پوسٹ تلاش کریں

امام مہدی کا کردار اور عصر حاضر کی احادیث

امام مہدی کا کردار اور عصر حاضر کی احادیث اخبار: نوشتہ دیوار

حدیث نمبر72۔ عنوان ’’خدا کی زمین تنگ ہوجائے گی‘‘۔ ترجمہ ’’ حضرت بوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آخری زمانہ میں میری امت پر ان کے حاکموں کی جانب سے ایسے مصائب ٹوٹ پڑینگے کہ ان پر خدا کی زمین تنگ ہوجائیگی، اس وقت اللہ تعالیٰ میری اولاد میں سے ایک شخص( مہدی علیہ الرضوان) کو کھڑاکرینگے، جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دینگے جس طرح وہ پہلے ظلم وستم سے بھری ہوئی ہوگی، ان سے زمین والے بھی راضی ہونگے، آسمان والے بھی، انکے زمانہ میں زمین اپنی تمام پیداوار اُگل دے گی، وہ ان میں سات یاآٹھ یا نو سال رہیں گے‘‘درمنثور ج:6ص:58 عصر حاضر حدیث ۔۔۔ مولانا لدھیانویؒ
حدیث نمبر36’’ ارباب اقتدار کی غلط روش کے خلاف جہاد کے تین درجے‘‘
عن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ انہ تصیب اُمتی فی اخر زمان من سلطانھم شدائد لاینجو منہ الا رجل عرف دین اللہ فجاھد علیہ لسانہ ویدہ وقلبہ، فذٰلک الذی سبقت لہ السوابق ، ورجل عرف دین اللہ فصدّق بہ ، ورجل عرف دین اللہ فسکت علیہ ، فان رای من یعمل الخیر احبہ علیہ ،وان رای من یعمل بباطل ابغضہ علیہ ، فذٰلک ینجو علی ابطانہ کلہ ( رواہ البیھقی فی شعب الایمان ، مشکوٰۃ شریف صفحہ 438) عصر حاضر صفحہ 43
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخری زمانے میں میری امت کو ارباب اقتدار کی جانب سے بہت سختیوں کا سامنا کرنا پڑیگا، ان سے کوئی نجات نہیں پائے گا مگر وہ شخص جس نے اللہ کادین پہچانا اورپھر اس کیلئے اپنی زبان،اپنے ہاتھ اور اپنے دل سے جدوجہد کی، یہ وہ شخص ہے جس کیلئے پہلے سے ہی پیش گوئیاں ہوچکی ہیں۔ اور وہ شخص جس نے اللہ کا دین پہچانا اور پھر اسکے ذریعے سے تصدیق کرنے کا اعلان بھی کیا، اور وہ شخص جس نے اللہ کا دین پہچانا اور پھر اس پر خاموشی اختیار کرلی، کسی کو اچھا عمل کرتے دیکھ لیا تو اس سے محبت رکھی اور کسی کو باطل عمل کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے دل میں بغض رکھا۔ یہ شخص اپنے معاملات کے چھپانے یعنی حق کا اظہار نہ کرنے کے باوجود بھی نجات پاگیا۔
جب حاجی عثمانؒ پر فتوے لگے تو کچھ لوگوں نے حقائق کو سمجھنے کے باوجود محبت و بغض کا معاملہ چھپائے رکھا، جس کی مثال مولانا یوسف لدھیانویؒ خود بھی تھے، کچھ لوگوں نے برملا ساتھ دیا ، پھر جب حاجی عثمانؒ کاوصال ہوا تو اللہ کے فضل سے سب سے پہلے ہم نے خلافت کی احیاء کیلئے اللہ کے دین کو پہچان کر جدوجہد کا آغاز کیا،وہ زبان، ہاتھ اور دل کے تمام مراحل طے کرلئے جس کی درج بالا حدیث میں پیشگوئی ہے۔ بہت سے لوگوں نے دین کی حقیقت کو پہچان کر ہماری کھل کر تائید فرمادی اور بہت سے لوگوں نے ہمارے اچھے عمل کو دیکھ کر ہم سے دل میں محبت رکھی اور مخالفین سے بغض رکھا۔ اس حقیقت کے بغیر دنیا میں ہم بڑے مشکلات کا شکار ہوتے۔ اللہ کا کرم ہے کہ ہمیں ارباب اقتدار کی جانب سے مشکلات کا کوئی سامنا نہیں کرنا پڑا۔
جب دین کو پہچان کر اس کیلئے دنیا میں زبردست جدوجہد کی جائے تو اسلام کی خاصیت ہی ایسی ہے کہ دنیا میں ایسا نظام عدل وانصاف قائم ہوگا کہ جس سے آسمان اور زمین والے سب خوش ہونگے۔ ایران کا شیعہ اور افغانستان کا دیوبندی انقلاب اسلئے دنیا میں ناکام ہوئے کہ وہ اللہ کے دین اسلام کو پہچاننے سے خود بھی قاصر تھے۔ جمعیت علماء اسلام کا کارکن معراج کاکڑ ولد باز محمد خان کاکڑ کچلاک شہر بلوچستان اپنی جماعت سے اسلئے باغی بن گیا کہ جمعیت علماء قرآن وسنت کیلئے کوئی کام نہیں کرتی، اس نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا کہ پاکستان خراسان کی طرف سے امام مہدی کا ظہور ہوگا اسلئے کام کرو، حدیث کے مطابق وہ سیاہ جھنڈے لگارہا تھا تو لوگوں نے اس پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا۔ پھر اس نے جھنڈے پر چاند اور تارے بھی بنالئے۔ خواب میں نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’یہ کیا ہے؟۔ تو اس نے عذر پیش کردیا کہ لوگ شیعہ کی تہمت لگاتے ہیں‘‘۔ علماء اور صوفیاء نے امام مھدی کے حوالے سے اپنے اپنے حلقۂ ارادت کوبہت گمراہ کررکھا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے حوالہ سے لکھ دیا کہ ’’ اب دنیا میں اصلاح کی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوگی، مزید بگاڑ بڑھتا جائیگا، ایک امام مہدی کی شخصیت ایسی ہوگی کہ وہ اپنی بلند ترین روحانی قوت کے بل بوتے پر پوری دنیا کے حالات بدل سکیں گے‘‘۔ یہ صرف مولانا اشرف علی تھانوی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کی بات نہیں بلکہ علماء وصوفیاء کی اکثریت کا یہی گمراہانہ عقیدہ ہے جسکی وجہ سے لوگ مرزا غلام احمد قادیانی اور اسکے پیروکاروں سے زیادہ گمراہ ہیں ، کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر رسول اللہ ﷺ تک کوئی ایسی شخصیت نہیں آئی ہے جو اپنی روحانی قوت کی بنیاد پر ساری دنیا کے حالات کو بدل سکے ہوں۔
مھدی کے ذریعے سے دنیا کی حالات میں تبدیلی کی بڑی بنیاد کسی روحانی شخص کا ظہور نہیں ہوگا بلکہ زمانے کا عروج اور قرآن وسنت کے ذریعے دین کی پہچان اس انقلاب کا ذریعہ بنیں گے۔ بنی آدم انسان کو غلطی کا پتلا کہا جاتا ہے، حضرات انبیاءؑ تو معصوم ہوتے ہیں ، مہدی معصوم بھی نہیں ہوگا، بلکہ جس رات انقلاب آئے گا تو اسی رات کو اس کی اصلاح ہوجائے گی۔ جس طرح حدیث میں اس کی وضاحت ہے مگر اس کا بھی علماء نے غلط مفہوم بیان کیا ہے کہ ایک رات میں اس کو صلاحیت سے نوازا جائیگا، ایک حدیث میں آتا ہے کہ’’ میرے اہلبیت میں سے ایک شخص ضربیں لگائے گا یہاں تک کہ لوگ حق کی طرف آنے پر مجبور ہوں‘‘۔ ضرب لگانے میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو یہ خطاء کی دلیل ہے ،ضرب کی ضرورت نہ رہے توپھر اس کو اصلاح کرنے میں بھی حرج نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرون اولیٰ میں بھی مسلمانوں کو انتقام میں اعتدال سے ہٹنے کو منع فرمایا تھا تو آخری دور میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کرنے والے بھی اپنی ضربوں میں اعتدال سے ہٹ سکتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست اور مذہب کو خدمت کے بجائے زیادہ تر خالص تجارت بنالیا گیاہے۔ خدمت پر لڑائی بھڑائی نہیں ہوسکتی ہے۔ مساجد ومدارس اور سیاسی اور مذہبی جماعتیں خدمت پر نہیں تجارت، شہرت، دادا گیری اور لیڈر شپ پر لڑرہی ہیں اور جب تک کوئی ایسی قیادت وجود میں نہ آئے کہ مذہب اور سیاست کو تجارت سے پاک کرکے خدمت کا جذبہ اجاگر کرے اسوقت تک گروہ بندیوں اور تنزل کا خاتمہ نہیں ہوسکتاہے۔ شریف خاندان کی عزت کا کچومر اتر گیا لیکن قیادت نہیں چھوڑ رہا ہے، یہی حال دوسروں کا بھی ہے۔پانامہ کے عدالتی فیصلے میں دو ججوں نے لکھا کہ وزیراعظم نااہل ہے۔ تین نے لکھا کہ اتنے عرصہ سے ہم جس کیس کو سن رہے تھے، یہ ہمارا اختیار ہی نہیں کہ وزیراعظم کی نااہلیت کافیصلہ کرسکیں ۔پھر جی آئی ٹی کے نام پر دھوکہ کیوں دے رہے ہیں؟۔ وزیراعظم نے ٹھیک کہا کہ عوام نے عدالتی برطرفی کیلئے منتخب نہیں کیا مگر یہ بات وہ دوسرے وزیراعظموں کیلئے بھی کرتے؟ عدلیہ وزیر اعظم کو باہرسے پیسہ لانے کا حکم دے باقی سارا معاملہ حل ہوجائیگا۔جنکا باہر پیسہ ہواور وہ پاکستان میں سیاست کریں تو انکی فیملی کا پیسہ یہاں ہوناچاہیے۔ عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟