ نواز شریف کو جنم دیا تھا۔ اب اس کا ازالہ بھی فوج کا کام ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

اسی بارے میں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا
اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے