پوسٹ تلاش کریں

خلق الانسان ضعیفاً(انسان کمزور پیدا کیا گیا) القرآن

خلق الانسان ضعیفاً(انسان کمزور پیدا کیا گیا) القرآن اخبار: نوشتہ دیوار

دنیا کی رہنمائی کیلئے ’’قرآن مجید‘‘ عظیم نعمت ہے لیکن افسوس کہ قرآنی دعوت کے دعویدار مذہبی طبقے بالغِ نظری کا ثبوت نہیں دیتے۔ بوڑھے ہوکر بھی طفلِ مکتب کہلانے پر فخر کرتے ہیں حالانکہ قرآن فلسفے کی کتاب نہیں بلکہ فطری رہنمائی کیلئے نازل ہوا۔ ان پڑھ لوگوں کو پڑھا لکھا ، جاہلوں کو عالم اور نادانوں کو دانا بنادیا۔ جہالت کے اندھیروں میں قریش ایسے سوئے تھے کہ 13 سالہ مکی دور میں بھی چندلوگوں نے ہی اسلام قبول کیااور قرآن کے نزول کی روشنی سے بھی نہیں جاگ رہے تھے۔پاکستانیوں کو توجہ لانے کی ضرورت ہے۔
حضرت آدم و حوا علیھماالسلام کو اللہ نے جنت میں حکم دیا کہ ’’اس درخت کے قریب مت جاؤ‘‘ لیکن شیطان نے ان کو پھسلادیا اور اللہ نے زمین کی خلافت کا وہ منصب سونپ دیا،جس کیلئے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کے محافظ کرپٹ حکمران ڈکٹیٹروں کے بغل بچے بھی ہیں ، کرپشن بھی کی اور خود کو معصوم اور دوسرے کو موردِ الزام بھی ٹھہرایا اور اعتراف جرم بھی طعنے کے انداز میں کرتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مارشل لاء کے خلاف مسلم لیگ ن کے کردار پر نکتہ چینی کی اور خواجہ سعد نے اپنی صفائی میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں جیل کاٹنے کا ذکرکیااور اپنے باپ خواجہ رفیق کی شہادت کا حوالہ دیا۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پیپلزپارٹی پانامہ لیکس پر بات کرے لیکن اس کی اپنی سلیٹ بھی صاف نہیں، خورشیدشاہ کا جواب آیا کہ ہماری سلیٹ صاف نہیں تو تمہارا بلیک بورڈ بھی آلودہ ہے۔ شاہ محمود قریشی نے خواجہ سعد اور انکے بڑے باپ خواجہ رفیق کی بڑائی بیان کی اور کہاکہ میں واحد ناظم تھا جس نے پرویزمشرف کے ریفرنڈم کی تائید نہیں کی، اس وقت میں پیپلزپارٹی میں تھا۔شاہ محمود قریشی اپنی صفائی پیش کرکے اپنے قائد عمران خان کے چہرے پر ریفرینڈم کی تائید کی کالک مَل رہے تھے اور خواجہ سعد رفیق جنرل ضیاء کے دور میں جیل جانے کا ذکر کرکے اپنے قائد کا چہرہ سیاہ کررہے تھے۔ خورشیدشاہ اور خواجہ سعدرفیق نے سلیٹ اور بلیک بورڈ صاف نہ ہونے کاالزام ہی نہیں لگایا بلکہ اعترافِ جرم بھی کردیاہے لیکن ہماری عدالتوں سے طاقتور لوگوں کو کلین چٹ ملتی رہے تو عوام کا نظام پر اعتماد بحال نہ رہے گا، یہ الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے اور عدالتوں کو چاہیے کہ ان کو کلین بورڈ کردیں۔ عدالتوں پر پارلیمنٹ میں جماعتِ اسلامی کے نمائندے نے کھل کر عدمِ اعتماد کا اظہار کیااور اگر دہشت گردوں کیخلاف فوجی عدالتوں کی ضرورت تھی تو ان طاقتور طبقات کیخلاف بھی کیاعدالتوں میں سکت نہیں ہے؟۔
فرعون کے دور میں بنی اسرائیل کیخلاف مظالم مشہور تھے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی اطلاع کردی اور فرعون کی گود میں ہی آپؑ کی پرورش کی۔نسلی تعصب نے ماحول پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے ایک بیکار انسان کی شکایت پر قبطی کو مکا کیا مارا، کہ وہ ڈھیر ہوگیا۔ قتل کے اس جرم پر پردہ پڑا رہا۔ جب اپنی قوم کا وہ فرد کسی اورسے جھگڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکایت کرنے لگا تو حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ ’’تجھے بھی روز روز لڑائی کرنی ہے؟‘‘۔ وہ چیخا کہ کیا تو مجھے اس طرح قتل کریگا جیسے اس دن دوسرے کو قتل کیا تھا؟۔ اس وجہ سے قتل کا راز فاش ہوا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف قتل کا مقدمہ چلنے کی تیاری ہونے لگی تو قبطی قوم کے شخص نے ہی ان کو اطلاع دی ۔ جب وہ فرار ہوگئے تو دوسرے علاقہ میں پہنچ کر دوبچیوں کی مدد کردی۔ وہ حیاء سے چل رہی تھیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی یہ ادا بھلی لگ رہی تھی۔ وہ پیغمبر کی بچیاں تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں ٹھکانہ بھی مل گیا، 8سال مزدوری کے عوض ایک بچی کے نکاح کی پیشکش قبول کرلی۔ شادی کے بعد بیوی کو زچگی ہوئی تو راہ چلتے میں کوہ طور پر جلوہ دیکھا، سمجھے آگ ہے لیکن وہاں سے یہ آواز آئی کہ ’’بیشک میں اللہ ہوں‘‘۔ کہاوت ہے کہ ’’ آگ لینے گئے اور پیغمبری مل گئی‘‘۔ قرآن طعن وتشنیع سے روکنے کی دعوت دیتاہے اور معصوم بننے کے بجائے کمزور انسان رہنے پر کاربند رکھتاہے۔ معصومانہ سیاست کے دعوؤں سے احمقانہ لیڈرشپ کو باز آنے کی ضرورت ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ ایک مرتبہ اپنے دوست کے ہاں مکہ میں ٹھہرگئے۔ دوست سے کہا کہ ’’کعبہ کی زیارت کا کوئی راستہ نکلے‘‘، دوست نے کہاکہ’’بڑا مشکل ہے کوئی دیکھ لے تو شامت نہ آجائے‘‘۔ بہرحال یہ طے ہوا کہ دوپہر کا وقت مناسب ہے، لوگ سوجاتے ہیں،کسی کوپتہ نہ چلے گا۔ کعبہ کی زیارت کو نکلے تو راہ میں ابوجہل کی نظر پڑی۔ ابوجہل بہت غصہ ہوا، دوست مشرک سردار سے کہا کہ ’’ہمارے دین کا یہ دشمن ہے اور تم اس کو کعبہ کی زیارت کیلئے لے جارہے ہو؟۔ تمہارے ساتھ نہ ہوتا تو میں اس کو زیارت کبھی نہ کرنے دیتا بلکہ قتل کرتا۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ ’’تم زیادہ الجھنے کی کوشش نہ کرنا،ہم تمہارا شام سے آنے والا قافلہ روک دینگے۔ دوست سردار نے کہا کہ ابوجہل سے سخت لہجے میں بات نہ کرو، یہ ہماراسردار ہے۔ حضرت سعدؓ نے اپنے دوست سے غصہ میں کہا کہ مجھے تمہاری اوقات کا پتہ ہے عنقریب تم اور تمہارے سردار سب قتل ہونیوالے ہو۔ معاملہ ٹھنڈا ہوا، گھر پہنچے تو دوست سردار نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’ تمہارا بھائی نے میرے قتل کی خبر سنارہا تھا‘‘۔ بیگم نے کہا کہ سچ !، کیسے؟۔ حضرت سعدانصاریؓ نے کہا کہ ’’مجھے اور کچھ بھی معلوم نہیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے مشہور سرداروں کے نام لیکر فرمایا ہے کہ عنقریب یہ قتل ہونگے‘‘۔ جسکی وجہ سے اس دوست سردار پر خوف طاری ہوا۔ پھر مدینہ میں حضرت سعدؓ نے مختلف لوگوں کو یہ قصہ سنایا۔ جس کی وجہ سے شام کے قافلے کو لوٹنے کا خیال منظم ہوا۔ مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا، تو جو لوگ اس میں شریک نہ ہوئے انکی مذمت نہ ہوئی اسلئے کہ جہاد کے ارادے سے نہ گئے تھے جس کی وضاحت بخاری میں موجود ہے۔ قرآن و احادیث اور سیرت کی کتابوں میں واضح ہے کہ مسلمانوں کا پروگرام شام کا قافلہ تھا لیکن اللہ نے بدر کے معرکہ سے دوچار کردیا، فتح کے بعد مشرکین کے70افرادسردار سمیت قتل اور70قیدی بنائے گئے۔ جب مشرک قافلے کے دفاع کیلئے مکہ سے نکل رہے تھے تو سرداروں پر رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کی وجہ سے قتل کا خوف بھی طاری تھا۔ سعد انصاریؓ کا دوست مشرک سردار نکلنے پر آمادہ نہیں تھا مگر ابوجہل نے کہاکہ تم نہ نکلوگے تو دوسرے بھی ڈرکے مارے تیار نہ ہونگے۔یہ سارا پسِ منظربخاری میں بھی موجودہے۔
مسلمانوں نے قیدیوں پرمشاورت کی تو حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ نے مشورہ دیاکہ ’’ان قیدیوں کو قتل کیا جائے‘‘۔ باقی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ وغیرہ متفق تھے کہ ’’فدیہ لیکر ان کو چھوڑ دیا جائے‘‘۔ رسول ﷺ نے فدیہ لیکر رحم والے مشورے پر فیصلہ فرمادیا تو اللہ نے آیتیں نازل کردیں کہ’’ نبی (ﷺ) کیلئے مناسب نہیں تھاکہ انکے پاس قیدی تھے، یہانتک کہ زمین میں خونریزی کرتے، تم دنیاچاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتاہے اگر اللہ پہلے سے لکھ نہ چکا ہوتا تو سخت عذاب دیدیتا۔ ۔۔۔‘‘۔ رسول ﷺ نے بھی اس عذاب کو دیکھ لیا، جو حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ کے سوا سب کو لپیٹ میں لیتا اور ان حقائق کی قرآن وسنت میں تفصیلات موجودہیں۔
مفسرین نے حقائق کو مسخ کرنے کیلئے قسم قسم کی تفسیرلکھ دی ، مسلمان مخالف قوتوں کیلئے حقائق کے منافی تفسیرو تعبیرکیسے قابلِ قبول ہوسکتی ہیں جب ان پر مسلمانوں کا آپس میں بھی اتفاق ممکن نہیں ۔ علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی تفسیر ’’تبیان القرآن‘‘ میں مفسرین اور اپنے استاذ کے حوالے دئیے ہیں جو بڑی مضحکہ خیز بھی ہیں۔ آیات اور حقائق سے ان کا کوئی جوڑ بھی نہیں لگتا، بس آیت کے مفہوم کو مسخ کرنے اور اجنبی بنانے کا ذریعہ ہیں لیکن قرآن کی ان آیات سے ہدایت کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔
مہاجر مسلمانوں کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کیا گیا تھا، مدینہ میں انصارؓ اپنے مہاجرؓ بھائیوں کا بوجھ خندہ پیشانی سے برداشت کررہے تھے ، قافلہ کو لوٹنا شوق نہیں مجبوری اور اپنا حق تھا اور فدیہ لینے کی مجبوری تھی لیکن اللہ نے پھر بھی انکا تزکیہ کردیا کہ مسلمانوں کی تحریک دنیاوی مفاد کے حصول کی خاطر نہیں بلکہ اللہ صرف آخرت چاہتاہے۔ اگر اللہ تنبیہ نہیں فرماتا تو نتیجہ میں قیامت تک قافلے لوٹنے اور اغواء برائے تاوان کو مقصد سمجھا جاتا۔ صحابہ کرامؓ کے ذہنوں میں رسول اللہﷺ کے عزیز واقارب کی وجہ سے معافی کا جذبہ تھا، اللہ نے اس جذبے کو بھی ناقابلِ قبول قرار دیا۔ یہی سبب بناتھا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے باغِ فدک پر حضرت فاطمہؓ ناراض ہوئیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اہلبیت کی ضروریات کو باغِ فدک سے پوراکیا اور باقی آمدن غرباء کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بیگم کا بچابچاکر میٹھے کیلئے جمع کردہ مال بھی غریب میں تقسیم کیا اور اتنا وظیفہ اپنا کم کروادیا۔
حضرت عمرؓ نے حدیثِ قرطاس میں رسول اللہﷺ کے فرمان پر عرض کیا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے، یہ قرآنی آیات کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ اللہ نے قرآنی آیات کے ذریعہ تعلیم وتربیت اور تزکیہ کے علاوہ حکمت کی بھی تعلیم دی تھی، فدیہ لینے کے مسئلہ پر مسلمانوں کوڈانٹاگیااور نبیﷺ کا فیصلہ نامناسب قرار دیا تو بظاہر ڈانٹ مسلمانوں کو پڑی مگر پیغام درحقیقت مشرکوں کو دیاگیا کہ ’’اس دفعہ فدیہ دیکر سلامت جارہے ہو لیکن پھر یہ توقع نہ رکھنا کہ پھر گرفتاری کے بعد چھوٹ جاؤگے‘‘۔ جیسے یہ کہاوت مختلف زبانوں میں مشہور ہے کہ ’’ بیٹی تجھ سے کہہ رہا ہو ں کہ گھر کے یہ اصول ہیں ، ان پر چلنا ہوگا لیکن بہو سنو تم بھی‘‘ جس کا مقصد بہو کو سمجھانا ہوتاہے۔ یہ حکمت کی زبان مسلمانوں کو قرآن نے بہت پہلے قرآن ہی کے ذریعے سمجھائی تھی۔
غزوہ اُحد میں مسلمانوں کو زخم لگا تو بہت دکھ پہنچا اور بدلہ لینے میں مبالغہ آرائی کاکہاکہ ایک کے بدلے ستر کی حالت یہ کردینگے اور سمجھ رہے تھے کہ اللہ نے درست فرمایا تھا ،فدیہ کے بدلے میں ہمیں ا ن کو چھوڑنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی، تو اللہ نے واضح فرمایا: ’’ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو ان کوبھی تکلیف پہنچی تھی‘‘۔ ’’ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تمہیں وہاں تک نہ لیجائے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ‘‘۔ ’’ جتنا انہوں نے کیا ہے ، تم بھی اتنا کرسکتے ہو، اور اگر معاف کردو، تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور معاف ہی کردو، اور معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے مرہونِ منت ہے‘‘۔ جب مسلمانوں نے معاف کیا تو اللہ نے کہا کہ تم نے معاف کیوں کیا؟۔ اور جب بدلہ لینے کی بات کردی تو اس پر بھی مخالفت میں آیات نازل ہوئیں اور معاف کرنے کا حکم دیدیا۔
قرآن میں دوسری جگہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ قیدیوں کو فدیہ کے بدلے میں یا بغیر فدیہ کے جیسے چاہو چھوڑ سکتے ہو‘‘۔ شدت پسند وں کے ذہن کی سوئی خون بہانے پر ہی اٹکی ہوئی ہے اور بے شرم سیاستدان سمجھتے ہیں کہ وہ قاتل اور کرپٹ ہوکر بھی معصومیت کے دعوے نہ کریں تو اقتدار ہاتھ سے جائیگا۔ اس قوم نے قرآن کو چھوڑدیا ہے ۔ نبیﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اسلام اجنبیت کا بالکل شکار ہوگیاہے۔ پاکستان میں زیادہ تر علماء کرام ومفتیانِ عظام کا تعلق دیوبندی، بریلوی ، اہلحدیث اور اہل تشیع کے مکاتبِ فکر سے ہے۔اکثریت کا تعلق حنفی فقہ درسِ نظامی سے تعلق رکھنے والے دیوبندی بریلوی علماء کی ہے۔
مدارس دینیہ میں علماء بننے کیلئے غسل کے فرائض سے لیکر طلاق وغیرہ کے مسائل تک جو تعلیم دی جاتی ہے ، اس کا صحابہ کرامؓ کے دور میں کوئی وجود نہ تھا۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے معتقدین کا غسل کے فرائض پر اختلاف سے لیکر جن جن مسائل پر اختلافات ہیں، ان کے سیکھنے سکھانے سے مولوی طبقہ پیدا ہوتا ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے دور میں اس قسم کے مسائل کا وجود نہ تھا اسلئے کوئی مولوی بھی نہیں تھا، رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ مسئلے مسائل کسی کو نہیں سکھائے جاتے تھے اسلئے مولوی بننے کے ادارے بہت بعد کے ادوار میں پیدا ہوئے۔ آج بھی مسلمانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ وہ مولوی پیدا کرنیوالے مذہبی مسائل سے نا آشنا ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے اسلام جیسی عظیم الشان نعمت کو انکے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا، جنہوں نے اسلام کو اپنے موروثی پیشہ کے طور پر اپنایاہے۔
رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعے رہنمائی کی ضرورت تھی۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں وحی کا سلسلہ بند تھا۔ صحابہؓ کی چاہت تھی کہ زکوٰۃ اور صدقات کو نبیﷺ کے حوالہ کریں کیونکہ زیادہ تر مساکین نبیﷺ کے گرد منڈلاتے تھے تاکہ آپﷺ اپنی صوابدید کے مطابق جن کو چاہیں دیدیں۔ رسول اللہﷺ کی چاہت یہ تھی کہ اہل ثروت اپنی زکوٰۃ اپنے ہاتھ سے غرباء میں تقسیم کریں اسلئے کہ اپنے عزیز واقارب محبت کی وجہ سے ترجیح کے باعث بن سکتے تھے۔ انصارؓ کے جوانوں نے ایک بار شکوہ شکایت شروع کی کہ ’’قربانیاں ہم نے دیں اور مہاجرینؓ کو ترجیح دی جاتی ہے ‘‘ تو نبیﷺ نے بھرپور وضاحت کی، پھر انصارؓ نے کہاتھا : رضینا باللہ ربا و بمحمد نبیا و بالاسلام دینا ’’ہم اللہ کے رب ، محمدﷺ کے نبی اور اسلام کے دین ہونے پرراضی ہیں‘‘۔
جب اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو حکم دیا کہ ’’ مسلمانوں سے صدقات لیں،یہ ان کی تسکین کا ذریعہ ہے ‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اوپر اور عزیز واقارب پر زکوٰۃ کو حرام قرار دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اللہ نے انسان کے بارے میں فرمایاہے :انہ لحب الخیر لشدید ’’مال کی محبت میں انسان بہت سخت ہے‘‘۔ نبیﷺ نے فرمایا’’ میرا بس چلتا تو سارا خیر خود ہی سمیٹ لیتا‘‘۔ اللہ نے رسول ﷺ کے ذریعہ صحابہؓ کی تربیت کا اہتمام فرمایا، رسول ﷺ نے اپنے لئے زکوٰۃ کو ناجائز قرار دیا تو حضرت ابوبکرؓ نے ضرورت سے زیادہ مال بیت المال سے لینا جائز نہ سمجھا۔ ان مقدس ہستیوں نے قرآنی تعلیمات دنیا کے سامنے عملی طور پر پیش کردیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک متوسط طبقے سے زیادہ بودوباش اپنے لئے قبول نہ فرمایا، حضرت عثمانؓ پہلے سے خود ہی مالدار تھے اور حضرت علیؓ قرآن وسنت کیلئے کوشاں رہے۔ ان ہستیوں سے حسنِ ظن کے باوجود عشرہ مبشرہ کے صحابہ حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ اور حضرت علیؓ کے مابین قتل و غارت کیوں ہوئی، جبکہ قرآن نے انکی صفت رحماء بینھم اشداء علی الکفار ’’ آپس میں رحیم اور کافروں پر سخت‘‘بیان کی تھی ؟،نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ خبر دار میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔
اللہ نے مسلمانوں کے درمیان قتل وغارت اور جھگڑے کی صورت میں صلح کرنے کا حکم دیا۔غیبت کو مردے بھائی کا گوشت کھانا کہہ دیا اور غیبت کو زنا سے بدتر قرار دیاگیا تو اسکے معانی منطقی نتائج نکالنے کے نہیں بلکہ جسکو ہلکا گناہ سمجھا جائے ،پُرزور الفاظ میں ا س سے بچنے کی تلقین ہے، جیسے فتنے کو قرآن میں قتل سے سخت قرار دیاگیا اور اولاد کو بھی فتنہ قرار دیاگیا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی کم عقل خطیب زورِ خطابت میں اولاد کو قتل کرنے کی دعوت شروع کردے، مولانا طارق جمیل کی آواز ایک ٹیلی فون کی گھنٹی پر ہے کہ ’’جس زمین پر سجدہ نہ کیا جائے، زنا کو بڑا جرم سمجھتے ہیں، نماز نہ پڑھنا زناسے بڑا جرم ہے،رشوت کو جرم سمجھتے ہیں، نمازنہ پڑھنا رشوت سے بڑا جرم ہے، قتل کو بڑا جرم سمجھتے ہیں،نماز نہ پڑھنا قتل سے بڑا جرم ہے، شیطان نے زنا کیا تھا، قتل کیا تھا،شرک کیا تھا،اک سجدہ ۔۔۔‘‘۔ پتہ نہیں ہماری ریاست اور عوام کا کیا انجام ہوگا؟۔ کس قسم کے جاہل عوام کے محبوب رہنما بن گئے ہیں؟۔
اس جاہل کو علم کی سند کس جاہل نے دی ؟۔ غزوہ خندق میں نبیﷺ سے چار نمازیں قضاء ہوئیں،سفر میں نبیﷺ سمیت صحابہؓ سے نمازِ فجر قضا ہوئی، حضرت علیؓ نے نبیﷺ کی خدمت میں عصر کی نماز قضا کردی، ایک وفد کو نبیﷺ نے حکم دیاکہ ’’عصرکی نماز بنی قریضہ پہنچ کر پڑھو‘‘، بعض افراد نے وقت پر نماز ادا کرلی اور بعض نے قضا کرکے مغرب کیساتھ پڑھ لی، نبیﷺ نے کوئی تنبیہ نہ فرمائی۔ ایک مقروض کا نمازِ جنازہ پڑھنے سے رسول اللہﷺ نے انکار فرمایا، حضرت علیؓ نے قرض ادا کرنا اپنے ذمہ لے لیا تو نبیﷺ نے اس نمازی کا جنازہ پڑھالیا، ایک ایسا شخص جسکے نماز، روزہ ، حج اورکسی عبادت کا کوئی گواہ نہ تھا لیکن حقوق العباد کا اس پرکوئی معاملہ نہ تھا، ایک شخص نے مسلمان ہونے کیلئے گواہی دی کہ ایک موقع پر رات کو میرے ساتھ چوکیداری کی تھی،رسول اللہﷺ نے نہ صرف نمازِ جنازہ پڑھائی بلکہ جنت کی بشارت بھی دی،ہرعالم اور تھوڑی بہت دینی شعوررکھنے والا جانتاہے کہ حقوق العباد کو اللہ معاف نہیں کرتا اور حقوق اللہ میں معافی کی گنجائش ہے۔
نبیﷺ نے ذی الخویصرہ علیہ لعنت کے بارے میں فرمایا :’’اس گستاخ کو قتل نہ کرو، اسکے اور بھی ساتھی ہیں جنکے نماز اور روزے کو دیکھ تم اپنی نماز اور روزوں کو حقیر سمجھوگے، یہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن انکے حلق سے نہ اتریگا اوریہ ایمان سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے‘‘ ۔ مولانا طارق جمیل ذی الخویصرہ کی روحانی اولاد پیداکررہاہے۔ مذہبی طبقے میں نماز پر اتنا زور اور زنا، رشوت، قتل اور شرک سمیت سب کو ہلکا کرنے کی کوشش بڑی گھناؤنی حرکت ہے۔ غیبت کو مردے بھائی کا گوشت اور زنا سے بدتر اسلئے کہا گیا کہ حقوق العباد کو معمولی نہ سمجھا جائے ، مذہبی لوگ ناسمجھ ہیں، حقوق العباد کی پامالی ان کو سراپا شیطان بنادے گی۔ تبلیغی جماعت، علماء کرام اور مفتیان عظام نوٹس لیں، یہ جرم جنیدجمشیدکے اس جرم سے خطرناک ہے جس سے مولاناطارق جمیل نے برأت کا اعلان کیا تھا، دیوبندی مکتبۂ فکر کے اکابر علماء میں اگر ایمانی قوت ہو تو اس پر اعلانیہ توبہ کی تلقین کروائیں۔ بہت سے لوگوں نے یہ خطاب سنا ہوگا اور اسکے علاوہ بھی یہ مذہبی اداکار کیا کچھ نہ کرتا ہوگا؟۔
نبیﷺ نے فرمایا : ’’جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی، اس نے کفر کیا‘‘ باقی ائمہ نے اس کو شدت پر محمول کیا لیکن حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ اس سے ترہیب مرادہے ، حقیقت نہیں۔ صحابہؓ سے فرمایاتھا کہ ’’ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ عشرہ مبشرہ اورصحابہؓ پر یہ کفر کا فتویٰ نہ لگایاگیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ ’’ جو حج کی استطاعت رکھتاہو وہ حج نہ کرے تو اس کی مرضی کہ یہود بن کر مرے یا نصرانی‘‘۔ جس پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کفر کا فتویٰ لگایاتھا۔ علماء نے ان کی تردید کردی کہ حج کا منکر کافر ہے مگر استعداد رکھنے کے باوجودحج نہ کرنے والا فاسق ہے کافر نہیں۔ فقہ سمجھ کا نام ہے ، حدیث پڑھنے یا مسائل رٹنے کوفقہ نہیں کہتے ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ ، امام شافعیؒ ، امام مالکؒ کے بارے میں کہا جاسکتاہے کہ نیک نیتی سے حدیث کو سمجھنے میں غلطی کی، مولانا مودودیؒ نے بھی اسی طرح سے سمجھ میں غلطی کی تھی مگر مولاناطارق جمیل نے ایسی جاہلانہ منطق کا جال بچھایا جس میں شیطانی قوتوں کی زبردست سرپرستی کا حق اداکردیاہے۔
رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں وحی کا سلسلہ موجود تھا، ایک خاتون نے ظہار کے مسئلہ پر مجادلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے خاتون کے حق میں ہی وحی نازل کی، سورۂ مجادلہ کی آیات دیکھ لی جائیں۔ رسول اللہﷺ کا کوئی جانشین ایسا نہیں، جس سے اختلاف کی گنجائش نہ ہو،جوپیروکاروں کو اختلاف نہیں کرنے دیتا وہ خلیفہ، عالم اور مذہبی پیشوا نہیں بلکہ دجال کے لشکر کا امام ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سے انکے شاگردوں نے اختلاف کیا، رسول اللہﷺ سے صحابہؓ کرام کا اختلاف رہا۔بدر کے قیدی، سورۂ مجادلہ،صلح حدیبیہ ، حدیث قرطاس وغیرہ کی مثالیں قرآن وسنت میں موجود ہیں۔ خلافت راشدہؓ میں بھی اختلاف جاری رہا۔ حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف جہاد کا فیصلہ کیا توحضرت عمرفاروق اعظمؓ نے اختلاف کیا، حضرت ابوبکرؓ نے بہرحال فیصلہ کیا تو صحابہؓ نے ویسے ساتھ دیا جیسے صلح حدیبیہ کے وقت نبیﷺ کا بادلِ نخواستہ ساتھ دیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے نبیﷺ سے حدیث قرطاس کے مسئلہ پر اختلاف کیا لیکن آخر میں اس تمنا کا اظہار فرمایا: ’’کاش! ہم نبیﷺ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھ لیتے۔1: نبیﷺ کے بعد خلافت کس کے پاس ہونی چاہیے 2:زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف قتال کرنا چاہیے یا نہیں،3: کلالہ کی میراث۔ رسول اللہﷺ کو زکوٰۃ لینے کا حکم تھا، جس میں مؤمنوں کے دل کو تسکین پہنچنے کی وضاحت تھی۔ جن لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا، وہ یہی مؤقف رکھتے تھے کہ ’’یہ حکم نبیﷺ کیساتھ خاص تھا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ سمجھاکہ خلیفۃ الرسول کی یہ ذمہ داری ہے کہ مالداروں سے غریبوں کے حقوق کو چھین کرلیا جائے۔ زکوٰۃ نہ دینے والوں میں مالک بن نویرہ بھی تھا جسکی خوبصورت بیگم سے اس وقت کے آرمی چیف نے شوہر کے قتل کے بعد شادی بھی رچالی۔ حضرت عمرؓ نے اس فعل پر حضرت خالد بن ولیدؓ کو سنگسار کرنے کی تجویز پیش کی لیکن حضرت ابوبکرؓ نے تنبیہ پر اکتفاء کیا اور فرمایا کہ ’’ خالدؓ ہماری ضرورت ہیں‘‘۔ ایک موقع پر نبیﷺ نے حضرت خالدؓ کو تنبیہ بھی نہیں فرمائی بلکہ صرف اپنی برأت کا اعلان فرمایا۔ بعض معاملات میں مصلحت کی شاذ ونادر مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غلطی سے قبطی کو قتل کیا تو خود کو سزا کیلئے پیش کرنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرلی مگریہ قاعدہ اور قانون نہیں اور نہ اس وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پیغمبروں کی فہرست سے خارج ہیں۔
صحابہ کرامؓ نے انتہائی مشکل حالات میں اقتدار کا مسند سنبھالا، ایمانداری سے نبھایا، حضرت داؤد علیہ السلام کا دل اپنے ایک مجاہد اوریا کی بیوی پر آیاتو اللہ نے تنبیہ کیلئے فرشتے بھیجے، قرآن میں 99دُنبیوں کے مقابلہ میں ایک دُنبی چھیننے کا ذکرہے، جس پر حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ سے مغفرت مانگی اور اللہ نے معاف کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے بعد ام ہانیؓ سے شادی کی خواہش ظاہر فرمائی مگر اس نے انکار کیا،اللہ نے فرمایاکہ ’’جن رشتہ داروں نے ہجرت نہیں کی ان سے نکاح نہ کریں‘‘ اور فرمایا کہ ’’ اب اسکے بعد کوئی شادی نہ کریں چاہے کوئی خاتون بھلی لگے‘‘۔ شادی کی خواہش فطری ہوتی ہے۔ انبیاء ؑ و صحابہؓ کے معاملے سے غلط منطقی نتائج نکالنا گمراہی ہے۔
حضرت علیؓ کی بہن ام ہانیؓ اولین مسلمانوں میں تھیں، ہجرت نہ کی تھی، شوہر مشرک تھا، مکہ فتح ہوا تو حضرت علیؓ نے اسکے شوہر کوقتل کرنا چاہا، نبیﷺ نے اسکی فرمائش پرامان دی، شوہر چھوڑکر چلاگیا، نبیﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے پہلے بھی ام ہانیؓ کا رشتہ حضرت ابوطالب سے مانگا تھا۔ اہل تشیع کا متشدد طبقہ اپنی علمی موشگافیوں سے بڑے غلط نتائج مرتب کرکے صحابہ کرامؓ کو نشانہ بناتاہے۔ حضرت علیؓ نے اپنے مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہاجس کا قصور بھی نہ تھااسلئے کہ وہ جائزوناجائز کے تصور سے ماوراء تھا۔ اہلسنت اہل تشیع کی طرح منطقی نتائج نہیں نکالتے بلکہ حسنِ ظن، درگزر اور چشم پوشی کرتے ہیں۔
اللہ نے قرآن میں فرمایاکہ ’’زانی نکاح نہیں کرتامگرزانیہ یا مشرکہ سے، اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی یا مشرک سے اور یہ مؤمنوں پر حرام کیا گیاہے‘‘۔ اہل تشیع بتائیں کہ حضرت ابوطالب نے اپنی مؤمنہ بیٹی حضرت ام ہانیؓ کا نکاح نبیﷺ کے بجائے مشرک سے کیوں کروادیا؟۔ اور وہ مؤمنہ ہوکر بھی مشرک کے نکاح میں کیوں رہیں؟۔ کیا نعوذباللہ من ذٰلک ہم قرآن کی آیت سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ وہ بدکار یا مشرکہ تھیں؟۔ ہم زندگی کے تمام پہلوؤں سے صرفِ نظر کرکے وثوق سے کہتے ہیں کہ حضرت ام ہانیؓ کا شمار ان دس خواتین میں ہوتاہے جن کو عشرہ مبشرہ کے دس مرد صحابہؓ کی طرح ان دس خواتین میں شمار کیا جاتاہے جن کی زندگی رسول اللہ ﷺ کے اردگرد رہی۔ اس پر باقاعدہ عربی میں کتاب بھی موجود ہے۔ معراج کا واقعہ بھی حضرت اُمّ ہانیؓ کے گھر میں ہواتھا، اسلام مخالف طبقات نے اعتراض کیا ہے کہ ’’ نبیﷺ کا وہاں کیا کام تھا، کیوں رات گزاری؟‘‘۔ ڈاکٹر شکیل اوج شہیدؒ نے بتایاکہ میں نے جواب دیا کہ ’’امّ ہانیؓ آپ ﷺ کی دودھ شریک بہن تھیں‘‘۔ حالانکہ یہ قرآن وسنت کی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ نبیﷺ کو ایک انقلابی کی حیثیت سے جن خطرات کا سامناتھا، ایک انقلابی اپنی زندگی کو بچانے کیلئے جو طرزِ عمل اپناتاہے، رات رشتہ داروں کے ہاں چھپتاہے ، یہ وہی جانتاہے جس سے اس قسم کے حالات اور واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
رسول اللہﷺ کا رشتہ مانگ لینا ہی اسکے مؤمنہ ہونے کا ثبوت ہے، آپؓ نے بچوں کی خاطر رشتے سے انکار کیا تو رسول اللہﷺ نے اس کی تعریف کی، جب ابوسفیانؓ نے اسلام قبول کیا تو حضرت عمرؓ نے اس خواہش کااظہارفرمایا کہ نبیﷺ تک پہنچنے سے پہلے ہاتھ لگ جاتا اور اس کوحالت کفرمیں ماردیتا۔ اگر علیؓ اُمّ ہانیؓ کا شوہر قتل کرتا تو نبیﷺ بدلہ نہ لیتے مگر اس وجہ سے اسلام کے اجتماعی نظام عدل پر تہمت نہیں لگائی جاسکتی تھی۔اللہ نے کبائرگناہ اور فواحش سے اجتناب کی صفت کیساتھ قرآن میں بھی اضطراری طورکا استثناء رکھاہے۔
رسول اللہﷺ نے ام ہانیؓ کے شوہرکو درست پناہ دی، اللہ نے خواتین کو ہجرت کے بعد انکے شوہروں کو لوٹانا ناجائز اسلئے قرار دیاکہ شوہروں کی طرف سے تشدد کا خدشہ تھا۔ لاھن حل لھم ولاھم یحلون لھم’’وہ عورتیں ان شوہروں کیلئے حلال نہیں اور نہ وہ شوہر ان کیلئے حلال ہیں‘‘۔ ام ہانیؓنے ہجرت نہیں کی تھی،اسلئے آیت کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا تھا،اور حلال نہ ہونے سے مراد شرعی حلت و حرمت کا تصور بھی نہیں تھا بلکہ لغت وزبان میں جس پر بدترین تشدد متوقع ہو،اس کیلئے بھی یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
حضرت ام ہانیؓ سے رشتہ مانگنا ہی مؤمنہ ہونے کیلئے کافی بڑی سند ہے،تو سبقت لے جانیوالے مہاجرؓ و انصارؓ کیلئے رضی اللہ عنہم ورضوعنہ زیادہ بڑی سند ہے۔اہل سنت واہل تشیع کی غلط فہمیاں دور کرنا ضروری ہے۔
مذہبی طبقات کی مثال نسوار، حقہ، چرس، افیون،بھنگ، ہیروئن، کوکین، شیشہ اور اقسام وانواع کے موالیوں کی طرح ہے، جو جس ماحول میں رہا، اس کووہ لت لگ گئی۔ منشیات فروش بدمعاش بھی پالتے ہیں اور قتل وغارتگری سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مذہبی طبقوں کی لڑائی بھی کاروباری مجبوری ہے۔ اب تویہ حال ہے کہ دوسرے فرقہ والے اپنا مذہب بھی تبدیل کرنا چاہیں تو چاہت یہی ہوگی کہ وہ جوں کے توں رہیں تاکہ اسی سے اپنا کاروبار چلے۔
رسول ﷺ کو جس نے زکوٰۃ نہ دی تو اس کیخلاف قتال نہ کیا، چاروں امام متفق تھے کہ زکوٰۃ نہ دینے پر قتال نہیں۔ امام مالکؒ و امام شافعیؒ نے نماز پر قتل کا حکم دیا۔ یوں اسلام اجنبی بنتا چلاگیا اور آج مولانا طارق جمیل کے وعظ ہیں یاعلامہ ضمیر نقوی کے جو پاکستان کو بھارت کی گاؤ ماتا کے مقابلہ میں ذوالجناح کی عطا قرار دیتاہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام معجزات کے باوجود مظلوم تھے مگر مظلوم خدا نہیں ہوتا، نصاریٰ کا عقیدہ درست ہورہاہے، حضرت علیؓکو مظلوم ہی سمجھنے میں عقیدہ سلامت ہے اور قتل سے زیادہ گالی بری نہیں۔عتق گیلا نی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ