پوسٹ تلاش کریں

پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے لوگ تنگ تھے تحریک انصاف کا حکومت میں‌آنا قدرت کا کرشمہ ہے: اجمل ملک

پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے لوگ تنگ تھے تحریک انصاف کا حکومت میں‌آنا قدرت کا کرشمہ ہے: اجمل ملک اخبار: نوشتہ دیوار

tehreek-e-insaf-hamid-mir-mma-mullah-military-alliance-imran-khan-maulana-fazal-ur-rehman-election-1985-boycott-taliban-nawaz-sharif-zardari-bailout-prime-minister-house

ایڈیٹر نوشتۂ دیوارمحمد اجمل ملک نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اچھے کی امید رکھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت اثرو رسوخ اور بھاری بھرکم پیسوں سے نتائج برآمد کرے یا مقتدر قوت مرضی کا نتیجہ۔ بہر حال ڈگری ڈگری ہے جعلی ہو یااصلی کی طرح جمہوری نظام بھی جمہوری نظام ہے۔ بدمعاشی ہویا پیسوں سے یا مقتدر قوت کے اشاروں پر، عوام بڑی مشکل سے ووٹ کیلئے نکلتے ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں۔1985ء کاالیکشن ہوا تو سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ عوام نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالا، تاکہ سیاسی جماعتوں سے جان چھوٹ جائے۔ محمد خان جونیجو کو قائدجمہوریت کہا گیا، پھر جنرل ضیاء کو جلن ہوئی، حکومت ختم کردی، جنرل ضیاء کے پرخچے اُڑ گئے تو جمہوریت بحال ہوگئی ۔ 1988سے 2018 تک پیپلزپارٹی، ن لیگ نے باریاں لگائیں۔ عوام نے MMA کو ووٹ دیا۔ پیپلز پارٹی دو لخت تھی، مولانا فضل الرحمن کو ظفر جمالی نے ایک ووٹ سے ہرایا۔ ن لیگ ، عمران خان نے MMAکو ووٹ دیا مگر ملٹری ملا الائنس مشہورہوا۔حامد میربھولا مگر بھارتی صحافی کویادہے ۔ MMA ٹوٹ گئی ، مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد پر خود کش حملے ہوئے۔ عمران خان پھر بھی طالبان کیساتھ رہا۔ حامد میر بھارتی صحافی کو بتاتا کہ عمران خان اکیلا طالبان کا حامی نہ تھا، نواز شریف بھی شامل تھا۔ زرداری کی حکومت آئی تو مولانا فضل الرحمن نے ڈولفن کی طرح اس میں چھلانگ لگائی۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی کو دہشتگردوں نے 2013کے الیکشن میں کھلی چھوٹ دی ۔ ن لیگ حکومت میں مولانا فضل الرحمن نے پھر چھلانگ لگا دی ۔ حکومتوں کا مزا لیا،جمہوریت کو چلنے دیں، جمہوری نظام کے نام پر خاندانی بادشاہت کو انجام تک پہنچے پراللہ کی قدرت خوش ہوگی۔ عمران خان کے اصول بے نقاب ہوگئے ۔پہلی تقریر کرتا کہ’’ اکثریت نہیں،اپوزیشن کرونگا، دوبارہ الیکشن کی حمایت کرتا ہوں۔‘‘ تو عزت بچتی۔ نواز شریف کی طرح قرضہ لیا تو جمہوریت کی آخری اُمید بھی عالمی سازش کا حصہ ہوگی۔خبریہ ہے کہ بڑا قرضہ ملے گا اور امریکہ نے اب بیل آؤٹ کا طعنہ بھی پاکستان کو دیا ہے ۔ وزیر اعظم، وزیراعلیٰ کا عہدہ اہمیت نہیں رکھتابلکہ قومی خدمت ضروری ہے۔اگر تانگے مانگے سے سادہ اکثریت حاصل ہو جائے تو کوئی ترمیم نہ لائی جاسکے گی۔ محسن جگنو کا وزیراعلیٰ پنجاب اور محسن داوڑ کا وزیراعظم بننے کے بعد یہ معمہ حل ہوجائیگا کہ سرائیکی صوبہ بن جائے۔ گورنرہاؤس، وزیراعلیٰ ہاوس، وزیر اعظم ہاوس اور باقی تمام اداروں کے بڑوں کے اخراجات کو کم کیا جائے۔زرعی زمینین کاشت کرنیوالوں کو محنت اور کمائی کیلئے دی جائیں تو روس و چین بھی اسلامی نظام کے قریب آ جائیں گے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟