پوسٹ تلاش کریں

اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے

اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے اخبار: نوشتہ دیوار

یہود ونصاریٰ کے مذہبی طبقہ نے اپنے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ، قرآن نے انکی مثال کتے اور گدھے سے دی، حدیث میں مسلم امہ کی بھی پیشگوئی ہوئی ہے کہ وہ بھی انکے نقشِ قدم پر چلیں گے، حدیث کی پشین گوئی پوری ہوئی ہے، مذہبی طبقے نے اسلام کا حلیہ بگاڑ دیاہے، کافر اُمت پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں کافر ممالک یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کررہے ہیں۔ دہشت گردوں کی آبیاری بھی انہوں نے کی تھی اور اپنے گماشتہ ممالک کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب اس میں پیش پیش تھے، افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام وغیرہ کی تباہی کا سہرا ہمارے سرپرست اعلیٰ امریکہ اور اسکے سی آئی اے کے سر پر ہے، ہمارے حکمران سمجھ رہے تھے کہ امریکہ ان کو دل سے لگاکر اپنی چھاتیوں سے دودھ پلارہا ہے ، حالانکہ وہ کم بخت اپنا پیشاب فیڈ کررہا تھا۔ یہ ہمارے حکمران طبقہ کی نااہلی تھی کہ پیشاب کی جگہ دودھ سمجھ رہا تھا، اور اب شراب کی طرح یہ خراب عادت ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘۔
ہم اسلام کے برگشتہ فرقوں اور پگڈنڈیوں کی بات نہیں کررہے ہیں اور نہ ایسے قدیم لائبریریوں کے قصے سناتے ہیں جو کالعدم اور مفقود ہیں۔بوہری ، آغاخانی، ذکری وغیرہ کی بات بھی نہیں کررہے، شیعہ واہلحدیث کی بات بھی نہیں ہورہی ہے بلکہ پاکستان میں اسلام کیلئے صراطِ مستقیم اور مینارۂ نور سمجھے جانے والے حنفی دیوبندی بریلوی بڑے مدارس کا شاخسانہ رکھتے ہیں کہ وہ اپنے نصاب میں اسلام کے حوالہ سے کتنی غیر فطری سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اپنے اصولِ فقہ کی کتابوں میں قرآن پاک اللہ کی کتاب کے بارے میں یہ پڑھاتے ہیں کہ ’’ کتابی شکل میں یہ کتاب نہیں، قلم سے لکھی جانے والی کتاب ایک نقش ہوتاہے جو لفظ ہوتا ہے اور نہ معنیٰ‘‘المکتوب فی المصاحف سے مراد قرآن کے عام نسخے نہیں بلکہ سات قاریوں کے الگ الگ قرآن ہیں، نقل متواتر سے مراد یہ ہے کہ بعض ایسی آیات بھی مشہور اور خبر احاد ہیں جو اصل میں قرآن ہیں لیکن متواتر نقل نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کی کتاب میں شامل نہیں، بلاشبہ سے مراد یہ ہے کہ مشکوک آیات بھی اس تعریف سے خارج ہیں، جیسے بسملہ جو صحیح بات یہ ہے کہ وہ قرآن ہے لیکن اس میں شبہ ہے اور شبہ اتنا قوی ہے کہ اس کا منکر کافر نہیں بنتا‘‘۔ حالانکہ قرآن کی پہلی وحی میں قلم کے ذریعہ تعلیم اور مقدمۃ الکتاب سورۂ فاتحہ اوراسکے بعد سورۂ بقرہ کی ابتداء بھی بسم اللہ سے کی گئی ہے اور یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ذلک الکتاب لاریبہ فیہ ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ سورۂ بقرہ میں ہی وضاحت ہے کہ الذین یکتبون الکتاب بایدیہم ’’جو کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں‘‘۔ یہ کتاب کو بھی کتاب نہیں مانتے۔
اصول فقہ میں حقیقت اور مجاز کی تعریف اور استخراجی مسائل کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ جہاں حقیقی معنی مراد ہوسکتا ہے وہاں مجازی معنی مراد نہیں لیا جاسکتا۔ نکاح کے حقیقی معنیٰ لغت میں ضم ہونے کے ہیں، عقد کیلئے نکاح مجازی معنی ہے۔ جس آیت میں باپ کی منکوحہ سے نکاح نہ کرنے کا حکم ہے، اس میں جائز اور ناجائز مباشرت دونوں شامل ہیں۔ اگر باپ نے صرف عقدِ نکاح کیا ہو، مباشرت نہ کی ہو تو احناف کے نزدیک یہ قرآن سے نہیں اجماع کی وجہ سے ناجائز ہے‘‘۔ (نورالانوار کی اردو شرح قوت الاخیار)۔
حالانکہ یہ سراسر بکواس ہے، نکاح لغت میں بھی جائز تعلق ہی کا نام ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل کے وقت سے نکاح اور زنا میں فرق ہے، لغت میں وہ معنیٰ ہی مراد لیا جاتا ہے جو معاشرے کی بول چال کا حصہ ہوتاہے۔ قرآن میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق والی صورت کو بھی واضح الفاظ میں نکاح کہا گیاہے،زنا کو نکاح قرار دینا اور نکاح کو زنا قرار دینا اور عقدِ نکاح سے اس کی نفی کرنا وہ منطق ہے جو علماء ومفتیان کیلئے عقل، فطرت، انسانیت اور اسلام سے دور ہونے کا فطری اورمنطقی نتیجہ ہے۔ اصولِ فقہ کا اسلوب پڑھنے اور پڑھانے والے بیچاروں کو خود بھی سمجھ میں نہیں آتا اور آئیگا بھی کیسے؟۔ لکھا ہے کہ ’’ امر تکرار کا تقاضہ کرتا ہے، شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ اپنے کو طلاق دے، تویہ ایک طلاق بھی ہوسکتا ہے اور عدد کا مجموعہ تین طلاق بھی لیکن دو طلاق مراد نہیں ہوسکتے‘‘۔ استاذ نے پڑھانا ہوتا ہے اور طلبہ نے رٹا لگانا ہوتا ہے باقی اس کا افہام وتفہیم سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا۔ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ ’’بیوی سے اولاد پیدا ہونے کے بعد بیوی شوہر کیلئے بعضیت یا جزئیت کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہے لیکن ضرورت کی وجہ سے جائز قرار دی گئی کیونکہ اس میں حرج ہے‘‘۔ حالانکہ پھر کم زاکم حلالہ کے بعد بھی اس کو حلال نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس سے بڑھ کر نصابِ تعلیم میں یہ بکواس بھی پڑھائی جاتی ہے کہ ’’ ساس کی شرمگاہ کے باہر والے حصہ کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنے میں عذر ہے،اسلئے یہ حرمتِ مصاہرت کا ذریعہ نہیں لیکن ساس کی شرمگاہ کے اندورونی حصہ کو شہوت سے دیکھنے پر حرمت مصاہرت لازم ہوگی یعنی بیوی حرام ہوجائیگی‘‘۔ اگر ہمارا مقتدر طبقہ امریکہ سے ڈرتاہے توکیا اس نصابِ تعلیم پر بھی بازپرس کرنے سے گھبراتاہے؟ پھر تف ہے ان پر!۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ